غزل - بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے - پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی

محمد وارث

لائبریرین
بلا سے کوئی ہاتھ ملتا رہے
ترا حسن سانچے میں ڈھلتا رہے

ہر اک دل میں چمکے محبت کا داغ
یہ سکّہ زمانے میں چلتا رہے

ہو ہمدرد کیا جس کی ہر بات میں
شکایت کا پہلو نکلتا رہے

بدل جائے خود بھی تو حیرت ہے کیا
جو ہر روز وعدے بدلتا رہے

مری بے قراری پہ کہتے ہیں وہ
نکلتا ہے دم تو نکلتا رہے

پلائی ہے ساقی جو آنکھوں سے آج
اسی کا بس اب دور چلتا رہے

تمھیں ہم سحابِ کرم بھی کہیں
امیدوں کا خرمن بھی جلتا رہے

یہ طولِ سفر یہ نشیب و فراز
مسافر کہاں تک سنبھلتا رہے

کوئی جوہری جوش ہو یا نہ ہو
سخنور جواھر اگلتا رہے


(پنڈت لبھو رام جوش ملسیانی)
 

فاتح

لائبریرین
شکریہ وارث صاحب!
یہ مصرع پڑھ کر تو میں سمجھا تھا کہ فرخ صاحب نے ارسال کی ہے یہ غزل
سخنور جواھر اگلتا رہے
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب اور فاتح صاحب۔

اور فاتح صاحب، میں اسی محفل میں یہ مقطع اپنے فرخ صاحب کی نذر کر چکا ہوں، شاید 'انہیں' یاد ہو کہ نہ یاد ہو :)
 
Top