غامدی نے ناموس رسالت قانون کو خلاف اسلام قرار دے دیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فخرنوید

محفلین
ناموس رسول کی غیرت ہر سچے مسلمان کو ہوتی ہے - یہ ایک قدرتی بات ہے - مگر کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چودہ سو سال میں پہلے غیرت مند مسلمان ہیں جن کو غیرت کے لیے ایسے قانون کی ضرورت پڑ رہی ہے ؟
جناب ماسٹر صاحب! آپ کے اس سوال کا جواب جناب شاکر القادری بہتر طریقے سے دے چکے ہیں اس لئے یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

جناب شاکرالقادری کا مواد:
یہاں پر میں ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جو انہی مردوں میں سے ایک کے متعلق ہے جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس واقعہ سے بات بالکل واضح اور روشن ہو جائے گی۔

عبداللہ بن ابی سرح
=============

یہ شخص خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رضاعی(دودھ شریک) بھائی تھا اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں اس کو مصر کا گورنر بھی بنایا گیا تھا۔ اس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ھجرت بھی کی تھی لیکن بعد میں مرتد اور مشرک ھو کر قریش مکہ کے ساتھ جا ملا تھا

اس کے ارتداد کا قصہ یہ ہے:

یہ چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لیے اس سے کتابت وحی کا کام بھی لیا جاتا تھا ۔۔ ۔ ۔

ایک روز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آیات املا کروا رہے تھے تو جب آپ کسی آیت کے آخر میں پہنچے تو

جیسے کسی اچھے شعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ شاعر پہلا مصرعہ پڑھ لیتا ہے اور ابھی اس نے دوسرامصرعہ آدھا ہی پڑھا ہوتا ہے لیکن سامع اپنے ذوق سلیم اور اس شعر کے فنی محاسن کی بنا پر دوسرے مصرعہ کا باقی ماندہ حصہ شاعر کے پڑھنے سے پہلے ہی بوجھ لیتا ہے، جان لیتا ہے

بالکل ایسے ہی جب املا کرائی جانے والی آیت تکمیل کے قریب تھی تو اس کے آخری دو تین الفاظ خود بخود عبداللہ ابن ابی سرح کی زبان پر جاری ہو گئے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ بھی املا کرا دیے اور فرمایا ۔ ۔ ۔ ہاں ایسے ہی ہے لکھ لو

شیطان ملعون موقع کی تاک میں تھا

اس نے فورا ابن ابی سرح کے ذہن میں یہ بات ڈال دی

لو جی ۔ ۔ ۔ یہ قرآن تو ایسے ہی مرتب ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ جو کچھ میں نے پڑھا وہ بھی املا کرا دیا ۔ ۔ ۔ خدا جانے ان آیات اور سورتوں کے باقی حصے کہاں کہاں سے اٹھائے گئے ہونگے

وہ وہاں سے اٹھا اور ارتداد کا راستہ اپنایا

پھر کیا تھا اس نے نہایت زور و شور سے یہ پراپگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ

میں محمد کے قرآن کی حقیقت جان چکا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں تو وہ باتین بھی لکھ دی جاتی ہیں جو خالص میرے ذہن کی اختراع ہوتی ہیں

گویا مجھ پر بھی محمد کی طرح وحی نازل ہوتی ہے

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کتابت وحی کے دوران میں نے بہت ساری باتین اپنی طرف سے بھی قرآن میں داخل کر دی ہیں اس طرح وہ اپنے بیانات سے قرآن کی الہامی حیثیت کو مشکوک بناتا اور صاحب قرآن کی تذلیل و توہین میں کوشاں رہتا

وہ یہ بھی کہا کرتا کہ : میں نے حضرت محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایسی کاری ضرب لگائی ھے جیسی میں چاھتا تھا۔

وہ ہر وقت رسول اللہ کی گستاخی اور اہانت میں مصروف رہتا

وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ میں عنقریب ایک ایسا ہی قرآن پیش کرونگا جیسا محمد کے پاس ہے۔

قرآن مجید نے سورہ انعام میں اس کے کفر کا اس طرح اعلان فرمایا ھے:


< وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْہِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ ۔>

اس سے بڑھ کر کون ظالم ھو گا جو خدا پر جھوٹ اور افتراء پر دازی کرے اورکھے کہ ھمارے پاس وحی آئی ھے حا لانکہ اس کے پاس کو ئی وحی وغیرہ نھیں آئی یا وہ یہ دعوی کرے کہ جیسا خدا وند عالم نے قرآن نازل کیا ھے میں بھی ایسا قرآن عنقریب نازل کئے دیتا ھوں۔


جب مکہ فتح ھو گیا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ اس(ملعون)کا خون مباح ھے اگرچہ یہ خانہ کعبہ کے غلاف میں ھی کیوں نہ چھپا ھو۔

عبداللہ ابن ابی سرح یہ حکم سن کر رو پوش ہو گیا اور کا فی عرصہ تک مختلف قبائل میں روپوشی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ ۔ ۔ پھر اس نے اپنے رضاعی بھائی حصرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم دلی اور اپنے اقربا سے محبت رکھنےکی خصوصیت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ یہ حضرت عثمان کے پاس چلا گیا اور مقصد بیان کیا کہ کسی طرح اس کو معافی دلوا دی جائے۔ حضرت عثمان نے اپنی رحم دلی کی وجہ سے رات اسے پناہ دی اور صبح ایک چادر اوڑھا کر دربار رسالت میں لے گئے تاکہ راستہ میں شناخت نہ کر لیا جائے اور قتل نہ کر دیا جائے۔

جب حضرت عثمان نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے لئے امان مانگی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی دیر تک خاموش رھے اور توقف فرمایا۔

حتی کہ دوسری اور تیسری بار امان طلب کی گئی،
لیکن آپ خاموش رہے اور توقف فرماتے رہے

پھر کافی توقف کے بعد فرمایا ہاں اسے امان دی جاتی ہے۔

جب حضرت عثمان چلے گئے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مجلس میں حاضر صحابہ سے ارشاد فرمایا:

میں نے اتنی دیر خاموشی اختیار کی اور متوقف رہا

تم میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ عبداللہ ابن ابی سرح کی خبر لیتا، اور اپنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دیتا، کیا تم لوگوں کو اس کے قتل کے بارے میں میرا حکم معلوم نہ تھا۔

صحابہ نے عرض کی: حضور آپ کے دربار میں امان کی درخواست دائر ہو چکی تھی ہماری کیا مجال کہ ہم آپ کی موجودگی میں آپ کے فیصلہ کرنے سے پہلے کچھ کرتے ۔ ۔ ۔ اور ہمیں کیا خبر تھی کہ آپ توقف کیوں فرما رہے تھے ۔ ۔ ۔ ہمیں آپ کے دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ۔۔ ۔ ۔ سرکار اگر آپ صرف ایک جنبش ابرو سے اشارہ فرمادیتے ۔ ۔ ۔ تو ہم نے اس کا کام تمام کر دینا تھا

آپ نے جوابا فرمایا:

ایک نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بظاہر خاموش رہے لیکن آنکھ کے اشارے سے کسی کے قتل کا حکم دے
==============
سبحان اللہ العظیم،

اس واقع سے تین نتائج اخذ ہوئے:
اولا: رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمة اللعالمینی، آپنے اپنے ذاتی حق میں تصرف فرماتے ہوئے اس کو معاف فرما دیا اور امان دے دی ۔
ثانیاً: آپ نے مسلمانوں کو اس قانون اور اس کی سزا کے بارے میں جتا بھی دیا کہ اس کے قتل کے سلسلہ میں میرا پہلا حکم تمہارے سامنے تھا، جب میں توقف کر رہا تھا تو تمہیں چاہیئے تھا کہ تم اس حکم پر عمل درآمد کر دیتے
ثالثا: اصحاب رسول کا رویہ، کہ وہ اپنے سربراہ اور قاید کی موجودگی میں اپنے آپ کو فیصلہ کرنے کا مجاز نہ جانتے تھے اور معاف کرنے یا نہ کرنے کا حق صرو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہی تسلیم کرتے تھے

جناب ماسٹر صاحب!
میرا خیال ہے کہ اس واقعہ کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ معاف کرنے کا حق صرف نبی کو ہے اور سزا دینے کا حکم ہمارے لیے


یہ سزا کون دے گا، کیا ہر مسلمان انفرادی طور پر یہ سزا دے سکتا ہے یا اس کے لیے ریاستی طور پر قانون ہونا چاہیئے اور اس قانون کی عملداری کو کیوں یقینی بنایا جانا چاہیئے تاکہ لوگ اپنے اپنے طور پر انفرادی امور نہ انجام دینے لگیں بلکہ اس سلسلہ میں ریاست اور عدلیہ کے ذمہ داران اپنے فرائض کو نباہیں
قانون ہمیسہ تب ہی ہاتھ میں لیا جاتا ہے جب وہ بے فیض اور بے ثمر ہو جائے، جب قانون کے رکھوالے قانون شکنی کرنے لگیں اور انہیں قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے تو، جمہور کا اشتعال تو فطری سی بات ہوگی، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ میں ریاست اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ انفرادی طور پر رد عمل دیکھنے میں نہ آئے۔
 

سویدا

محفلین
برادرم ظفری آپ مجھے تنقید کے آداب بتارہے ہیں علی الراس والعین لیکن اس سے پہلے تنقید کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو جن صاحب کی رائے سے اختلاف تھا آپ ضرور اختلاف رائے کرتے
لیکن درمیان میں مجھے نہ لاتے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایک سال گذرنے کے بعد بھی آپ کے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوئے اور آپ نے طالبان کا سا انداز اختیار کرتے ہوئے مجھ پر اپنی توپیں چلادیں
لیکن آپ کا گذشتہ غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا اس لیے آپ کا قلم یہ ادب فراموش کرگیا اور آپ نے دوبارہ تذکرہ بھی اس انداز سے کیا جیسے آپ کو مجھ سے کوئی ذاتی پرخاش ہے
میں اس بحث میں شامل نہیں ہوا تھا اور نہ ہونا چاہتا تھا لیکن آپ کی غلط روش کی وجہ سے میں نے اپنی رائے کا دوبارہ اظہار کیا۔
باقی غامدی صاحب کے بارے میں جن کتب کے حوالے میں نے دیے ہیں ان میں سے کچھ کتب اس لنک پر موجود ہیں ان کا ٹھنڈے دل سے مطالعے کریں
http://e-iqra.info/miscellaneous-books.html
 

ظفری

لائبریرین
برادرم ظفری آپ مجھے تنقید کے آداب بتارہے ہیں علی الراس والعین لیکن اس سے پہلے تنقید کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو جن صاحب کی رائے سے اختلاف تھا آپ ضرور اختلاف رائے کرتے
لیکن درمیان میں مجھے نہ لاتے کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایک سال گذرنے کے بعد بھی آپ کے جذبات ٹھنڈے نہیں ہوئے اور آپ نے طالبان کا سا انداز اختیار کرتے ہوئے مجھ پر اپنی توپیں چلادیں
لیکن آپ کا گذشتہ غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا اس لیے آپ کا قلم یہ ادب فراموش کرگیا اور آپ نے دوبارہ تذکرہ بھی اس انداز سے کیا جیسے آپ کو مجھ سے کوئی ذاتی پرخاش ہے
میں اس بحث میں شامل نہیں ہوا تھا اور نہ ہونا چاہتا تھا لیکن آپ کی غلط روش کی وجہ سے میں نے اپنی رائے کا دوبارہ اظہار کیا۔
باقی غامدی صاحب کے بارے میں جن کتب کے حوالے میں نے دیے ہیں ان میں سے کچھ کتب اس لنک پر موجود ہیں ان کا ٹھنڈے دل سے مطالعے کریں
http://e-iqra.info/miscellaneous-books.html

میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میری یاداشت غضب کی ہے ۔ مجھے 20 کے فگرز ایک دفعہ پڑھنے کے بعد بھی یاد رہ جاتے ہیں ۔ جبکہ آپ کی بات تو صرف ایک سال پرانی تھی ۔
خیر مذاق برطرف ۔۔۔۔۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے “ درشت “ لہجے سے آپ کو تکلیف پہنچی ۔ مگر اس دفعہ آپ کا اندازِ گفتگو بھی بہت دھیما رہا ۔ اسی لہجے میں آپ غامدی صاحب تو کیا مجھ پر پر کوئی تنقید کرتے رہیں تو اس پر سرِ خم تسلیم ہے ۔ اختلافات کا آغاز چائے کی پیالی سے شروع ہواور مطمئن نہ ہوں تو کم از کم سلام کرکے رخصت ہوجائیں تو اس سے بحث کا حسن بھی قائم رہتا ہے اور تہذیب اور شائستگی کا تقدس بھی ۔ اختلافات ہمیشہ سے رہے ہیں خواہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو ۔ حتیٰ کے قرونِ اولی کے دور میں بھی جو اختلافات رونما ہوئے ۔ وہ بھی آپ کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہونگے ۔ جب ہم اپنے اختلافات کو خوارج کے نصب العین کے مطابق کھڑا کردیں گے تو کدورتیں اور نفرتیں جنم سامنے آجاتیں ہیں ۔ جہاں سے سارے مسئلے پیدا ہوتے ہیں ۔ مگر جب ہم اختلاف کو حق و باطل کی جنگ بنا لیتے ہیں تو پھر کسی ایک کا صبر و تحمل جواب دیدیتا ہے ۔ اور اس صورتحال سے بچنے کے لیئے کوئی تنبہہ جاری کرنی پڑتی ہے ۔ آپ غامدی صاحب پر اختلاف کریں مگر اس کا کوئی طریقہ وضع ہونا چاہیئے ۔ جیسا کہ محترم شاکر القادری صاحب نے اختیار کیا ۔ اگر وہ بھی کئی کتابوں کے اقتباس اور لنکس یہاں فراہم کردیتے تو یہ کیسے معلوم ہوتا کہ ان کی معلومات کے مطابق ان کا استدلال کیا ہے ۔ بصورت ِ دیگر دوسرا عمل تقلید میں شمار ہوگا ۔ جس سے یہ تاثر پیدا ہوگا کہ اصل میں اعتراض کرنے والے کا اپنا کوئی فہم نہیں بلکہ وہ سُنی سنائی یا کہیں سے پڑھی ہوئی بات پر اپنا استدلال بیان کیئے بغیر بات آگے بڑھا رہا ہے ۔ میری نظر میں یہ علمی رویہ نہیں ہے ۔ میرا آپ پر شروع دن سے صرف یہی اعتراض رہا ہے ۔ اس کے علاوہ مجھے آپ سے کوئی مسئلہ نہیں ۔ خیر میں آپ سے اس سلسلے میں بحث ختم کرتا ہوں ۔ اس سلسلے میں میری ذات سے آپ کو جو تکلیف اگر پہنچی ہے تو اس کے لیئے میں معذرت خواہ ہوں ۔
شکریہ

رہی بات آپ کے دیئے ہوئے لنک کی تو میں اس کا مطالعہ ضرور کروں گا ۔ تمام اعتراضات بغور پڑھوں گا ۔ اس میں کوئی ایسا استدلال جو مجھے مطمئن کردے ۔ اس کی طرف رجوع کرنے میں ذرا سی بھی تاخیر اختیار نہیں کروں گا ۔ غامدی صاحب بھی بہرحال دوسرے عالموں کی طرح ایک عالم ہیں ۔ مگر دوسرے علماء کی طرح ہی ایک انسان ہیں کوئی پیغمبر نہیں ۔ ان کی بات میں کہیں جھول ہوگا تو میری طرف سے ان پر تنقید ہوگی ۔ کیونکہ میرے لیئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بات ہی آخری بات ہے ۔ اس کے بعد سب انسان ہیں ۔ ان کا سب اپنا عقل و فہم ہے ۔ جن پر اعتراضات یا خدشات ہونگے ۔ اس کو بڑے ادب سے عرض کردیں گے ۔ اور جو بات دل و دماغ کو قائل کردے ۔ اس کی طرف رجوع کرلیں گے ۔ اس میں قباحت ہی کیا ہے ۔ !
 
غامدی کے بارے میں کافی مواد ان شاء اللہ یہاں دستیاب ہو گا۔
(حذف کردہ)

نوٹ۔۔۔۔۔۔
اس لنک کو یہاں پیش کرنے کا مقصد صرف اس جاری علمی بحث و مباحثہ میں مزید اضافہ ہے ،،،بقیہ میں اس پر کوئی مزید بحث نہیں کرسکتا
 

نبیل

تکنیکی معاون
غامدی کے بارے میں کافی مواد ان شاء اللہ یہاں دستیاب ہو گا۔
نوٹ۔۔۔۔۔۔
اس لنک کو یہاں پیش کرنے کا مقصد صرف اس جاری علمی بحث و مباحثہ میں مزید اضافہ ہے ،،،بقیہ میں اس پر کوئی مزید بحث نہیں کرسکتا

آپ اگر خود سے کوئی بات کرنے کے اہل نہیں ہیں تو آئندہ برائے مہربانی اس طرح کی لنک سپیمنگ سے بھی گریز فرمائیں۔ شکریہ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کیا ہم ایک امتی کی حیثیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخ کو معاف کر سکتے ہیں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کسی کو بذاتِ خود معاف فرمانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اسے معاف کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بذات خود تو اختیار حاصل ہے لیکن ایک امتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ گستاخ حضور کی اہانت و تنقیص کرے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق خاص میں از خود تصرف کرتے ہوئے اسے معاف کر دے اور اس سے درگزر کرے۔ امت کے کسی فرد کے لیے یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ، بلکہ ایسا کرنے والے کا اپنا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا۔
 

رانا

محفلین
اس ویڈیو میں مولانا صاحب نے ابولہب کی مثال تو دی ہے لیکن نہیں بتایا کہ ابولہب کو سزا دینے کا اختیار انسانوں کو نہیں دیا گیا بلکہ اللہ نے اسکی سزا کو اپنے ہاتھ میں ہی رکھا اسی طرح قرآن میں جتنی جگہ بھی گستاخان رسول کا ذکر کیا ہے کسی ایک جگہ بھی ان کو سزا دینے کا حکم نہیں دیا بلکہ یہی فرمایا کہ ان کو سزا دینے کے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ تو اللہ کا اختیارجو اس نے خود کسی انسان کو نہیں دیا وہ اختیار اگر کوئی انسان اپنے ہاتھ میں لے تو کیا یہ اللہ کی گستاخی نہیں ہے؟

بلکہ اللہ تعالی نے تو آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گستاخی کی سزا دینے کی بجائے معاف کرنے کی ہی تعلیم دی مثلآ:

ہم استہزا کرنے والوں کے مقابل پر تجھے کافی ہیں (الفجر 15)
عفو اختیار کر اور معروف باتوں کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر (الاعراف 200)
اور صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور ان سے اچھے رنگ میں جدا ہوجا (المزمل 11)
اور ان کی ایذا رسانی کو نظر انداز کردے اور اللہ پر توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے۔ (الحزاب 49)
اور اس نے تم پر اس کتاب میں یہ (حکم) اتار چھوڑا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہے یا ان سے تمسخر کیا جارہا ہے تو ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اوربات میں مصروف ہوجائیں۔ (النسا 141)

اور ایک بات اور بھی یاد رکھنے والی ہے کہ توہین رسالت کی تو سزا دینے کا قانون بنانے پر زور دیا جاتا ہے لیکن ایک توہین ایسی ہے جس کو خود خدا بھی توہین رسالت سے زیادہ سخت توہین قرار دیتا ہے اور وہ خود اللہ تعالی کی توہین ہے لیکن اس کے لئے کوئی قانون بنانے کا خیال نہیں کرتا۔ یعنی خدا کی توہین ہو تو کوئی تکلیف نہیں ہوتی جتنی مرضی کوئی کرتا رہے۔ حالانکہ رسول کریم کو سب سے زیادہ جو چیز تکلیف دیتی تھی وہ توہین خدا تھی۔ اور یہ اتنی بڑی توہین ہے کہ خود خدا نے قرآن میں اسکا ذکر مختلف جگہوں پر کیا ہے کہ وہ سب کچھ معاف کردے گا لیکن توہین خدا کو معاف نہیں کرے گا مثلآ

یقینآ اللہ معاف نہیں کرے گا کہ اسکا کوئی شریک ٹھہرایا جائے اور اسکے علاوہ سب کچھ معاف کردے گا جس کے لئے وہ چاہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اس نے بہت بڑا گناہ افترا کیا ہے۔ (النسا 49)

اورایک جگہ پر تو یہ فرمایا کہ یہ اتنی بڑی توہین ہے کہ قریب ہے کہ اس سے زمین و آسمان پھٹ جائیں کہ انہوں نے خدائے رحمان کا بیٹا قرار دیا ہے۔

اب ایسی توہین جس کے متعلق خود خدا یہ کہتا ہے کہ اس سے بڑھ کر کوئی توہین نہیں ہوسکتی اور جس سے زمین و آسمان بھی پھٹ پڑنے کے قریب ہیں اور جو قابل معافی بھی نہیں اس کے لئے بھی تو قانون سازی ہونی چاہئے۔

پھر عبداللہ بن ابی سلول کی توہین تو اتنی بڑی تھی کہ خود خدا نے اسکی گواہی قرآن میں دے دی لیکن کسی صحابی نے اسکو قتل نہیں کیا اسکا کوئی جواب نہیں دیتا۔ اور بہت ساری آیات ہیں جو گستاخان رسول کے بارے میں ہیں لیکن ایک جگہ بھی سزا کو انسانوں کے اختیار میں نہیں رکھا۔ یہ آیات پہلے ہی مختلف دھاگوں میں زیربحث آچکی ہیں اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں۔

البتہ سورہ المائدہ کی آیت 34 عموما قتل کے حق میں پیش کی جاتی ہے لیکن اسکا ذرا بھی غور سے مطالعہ کریں تو آیت کا پہلا حصہ ہی یہ کہہ رہا ہے کہ جو لوگ اللہ اور اسکے رسول سے لڑتے ہیں ان کے بابت حکم دیا جارہا ہے۔ اسکا توہین رسالت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ واضع طور پر اسلام کے خلاف جنگ کرنے والوں کے بارے میں ہیں۔

سورہ احزاب کی آیت 61 میں بھی جن لوگوں کے قتل کا ذکر ہے اس سے پہلے آیت میں واضع طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ان منافقین اور یہود کی بات ہورہی ہے جو مدینہ میں افواہیں پھیلاتے تھے اورمنافقین تو دل میں آنحضور کو مانتے ہی نہیں تھے اوراسی لئے یہود کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے رہتے تھے۔ اب جو لوگ اس آیت کو توہین رسالت کے حق میں پیش کرتے ہیں وہ اصل میں ان منافقین اور یہود کے اس جرم پر پردہ ڈالتے ہیں کہ حالت جنگ میں بھی اور ایسی حالت میں بھی کہ مسلمان کمزوری کے عالم میں ہیں افواہیں پھیلا کرمایوسی کی فضا پیدا کرنا گویا کوئی جرم ہی نہیں۔ افواہیں پھیلا کر قوم میں مایوسی اور انتشار پیدا کرنا تو کھلم کھلا فساد ہے اور حدیث نبوی کے مطابق فساد قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے۔

گستاخی کرنے والوں میں تو ہر طرح کے لوگ شامل تھے۔ آپ پر راکھ پھیکنے والے،راستے میں کانٹے بچھانے والے، آپ پر پتھر پھینکنے والے، گلے میں پٹکا ڈال کر کھینچنے والے، زہر دینے والے، برا بھلا کہنے والے، برملا تکذیب کرنے والے، گھر سے بے گھر کرنے والے، اور بارہا قتل کی کوشش کرنے والے۔

پورا مکہ ہی اس جرم کا مجرم تھا۔ لیکن جو لوگ ان چند افراد کی فہرست پیش کرتے ہیں جو گستاخی کے مرتکب ہوئے تھے اور جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا وہ دراصل پورے مکہ کو انتہائی شریف النفس شہری ہونے کا سرٹیفیکٹ پیش کررہے ہوتے ہیں کہ صرف چند لوگ ہی گستاخ تھے ورنہ پورا مکہ تو بے چارہ بہت ہی شریف اور رسول کریم کی انتہائی عزت کرتا تھا۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اگر صرف چند لوگ ہی گستاخ تھے جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا تو پھر جنگ بدر میں ایک ہزارافراد جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹانے آئے تھے وہ کون تھے۔ پھر جنگ احزاب میں یہ تعداد تین ہزار ہوگئی یہ کون تھے پورے مکہ میں صرف چند گستاخوں کی وجہ سے ہی ہجرت کرنا ضروری ہوگیا تھا؟ صرف چند لوگوں کو گستاخ رسول کہنا اور پورے مکہ کو شرافت کا سرٹیفیکٹ دینا میرے نزدیک تو یہی اصل توہین ہے۔ اگر گستاخ رسول کو معاف کرنے کا اختیار کسی امتی کو نہیں دیا جاسکتا تو پھر یہ کون لوگ ہیں جو مکہ کے ہزاروں گستاخان رسول کو معافی کا عام سرٹیفیکٹ دے رہے ہیں؟

اور پھراگرگستاخان رسول کو معاف کرنا صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی حق تھا ایک عام امتی کا فرض اسکے برعکس تھا تو یہ امتی جن میں بڑے بڑے درجہ کے امتی بھی شامل تھے وہ اپنا یہ فرض منصبی ادا کئے بغیرمکہ سے کیوں ہجرت کرگئے۔ گلے میں پٹکا ڈالنے والا واقعہ تو خود ابوبکررضی اللہ تعالی کی موجودگی میں پیش آیا تھا۔ انہوں اسکے مجرم کو کیوں چھوڑدیا یا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سزا نہیں دے سکتے تھے تو بعد میں کیا امر مانع تھا۔ کیا نعوذ باللہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ممتاز قادری سے بھی گئے گزرے تھے؟ تیرہ سال تک تمام صحابہ توہین رسالت کو دیکھتے رہے اور کسی کو اس فرض کا خیال نہیں آیا جو آج کے علما کو تڑپائے رکھتا ہے۔

ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی توہین کے مجرم کو معاف کردیتے تھے لیکن کسی امتی کو یہ حق نہیں۔ لیکن اسی زبان سے ابن خطل اور ان دوسرے افراد کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ آپ نے ان کے قتل کا حکم صرف ان کی توہین کے جرم کی وجہ سے ہی دیا تھا۔ ایک عام شخص کی نسبت بھی اگر یہ کہیں کہ وہ ایک ہی معاملے پر کچھ کے ساتھ تو اور رویہ رکھتا ہے اور کچھ کے ساتھ اور یہ بھی برا سمجھا جاتا ہے لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اب کبھی تو توہین رسالت کے مجرم کو معاف کردیتے تھے اورکبھی کعبے کے پردوں سے لپٹنے پر بھی معاف نہیں کرتے تھے۔ یہ علما ایک ہی سانس میں جب دو متضاد باتیں کہتے ہیں تو اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ بات کو غلط طور پر پیش کررہے ہیں۔

علامہ شبلی نعمانی نے اپنی کتاب سیرت البنی میں بعض گستاخان رسول کو قتل کئے جانے کے حکم کے بارے میں لکھا ہے کہ محدثانہ تنقید کی رو سے یہ بیان صحیح نہیں۔ اس جرم کا مجرم تو سارا مکہ تھا۔ قریش میں سے (بجز دوچار کے) کون تھا جس نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ایذائیں نہیں دیں۔
روایت کے لحاظ سے بھی یہ واقعہ ناقابل اعتبار ہے کہ صحیح بخاری میں صرف ابن خطل کا قتل مذکور ہے جس کے بارے میں مسلم ہے کہ وہ قصاص میں قتل کیا گیا تھا۔ مقیس کا قتل بھی شرعی قصاص تھا۔ باقی جن لوگوں کی نسبت حکم قتل کی وجہ گستاخی رسول بیان کی جاتی ہے وہ روائتیں صرف ابن اسحاق تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہیں یعنی اصول حدیث کی رو سے وہ روایت منقطع ہے اور قابل اعتبار نہیں۔ سب سے معتبر روایت جو اس حدیث کے بارے میں پیش کی جاسکتی ہے کہ چار اشخاص کو کہیں امن نہیں دیا جاسکتا ان کو قتل کیا جائے تو ابو داود نے اس حدیث کو نقل کرکے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند جیسی چاہئے مجھ کو نہیں ملی۔ علامہ سید سلمان ندوی نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ ابن خطل اور ابن حبابہ دونوں خونی مجرم تھے۔ ابن خطل اپنے ایک مسلمان خادم کو قتل کرکے مرتد ہوگیا تھا۔

توہین رسالت کے حق میں بھی اور اسکے خلاف دونوں طرف دلائل کا ایک انبار ہے۔ جس میں پڑے بغیر اصولی طور پر بھی اس معاملے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلآ سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ آپ نے اپنی ذات کی خاطر کبھی اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا کبھی انتقام نہیں لیا۔

پھر اوپر جو چند آیات پیش کی گئیں ہیں اور ان کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جن میں آنحضور کو ایسے گستاخان رسول کے رویوں کے بارے میں عفو درگزر اور صبر کرنے کا اللہ تعالی نے حکم دیا تھا، کیا یہ سوچا جاسکتا ہے کہ آپ ان احکامات کے خلاف خود یا کسی کو عمل کرنے کی اجازت دے سکتے تھے؟ اور اگررسول خود معاف کرنے کا اختیاررکھتا ہے اور امتی نہیں تو پھر تو کوئی نبی اپنے مشن میں کبھی کامیاب ہی نہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی تو قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر نبی کے مخالف اس سے تمسخر ٹھٹھا اور گستاخی کرتے تھے۔ اور اگر کچھ لوگوں نے نبی کو مان لیا تو پھر ان پر واجب ہوگیا کہ جہاں کسی نے ان کے نبی کی توہین کی وہیں اس نے فرض ادا کرتے ہوئے اسے واصل جہنم کردیا۔ اس طرح تو تمام گستاخان رسول قتل ہی ہوجائیں گے اور کون بچے گا ایمان لانے کے لئے؟ اگر مکہ میں ہی اس فرض پر عمل کرنا شروع کردیا جاتا تو پورے مکہ میں ایک فساد ہی کھڑا ہوجاتا تو اور شائد ہجرت کی نوبت ہی نہ آتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسلامی ریاست کے قائم ہونے کے بعد یہ فرض عائد ہوتا ہے تو پھر مدینہ میں اس فرض پر پوری طرح عمل کیوں نہیں ہوا۔ کیا یہود اور منافقین گستاخی نہیں کرتے تھے۔ کتنے اس فرض کی زد میں آئے؟ اگر کہا جائے کہ وہاں ابھی مکمل طور پر اسلامی ریاست قائم نہیں ہوئ تھی تو پھر جن کے واقعات پیش کئے جاتے ہیں کہ انہوں اس فرض کو ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی تو پھر اسکو کس کھاتے میں ڈالا جائے۔ اگر وہ فرض ابھی عائد ہی نہیں ہوا تو پھر اس کو تحسین کے رنگ میں کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ اگر یہ اصول مان لیا جائے کہ امتی کو یہ حق نہیں کہ گستاخ رسول کو معاف کرے تو ذرا بھی ٹھنڈے دل سے غور کرنے سے یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ وہاں کس قدر قتل عام ہوتا مکہ میں بھی اور مدینہ میں بھی۔ کیونکہ یہود و منافقین کی خود قرآن نے گواہی دی کہ وہ گستاخان رسول تھے۔ پھر تو ہر مسلمان پر واجب تھا کہ ان کو قتل کردیتا۔

قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کہ ایسی فضول باتیں کہنے والوں سے اعراض کیا جائے اس سے کہنے والا خود ہی خجل ہو کر اسے ترک کردیتا ہے۔ یہ تو ایک فطرتی بات ہے کہ ایک شخص اگر کسی بات پر چڑے تو لوگ اسے اور چڑاتے ہیں لیکن اگر وہ اعراض کرے تو لوگ تنگ آکر خود ہی باز آجاتے ہیں۔ آجکل جو توہین رسالت کے واقعات زیادہ ہونے لگے ہیں خاص کر مغربی ملکوں میں اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ انہیں پتہ ہے اس سے مسلمان طیش میں آجائیں گے اور جلاو گھیراو کریں گے اگر مسلمانوں کا ردعمل سلجھا ہوا ہو تو وہ خود ہی اس سے باز آجائیں گے۔ یہ ایک فطری اصول ہے اپنے ماحول میں آس پاس ہم میں سے سب نے ہی اسے آزمایا ہوگا۔ لیکن علما نے اپنے بے ہودہ ردعمل سے اس معاملے کو ایسا بنادیا ہے کہ وہ توہین جسکا پہلے کبھی کبھارہی کئی سالوں کے بعد کوئی واقعہ رونما ہوتا تھا اب ہر سال میں کئی کئی بار مغربی ملکوں میں ہونے لگ گیا ہے۔ یہ بار بار کی توہین کے ذمہ دار مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ یہ علما بھی ہیں کہ جنہوں نے اپنے ہی ملکوں میں جلاو گھیراو کرکے لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کرادی کہ یہ بھی ایک طریقہ ہے مسلمانوں کو تپانے کا۔ اب وہ بد بخت توہین رسالت کی کوشش کبھی کارٹون بنا کر کبھی قران جلا کر، کرتے تو مسلمانوں کو تپانے کے لئے ہیں لیکن اسکی زد میں آتے ہمارے پیارے رسول ہیں۔ کاش یہ علما اتنا بے ہودہ ردعمل رسول کی توہین کے خلاف دکھانے کی بجائے اپنی توہین کے خلاف دکھاتے تاکہ مغربی ملکوں کے بدبخت ان علما کے کارٹون چھاپتے اور ہمارے پیارے رسول کی طرف کسی کی اس انداز سے توجہ نہ جاتی۔ میں تو اس بات کو ایک کروڑ درجہ زیادہ پسند کرتا ہوں کہ مغربی ملکوں میں میرے کارٹون چھاپے جائیں اوران کی تمام توہین کی توپوں کا رخ میری طرف ہوجائے لیکن میرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کا ناپاک خیال بھی نہ جائے۔
 

دوست

محفلین
جن افراد کے قتل کا حکم دیا گیا، ان کی شخصیت کے صرف ایک پہلو کہ وہ گستاخ رسول تھے کو ہی زیر بحث لا کر اپنے لیے دلیل کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے جبکہ ان میں سے اکثر افراد دوسرے جرائم میں بھی ملوث تھے۔ یا ان کی گستاخی اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر ہوگئی تھی۔ جبکہ ایک بار گستاخی کرنے والا اگر معافی کا طالب ہو تو، اس قانون میں اس کو معاف کرنے کی شق بھی نہیں ہے۔ یعنی وہ راستہ ہی ختم جس کے ذریعے شاید وہ ایمان لے آئے۔
 

ظفری

لائبریرین
رانا صاحب ۔جزاک اللہ آپ نے بڑی ہی جامع باتیں مستند حوالوں سے کیں ہیں ۔ جن آیتوں میں عفو ودرگذر کا حکم دیا گیا ہے ۔ ہم ان کو سرے سے موضوع بحث ہی نہیں لاتے ۔ اور اس کا طلاق مختلف تاویلیوں کے ذریعے کہیں اور ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر جب اس سلسلے میں جو آیتیں پیش کی جاتیں ہیں ۔ جب ان کے سیاق و سباق پر توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کو ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے ۔ چونکہ میں محترم شاکر قادری صاحب کی تحریر کے اختیام کا منتظر ہوں اس لیئے میں اپنا یہ استدلال اور دلائل دینے سے ابھی قاصر ہوں ۔ جن آیتوں کو یہاں کوٹ کیا جارہا ہے ۔ اصل میں اس کا تعلق قانونِ رسالت سے ہے ۔ جو کہ پہلے کے انبیاء کے دور میں بھی جاری تھا ۔ یعنی جب کسی نبی کی بعثت کہیں ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اتمامِ حجت پورا کردیتا ہے ۔ یعنی حق کو اس طرح ظاہر کردیا جاتا ہے کہ اس کے انکار کی کوئی بھی وجہ باقی نہ رہے ۔ پھر اللہ کا وہ قانون حرکت میں آتا ہے جس کے تحت منکرین عذاب سے دوچار کر دیئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ قومِ ثمود اور قومِ عاد کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ اور رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کےدور رسالت میں یہ عذاب اللہ نے تلواروں کے ذریعے منتخب کیا ۔ القاعدہ نے بھی اپنی ویب سائیٹ پر جس آیت کو کوٹ کیا ہے ۔ وہ بھی اسی اتمامِ حجت سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور اسی آیتِ مبارکہ کو بنیاد بنا کر زمین پر فساد پھیلایا جارہاہے ۔جبکہ اللہ نے جہاد کا قانون قرآن میں بڑی وضاحت سے واضع کیا ہوا ہے ۔ کسی آیت اور حدیث کو سیاق و سباق سے نکال کر اپنی مرضی کے مطابق پیش کرنا پہلے اسلام دشمنوں کا کام تھا کہ وہ مفہوم ہی بدل دیا کرتے تھے ۔ اور اسی بناء پر آج بھی کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ اسی طرح جس حدیث کو کوٹ کرکے آج کے زمانے میں لوگوں پر مسلط کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کا بھی اگر سیاق و سباق دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب اتمام حجت پوری ہوگئی اور مسلمانوں اور منافقین کو الگ کیاجارہا تھا ۔ تو اللہ کے رسول صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا “ میرا بس چلے تو میں ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں ۔ جو مسجدوں میں نماز کے لیئے نہیں آتے ۔ “ اس حدیث مبارکہ کو اگر سارا معاملہ سامنے رکھ رکر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانونِ رسالت کا حصہ تھا۔ مگر آج بھی ہم اس حدیث کو آج کے دور میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی محفل میں کئی لوگوں نے اس حدیث کا بھی اسی حوالے سے متعدد بار ذکر کیا ہے ۔ جو آیاتیں اس سلسلے میں پیش کیں جا رہیں ہیں ۔ وہ بھی اتمامِ حجت سے ہی تعلق رکھتیں ہیں ۔ میں یہ بات ثابت کروں گا کہ کس طرح وہ آیتیں منکرین اور منافقین کے لیئے تھیں ۔ اور وہ کون لوگ تھے ۔ جن پر اس سزا کا اطلاق کیا گیا ۔ بہرحال اللہ ہم کو ہدایت دے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمارے گھرانے قربان ۔ مگر ہم بھی دیکھیں کہ اس اقدام کے لیئے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا فرمان ہے کہ ہم کسی کو اس کی سب سے بڑی نعمت سے محروم کرنے جا رہے ہیں ۔ لہذا اس امر کی بہت ضرورت ہے کہ ایسا کوئی اقدام عین قرآن و سنت کے مطابق ہے یا ہمارے جذبات اس میں پنہاں ہیں ۔
 

ظفری

لائبریرین
کیا ہم ایک امتی کی حیثیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گستاخ کو معاف کر سکتے ہیں؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کسی کو بذاتِ خود معاف فرمانا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اسے معاف کرنے کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بذات خود تو اختیار حاصل ہے لیکن ایک امتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ گستاخ حضور کی اہانت و تنقیص کرے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق خاص میں از خود تصرف کرتے ہوئے اسے معاف کر دے اور اس سے درگزر کرے۔ امت کے کسی فرد کے لیے یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ، بلکہ ایسا کرنے والے کا اپنا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا۔

پہلی بات تو قرآن و سنت سے بھی واضع ہے اور عقل و فہم کا بھی یہی تقاضا ہوگا کہ معاملہ کی نوعیت انہی خطوط پر ہو ۔ مگر بعد کے سرخ رنگ میں مقید تمام جملوں کا ماخذ کیا ہے ۔؟ اس کی وضاحت کریں ۔ مگر کاپی پیسٹ اور لنکس فراہم کرنے سے گریز کریں کہ اگر آپ اس بحث میں اپنے استلدلال اور عملی قابلیت کی بناء پر حصہ نہیں لے سکتے تو پھر براہِ کرم خاموش رہیں ۔ اور سلسلہِ بحث کو تاراج مت کجیئے ۔ شکریہ
 

الف نظامی

لائبریرین
جن افراد کے قتل کا حکم دیا گیا، ان کی شخصیت کے صرف ایک پہلو کہ وہ گستاخ رسول تھے کو ہی زیر بحث لا کر اپنے لیے دلیل کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے جبکہ ان میں سے اکثر افراد دوسرے جرائم میں بھی ملوث تھے۔ یا ان کی گستاخی اس حد تک پہنچی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر ہوگئی تھی۔ جبکہ ایک بار گستاخی کرنے والا اگر معافی کا طالب ہو تو، اس قانون میں اس کو معاف کرنے کی شق بھی نہیں ہے۔ یعنی وہ راستہ ہی ختم جس کے ذریعے شاید وہ ایمان لے آئے۔
اپنے اس خیال کی دلیل قرآن و سنت سے پیش کیجیے ، کوئی ایسا واقعہ جس میں گستاخ رسول کو صحابہ کرام نے معافی دی ہو کہ اس گستاخ رسول نے ابھی ایک بار گستاخی کی ہے لہذا اس کو ابھی کچھ نہ کہو کہ شاید وہ ایمان لے آئے؟
میری نظر میں رسول اللہ کی گستاخی نہایت سنگین نوعیت کا جرم ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
پہلی بات تو قرآن و سنت سے بھی واضع ہے اور عقل و فہم کا بھی یہی تقاضا ہوگا کہ معاملہ کی نوعیت انہی خطوط پر ہو ۔ مگر بعد کے سرخ رنگ میں مقید تمام جملوں کا ماخذ کیا ہے ۔؟ اس کی وضاحت کریں ۔ مگر کاپی پیسٹ اور لنکس فراہم کرنے سے گریز کریں کہ اگر آپ اس بحث میں اپنے استلدلال اور عملی قابلیت کی بناء پر حصہ نہیں لے سکتے تو پھر براہِ کرم خاموش رہیں ۔ اور سلسلہِ بحث کو تاراج مت کجیئے ۔ شکریہ
ظفری: 1- آپ نے کاپی پیسٹ کا الزام لگایا ، الزام کو ثابت کیجیے؟
2- آپ نے اس پیرا گراف کا ماخذ دریافت کیا۔
لیکن ایک امتی کو یہ حق حاصل نہیں کہ گستاخ حضور کی اہانت و تنقیص کرے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حق خاص میں از خود تصرف کرتے ہوئے اسے معاف کر دے اور اس سے درگزر کرے۔ امت کے کسی فرد کے لیے یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ، بلکہ ایسا کرنے والے کا اپنا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا۔
اس کا ماخذ امت مسلمہ کا مجموعی تعامل ہے اور تاریخ اسلام میں کہیں بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ گستاخ رسول کو معافی دی گئی ہو اور اگر ایسا واقعہ موجود ہے تو پیش کیجیے۔
 

ابن جمال

محفلین
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ دل سے ایمان رخصت ہوچکاہے ورنہ وہ محترم ہستی جس کی محبت عین ایمان ہے اس پر کوئی زبان وقلم سے کس طرح کیچڑ اچھال سکتاہے وہ پاک ہستی جس کا نام لینے کیلئے زبان ودہن کو ہزار بار مشک وگلاب سے دھوناناکافی اوراس کے باوجود نام لینابے ادبی ہو۔ایمان کے ہوتے ہوئے اس کی شان میں گستاخی کرنے کی کوئی سوچ بھی کیسے سکتاہے۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک وگلاب
ہنوز نام توگفتن کمال بے ادبی است​
وہ ذات عالی جس کی بارگاہ میں جاروب کشی کی تمنا جنیدوشبلی اوردیگر بزرگان امت ہو اس کی شان والاتبار پر کوئی دھبہ کیسے لگاسکتاہے
ادب گاہیست زیرآسمان ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ میں آید جنیدوبایزید این جا​
وہ سرکارذی وقار جن کے قدموں تک رسائی مومن کی معراج ہو۔اس کی شان میں گستاخی بھلاکوئی سوچ کیسے سکتاہے اوراس کے بعد ایمان کابھی دعویٰ ہو۔این خیال است ومحال است وجنوں
تیری معراج کہ تولوح وقلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا​
یہ دل کے جذبات تھے جو بے ساختہ نکل پڑے۔اب یہ ایک ٹرینڈ بن چکاہے عمومی طورپر کہ تمام مسلمات کا علم وتحقیق کے نام پر انکار کرتے جائیے اوراسکانام روشن خیالی اورعلم وتحقیق کی معراج قراردیجئے۔کیاامت نے زناکی سزا رجم میں کوئی شک کیاتھالیکن دور جدید کے مدعیان ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ زنا کی سزارجم قراردینا ایک غلطی تھی اورامت کئی صدیوں سے اسی غلطی میں گرفتار تھی۔
اسی طرح حالیہ مسئلہ شان رسالت گستاخی کرنے والے کے تعلق سے ہے۔اس پر کچھ صاحبان ردوقدح کا دعویٰ ہے کہ شتم رسول کی سزاموت جہالت کی بات ہے اورجن لوگوں نے ایساکہاہے انہوں نے غلطی کی ہے۔
ہمیں آ جکل کے مدعیان تحقیق سے ایک بڑی شکایت یہ ہے کہ وہ پہلے ایک رائے قائم کرلیتے ہیں اوراس کے بعد دلائل کی تلاش میں نکل کھرے ہوتے ہین اورجہاں جہاں سے ان کو دلیل یادلیل کے مشابہ کوئی چیز ملتی جائے اس کو سلیقہ اورترتیب اورانشاپردازی کے حسن کے ساتھ عوام کو پیش کردیتے ہین کہ دیکھوفلاں مسئلہ کے بارے میں اسلام کیاکہتاہے اورعوام کالانعام اسی کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
دوسری شکایت ہمیں مدعیان تحقیق سے یہ ہے کہ وہ کہیں بڑے محقق نظرآئیں گے اورکہیں بڑے مقلد ۔جہاں تقلید ان کے مطلب کی ہوگی وہاں وہ تقلید کریں گے اورجہاں تقلید ان کے مطلب کی نہ ہوگی وہاں وہ تحقیق کے علمبردار بن جائیں گے ۔ایسی مثالیں ڈھونڈنے سے بہت مل جاتی ہیں۔
اس بحث کو میں تین حصوں میں تقسیم کردیتاہوں۔
1شان رسالت میں توہین کرنے والامسلمان ہے توکیاحکم ہوگا۔2اس کی توبہ قبول ہوگی یانہیں۔اگرتوہین کا مرتکب ذمی یامعاہد ہے تواس کاکیاحکم ہوگا ۔4فقہائے احناف کے نزدیک ذمی اگررسول اللہ کی شان میں گستاخی کرے تواس کاکیاحکم ہوگا۔
اگرمسلمان ہے تو

اس بات میں علماء کے درمیان کسی قسم کااختلاف نہیں ہے کہ اگر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والامسلمان ہواوروہ توبہ کرکے دوبارہ اسلام کے سایہ عاطفت میں نہ آئے تواسے قتل کردیاجائے۔چنانچہ قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں۔
اجمعت الامة علیٰ قتل منتقصہ من المسلمین وسابہ(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی2/211)
رسول اللہ کی شان میں تنقیص کرنے والے ااوربرابھلاکہنے والے کے قتل پر امت کااجماع ہے۔
ابوبکر ابن المنذر علمائے شافعیہ میںبرے مرتبہ کے حامل ہیں ان کے بارے میں کہاجاتاہے کہ انہیں درجہ اجہتاد حاصل ہے۔وہ اپنی کتاب ''الاشراف علی مذاہب اہل العلم ''(3/16)میں لکھتے ہیں۔
اجمع عوام اہل العلم علی ان علی من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم القتل وممن قال ذلک مالک بن انس،واللیث،واحمدواسحاق وھومذہب الشافعی
عمومی طورپر اہل علم کااس امرپر اتفاق ہے کہ جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برابھلاکہے اسے قتل کردیاجائے اوراس کے قائل مالک بن انس ،امام لیث بن سعد اورامام احمد،اسحاق ہیں اوریہ امام شافعی کابھی مذہب ہے۔
یہاں پر ائمہ اربعہ میں سے امام مالک ،امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کاذکر ہوگیا۔ صرف امام ابوحنیفہ کاذکر باقی رہ گیاتھا۔لیجئے وہ بھی پوراہواچاہتاہے۔
قاضی عیاض کہتے ہیں۔
وبمثلہ قال ابوحنیفہ واصحابہ والثوری واہل الکوفہ والاوزاعی فی المسلم (الشفائ2/215)
اوراسی کے مسلم ابوحنیفہ(الامام)اورانکے شاگردوں اورثوری اوراوزاعی اوراہل کوفہ نے مسلم کے بارے میں کہاہے۔(کہنامقصود یہ ہے کہ اگرگستاخی کرنے والامسلمان ہے تواس صورت میں امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کی بھی رائے یہی ہے کہ اس کو قتل کردیاجائے۔(ہان ذمی کی صورت میں ان کااختلاف ہے اس پر باتیں آگے چل کرہوں گی۔
واضح رہے کہ قاضی عیاض مالکی ہیں۔ان کی بات ذکر ہوچکی۔ابن منذر کا شمار شوافع میں ہوتاہے ان کا قول بھی نقل کردیاگیاہے۔اب مالکیہ کے ہی ایک اوربڑے عالم امام سحنون کے الفاظ دیکھئے وہ کیاکہتے ہیں
زیر بحث مسئلہ کے بارے میں۔
''اجمع العلماء ان شاتم النبی علیہ السلام ،المتنقص لہ کافروالوعید جار علیہ بعذاب اللہ وحکمہ عندالامة القتل،ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر۔(الشفاء 2/215)
علماء کا اجماع ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ کی شان میں گستاخی کرنے والا یاتنقیص کرنے والا کافر ہے اوراس پر اللہ کے عذاب کی وعید جاری ہوگی اورامت کے نزدیک اس کا حکم قتل کردیئے جانے کاہے اورایسوں کے کفر میں شک کرنابھی کفر والاکام ہے۔
ایک اورشافعی بڑے عالم امام خطابی بھی اس موضوع پر امت کااجماع ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں۔
لااعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ (معالم السنن 6/199)
میں مسلمانوں میں سے کسی کونہیں جانتاہوں جس نے اس کے(شاتم رسول)کے قتل مین اختلاف کیاہو)یہاں پر علامہ تاج الدین سبکی وضاحت کی خاطر لکھتے ہیں۔یہ امت کااجماع اس وقت ہے جب اذاکان مسلمایعنی جب کہ توہین رسالت کا مرتکب اورشاتم رسول مسلمان ہو اورتوبہ کرکے دوبارہ اسلام کے سایہ عاطفت میں نہ آناچاہتاہو۔
مناسب ہوگاکہ اس موقع پر میں ایک بڑیمحدث اورفقیہہ مام اسحق بن راہویہ کی بھی تحریر پیش کردوں۔وہ کہتے ہیں۔
اجمع المسلمون ان من سب اللہ اورسب رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اودفع شیئا مماانزل اللہ اوقتل نبیا من انبیاء اللہ عزوجل انہ کافر بذلک وان کان مقرا بکل ماانزل اللہ (التمہھید لمافی الموطامن المعانی والاسانید لابن عبدالبر4/226)
مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جوکوئی اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوبرابھلاکہے یااللہ کی نازل کردہ چیزوں میں سے کسی بے زاری کااظہار کرے یااللہ کے نبیوں میں کسی نبی کوقتل کرے تواس سے وہ کافر ہوجاتاہے اگرچہ اس کے بعد وہ تمام چیزوں کا اقرارکرتاہو۔

جاری ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
رانا صاحب ۔جزاک اللہ آپ نے بڑی ہی جامع باتیں مستند حوالوں سے کیں ہیں ۔ جن آیتوں میں عفو ودرگذر کا حکم دیا گیا ہے ۔ ہم ان کو سرے سے موضوع بحث ہی نہیں لاتے ۔ اور اس کا طلاق مختلف تاویلیوں کے ذریعے کہیں اور ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مگر جب اس سلسلے میں جو آیتیں پیش کی جاتیں ہیں ۔ جب ان کے سیاق و سباق پر توجہ دلائی جاتی ہے تو اس کو ماننے سے انکار کردیا جاتا ہے ۔ چونکہ میں محترم شاکر قادری صاحب کی تحریر کے اختیام کا منتظر ہوں اس لیئے میں اپنا یہ استدلال اور دلائل دینے سے ابھی قاصر ہوں ۔ جن آیتوں کو یہاں کوٹ کیا جارہا ہے ۔ اصل میں اس کا تعلق قانونِ رسالت سے ہے ۔ جو کہ پہلے کے انبیاء کے دور میں بھی جاری تھا ۔ یعنی جب کسی نبی کی بعثت کہیں ہوجاتی ہے اور وہ اپنا اتمامِ حجت پورا کردیتا ہے ۔ یعنی حق کو اس طرح ظاہر کردیا جاتا ہے کہ اس کے انکار کی کوئی بھی وجہ باقی نہ رہے ۔ پھر اللہ کا وہ قانون حرکت میں آتا ہے جس کے تحت منکرین عذاب سے دوچار کر دیئے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ قومِ ثمود اور قومِ عاد کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ اور رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کےدور رسالت میں یہ عذاب اللہ نے تلواروں کے ذریعے منتخب کیا ۔ القاعدہ نے بھی اپنی ویب سائیٹ پر جس آیت کو کوٹ کیا ہے ۔ وہ بھی اسی اتمامِ حجت سے تعلق رکھتی ہے ۔ اور اسی آیتِ مبارکہ کو بنیاد بنا کر زمین پر فساد پھیلایا جارہاہے ۔جبکہ اللہ نے جہاد کا قانون قرآن میں بڑی وضاحت سے واضع کیا ہوا ہے ۔ کسی آیت اور حدیث کو سیاق و سباق سے نکال کر اپنی مرضی کے مطابق پیش کرنا پہلے اسلام دشمنوں کا کام تھا کہ وہ مفہوم ہی بدل دیا کرتے تھے ۔ اور اسی بناء پر آج بھی کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ اسی طرح جس حدیث کو کوٹ کرکے آج کے زمانے میں لوگوں پر مسلط کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کا بھی اگر سیاق و سباق دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ جب اتمام حجت پوری ہوگئی اور مسلمانوں اور منافقین کو الگ کیاجارہا تھا ۔ تو اللہ کے رسول صلی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاتھا “ میرا بس چلے تو میں ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں ۔ جو مسجدوں میں نماز کے لیئے نہیں آتے ۔ “ اس حدیث مبارکہ کو اگر سارا معاملہ سامنے رکھ رکر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ قانونِ رسالت کا حصہ تھا۔ مگر آج بھی ہم اس حدیث کو آج کے دور میں نافذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اسی محفل میں کئی لوگوں نے اس حدیث کا بھی اسی حوالے سے متعدد بار ذکر کیا ہے ۔ جو آیاتیں اس سلسلے میں پیش کیں جا رہیں ہیں ۔ وہ بھی اتمامِ حجت سے ہی تعلق رکھتیں ہیں ۔ میں یہ بات ثابت کروں گا کہ کس طرح وہ آیتیں منکرین اور منافقین کے لیئے تھیں ۔ اور وہ کون لوگ تھے ۔ جن پر اس سزا کا اطلاق کیا گیا ۔

ظفری آپ نے دو باتوں کا ذکر کیا
1-جن آیتوں میں عفو ودرگذر کا حکم دیا گیا ہے ۔ ہم ان کو سرے سے موضوع بحث ہی نہیں لاتے
نقد: کیا وہ آیات گستاخ رسول کے حوالے سے عفو و درگذر کا حکم صریح دیتی ہیں؟ ثابت کیجیے۔
دوسری بات آپ نے یہ کہی کہ جن گستاخوں نبی اکرم کے دور میں قتل کیا گیا وہ منافقین یا کفار تھے۔
نقد: تو کیا اس سے یہ اخذ کر لیا جائے کہ اگر کوئی مسلمان گستاخ رسول ہو تو اس پر سزا کا اطلاق نہیں ہوگا؟ یعنی جس امر پر منافقوں اور کفار کو سزا ہے اسی امر کا مرتکب کوئی مسلمان ہو تو اسے کیسے معاف کر دیا جائے؟
 

ابن جمال

محفلین
ظفری صاحب!میں نے پوراآڈیوسنا۔آڈیو میں مفتی صاحب کا طریقہ خطاب اگرچہ اصول بحث کے اعتبار سے نامناسب تھا لیکن جاوید غامدی کی یہ بات کہ اس حدیث کوامامالک نے ذکر نہیں کیاورامام بخاری اورمسلم نے ذکر نہیں کیایہ کون سا استدلال ہے براہ کرم وضاحت کردیں۔
دوسرے وہ کہتے ہیں کہ یہ سب روایتیں ابن تیمیہ نے ذکرکی ہیں توکیاابن تیمیہ نے اپنے گھر سے یہ سب روایتیں بناکرپیش کی ہیں یایہ روایتیں کتب حدیث میں مذکور تھیں ہاں ابن تیمیہ نے جب اس موضوع پر ایک خاص حادثہ کی وجہ سے لکھناچاہاتوتمام بکھری ہوئی تحریوں اوراحادیث وآثارکو یکجاکردیا۔
امید ہے کہ غامدی صاحب کے موقف کی وضاحت کریں گے۔والسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
گستاخ رسول کا فیصلہ تلوار فاروقی سے
قرآن کریم نے طاغوتی و الحادی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونے اور ان سے بغاوت و روگردانی کا سبق دیا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے
الم تر الی الذین یزعمون انھم امنوا بما انزل الیک و ما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکموا الی الطاغوت و قد امروا ان یکفرو بہ (النساء ، 60:4 )
کیا آپ نے ان (منافقوں) کو نہیں دیکھا جو (اپنے منہ سے تو) دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائے اس پر جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اتارا گیا۔(یعنی قرآن پر اور ان کتب سماوی پر) جو آپ سے پہلے اتاری گئیں (لیکن) چاہتے ہیں اپنا قضیہ شیطان کی طرف (ایک شریر آدمی کعب بن اشرف کی طرف) لے جائیں حالانکہ انہیں حکم دیا جاچکا ہے اس کی بات نہ مانیں۔
اکثر مفسرین نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں ایک یہودی اور ایک بشیر نامی منافق کے درمیان جھگڑے کو بیان کیا ہے۔ یہودی نے کہا ہم اپنے اس معاملے کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں لے چلتے ہیں۔ منافق نے اس سے انکار کیا ، کعب بن اشرف کے پاس جانے کے لئے کہا ، بایں سبب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حق پر فیصلہ کرتے کوئی دینوی غرض و لالچ پیش نظر نہ رکھتے ، جبکہ کعب بن اشرف بہت بڑا راشی تھا۔ اس معاملے میں منافق جھوٹا جبکہ یہودی حق پر تھا۔ سو اس نے تحاکم الی الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اصرار کیا تو منافق بادل نخواستہ یہودی کے ساتھ چل پڑا ، دونوں بارگاہ رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں حاضر ہوئے۔ دونوں کے بیانات سن کر حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ باہر نکلتے ہی منافق نے یہودی سے کہا کہ اس فیصلے سے میں راضی نہیں ہوں ، چلو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروائیں ، دونوں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے آپ نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو ہی برقرار رکھتے ہوئے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا۔ منافق پھر بھی نہ مانا ، کہنے لگا چلو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے فیصلہ کروائیں۔ دونوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، یہودی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ساری صورت حال سے آگاہ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں مگر یہ فیصلے پر راضی نہیں ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے Question of Fact حقیقت حال جاننے کے لیے تصدیق کرنے کے لیے منافق سے پوچھا۔ "اھکذا" کیا واقعی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فیصلہ فرما چکے ہیں؟ اس نے کہا "نعم" تسلیم کیا ہاں ایسا ہو چکا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں سے فرمایا
یہیں ٹھہرے رہو یہاں تک کہ میں تمہاری طرف نکل آوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر تشریف لے گئے ، تلوار اٹھائی ، چادر اوڑھی پھر باہر نکلے ، اس منافق کی گردن اڑا دی یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔تفیسر مظہری 154:2 ، تفسیر کشاف 525:1
اس کے بعد ارشاد فرمایا
میں اس طرح فیصلہ کرتا ہوں اس شخص کے بارے میں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے سے راضی نہ ہو۔
یہ خبر پھیل گئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچی ، کہا گیا ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک کلمہ گو مسلمان کو ناحق قتل کر دیا ہے۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
میں گمان نہیں کرتا کہ عمر کسی مومن کے قتل کا اقدام کرے۔(تفسیر کشاف 525:1)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اقدام قتل کو درست قرار دیتے ہوئے اور قتل مسلم سے آپ کو بری قرار دیتے ہوئے یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی
فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لا تجدوا فی انفسھم حرجا مما قضیت و یسلموا تسلیما۔(النساء 65:4)
پس اے (حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) آپ کے پروردگار کی قسم یہ لوگ مومن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے ہر اختلاف میں آپ کو (دل و جان سے) حکم نہ بنائیں پھر جو فیصلہ آپ کر دیں اس سے کسی بھی طرح دل گیر نہ ہوں ، اسے دل سے بخوشی قبول کریں۔
گویا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیصلے کو آخری قطعی و حتمی نہیں سمجھتا اسے بدل و جان تسلیم نہیں کرتا ، وہ سرے سے ایمان دار ہی نہیں ہے اور اسے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے ادبی ، گستاخی ، توہین و تنقیص اور حکم نہ ماننے کی صورت میں قتل کرنا ، ایک مومن کو قتل کرنا نہیں بلکہ ایک گستاخ رسول اور مرتد کو قتل کرنا ہے۔

بحوالہ : "تحفظ ناموس رسالت" از ڈاکٹر محمد طاہر القادری
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top