غامدی نے ناموس رسالت قانون کو خلاف اسلام قرار دے دیا

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ظفری

لائبریرین
باہر رہ کر جو مرضی کہتا رہے۔ ویسے بھی یہ آزاد خیال اسلام کا حامی ہے۔

ان جیسے نام نہاد مسلمانوں کے ہوتے ہوئے ہمیں دشمنوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔
شمشاد بھائی ۔۔ میں معافی کا خواستگار ہوں کہ میں نے اس موضوع پر آپ کی پوسٹ پر اپنے اعتراضات کا آغاز کیا ہے ۔ یہ صرف ایک تمہید ہے ۔ اس موضوع پر ہونے والے اعتراضات پر بحث بعد میں ہوگی ۔

میری تو آج تک ایک بات سمجھ نہیں آئی کہ جب ہم کسی کے بارے میں جب کوئی اعتراض اٹھاتے ہیں تو ہمارے پاس ثبوت کیوں نہیں ہوتے ۔ مثال کے طور پر میرے ایک دوست جو امریکہ میں ہی رہتے ہیں ۔ غامدی صاحب پر بلا جواز تنقید کا آغاز کردیا ۔ پہلے تو میں سنتا رہا ۔ جب ان کی بات ختم ہوگئی تو میں کہا “ آپ بجا فرما رہے ہوں کہ غامدی صاحب نام نہاد مسلم ہیں ۔ اسلام دشمن ہیں ۔ مگر ہم دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہیں ۔ کیا آپ کے پاس اس وقت کوئی ایسا ثبوت یا ان کا کوئی ایسا بیان موجود ہے ۔ جس سے یہ ثابت ہوسکے کہ یہ بیان اسلام سے متصادم ہے ۔ کیا یہ بیان بلکل ایسا ہے جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے ۔ اور اگر ایسا ہے تو پھرمجھے علمی طریقے سے سمجھائیں کہ یہ بیان اس طرح اسلام سے متصادم ہے اور غامدی صاحب واقعی نام نہاد ہیں ۔ “ وہ صاحب بغلیں جھانکنے لگے ۔
اس کی ایک اور مثال یہاں محفل پر بھی دیکھنے میں آئی ۔ ایک نئے قاری یہ وارد ہوئے ۔ سویدا کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے آتے کے ساتھ ہی غامدی صاحب پر اپنی توپوں کا رخ کردیا ۔ انہوں نے کچھ رسالوں کا حوالہ دیا ۔ اور ان رسالوں میں غامدی صاحب کے بیانات پر تنقید بھی “ اُمت “ اخبار کی طرح ہی شر انگیزی کے انداز میں کی گئی تھی ۔ میں نے حوالہ اور ثبوت مانگا تو آج تک جواب ندارد ہے ۔
ہمارا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے ۔ ہم اختلاف کرنے کے شائستہ آداب سے محروم ہوچکے ہیں ۔ ہم اختلاف کو مخالفت بنا لیتے ہیں ۔ ہمارے ہاں اختلاف کا مطلب تعصب اور عناد ہے ۔ جب ہم اختلاف کرتے ہیں تو چند مذہبی گالیاں ہم نے ایجار کررکھیں ہیں ۔ جو ہم ایک دوسرے کو دینا شروع کردیتے ہیں ۔ ہم نے اپنے اندر کبھی یہ ذوق پیدا ہونے ہی نہیں دیا کہ کسی کی بات کو صبر و تحمل سے سنیں ۔ جیسا وہ کہتا ہے ، ویسا اس کو سمجھیں ۔ اس سے سوال کرکے ہی پوچھ لیں کہ تم کہنا کیا چاہتے ہو ۔ یہ ہمارے معاشرے کی بڑی بدقسمتی ہے ۔ ہم اپنے ذہن سے کسی کی بات کا ایک نقشہ تیار کرتے ہیں پھر اس پر تھوپ دیتے ہیں ۔ پھر ہم نے کچھ مخصوص قسم کی باتیں طے کر رکھیں ہوتیں ہیں ۔ جو ہم کہنا شروع کردیتے ہیں ۔ کسی کو فاسد ، کسی کو کافر ، کسی مرتد قرار دینا ہمارا مزاج بن جاتا ہے ۔ آپ اختلافات کسی بھی طور ختم نہیں کرسکتے ۔ اختلافات تو تحقیق اور علم کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ اگر ایک شخص آپ کے سامنے قرآن و سنت سامنے رکھ کر اس کے دلائل دے رہا ہے اور کوئی سمجھتا ہے کہ اس میں جھول ہے تو اس کا جواب کیا ہونا چاہیئے ۔ لعنت و طعن ہونا چاہیئے یا ہم بھی اس کے سامنے عملی بحث کرتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص رکھیں گے ۔ اخلاق جو کہ دین کا بنیادی حصہ ہے اس کو پس پشت رکھتے ہوئے کیا ہم سامنے والے کی پگڑی اچھالیں گے یا ہم اس کو اپنے دلائل دیکر قائل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ یہاں جو ردعمل سامنے آیا ۔ اس سے ذکر کیا کیا جائے جب علماء ہی اس سعادت سے محروم ہیں ۔ موضوع غامدی صاحب کے حوالے سے ہے تو ذرا یہ وڈیو ملاحظہ فرمائیں کہ وہ شخص کیا بات کہہ رہا ہے ۔ کیا دلائل دے رہا ہے ۔ قرآن و سنت سے کیا واضع کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ پھر آئمہ کی آراء کے بارے میں اس کی کیا تحقیق ہے ۔ اس کے بعد مفتی منیب الرحمن کا استدلال دیکھ لیں ۔ پھر غامدی صاحب نے کیا جواب دیا یہ بھی دیکھیں ۔ اور سوچیں کہ عملی بحث کیا ہوتی ہے ۔ دلائل ، ثبوت قرآن و سنت اور علماء کی روشنی میں کیا ہوتے ہیں ۔ اور کسی سے کوئی بھی بات اپنی تقلید کی روش کی وجہ سے تھوپنے سے کیا مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔
وڈیو ملاحظہ فرمائیں ۔ ‌
 

ظفری

لائبریرین
اسلام میں شروع ہی سے انتشار و افتراق رہا ہے اور ابتدائے اسلام سے ہی لوگ مختلف نظریات کے حامل رہے ہیں لیکن آج کی صورت حال کچھ زیادہ ہی افسوس ناک ہےہر کوئی اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہا ہے، کہیں منافق ملا اسلام کا ٹھیکے دار بنا بیٹھا ہے اور اسلام کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے تو کہیں شیطان کے چیلے اسلامی شریعت کی تشکیل نو کے نام پر اپنے آپ کو پیغمبر، اور شارح سمجھ کر نئی نئی تشریحات اورتوضیحات پیش کر رہے ہیں کوئی قرآن کو تو تسلیم کرتا ہے لیکن صاحب قرآن اور اس کی جانب سے بیان کی گئی شرح کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے اور حسبنا کتاب اللہ کا نعرہ لگا رہا ہے، کوئی حدیث کے نام پر قرآن کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے ۔
منافق ملا کو کیا پتہ ناموس رسالت کیا ہے، وہ تو ابولہب کو مرنے کے بعد اسکی انگلی سے شہد اور دودھ پلا رہا ہے
حالانکہ جب کوہ صفا پر اولین خطاب سن کر ابولہب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب ہاتھ کا اشارہ کر کے کہا تھا" تب لک" تم پر بربادی آئے کیا تم نے یہی بات کہنے کے لیے ہمیں یہاں بلایا تھا ۔۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کی گستاخی پر خدا وند متعال کو غیرت آئی اور پوری سورہ لہب نازل ہوئی اور اس کے دونوں ہاتھوں کے ٹوٹ جانے اور ہلاک ہونے کی وعید سنائی گئی۔
خود رسالت مآب نے فتح مکہ کے موقع پر گیارہ مردوںاور چھ عورتوں کے استثنا کے ساتھ عام معافی کا اعلان فرمایا، یہ گیارہ مرد اور چھ عورتین کون تھیں اور ان کا جرم کیا تھا، یہ سب کے سب گستاخ رسول تھے، اور ان کے بارے میں حکم تھا کہ چاہے یہ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کے علاف میں لپیٹ لیں تب بھی ان کو قتل کر دیا جائے
گوکہ ان میں سے بھی بعض کو معافی دے دی گئی اور بعض کو قتل کر دیا گیا
لیکن یہ معافی دینے والا کون ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ظاہر ہے کہ خود سرور عالم ہی اس جرم کی معافی دیں تو دیں ، میں آپ کوئی منافق ملا یا دجال کا چیلا کسی کو معافی دینے کا حق نہیں
اب رہا غامدی صاحب کا معاملہ تو میں تو اتنا ہی کہوں گا کہ
غامدی صاحب کے ساتھ اللہ تعالی وہی سلوک کرے جس کے وہ مستحق ہیں یعنی " علیہ ما علیہ"

استادِ محترم ۔۔۔ یہ بحث گو کہ کچھ طول میں جائے گی ۔ مگر یہاں آپ کی اس پوسٹ کے دو حصوں پر اعتراض کرنے کی جسارت کروں گا ۔ اُمید ہے درگذر فرمائیں گے ۔
چونکہ میں نے یہ موضوع بہت بعد میں دیکھا اور گفتگو اپنے پیرائے سے نکل کر ہمیشہ کی طرح لعنت و طعن اور فتووں کی زد میں آگئی ہے ۔ لہذا اس سارے مزاج کو ایک طرف رکھ کر میں صرف آپ کی پوسٹ سے ہی اپنی کسی بحث کا آغاز کرنا چاہوں گا ۔ مگر اس سے پہلے مجھے کچھ وضاحت درکار ہیں ۔ جس سے پھر شاید کوئی علمی بحث کا آغاز ہوسکے ۔
پہلی بات کہ آپ نے کعبے کے غلاف میں چھپنے والوں کو قتل کرنے کے جس واقعے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سزائیں کب دیں تھیں ۔ وہ مکمل واقعہ کیا تھا اور وہ کونسا موقع تھا ۔ ؟
دوسرا یہ کہ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ معافی کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو پھر سزا کا دینے کا اختیار ایک عام مسلمان کو کیونکر دیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ سزا بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ کسی کو اس کی سب سے بڑی نعمت یعنی زندگی سے محروم کردینے کی سزا ہے ۔ امید ہے آپ اس پر کوئی مفصل جواب دیکر اپنے اس طالبعلم کو ہمیشہ کی طرح مطمئن کریں گے ۔ اور اس پر کوئی سیر حاصل حقائق سامنے آسکیں گے ۔
 

ظفری

لائبریرین
حضور جو حدیں اللہ تعالٰی نے مقرر کر دی ہیں تو بدل نہیں سکتیں چاہے ہزار غامدی آ جائیں اور فتوے دیتے رہیں۔ عورت کو اگر حکم ہے کہ ایسا لباس پہنے جس سے اُس کی زینت ظاہر نہ ہو تو یہ اللہ تعالٰی کی مقرر کردہ حد ہے۔
شمشاد بھائی ۔۔۔ میں نے باقی باتیں اس اقتباس سے حذف کردیں ہیں ۔ کیونکہ وہ ذاتیات سے تعلق رکھتیں ہیں ۔ مگر جو حصہ رہنے دیا وہ میرے تبصرہ کا ماخذ ہے ۔ کیونکہ آپ نے حدود اللہ کا ذکر کیا ہے ۔ اور ظاہر ہے وہ حدود قرآن میں ہی بیان ہوئی ہونگیں ۔
میرا آپ سے سوال ہے کہ حدود اللہ کیا ہیں ۔ ؟ اور قرآن میں کن معاملات میں اللہ نے قانون سازی کی ہے ۔ اور آیا عورت کی زینیت سے آپ کی کیا مراد ہے ۔ جبکہ اللہ نے اس معاملے میں چار اصول مختص کیئے ہیں ۔ جن میں سے چار عورتوں کے لیئے اور ان چار میں سے دو مردوں سے متعلق ہیں ۔ چونکہ یہاں بھی آپ نے حد کا ذکر کیا تو میں جاننا چاہوں گا کہ یہ حد قرآن میں کہاں بیان ہوئی ہے ۔ مگر واضع رہے کہ آپ کو پہلے حد کی وضاحت کرنی ہے ۔ پھر اس کی روشنی میں عورت کی زینت سے متعلق اللہ کی لگائی ہوئی حد کو سمجھنے میں مدد ملے گی ۔
آپ کے جوابات کا انتظار رہے گا ۔ شکریہ
 

ظفری

لائبریرین
عثمان بھائی میں نہ تو قلابازیاں لگا رہا ہوں اور نہ ہی مداری بن کر آپ کو قلابازیاں لگوا رہا ہوں۔ الفاظ کا انتخاب بیشک اپنے اخلاق کا پتہ دیتا ہے۔

اسلام وہی ہے جو اللہ تعالٰی نے قرآن میں فرمایا اور طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا۔ اب اگر کہیں مسلمان نام نہاد ٹھہرتے ہیں تو یہ جدید اسلام کے ٹھیکیداروں کی وجہ سے ہیں، جن میں ایک خاتون بھی شامل ہیں امینہ ودود، جنہوں نے جمعہ کی نماز کی امامت کی تھی اور وہ بھی ایک گرجا گھر میں، جہاں مردوں اور عورتوں نے اکٹھے نماز پڑھی تھی، تصاویر تو آپ نے بھی دیکھی ہوں گی۔ خیر سے یہ خاتون اسلامی سکالر بھی ہیں۔

اسلام آج سے چودہ سو سال پہلے مکمل ہو چکا۔ تب ہی سے اس میں کسی قسم کی تبدیلی کی گنجائش نہیں چہ جائیکہ آج اس میں ان نام نہاد اسکالروں کو اس میں نقائص نظر آ رہے ہیں۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں ہدائت عطا فرمائے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

یہاں بھی میرے چند اعتراضات ہیں ۔ مگر گفتگو ترتیب وار نہیں رہے گی ۔ اس لیئے فی الوقت میں اس اعتراض کو موقوف کرتا ہوں ۔ کسی مناسب موقع پر آپ کی یہاں چند باتوں کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں ۔
 

عین عین

لائبریرین
امت کے پاس ایسی خبریں ضرور ملیں گی جو دوسروں کو نہیں ملتیں۔ اس کے ذرایع کیا ہیں کسی کو خبر نہیں۔ حیرت یہ ہے کہ لوگ اس اخبار کو کیسے پڑھ لیتے ہیں اور بھروسا کیوں کرتے ہیں اس پر۔
 

ظفری

لائبریرین
امت کے پاس ایسی خبریں ضرور ملیں گی جو دوسروں کو نہیں ملتیں۔ اس کے ذرایع کیا ہیں کسی کو خبر نہیں۔ حیرت یہ ہے کہ لوگ اس اخبار کو کیسے پڑھ لیتے ہیں اور بھروسا کیوں کرتے ہیں اس پر۔
اللہ بہتر جانتا ہے بھائی کہ لوگ کیسے پڑھ لیتے ہیں ۔ رہی ذرائع کی بات تو ہم ایک دوسرے سے سن لیتے ہیں کیا یہ کافی نہیں ہے ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
غامدی صاحب جب اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں تو ان کے نزدیک:

  • اسلامی میں جمہوری طرز حکومت ہونا چاہیئے
  • اسلامی مقننہ اور قانون سازی کے لیے شورائی نظام ہونا چاہیئے
  • اور یہی مجلس شوری اس سلسلہ میں با اختیار ہوگی کہ وہ بنیادی اسلامی اصولوں کے مطابق قانون سازی کرے
  • اور یہ بھی کہ جو حدود اور قوانین قرآن نے دے دیے ہیں ان میں کوئی تبدیلی کرنے کی شوریٰ مجاز نہیں
  • اور جہاں قرآن نے کوئی واضح قانون نہیں دیا تو وہاں قرآن شوریٰ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ انتظامی امور کو بہتر انداز میں چلانے کے لیے قانون سازی کرے
اب ہم غامدی صاحب کے ان اصولوں کو ہی لیتے ہیں، اور ایک مفروضہ قائم کرتے ہیں:
ایک لمحے کے لیے فرض کر لیں کہ غامدی صاحب کی بات درست ہے اور قرآن نے توہین رسالت کا کوئی قانون نہیں دیا اور کسی بھی آیت کی رو سے گستاخ رسول کی سزا موت ثابت نہیں ہوتی
محترم شاکر صاحب ! یہاں تک ایک بات سمجھ آئی کہ آپ نے اس قانون کے معاملے میں غامدی صاحب کا نکتہِ نظر بیان کیا ۔ مگر یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے ان کے نکتہ نظر کو مفروضے سے کیوں تعبیر کیا ۔ جبکہ نیچے آپ اس بات کا اقرار ان الفاظوں میں کر رہے ہیں کہ “ غامدی صاحب! مجھے اس سے غرض نہیں کہ گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں! “
تو یہاں مفروضہ کیسے پیدا ہوگیا ۔ جبکہ آپ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ آیا قرآن میں اس جرم کی سزا بیان ہوئی ہے یا نہیں ۔ ۔ لفظ “ مفروضہ “ کے چناؤ سے ہی غامدی صاحب پر اعتراضات کا جواز ہی غلط ثابت ہوجاتا ہے ۔ جس کے تحت اس موضوع کا اجراء ہوا ہے ۔ یعنی غامدی صاحب نے اس قانون کو قرآن سے متصادم قرار دیا ہے ۔ پھر اس کے بعد کیا اعتراضات باقی رہ جاتے ہیں ۔ ہاں اس کے بعد آئمہ کی آراء رہ جاتی ہیں ۔ جس پر گفتگو کی جاسکتی ہے کہ ان کی کیا آراء تھیں اور ان کے اطلاق کی کیا شرائط آئمہ کرام نے مختص کیں تھیں ۔
تو اب ہم اس مفروضہ کو غامدی صاحب کے ہی اصولوں کے تحت پرکھیں گے
یہاں لفظ “ مفروضہ “ ہی غلط ہے ۔ تو پھر قرآن کے احکامات کے مطابق یہاں کیا توجہہ پیش کرنی چاہیئے ۔
کیا اسلامی مقننہ کو اختیار نہیں کہ وہ اپنے رسول کی عزت و حرمت کے لیے قانون سازی کرے؟
بلکل کرے ۔۔۔ مگر اس میں آئمہ کرام کی آراء اور ان کے مطابق اس قانون کے اطلاق کی کیا شرائط ہیں ۔ وہ بھی عوام الناس کے سامنے پیش کی جائیں ۔ تاکہ پھر جو قانون سازی ہو اس کی بنیاد کی صحیح توجہہ سامنے آسکے ۔ جس قانون پر یہاں لوگ فتوے لگا رہے ہیں ۔ میں نے ان سے اس قانون کی شقیں ہی پوچھ لیں تو کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہوگا ۔ بلکہ شاید ہی کسی کو معلوم ہے کہ ملک کے آئین میں اس قانون کو انگریزی میں جس لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اس کا مطلب کیا ہے ۔ اگر اس قانون کے اس نام کا صرف احاطہ کیا جائے تو اس کا مطلب توہینِ رسالت تو نکلتا ہی نہیں ۔ تو پھر کس طرح اس قانون پر لوگ اپنے “ مسلک “ کے حساب سے دعوے کر رہے ہیں ۔
[/quote]
کیا شورائی نظامی کے تحت وجود میں آنے والے قوانین کو اسلام تحفظ نہیں دیتا
[/quote]
بلکل دیتا ہے مگر اس سے پہلے دیکھنا پڑے گا کہ اس قوانین کے تحت کسی کی جان ، مال اور آبرو پر اس قانون کے غلط استعمال سے کیا کیا مشکلات پیدا ہوسکتیں ہیں ۔ واضع رہے کہ حج الوادع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان ، مال اور آبرو کی حرمت کو کن کن چیزوں پر فوقیت دی تھی ۔ کیونکہ اول و آخر یہ قانون انسانوں کے عقل و فہم کے نیتجے میں وجود میں آئے گا ۔ اور اگر اس سلسلے میں قرآن وسنت میں کوئی سزا مختص ہے تو سر آنکھوں پر بصورتِ دیگر ایسے قوانین پر انسان اپنا اعتراض پیش کرسکتا ہے ۔
اور کیا شورائی نظام کے تحت وجود میں آنے والے کسی قانون کے بہترین ہونے کے لیے یہ بات کافی نہیں:
ڈیڑھ ہزار سال سے باوجود اس کے کہ مسلمان ہمیشہ نظریاتی اختلاف کا شکار رہے لیکن ایک خاص قانون (مراد، توہین رسالت کا قانون ہے) کے بارے میں کبھی بھی کسی کو اختلاف نہ ہوا اور تمام لوگوں کا اس پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے (ماسوائے چند تنہا تنہا آوازوں کے)
اور آج بھی تمام اسلامی فرقوں اور مسالک کے خواص (یعنی علما) اور عوام (یعنی جمہور) اس قانون پر اتفاق رائے رکھتے ہیں اور متحد و متفق ہیں
اور اس کا مظاہرہ ہر روز دیکھنے میں آرہا ہے
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جس جمہور کی آپ بات کر رہے ہیں ۔ اس جمہور کے حتمی رائے کو سامنے لائیں ۔ اور اس سلسلے میں گستاخ سے سزا سے پہلے جس سلوک کو آئمہ کرام نے تجویز کیا ہے اس کا بھی ذکر کیا جائے تاکہ کسی کی جان لینے سے پہلے آئمہ کرام کے نزدیک کسی گستاخ کو دی جانے والی سزا کا صحیح محرک سامنے آسکے ۔

پھر یہ غامدی صاحب کی کیسی روش خیالی ہے؟
اور کیسی جدت پسندی ہے؟
کہ وہ نہ تو شوریٰ کی مشاورت سے وجود میں آنے والے قانون کو تسلیم کرتے ہیں
نہ ہی انہیں دیڑھ ہزار سالہ اتفاق رائے (اجماع امت) کی پروا ہے
اور نہ ہی انہیں جمہورعوام کے جذبات اور عقیدت کا احترام ہے
قرآن وسنت میں یہ سزا نہیں ہے ۔ یہ بات معلوم ہوگئی ۔ اب آئمہ کرام کے اجماع پر بات آگئی ہے تو پہلے آپ اجماع امت کے مرتب کیئے ہوئے قوانین سامنے لائیں ۔ ورنہ بصورتِ دیگر غامدی صاحب تو کیا ہر کوئی اپنے تحفظات بیان کرے گا ۔ ضروری تو نہیں ہر شخص آنکھ بند کرکے تقلید کے قاعدے پر عمل کرکے ہر بات کا یقین کر لے ۔ کیونکہ یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ یہ قانون آسمانی صحیفہ نہیں بلکہ آئمہ کرام کی عقل و فہم کے نتیجے میں بننے والا ایک ریاستی قانون ہے ۔
کیا انہیں معلوم نہیں
کہ کرمنل پروسیجرکوڈ (جو انگریزوں کی تخلیق ہے) اس میں بھی ہتک عزت کا قانون موجود ہے؟
خود ”تاج برطانیہ“ کی حرمت کا قانون موجود ہے، حتی کہ وکٹورین تاج کی تصویر کی طرف صرف بندوق یا ڈنڈے سوٹی کے ساتھ اشارہ کرنے بھی تاج برطانیہ کی توہین ہے اور اس کی باقاعدہ سزا ہے یہ الگ بات کہ اب انہوں نے سزائے موت کو ختم کر دیا لیکن یہ انکا معاملہ ہے کہ وہ تاج برطانیہ کے گستاخ کو کیا سزا دیتے ہیں
ہم مسلمان ہیں اورہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا پاس ہے اگر ہم نے اس سلسلہ میں کوئی قانون سازی کی ہوئی ہے تو ان کے پیٹ میں کیوں مروڑ اٹھتی ہے

غامدی صاحب! مجھے اس سے غرض نہیں کہ گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں!
میں مسلمان ہوں اور اتنا جانتا ہوں کہ انتہائی کمترین درجہ کا ایمان رکھنے والا مسلمان بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا اسی لیے ہم نے اپنے ملک میں قانون سازی کی ہوئی ہے
اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر پیپلز پارٹی کے اراکین اتنا رد عمل دکھا سکتےہیں کہ
ہزاروںگاڑیاں جلادی جائیں
بینک لوٹ لیے جائیں
فیکٹریوںاور کار خانوں کو نذر آتش کر دیا جائے
سیکڑوں لوگوں کو زندہ جلا دیا جائے

تو اسے ہماری حکومت رد عمل کہہ کر جان چھڑا لے ۔ ۔ ۔ ۔ اور آپ جیسے روشن خیال مسلم سکالرز اس پر کوئی گفتگو نہ کریں
کتنے لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی؟
کتنے لوگوں کو گرفتار کیا گیا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
استادِ محترم ۔۔۔۔ گستاخی معاف ۔۔۔۔
یہ اقتباس اور اسکے بعد کی تمام باتیں ۔۔۔ نہ تو قرآن و سنت سے وضع ہیں اور نہ ہی آئمہ کرام نے ان باتوں کو بنیاد بناکر ارتداد کے لیئے قانون سازی کی ہے ۔ آئمہ کرام نے بھی اس سلسلے میں جو قانون سازی کی ہے اور پھر اس قانون سازی کے نتیجے میں دی جانے والی سزا سے پہلے جو معاملہ اختیار کیا ہے ۔ وہ انتہائی قابلِ قبول ہے ۔ یقین جانیئے جن جذبات کا آپ نے اظہار کیا ہے ۔ اس پر اگر کوئی قانون سازی ہمارئ آئمہ کرام نے کی ہوتی تو آج مسلم آبادی نصف سے بھی کم ہوچکی ہوتی ۔
یہاں آپ کے نکات کا منطقی جواب دینا مقصود تھا ۔ اس لیئے میں تفصیل میں نہیں گیا ۔ مگر آپ یہ ضرور بتایئے گا ۔ اتدراد کا قانون بناتے وقت آئمہ کرام نے کیا قانون سازی کی ۔ اور اس کا اطلاق ایک مرتد پر کن شرطوں پر رکھا ۔ تاکہ ہم طالب علموں کو اس سزا کی صحیح توجہہ دین کی روشی میں سمجھ آسکے ۔
ایک بار پھر اپنی گستاخیوں کے لیئے معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے آپ درگذر کردیں گے ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محترم شاکر صاحب ! یہاں تک ایک بات سمجھ آئی کہ آپ نے اس قانون کے معاملے میں غامدی صاحب کا نکتہِ نظر بیان کیا ۔ مگر یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ آپ نے ان کے نکتہ نظر کو مفروضے سے کیوں تعبیر کیا ۔ جبکہ نیچے آپ اس بات کا اقرار ان الفاظوں میں کر رہے ہیں کہ “ غامدی صاحب! مجھے اس سے غرض نہیں کہ گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں! “
تو یہاں مفروضہ کیسے پیدا ہوگیا ۔ جبکہ آپ اس بات کو تسلیم کررہے ہیں کہ آپ کے علم میں یہ بات نہیں کہ آیا قرآن میں اس جرم کی سزا بیان ہوئی ہے یا نہیں ۔ ۔
عزیز م ظفری! سلامت باشید! مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے علمی انداز میں نکات اٹھائے اورکچھ دیر پہلے جو دھاگہ بلا دلیل اور افتراق پھیلانے والی گفتگو کی نذر ہو رہا تھا وہ اب ایک مفید علمی گفتگو کا آغاز بن رہا ہے۔ میں ابھی آفس سے آیا ہوں تو آپ کے مراسلات دیکھے میں آپ کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب استطاعت بھر دینے کی کوشش کرونگا جس میں کچھ وقت تو ضرور صرف ہوگا تاہم فوری طور پر میں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری سمجھا:
میں نے آپ کے اقتباس کے کچھ حصوں کو سرخ رنگ دیا ہے اور غلط فہمی کا تعلق انہیں حصون سے ہے۔
صورت حال یوں ہے کہ:

  1. میں نے غامدی صاحب کے نظریہ کو مفروضہ قرار اس لیے دیا کہ یہ نظریہ واقعی مفروضہ ہے،
  2. دوسرا یہ کہ میں نے اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ” میرےعلم میں یہ بات نہیں کہ آیا قرآن میں اس جرم کی سزا بیان ہوئی ہے یا نہیں“ بلکہ میں نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ "مجھے اس سے غرض نہیں کہ گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں! “ یعنی تھوڑی دیر کے لیے ہم اس بات سے قطع نظر کر لیں کہ” گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں“
  3. میں نے اپنے مراسلہ میں کہیں بھی قرآن میں گستاخ رسول کی سزا کی موجودگی سے لاعلمی کا نہ تو اقرار کیا ہے اور نہ ہی یہ بات تسلیم کی ہےکہ ”میرےعلم میں یہ بات نہیں کہ آیا قرآن میں اس جرم کی سزا بیان ہوئی ہے یا نہیں“
  4. الحمد للہ میرے علم میں یہ بات موجود ہے کہ یہ قانون قرآن کریم میں موجود ہے، اس لیے میں نے غامدی صاحب کے نظریہ کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے اسے صرف ﹶ” ایک لمحہ“ کے لیے درست تسلیم کرتے ہوئے اس کو غامدی صاحب کے اپنے اصولوں کے تحت پرکھا ۔ اور اس بنیاد پر گفتگو کی کہ ”فرض کیا اگر یہ قانون قرآن میں موجود نہیں تب بھی اگر شورائی نظام کے تحت مقننہ نے اس کو بنایا ہے تو قرآن اس قانون کو تحفظ دیتا ہے کیونکہ قرآن کریم خود مشاورت کے ذریعہ امور طے کرنے کا حکم دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: وامرھم شوری بینھم ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ارشاد ہے: وشاورھم فی الامر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور شورائی نظام کے تحت قانون سازی کو تو غامدی صاحب بھی درست تسلیم کرتے ہیں۔



لفظ “ مفروضہ “ کے چناؤ سے ہی غامدی صاحب پر اعتراضات کا جواز ہی غلط ثابت ہوجاتا ہے ۔ جس کے تحت اس موضوع کا اجراء ہوا ہے ۔ یعنی غامدی صاحب نے اس قانون کو قرآن سے متصادم قرار دیا ہے ۔ پھر اس کے بعد کیا اعتراضات باقی رہ جاتے ہیں ۔ ہاں اس کے بعد آئمہ کی آراء رہ جاتی ہیں ۔ جس پر گفتگو کی جاسکتی ہے کہ ان کی کیا آراء تھیں اور ان کے اطلاق کی کیا شرائط آئمہ کرام نے مختص کیں تھیں ۔
لفظ مفروضہ کا چناؤ انتہائی احتیاط سے اور بالکل درست طور پر کیا گیا اس لیے اوپر کے اقتباس میں اٹھائے گئے سوالات خود بخود رد ہو جاتے ہیں اس لیے مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی
 

شاکرالقادری

لائبریرین
[SIZE=+2]اب ذرا سورہ احزاب کی آیات 57 تا 62 کا مطالعہ کر لیجئے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ قرآن میں گستاخی کرنے اور اللہ کے رسول کو اذیت دینے والی کی سزا کیا ہے
57.[/SIZE] إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًاO57.
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے
o57.
Surely those who offend Allah and His Prophet, Allah curses them in the world and in the Hereafter and He has prepared for them a disgraceful torment
.
[SIZE=+2]58.[/SIZE] وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًاO58.
اور جو لوگ مومِن مَردوں اور مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا

And those who hurt the believing men and the believing women without their doing anything (wrong), surely they bear (on themselves) the burden of a false allegation and an open sin
.
[SIZE=+2]59.[/SIZE] يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًاO59.
اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہے
O Prophet! Say to your wives, your daughters and the women of believers that (while going out) they should draw their veils as coverings over them. It is more likely that this way they may be recognized (as pious, free women) and may not be hurt (considered by mistake as roving slave girls). And Allah is Most Forgiving, Ever-Merciful. [SIZE=+2]
60.[/SIZE] لَئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًاO60.
اگر منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بُغض اور گستاخی کی) بیماری ہے، اور (اسی طرح) مدینہ میں جھوٹی افواہیں پھیلانے والے لوگ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء رسانی سے) باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر ضرور مسلّط کر دیں گے پھر وہ مدینہ میں آپ کے پڑوس میں نہ ٹھہر سکیں گے مگر تھوڑے (دن)
If the hypocrites and those in whose hearts is the disease (of malice and insolence against the Holy Prophet [blessings and peace be upon him]) and (likewise) those who spread false rumours in Madina do not desist, then We shall certainly make you overmaster them. Then they will not be able to stay in the neighbourhood of Madina but for a few (days).
[SIZE=+2]61.[/SIZE] مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًاO61.
(یہ) لعنت کئے ہوئے لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، پکڑ لئے جائیں اور چُن چُن کر بری طرح قتل کر دیئے جائیں
(These) accursed people (who spread false
rumours, promote hatred, strife and terrorism and denigrate the Holy Messenger and his family), wherever found, are to be seized and mercilessly killed by way of target killing
.
[SIZE=+2]62.[/SIZE] سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO62.
اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے
This practice of Allah has (continued) through generations that have passed before, and you will never find any amendment in the way practised by Allah.
 

الف نظامی

لائبریرین
اللہ تبارک و تعالی جس طرح اپنی نسبت شرک کو کسی صورت میں گوارا نہیں کرتا اور اس گناہ و جرم کے مرتکب کو کبھی بھی معاف نہیں فرماتا ، اسی طرح اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بے ادبی ، گستاخی اور اہانت و تحقیر کرنے والے کا وجود بھی کائنات ارضی پر برداشت نہیں کرتا۔ تا آنکہ صفحہ ہستی سے اس کا نام و نشان مٹا دیا جائے۔ علاوہ ازیں اسے ہمیشہ کے لئے ملعون و مردود بھی قرار دیتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا۔
ملعونین اینما ثقفوا اخذوا و قتلو تقتیلا- الاحزاب 61:33
پھٹکارے ہوئے جہاں پائے جائیں پکڑے جائیں اور جان سے ذلت کی موت مارے جائیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اب ذرا عوامی باتیں "میں نہیں مانتا" کے آہنگ و ساز میں۔
پیجے کو پھپھا کیا لکھنا ، تاثیرے کو ماما کیا لکھنا
غامدی کو علامہ کیا لکھنا ، اس جہل کو عالم کیاااااا لکھنا
کیاااااااااااا لکھنا۔
بہ آہنگِ حبیب جالب
 

آبی ٹوکول

محفلین
غامدی صاحب جب اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں تو ان کے نزدیک:

غامدی صاحب!
آج آپ میڈیا پر کہتے پھرتے ہیں کہ:
سلمان تاثیر کا قاتل دوہرے تہرے جرم ا مرتکب ہوا، ایک تو اس نے قانون کو ہاتھ میں لیا، دوسرے اس نے اس شخص کو قتل کیا جس کی حفاظت پر وہ مامور تھا، تیسرا وہ فرائص منصبی میں خیانت کا مرتکب ہوا۔

مجھے آپ یہ بتایئے!
آپ نے سلمان تاثیر کے متعلق یہی بات کیوں نہ کہی
وہ بھی تو ۔ ۔ ۔۔ عدالتی پروسیجر کو نظر انداز کرتے ہوئے، عیسائی عورت کو سپورٹ کر کے قانون کو ہاتھ میں لے رہے تھے
وہ بھی تو۔ ۔ ۔ ۔ جس قانوناور آئین کی حفاظت پر مامور تھے اسی قانون اور آئین کا قتل کر رہے تھے
وہ بھی تو۔ ۔۔ ۔ فرائض منصبی میں خیانت کے مرتکب ہو رہے تھے

تب۔ ۔ ۔ ۔! آپ کے جدید اور روشن خیال اسلامی قوانین کی کونسی شق آپ کو حق بات کہنے سے روک رہی تھی؟
تب آپ نے اہتمام وانصرام کے ساتھ میڈیا پر ان ارشادات عالیہ سے لوگوں کو کیوں نہ نوازا
میں آپ کے متعلق کیا سمجھوں ۔ ۔ ۔ ۔؟
کیا آپ بھی اسی قسم کے روشن خیال علما میں سے تو نہیں
جو ہارون الرشید اور مامون الرشید کو خوش کرنے کے لیے احادیث وضع کیا کرتے تھے
اگر کسی بادشاہ وقت کو کبوتر بازی کا شوق ہوا تو، روشن خیال اور بادشاہی مولوی نے فورا حدیث وضع کر لی
”کان النبی یطیر الحمام“ یعنی ۔۔ ۔ ۔ نبی کبوتر اڑایا کرتے تھے
نعوذ باللہ من شرور انفسنا

آپ کون سے بادشاہ کو خوش کر رہے ہیں، وہی جرم ایک حکمران کرے تو آپ کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ آپ کے لبوں پر تالےپڑ جاتے ہیں
اور وہی جرم ایک عام پاکستانی سے سرزد ہو جائے تو
آپ کی زبان مبارک در افشانیاں اور گل پاشیاں کرنا شروع کر دیتی ہے
بہ مصطفی برسان خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست
والسلام علی من تبع الہدیٰ

عزیز م ظفری! سلامت باشید! مجھے خوشی ہوئی کہ آپ نے علمی انداز میں نکات اٹھائے اورکچھ دیر پہلے جو دھاگہ بلا دلیل اور افتراق پھیلانے والی گفتگو کی نذر ہو رہا تھا وہ اب ایک مفید علمی گفتگو کا آغاز بن رہا ہے۔ میں ابھی آفس سے آیا ہوں تو آپ کے مراسلات دیکھے میں آپ کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب استطاعت بھر دینے کی کوشش کرونگا جس میں کچھ وقت تو ضرور صرف ہوگا تاہم فوری طور پر میں نے ایک غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری سمجھا:
میں نے آپ کے اقتباس کے کچھ حصوں کو سرخ رنگ دیا ہے اور غلط فہمی کا تعلق انہیں حصون سے ہے۔
صورت حال یوں ہے کہ:

  1. میں نے غامدی صاحب کے نظریہ کو مفروضہ قرار اس لیے دیا کہ یہ نظریہ واقعی مفروضہ ہے،
  2. دوسرا یہ کہ میں نے اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ” میرےعلم میں یہ بات نہیں کہ آیا قرآن میں اس جرم کی سزا بیان ہوئی ہے یا نہیں“ بلکہ میں نے اس امر کا اظہار کیا ہے کہ "مجھے اس سے غرض نہیں کہ گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں! “ یعنی تھوڑی دیر کے لیے ہم اس بات سے قطع نظر کر لیں کہ” گستاخ کی سزا قرآن کریم میں موجود ہے یا نہیں“
  3. میں نے اپنے مراسلہ میں کہیں بھی قرآن میں گستاخ رسول کی سزا کی موجودگی سے لاعلمی کا نہ تو اقرار کیا ہے اور نہ ہی یہ بات تسلیم کی ہےکہ ”میرےعلم میں یہ بات نہیں کہ آیا قرآن میں اس جرم کی سزا بیان ہوئی ہے یا نہیں“
  4. الحمد للہ میرے علم میں یہ بات موجود ہے کہ یہ قانون قرآن کریم میں موجود ہے، اس لیے میں نے غامدی صاحب کے نظریہ کو مفروضہ قرار دیتے ہوئے اسے صرف ﹶ” ایک لمحہ“ کے لیے درست تسلیم کرتے ہوئے اس کو غامدی صاحب کے اپنے اصولوں کے تحت پرکھا ۔ اور اس بنیاد پر گفتگو کی کہ ”فرض کیا اگر یہ قانون قرآن میں موجود نہیں تب بھی اگر شورائی نظام کے تحت مقننہ نے اس کو بنایا ہے تو قرآن اس قانون کو تحفظ دیتا ہے کیونکہ قرآن کریم خود مشاورت کے ذریعہ امور طے کرنے کا حکم دیتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے: وامرھم شوری بینھم ۔ ۔ ۔ ۔ نیز ارشاد ہے: وشاورھم فی الامر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور شورائی نظام کے تحت قانون سازی کو تو غامدی صاحب بھی درست تسلیم کرتے ہیں۔




لفظ مفروضہ کا چناؤ انتہائی احتیاط سے اور بالکل درست طور پر کیا گیا اس لیے اوپر کے اقتباس میں اٹھائے گئے سوالات خود بخود رد ہو جاتے ہیں اس لیے مزید لکھنے کی گنجائش نہیں رہتی

السلام علیکم !
محترم شاکر القادری صاحب اللہ پاک آپ کو تمام تر جسمانی قوٰی کی بہترین حالت کہ ساتھ اپنے حفظ و ایمان میں رکھے آپ نے نہیات علمی انداز میں مسئلہ ھذا میں بھرپور قوت استدلال کہ ساتھ گفتگو فرمائی جو یقینا ہم جیسے کم علموں کی دلی تسکین و تشفی کا سامان ہے اللہ سے دعا ہے کہ وہ آپکو آپکی اس قسم کی تمام تر کوششوں میں خلوص نیت کے ساتھ کامیاب و کامران فرمائے آمین آپکے مندرجہ بالا دنوں مراسلے پڑھ کر دل سے ڈھیروں دعائیں اور اللہ و اکبر کی صدائے بے اخیتار نکلی سو خود کو روک نہ پایا لہذا یہ مراسلہ رقم کر ڈالا احباب سے دلی معذرت کہ علمی گفتگو میں مخل ہوا ہوں والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
[SIZE=+2]
[/B][/COLOR][SIZE=+2]61.[/SIZE] مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًاO61.
(یہ) لعنت کئے ہوئے لوگ جہاں کہیں پائے جائیں، پکڑ لئے جائیں اور چُن چُن کر بری طرح قتل کر دیئے جائیں
(These) accursed people (who spread false
rumours, promote hatred, strife and terrorism and denigrate the Holy Messenger and his family), wherever found, are to be seized and mercilessly killed by way of target killing
.
[SIZE=+2]62.[/SIZE] سُنَّةَ اللَّهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًاO62.
اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے
This practice of Allah has (continued) through generations that have passed before, and you will never find any amendment in the way practised by Allah.

میرے مراسلہ نمبر 29 سے ملا کر پڑھیے ۔۔ ۔ ۔!

منافقین و مستہتزئین کوئی موقع ضائع کیے بغیر ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت و تکلیف پہنچانے،بے ادبی و گستاخی کرنے، اور طعن و تشنیع پر کمر بستہ رہتے۔ وہ اسلام کے انتہائی سرعت کے ساتھ فروغ پانے سے خائف تھے۔ اس لیے وہ ہمیشہ سازشوں میں مصروف رہتے اور ارشادات نبوی کا مذاق ارانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ آنحضور کے علم و فضل پر اعتراض کرتے، اہل ایمان پر تہمتیں لگاتے، جھوٹی افواہیں پھیلاتے، کیونکہ ان کے دلوںمیں محبت رسول کی بجائے بے ادبی، گستاخی ، اہانت، مخالفت اور بغض و عداوت کی بیماری نے جڑ پکڑ لی تھی۔
چنانچہ سورہ احزاب کی آیات محولہ بالا آیات میں ان کے انہی افعال شنیعہ کو زیر بحث لایا گیا ہے
جس طرح اللہ تبارک و تعالی اپنے معاملہ میں شرک کو کسی صورت میں گوارا نہیں کرتا اسی طرح اللہ کو اپنے رسول کی اہانت، بے ادبی اور گستاخی بھی کسی صورت قبول نہیں لہذا ان آیات میں نہایت واشگاف انداز میں ایسے لوگوں کو ”روحانی/قلبی مریض“ قرار دے کر انہیں ہمیشہ کے لیے ملعون و مردود گردانا اور ان کے لیے درد ناک سزا بھی تجویز فرمائی۔
یاد رہے کہ ”قتلوا تقتیلا“ کے الفاظ ہی سزا کی شدت اور اس کے بارے میں تاکید کو ظاہر کرتے ہیں۔ عربی میں جب فعل کے ساتھ اس کا مصدر بھی ذکر کر دیا جائے تو اسے مفعول مطلق کہتے ہیں جس سے کلام میں تاکید پیدا ہو جاتی ہے مثلا:”سلموا تسلیما“ (یعنی سلام بھیجو اس طرح جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے) اسی طرح ”قتلوا تقتیلا“ میں بھی امر تاکید ہے (یعنی انہیں چن چن کر اس طرح قتل کرو جس طرح قتل کرنے کا حق ہے) اس سے نہ صرف تاکید ظاہر ہوتی ہے بلکہ غیض و غضب الہی کی شدت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ یعنی یہ گستاخان رسول جہاں کہیں بھی پائیں جائیں انہیں فورا گرفتار کر لیا جائے اور انکی تکبر و نخوت سے اکڑی گردنوں کو اڑا دیا جائے اس لیے کہ انہوں نے نہ صرف ارتداد کا راستہ اختیار کیا بلکہ وہ گستاخی اور توہین رسالت کے مرتکب ہو کر ارتداد سے بھی کہیں آگے بڑھ گئے
ان آیات میں اللہ نے یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ گستاخان انبیا کی یہ سزا سنت الہیہ ہے، امم سابقہ میں بھی یہ سنت جاری و ساری رہی ہے اور اب بھی تا ابد جاری و ساری رہے گی اور اللہ کے اس دستور میں کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوگی ۔ یہ اللہ کا واضح، اٹل اور حتمی قانون و دستور ہے جو ہر دور میں رائج رہا ہے پچھلے زمانوں والے لوگوں کے لیے بھی اور موجودہ و آئندہ ادوار کے لیے بھی۔ اس قدر واضح اور قطعی احکام الہی کے باوجود اگر غامدی صاحب یا کسی اورکو قرآن مین توہین رسالت کا قانون نظر نہ آئے تو اس میں قرآن کا کیا قصور، شعر:
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
(اگر چمگادڑ اپنی آنکھوں سے دن کی روشنی میں کچھ دیکھ سکنے پر قادر نہیں تو اس میں چشمۂ آفتاب یعنی سورج کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جا سکتا) ۔ ۔ ۔ ۔ سعدیؒ
 

شاکرالقادری

لائبریرین
استادِ محترم ۔۔۔۔ گستاخی معاف ۔۔۔۔
یہ اقتباس اور اسکے بعد کی تمام باتیں ۔۔۔ نہ تو قرآن و سنت سے وضع ہیں اور نہ ہی آئمہ کرام نے ان باتوں کو بنیاد بناکر ارتداد کے لیئے قانون سازی کی ہے ۔ آئمہ کرام نے بھی اس سلسلے میں جو قانون سازی کی ہے اور پھر اس قانون سازی کے نتیجے میں دی جانے والی سزا سے پہلے جو معاملہ اختیار کیا ہے ۔ وہ انتہائی قابلِ قبول ہے ۔ یقین جانیئے جن جذبات کا آپ نے اظہار کیا ہے ۔ اس پر اگر کوئی قانون سازی ہمارئ آئمہ کرام نے کی ہوتی تو آج مسلم آبادی نصف سے بھی کم ہوچکی ہوتی ۔
یہاں آپ کے نکات کا منطقی جواب دینا مقصود تھا ۔ اس لیئے میں تفصیل میں نہیں گیا ۔ مگر آپ یہ ضرور بتایئے گا ۔ اتدراد کا قانون بناتے وقت آئمہ کرام نے کیا قانون سازی کی ۔ اور اس کا اطلاق ایک مرتد پر کن شرطوں پر رکھا ۔ تاکہ ہم طالب علموں کو اس سزا کی صحیح توجہہ دین کی روشی میں سمجھ آسکے ۔
ایک بار پھر اپنی گستاخیوں کے لیئے معذرت خواہ ہوں ۔ امید ہے آپ درگذر کردیں گے ۔

عزیزم ظفری! یہ ایک اور قابل توجہ نکتہ ہے جو آپ نے اٹھایا ہے، اور یقین کریں کہ یہ نکتہ انتہائی برمحل ہے میں اس کا جواب یقینا دینا چاہوں گا تاکہ عصر حاضر میں اہانت رسول اور ارتداد کے مفہوم کو جس انداز میں خلط ملط کیا جا رہا ہے اس کی وضاحبت ہو جائے۔
دراصل ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانا تو ارتداد ہے ۔ ۔۔ ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہانت رسول کے مرتکب ہونے اور اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچانے کا عمل کفرو ارتداد کے دائرہ کو مزید وسیع کر کے اس کے جرم کی شدت کو بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے اسی لیے آئمہ و فقہا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ بات اگر صرف کفر و ارتداد کی ہو یا توہین اور گستاخی کی نوعیت و نسبت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق نہ ہو تو ”لئن لم ینتہ“ کے تحت توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اگر توبہ کر لے تو معاف کر دیا جائے گا ۔ ۔ ۔ ۔لیکن اگر گستاخی اور توہین کی نسبت براہ راست رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہو اور یہ عمل اذیت رسول کا موجب ہوتو ایسی صورت میں توبہ کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا بلکہ بطور حد قتل کیا جائے گا کیونکہ ایسے بے ادب اور گستاخ کی توبہ قبول ہی نہیں ہوتی کیونکہ ”ھی اعظم ارتداد“ یہ ارتدادِ عظیم (یعنی سب سے بڑا ارتداد) ہے اور ناقابل معافی جرم ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
استادِ محترم ۔۔۔
پہلی بات کہ آپ نے کعبے کے غلاف میں چھپنے والوں کو قتل کرنے کے جس واقعے کا ذکر کیا ہے ۔ اس کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سزائیں کب دیں تھیں ۔ وہ مکمل واقعہ کیا تھا اور وہ کونسا موقع تھا ۔ ؟
دوسرا یہ کہ جب آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ معافی کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو پھر سزا کا دینے کا اختیار ایک عام مسلمان کو کیونکر دیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ سزا بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ کسی کو اس کی سب سے بڑی نعمت یعنی زندگی سے محروم کردینے کی سزا ہے ۔ امید ہے آپ اس پر کوئی مفصل جواب دیکر اپنے اس طالبعلم کو ہمیشہ کی طرح مطمئن کریں گے ۔ اور اس پر کوئی سیر حاصل حقائق سامنے آسکیں گے ۔
عزیزم ظفری! آپ کی جانب سےعمدہ سوالات اٹھانے پر مجھے خوشی ہو رہی ہے یقینا موضوع کا مطالعہ کرنے والے ہر شخص کے ذہن میں بھی یہ سوالات اٹھے ہونگے
پہلا سوال ۔۔ ۔ ۔ جن مردوں اور عورتوں کے بارے میں حکم دیا گیا کہ انہیں غلاف کعبہ میں بھی قتل کر دیا جائے ، سے متعلق ہے اس کے بارے میں مختصرا یہ کہوں گا کہ یہ لوگ نہ صرف ارتداد کے مرتکب ہوئے تھے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخیوں اور اہانتوں میں مصروف رہتے اور اللہ اور اسکے رسول کی ایذا رسانی میں پیش پیش ۔۔ ۔ یہ فتح مکہ کا موقع تھا ۔ ۔ ۔ ۔ جب رحمت عالم نے عفو و درگزر کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر ابدالآباد تک نہیں مل سکے گی آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرمایا:

”لا تثریب علیکم الیوم اذھبوا فانتم اطلقأ “ ( آج تم پر کچھ ملامت نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو) البدایہ والنہایہ

لیکن اس عام معافی سے چار مردوں اور دو عورتوں ۔۔ ۔ ۔ ایک اور روایت کے مطابق گیارہ مردوں اورچھ عورتوں کو مستثنیٰ قرار دیا اور ان کے بارے میں حکم دیا کہ:
”اقتلوھم وان وجدتموھم متعلقین باستار الکعبہ“ (انہیں قتل کردو اگرچہ وہ کعبہ کے غلاف سے چمٹے ہوئے بھی پائے جائیں) ۔۔ ۔ سنن نسائی، کتاب المحاربہ

قابل غور بات ہے ۔ ۔ ۔ کہ: خانہ کعبہ بیت الحرام ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کی حدود میں جوں تک مارنا درست نہیں لیکن ان مردوں اور عوتوں کے گناہ کی شدت اور جرم کی نا قابل معافی نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے خون سے غلاف کعبہ کو رنگین کر دیے جانے میں بھی کوئی قباحت نہ جانی گئی بلکہ اس کو اباحت کے زمرہ میں رکھا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ان مردوں اور عورتوں میں سے کچھ تو قتل کر دیے گئے، جن میں سے ایک دو تو ایسے تھے جو فی الواقعہ خانہ کعبہ میں غلاف کعبہ کے اندر بغرض پناہ چھپے لیکن وہیں واصل جہنم کر دیے گئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ کچھ کو بعد میں معاف کر دیا گیا

دوسرا سوال : ”کہ معافی کا اختیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو پھر سزا کا دینے کا اختیار ایک عام مسلمان کو کیونکر دیا جاسکتا ہے ۔“
اس سوال کا جواب دو اور دو چار کی طرح بالکل صاف ستھرا ہے
جہاں تک سزا کا تعلق ہے تو وہ تو ایک قرآنی قانون ہے جس کے ہم پابند ہیں (اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سزا کے نفاذ کا اہتمام کرے)

جہاں تک معافی کا تعلق ہے اور یہ اگر بات پوچھی جائے کہ معافی کا اختیار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی ہے اور دوسروں کو کیوں نہیں تو یہ ایک سیدھی سادھی بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔
اگر میں ۔ ۔ ۔ ۔ ”زید“ کو گالی دے کر اسے رنج پہنچاؤں اور اس کی دل آزاری کروں
تو ۔۔ ۔ ۔ ”بکر“ کوکوئی حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ ”زید“ کی مرضی کے بغیر مجھے معاف کر دے اور زید کی حق تلفی کرے
یہ حق تو زید کا ہی ہے ۔ ۔ ۔ وہ چاہے تو اپنے ذاتی حق میں تصرف کر کے مجھے معاف کر دے اور چاہے تو معاف نہ کرے۔ ۔ ۔ اور اگر زید مجھے معاف نہیں کرتا تو پھر تو مجھے اللہ بھی معاف نہیں کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر میں ایک واقعہ نقل کرتا ہوں جو انہی مردوں میں سے ایک کے متعلق ہے جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اس واقعہ سے بات بالکل واضح اور روشن ہو جائے گی۔

عبداللہ بن ابی سرح
=============

یہ شخص خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا رضاعی(دودھ شریک) بھائی تھا اور حضرت عثمان کے دور حکومت میں اس کو مصر کا گورنر بھی بنایا گیا تھا۔ اس نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ھجرت بھی کی تھی لیکن بعد میں مرتد اور مشرک ھو کر قریش مکہ کے ساتھ جا ملا تھا

اس کے ارتداد کا قصہ یہ ہے:

یہ چونکہ پڑھا لکھا تھا اس لیے اس سے کتابت وحی کا کام بھی لیا جاتا تھا ۔۔ ۔ ۔

ایک روز جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو آیات املا کروا رہے تھے تو جب آپ کسی آیت کے آخر میں پہنچے تو

جیسے کسی اچھے شعر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ شاعر پہلا مصرعہ پڑھ لیتا ہے اور ابھی اس نے دوسرامصرعہ آدھا ہی پڑھا ہوتا ہے لیکن سامع اپنے ذوق سلیم اور اس شعر کے فنی محاسن کی بنا پر دوسرے مصرعہ کا باقی ماندہ حصہ شاعر کے پڑھنے سے پہلے ہی بوجھ لیتا ہے، جان لیتا ہے

بالکل ایسے ہی جب املا کرائی جانے والی آیت تکمیل کے قریب تھی تو اس کے آخری دو تین الفاظ خود بخود عبداللہ ابن ابی سرح کی زبان پر جاری ہو گئے

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ الفاظ بھی املا کرا دیے اور فرمایا ۔ ۔ ۔ ہاں ایسے ہی ہے لکھ لو

شیطان ملعون موقع کی تاک میں تھا

اس نے فورا ابن ابی سرح کے ذہن میں یہ بات ڈال دی

لو جی ۔ ۔ ۔ یہ قرآن تو ایسے ہی مرتب ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ جو کچھ میں نے پڑھا وہ بھی املا کرا دیا ۔ ۔ ۔ خدا جانے ان آیات اور سورتوں کے باقی حصے کہاں کہاں سے اٹھائے گئے ہونگے

وہ وہاں سے اٹھا اور ارتداد کا راستہ اپنایا

پھر کیا تھا اس نے نہایت زور و شور سے یہ پراپگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ

میں محمد کے قرآن کی حقیقت جان چکا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں تو وہ باتین بھی لکھ دی جاتی ہیں جو خالص میرے ذہن کی اختراع ہوتی ہیں

گویا مجھ پر بھی محمد کی طرح وحی نازل ہوتی ہے

اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ کتابت وحی کے دوران میں نے بہت ساری باتین اپنی طرف سے بھی قرآن میں داخل کر دی ہیں اس طرح وہ اپنے بیانات سے قرآن کی الہامی حیثیت کو مشکوک بناتا اور صاحب قرآن کی تذلیل و توہین میں کوشاں رہتا

وہ یہ بھی کہا کرتا کہ : میں نے حضرت محمد (مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو ایسی کاری ضرب لگائی ھے جیسی میں چاھتا تھا۔

وہ ہر وقت رسول اللہ کی گستاخی اور اہانت میں مصروف رہتا

وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ میں عنقریب ایک ایسا ہی قرآن پیش کرونگا جیسا محمد کے پاس ہے۔

قرآن مجید نے سورہ انعام میں اس کے کفر کا اس طرح اعلان فرمایا ھے:


< وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِبًا اٴَوْ قَالَ اٴُوحِیَ إِلَیَّ وَلَمْ یُوحَ إِلَیْہِ شَیْءٌ وَمَنْ قَالَ سَاٴُنزِلُ مِثْلَ مَا اٴَنزَلَ اللَّہُ ۔>

اس سے بڑھ کر کون ظالم ھو گا جو خدا پر جھوٹ اور افتراء پر دازی کرے اورکھے کہ ھمارے پاس وحی آئی ھے حا لانکہ اس کے پاس کو ئی وحی وغیرہ نھیں آئی یا وہ یہ دعوی کرے کہ جیسا خدا وند عالم نے قرآن نازل کیا ھے میں بھی ایسا قرآن عنقریب نازل کئے دیتا ھوں۔


جب مکہ فتح ھو گیا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ اس(ملعون)کا خون مباح ھے اگرچہ یہ خانہ کعبہ کے غلاف میں ھی کیوں نہ چھپا ھو۔

عبداللہ ابن ابی سرح یہ حکم سن کر رو پوش ہو گیا اور کا فی عرصہ تک مختلف قبائل میں روپوشی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ ۔ ۔ پھر اس نے اپنے رضاعی بھائی حصرت عثمان رضی اللہ عنہ کی نرم دلی اور اپنے اقربا سے محبت رکھنےکی خصوصیت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ یہ حضرت عثمان کے پاس چلا گیا اور مقصد بیان کیا کہ کسی طرح اس کو معافی دلوا دی جائے۔ حضرت عثمان نے اپنی رحم دلی کی وجہ سے رات اسے پناہ دی اور صبح ایک چادر اوڑھا کر دربار رسالت میں لے گئے تاکہ راستہ میں شناخت نہ کر لیا جائے اور قتل نہ کر دیا جائے۔

جب حضرت عثمان نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے لئے امان مانگی تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی دیر تک خاموش رھے اور توقف فرمایا۔

حتی کہ دوسری اور تیسری بار امان طلب کی گئی،
لیکن آپ خاموش رہے اور توقف فرماتے رہے

پھر کافی توقف کے بعد فرمایا ہاں اسے امان دی جاتی ہے۔

جب حضرت عثمان چلے گئے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مجلس میں حاضر صحابہ سے ارشاد فرمایا:

میں نے اتنی دیر خاموشی اختیار کی اور متوقف رہا

تم میں سے کوئی ایسا نہ تھا کہ عبداللہ ابن ابی سرح کی خبر لیتا، اور اپنی تلوار سے اس کی گردن اڑا دیتا، کیا تم لوگوں کو اس کے قتل کے بارے میں میرا حکم معلوم نہ تھا۔

صحابہ نے عرض کی: حضور آپ کے دربار میں امان کی درخواست دائر ہو چکی تھی ہماری کیا مجال کہ ہم آپ کی موجودگی میں آپ کے فیصلہ کرنے سے پہلے کچھ کرتے ۔ ۔ ۔ اور ہمیں کیا خبر تھی کہ آپ توقف کیوں فرما رہے تھے ۔ ۔ ۔ ہمیں آپ کے دل کا حال کیسے معلوم ہوتا ۔۔ ۔ ۔ سرکار اگر آپ صرف ایک جنبش ابرو سے اشارہ فرمادیتے ۔ ۔ ۔ تو ہم نے اس کا کام تمام کر دینا تھا

آپ نے جوابا فرمایا:

ایک نبی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بظاہر خاموش رہے لیکن آنکھ کے اشارے سے کسی کے قتل کا حکم دے
==============
سبحان اللہ العظیم،

اس واقع سے تین نتائج اخذ ہوئے:
اولا: رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمة اللعالمینی، آپنے اپنے ذاتی حق میں تصرف فرماتے ہوئے اس کو معاف فرما دیا اور امان دے دی ۔
ثانیاً: آپ نے مسلمانوں کو اس قانون اور اس کی سزا کے بارے میں جتا بھی دیا کہ اس کے قتل کے سلسلہ میں میرا پہلا حکم تمہارے سامنے تھا، جب میں توقف کر رہا تھا تو تمہیں چاہیئے تھا کہ تم اس حکم پر عمل درآمد کر دیتے
ثالثا: اصحاب رسول کا رویہ، کہ وہ اپنے سربراہ اور قاید کی موجودگی میں اپنے آپ کو فیصلہ کرنے کا مجاز نہ جانتے تھے اور معاف کرنے یا نہ کرنے کا حق صرو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہی تسلیم کرتے تھے

برادرم ظفری!
میرا خیال ہے کہ اس واقعہ کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ معاف کرنے کا حق صرف نبی کو ہے اور سزا دینے کا حکم ہمارے لیے


یہ سزا کون دے گا، کیا ہر مسلمان انفرادی طور پر یہ سزا دے سکتا ہے یا اس کے لیے ریاستی طور پر قانون ہونا چاہیئے اور اس قانون کی عملداری کو کیوں یقینی بنایا جانا چاہیئے تاکہ لوگ اپنے اپنے طور پر انفرادی امور نہ انجام دینے لگیں بلکہ اس سلسلہ میں ریاست اور عدلیہ کے ذمہ داران اپنے فرائض کو نباہیں
قانون ہمیسہ تب ہی ہاتھ میں لیا جاتا ہے جب وہ بے فیض اور بے ثمر ہو جائے، جب قانون کے رکھوالے قانون شکنی کرنے لگیں اور انہیں قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے تو، جمہور کا اشتعال تو فطری سی بات ہوگی، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سلسلہ میں ریاست اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تاکہ انفرادی طور پر رد عمل دیکھنے میں نہ آئے۔
ان تمام باتوں پر میں سب سے آخر میں بات کرونگا لیکن اس سے پہلے مزید کچھ سوالات اور نکتوں پر بات کی جائے گی تاکہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہے

ابھی سلسلہ تحریر جاری ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔



 

سویدا

محفلین
برادرم ظفری نے غصے میں مجھے بھی گھسیٹ لیا کہ میں نے اپنی توپوں کا رخ غامدی صاحب کی طرف کیا جبکہ حوالہ ندارد
میں نے اس وقت بھی حوالے پیش کردیے تھے نیز ان کے جریدے اشراق کے حصہ سوال وجواب میں بارہا میں نے ایسی عجیب وغریب چیزیں پڑھی ہیں مثال کے طور پر ایک اجنبی لڑکا اور ایک اجنبی لڑکی کی دوستی
غامدی صاحب اور اشراق کے نزدیک جائز ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں
غامدی صاحب کے جو افکار ونظریات ہیں وہ کسی سے پوشیدہ یا ڈھکے چھپے نہیں جو لوگ آزاد اسلام بلکہ آزادی نفس چاہتے ہیں وہ ہی ان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں
اور بقول ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کے کہ اس زمانے میں گمراہی غلط افکار ونظریا ت کو علم بنادیا گیاہے،غامدی صاحب کے نظریات سب کے علم میں ہیں اس کے لیے کسی حوالے کی تلاش
یا اس موضوع پر بحث ومباحثہ وقت کا ضیاع ہے،قرآن وسنت اور اجماع امت کی موجودگی میں غامدی صاحب کے انفرادی افکار ونظریات سے متعلق بحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی
باقی کراچی یونی ورسٹی سے نکلنے والے رسالے ”جریدہ“ میں بہت کچھ غامدی صاحب کے نظریات کے بارے میں موجود ہے ان کی طرف مراجعت کرلی جائے ، اسی طرح غامدی صاحب کے قریبی دوستوں میں سے
پروفیسر رفیق چودھری صاحب نے بھی دو کتابیں غامدی صاحب کے نظریات وافکار پر تحریر کی ہیں ان کا مطالعہ کرلیا جائے
 

ظفری

لائبریرین
اب ذرا عوامی باتیں "میں نہیں مانتا" کے آہنگ و ساز میں۔
پیجے کو پھپھا کیا لکھنا ، تاثیرے کو ماما کیا لکھنا
غامدی کو علامہ کیا لکھنا ، اس جہل کو عالم کیاااااا لکھنا
کیاااااااااااا لکھنا۔
بہ آہنگِ حبیب جالب
جناب اگر آپ اس بحث میں شائستگی کیساتھ حصہ نہیں لے سکتے تو براہِ کرم خاموش رہیں ۔ یہاں جذبات اور تقلید نہیں بلکہ قرآن و سنت سے اس مسئلے کو وضع کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اس قسم کے مذید تبصرے آئندہ قابلِ اشاعت نہیں ہونگے ۔ شکریہ
 

ظفری

لائبریرین
سویدا ۔۔۔۔ بات پھر وہیں آجاتی ہے ۔ آپ نے پھر وہی اعتراضات جڑ دیئے جو پہلے بھی کرچکے ہیں ۔ چلیں اسی بات کو لے لیتے ہیں ۔ آپ نے اپنے تبصرہ غامدی صاحب پر اپنے مطالعے کی بناء پر کردیا ۔ دیکھیں تنقید کے لیئے بہت ضروری ہوتا ہے کہ جب آپ کسی کی کوئی بات کسی اور شخصیت کے حوالے سے کر رہے ہوتے ہیں تو پہلے آپ کو اس شخصیت کے ان نظریات یا بیان کا مستند حوالہ دینا پڑتا ہے ۔ جس پر کوئی اور قابلِ قدر ہستی اپنے اعتراضات بیان کر رہی ہوتی ہے ۔ جب دونوں کے سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر کسی نتیجے پر پہنچا جاتا ہے ۔
ہمیشہ کی طرح آپ چند رسائل اور کتابوں کا حوالہ دیکر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔ مگر تنقید کے آداب کو مدِ نظر نہیں رکھتے ۔ کم از کم استادِ محترم کے شواہد ، دلائل اور استدلال سے ہی کوئی سبق سیکھ لیں کہ تنقید کے کیا آداب ہوتے ہیں ۔ ایک دم سے اپنی سوچ اور نظریات کسی پر تھوپا نہیں کرتے ۔ اُمید ہے میری بات سمجھ گئے ہونگے ۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ آپ غامدی صاحب پر اعتراض اٹھاتے ہیں ۔ بلکہ اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ کے اعتراضات علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ تعصب اور عناد کی بنیاد پر ہوتے ہیں ۔ اس سلسلے میں کم از کم میری پہلی پوسٹ ہی پڑھ لیتے ۔ اور غامدی صاحب اور مفتی منیب الرحمن صاحب کی گفتگو کی ملاحظہ فرما لیتے ۔ گفتگو لعنت و طعن پر آجائے تو سارے راستے کفر اور مرتد کے فتوؤں پر ہی بند ہوجاتے ہیں ۔
اب ذرا یہ ساری بحث ملاحظہ فرمائیں اور اگلی دفعہ کسی ٹھوس علمی بنیاد پر اپنا اعتراض اٹھائیں ۔ شکریہ
 

ظفری

لائبریرین
استادِ محترم ! میں پوری لگن اور توجہ سے آپ کی تمام پوسٹوں کا مطالعہ کررہا ہوں ۔ مجھے خوشی ہے آپ نے میری گستاخی کو نظر انداز کرکے ایک مفید اور علمی بحث کا آغاز کیا ہے ۔ جس سے ہم جیسے طالبعلموں کے لیئے دین کو سمجھنے میں آسانی ہو رہی ہے ۔ آپ اپنی بات مکمل کجیئے ۔ پھر میں اپنا استدلال اور رائے پیش کرتا ہوں ۔ چونکہ آپ میرے نکتہِ نظر کو سمجھ چکے ہیں کہ میں کن بنیادوں پر ان ابحاث میں حصہ لے رہا ہوں ۔ مگر کچھ دوستوں کے خدشات کی بناء پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہاں بحث اس بات پر نہیں ہو رہی کہ گستاخِ رسول کی سزا ہونی چاہیئے کہ نہیں ہونا چاہیئے ۔ بلکہ بحث یہ ہو رہی ہے ۔ قرآن و سنت اور آئمہ کران کی رائے میں اس جرم کی سزا کیا ہے ۔ اور اس کا اطلاق کن کن طریقوں پر آئمہ کرام کی رائے کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے ۔ یعنی یہ سزا قرآن و سنت کے مطابق ہے یا پھر اس سزا کا ماخذ ہمارے جذبات ہیں ۔ اس لیئے سلسلہ وار قرآن و سنت سے اس جرم کی سزا کے بارے میں نشان دہی کے ثبوت سامنے لائے جارہے ہیں ۔ ( ثبوت کی نوعیت اور ان کا سیاق و سباق کیا ہے ۔ اس پر بات بعد میں ہوگی ) ۔ پھر آئمہ کرام نے اس جرم کی سزا کن بنیادوں تو تجویز کی ہے ۔ اس پر بھی دلائل اور استدلال پیش کیا جارہا ہے ۔ میں نے چند بنیادی نقاط اٹھائے ہیں ۔ استادِ محترم اس کا مفصل جواب دے رہے ہیں ۔ ان کی بات مکمل ہونے کے بعد میں اپنا استدلال پیش کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اُمید ہے احباب اس سلسلے میں تعاون فرمائیں گے ۔ شکریہ
 

ماسٹر

محفلین
محترم کیا آپ سمجھتے ہیں۔ کہ ہمیں انبیا اور رسولوں کی ناموس کا دفاع نہیں کرنا چاہیے؟
ایک چیز کھلی نظر آرہی ہے، کہ ہمیں ، ہمارا اللہ اور رسول اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔ اس کا حکم ہمارے لئے حرف آخر ہونا چاہیے۔ اس ہستی کی ناموس پر حرف آئے جس کی اللہ تعالیٰ نے خود قسمیں کھائی ہوں۔ جس ہستی کو اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب کہا ہوں۔ اس کی شان میں گستاخی کرے تو ہمیں اس کو بس اگنور کر دینا چاہیے۔ یہی چاہتے ہیں۔ نا آپ۔۔۔۔۔۔۔ تو جناب یہ غلط ہے۔ جس شخص کے دل میں اللہ اور رسول کی محبت نہیں اس کے دل میں ایمان نہیں ہے۔

لوگ تفرقہ بازی میں پڑ گئے ہیں۔ مولویوں کو گالی دینے کا کوئی حقدار نہیں ہے کہ وہ ان پر انگلی اٹھائے۔ آپ کو بھی تو اللہ نے عقل دی ہے دماغ دیا ہے۔ کتاب دی ہے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کر دیا ہے تو آپ خود علم کی روشنی سے اپنا راستہ ڈھونڈو۔۔۔۔۔۔خود کچھ کرنا نہیں ہے اور دوسروں پر فتوی لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔ تم کسی اچھے کام کی کسی دوسرے کو اس وقت تک نصیحت نہیں کر سکتے جب تک تم خود وہ اچھا کام نہیں کرتے ہو۔

وسلام

ناموس رسول کی غیرت ہر سچے مسلمان کو ہوتی ہے - یہ ایک قدرتی بات ہے - مگر کیا ہم سمجھتے ہیں کہ ہم چودہ سو سال میں پہلے غیرت مند مسلمان ہیں جن کو غیرت کے لیے ایسے قانون کی ضرورت پڑ رہی ہے ؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top