غزل برائے اصلاح: جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا

akhtarwaseem

محفلین
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن

جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
میں دشمنوں کے درمیاں بھی حوصلے میں تھا

ایسا نہیں کہ بس وہی مسمار ہو گیا
میرا تمام جسم بھی تو زلزلے میں تھا

ہم دوریوں کے بعد بھی تنہا نہیں ہوئے
اک قربتوں کا ذائقہ سا فاصلے میں تھا

جس پر سبھی یقیں کریں کہ رہنما ہے وہ
ایسا کوئی بھی شخص کہاں قافلے میں تھا

میں سوچتا ہوں گر تِری آنکھیں سپاٹ تھیں
تو پھر نظر سے رابطہ کس سلسلے میں تھا!

میں تو بیان کر بھی گیا مشکلیں سبھی
تیرا دھیان اور کسی مسئلے میں تھا

ہنستے ہوئے جُدا ہوا یہ بات ہے الگ
کس کو خبر جو کرب مرے فیصلے میں تھا
------------------------------------------
تیسرے شعر کا متبادل یہ بھی ہو سکتا ہے

بس یہ نہیں کہ دُوریاں برباد کر گئیں
کچھ قُربتوں کا زائقہ بھی فاصلے میں تھا
------------------------------------------
چوتھے شعر میں آنکھوں کو سپاٹ کہا گیا ہے
کیا یہ مناسب رہے گا؟ مجھے اس معنی میں
کوئی اور ہم وزن لفظ نہیں مل سکا۔
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کے قوافی میں مسئلہ ہے۔ 'لے' سے پہلے کے حروف کہیں مفتوح ہیں اور کہیں مکسور، مرحلے، مسئَلےزلزَلے میں زبر ہے
سلسلے، قافلے وغیرہ میں زیر/کسرہ ہے
اگر اس سے صرف نظر کیا جائے تب بھی
جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
میں دشمنوں کے درمیاں بھی حوصلے میں تھا
... درمیاں کا 'اں' کا اسقاط اچھا نہیں، 'بیچ' شاید بہتر ہو
میں دشمنوں کے بیچ، مگر حوصلے....
مثلاً

ایسا نہیں کہ بس وہی مسمار ہو گیا
میرا تمام جسم بھی تو زلزلے میں تھا
... مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے

ہم دوریوں کے بعد بھی تنہا نہیں ہوئے
اک قربتوں کا ذائقہ سا فاصلے میں تھا
... ذائقہ؟ شاید' شائبہ' بہتر ہو، اک کی بہ نسبت 'کچھ' بہتر ہے

جس پر سبھی یقیں کریں کہ رہنما ہے وہ
ایسا کوئی بھی شخص کہاں قافلے میں تھا
..' کہ' دو حرفی استعمال اچھا نہیں لگ رہا،

میں سوچتا ہوں گر تِری آنکھیں سپاٹ تھیں
تو پھر نظر سے رابطہ کس سلسلے میں تھا!
... سپاٹ کے بہتر متبادل مل سکتے ہیں، غور کرو، جیسے جذبات/پہچان سے عاری،
یا 'چمک نہ تھی' سے کوشش کریں

میں تو بیان کر بھی گیا مشکلیں سبھی
تیرا دھیان اور کسی مسئلے میں تھا
... دھیان، محض 'دان' باندھا جاتا ہے

ہنستے ہوئے جُدا ہوا یہ بات ہے الگ
کس کو خبر جو کرب مرے فیصلے میں تھا
.. درست

،
 

akhtarwaseem

محفلین
اس غزل کے قوافی میں مسئلہ ہے۔ 'لے' سے پہلے کے حروف کہیں مفتوح ہیں اور کہیں مکسور، مرحلے، مسئَلےزلزَلے میں زبر ہے
سلسلے، قافلے وغیرہ میں زیر/کسرہ ہے
اگر اس سے صرف نظر کیا جائے تب بھی
جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
میں دشمنوں کے درمیاں بھی حوصلے میں تھا
... درمیاں کا 'اں' کا اسقاط اچھا نہیں، 'بیچ' شاید بہتر ہو
میں دشمنوں کے بیچ، مگر حوصلے....
مثلاً

ایسا نہیں کہ بس وہی مسمار ہو گیا
میرا تمام جسم بھی تو زلزلے میں تھا
... مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے

ہم دوریوں کے بعد بھی تنہا نہیں ہوئے
اک قربتوں کا ذائقہ سا فاصلے میں تھا
... ذائقہ؟ شاید' شائبہ' بہتر ہو، اک کی بہ نسبت 'کچھ' بہتر ہے

جس پر سبھی یقیں کریں کہ رہنما ہے وہ
ایسا کوئی بھی شخص کہاں قافلے میں تھا
..' کہ' دو حرفی استعمال اچھا نہیں لگ رہا،

میں سوچتا ہوں گر تِری آنکھیں سپاٹ تھیں
تو پھر نظر سے رابطہ کس سلسلے میں تھا!
... سپاٹ کے بہتر متبادل مل سکتے ہیں، غور کرو، جیسے جذبات/پہچان سے عاری،
یا 'چمک نہ تھی' سے کوشش کریں

میں تو بیان کر بھی گیا مشکلیں سبھی
تیرا دھیان اور کسی مسئلے میں تھا
... دھیان، محض 'دان' باندھا جاتا ہے

ہنستے ہوئے جُدا ہوا یہ بات ہے الگ
کس کو خبر جو کرب مرے فیصلے میں تھا
.. درست

،

ہر نئی غزل کے ساتھ نئی غلطیاں سامنے آتی ہیں اور ہر
غلطی کے ساتھ سیکھنے کے لیئے ایک نیا سبق۔ سوچتا ہوں
روز ایک غزل پوسٹ کیا کروں تاکہ یہ سلسلہ سبک رفتاری
سے جاری رہے۔

قوافی سے متعلق جو نقطہ آپ نے بیان فرمایا، مجھے اُس
کا بلکل علم نہیں تھا، آیندہ خیال رہے گا انشاٴاللہ۔ باقی اشعار
کے بارے آپ نے جن مسائل کا زکر کیا، اُن کا سدباب کر
کے پھر سے آپ کی خدمت میں حاضری دوں گا انشاْاللہ۔

آپ کے وقت اور توجہ کے لیئے بے حد شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
بہتر یوں ہو کہ اصلاح سخن کا پورا سیکشن ہی پڑھ ڈالیں، امید ہے کہ کئی باتیں بار بار کہی گئی ہیں، میری اور دوسرے احباب کی طرف سے بھی۔ بار بار پرھنے پر شاید ذہن میں اتر جائیں۔ میں تو سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ اصلاح سخن میں میرے مشوروں کو کم از کم کاپی پیسٹ کر کے کتاب ترتیب دے لوں مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ کاش اس فورم کا کوئی فعال رکن یہ کارنامہ انجام دے سکے
 

akhtarwaseem

محفلین
بہتر یوں ہو کہ اصلاح سخن کا پورا سیکشن ہی پڑھ ڈالیں، امید ہے کہ کئی باتیں بار بار کہی گئی ہیں، میری اور دوسرے احباب کی طرف سے بھی۔ بار بار پرھنے پر شاید ذہن میں اتر جائیں۔ میں تو سنجیدگی سے سوچ رہا ہوں کہ اصلاح سخن میں میرے مشوروں کو کم از کم کاپی پیسٹ کر کے کتاب ترتیب دے لوں مگر یہ ممکن نہ ہو سکا۔ کاش اس فورم کا کوئی فعال رکن یہ کارنامہ انجام دے سکے

سر بلکل اِسی طرح ہے، میں آپ کی جانب سے اُٹھائے جانے والے تمام نقاط، جو کہ مختلف تھریڈز میں سامنے آتے ہیں، کو پڑھتا ہوں تاکہ میرے علم میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو، اِس کے علاوہ فورم پہ موجود دیگر مواد بھی زیر مطالعہ رہتا ہے۔ میں اِس بات سے اتفاق کرتا ہوں کے اگر آپ کے بیان کردہ تمام کمینٹس کو یکجا کر دیا جائے تو یہ نئے سیکھنے والوں کے لیئے بےحد مفید ہو گا۔

اِس کے علاوہ میری ایک اور گذارش بھی ہے، سر اگر اِسی فورم پہ ایک سوال و جواب کا تھریڈ شروع کر کے اُسے پہلے صفحے پہ منجمند کر دیا جائے تو نئے لکھنے والوں کے ازہان میں جو کئی طرح کے سوالات پیدا ہوتے ہیں، وہ اُس تھریڈ میں آپ اور آپ کے معاونین کے سامنے رکھے جا سکتے ہیں۔ اِس طرح ایک انتہائی اہم علمی گفتگو ایک ہی جگہ اکٹھی ہو سکے گی اور تمام نووارد اُس سوال و جواب کی نشست سے فائدہ اُٹھا سکیں گے۔ اِس بارے آپ کا کیا خیال ہے؟
 

akhtarwaseem

محفلین
الف عین
الف عین

سر کچھ ردوبدل کے بعد غزل پھر سے حاضر ہے

جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
میں دشمنوں کے بیچ بہت حوصلے میں تھا

میرا مکاں تو گِر گیا، تیرا بچا رہا
حالانکہ تیرا گھر بھی اُسی زلزلے میں تھا

ہم دوریوں کے بعد بھی تنہا نہیں ہوئے
کچھ قربتوں کا شائبہ سا فاصلے میں تھا

جس کو سمجھ کے رہنما ہر اک کرے یقیں
ایسا کوئی بھی شخص کہاں قافلے میں تھا

میں سوچتا ہوں گر تجھے کہنا نہیں تھا کچھ
تو پھر نظر سے رابطہ کس سلسلے میں تھا!

رُوداد تُو نے گرچہ مری غور سے سُنی
پر دھیان تیرا اور کسی مسئلے میں تھا

ہنستے ہوئے جُدا ہوا یہ بات ہے الگ
کس کو خبر جو کرب مرے فیصلے میں تھا
--------------------------------------------
 

الف عین

لائبریرین
قافیے کی غلطی پر تو اب بھی غور نہیں کیا گیا۔
بہر حال
جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
میں دشمنوں کے بیچ بہت حوصلے میں تھا
.... درست

میرا مکاں تو گِر گیا، تیرا بچا رہا
حالانکہ تیرا گھر بھی اُسی زلزلے میں تھا
.... بعد میں یہ خیال آیا کہ زلزلے میں نہیں، زلزلے کے اثر میں کوئی گھر ہو سکتا ہے، لیکن ردیف ہی 'میں' ہے۔

ہم دوریوں کے بعد بھی تنہا نہیں ہوئے
کچھ قربتوں کا شائبہ سا فاصلے میں تھا
.. درست

جس کو سمجھ کے رہنما ہر اک کرے یقیں
ایسا کوئی بھی شخص کہاں قافلے میں تھا
... اک کرے.. میں تنافر ہے اور روانی متاثر ہے
جس کو بطور رہنما سب ہی کریں قبول
ایک مشورہ

میں سوچتا ہوں گر تجھے کہنا نہیں تھا کچھ
تو پھر نظر سے رابطہ کس سلسلے میں تھا!
.. ٹھیک، گر کی جگہ 'جب' رکھا جائے تو کیا رواں صورت لگتی ہے؟ یا
میں سوچتا ہوں تجھ کو جو کہنا نہیں تھا کچھ

رُوداد تُو نے گرچہ مری غور سے سُنی
پر دھیان تیرا اور کسی مسئلے میں تھا
... دھیان کے ساتھ بھی 'پر' استعمال ہوتا ہے، 'میں' گرامر کے خلاف ہے

ہنستے ہوئے جُدا ہوا یہ بات ہے الگ
کس کو خبر جو کرب مرے فیصلے میں تھا
---------------------- درست
 

akhtarwaseem

محفلین
میرا مکاں تو گِر گیا، تیرا بچا رہا
حالانکہ تیرا گھر بھی اُسی زلزلے میں تھا
.... بعد میں یہ خیال آیا کہ زلزلے میں نہیں، زلزلے کے اثر میں کوئی گھر ہو سکتا ہے، لیکن ردیف ہی 'میں' ہے۔

"زلزلے کی زد" میں کہنا مقصود تھا، لیکن نا تو مصرے میں گنجائش تھی اور نا ردیف میں ۔ استعارتاْ ایک بات کر دی ہے، اُمید ہے سمجھنے والا سمجھ جائے گا۔

جس کو سمجھ کے رہنما ہر اک کرے یقیں
ایسا کوئی بھی شخص کہاں قافلے میں تھا
... اک کرے.. میں تنافر ہے اور روانی متاثر ہے
جس کو بطور رہنما سب ہی کریں قبول
ایک مشورہ

بہت بہتر سر


میں سوچتا ہوں گر تجھے کہنا نہیں تھا کچھ
تو پھر نظر سے رابطہ کس سلسلے میں تھا!
.. ٹھیک، گر کی جگہ 'جب' رکھا جائے تو کیا رواں صورت لگتی ہے؟ یا
میں سوچتا ہوں تجھ کو جو کہنا نہیں تھا کچھ

سر "جب" بہت بہتر لگ رہا ہے یہاں۔


رُوداد تُو نے گرچہ مری غور سے سُنی
پر دھیان تیرا اور کسی مسئلے میں تھا
... دھیان کے ساتھ بھی 'پر' استعمال ہوتا ہے، 'میں' گرامر کے خلاف ہے

"زلزلے" کی طرح یہاں بھی ردیف کی وجہ سے بیان میں جھول آ گیا۔ آئیندہ ردیف طے کرتے ہوئے دیکھنا ہو گا کے گرامر کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہے۔
 

akhtarwaseem

محفلین
قافیے کی غلطی پر تو اب بھی غور نہیں کیا گیا۔

یہ بہت اہم نقطہ ہے اور اِس بارے میں آپ سے مزید رہنمائی کا خواہاں ہوں۔ قوافی میں مفتوح اور مکسور کے معاملات کو کس حد تک پذیرائی دینی ہے اِس پہ آپ کی رائے درکار ہے۔ اگر مفتوح اور مکسور کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے تو کیا فراوانی کے اعتبار سے قوافی کے باب میں ہاتھ تنگ نہیں ہو جائے گا؟ اگر ہم موجودہ غزل کی ہی مثال لے لیں، تو میرا گمان یہ ہے کہ یہ غزل کہی ہی نہیں جا سکتی تھی اگر مفتوح اور مکسور کی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔ آپ کے نزدیک اِس سلسلے میں ایک لکھاری کو کس حد تک چھوٹ دی جا سکتی ہے؟

زیرِ نظر غزل ٹویٹر سے حاصل کی گئی ہے۔ اِس غزل میں بھی قوافی میں مفتوح اور مکسور کے مسائل نظر آ رہے ہیں، کم از کم مجھے تو شک گزر رہا ہے، براہِ مہربانی آپ فرمائے گا کیا میرا شک دُرست ہے؟ اور اگر میرا شک دُرست ہے تو اِس صورت میں اِس غزل کی قبولیت کے کیا امکانات ہوں گے؟

ESGdxm5XsAA6Tvj
 

الف عین

لائبریرین
یہ بہت اہم نقطہ ہے اور اِس بارے میں آپ سے مزید رہنمائی کا خواہاں ہوں۔ قوافی میں مفتوح اور مکسور کے معاملات کو کس حد تک پذیرائی دینی ہے اِس پہ آپ کی رائے درکار ہے۔ اگر مفتوح اور مکسور کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے تو کیا فراوانی کے اعتبار سے قوافی کے باب میں ہاتھ تنگ نہیں ہو جائے گا؟ اگر ہم موجودہ غزل کی ہی مثال لے لیں، تو میرا گمان یہ ہے کہ یہ غزل کہی ہی نہیں جا سکتی تھی اگر مفتوح اور مکسور کی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔ آپ کے نزدیک اِس سلسلے میں ایک لکھاری کو کس حد تک چھوٹ دی جا سکتی ہے؟

زیرِ نظر غزل ٹویٹر سے حاصل کی گئی ہے۔ اِس غزل میں بھی قوافی میں مفتوح اور مکسور کے مسائل نظر آ رہے ہیں، کم از کم مجھے تو شک گزر رہا ہے، براہِ مہربانی آپ فرمائے گا کیا میرا شک دُرست ہے؟ اور اگر میرا شک دُرست ہے تو اِس صورت میں اِس غزل کی قبولیت کے کیا امکانات ہوں گے؟

ESGdxm5XsAA6Tvj
نہیں، تصویر والی غزل کے قوافی بالکل درست ہیں، مشترک حرف صرف آ ہے، جس سے پہلے حرف کی حرکت کا سوال ہی نہیں اٹھتا! لیکن تمہاری غزل میں مشترک لے ہو، جس سے ما قبل حرف قافلے میں ف مکسور ہے، اور زلزلے میں زَ مفتوح۔ زبردستی کرنی یو تو اس کی اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے؟ میں کون ہوتا ہوں اجازت دینے والا؟ غلطی تو علطی قائم رہے گی!
 
وسیم اختر صاحب، آپ زیادہ ہی پریشان ہوں رہے ہیں :)
اردو شاعری کے ذخیرے میں بلامبالغہ کئی لاکھ اشعار ہوں گے، جن کی زیادہ تعداد انہی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے کہی گئی ہے۔ اگر میر کے زمانے سے بھی حساب کریں دو ڈھائی سو سال میں جب شعرا کا دامن تنگ نہیں ہوا تو اب کیونکر ہوجائے گا؟ :)
بہتر یہ ہے کہ آپ ایک بار علم قافیہ کی مبادیات کا تسلی سے مطالعہ کرلیں۔ ہمارے استاذ جناب سرور عالم رازؔ صاحب کی ویب سائٹ پر کافی مواد دستیاب ہے، جو نہایت عام فہم زبان میں ہے۔
Sarwar Raz
جب بنیادی نکات ایک بار ذہن نشین ہوجائیں گے تو مستقبل میں ایسی الجھنوں کا زیادہ سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
 
پیش کردہ غزل کے حوالے سے ایک وضاحت کرتا چلوں۔
شاعر نے مطلع میں ہی اپنی ’’سیفٹی‘‘ کا انتظام کرلیا ہے، وہ اسطرح کہ چارہ کے آدھا کو قافیہ لیا ہے۔ گویا اصل ’’قوافی‘‘ تو ’’را، دھا، نا، کا، دا، یا‘‘ ہیں جن کے ہم آواز ہونے میں کوئی شبہ نہیں، نہ ہی ان کے حرکات میں کوئی تردد ہے کیوں کہ سب ہی ایک طرح سے فتح سے شروع ہورہی ہیں۔
اگر شاعر نے مطلع میں چارہ کے ساتھ خسارہ، یا ہمارا وغیرہ کی طرز پر قافیہ قائم کیا ہوتا تو پھر اس پر دیگر اشعار میں بھی اسی طرز کی پابندی لازم ہوتی، کیوں کہ اب روی ’’آرا‘‘ ہوگیا۔ سو اب باقی اشعار میں سہارا، کنارا، اشارہ وغیرہ ہی بطور قوافی لائے جاسکتے ہیں۔
 

akhtarwaseem

محفلین
الف عین
@محمّد احسن سمیع :راحل:


جانے میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
میں دشمنوں کے بیچ بہت ولولے میں تھا

میرا مکاں تو گِر گیا، تیرا بچا رہا
حالانکہ تیرا گھر بھی اُسی زلزلے میں تھا

رُوداد تُو نے گرچہ مری غور سے سُنی
پر دھیان تیرا اور کسی مسئلے میں تھا

دل بھر گیا تو چھوڑ کے چلتا بنا مجھے
گویا مرا شمار کسی مشغلے میں تھا

وہ میری دسترس میں کبھی تھا، کبھی نہیں
اک شوخ پن عجیب سا اُس منچلے میں تھا

بیٹھا رہا فراق میں خود کو سنبھال کر
سارے جہاں کا صبر اِسی دل جلے میں تھا
 
قوافی کا سقم تو اب غالبا دور ہوگیا ہے۔ آپ نے دیکھا کہ ذرا سی توجہ سے بنا ہاتھ تنگ ہوئے ۶ اشعار کی غزل ہوگئی!
’’ولولے میں تھا‘‘ محلِ نظر ہو سکتا ہے، تاہم ردیف کی بندش کے سبب شاید چل جائے۔ اصولاً تو ولولہ ایک داخلی کیفیت ہے جو انسان کے اندر ہوتی ہے۔ بہر حال، میں اس کو جوش پر قیاس کرلیتا ہوں!
یہ بھی ممکن ہے کہ میں ہی غلط خط پر سوچ رہا ہوں۔
مطلع کی بابت ایک تجویز ہے۔ الفاظ کو ذرا سا بدل کر دیکھیں۔ مثلاً
دیکھو! میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
تھا دشمنوں کے بیچ مگر ولولے میں تھا

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
اب کافی حد تک درست ہو گئی ہے غزل، بس مسئلہ مجھے انہیں شعروں میں لگ رہا ہے جن کو گرامر کے خلاف کہہ چکا ہوں
 

شکیب

محفلین
یہ ہاتھ کی تنگی سے نمٹنے کے لیے مطلع میں ایک آزاد قافیہ گھسیڑنا پڑتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے مطلع میں "مرحلے" کے ساتھ "راستے" وغیرہ استعمال کرتے تو قافیے کی بنیاد "اے" کی آواز ہوتی۔

چچا جان الف عین نے اس متعلق پہلے بھی کئی جگہوں پر لکھا ہے، تلاش کیجیے۔
 

akhtarwaseem

محفلین
مطلع کی بابت ایک تجویز ہے۔ الفاظ کو ذرا سا بدل کر دیکھیں۔ مثلاً
دیکھو! میں اعتماد کے کس مرحلے میں تھا
تھا دشمنوں کے بیچ مگر ولولے میں تھا
راحلؔ

احسن بھائی ایسا ہی ایک مطلع میں نے بھی جوڑا تھا، لیکن پھر ترک کر دیا اُسے۔
اب چونکہ آپ نے بھی کچھ ویسی ہی بات کی ہے تو مجھے آپ سے ایک سوال کرنے کا موقع مل گیا۔
مصرعہ اولی کا اختتام اور مصرعہ ثانی کی ابتدا اور اختتام لفظ "تھا" پر ہو رہا ہے۔ مجھے لگا کہ "تھا" کا تین بار آس پاس استمال شاید پسند نہ کیا جائے۔
براہَ مہربانی آپ فرمائے گا اَس طرح "تھا" کے استمال میں کوئی مضائقہ تو نہیں؟
 

akhtarwaseem

محفلین
اب کافی حد تک درست ہو گئی ہے غزل، بس مسئلہ مجھے انہیں شعروں میں لگ رہا ہے جن کو گرامر کے خلاف کہہ چکا ہوں

سر غالبأ آپ نے دو اشعار کی طرف اشارہ فرمایا تھا کہ وہ گرامر سے متصادم ہیں۔
اُن کی جگہ یہ دو اشعار جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کی توجہ درکار ہے:

تُو شاد ہے کہ گِر گیا میرا تمام گھر
لگتا ہے تیرا ہاتھ بھی اِس زلزلے میں تھا

میں دوں اُسے شکست مگر دُکھ اُسے نہ ہو
اک مخمصہ عجیب مرے مسئلے میں تھا
---------------------------
 

akhtarwaseem

محفلین
یہ ہاتھ کی تنگی سے نمٹنے کے لیے مطلع میں ایک آزاد قافیہ گھسیڑنا پڑتا ہے۔ مثلاً اگر آپ نے مطلع میں "مرحلے" کے ساتھ "راستے" وغیرہ استعمال کرتے تو قافیے کی بنیاد "اے" کی آواز ہوتی۔

چچا جان الف عین نے اس متعلق پہلے بھی کئی جگہوں پر لکھا ہے، تلاش کیجیے۔

آپ دُرست کہہ رہے ہیں، لیکن اِس غلطی کی وجہ سے کچھ نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں، لہذا گھاٹے کا سودا تو نا ہوا :)
 
احسن بھائی ایسا ہی ایک مطلع میں نے بھی جوڑا تھا، لیکن پھر ترک کر دیا اُسے۔
اب چونکہ آپ نے بھی کچھ ویسی ہی بات کی ہے تو مجھے آپ سے ایک سوال کرنے کا موقع مل گیا۔
مصرعہ اولی کا اختتام اور مصرعہ ثانی کی ابتدا اور اختتام لفظ "تھا" پر ہو رہا ہے۔ مجھے لگا کہ "تھا" کا تین بار آس پاس استمال شاید پسند نہ کیا جائے۔
براہَ مہربانی آپ فرمائے گا اَس طرح "تھا" کے استمال میں کوئی مضائقہ تو نہیں؟
مجھے ذاتی طور پر تو کوئی مسئلہ نہیں لگتا، اساتذہ کی رائے بہرحال مقدم ہے۔
 
Top