عید میلاد النبی کا دن کیسے منایا جائے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

محمد وارث

لائبریرین
یہاں ایسا میں نے کہیں لکھا ہوا نہیں دیکھا۔ یہاں جو تاریخ لکھتے ہیں وہ ایسے ہوتی ہے :

التاریخ : 17 ربیع الاول 1429 ھ (یہاں ھ ہجری کا مخفف ہے)
الموافق : 25 مارس 2008 م ( یہاں م میلادی کا مخفف ہے)

بالکل صحیح کہا آپ نے شمشاد صاحب۔

خرم صاحب (فوٹو ٹیک81) صاحب یا جس کی بھی یہ تحریر اس کو سخت مغالطہ ہوا ہے کہ 'میلادی' کو میلاد النبی (ص) کے ساتھ منسوب کر دیا، حالانکہ عرب اور ایران میں میلاد کی یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کے ساتھ منسوب ہے جسے ہم یہاں برصغیر میں عیسوی لکھتے اور کہتے ہیں۔
 

خرم

محفلین
سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا ہنگامہ کیوں ہو جاتا ہے ہر بات پر؟ سادہ سی بات ہے بھائیو اور بہنو، اگر آپ کو نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی ساعت پر خوشی اور افتخار ہوتا ہے تو یہ آپ کی عید ہے کہ عید کا مطلب تو خوشی ہی ہوتا ہے۔ اب اس ساعتِ مبارک کو کس طرح‌منایا جائے اس پر بھی سب اتفاق کرتے ہیں۔ قرآن پڑھیں، سُنتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کریں، خیرات کریں، حمد و نعت کی محافل آراستہ کریں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم میں سےکوئی بھی ان کاموں سے یا ان باتوں سے اختلاف کرسکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس لئے ان افعال کو بارہ ربیع الاول کو سرانجام دیتا ہے کہ آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا دن ہے اور اس دن کی حیا سے وہ سُنت رسول کی زیادہ پیروی اور حُبِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیادتی کرتا ہے تو اس میں دین کا کونسا پہلو مجروح ہوتا ہے؟ اور اگر نہیں ہوتا تو کیوں بال کی کھال اُتارتے ہیں؟ ہم سب کو اس ساعتِ مسعود کی خوشی ہے جب ہمارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے کہ وہ رحمت اللعالمین ہیں اور ہم پر ان کی رحمت برستی ہے۔ اگر کسی کو خوشی ہے تو اسے منانے دیں اور اگر کسی کو اس دن میں‌اور کسی عام دن میں کوئی فرق نہیں لگتا تو انہیں‌مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ اس دن خوش ہوں۔ یہ تو اپنے اپنے دل کی بات ہے۔ باقی خرافات اور بدعت کے الزامات کو رہنے دیا جائے تو بہتر ہے وگرنہ اردو پنجابی بولنے سے لیکر احادیث و قرآن کے تراجم لکھنے اور پڑھنے تک سب بدعت ہی شمار ہوں گے اور ایک وقت میں ہوتے بھی رہے ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
بالکل صحیح کہا آپ نے شمشاد صاحب۔

خرم صاحب (فوٹو ٹیک81) صاحب یا جس کی بھی یہ تحریر اس کو سخت مغالطہ ہوا ہے کہ 'میلادی' کو میلاد النبی (ص) کے ساتھ منسوب کر دیا، حالانکہ عرب اور ایران میں میلاد کی یہ تاریخ حضرت عیسیٰ کے ساتھ منسوب ہے جسے ہم یہاں برصغیر میں عیسوی لکھتے اور کہتے ہیں۔

سر میں نے یہ تحریر کسی دوسرے فارمز سے لی ہے جس کا میں نے لینک بھی دیا ہے
اچھا سر مجھے بتا دے 'میلادی' اور میلاد النبی(ص) میں کیا فرق ہے شکریہ
 

محمد وارث

لائبریرین
میلاد کا مطلب ہے پیدائش، میلادی جو تاریخ کے ساتھ استعمال ہوتا ہے اسکا مطلب ہے کہ یہ فلاں تاریخ ہے حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے بعد جیسے ہم عیسوی لکھتے ہیں۔ میلاد النبی (ص) کا مطلب ہے حضرت محمد (ص) کی پیدائش۔

فرق کی بات یہ ہے کہ دنیا میں کوئی تاریخ ایسی نہیں ہے جو حضرت محمد (ص) کی پیدائش کے ساتھ منسلک ہو (اسکی جگہ مسلمان ھجری استعمال کرتے ہیں)، لیکن میلادی یا عیسوی تاریخ حضرت عیسیٰ (ع) کی پیدائش کے ساتھ منسلک ہے۔

اسلئے 'میلادی' سے یہ استدلال لانا کہ سعودی عرب میں (یا ایران میں بھی) بھی 'میلادی' کا لفظ کیلنڈروں میں استعمال ہوتا ہے اور اسے میلاد النبی (ص) کے ساتھ منسلک کرنا منطقی طور پر غلط بلکہ لغو استنباط ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خرم بھائی جو ربط آپ نے دیا ہے انہوں نے بھی بغیر تحقیق کے ہی لکھ دیا ہے۔

سعودی عرب میں 'میلادی' کا لفظ عربی کیلنڈروں میں استعمال نہیں ہوتا۔
عربی کے لیے ہجری اور عیسوی کیلنڈر کے لیے میلادی استعمال ہوتا ہے۔

ایک اور بات یہ کہ یہاں سرکاری زبان عربی ہے اور تمام سرکاری محکموں میں عربی ہی استعمال ہوتی ہے۔ عربی تاریخوں کے لیے " اُم القریٰ " کیلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ اب ہر ماہ چاند کی تاریخ میں چاہے فرق آ جائے لیکن خط و کتابت میں وہی تاریخ استعمال ہو گی جو عربی کیلنڈر میں درج ہے۔
 

damsel

معطل
سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا ہنگامہ کیوں ہو جاتا ہے ہر بات پر؟ سادہ سی بات ہے بھائیو اور بہنو، اگر آپ کو نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی ساعت پر خوشی اور افتخار ہوتا ہے تو یہ آپ کی عید ہے کہ عید کا مطلب تو خوشی ہی ہوتا ہے۔ اب اس ساعتِ مبارک کو کس طرح‌منایا جائے اس پر بھی سب اتفاق کرتے ہیں۔ قرآن پڑھیں، سُنتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کریں، خیرات کریں، حمد و نعت کی محافل آراستہ کریں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم میں سےکوئی بھی ان کاموں سے یا ان باتوں سے اختلاف کرسکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس لئے ان افعال کو بارہ ربیع الاول کو سرانجام دیتا ہے کہ آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا دن ہے اور اس دن کی حیا سے وہ سُنت رسول کی زیادہ پیروی اور حُبِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیادتی کرتا ہے تو اس میں دین کا کونسا پہلو مجروح ہوتا ہے؟ اور اگر نہیں ہوتا تو کیوں بال کی کھال اُتارتے ہیں؟ ہم سب کو اس ساعتِ مسعود کی خوشی ہے جب ہمارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے کہ وہ رحمت اللعالمین ہیں اور ہم پر ان کی رحمت برستی ہے۔ اگر کسی کو خوشی ہے تو اسے منانے دیں اور اگر کسی کو اس دن میں‌اور کسی عام دن میں کوئی فرق نہیں لگتا تو انہیں‌مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ اس دن خوش ہوں۔ یہ تو اپنے اپنے دل کی بات ہے۔ باقی خرافات اور بدعت کے الزامات کو رہنے دیا جائے تو بہتر ہے وگرنہ اردو پنجابی بولنے سے لیکر احادیث و قرآن کے تراجم لکھنے اور پڑھنے تک سب بدعت ہی شمار ہوں گے اور ایک وقت میں ہوتے بھی رہے ہیں۔


اس لیے کہ دین آپ کی چوائس کا نام نہین ہے اور نہ آپکے دل کی کوئی خواہش ہے وہ جیسا ہے وہ ویسا ہی اپنانا ہے اور رول ماڈلز اور رہنمائی کرنے والی کتاب کو دیکھنا ہے۔ بدعت ہے نہیں ہے خوشی کا موقع ہے نہیں ہے یہ صحابہ کرام ہم سے بہترطور پر جانتے تھے ان سے جس عمل کی سند نہ ملے اس پر بحث یا تائید ایک غلط بات ہوگی۔
اور آقا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی من و عن پیروی ان سے محبت کا سب سے بڑا اظہار ہے باقی ہر چیز ثانوی ہے
 

رضا

معطل
سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا ہنگامہ کیوں ہو جاتا ہے ہر بات پر؟ سادہ سی بات ہے بھائیو اور بہنو، اگر آپ کو نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد کی ساعت پر خوشی اور افتخار ہوتا ہے تو یہ آپ کی عید ہے کہ عید کا مطلب تو خوشی ہی ہوتا ہے۔ اب اس ساعتِ مبارک کو کس طرح‌منایا جائے اس پر بھی سب اتفاق کرتے ہیں۔ قرآن پڑھیں، سُنتِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان کریں، خیرات کریں، حمد و نعت کی محافل آراستہ کریں۔ میرا نہیں خیال کہ ہم میں سےکوئی بھی ان کاموں سے یا ان باتوں سے اختلاف کرسکتا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اس لئے ان افعال کو بارہ ربیع الاول کو سرانجام دیتا ہے کہ آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس جہانِ رنگ و بو میں تشریف آوری کا دن ہے اور اس دن کی حیا سے وہ سُنت رسول کی زیادہ پیروی اور حُبِ رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیادتی کرتا ہے تو اس میں دین کا کونسا پہلو مجروح ہوتا ہے؟ اور اگر نہیں ہوتا تو کیوں بال کی کھال اُتارتے ہیں؟ ہم سب کو اس ساعتِ مسعود کی خوشی ہے جب ہمارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے کہ وہ رحمت اللعالمین ہیں اور ہم پر ان کی رحمت برستی ہے۔ اگر کسی کو خوشی ہے تو اسے منانے دیں اور اگر کسی کو اس دن میں‌اور کسی عام دن میں کوئی فرق نہیں لگتا تو انہیں‌مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کہ وہ اس دن خوش ہوں۔ یہ تو اپنے اپنے دل کی بات ہے۔ باقی خرافات اور بدعت کے الزامات کو رہنے دیا جائے تو بہتر ہے وگرنہ اردو پنجابی بولنے سے لیکر احادیث و قرآن کے تراجم لکھنے اور پڑھنے تک سب بدعت ہی شمار ہوں گے اور ایک وقت میں ہوتے بھی رہے ہیں۔

بہت شکریہ خرم بھائی آپ نے بہت جامع بات تحریر کردی۔ اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
لیکن جن کی قسمت میں الجھنا ہوتا ہے وہ مانتے ہی نہیں الجھتے ہی رہتے ہیں۔
اس کی وجہ پہ غور کرتا ہوں تو ایک شعر یاد آتا ہے۔ملاحظہ فرمائیں۔(کسی کو ہٹ نہیں کررہا۔یہ ان کیلئے ہے جو حق بات کو بھی قبول نہیں کرتے۔غلط نہ سمجھا جائے)
[FONT="Noor_e_Quran"]لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ [/FONT]تھا وعدہء ازلی
نہ منکروں کا عجب بدعقیدہ ہونا تھا
شاعر نے سورہء ھود کی 119ویں آیت کو مدنظر رکھ کر شعر کہا ہے۔
119.gif

ترجمہء کنزالایمان:مگر جن پر تمہارے رب نے رحم کیا (ف۲۴۱) اور لوگ اسی لئے بنائے ہیں (ف۲۴۲) اور تمہارے رب کی بات پوری ہوچکی کہ بیشک ضرور جہنّم بھر دوں گا جنّوں اور آدمیوں کو ملا کر (ف۲۴۳)
تفسیر خزائن العرفان:241-وہ دینِ حق پر متفق رہیں گے اور اس میں اختلاف نہ کریں گے ۔242-یعنی اختلاف والے اختلاف کے لئے اور رحمت والے اتفاق کے لئے ۔243-کیونکہ اس کو علم ہے کہ باطل کے اختیار کرنے والے بہت ہوں گے ۔
 

خرم

محفلین
اس لیے کہ دین آپ کی چوائس کا نام نہین ہے اور نہ آپکے دل کی کوئی خواہش ہے وہ جیسا ہے وہ ویسا ہی اپنانا ہے اور رول ماڈلز اور رہنمائی کرنے والی کتاب کو دیکھنا ہے۔ بدعت ہے نہیں ہے خوشی کا موقع ہے نہیں ہے یہ صحابہ کرام ہم سے بہترطور پر جانتے تھے ان سے جس عمل کی سند نہ ملے اس پر بحث یا تائید ایک غلط بات ہوگی۔
اور آقا صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی من و عن پیروی ان سے محبت کا سب سے بڑا اظہار ہے باقی ہر چیز ثانوی ہے
بھائی آپ صحابہ کرام کی حیات سے مجھے ایک مثال لا دیں جب وہ مساجد میں امام یا مؤذن مقرر کرتے تھے جیسا کہ آج کل کا دستور ہے۔ اور ویسے بھی یہ کسی نے نہیں کہا کہ عید میلاد النبی کی خوشی منانا فرض یا واجب ہے یا اس کی الگ نمازیں ہیں یا اس دن کو خوش نہ ہونے والا غیر مسلم ہے۔ تو جو چیز جہاں ہے وہیں رہنے دی جائے تو بہتر ہے۔ دین کی اگر بات ہے تو دین عشقِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کچھ نہیں وگرنہ اللہ کی عبادت تو اور مذاہب کے لوگ بھی کرتے ہیں اور مشرکینِ مکہ کو بھی اللہ کی عبادت پر اعتراض نہیں تھا۔ اگر صحابہ کرام نے کسی کو میلاد منانے سے یا اس دن کی خوشی منانے سے روکا ہو تو ہم بھی خوشی منانا بند کر دیتے ہیں وگرنہ اس بات پر اصرار میرے تئیں تو فضول ہے۔ اور ویسے بھی حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو عشقِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے تمام دانت توڑ ڈالے تھے جبکہ اصحابِ کبار میں سے کسی نے ایسا عمل نہیں کیا تھا۔ تو جب ان کے عمل کی کسی صحابی نے مذمت نہیں کی بلکہ تحسین کی تو پھر میں اور آپ کون ہیں عشقِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں قدغنیں لگانے والے؟ حُبِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خلوصِ نیت سے ماسوائے شرک کے جو بھی عمل کیا جائے وہ جائز اور باعثِ برکت ہے۔ آج کل تو لوگ نعت پڑھنے کو بھی بُرا جانتے ہیں حالانکہ نعت سُننا تو سُنتِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو اس سُنت کو ادا کرتے ہیں؟ میلادِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب لوگ اس سُنت کی ادائیگی بھی کر لیتے ہیں۔ اور جو کسی سُنت کا احیاء کرے اس کی فضیلت سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔
 

رضا

معطل
لیں خرم بھائی میرے پوسٹ کرنے سے پہلے ہی آپ کی پوسٹ پہ رپلائی آگیا۔میں سمجھا تھا شاید اس پر اعتراض نہ ہو۔لیکن ۔۔۔۔۔
 
جزاک اللہ، خرم اور رضا بھائی
منکرین میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے گزارش ہے وہ میلاد منانے کے متعلق تو روایات مانگ رہے ہیں مگر ذرا وہ کوئی ایسی روایات لا کر دکھائیں کہ جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے محبت کرنے کی ممانت ہو وہ تو وہ ہستی ہے کہ جسکو انسان کا ظاہری پن کی ضرورت نہیں وہ تو نیتوں کو اور خلوص کو دیکھتا ہے
اعتراض کیا ہے کہ کہ جھنڈیاں اور لائٹنگ صرف فضول خرچی ہے
تو عرض ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کا یا گورنمنٹ لیول کا جلسہ ہوتا ہے تو اس کو سجانے کی خاطر کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس پر کوئی فتوی کیون نہیں لگاتا وہاں کیوں سب کی بولتی بند ہو جاتی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
جب محفل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو اور یہ میلاد بھی اس شان والے نبی کا کہ جو دونوں جہانوں کے لئے رحمت بن کر آیا ہے تو اس کی آمد کی خوشی میں محفل میں جس میں اس کا ذکر ہو اور وہ بھی بغیر کسی کی سجاوٹ کے تو کتنی عجیب بات ہے


شمشاد بھائی آپ سے اک سوال ہے ؟؟؟؟؟
گنبد حضری کے باہر دروازوں پر جالیوں مبارک میں یااللہ(ج) اور یا محمد (ص) لکھا ہوا تھا جو کہ ابھی تو یا اللہ (ج) سلامت ہے مگر یامحمد(ص)کے لفظ یا کو ختم کرنے کی کوشش کی گی مگر مکمل ختم کرتے تو جالی مبارک ٹوٹتی ،میرا سوال یہ ہے کہ جس ہستی نے یا محمد(ص) لکھوایا تھا وہ پاگل تھی کیا کہ اب سعودیہ حکومت؟؟؟؟؟ یا کا لفظ ہٹانے کی کونسی تک بنتی ہے ؟؟؟؟
 

damsel

معطل
بھائی آپ صحابہ کرام کی حیات سے مجھے ایک مثال لا دیں جب وہ مساجد میں امام یا مؤذن مقرر کرتے تھے جیسا کہ آج کل کا دستور ہے۔

حضرت بلال موذن ہی تھے شاید۔موزنِ رسول کہا گیا ہے ان کو،لیکن اس زمانے میں اللہ کا کرم تھا کہ ہر مسلمان دین میں اتنا آگے تھا کہ موذن یا امام مقرر کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی آج ایسا ہے نہیں لوگوں اذان بھی پوری آتی ہے یا نہیں

دین کی اگر بات ہے تو دین عشقِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا کچھ نہیں وگرنہ اللہ کی عبادت تو اور مذاہب کے لوگ بھی کرتے ہیں اور مشرکینِ مکہ کو بھی اللہ کی عبادت پر اعتراض نہیں تھا۔
جی بالکل مشرکینِ مکہ کو اللہ کی عبادت پر کوئی اعتراض نہ تھا وہ صرف اللہ کے ساتھ دوسرے خداووں کی عبادت بھی کرنا چاہتے تھے۔ یعنی شرک۔ "دین عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ نہیں" تو اللہ جو خالق ہے وہ؟؟؟

اگر صحابہ کرام نے کسی کو میلاد منانے سے یا اس دن کی خوشی منانے سے روکا ہو تو ہم بھی خوشی منانا بند کر دیتے ہیں وگرنہ اس بات پر اصرار میرے تئیں تو فضول ہے۔
جی منع کیا یا نہیں یہ مجھے نہیں پتا البتہ حدیث یہ ہی ہے (مفہوم) آپ صلی اللہ علیہ الہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ پیر کے دن پیدا ہوے اس لیے اس دن روزہ رکھنا چاہیے۔ اور یہ بھی ہے کہ کسی صحابی نے ویسا میلاد منایا نہیں جیسا منایا جاتا ہے ہمارے یہاں۔مسلمانوں کی خوشی کے دن خود حدیث میں 2 بتائے گئے ہیں۔عید الفطر اور عید الاضحی

ویسے بھی حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تو عشقِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے تمام دانت توڑ ڈالے تھے
عشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے کس کو انکار ہے؟؟لیکن میں نعرہ اور دعوی تو کروں عشقِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور میرا کوئی بھی عمل اس کے مطابق نہ ہو تو اس دعوی مین اخلاص تو نہ ہوگا نہ۔ یعنی مین اپنی والدہ سے کہوں مجھے آپ سے بہت محبت ہے لیکن روٹی آپ خود پکا لیں کیونکہ مجھے تو چولہے کے آگے گرمی لگتی ہے، یا امی میں اپ کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں لیکن پیاز آپ خود کاٹ لیں میرے ہاتھ خراب ہو جائیں گے تو یہ کھوکھلا دعوی ہوگا میرا۔ لوگ بڑی بڑی باتین کرتے ہیں آج ک دور میں اور سال مین ایک دن کچھ دین کے نام پر کر کے خود کو بری الذمہ جانتے ہیں وہ صرف کوئی ایک سنت کوئی بھی(جو انھوں نے نہ اپنائی ہو اب تک) مثلا داڑھی رکھنا،ٹخنوں سے اونچے پائنچے،باجماعت 5 وقت نماز سال کے 365 دن کر کے دکھا دیں اور پھر دعوی کریں

آج کل تو لوگ نعت پڑھنے کو بھی بُرا جانتے ہیں حالانکہ نعت سُننا تو سُنتِ نبوی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو اس سُنت کو ادا کرتے ہیں؟ جی تمام نعتیں نہیں صرف وہ جن مین غلو اتنا کیا گیا کہ شرک کا اندیشہ لاحق ہونے لگتا ہے۔
میلادِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ایک ایسا موقع ہوتا ہے جب لوگ اس سُنت کی ادائیگی بھی کر لیتے ہیں۔ صرف اس دن کیوں سارا سال کیوں نہیں؟؟؟جس کے دل میں تڑپ ہو وہ موقع کا انتظار نہیں کرتا بلکہ مواقع خود پیدا کرتا ہے
اور جو کسی سُنت کا احیاء کرے اس کی فضیلت سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔جی بالکل ،اس کے لیے واقعی بہت اجر ہے جو دین کو اور سنتوں کو زندہ کرے اس زمانے میں جب وہ لوگوں کے لیے اجنبی ہوجائیں
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی آپ سے اک سوال ہے ؟؟؟؟؟
گنبد حضری کے باہر دروازوں پر جالیوں مبارک میں یااللہ(ج) اور یا محمد (ص) لکھا ہوا تھا جو کہ ابھی تو یا اللہ (ج) سلامت ہے مگر یامحمد(ص)کے لفظ یا کو ختم کرنے کی کوشش کی گی مگر مکمل ختم کرتے تو جالی مبارک ٹوٹتی ،میرا سوال یہ ہے کہ جس ہستی نے یا محمد(ص) لکھوایا تھا وہ پاگل تھی کیا کہ اب سعودیہ حکومت؟؟؟؟؟ یا کا لفظ ہٹانے کی کونسی تک بنتی ہے ؟؟؟؟


عبید بھائی کیا آپ نے خود یا محمد لکھا ہو دیکھا ہے یا کسی سے سنا ہے؟

وہ یا محمد نہیں بلکہ یا مجید لکھا ہوا ہے۔ یہ میں خود دیکھا ہے اور ایک بار نہیں کئی بار دیکھا ہے۔

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اتنی بڑی ہے جتنا رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مدینہ شہر تھا۔ اس مسجد ہر طرف اللہ کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام اور قرآنی آیات اتنی کثیر تعداد میں لکھی ہوئی ہیں کہ ہر کونہ، ہر ستون، ہر محراب، کیا چھت اور کیا دیوار کوئی بھی جگہ خالی نہیں۔ لیکن عبید بھائی یا محمد کہیں بھی نہیں لکھا ہوا۔
 

رضا

معطل
شمشاد بھائی آپ کو اتنا کچھ پتا ہےتو آپ کو یہ بھی پتا ہوگاکہ سعود بحری ڈاکو تھا۔پہلے اس نے عرب کے کچھ حصے پہ قبضہ کیا۔جس حصے پہ قبضہ کرتا اس کا نام سعودی پڑتا جاتا۔پھر آہستہ آہستہ اس نے عرب شریف کے بہت سارے حصے پر قبضہ جمالیا۔سعودی حکومت کے مٹائے ہوئے الفاظ تو میں نے خود نہیں دیکھے۔لیکن بڑے مستند لوگوں سے سنے ہیں۔اس کو ثابت بھی کیا جاسکتاہے۔
لیکن ادھر پاکستان میں کئی ایسی مساجد دیکھی ہیں جو پہلے اہلسنّت کے پاس تھیں جب ان پر ھوابی یا دیوبندی قابض ہوئے تو لفظ "یا" ختم کردیا جاتاہے۔اسی سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ جب ترکی(اہل محبت) کا دور خدمت تھا تو کئی جگہوں پر یا محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) لکھا ہوگا۔لیکن جیسے سعودیوں کا دور حکومت آیا تو کچھ عجب نہیں کہ انہوں نے لفظ یا کو نہ مٹایا ہو۔
صحابہ کرام کی قبروں کو بلڈوزروں سے مسمار کرنا اسی حکومت کا خاصہ ہے۔
ان کے مٹانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔اگر وہ مٹاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یا محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نہ لکھا جائے۔
امام بخاری نے ادب المفرد میں عبد اللہ ابن عمر کا یہ عمل نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ انکا پاوں سو گیا تو انھیں کسی نے مشورہ دیا کہ اپنی سب سے محبوب ہستی کو یا د کیجیے تو انھوں نے پکا را یا محمداہ تو انکا پاو ں بلکل ٹھیک ہوگیا۔۔۔اب آپ کا فتویٰ ان پر کیا ہے ؟ کہ انھوں نے حضور کے وصال مبارک کے بعد ان کو یا سے خطاب کیا؟ اور اسی طرح امام ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں روایت نقل کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد مسلمانوں کا کسی بھی جنگ میں یہ نعرہ شعار ہو تا تھا یا محمداہ یا رسول اللہ امتک امتک۔۔۔۔؟
 

شمشاد

لائبریرین
اور یہ رہی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جالی کی تصویر۔ جہاں یا اللہ اور یا مجید لکھا ہوا صاف نظر آ رہا ہے۔

dggigl.jpg
 

رضا

معطل
یا اللہ یا مجید جل جلالہ لکھنے میں‌ کوئی مذائقہ نہیں۔
بلکہ بات یہ ہے کہ یا محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کیوں نہ لکھا؟
ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
خدا کا ذکر کرے ذکر مصطفی نہ کرے
ہمارے منہ میں ہو ایسی زبان خدا نہ کرے
امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں
ذکر خدا جو ان سے جدا چاہو نجدیو
واللہ ذکر حق نہیں کنجی سقر کی ہے
 

خرم

محفلین
حضرت بلال موذن ہی تھے شاید۔موزنِ رسول کہا گیا ہے ان کو،لیکن اس زمانے میں اللہ کا کرم تھا کہ ہر مسلمان دین میں اتنا آگے تھا کہ موذن یا امام مقرر کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی آج ایسا ہے نہیں لوگوں اذان بھی پوری آتی ہے یا نہیں
بہنا اور اذان دینے کی حضرت بلال کو کیا تنخواہ ملتی تھی یہ بھی بتا دیجئے؟ بات صرف اتنی ہے کہ ہماری "بدعتوں" کا سارا زور نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کو کم کرنے پر ہے۔ وگرنہ اگر بدعت کے اصول لاگو کرنے ہیں تو اور بہت جگہیں ہیں جہاں بدعتِ قبیح دھوم دھڑکے سے جاری ہے۔

جی بالکل مشرکینِ مکہ کو اللہ کی عبادت پر کوئی اعتراض نہ تھا وہ صرف اللہ کے ساتھ دوسرے خداووں کی عبادت بھی کرنا چاہتے تھے۔ یعنی شرک۔ "دین عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کچھ نہیں" تو اللہ جو خالق ہے وہ؟؟؟
بہنا مشرکین کہتے تھے کہ ہم اللہ کو رب مانتے ہیں قرآن کو اس کی کتاب بھی مانتے ہیں لیکن آپ کی اطاعت نہیں کرسکتے۔ ابوجہل کا بھی یہی اختلاف تھا، یہودِ مدینہ کا بھی یہی اختلاف تھا اور جس جس نے یہ عقیدہ یا اس سے ملتاجلتا عقیدہ رکھا اللہ نے اس پر ہدایت کے دروازے بند کر دئے۔ اور کیا حُبِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حُبِ محب و محبوبِ مصطفٰے صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے؟ اللہ نے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و اتباع کے سوا اپنے تک پہنچنے کا کوئی دروازہ بنایا ہی نہیں۔ تمام انبیاء کو دنیا میں بعد میں بھیجا پہلے ان سے عہد لیا کہ اگر نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی حیاتِ ظاہری میں تشریف لائیں گے تو وہ اپنی شریعت و نبوت کو چھوڑ کر آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کریں گے۔ جب انبیاء کا یہ حال تھا تو ما و شما کس قطار میں؟
جی منع کیا یا نہیں یہ مجھے نہیں پتا البتہ حدیث یہ ہی ہے (مفہوم) آپ صلی اللہ علیہ الہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ پیر کے دن پیدا ہوے اس لیے اس دن روزہ رکھنا چاہیے۔ اور یہ بھی ہے کہ کسی صحابی نے ویسا میلاد منایا نہیں جیسا منایا جاتا ہے ہمارے یہاں۔مسلمانوں کی خوشی کے دن خود حدیث میں 2 بتائے گئے ہیں۔عید الفطر اور عید الاضحی

پھر یہ جو ایامِ آزادی وہ پیدائش اور دیگر خوشیاں منائی جاتی ہیں وہ بھی ازروئے اسلام حرام ٹھہریں؟ ہے نا؟ تو پھر اس کا مطلب یہی ہے نا کہ اسلام صرف ان دو دنوں کے کسی بھی دن کو خوشی منانے کی اجازت نہیں دیتا؟

[
COLOR="blue"]عشق رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم سے کس کو انکار ہے؟؟لیکن میں نعرہ اور دعوی تو کروں عشقِ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور میرا کوئی بھی عمل اس کے مطابق نہ ہو تو اس دعوی مین اخلاص تو نہ ہوگا نہ۔ یعنی مین اپنی والدہ سے کہوں مجھے آپ سے بہت محبت ہے لیکن روٹی آپ خود پکا لیں کیونکہ مجھے تو چولہے کے آگے گرمی لگتی ہے، یا امی میں اپ کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہوں لیکن پیاز آپ خود کاٹ لیں میرے ہاتھ خراب ہو جائیں گے تو یہ کھوکھلا دعوی ہوگا میرا۔ لوگ بڑی بڑی باتین کرتے ہیں آج ک دور میں اور سال مین ایک دن کچھ دین کے نام پر کر کے خود کو بری الذمہ جانتے ہیں وہ صرف کوئی ایک سنت کوئی بھی(جو انھوں نے نہ اپنائی ہو اب تک) مثلا داڑھی رکھنا،ٹخنوں سے اونچے پائنچے،باجماعت 5 وقت نماز سال کے 365 دن کر کے دکھا دیں اور پھر دعوی کریں [/COLOR]

دیکھئے دعوٰی کرنا اور کام نہ کرنا تو بُرا ہے لیکن جسے دعوٰی ہی نہیں اس کے کام کی تو بالکل بھی اہمیت نہیں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور جو سُنن آپ نے گنوائی ہیں، افسوس کہ آپ کی نظر ان سے آگے گئی ہی نہیں وگرنہ سچ بولنا اور ایمانداری ان سے بڑی سُنن ہیں۔ اور ویسے بھی جسے عشق کا دعوٰی ہے وہ تو کبھی عملی مطابقت کا خیال بھی کرے گا لیکن جسے عشق ہی نہیں وہ تو ایسا سوچے گا بھی نہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں سونا ان نوافل سے بہتر ہے جو ان کی پیروی کے خیال کے بغیر پڑھے جائیں۔
جی تمام نعتیں نہیں صرف وہ جن مین غلو اتنا کیا گیا کہ شرک کا اندیشہ لاحق ہونے لگتا ہے۔
ًمثلاً؟ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ایک نعتیہ شعر کا مصرعہ ہے "فانک خلقت کما تشاءُ"۔ اس پر کیا کہئے گا؟ اللہ نے تو کلمہ توحید میں بھی اپنے نام کے ساتھ اپنے پیارے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لگایا۔ اب ہمیں آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں غلو کی فکر ہے۔ جس ہستی کا ثناء خواں اس کا پروردگار اور مالک الملک ہے، اس کی شان میں آپ کیا غلو کرلیں گے؟ نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا رشتہ دار یا اللہ کی حکومت میں حصہ دار سمجھنے کے سوا جو کہئے جائز ہے۔ باقی جو اللہ نے اپنے حبیب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عطا کی ہے ہم میں سے کسی کی مجال نہیں کہ اسکے متعلق اندازہ بھی لگا سکیں۔

صرف اس دن کیوں سارا سال کیوں نہیں؟؟؟جس کے دل میں تڑپ ہو وہ موقع کا انتظار نہیں کرتا بلکہ مواقع خود پیدا کرتا ہے
یقیناً لیکن ابھی تو جو سال بھر میں صرف ایک دن ہی نعت سُننے آتے ہیں لوگ ان کے ہی پیچھے پڑے ہیں۔ آپ لوگوں کو ایک دن نعتیں سُن لینے دیں پھر انشاء اللہ دنوں کی تعداد بھی بڑھتی جائے گی۔
جی بالکل ،اس کے لیے واقعی بہت اجر ہے جو دین کو اور سنتوں کو زندہ کرے اس زمانے میں جب وہ لوگوں کے لیے اجنبی ہوجائیں
تو نعت سماعت کرنے کی سُنت جن محافل میں زندہ کی جاتی ہے ان سے بیر کیوں؟
 

رضا

معطل
بھائی دین کے معاملے میں ایک اصول ہے جو بھی بات کریں قرآن اور حدیث کے حوالے سے کریں اور جو حدیث بھی بیان کریں اس کا ساتھ حوالہ دیں اس کی سند بتائیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ضعیف ہے حسن ہے آپ نے جو حدیث بیان کی ہے نہ تو حوالہ لکھا ہے نہ ہی کچھ اور کسی بھی حدیث کو بیان کرنے کے لیے اس کا صرف حدیث کہہ دینا کافی نہیں ہوتا ہے۔۔۔
کنز العمال کیا ہے اس بارے میں بھی تفصیل بتا دیں جزاک اللہ خیرا۔۔
انما انا قاسم واللہ یعطی۔ میں بانٹتا ہوں اور اللہ دینا ہے۔ (بخاری و مسلم)
کنزالعمال حدیث کی کتاب ہے۔درس نظامی میں‌ پڑھائی جاتی ہے۔
 

رضا

معطل
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہ


میلادالنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
(اما اہلسنت امام احمد رضا خان قدس سرہ
کی ایک نفیس تقریر کا خلاصہ بالاضافہ)

نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم وعلٰی آلہ و اصحابہ اجمعین ہ



حضور “ نعمۃاللہ “ ہیں، قرآن عظیم نے ان کا نام “نعمۃ اللہ “ رکھا۔ (اللہ کی نعمت عظمٰی)
“الذین بدلوا نعمۃاللہ کفرا“
جن لوگوں نے اللہ کی نعمت ، ناشکری سے بدل دی ۔
کی تفسیر میں حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
“نعمۃاللہ“ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں ۔ولہذا ان کی تشریف آوری کا تذکرہ امتثال امر الہی (تعمیل حکم خداوندی) ہے۔
قال اللہ تعالٰی:
وامابنعمۃ ربک فحدث ہ
“ اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔“
حضور اقدس کی تشریف آوری ، سب نعمتوں سے اعلٰی نعمت ہے یہی تشریف آوری ہے جس کے طفیل دنیا ، قبر، حشر،برزخ،آخرت، غرض ہر وقت، ہر جگہ، ہر آن، نعمت ظاہر وباطن سے ہمارا ایک ایک رونگٹا متمتع اور بہر مندہ ہے اور ہو گا۔ انشاءاللہ تعالٰی۔
اپنے رب کے حکم سے، اپنے رب کی نعمتوں کا چرچہ، مجلس میلاد میں ہوتا ہے۔ مجلس میلاد آخر وہی شے ہے جس کاحکم رب العزت دے رہا ہے۔
مجلس مبارک کی حقیقت، مجمع المسلمین کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری و فضائل جلیلہ وکمالات جمیلہ کا ذکر سناناہے۔(یہی اس کی حقیقت ہے) بند یا رقعہ باٹنا، یا طعام و شیرینی کی تقسیم، اس کا جزء حقیقت نہیں(کہ اس کے بغیر میلاد کا وجود ہی معدوم ہو) نہ ان میں کچھ جرم، اول دعوت الی الخیر ( خیر کی طرف بلانا) ہے اور دعوت الی الخیر بے شک خیر ہے۔
اللہ عزوجل فرماتاہے:
ومن احسن قولا ممن دعا الی اللہ۔
“ اس سے زیادہ کس کی بات اچھی ہو جو اللہ کی طرف بلائے۔“
صحیح مسلم شریف میں ہے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
من دعا الی ھدی کان لہ الاجر مثل اجور من تبعہ ولا ینقص ذلک من اجورھم شیئا۔
“ جو لوگوں کو کسی ہدایت کی طرف بلائے ، جتنے اس کا بلانا قبول کریں، ان سب کے برابر اسے ثواب ملے اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو۔“
اور اطعام طعام ( کھلانے پلانے کااہتمام و انتظام) یا تقسیم شیرینی ، بر وصلہ و احسان و صدقی ہے اور یہ سب شرعا محمود۔( کہ قرآن و حدیث میں جا بجا اس کی ترکیب و تاکید آئی۔)ان مجالس کے لئے صرف تم ہی نہیں ۔ ملائکہ بھی تداعی کرتے ہیں جہاں جلس ذکر شریف ہوتے دیکھہ، ایک دوسرے کع بلاتے ہیں کہ آؤ یہاں تمھارا مطلوب ہے۔ پھر وہاں سے آسمان تک چھا جاتے ہیں۔ تم دنیا کی مٹھائی بانٹتے ہو۔ ادھر سے رحمت کی شیرینی تقسیم ہوتی ہے۔ وہ بھی ایسی عام ( بلا روک ٹوک) کہ نا مستحق کو بھی حصہ دیتے ہیں۔ ( اور اس مین برغبت تمام شرکت کرنے والے مصداق بن جاتے ہیں اس حدیث کا )
ھم القوم لا یشقی بھم جلیسھم۔
“ ان لوگوں کے پاس بیٹھنے والا بھی بد بخت نہیں رہتا۔“
یہ مجلس آج سے نہیں ۔ آدم علیہ السلام نے خود کی اور کرتے رہے ۔ اور انکی اولاد میں برابر ہوتی رہی۔ کوئی دن ایسا نہ تھا کہ آدم علیہ السلام ، ذکر حضور نہ کرتے ہوں۔ اول روز سے آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو تعلیم ہی یہ فرمایا گیا کہ میرےذکر کے ساتھ، میرے حبیب و محبوب کا ذکر کیا کرو، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
جس کے لئے عملی کاروائی یہ کی گئی کہ جب روح الہی آدم علیہ الصلوۃ و السلام کے پتلے میں داخل ہوی ہے ، آنکھ کھلتی ہے، نگاہ ساق عرژ پر ٹھرتی ہے، لکھا دیکھتے ہیں:
لا الہ الا اللہ ممد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
عرض کی : الہی یہ کون ہے ؟ جس کا نام تو نے اپنے نام اقدس کے ساتھ لکھا ہے؟ ارشاد ہوا: اے آدم! وہ تیری اولاد میں سب سے پچھلا پیغمبر ہے۔ وہ نہ ہوتا تو میں تجھے نا بناتا۔
لولا ممد ما خلقتک ولا ارضا ولا سماء۔
“اسی کے طفیل میں تجھے پیدا کیا اگر وہ نہ ہوتا، نہ تجھے پیدا کرتا اور نہ زمین و آسمان بناتا۔“
تو کنیت ابو محمد کر، صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم۔
آنکھ کھلتے ہی نام بتایا گیاپھر ہر وقت ملائکہ کی زبان سے ذکر اقدس سنایا گیا۔ وہ مبارک سبق عمر بھر یاد رکھا ۔ ہمیشہ ذکر وشرشا کرتے رہے ۔ جب وصال شریف قریب آیا، شیث علیہ الصلوۃوالسلام سے ارشاد فرمایا:
“ اے فرزند میرے بعد تو خلیفہ ہوگا۔ عماد تقوی( ستون پرہیزگاری) عروہ وثقیٰ ( دستی استوار و محکم ) کو نہ چھوڑنا۔ العروۃ الوثقی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، عروہ وثقی محمد ہیں۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ جب اللہ کو یاد کرے ، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ضرور کرنا کہ میں نے فرشتوں کو دیکھا کہ ہر گھڑی ان کی یاد میں مشغول ہیں۔“
اسی طور پر چرچا ان کا ہوتا رہا ۔ پہلی انجمن روز میثاق جمائی گئی ، اس میں حضور کا ذکر تشریف آوری ہوا ۔ اور قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں فرمایا کہ:
واذ اخذ اللہ میثاق النبین لما اٰتیتیکم من کتاب و حکمۃ ثم جآ ءکم رسول مصدق لما معکم لتومن بہ التنصرنہ قال ء اقررتم واخذ تم علٰی ذلکم اصری قالوا اقررنا قال فاشھدوا قانا معکم من الشٰھدین ہ فمن تولی بعد ذلک فاو لئک ھم الفٰسقون ۔
“ اور عہد لیا اللہ نے نبیوں سے، کہ بے شک میں تمہیں کتاب و حکمت عطا فرماؤں، پر تشریف لائیں تمھارے پاس وہ رسول ، تصدیق فرمائیں ان باتوں کی جو تمھارے ساتھ ہیں تو تم ضرور ان پر ایمان لانا اور ضرور ضرور ان کی مدد کرنا۔( اور قبل اس کے کہ انبیاء کچھ عرض کرنے پائیں ) فرمایا کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا ؟ عرض کی ہم نے اقرار کیا۔فرمایا تو آپس میں ایک دوسرے کے گواہ ہو جاؤ ۔ اور میں بھی تمھارے ساتھ گواہوں سے ہوں پھر جو کوئی اس اقرار کے بعد پھر جائے تو وہی لوگ بے حکم ہیں۔“
مجلس میثاق میں “رب العزت “ نے تشریف آوری حضور کا بیان فرمایا اور تمام انبیاء علیھم الصلوۃ والسلام نے سنا اور ( انقیاد ) وگرویدگی) و اطاعت ( و خدمت گزاری ) حضور کا قول دیا۔ ان کی نبوت ہی مشروط تھی ، حضور کے مطیع و امتی بننے پر ۔ ( اللہ اللہ! امتیوں پر فرض کرتے ہیں رسولوں پر ایمان لاؤ۔ اور رسولوں پر فرض کرتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گرویدگی فرماؤ۔ ) غرض صاف صاف جتا رہے ہیں کہ مقصود اصلی ایک وہی ہیں باقی تم سب تابع و طفیلی۔


مقصود ذات او ست دگر جملگی طفیل

تو سب سے پہلے حضور کا ذکر تشریف آوری کرنے والا اللہ ہے کہ فرمایا!
ثم جآءکم رسول۔
“پھر تمھارے پاس وہ رسول تشریف لائیں۔“
اور ذکر پاک کی سب میں پہلی (مجلس) یہی مجلس انبیاء ہے۔ علیہم الصلوۃوالسلام۔ جس میں پڑھنے والا اللہ اور سننے والا انبیاء اللہ۔ (صلوات اللہ تعالٰی علیہم اجمعین)
غرض اسی طرح ہر زمانے میں ، حضور علیہ السلام کا ذکر ولادت و تشریف آوری ہوتا رہا۔ ہر قرن میں انبیاء و مرسلین، آدم علیہ السلام سے لیکر ابراہیم و موسٰی و داؤد و سلیمان و زکریا علیہم السلام تک، تمام نبی و رسول، اپنے اپنے زمانے میں مجلس حضور ترتیب دیتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ سب میں پچھلا، ذکر شریف سنانے والا ، کنواری ستھری پاک بتول کا بیٹا، جسے اللہ نے بے باپ کے پیدا کیا ، نشانی سارے جہاں کے لئے، یعنی سیدنا عیسٰی علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لایا فرماتا ہوا!
مبشرا برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد۔
“ میں بشارت دیتا ہوں ان رسول کی، جو عنقریب میرے بعد تشریف لانے والے ہیں جن کا نام پاک احمد ہے۔ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہ و صحبہ وبارک وسلم )“
یہ ہی مجلس میلاد۔ جب زمانہ ولادت شریف کا قریب آیا۔ تمام ملک و ملکوت میں محفل میلاد تھی۔ عرش پر پر محفل میلاد، فرش پر محفل میلاد، ملائکہ میں مجلس میلاد ہو رہی تھی، خوشیاں مناتے حاضر آئے ہیں، سر جھکائے کھڑے ہیں، جبرئیل و میکائیل حاضر ہیں، علیہم الصلوۃ و السلام۔ اس دولہا کا انتظار ہو رہا ہے جس کے صدقے میں یہ ساری برات بنائی گئی۔ سبع سموات میں عرش و فرش پر دھوم ہے۔
ذرا انصاف کرو، تھوڑی سی مجازی قدرت والا، اپنی مراد کے حاصل ہونے پر جس کا مدت سے انتظآر ہو، اب وقت آیا ہے تو کیا خوشی کا سامان نہ کرے گا۔ وہ عظیم مقتدر، چھ ہزار برس ہیشتر، بلکہ لاکھوں برس سے، ولادت محبوب کے پیش خیمے تیار فرمارہا ہے۔ اب وقت آیا ہے کہ وہ مراد المرادین، ظہور فرامنے والے ہیں، یہ “قادر علی کل شیء“ ( جو ہر شے پر ودرت تامہ رکھتا ہے) کیا کچھ خوشی کا سامان مہیا نہ فرمائے گا۔
شیاطین کو اس وقت جلن تھی اور اب بھی جو شیطان ہیں جلتے ہیں اور ھمہشہ جلیں گے۔ غلام تو خوش ہو رہے ہیں کہ ان کے ہاتھوں ایسا دامن آیا کہ یہ گر رہے تھے اس نے بچا لیا۔ ایسا سنبھالنے والا ملا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم۔
ایک آدمی ایک کو بچا سکتا ہے۔ دو کو بچا سکتا ہے۔ کوئی قوی ہوگا زیادہ سے زیادہ دس بیس کو بچا دے گا ۔ اور اور یہاں کروڑوں اربوں پہسلنے والے ، اور بچانے والا وہی ایک۔
انا اخذکم بحجزکم عن النار ھلموا الی۔
“ میں تمھارا بند کمر پکڑے کھینچ رہا ہوں، ارے میری طرف آؤ۔ (صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم)
یہ فرمان صرف صحابہ سے خاص نہیں۔ قسم اس کی جس نے انہیں “ رحمۃ للعلمین“ بنایا۔ آج وہ ایک ایک مسلمان کا بند کمر پکڑے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں کہ دوزخ سے بچائیں۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلی وصحبہ وبارک وسلم۔
الحمد للہ کیسا حامی پایا۔ اربوں سے اربوں پراتب، گرنے والوں کو ان کا ایک اشارہ کفایت کر رہا ہے تو ایسے کا پیدا ہونے کا ابلیس اور اس کی ذریت کو جتنا غم ہو تھوڑا ہے۔ پہاڑوں میں ابلیس اور تمام مردہ ( مردود بارگاہ الٰہ) سرکش قید کر دئے گئے تھے۔ اسی کے پیرو اب بھی غم کرتے ہیں، خوشی کے نام سے مرتے ہیں۔
“ملائکۃ سبع سموات “ ( ساتوں آسمانوں کے فرشتے ) دھوم مچا رہے تھے ۔ عرش ذوق و شوق میں ہلتا تھا، ایک علم مشرق اور دوسرا مغرب، اور تیسرا بام کعبہ پر نصب کیا گیا اور بتایا گیا کہ ان کا دار السطنت ، انہیں کی قلمرو میں داخل ہے ( اور جب ) اس مراد کے ظاہر ہونے کی گھڑی آپہنچی کہ اول روز سے اس کی محفل میلاد ، اس کے خیر مقدم کی مبارک باد ہورہی ہے،“ قادر علی کل شیء“ نے اس کی خوشی میں کیسے کچھ انتظام فرمائے ہوں گے۔
گھر گھر مسرت و شادمانی کی رسوم ، ہر طرف تہنیت و مبارکباد کی دھوم، نسیم بہار چلی، شاخ چاخ سے گلے ملی، گل فرط مسرت سے پھولے نہ سمائے ، کلیوں کی چٹک سے “ صلوات اللہ تعالٰی و سلامۃ علیک یا رسول اللہ“ کی آوازیں آئیں۔ سحاب رحمت “ اللھم صل علی ھذا النبی الکریم “ کہتا گھر آیا ۔ بوندیاں شوق دیدار میں درود پڑھتی اتریں۔ بجلیوں نے سورہ نور ورد زبان کی اور جب وہ مبارک ساعت بالکل قریب آئی جبرئیل امین ایک پیالہ شربت جنت کا سیدتنا آمنہ رضی اللہ عنہا کے لئے حاضر ہوئے ۔ اس کے نوش فرمانے سے وہ دہشت زائل ہوگئی جو ایک آواز سننے سے پیدا ہوئی تھی، پھر ایک مرگ سپید کی شکل ن=بن کر ، اپنا پر، سیدتنا آمنہ رجی اللہ عنہا کے بطن مبارک سے مل کر عرض کرنے لگے:


اظھر یا سید المرسلین
اظھر یا خاتم النبین
اظھر یا اکرم الاولین و الاخرین
“ جلوہ فرمائیے اے تمام رسولوں کے سردار! جلوہ فرمائیے اے تمام انبیاء کت خاتم، جلوہ فرمائیے اے سب اگلوں پچھلوں سے زیادہ کریم۔“

یا اور الفاظ ان کے ہم معنی، مطلب یہ کہ دونوں جہاں کے دولہا! برات سج چکی اب جلوہ افروزی سرکار کا وقت ہے۔
فظھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کالبد المنیر۔
“ پس حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ فرماہوئے جیسے چودھویں رات کا چاند۔“ ( انتھی)
اے انجمن والو ہوشیار، باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب، دست بستہ کھڑے صلوۃ و سلام عرض کرو ۔ تمھارے حمایتی ، تمھارے والی، تمھارے یاور، تمھارے سرور، تمھارے آقا، تمھارے مولا، تمھارے سردار، تمھارے غم خوار، محبوب خدا احمد مجتبٰی محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری آچکی اور وہ جان مسیح ، جان بخش عالم تشریف لا چکے۔
تعظیم کو اٹھے ہیں ملک، تم بھی کھڑے ہو
پیدا ہوئے سلطان عرب، شاہ عجم آج


الصلوۃ و السلام علیک یا رسول اللہ الصلوۃ و السلام یا نبی اللہ الصلوۃ و السلام علیک یا حبیب اللہ الصلوۃ و السلام علیک یا خیر خلق اللہ الصلوۃ و السلام علیک وعلی اٰلک و صحبک و اولیاء امتک و علماء ملتک دائما ابدا سرمدا امین والحمد للہ رب العلمین۔
شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں السلام جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام
سب بحر و بر ، سلام کو حاضر ہیں السلام سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام
سب خشک و تر ، سلام کو حاضر ہیں سب کروفر ، سلام کو حاضر ہیں السلام
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السلام ۔
 

رضا

معطل
مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی تاریخ آپ صلی اللہ الیہ وسلم کی یوم وفات کا بھی ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا ہم مبارک باد کہ سکتے ہیں :confused:

سوال: بارہ وفات کیا ہے ؟ اور اسے یہ نام کیوں دیا گیا ہے ؟

احمدرضا: دراصل اسے بارہ وفات کہنا ہی نہیں چاہئیے بلکہ اسے عید میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم“، “بارھویں شریف“، “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ کہنا چاہئیے کیونکہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو محبوب کبریا سیدالانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دنیا میں جلوہ افروز ہوئے تھے اس لئے اسے بارھویں شریف کہتے ہیں، اور چونکہ لغوی اعتبار سے عید وہ دن ہوتا ہے کہ جس میں کسی صاحب فضل یا کسی بڑے واقعے کی یادگار منائی جاتی ہو (مصباح اللغات) اور یقیناً ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت سے زیادہ صاحب فضل شخصیت اور آپ کی ولادت مبارکہ سے زیادہ اہم واقعہ اور کون سا ہو گا ؟ لٰہذا اسے “عید میلادالنبی“ یا “عیدوں کی عید“ یا “عاشقوں کی عید“ بھی کہہ دیتے ہیں-

سوال: تو پھر اسے بارہ وفات کیوں کہتے ہیں ؟

احمدرضا: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا وصال شریف بارہ ربیع الاول کو ہوا چنانچہ اس اعتبار سے اسے بارہ وفات کہہ دیتے ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ تایخ وصال “دو ربیع الاول“ ہے جیسا کہ علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی بخاری شریف کی شرح “فتح الباری“ میں طویل بحث کے بعد ثابت کیا ہے۔ چنانچہ ہمیں چاہئیے کہ خود بھی اسے بارہ وفات کہنے سے پرہیز کریں اور اس عظیم الشان خوشی کے موقع کا یہ نام رکھنے سے دوسروں کو بھی محبت و شفقت کے ساتھ روکیں۔ کم از کم اپنے گھر والوں کو تو اس بارے میں ضرور سمجھانا چاہئیے۔

سوال: اس دن مسلمانوں کو کیا کرنا چاہئیے ؟

احمدرضا: صرف اس دن ہی نہیں بلکہ ربیع النور کی پہلی تاریخ سے لے کر بارہ تک ان بارہ دنوں میں جتنا اور جس طرح بھی ممکن ہو ہر امتی کو چاہئیے کہ نور مجسم فخر بنی آدم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کیلئے خوشی کے اظہار کے مختلف طریقے اپنائے مثلاً آپس میں مبارک باد دیں اپنے گھر دکان گلی محلہ اور مسجد کو قمقموں اور جھنڈوں سے سجائیں، اپنی سائیکل یا موٹر سائیکل یا کار وغیرہ پر بھی جھنڈے لگائیں، مٹھائیاں تقسیم کریں، دودھ شربت پلائیں، کھانا کھلائیں، دوردپاک کی کثرت کریں، اجتماعات منعقد کریں جس میں مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات و معجزات اور ولادت مبارکہ، کے واقعات بیان کئے جائیں، خوب خوب نعتیہ محافل قائم کریں، ہر قسم کے صغیرہ کبیرہ گناہ سے بچیں اور نیک امعال کی کثرت کی کوشش کریں اور خصوصاً بارہ تاریخ کو گھر کو خوب صاف ستھرا رکھیں، تازہ غسل کریں ہو سکے تو نئے کپڑے اور اگر استطاعت نہ ہو تو پرانے ہی مگر اچھی طرح دھو کر پہنیں، آنکھوں میں سرمہ لگائیں، خوب اچھی طرح عطر ملیں، طاقت اور قدرت ہو تو روزہ رکھیں اور اپنے علاقے میں نکلنے والے جلوس میں شرکت کرکے اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہونے والی بےشمار رحمتوں اور برکتوں سے حصہ طلب فرمائیں۔

سوال: کیا یہ سب کرنے کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ؟

احمدرضا:دراصل اللہ تعالٰی نے ہمیں قرآن پاک میں اپنی نعمتوں کو ظاہر کرنے اور ان پر اظہار خوشی کا حکم فرمایا ہےچنانچہ سورہ الضحٰی میں ارشاد فرمایا “واما بنعمۃ ربک فحدث۔ اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچہ کرو۔“ (پارہ 30 آیت11) اور سورہ یونس میں فرمان عالیشان ہے “قل بفضل اللہ وبرحمۃ فبذلک فلیفرحوا ط ھو خیر مما یجمعون ہ تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔ ( پارہ11 آیت58 )

ان آیات مبارکہ میں اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمت کا چرچا کرنے اور اس پر خوشی منانے کا صراحۃ حکم موجود ہے“ اور اس میں کسی کو بھی ہرگز ہرگز شک و انکار نہیں ہو سکتا کہ سرور کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں آمد، اللہ تعالٰی کی عظیم نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ حکم قرآن کے مطابق اس نعمت کا بھی ہمیں خوب چرچا کرنا چاہئیے اور اس پر خوب خوب خوشیاں منانی چاہئیں اور اس اظہار خوشی کیلئے ہر وہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہونا چاہئیے کہ جسے شریعت نے منع نہ کیا ہو اور میں نے ابھی جو طریقے عرض کئے وہ تمام کے تمام جائز ہیں، ان میں سے کوئی بھی چیز شرعی لحاظ سے حرام و ممنوع نہیں۔

سوال: ان آیات میں خوشی و مسرت کے اظہار کے لئے کسی خاص وقت کی قید نہیں لگائی گئی تو پھر ہم ولادت کی خوشی کیلئے ربیع الاول کے بارہ دنوں کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں ؟

احمدرضا: مخصوص دنوں کو قلبی مسرت کے اظہار کے لئے منتخب کرنا بھی قرآن پاک کے حکم اور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا وذکرھم بایام اللہ اور انھیں اللہ عزوجل کے دن یاد دلا (پارہ 13 سورہ ابراہیم آیت5) اس آیت کریمہ کی تفسیر فرماتے ہوئے حضرت نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تفسیر خزائن العرفان میں ارشاد فرماتے ہیں “بعض مفسرین نے فرمایا کہ “ایام اللہ“ سے وہ دن مراد ہیں جن میں اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں پر انعام فرمای جیسا کہ بنی اسرائیل کے لئے من و سلوٰی اتارنے کا دن اور حضرت موسٰی علیہ السلام کے لئے دریا میں راستہ بنانے کا دن وغیرہ (خازن و مدارک و مفردات راغب) (پھر فرمایا) “ان ایام اللہ میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی “ولادت و معراج“ کے دن ہیں ان کی یادگار قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔“

اور دنوں کو عبادت وغیرہ کے ذریعے خاص کر لینا، سنت اسی طرح ہے کہ بخاری و مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ (یعنی دن محرم) کا روزہ رکھتے پایا دریافت فرمایا “یہ کیا دن ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو ؟“ عرض کی گئی “یہ عظمت والا دن ہے کہ اس میں موسٰی علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تعالٰی نے نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا، لٰہذا موسٰی علیہ السلام نے بطور شکر اس دن کا روزہ رکھا، چنانچہ ہم بھی روزہ رکھتے ہیں “ (یہ سن کر مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے) ارشاد فرمایا کہ موسٰی علیہ السلام کی موافقت کرنے میں بہ نسبت تمھارے، ہم زیادہ حق دار ہیں و قریب ہیں“ چنانچہ آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی فرمای“ دیکھئے

اس حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ جس دن اللہ تعالٰی کے کسی انعام کا نزول ہوا، اسے عبادت کیلئے مخصوص کرنا حضرت موسٰی علیہ السلام کی اور آپ کی موافقت میں مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ کے حکم کی تعمیل میں صحابہء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی بھی سنت مبارکہ ہے، چنانچہ ربیع النور شریف میں مولود مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے انعام کے حصول کے جواب میں مخلتف عبادات کا اختیار کرنا بھی یقیناً جائز اور باعث نزول رحمت ہے۔

سوال: جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ بعض لوگ 12 ربیع الاول کو یوم وفات مانتے ہیں تو احتیاط تو اس میں ہے کہ ہم اس دن خوشیاں نہ منائیں کیونکہ اگر وہ بات بالفرض درست ہے تو وفات نبی کے دن خوشی منانا تو بہت بری بات ہے ؟

احمد رضا: پیارے اسلامی بھائیو! دینی مسائل کے حل کیلئے اپنی عقل استعمال کرنے سے پہلے اللہ تعالٰی اور اس کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرنا بےحد ضروری ہے کیونکہ کثیر مسائل ایسے ہیں کہ جن میں عقل کا فیصلہ کچھ اور ہوتا ہے جب کہ شریعت کا تقاضا اس کے مخالف نظر آتا ہے، ایسے موقع پر سعادت مندی یہی ہے کہ ہم اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان پر “عقل کی آنکھیں بند کرکے“ عمل کریں اور اگر شیطان کسی قسم کا وسوسہ ڈالے تو اس سے فوراً یہ سوال کریں کہ بتا ہماری “عقل بڑی ہے یا اللہ تعالٰی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا حکم ؟“ انشاءاللہ عزوجل شیطان فوراً بھاگ جائے گا اب اس مسئلے کے بارے میں عرض ہے کہ اگر بالفرض یہ یوم وفات نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بھی ہوتا، تب بھی ہمارے لئے شرعی لحاظ سے اس میں خوشی منانا جائز اور غم منانا ناجائز ہے کیونکہ شرعی قاعدہ قانون یہ ہے کہ شوہر کی وفات کے علاوہ کسی اور کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف شوہر کی موت پر بیوی کو چار مہینے دس دن سوگ منانے کا حکم ہے چنانچہ بخاری و مسلم میں ام المومنین ام حبیبہ اور ام المومنین زینب بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “جو عورت اللہ تعالٰی اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہے تو اسے یہ حلال نہیں کہ کسی میت پر تین راتوں سے زیادہ سوگ کرے سوائے شوہر کے کہ اس پر چار مہینے دس دن سوگ کرے۔“ معلوم ہوا کہ شوہر کے علاوہ کسی کی بھی وفات پر تین دن سے زائد غم منانا جائز نہیں چنانچہ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد، آپ کی وفات پر بھی غم منانا یا سوگ کی علامت اختیار کرنا جائز نہیں ہونا چاہئیے اس کے برعکس چونکہ نعمت کے اظہار اور اس پر خوشی منانے والی آیات میں وقت کی کوئی قید نہیں چنانچہ ان کی رو سے اس دن خوشی منانا بالکل جائز ہے۔

احادیث مبارکہ کی روشنی میں یہاں ایک نکتہ بیان کر دینا بھی نفع سے خالی نہ ہو گا کہ اگر کسی ایک ہی دن پیدائش نبی بھی ہو اور وصال نبی بھی تو ہمیں انعام کے حصول پر خوشی منانے کی اجازت تو ملتی ہے، لیکن غم منانے کا حکم کہیں نظر نہیں آتا۔ مثلاً سیدکونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “بہترین دن کہ جس پر سورج طلوع ہوتا ہے جمعہ کا دن ہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی اسی میں آپ نے وفات پائی اور اسی میں قیامت قائم ہوگی۔ (ابوداؤد و ترمذی) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا کہ “جمعہ عید کا دن ہے اسے اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے لئے عید کا دن بنایا ہے۔“ (ابن ماجہ)

اب آپ غور فرمائیں کہ جمعہ حالانکہ یوم وفات بھی ہے لیکن اس کے باوجود مدنی مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے حکم سے اس دن کو ہمارے لئے عید کا دن قرار دیا ہے اور یقیناً عید کے دن خوشیاں منائی جاتی ہیں اور اس کے برعکس غم منانے کے بارے میں کوئی حکم موجود نہیں، نتیجہ یہ نکلا کہ “ہمارے لئے اس دن خوشی منانی جائز اور غم منانے کا عقلی طور پر بھی کوئی جواز نہیں کیونکہ شہہ دوسرا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اللہ تعالٰی نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسموں کا کھانا حرام کر دیا ہے لٰہذا اللہ عزوجل کے نبی (علیہم السلام) زندہ ہیں، روزی دیتے ہیں۔ (ابن ماجہ) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ کل نفس ذائقۃ الموت ( ہرجان کو موت چکھنی ہے) ( پارہ 4 سورہ آل عمران آیت185 ) کے ضابطے کے تحت انبیاء علیہم السلام کچھ دیر کیلئے وفات پاتے ہیں اور پھر اللہ تعالٰی کے حکم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو جاتے ہیں اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی علیہ ارشاد فرماتے ہیں،


انبیاء کو بھی اجل آنی ہے
مگر ایسی کہ فقط آنی ہے
پھر اسی آن کے بعد ان کی حیات
مثل سابق وہی جسمانی ہے (حدائق بخشش)


اور جب تمام انبیاء علیہم السلام سمیت ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ بھی ثابت ہو گئی تو بارھویں پر غم منانے کی کون سی علت باقی رہ جاتی ہے ؟

جاوید: واقعی آپ نے ان جوابات کی روشنی میں تو چاہے بارہ تاریخ کو یوم ولادت یو یا یوم وفات، بہر صورت خوشی منانی تو جائز ہو سکتی ہے لیکن اظہار کسی بھی صورت میں جائز نہیں، اچھا اب ایک اہم سوال ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top