غالب کی ایک مشکل غزل

رضوان راز

محفلین
جنوں گرم انتظار، و نالہ بیتابی کمند آیا
سُویدا، تا بلب، زنجیر سے دودِ سپند آیا
مہ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے
تماشا، کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا
تغافل، بدگمانی، بلکہ میری سخت جانی سے
نگاہِ بے حجابِ ناز کو، بیمِ گزند آیا
فضائے خندہ گل تنگ و ذوقِ عیش بے پرواہ
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل، پسند آیا
عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بیتابی
خرامِ ناز، برقِ خرمنِ سعیِ سپند آیا
جراحت تحفہ، الماس ارمغان، داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ ، غمخوارِ جانِ درد مند آیا
 
مدیر کی آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خاکسار اس غزل کی شرح کا منتظر ہے۔

احباب سے نظرِ التفات کی التماس ہے۔

محمد وارث الف عین فرقان احمد ظہیراحمدظہیر الف نظامی
شاباش ہے ! یعنی ایک مصرع یا ایک شعر نہیں بلکہ پوری غزل کی تشریح! :):):)
بالکل ٹھیک ! اس غزل کی تشریح کم از کم تین چار صفحات کے مضمون کی متقاضی ہے ۔ اگر وقت ملا اور ذہن اس طرف آیا تو ضرور تعمیلِ ارشاد ہوگی ۔
رضوان راز صاحب! اردو محفل میں خوش آمدید! اگر مناسب سمجھیں تو اپنے تعارف کا شرف بخشئے ۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
شاباش ہے ! یعنی ایک مصرع یا ایک شعر نہیں بلکہ پوری غزل کی تشریح! :):):)
بالکل ٹھیک ! اس غزل کی تشریح کم از کم تین چار صفحات کے مضمون کی متقاضی ہے ۔ اگر وقت ملا اور ذہن اس طرف آیا تو ضرور تعمیلِ ارشاد ہوگی ۔
رضوان راز صاحب! اردو محفل میں خوش آمدید! اگر مناسب سمجھیں تو اپنے تعارف کا شرف بخشئے ۔
مجھے بھی انتظار رہے گا ظہیر بھائی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں غالب نے خود ہی اس غزل کو رد کر دیا تھا اور متداول نسخوں میں صرف مقطع ملتا ہے۔ غالب نے اپنے اوائل کے زمانے کی کئی ایک غزلیں اپنے دیوان میں شامل نہیں کئی تھیں لیکن محققین بھلا ایسا کام چھوڑتے ہیں، ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ غزلیں نکال لائے جو غالب خود ہی چھوڑ چکے تھے۔

خیر، شرح کے قابل کم از کم میں تو نہیں ہوں۔ :)
 

رضوان راز

محفلین
شاباش ہے ! یعنی ایک مصرع یا ایک شعر نہیں بلکہ پوری غزل کی تشریح! :):):)

صاحبِ من اگر فقط ایک مصرع بالائے فہم ہوتا تو دامنِ طلب مکمل غزل کی تشریح کے لیے نہ پھیلاتا۔
یہاں تو پوری غزل، ایک ایک شعر ستم بالائے ستم ہے۔
 

رضوان راز

محفلین
بالکل ٹھیک ! اس غزل کی تشریح کم از کم تین چار صفحات کے مضمون کی متقاضی ہے ۔ اگر وقت ملا اور ذہن اس طرف آیا تو ضرور تعمیلِ ارشاد ہوگی ۔

حضور چار صفحات کا مضمون قبول ہے۔
اب ان دو شرائط کے لیے دست بہ دعا ہوں کہ پروردگار آپ کی عدیم الفرصتی میں تخفیف فرمائے اور آپ کے ذہن و قلب کو اس جانب منقلب فرمائے۔ آمین
 

سید عاطف علی

لائبریرین
صاحبِ من اگر فقط ایک مصرع بالائے فہم ہوتا تو دامنِ طلب مکمل غزل کی تشریح کے لیے نہ پھیلاتا۔
یہاں تو پوری غزل، ایک ایک شعر ستم بالائے ستم ہے۔
اس غزل کو پڑھ کر ان افراد کو خراج تحسین پیش کرنے کا دل چاہتا ہے جن کی بدولت مرزا کو یہ کہنا پڑا کہ :) ۔
شہرت شعرم بگیتی بعد من خواہد شدن ۔
اگر مرزا اسی رستے چلتے تو آگے چل کر اسد سے غالب نہیں مغلوب ہوتے ۔
 
آخری تدوین:

رضوان راز

محفلین
رضوان راز صاحب! اردو محفل میں خوش آمدید! اگر مناسب سمجھیں تو اپنے تعارف کا شرف بخشئے ۔

شکریہ جناب۔
یوں تو راز کا معروف ہونا راز کا عدم ہونا ہے لیکن تعمیلِ حکم واجب ہے اس لیے پردۂ اخفا چاک کرتا ہوں۔
خاکسار کا نام محمد رضوان ہے۔ جنت مکانی، خلد آشیانی تایا جان مرحوم و مغفور نام کے ساتھ ملک لکھتے تھے سو ان کے تتبع میں شناختی کارڈ پر ملک محمد رضوان درج ہے گو کہ کسی قسم کا شجرۂ نسب محفوظ نہیں ہے۔ عمرِ عزیز کی اڑتیس بہاریں دیکھ چکا ہوں۔
لاہور کے کنارے واقع ایک نو آباد بستی میں ٹھکانہ ہے گو کہ اب اسے بھی لاہور میں شمار کیا جاتا ہے۔

بندہ سالمیاتی حیاتیات Molecular Biology میں سند یافتہ ہے سو اسی کوچہ میں سرگرمِ تحقیق ہے۔
مزید یہ کہ تین درس گاہوں میں اے لیول کی سطح پر حیاتیات کا مدرس ہے۔
 

رضوان راز

محفلین
میرے خیال میں غالب نے خود ہی اس غزل کو رد کر دیا تھا اور متداول نسخوں میں صرف مقطع ملتا ہے۔ غالب نے اپنے اوائل کے زمانے کی کئی ایک غزلیں اپنے دیوان میں شامل نہیں کئی تھیں لیکن محققین بھلا ایسا کام چھوڑتے ہیں، ڈھونڈ ڈھونڈ کر وہ غزلیں نکال لائے جو غالب خود ہی چھوڑ چکے تھے۔

خیر، شرح کے قابل کم از کم میں تو نہیں ہوں۔ :)

بجا ارشاد
یہ غزل غالب نے اپنے ابتدائی میں کہی تھی جب وہ بیدل کی پیروی میں انتہائی مشکل اشعار کہا کرتے تھے اور بعد میں اس روش کو ترک کر دیا۔ یہ غزل دیوانِ غالب کے نسخۂ حمیدیہ میں درج ہے جو کہ 1917 میں بھوپال میں دریافت ہوا۔ دیوانِ غالب کا یہ قدیم ترین نسخہ ہے جو 1821 میں چھپا۔
ہمارے ہاں رائج دیوان غالب کی زندگی میں آخری بار 1863 میں طبع ہوا۔ موجودہ دیوان میں ابتدائی دور کی بہت سی غزلیں موجود نہیں ہیں۔ یہ کلام مشکل ہونے کی بنا پر غالب نے خود اپنے دیوان سے نکال دیا تھا۔ زیرِ نظر غزل بھی اسی کلام کا حصہ ہے اور موجودہ دیوان میں موجود نہیں۔

لیکن صاحب ہے تو کلامِ غالب، مشکل ہی سہی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بجا ارشاد
یہ غزل غالب نے اپنے ابتدائی میں کہی تھی جب وہ بیدل کی پیروی میں انتہائی مشکل اشعار کہا کرتے تھے اور بعد میں اس روش کو ترک کر دیا۔ یہ غزل دیوانِ غالب کے نسخۂ حمیدیہ میں درج ہے جو کہ 1917 میں بھوپال میں دریافت ہوا۔ دیوانِ غالب کا یہ قدیم ترین نسخہ ہے جو 1821 میں چھپا۔
ہمارے ہاں رائج دیوان غالب کی زندگی میں آخری بار 1863 میں طبع ہوا۔ موجودہ دیوان میں ابتدائی دور کی بہت سی غزلیں موجود نہیں ہیں۔ یہ کلام مشکل ہونے کی بنا پر غالب نے خود اپنے دیوان سے نکال دیا تھا۔ زیرِ نظر غزل بھی اسی کلام کا حصہ ہے اور موجودہ دیوان میں موجود نہیں۔

لیکن صاحب ہے تو کلامِ غالب، مشکل ہی سہی۔
مشکل کلام تو غالب کے موجودہ متداول دیوان میں بھی ہے اور جو نوائے سروش کی مدد کے بغیر سمجھ میں بھی نہیں آتا لیکن یہ غزل تو بس۔۔۔۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہیں کہ غالب کے لڑکپن کی مشق سخن ہے جسے غالب نے خود بھی اس قابل نہ سمجھا کہ اپنی پختہ شاعری کے ساتھ شامل کرتے۔

ویسے نہ جانے کیوں آپ اس غزل کی شرح کے متمنی ہیں جب کہ ایک اور مرشد، مشتاق احمد یوسفی مرحوم یہ الہامی جملہ ارشاد فرما چکے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے۔ :)
 

رضوان راز

محفلین
مشکل کلام تو غالب کے موجودہ متداول دیوان میں بھی ہے اور جو نوائے سروش کی مدد کے بغیر سمجھ میں بھی نہیں آتا

بجا ارشاد
لیکن یہ فرمائیے کہ اگر مولانا غلام رسول مہر ہم پر احسان نہ فرماتے اور نوائے سروش تحریر نہ فرماتے تو کیا ہم غالب فہمی سے یہ کہہ کر دست بردار ہو جاتے کہ یہ تو محض گنجلک اور مہمل کلام ہے
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بجا ارشاد
لیکن یہ فرمائیے کہ اگر مولانا غلام رسول مہر ہم پر احسان نہ فرماتے اور نوائے سروش تحریر نہ فرماتے تو کیا ہم غالب فہمی سے یہ کہہ کر دست بردار ہو جاتے کہ یہ تو محض گنجلک اور مہمل کلام ہے
جس گناہ سے کوئی تائب ہوجائے اس پر ملامت کرنا اچھے اخلاق کی علامت نہیں ۔ :LOL:
 

محمد وارث

لائبریرین
بجا ارشاد
لیکن یہ فرمائیے کہ اگر مولانا غلام رسول مہر ہم پر احسان نہ فرماتے اور نوائے سروش تحریر نہ فرماتے تو کیا ہم غالب فہمی سے یہ کہہ کر دست بردار ہو جاتے کہ یہ تو محض گنجلک اور مہمل کلام ہے
آپ خیر مکالمے کو اپنی مرضی کا رنگ دے رہے ہیں۔ "مشکل" ہونا تو ایک طرف رہا، آپ اس بات پر غور فرمائیے کہ یہ غزل کسی حادثے کی وجہ سے دیوانِ غالب میں شامل ہونے سے نہیں رہ گئی بلکہ غالب کو خود لگا تھا کہ دیوان میں نہ ہو تو اچھا ہے۔

باقی اگر "مشکل مشکل" کھیلنا ہے تو معذرت کے ساتھ غالب کے موجودہ دیوان میں بھی کئی ایک ایسے اشعار ہیں جو نہ صرف مشکل ہیں بلکہ غزل میں بھی صرف تعداد ہی پوری کرتے ہیں ، آپ کا کیا خیال ہے؟
 
جراحت تحفہ، الماس ارمغان، داغِ جگر ہدیہ
مبارکباد اسدؔ ، غمخوارِ جانِ درد مند آیا
جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ

یہ شعر شاید غالب کے اشاعت یافتہ دیوان میں بھی موجود ہے۔ معنوی لحاظ سے گو کہ کوئی خاص خوبی نظر نہیں آ تی مگر بندش بہت خوبصورت ہے۔ غالب کے ہاں بندشیں دیگر شعرا سے عمومی طور پر زیادہ چست ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے برسوں پہلے کا فاتح صاحب کا یہ تھریڈ یاد آ گیا۔ :)

سوزشِ دل تو کہاں اس حال میں
جان و تن ہیں سوزنِ جنجال میں

چشمِ بینا چشمہء منقار ہے
دقّتِ افعال ہے اقوال میں

نور کا عالم پری ہو یا کہ حور
ہے صفائی سیم تن کی کھال میں

ہم نفس کہنا غلط ہے گاؤ میش
روغنِ گُل بیضہء گھڑیال میں

غالبِ تیرہ دروں بیروں سیاہ
زُلفِ مشکیں پنجہء خلخال میں
 
مشتاق احمد یوسفی مرحوم یہ الہامی جملہ ارشاد فرما چکے ہیں کہ دنیا میں غالب واحد شاعر ہے جو سمجھ میں نہ آئے تو دگنا مزا دیتا ہے۔ :)
اس پر قدرت اللہ شہاب کے ماسٹر منگل سنگھ یاد آگئے:
سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

"سادگی تے اسدے نال پرکاری' بےخودی تے اسدے نال نال ہشیاری۔ حسن نوں تغافل وچ کی پایا؟ شاعر کہندا اے اس نے حسن نوں تغافل وچ جرات آزما پایا۔

لئو اینی جئی گل سی، غالب شعر بناندا بناندا مر گیا، میں شعر سمجھاندے سمجھاندے مر جانا اے، تہاڈے کوڑھ مغزاں دے پلے ککھ نئی پینا۔ اگے چلو......
:)
 
Top