فراز غزل۔ دوست جب ٹھہرے چمن کے دشمنِ جانِ بہار

فرحت کیانی

لائبریرین
دوست جب ٹھہرے چمن کے دشمنِ جانِ بہار
زخم دکھلائیں کسے پھر سینہ چاکانِ بہار

نشۂ احساسِ خوش وقتی نے اندھا کر دیا
برق بھی چمکی تو ہم سمجھے چراغانِ بہار

خون رُلواتے ہیں سب کو اپنے اپنے تجربے
وہ پشیمانِ خزاں ہوں یا پشیمانِ بہار

اب کے کچھ ایسی ہی بن آئی کہ ہم معذور ہیں
ورنہ کب پھیرا تھا ہم نے کوئی فرمانِ بہار

اے خوشا عہدِ خزاں جب نغمہ پَیرائی تو تھی
اب تو سُرمہ در گلو ہیں خوشنوایانِ بہار

گر یونہی بادِ صبا اٹھکیلیاں کرتی پھری
شعلۂ گُل سے بھڑک اُٹھے گا دامانِ بہار

کب ہُوئے دل تنگ ہم زنداں میں رہ کر بھی فراز
ہاں مگر جب آ گئی ہے یادِ یارانِ بہار

احمد فراز
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فرحت خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے۔

نشۂ احساسِ خوش وقتی نے اندھا کر دیا
برق بھی چمکی تو ہم سمجھے چراغانِ بہار

اب کے کچھ ایسی ہی بن آئی کہ ہم معذور ہیں
ورنہ کب پھیرا تھا ہم نے کوئی فرمانِ بہار

کب ہُوئے دل تنگ ہم زنداں میں رہ کر بھی فراز
ہاں مگر جب آ گئی ہے یادِ یارانِ بہار

واہ واہ لاجواب!
 
Top