غزل۔ نہیں زمیں پہ کسی کا بھی اعتبار مجھے ۔اختر عثمان

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
نہیں زمیں پہ کسی کا بھی اعتبار مجھے
کہا تھا کس نے کہ افلاک سے اتار مجھے

بہ سطحِ کوزہ گرِ دہر چیختا ہے کوئی
میں جیسے حال میں ہوں چاک سے اتار مجھے

بس ایک دن کے لئے تو مری جگہ آ جا
بس ایک دن کے لئے سونپ اختیار مجھے

تجھے کہا تھا کہ لو دے اٹھے گی لاش مری
تجھے کہا تھا کہ تو روشنی میں مار مجھے

تری صدا کے پلٹنے سے قبل پہنچوں گا
تو ایک بار بہ جذبِ جنوں پکار مجھے

کبھی تو ماں کی طرح ٹوٹ کر ملے اختر
کبھی تو دوڑ کے سینے لگائے دار مجھے

اختر عثمان
 

ظفری

لائبریرین
بہت خوب خرم ۔۔۔۔ بہت اچھی غزل ارسال کی ۔ شکریہ

کبھی تو ماں کی طرح ٹوٹ کر ملے اختر
کبھی تو دوڑ کے سینے لگائے دار مجھے
 

فرخ منظور

لائبریرین
اختر عثمان صاحب کی یہ شاید کافی پرانی غزل ہے۔ حالیہ اختر عثمان اپنی ان غزلوں سے بہت آگے ہے۔ بہت شکریہ خرّم
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی اس "لاجک" یا بقول ایک ستم ظریف کے "من تکی بات" کو مان لیا جائے تو غالب کی اسد تخلص کے ساتھ ساری کی ساری خوبصورت غزلیں فقط سوختنی ہیں ;)
 

فرخ منظور

لائبریرین
آپ کی اس "لاجک" یا بقول ایک ستم ظریف کے "من تکی بات" کو مان لیا جائے تو غالب کی اسد تخلص کے ساتھ ساری کی ساری خوبصورت غزلیں فقط سوختنی ہیں ;)

یہ بھی آپ کی "من تکی بات" ہے۔ ورنہ غالب کے کلام میں تب بھی مزا تھا۔ :)
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
انتہائی خوبصورت غزل ہے اختر عثمان صاحب کی، لاجواب۔

بہت شکریہ خرم شیئر کرنے کیلیے۔

بہت شکریہ سر جی
اختر عثمان صاحب، نوید صادق صاحب کے بہت اچھے دوست ہیں بہت اچھے شاعر اور بہت اچھے نقاد ہیں انٹر نیٹ پر ان کا کلام بہت کم ہی نظر آتا ہے اب کے پاکستان گیا تو ان کی کتاب لے کر آؤں گا اور اس سے ان کا انتخاب یہاں پیش کروں گا ویسے نوید صادق صاحب نے بھی پیش کیا ہو اہے یہاں کچھ کلام بہت شکریہ
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
اختر عثمان صاحب کی یہ شاید کافی پرانی غزل ہے۔ حالیہ اختر عثمان اپنی ان غزلوں سے بہت آگے ہے۔ بہت شکریہ خرّم

بے شک آپ نے ٹھیک فرمایا آپ اس کو پڑھ کر بتائیں یہ بھی پُرانی ہی غزل ہے ان کی



صدائے صورِ اسرافیل کا غم کھا گیا ہے
ہمیں اپنی عدم تکمیل کا غم کھا گیا ہے

غمِ ابلاغ میں ہم لوگ آدھے رہ گئے ہیں
مکمل سوچ کی ترسیل کا غم کھا گیا ہے

بہ سطحِ چرخِ کوزہ گر تڑپتا ہے جو پیکر
اسے محرومیِ تشکیل کا غم کھا گیا ہے

ہمارے دکھ پہ وہ رویا تو یوں سمجھو کہ گویا
کوئی قابیل تھا، ہابیل کا غم کھا گیا ہے

جنوں کب تک ڈھلے گا بوند بوند اختر غزل میں
اسی پیرایہءِ تنزیل کا غم کھا گیا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
اختر عثمان صاحب کے کچھ تازہ اشعار۔

جب دور ہیں تجھ سے تو یہ افتاد بھی آئے
طوفانِ شبِ دشت میں تو یاد بھی آئے
حیران ہیں اس بات پر انبوہِ اسیراں
پر کھلنے کی تقریب میں صیاد بھی آئے
اک ہُو کہ بغل گیر ہوئی دشت میں ہم سے
جیسے یہاں پہلے کبھی اجداد بھی آئے


 
Top