عید میلاد النبی کا دن کیسے منایا جائے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رضا

معطل
سوال: ہم نے سنا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کل بدعۃ ضلالۃ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے (ابو داؤد) اور بدعت ہر وہ کام ہے جو ہمارے رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد پیدا ہوا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا “کہ میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑ لو (ترمذی۔ ابو داؤد) ان دونوں احادیث کی روشنی میں بارھویں شریف منانا، گمراہی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ نہ تو سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تھی اور نہ ہی یہ، آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی یا صحابہء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت ہے ؟

احمدرضا: دیکھیں یہاں دو چیزیں ہیں۔

وہ عبادات و اعمال و افعال، جو ان دنوں میں، اظہار خوشی اور حصول برکت کیلئے اختیار کیے جاتے ہیں۔

ان سب کو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک مخصوص دن اور مخصوص تاریخ میں اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کیلئے جمع کر دینا۔

اب ابتداءً پہلی چیز کو لیجئے یعنی وہ افعال جو ان دنوں میں اختیار کئے جاتے ہیں مثلاً

رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کرنا۔
آپ کی ولادت مبارکہ اور بچپن شریف کے واقعات ذکر کرنا۔
آپ کے معجزات بیان کرنا۔
نعتیہ محافل قائم کرنا۔
ایصال ثواب کیلئے شربت و دودھ پلانا اور کھانا وغیرہ کھلانا۔
قمقموں اور جھنڈوں وغیرہ سے گھر محلہ بازار و مسجد سجانا۔
آپس میں مبارک باد و خوشخبری دینا۔
عیدی تقسیم کرنا۔
بوقت ولادت قیام کرنا۔
روزہ رکھنا۔
جلوس نکالنا۔
تو ان کے بارے میں عرض ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا فعل نہیں کہ جس کی اصل زمانہ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں موجود نہ ہو یا اسے صحابہء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت قرار نہ دیا جا سکتا ہو، چنانچہ پہلے میں اس کے بارے میں دلائل عرض کرتا ہوں لیکن یاد رکھئے کہ وقت کی قلت کے باعث یہ تمام دلائل انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کروں گا۔
 

رضا

معطل
(1) رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کرنا :-
یہ عمل اللہ تعالٰی، اس کے پیارے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ اللہ تعالٰی نے آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کے فضائل بیان کرتے ہوئے قرآن پاک میں ارشاد ہے “یایھا الناس قد جاء کم برھان من ربکم“ اے لوگو! بے شک تمھارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی۔“ (پارہ6، سورہ النساء، آیت 174) یہاں برھان سے مراد رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ دوسری جگہ ارشاد ہوا “وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین“ اور ہم نے تمھیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کیلئے“ (پارہ17، سورۃ الانبیاء، آیت107) ایک اور مقام پر فرمان عالیشان ہے “ولو انھم اذ ظلموا انفسھم جآءوک فاستغفرواللہ واستغفراللہ الرسول لو جدواللہ توابا رحیماہ اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) تمھارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ (عزوجل) سے معافی چاہیں اور “رسول ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ان کی شفاعت فرمائے“ تو ضرور اللہ (عزوجل) کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔“ (پارہ5، سورۃالنساء، آیت64)

اور خود معلم معظم نے اپنے فضائل اس طرح بیان فرمائے “بے شک اللہ تعالٰی نے اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے کنانہ کو اور کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے چن لی“

(یاد رکھئے کہ عربوں کو چھ طبقات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ (1) فصائل:- یہ فصیلہ کی جمع ہے، فصیلہ ایک کنبہ کو کہتے ہیں۔ (2) افخاذ:- یہ فخذ کی جمع ہے، چند کنبوں کے مجموعے کو “فخذ“ کہتے ہیں۔ (3) بطون:- یہ بطن کی جمع ہے، چند افخاذ کے مجموعے کا نام “بطن“ رکھا جاتا ہے۔ (4) عمائر:- یہ عمارۃ کی جمع ہے، چند بطون کا مجموعہ “عمارۃ“ کہلاتا ہے۔ (5) قبائل:- یہ قبیلہ کی جمع ہے، چند عمائر کے مجموعے کو “قبیلہ“ کہا جاتا ہے۔ (6) شعوب:- یہ شعب کی جمع ہے۔ چند قبائل کا مجموعہ “شعب“ کہلاتا ہے۔ اب رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت کے اعتبار سے مثالوں کے ساتھ وضاحت یوں ہے کہ “عباس، فیصلہ ہے۔ ہاشم، فخذ ہے۔ قصی، بطن ہے۔ قریش، عمارہ ہے۔ کنانہ، قبیلہ ہے اور خزیمہ، شعب ہے۔ (مدارک۔ بتغیرم)(مسلم شریف) دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا “میں بروز قیامت اولاد آدم (علیہ السلام) کا سردار ہوں اور وہ پہلا شخص ہوں کہ جس کی قبر شق کی جائے گی اور میں پہلا شفاعت کرنے والا اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا جانے والا شخص ہوں“ (مسلم شریف) مزید ارشاد فرمایا “ میں بروز قیامت جنت کے دروازے پر پہنچوں گا اور دروازہ کھلواؤں گا تو خازن عرض کرے گا “ آپ کون ہیں ؟“ میں جواب دوں گا “محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)“ پس وہ مجھ سے عرض کرے گا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آپ سے پہلے کسی کیلئے بھی یہ دروازہ نہ کھولوں۔“ (مسلم شریف)
اور یہ بھی فرمایا کہ “میرے والدین کبھی غیر شرعی طور پر مجتمع نہ ہوئے اللہ عزوجل مجھے ہمیشہ پاک پشتوں سے پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل فرماتا رہا اور اس نے مجھے ہر قسم کی نجاست و غلاظت جہالت سے پاک و صاف رکھا۔“ (الوفاء)

اور اس کے، صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت ہونے پر دلیل، بخاری شریف کی یہ روایت ہے کہ “عطا بن یسار رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ مجھے یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وہ اوصاف سنائیے جو تورات میں ہیں“ “فرمایا، ہاں کیوں نہیں خدا عزوجل کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی قرآن پاک میں بیان کردہ بعض صفات کا تذکرہ تورات میں بھی ہے چنانچہ تورات میں ہے “ اے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کو حاضر و ناظر، خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بان کر بھیجا ہے اور آپ امی لوگوں کی پناہ گاہ ہیں، میرے بندے اور رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے آپ بداخلاق اور سخت نہیں ہیں اور نہ آپ بازاروں میں چیختے ہیں آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور درگزر فرماتے ہیں اور اللہ تعالٰی آپ کو وفات نہ دے گا جب تک کہ ملت کی گمراہی دور نہ ہو جائے اور وہ “لاالہ الا اللہ“ کہہ لے اللہ تعالٰی آپ کے ذریعے نابینا آنکھوں کو بصارت، بہرے کانوں کو سماعت اور بھٹکے ہوئے دلوں کو راستہ عطا فرمائے گا۔“
اور خاص بوقت ولادت ایک جن نے اللہ تعالٰی کی عطا سے ان الفاظ میں اشعار کی صورت میں رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کرنے کی سعادت حاصل کی۔ “ترجمہ: میں قسم کھاتا ہوں کہ کوئی عورت انسانوں میں نہ خود اتنی سعادت مند ہے اور نہ ہی کسی نے اتنے سعادت مند اور شریف بچے کو جنم دیا ہے جیسا کہ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والی قابل صد افتخار، امتیازی اوصاف کی مالکہ، قبائل کی ملامت و طعن سے پاک و صاد اور بزرگی و شرافت کی مالکہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے مقدس اور سعادت مند بچے کو جنم دیا ہے جو تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہے اور احمد کے پیارے نام سے موسوم ہے پس یہ مولود کس قدر عزت والا اور بلند و بالا مقام والا ہے۔“ (الوفاء)

(2) ولادت مبارکہ اور بچپن شریف کے واقعات:-

یہ بھی سنت سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور سنت اصحاب رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہے چنانچہ ابو امامہ رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “میری والدہ نے (بوقت ولادت) یوں ملاحظہ فرمایا گویا کہ مجھ سے ایک عظیم نور نمودار ہوا ہے، جس کی نورانیت سے شام کے محلات روشن ہو گئے، (الوفاء) اور حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا “اللہ عزوجل کے ہاں میری عزت و حرمت یہ ہے کہ میں ناف بریدہ پیدا ہوا اور کسی نے میری شرمگاہ کو نہ دیکھا۔ (الوفاء) اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ “اپنی والدہ بی بی شفاء رضی اللہ تعالٰی عنہا“ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بتایا کہ “جس وقت حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے فرزند پیدا ہوا تو وہ ختنہ شدہ تھا، پھر اسے چھینک آئی تو اس پر میں نے کسی کہنے والے کی آواز سنی یرحمک اللہ (یعنی اللہ تعالٰی تجھ پر رحم کرے) پھر مشرق و مغرب کے درمیان ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے اس وقت شام کے محلات دیکھے میں ڈری اور مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا اس کے بعد ایک نور داہنی جانب سے ظاہر ہوا کسی کہنے والے نے کہا “اسے کہاں لے گیا ؟“ دوسرے نے جواب دیا “مغرب کی جانب تمام مقامات متبرکہ میں لے گی“ پھر بائیں جانب سے ایک نور پیدا ہوا، اس پر بھی کسی کہنے والے نے کہا “اسے کہاں لے گیا؟“ دوسرے نے جواب دیا “مشرق کی جانب تمام مقامات متبرکہ میں لے گی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا انھوں نے اسے اپنے سینے سے لگایا اور طہارت و برکت کی دعاء مانگی“ یہ بات میرے دل میں ہمیشہ جاگزیں رہی یہاں تک کہ رحمت دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے اور میں ایمان لے آئی اور اولین و سابقین میں سے ہوئی۔“ (مدارج نبوت)

اور ولادت کریمہ کے حالات بیان کرنا خود ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی والدہء محترمہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بھی سنت ہے چنانچہ ارشاد فرماتی ہیں کہ “جس رات میں نے اپنے لخت جگر اور نور نظر کو جنم دیا، ایک عظیم نور دیکھا، جس کی بدولت شام کے محلات روشن ہو گئے حتٰی کہ میں نے ان کو دیکھ لی“ (الوفاء) اور ارشاد فرمایا “جب میں نے ان کو جنم دیا تو یہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف دیکھنے لگے پھر ایک مٹھی مٹی لی اور سجدے کی طرف مائل ہو گئے، وقت ولادت آپ ناف بریدہ تھے میں نے پردہ کیلئے آپ پر ایک مضبوط کپڑا ڈال دیا، مگر کیا دیکھتی ہوں کہ وہ پھٹ چکا ہے اور آپ اپنا انگوٹھا چوس رہا رہے ہیں جس سے دودھ کا فوارہ پھوٹ رہا ہے۔“ (الوفاء)

اور اپنے بچپن کے حالات بیان فرماتے ہوئے مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “ایک روز میں اپنے رضاعی (یعنی دودھ شریک) بھائیوں کے ساتھ ایک وادی میں تھا کہ اچانک میری نگاہ تین شخصوں پر پڑی، ان میں سے ایک کے ہاتھ میں چاندی کا لوٹا دوسرے کے ہاتھ میں زمرد (قیمتی پتھر) کا طشت تھا جو برف سے بھرا تھا پھر انھوں نے مجھے میرے ساتھیوں کے درمیان سے پکڑ لیا، میرے سب ساتھی ڈر کر اپنے محلہ کی جانب بھاگ گئے پھر ان میں سے ایک نے مجھے نرمی سے زمین پر لٹا دیا اور ایک نے میرے سینے کو جوڑوں کے پاس سے ناف تک چیرا، مجھے کسی قسم کا درد وغیرہ محسوس نہ ہوا پھر پیٹ کی رگوں کو نکالا اور برف سے اچھی طرح دھویا، پھر اپنی جگہ رکھ کر کھڑا ہو گیا، پھر دوسرے نے ہاتھ ڈال کر میرا دل نکالا، پھر اسے چیر کر اس میں سے ایک سیاہ نقطے کو نکال کر پھینک دیا اور کہا، “یہ شیطان کا حصہ تھا“ پھر اسے اس چیز سے بھر دیا جو ان کے پاس تھی اس کے بعد اپنے دائیں بائیں کچھ مانگنے کیلئے ارشاد کیا اور اسے ایک نور کی انگوٹھی دی گئی، جس کی نورانیت سے آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، اس نے انگوٹھی سے میرے دل پر مہر لگا دی اور میرا دل نبوت و حکمت کے نور سے لبریز ہو گیا، پھر دل کو اپنی جگہ پر رکھ دیا، میں اس مہر کی ٹھنڈک اب بھی اپنے جوڑوں اور رگوں میں پاتا ہوں، پھر انھوں نے سینے کے جوڑوں سے ناف تک ہاتھ پھیرا تو وہ شگاف مل گیا پھر مجھے آہستگی سے اٹھایا اور اپنے سینے سے لگایا اور میری دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور کہنے لگے “اے اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! کچھ نہ پوچھئے، اگر آپ جانتے کہ آپ کیلئے کیا کچھ خیر وخوبی ہے تو آپ کی آنکھیں روشن ہو جاتی اور آپ خوش ہوتے“ اس کے بعد وہ، مجھے وہیں چھوڑ کر آسمان کی طرف پرواز کر گئے۔“ (مدارج النبوت)

(3) معجزات بیان کرنا:-

یہ بھی اللہ عزوجل، مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور صحابہءکرام علیہم الرضوان کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ معجزہء معراج کو قرآن پاک میں ان الفاظ سے بیان فرمایا گیا ہے “سبحان الذی اسرٰی بعبدہ لیلا من المسجد الحرام الی المسجد الاقصٰی لذی برکنا حولہ لنریہ من ایتنا ط
پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں دکھائیں“ (پارہ 15 سورہ بنی اسرائیل آیت1)

اور پیارے اسلامی بھائیو! ایک مقام پر کھڑے کھڑے ہزاروں میل دور کی چیزیں دیکھ لینا بھی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے معجزات میں سے ہے۔ اپنے اسی معجزے کا ذکر کرتے ہوئے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “جب مجھے (سفر معراج کی تفصیل ذکر کرتے کے بعد) قریش نے جھٹلایا (اور مجھ سے بیت المقدس کے بارے میں سوالات کئے) تو میں، حجر میں کھڑا ہو گیا (یعنی اس جگہ میں کہ جہاں سے پہلی مرتبہ میرے اوپر چڑھنے کی ابتداء ہوئی تھی) پس اللہ تعالٰی نے میرے لئے بیت المقدس کو ظاہر فرما دیا چنانچہ میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی علامات کے بارے میں قریش کو خبر دینا شروع ہو گی“ (بخاری و مسلم)

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ شاہ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے معجزے کا ذکر ان الفاظ میں ادا فرماتے رہے کہ (غزوہء خندق کے دن) میں اپنی زوجہ کے پاس آیا اور کہا تیرے پاس کچھ کھانے کو ہے ؟ کیوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے چہرہء انور پر سخت بھوک کے آثار دیکھے ہیں“ (یہ سن کر) میری زوجہ نے ایک تھیلا نکالا جس میں ایک صاع (ساڑھے چار سیر) کے قریب جو تھے اور ہمارے پاس فربہ ایک بکری کا بچہ بھی تھا، پس میں نے اسے ذبح کیا اور بیوی نے جو کا آٹا پیسا میں گوشت بان کر، دیگچی میں چڑھا کر، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور عرض کی “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور میری زوجہ نے جو کا آٹا پیسا ہے آپ چند صحابہ کو لے کر میرے گھر تشریف لے چلیں“ (یہ عرض سن کر) حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے باآواز بلند فرمایا “جابر نے کھانا تیار کیا ہے آؤ ان کے ہاں چلیں۔“ پھر مجھ سے فرمایا “میرے پہنچنے تک دیگچی کو چولہے سے نہ اتارنا اور گوندھے ہوئے آٹے کو یوں ہی رکھنا“ پھر آپ، ایک ہزار صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ساتھ تشریف لائے آپ نے آٹے اور دیگچی میں اپنا لعاب دہن اقدس ڈال دیا اور برکت کی دعاء فرمائی اور میری زوجہ سے فرمایا کہ روٹی پکاؤ اور کسی ایک عورت کو اپنے ساتھ ملا لو، اور دیگچی سے گوشت نکالتی رہو مگر اس میں جھانک کر نہ دیکھن“ خدا عزوجل کی قسم! ان ہزار آدمیوں نے شکم سیر ہو کر کھایا اور دیگچی میں بدستور گوشت، جوش مار رہا تھا اور آٹا بھی باقی تھا۔“ (بخاری و مسلم)
(4) نعتیہ محافل قائم کرنا:-
نعتیہ محافل کا قیام بھی سنت مبارکہ ہے اور اس کا قائم کرنا خود مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے چنانچہ “بخاری شریف“ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ مدنی مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، حضرت حسان رضی اللہ تعالٰی عنہ کیلئے مسجد میں منبر رکھتے، جس پر وہ کھڑے ہو کر (اشعار کی صورت میں) رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے فخر کرنے میں (قریش پر) غالب ہوتے یا (قریش کی طرف سے معاذاللہ کی گئی ہجو کے جواب میں شان رسالت کا) دفاع کرتے اور رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے “اللہ تعالٰی حضرت جبرئیل کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک کہ یہ اللہ عزوجل کے رسول کی طرف سے فخر کرنے میں غالب ہوتے ہیں یا دفاع کرتے ہیں۔“

پیارے اسلامی بھائیو! یقیناً ان اشعار کو سننے کے لئے صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی جلوہ افروز ہوتے ہوں گے، اگر آپ تھوڑا سا غور فرمائیں تو موجودہ نعتیہ محافل، اسی مدنی محفل کا عکس نظر آئیں گی۔“ اسی طرح “الوفاء باحوال المصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں مذکور ہے کہ جب سوادبن قارب (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اسلام قبول کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ میں بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں چند نعتیہ اشعار پڑھے جن کا ترجمہ یہ ہے “پس میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالٰی کے علاوہ کوئی رب عزوجل نہیں اور آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) “تمام غیبوں اور رازوں“ پر اللہ تعالٰی کے امین ہیں اور میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ “اے باکرامت اور پاکیزہ اسلاف کی نسل کریم! آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) تمام رسولوں کے مقابلے میں اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں قریب ترین وسیلہ ہیں “لٰہذا“ اے سب رسولوں سے افضل و اکرم! جو احکام اللہ تعالٰی کی طرف سے آپ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوتے ہیں ہمیں ان کا حکم فرمائیے چاہے ان احکام کی شدتیں ہماری جوانی کو بڑھاپے ہی میں تبدیل کر دیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس دن میرے شفیع ہو جائیے گا کہ جس دن آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اور کوئی سفارش سوا بن قارب کو فائدہ نہ پہنچا سکے گی۔“ سودا بن قارب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب یہ ایمان افروز قصیدہ پڑھا اور شرف اسلام سے مشرف ہوئے تو شہنشاہ دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا چہرہء انور خوشی سے چودھویں کے چاند کی طرح چمکنے لگا اور صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم بھی انتہائی فرحت و مسرت کا اظہار فرمانے لگے۔“

اس روایت سے بھی بخوبی معلوم ہوا کہ “اجتماعی طور پر نعتیہ اشعار سننا ہمارے مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت ہے “حصول برکت کیلئے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک نعتیہ رباعی پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں آپ فرماتے ہیں۔

واجمل منک لم تر قط عینی
واکمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرا من کل عیب
کانک قد خلقت کما تشاء
ترجمہ: یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! آپ سے زیادہ حسین و جمیل میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ صاحب کمال کسی عورت نے جنا ہی نہیں، آپ ہر عیب سے پاک پیدا کئے گئے ہیں گویا کہ آپ ویسے ہی پیدا کئے گئے جیسے آپ چاہتے تھے۔“
جاوید (مع رفقاء): واہ سبحان اللہ عزوجل! کتنے پیارے اشعار ہیں دل خوش ہو گئے۔
احمدرضا: جی ہاں، بےشک۔ اس قسم کے اشعار بکثرت سننے چائیں الحمد للہ عزوجل! اس سے محبت رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں بےحد اضافہ ہوتا ہے“ اچھا چلیں اب اگلی چیز کے دلائل سنیں،
 

رضا

معطل
(5) شربت دودھ پلا کر یا کھانا کھلا کر ایصال ثواب کرنا:-
اس کی اصل بھی صحیح احادیث سے سے ثابت ہے چنانچہ ابوداؤد اور نسائی شریف میں ہے کہ، “حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کی “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم! میری والدہ فوت ہو گئی ہیں (تو ان کے ایصال ثواب کے لئے) کونسا صدقہ افضل ہے ؟ رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا “پانی“ چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور فرمایا “ھذہ لام سعدیہ یہ سعد کی ماں کیلئے ہے۔“

پیارے اسلامی بھائیو! اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ کسی کے لئے ایصال ثواب اور اس کا کوئی نام رکھنا دونوں فعل جائز ہیں، چنانچہ بارھویں شریف میں کھانے یا شربت وغیرہ کا ثواب اپنے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرنا اور اس کا نام “بارھویں شریف کی نیاز“ وغیرہ رکھ دینا بالکل جائز ہے۔“

ضمناً عرض ہے کہ ہمارا بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں ایصال ثواب کرنا معاذاللہ عزوجل اس لئے ہرگز نہیں کہ جناب احمد مختار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اس کی محتاجی و ضرورت ہے، بلکہ اسے تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ رحمت کے مستحق ہو جانے کیلئے ایک ذریعہ بنایا جاتا ہے، اس کو بالکل یوں ہی سمجھئے کہ جیسے کسی بادشاہ کی خدمت میں اس کی رعایا میں سے کوئی بہت ہی غریب آدمی، ایک حقیر سا تحفہ پیش کرے۔ اب یقیناً بادشاہ کو اس کے تحفے کی کوئی حاجت نہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ بادشاہ اس کے جواب میں اپنی شان کے مطابق تحفہ ضرور عطا کرے گا۔

اور بہارشریعت میں درمختار، ردالمحتار اور فتاوٰی عالمگیری کے حوالے سے درج شدہ یہ مسئلہ یاد رکھنا بھی بےحد مفید رہے گا۔ مسئلہ:- “رہا ثواب پہنچانا کہ جو کچھ عبادت کی اس کا ثواب فلاں کو پہنچے، اس میں کسی عبادت کی تخصیص نہیں، ہر عبادت کا ثواب دوسرے کو پہنچایا جا سکتا ہے۔“ نماز، روزہ، زکوٰۃ، صدقہ، حج، تلاوت قرآن، ذکر، زیارت قبور، فرض و نفل، “ سب کا ثواب “زندہ یا مردہ“ کو پہنچا سکتے ہیں اور یہ نہ سمجھنا چاہئیے کہ “فرض کا ثواب پہنچا دیا تو اپنے پاس کیا رہ گیا ؟“ کیونکہ ثواب پہنچانے سے اپنے پاس سے کچھ نہیں جات۔“ اب اگلی چیز ہے،

(6) جھنڈوں وغیرہ سے اپنے گھر و گلی و محلہ و مسجد کو سجان:-

آمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر جھنڈے نصب کرنا اللہ عزوجل کی سنت کریمہ ہے، چنانچہ بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا ولدت پاک کے واقعات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں، “پھر میں نے دیکھا کہ پرندوں کی ایک ڈار میرے سامنے آئی، یہاں تک کہ میرا کمرا ان سے بھر گیا ان کی چونچیں زمرد کی اور ان کے بازو یاقوت کے تھے، پھر اللہ تعالٰی نے میری نگاہوں سے پردہ اٹھایا حتٰی کہ میں نے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا اور میں نے دیکھا کہ “تین جھنڈے“ ہیں جن میں سے ایک مشرق میں، ایک مغرب میں اور ایک خانہء کعبہ کے اوپر نصب ہے۔“ (مدارج النبوت)

اسی طرح “الخصائص الکبرٰی“ میں نقل کردہ ایک روایت میں ہے کہ “سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھا گیا کہ بوقت ولادت آپ نے کیا دیکھا ؟“ ارشاد فرمایا “جب مجھے درد شروع ہوا تو میں نے ایک گڑگڑاہٹ کی آواز سنی اور ایسی آوازیں جیسے کچھ لوگ باتیں کر رہے ہوں پھر میں نے یاقوت کی لکڑی (یعنی ایسی لکڑی جس پر یاقوت جڑے ہوئے تھے) میں کمخواب (ایک قسم کا ریشمی کپڑا جو زری کی تاروں کی آمیزش سے بنایا جاتا ہے) کا جھنڈا، زمین و آسمان کے درمیان نصب دیکھا“ اور اپنے محبوب کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عالم میں جلوہ نمائی کے وقت پورے جہان کو سجا دینا بھی رب کائنات عزوجل کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ “جب حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں پیدائش کا وقت آیا تو اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو اور تمام فرشتے میرے سامنے حاضر ہو جائیں، چنانچہ فرشتے، ایک دوسرے کو بشارتیں دیتے ہوئے حاضر ہونے لگے، دنیا کے پہاڑ بلند ہو گئے اور سمندر چڑھ گئے اور ان کی مخلوقات نے ایک دوسرے کو بشارتیں دیں۔ سورج کو اس دن عظیم روشنی عطا کی گئی اور اس کے کنارے پر فضا میں ستر ہزار حوریں کھڑی کر دی گئیں جو رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی منتظر تھیں اور اس سال آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی خاطر، اللہ تعالٰی نے دنیا کی تمام عورتوں کیلئے نرینہ اولاد مقرر فرمائی اللہ تعالٰی نے حکم فرمایا کہ “کوئی درخت بغیر پھل کے نہ رہے اور جہاں بد امنی ہو وہاں امن ہو جائے۔“ جب ولادت مبارکہ ہوئی تو تمام دنیا نور سے بھر گئی، فرشتوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دی اور ہر آسمان میں زبرجد (ایک خاص قسم کا زمرد) اور یاقوت کے ستون بنائے گئے جن سے “ آسمان روشن ہو گئے “ ان ستونوں کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے شب معراج دیکھا تو عرض کی گئی کہ “یہ ستون آپ کی ولادت مبارکہ کی خوشی میں بنائے گئے تھے“ اور جس رات آپ کی ولادت مبارکہ ہوئی اللہ تعالٰی نے حوض کوثر کے کنارے مشک وغیرہ کے ستر ہزار درخت پیدا فرمائے اور ان کے پھلوں کو اہل جنت کی خوشبو قرار دیا۔ اور شب ولادت تمام آسمان والوں نے سلامتی کی دعائیں مانگیں۔“ (الخصائص الکبرٰی)

اسی طرح مدارج النبوت میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں “حدیثوں میں آیا ہے کہ شب میلاد مبارک کو عالم ملکوت (یعنی فرشتوں کی دنیا) میں نداء کی گئی کہ “سارے جہاں کو انوار قدس سے منور کر دو“ اور زمین و آسمان کے تمام فرشتے خوشی و مسرت میں جھوم اٹھے اور داروغہء جنت کو حکم ہوا کہ “فردوس اعلٰی کو کھول دے اور سارے جہان کو خوشبوؤں سے معطر کر دے“ (پھر فرماتے ہیں) مروی ہے اس رات کی صبح کو تمام بت اوندھے پائے گئے، شیاطین کا آسمان پر چڑھنا ممنوع قرار دیا گیا اور دنیا کے تمام بادشاہوں کے تخت الٹ دئیے گئے اور اس رات ہر گھر روشن و منور ہوا اور کوئی جگہ ایسی نہ تھی جو انوار سے جگمگا نہ رہی ہو اور کوئی جانور ایسا نہ تھا جس کو قوت گویائی نہ دی گئی اور اس نے بشارت نہ دی ہو، مشرق کے پرندوں نے مغرب کے پرندوں کو خوشخبریاں دیں۔“ سبحان اللہ (عزوجل) اب اس کے بعد ہے،

(7) آپس میں مبارک باد و خوشخبری دینا:-

سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں جلوہ گری کے وقت آپس میں مبارک باد دینا اور خوشخبریاں سنانا اور بشارتیں دینا فرشتوں کی سنت مبارکہ ہے۔ چنانچہ ابھی تھوڑی دیر پہلے پیش کردہ حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روایت کے ان الفاظ پر غور فرمائیے “جب حضرت آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے یہاں پیدائش کا وقت آیا تو اللہ تعالٰی نے حکم فرمایا کہ تمام فرشتے میرے سامنے حاضر ہو جائیں چنانچہ فرشتے ایک دوسرے کو “بشارتیں دیتے ہوئے حاضر ہونے لگے“ اور اسی روایت میں آگے ہے کہ “جب ولادت مبارکہ ہوئی تو تمام دنیا نور سے بھر گئی اور فرشتوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی“ اور ابھی مدارج النبوت کی روایت میں بیان ہوا کہ “اور کوئی جانور ایسا نہ تھا جس کو قوت گویائی نہ دی گئی ہو اور اس نے بشارت نہ دی ہو، مشرق کے پرندوں نے مغرب کے پرندوں کو خوشخبریاں دی۔“

پیارے اسلامی بھائیو! پیش کردہ روایات کے ان حصوں پر غور کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا کچھ زیادہ دشوار نہیں کہ “آمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر مبارکباد دینا اور آپس میں بشارت و خوشخبری سنانا، اللہ تعالٰی کو محبوب و مطلوب ہے کیونکہ فرشتوں اور جانوروں کی زبان پر ان کلمات کا جاری ہونا یقیناً اللہ عزوجل کی طرف سے کئے گئے الھام کی وجہ سے تھا۔“
اب باری ہے بوقت ولادت قیام کی۔

(8) بوقت ولادت قیام:-

کھڑے ہو کر استقبال محبوب باری تعالٰی کرنا، اللہ تعالٰی کے حکم سے فرشتوں کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، “جاءالحق“ میں تحریر فرماتے ہیں “مواہب لدنیہ اور مدارج النبوت وغیرہ میں ذکر ولادت میں ہے کہ شب ولادت ملائکہ نے آمنہ خاتون رضی اللہ تعالٰی عنہا کے دروازے پر کھڑے ہو کر صلوٰۃ و سلام عرض کیا، ہاں ازلی راندہ ہوا (یعنی ہمیشہ دھتکارا ہوا) شیطان، رنج و غم میں بھاگا بھاگا پھرا، اس سے معلوم ہوا کہ میلاد سنت ملائکہ بھی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بوقت پیدائش کھڑا ہونا ملائکہ کا کام ہے اور بھاگا بھاگا پھرنا، شیطان کا فعل۔ اب لوگوں کو اختیار ہے چاہیں تو میلاد پاک کے ذکر کے وقت ملائکہ کے فعل پر عمل کریں یا شیطان کے۔“

اور بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وقت ولادت کے واقعات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتی ہیں “پھر میں نے نور کا ایک بلند مینار دیکھا اس کے بعد اپنے پاس بلند قامت والی عورتیں دیکھیں، جن کا قد عبد مناف کی لڑکیوں کی مانند، کھجور کے درختوں کی طرح تھا، میں نے ان کے آنے پر تعجب کیا۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا میں آسیہ، فرعون کی بیوی ہوں (آپ موسٰی علیہ السلام پر ایمان لے آئیں تھیں)۔ دوسری نے کہا میں “مریم بنت عمران ہوں اور یہ عورتیں حوریں ہیں۔“ پھر میرا حال بہت سخت ہو گیا اور ہر گھڑی عظیم سے عظیم تر آوازیں سنتی، جن سے خوف محسوس ہوتا۔ اسی حالت کے دوران میں نے دیکھا کہ زمین آسمان کے درمیان “بہت سے لوگ کھڑے ہیں“ جن کے ہاتھوں میں چاندی کے آفتاب ہیں۔“ (مدارج النبوت)

اور ما قبل روایت میں عرض کیا جا چکا ہے کہ “سورج کو اس دن عظیم روشنی دی گئی اور اس کے کنارے پر فضا میں “ستر حوریں کھڑی کر دی گئیں“ جو مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی منتظر تھیں“ اب اس کے بعد روزہ رکھنے کی دلیل پیش خدمت ہے۔

(9) روزہ رکھنا :-

بروز ولادت روزہ رکھنا محبوب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے چنانچہ مسلم شریف میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن کے روزے کا سبب دریافت کیا گیا (یعنی پوچھا گیا کہ آپ خاص طور پیر کے دن، روزہ رکھنے کا اہتمام کیوں فرماتے ہیں) تو آپ نے ارشاد فرمایا اسی میں میری ولادت ہوئی اور اسی میں مجھ پر وحی نازل ہوئی۔“

(10) عیدی تقسیم کرنا:-

یوم ولادت عیدی تقسیم کرنا ہمارے اللہ عزوجل کی سنت کریمہ ہے پہلے عیدی کا مطلب جان لیجئے کہ لغوی اعتبار سے “عید کے انعام“ کو عیدی کہتے ہیں اب اس پر بطور دلیل میں، آپ کو وہی روایت یاد دلاؤں گا کہ جو گھر وغیرہ کو سجانے کے بارے میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی تھی اور حضرت عمرو بن قتیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی تھی اس روایت کے یہ جملے یاد کیجئے،

(1) دنیا کے پہاڑ بلند ہو گئے (2) سورج کو اس دن عظیم روشنی عطا کی گئی (3) دنیا کی تمام عورتوں کیلئے نرینہ اولاد مقرر فرمائی (4) حکم فرمایا کہ کوئی درخت بغیر پھل کے نہ رہے (5) جہاں بدامنی ہے وہاں امن ہو جائے (6) تمام دنیا نور سے بھر گئی (7) آسمان روشن ہو گئے ( 8 ) حوض کوثر کے کنارے مشک و عنبر کے ستر ہزار درخت پیدا فرمائے اور ان کے پھلوں کو اہل جنت کی خوشبو قرار دیا۔“

اب دیکھتے جائیے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں بطور عیدی کیا کیا چیزیں تقسیم فرمائیں چنانچہ “پہاڑوں کو بلندی، سورج کی عظیم روشنی، عورتوں کو نرینہ اولاد درختوں، کو پھل، دنیا والوں کو امن و نور، آسمان کو روشنی اور اہل جنت کیلئے خوشبو کا تحفہ تقسیم ہوا۔

اور مدارج النبوت میں منقول روایت میں ہے “قریش کا یہ حال تھا کہ وہ شدید قحط اور عظیم تنگی میں مبتلا تھے چنانچہ تمام درخت خشک اور تمام جانور نحیف و لاغر ہو گئے تھے پھر (مولود پاک کی برکت سے) اللہ تعالٰی نے بارش بھیجی، جہاں بھر کو سر سبز و شاداب کیا، درختوں میں تازگی آ گئی، خوشی و مسرت کی ایسی لہر دوڑی کہ قریش نے اس سال کا نام سنۃ الفتح والا ابتہاج (یعنی روزی اور خوشی کا سال) رکھا۔“

اس روایت سے بارش، سرسبز و شادابی، درختوں میں تازگی اور خوشی و مسرت کی عیدی کی تقسیم کا ثبوت۔“ ملا۔

اور اب آخر میں جلوس نکالنے کی اصل بھی پیش خدمت ہے۔

(11) جلوس نکالنا :-

جلوس نکالنے کے بارے میں اصل، مدارج النبوت میں درج شدہ یہ روایت ہے کہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہجرت فرما مدینہ منورہ کے گردونواح میں پہنچے تو بریدہ اسلمی (رضی اللہ تعالٰی عنہ) اپنے قبیلے کے ستر لوگوں کے ساتھ، انعام کے لالچ میں رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کرنے کیلئے حاضر ہوئے، لیکن کچھ گفتگو کے بعد آپ نے مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا “آپ کون ہیں ؟“ فرمایا “ میں محمد بن عبداللہ، اللہ کا رسول ہوں “ آپ نے جیسے ہی نام اقدس سنا تو دل کی کیفیات بدل گئیں اور اسلام قبول فرما لیا، آپ کے ساتھ، تمام ساتھیوں نے بھی اس سعادت کو حاصل کیا پھر آپ نے عرض کیا “یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم“ مدینہ میں داخل ہوتے ہی وقت آپ کے ساتھ ایک جھنڈا ہونا چاہئیے۔“ اس کے بعد آپ نے اپنے سر سے عمامہ اتارا اور اسے نیزے پر باندھ لیا اور (بحیثیت خادم) سیدالانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے چلنے لگے۔“

پیارے اسلامی بھائیو! چشم تصور سے اس منظر کو دیکھئے کہ آگے آگے جھنڈے سمیت بریدہ اسلمی رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، پھر مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ اور آپ حضرات کے پیچھے ستر صحابہء کرام علیہم الرضوان ہیں“ اور اب ذرا موجودہ دور میں نکلنے والے جلوس کا تصور ذہن میں لیکر آئیں، آپ کو ان دونوں میں مشابہت کا محسوس کرنا، بےحد آسان معلوم ہو گا۔“

پیارے اسلامی بھائیو! اس تمام تفصیل سے آپ نے بخوبی جان لیا ہوگا کہ آج کل جس مروجہ طریقے سے بارھویں شریف کا انعقاد کیا جاتا ہے، اس کی کوئی نہ کوئی اصل، زمانہء گزشتہ میں ضرور موجود رہی ہے۔

اب رہی دوسری چیز کہ “باقاعدہ مخصوص دنوں میں اس کا اہتمام کرنا تو یہ حقیقت ہے کہ ولادت پاک پر جشن منانے کا باقاعدہ اہتمام نہ تو زمانہء نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں تھا اور نہ ہی صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان رائج تھا بلکہ اس کی ابتداء بعد کے زمانے میں ہوئی جیسا کہ حضرت علامہ شاہ محمد مظہراللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “تحدیث نعمت“ میں فرماتے ہیں “بتلانا یہ ہے کہ عرس اور مولود کا ایسا مسئلہ نہیں جو اس زمانے کی پیداوار ہو بلکہ تقریباً آٹھ سو سال سے متقدمین، (یعنی پہلے زمانے کے لوگ) مولود شریف کے جواز (یعنی جائز ہونے) اور استحباب (یعنی پسندیدہ ہونے) پر متفق ہیں تو اس کی بدعت (بدعت سے مراد سیئہ ہے۔ تفصیل انشاءاللہ عزوجل آگے آ رہی ہے) و حرام کہنا ان ہزار ہا جلیل القدر حضرات پر طعن کرنا ہے جو گناہ عظیم ہے، اللہ تعالٰی مسلمانوں کو اس گناہ سے محفوظ رکھے، رہا یہ خدشہ کہ جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور صحابہء رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانے میں ایسی مجالس نہیں ہوتی تھیں تو پھر ایسی مجالس کی ترویج کیوں کی گئی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے افعال کیلئے ضرورتیں مجبور کرتی ہیں، جس طرح قرآن کی عبارت پر اعراب نہ تھے، جب یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ عجمی لوگ (غیر عرب) اسے کیسے پڑھیں گے، تو اعراب لگائے گئے۔“ احادیث نہ لکھی جاتی تھیں (یعنی باقاعدہ اہتمام کے ساتھ کتابی شکل میں) بلکہ لکھنے کی ممانعت تھی لیکن جب یہ دیکھا کہ اب لوگوں کے حافظے ضعیف ہو گئے تو احادیث لکھی گئیں، اسی طرح بکثرت ایسی چیز پائیں گے جن کا وجود قرن اول (یعنی پہلے زمانے) میں نہ تھا، بعد میں بضرورت نکالی گئیں یہی حال اس کا سمجھئے، پہلے زمانے میں شوق تھا اور لوگ، علماء کی مجالس میں جا کر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب اور آپ کی ولادت کے واقعات سن کر اپنے ایمان کو تازہ کرتے اور آپ کے ساتھ محبت کو ترقی دیتے تھے جو مولٰی تعالٰی کو مطلوب تھا، لیکن جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے اس شوق میں کمی آ گئی، حالانکہ اس کی سخت ضرورت ہے تو اس کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے اس کارخیر کی ابتداء شہر موصل میں حضرت عمرو بن محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کی جو کہ اکابر علماء میں سے تھے جیسا کہ ابوشامہ نے لکھا ہے، اس کے بعد بادشاہوں میں سے اول بادشاہ ابوسعید مظفر نے مولود شریف تخصیص و تعین کے ساتھ اس شان کے ساتھ کیا کہ اکابریں علماء و صوفیاء کرام اس محفل میں بلا نکیر (بغیر کسی انکار کے) شریک ہوتے تھے تو گویا تمام اکابرین کا جواز و استحباب پر اتفاق ہو گیا تھا۔

یہ بادشاہ ہر سال ربیع الاول شریف میں “تین لاکھ اشرفیاں“ (یعنی سونے کے سکے) لگا کر یہ محفل کیا کرتا تھا۔ اس کے زمانے میں ایک عالم حافظ ابوالخطاب بن وجیہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے، جن کے علم کی علامہ زرقانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی تصانیف میں بڑی تعریف کی ہے، انھوں نے سلطان ابوسعید کیلئے بیان مولودشریف میں ایک کتاب “کتاب التنویر فی مولد سراج المنیر“ تصنیف کی، جس کو خود ہی سلطان کے سامنے پڑھا، سلطان بڑا خوش ہوا اور آپ کو ہزار اشرفی انعام میں دی، اس کے بعد تو دنیا کے تمام اطراف و بلاد (یعنی شہروں قصبوں) میں ماہ ربیع الاول میں مولود شریف کی محفلیں ہونے لگیں، جس کی برکت سے مولائے کریم کا فضل عمیم (یعنی کامل فضل) ظاہر ہونے لگا۔

پیارے اسلامی بھائیو! بیان کردہ تفصیل سے بخوبی معلوم ہو گیا کہ بارھویں شریف کا باقاعدہ اہتمام، زمانہ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے کافی عرصہ بعد شروع ہوا لٰہذا اس اعتبار سے تسلیم کیا جائے گا کہ یہ بدعت ہے۔ لیکن اس کے بدعت ثابت ہوتے ہی اس پر حرام و گمراہی کا فتوی لگانا درست ہے یا نہیں ؟ اس کا درست فیصلہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ پہلے ہم بدعت کے شرعی معنی، اس کی اقسام اور پھر اقسام میں سے ہر قسم کا حکم معلوم کریں اور پھر دیکھیں کہ موجودہ مروجہ بارھویں شریف کا انعقاد، بدعت کی کس قسم میں داخل ہے۔ چنانچہ اب میں آپ کی خدمت میں یہ تمام ضروری تفصیل بہت آسان الفاظ میں عرض کرتا ہوں، حسب سابق اسے بھی بغور سماعت فرمائیے، سب سے پہلے بدعت کے شرعی معنی حاضر خدمت ہیں۔

بدعت کے شرعی معنی :-

“ہر وہ چیز جو سیدالانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانہء مبارکہ کے بعد ایجاد ہوئی بدعت ہے، یہ عام ہے کہ وہ چیز دینی ہو یا دنیاوی، اس کا تعلق عقائد سے ہو یا اعمال سے۔“
دلیل :- اس تعریف پر دلیل رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان عالیشان ہے “کل محدثۃ بدعۃ“ یعنی ہر نئی ایجاد کی ہوئی چیز بدعت ہے۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
یہ بھی خیال رکھئے گا کہ بدعت کہ تعریف میں “زمانہء نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی قید“ لگائی گئی ہے، چنانچہ صحابہءکرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے زمانہء پاکیزہ میں ایجاد شدہ نئے کام کو بھی بدعت ہی کہا جائے گا جیسا کہ “بخاری شریف“ میں ہے کہ جب رمضان المبارک میں، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے لوگوں کو تراویح کی ادائیگی کیلئے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پیچھے جمع فرمایا، اور تشریف لاکر لوگوں کو جماعت سے نماز ادا کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا “نعم البدعۃ ھذہ“ یہ (بڑی جماعت) اچھی بدعت ہے۔“

چونکہ زمانہء سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں بیس رکعت تراویح “باقاعدہ جماعت کے ساتھ“ نہ ہوتی تھیں بلکہ آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کا انتظام فرمایا، لٰہذا اسے بدعت سے تعبیر فرمایا اور اس طرح دو مسئلے بخوبی ثابت ہو گئے،

صحابہءکرام علیہم الرضوان کے زمانہء مبارکہ میں نیا پیدا شدہ کام بھی بدعت ہی کہلائے گا اگرچہ عرفاً اسے سنت صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہا جاتا ہے۔
ہر بدعت حرام و گمراہی نہیں، ورنہ معاذاللہ، ایک صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا حرام کام کرنا اور بقیہ صحابہءکرام علیھم الرضوان کا اس پر اتفاق کرکے گناہ میں تعاون کرنا ثابت ماننا پڑے گا حالانکہ یہ ناممکنات میں سے ہے۔ بدعت کی شرعی تعریف جاننے کے بعد اب اس کی اقسام کے بارے میں بھی سماعت فرمائیے کہ اس کی ابتداء دو قسمیں ہیں۔
بدعت اعتقادی
بدعت عملی
(1) بدعت اعتقادی :-

اس سے مراد برے عقائد ہیں جو مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایجاد ہوئے مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ معاذاللہ، اللہ تعالٰی جھوٹ بول سکتا ہے یا ہمارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین نہیں بلکہ کوئی اور نبی اب بھی آ سکتا ہے یا بے عیب و بےمثال آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا ہم مثل ممکن ہے یا ہمارے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمارے بڑے بھائی کی طرح ہیں یا شیطان و ملک الموت علیہ السلام کا علم، سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم مبارک سے زیادہ ہے وغیرہ وغیرہ۔

دلیل:-

اس قسم کیلئے دلیل مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان عالیشان ہے “من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھورد۔“ جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نئی ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ باطل و مردود ہے۔ (بخاری و مسلم) ہاں نئی بات سے مراد نئے عقیدے ہیں۔“

(2) بدعت عملی :-

وہ نیا کام جو مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانہءپاک کے بعد پیدا ہوا، چاہے وہ کام دینی ہو یا دنیاوی“ پھر اس کی دو قسمیں ہیں (1) بدعت حسنہ (2) بدعت سیئہ

بدعت حسنہ : ہر وہ نیا کام جو نہ تو خلاف سنت ہو اور نہ ہی کسی سنت کے مٹانے کا سبب بنے۔
بدعت سیئہ: ہر وہ نیا کام جو کسی سنت کے خلاف ہو یا کسی سنت کے مٹانے کا سبب بن جائے۔
ان دو قسموں کی دلیل :

ان پر دلیل ہمارے مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان عالیشان ہے “جو اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے تو اس کیلئے اپنے عمل کا اور جو اس کے بعد اس پر عامل ہوں گے ان سب کے اعمال کا ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں سے کچھ کمی ہو اور اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کرے تو اس پر اپنی بدعملی کا اور ان سب کی بد اعمالیوں کا گناہ ہے کہ جو اس کے بعد اس پر عامل ہوں گے، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں سے کچھ کمی ہو (مسلم شریف)
اب آخر میں یاد رکھئے کہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی بھی مزید کچھ قسمیں ہیں چنانچہ بدعت حسنہ کی تین قسمیں ہیں (1) بدعت مباحہ (2) بدعت مستحبہ (3) بدعت واجبہ

اور بدعت سیئہ کی دو قسمیں ہیں

(1) بدعت مکروہہ (2) بدعت محرمہ

اب بالترتیب ان سب کی تعریفیں اور مثالیں بھی سماعت فرما لیں۔

بدعت مباحہ:

ہر وہ نیا کام جو شریعت میں منع نہ ہو اور بغیر کسی نیت خیر کے کیا جائے جیسے جائز طریقوں کے ساتھ پاکستان کا یوم آزادی منانا، نئے نئے کھانے مثلاً بریانی، کوفتے، زردہ وغیرہ۔

(2) بدعت مستحبہ:

ہر وہ نیا کام جو شریعت میں منع نہ ہو اور کسی نیت خیر کے ساتھ کیا جائے۔ مثلاً اسپیکر میں اذان دینا، بارھویں شریف اور بزرگان دین کے اعراس کی محافل قائم کرنا وغیرہ۔

(3) بدعت واجبہ :

ہر وہ نیا کام جو شریعت میں منع نہ ہو اور اس کے چھوڑنے سے دین میں حرج واقع ہو یا وہ نیا کام جو کسی فرض یا واجب کو پورا کرنے یا اسے تقویت دینے والا ہو جیسے قرآن مجید پر اعراب لگانا، علم صرف و نحو پڑھنا اور دینی مدارس قائم کرنا وغیرہ۔

(4) بدعت مکروھہ :

وہ نیا کام جو سنت کے مخالف ہو اب اگر کسی سنت غیر مؤکدہ (وہ سنت ہے کہ جس کے ترک کو شریعت ناپسند رکھے لیکن یہ ناپسندیدگی اس حد تک نہ ہو کہ ترک پر وعید عذاب بیان کی گئی ہو) کے مخالف ہو تو یہ بدعت مکروہ تنزیہی ہے (سنت غیر مؤکدہ کے مخالف عمل کو کہتے ہیں) اور اگر سنت مؤکدہ (وہ سنت کہ جسے سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو البتہ بیان جواز کے لئے کبھی ترک بھی فرمایا ہو۔ یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی مگر جانب ترک بالکل بند نہ فرمائی) چھوٹی تو یہ بدعت اساءت (سنت مؤکدہ کے مخالف عمل کو کہتے ہیں) مثلاً سلام کے بجائے ہائے ہیلو سے کلام کی ابتداء کرنا، عادہً ننگے سر رہنا وغیرہ۔

(5) بدعت محرمہ :

وہ نیا کام جو کسی فرض یا واجب کے مخالف ہو جیسے داڑھی منڈانا یا ایک مٹھی سے چھوٹی رکھنا وغیرہ۔

ان سب پر دلیل :

ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں “بدعت یا تو واجب“ ہے جیسے علم نحو کو سیکھنا اور اصول فقہ کا جمع کرنا اور یا محرمہ ہے جیسے جبریہ مذہب (اس فرقہ کا اعتقاد ہے کہ انسان کو اپنے اعمال و افعال پر کوئی اختیار نہیں ہے) اور یا مستحب ہے جیسے مسافر خانوں اور مدرسوں کا ایجاد کرنا اور ہر وہ اچھی بات جو پہلے زمانے میں نہ تھی اور جیسے عام جماعت سے تراویح پڑھنا اور یا “مکروہہ“ ہے جیسے مسجدوں کو فخریہ زینت دینا یا مباحہ فجر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا اور عمدہ کھانوں اور مشروبات میں وسعت کرنا۔“

پیارے اسلامی بھائیو ! معلوم ہوتا ہے کہ اس تفصیل کی بناء پر سب کچھ ذہن میں گڈ مڈ ہو گیا ہے، چلیں میں آپ کے سامنے مختصر ان تقسیمات کا خلاصہ عرض کر دیتا ہوں۔

یاد رکھیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں۔

(1) بدعت اعتقادی (2) بدعت عملی

پھر بدعت عملی کی پانچ قسمیں ہیں

(1) بدعت مباحہ (2) بدعت مستحبہ (3) بدعت واجبہ (4) بدعت مکروہہ (5) بدعت محرمہ

“ اب خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان “(کل بدعۃ ضلالۃ“) سے مراد یا تو “بدعت اعتقادی“ ہے اور یا پھر “بدعت مکروہہ“ اور “بدعت محرمہ“ اور اب جب کہ بدعت کی تمام اقسام اور ان کا حکم بالکل واضح ہو گیا تو یہ فیصلہ کرنا کچھ بھی دشوار نہ رہا کہ “بارھویں شریف“ کا انعقاد، بدعت مستحبہ ہونے کی وجہ سے سعادت مندی اور باعث اجر و ثواب ہے۔“

پیارے اسلامی بھائیو! ان تمام دلائل کے علاوہ ایک اور دلیل سے بھی بارھویں شریف کے جواز کو ثابت کرنا ممکن ہے اس کی تفصیل یہ کہ یہ ضابطہ ہمیشہ ذہن میں رکھئے کہ “کسی چیز کو جائز قرار دینے کے لئے دلیل درکار نہیں ہوتی بلکہ ناجائز ثابت کرنے کیلئے دلیل کا مطالبہ کیا جاتا ہے“ کیونکہ تمام چیزوں میں اصل یہ ہے کہ وہ مباح (جس چیز کا کرنا نہ کرنا برابر ہو یعنی نہ تو کرنے پر ثواب ہے اور نہ ہی چھوڑ دینے پر کوئی گناہ ہے) ہیں جیسا کہ “ردالمحتار“ میں ہے “المختار ان الاصل لاباحۃ عند الجمھور من الحنفیۃ والشافعیۃ جمھورا حناف و شوافع کے نزدیک مختار مذہب یہ ہے کہ (“ تمام چیزوں میں) اصل، مباح ہونا ہے“ چنانچہ اب اگر ہم کسی چیز کو ناجائز و حرام کہنا چاہیں تو پہلے ہمیں قرآن و حدیث سے اس کی ممانعت پر دلیل پیش کرنا لازم ہوگا، مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ “ آپ شراب پینے، جوا کھیلنے، محرمات سے نکاح کرنے، مرادر کتے بلی حشرات الارض وغیرہ کھانے کا ناجائز و حرام کیوں کہتے ہیں ؟“ تو یقیناً یہی جواب دیا جائے گا کہ، “ان سب کو قرآن و حدیث میں منع کیا گیا ہے“

اب جو بدبخت معاذاللہ اپنے نبی علیہ السلام کی خوشی منانے کو ناجائز و حرام کہے تو ضابطے کے مطابق اس سے مطالبہ کیا جانا چاہئیے کہ “اچھا اگر واقعی ایسا ہے تو قرآن و حدیث سے اس کی ممانعت کی دلیل پیش کیجئے۔“ آپ دیکھیں گے کہ انشاءاللہ عزوجل قیامت تک ممانعت پر دلیل لانے سے عاجز رہے گا اورا س کا عاجز آ جانا ہی اس بات کی دلیل ہو گا کہ مولود مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا جشن منانا بالکل جائز و مستحن ہے۔ بلکہ ایسے لوگوں کو یہ ناپاک جملے زبان سے نکالنے سے ڈرنا چاہئیے کیونکہ ان کا یہ فعل اللہ عزوجل کی سخت گرفت کا باعث بن سکتا ہے انھیں چاہئیے کہ خوب ٹھنڈے دل کیساتھ ان آیات پر غور کریں اللہ تعالٰی کا فرمان عالیشان ہے یایھاالذین امنو لا تحرموا طیبت ما احل اللہ لکم ولا تعتدوا ط ان اللہ لا یحب المعتدین ہ اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اللہ (عزوجل) نے تمھارے لئے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو، بےشک حد سے بڑھنے والے اللہ (تعالٰی) کو ناپسند ہیں ( پارہ7 سورۃ مائدہ آیت87 ) اور ارشاد فرمایا “قل ارءیتم ما انزل اللہ لکم من رزق فجعلتم منہ حراما و حلٰلا ط قل اللہ اذن لکم ام علی اللہ تفترون ہ تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو وہ جو اللہ (عزوجل) نے تمھارے لئے رزق اتارا، اس میں تم نے اپنی طرف سے حرام و حلال ٹھہرالیا، تم فرماؤ کیا اللہ تعالٰی نے اس کی تمھیں اجازت دی یااللہ (عزوجل) پر جھوٹ باندھتے ہو (سورہ یونس پارہ 11 آیت 59)

تفسیر خزائن العرفان میں اسی آیت پاک کے تحت ہے “اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ کسی چیز کو اپنی طرف سے حلال یا حرام کرنا ممنوع اور اللہ تعالٰی پر “جھوٹ باندھنا“ ہے آج کل بےشمار لوگ اس میں مبتلا ہیں کہ ممنوعات کو حلال کہتے ہیں اور مباحات کو حرام۔ بعض سود، تصویروں، کھیل تماشوں، عورتوں کی بےپردگیوں، بھوک ہڑتال جو “خودکشی“ ہے، کو حلال ٹھہراتے ہیں اور بعض حلال کو حرام ٹھہرنے پر مصر ہیں جیسے محفل میلاد، فاتحہ، گیارھویں شریف وغیرہ اسی کو قرآن پاک میں اللہ تعالٰی پر افتراء کرنا بتایا۔“ اور انھیں یہ حدیث پاک بھی خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے کہ “مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے گھی، پنیر اور پوستین کے بارے میں سوال کیا گیا (کہ ان کا استعمال ہمارے لئے جائز ہے یا نہیں)“ تو آپ نے ارشاد فرمایا “حلال وہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں حلال کیا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں حرام کیا، اور جس چیز کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی تو وہ ان چیزوں میں سے ہے کہ جنھیں معاف فرمایا گیا ۔ (ترمذی)

اس تمام بحث و تفصیل کا نتیجہ بھی یہی نکلا کہ چونکہ بارھویں شریف کی ممانعت نہ تو قرآن سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے چنانچہ یہ بالکل جائز و مستحب و باعث حصول برکات و بلندیء درجات ہے۔“

جاوید: اللہ تعالٰی کا بڑا شکر ہے کہ آپ کے دلائل سے ہمارے دلوں میں موجود تمام سوالوں کا جواب حاصل ہو گیا اور مجھ سمیت میرے ان تمام دوستوں میں سے کسی کو بھی میلاد شریف کے جائز ہونے کے بارے میں اب کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں۔
 

رضا

معطل
باقی دوست: جی ہاں بالکل، یہی بات ہے۔

جاوید: اگر آپ محسوس نہ فرمائیں تو چند مذید سوالات کے جوابات بھی عنایت فرما دیجئے، یہ ایسے سوالات ہیں کہ جو میلاد پاک کو جائز ماننے کے بعد بھی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

احمد رضا: ہاں ہاں ضرور پوچھئے، اگر مجھے معلوم ہوا تو انشاءاللہ عزوجل ان کے جوابات بھی ضرور عرض کرنے کی سعادت حاصل کروں گا۔

جاوید: بہت بہت شکریہ، اگلا سوال یہ ہے،

سوال: اس پر کیا دلیل ہے کہ میلاد رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر خوشیاں منانا، اللہ تعالٰی اور اس کے نبیء کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کا سبب ہے ؟

احمدرضا: موقع میلادالنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر اللہ تعالٰی کی خوشی کا اندازہ اس عبارت سے لگائیے کہ جسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے “ماثبت من السنۃ“ میں نقل فرمایا ہے، تحریر فرماتے ہیں، “ابو لہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ کو اس صلے میں آزاد کر دیا تھا کہ اس نے (یعنی ثوبیہ) نے اسے سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خبر دی تھی تو ابولہب کے مرنے کے بعد کسی نے اسے خواب میں دیکھا، پوچھا کہ “کہو کیا حال ہے ؟“ بولا “آگ میں ہوں البتہ اتنا کرم ہے کہ ہر پیر کی رات مجھ پر تخفیف کر دی جاتی ہے اور اشارے سے بتایا کہ “اپنی دو انگلیوں سے پانی چوس لیتا ہوں“ اور یہ عنایت مجھ پر اس وجہ سے ہے کہ مجھے ثوبیہ نے بھتیجے (یعنی نبیء اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی پیدائش کی خبر دی تھی تو اس بشارت کی خوشی میں، میں نے اسے دو انگلیوں کے اشارے سے آزاد کر دیا تھا اور پھر اس نے اسے دودھ پلایا تھا۔“ (خواب والا واقعہ بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔)

(عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مذید تحریر فرماتے ہیں کہ) اس پر علامہ جزری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب جیسے کافر کا یہ حال ہے کہ اس کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی رات خوش ہونے پر دوزخ میں بھی بدلہ دیا جا رہا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے ان لوگوں کے حال کا کیا پوچھنا جو آپ کی پیدائش کے بیان سے خوش ہوتے ہیں اور جس قدر بھی طاقت ہوتی ہے ان کی محبت میں خرچ کرتے ہیں، مجھے اپنی اپنی عمر کی قسم! کہ ان کی جزاء خدائے کریم کی طرف سے یہی ہو گی کہ ان کو اپنے فضل عمیم (یعنی فضل کامل) سے جنات نعیم (آرام و نعت کے باغات یعنی جنت) میں داخل فرمائے گا۔“

اور مدنی مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی و مسرت کیلئے یہ روایت سنئے کہ جسے علامہ شاہ محمد مظہراللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے “تصرفات محمدیہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)“ میں نقل فرمایا ہے کہ آپ لکھتے ہیں “علامہ زرقانی نے بحوالہ تنویر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ (یعنی ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ) اپنے گھر میں اپنے اہل و عیال اور چند افراد قوم کو جمع کرکے ان کے سامنے ولادت کے واقعات و حالات بیان فرما رہے تھے اور حمدالٰہی عزوجل اور درود و سلام میں مصروف تھے کہ اچانک سرور دو جہاں، شفیع مجرماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ کا یہ حال ملاحظہ فرما کر نہایت خوش ہوئے اور فرمایا “حلت لکم شفاعتی“ تمھارے لئے میری شفاعت حلال ہو گئی (یعنی لازم ہو گئی)“ (مظہراللہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس کے بعد فرماتے ہیں) سبحان اللہ عزوجل! وہ لوگ کیسے خوش قسمت ہیں جو رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے ذکر کی مجالس منعقد کرکے اپنی بخشش کا سامان کرتے ہیں۔“

اور “انفاس العارفین“ میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ “ان کے والد حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں ہر سال بارھویں شریف کے میلاد شریف میں طعام اور شیرنی تقسیم کرتا تھا، مگر ایک سال کچھ تنگ دستی ہو گئی تو میں نے بھنے ہوئے چنوں پر ہی فاتحہ دے کر میلاد شریف میں تقسیم کر دئیے میں نے خواب میں رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی، دیکھا کہ وہی چنے سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھے ہوئے ہیں اور آپ خوش ہو رہے ہیں۔“

اور پیارے اسلامی بھائیو! اگر عقلی طور پر بھی دیکھا جائے تو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ فعل، اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش کرنے والا ہے، وہ اس طرح کہ بارھویں شریف کو سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہے اور ہمارا اس پر خوب خوشیاں منانا اس بات کی علامت ہےکہ ہمیں اپنے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عالم میں رونق افروز ہونے سے خوشی و مسرت حاصل ہوئی ہے اور یہ فطری تقاضا ہے کہ جس چیز کو ہم سے نسبت ہو اس پر کسی کا خوشی کا اظہار کرنا ہمیں خوش کر دیتا ہے بس اسی طرح مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے نسبت رکھنے والی بارھویں شریف پر خوشی منانا آپ کو خوش کر دیتا ہے اور چونکہ ہمارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اپنے رب عزوجل کے حبیب ہیں اور اللہ تعالٰی کی خوشی اپنے حبیب کی خوشی میں پوشیدہ ہےچنانچہ جب حبیب باری تعالٰی خوش ہو گئے تو باری تعالٰی بھی ضرور ضرور خوش ہو گا۔

جاوید: بالکل درست، اب ایک اور سوال۔

سوال: ان اعمال پر سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو خوش ہونا تو اس صورت میں ممکن ہے کہ جب آپ کو ان تمام کاموں کی خبر ہو، تو اس پر کیا دلیل ہے کہ آپ ہمارے تمام افعال و اعمال پر واقف ہیں ؟

احمدرضا‌ : !یقیناً ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بخوبی جانتے ہیں کہ آپ کا کون امتی، کس طرح خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔

اس پر دلیل وہ حدیث پاک ہے جسے اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے “احکام شریعت“ میں نقل فرمایا ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “ہر پیر اور جمعرات کو اللہ تعالٰی کے حضور اعمال پیش ہوتے ہیں اور انبیاءکرام علیھم الصلوٰۃ والسلام اور ماں باپ کے سامنے ہر جمعے کو، وہ نیکیوں پر خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کی صفائی اور تابش بڑھ جاتی ہے تو اللہ عزوجل سے ڈرو اور اپنے مردوں کو اپنے گناہوں سے رنج نہ پہنچاؤ۔ (ارواہ الامام الحکیم عن والد عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ)

بلکہ اچھی طرح یاد رکھئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا اعمال امت پر واقف ہونا، فقط اعمال ناموں کے خدمت اقدس میں پیش کئے جانے پر موقوف نہیں، بلکہ اللہ تعالٰی کی عطا اور اس کے فضل و کرم سے آپ بذات خود براہ راست اپنی پوری امت کے اعمال کا مشاہدہ فرمانے پر قادر ہیں، کائنات کی کوئی بھی شے آپ پر مخفی نہیں۔

جاوید: بعد وفات آپ ہمیں کس طرح دیکھ سکتے ہیں ؟

احمدرضا: شاید آپ کو یاد نہیں رہا، ابھی کچھ دیر پہلے میں نے ایک حدیث پاک بیان کی تھی کہ “انبیاء علیھم السلام اپنی قبور میں زندہ ہیں “ (ابن ماجہ)

جاوید: اچھا اس پر کیا دلیل ہے کہ آپ اتنے طویل فاصلے سے ہمیں دیکھ سکتے ہیں ؟

احمدرضا: اس پر بےشمار دلیلیں موجود ہیں۔ تنگیء وقت کی بناء پر دو دلیلیں پیش کرتا ہوں۔

(1) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ “رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی، پھر فارغ ہوئے تو سورج صاف ہو چکا تھا۔ لوگوں نے عرض کی “یارسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم)! ہم نے (حالت نماز میں) دیکھا کہ آپ نے اپنی اس جگہ میں کچھ لیا (یعنی دوران نماز ہاتھ آسمان کی طرف بڑھا کر کسی چیز کو پکڑنے کا ارادہ فرمایا) پھر دیکھا کہ آپ پیچھے ہٹے (یعنی ان دونوں افعال کی کیا وجہ تھی ؟) (رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیتے ہوئے ارشاد) فرمایا “میں نے “جنت“ ملاحظہ کی تو اس سے ایک خوشہ لینا چاہا، اگر لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک کھاتے رہتے (کیونکہ جنت کی نعمتوں میں فنا نہیں ہے) اور میں نے آگ (یعنی دوزخ) دیکھی تو آج کی طرح گھبراہٹ والا منظر کبھی نہ دیکھا، میں نے اس میں عورتوں کی تعداد زیادہ دیکھی۔“ (مسلم شریف)

پیارے اسلامی بھائیو! یہ ایک طویل حدیث پاک ہے لیکن میں نے ضرورتاً کچھ مختصر کرکے بیان کی ہے اگر آپ غور فرمائیں تو اس سے معلوم ہوا کہ ہمارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو بینائی میں بےحد وسعت عطا کی گئی ہے چنانچہ چاہیں تو ساتوں آسمانوں کے اوپر اور کروڑوں میل دور واقع جنت کو دنیا میں کھڑے کھڑے نہ صرف ملاحظہ فرما لیں بلکہ ایسے قادر و مختار ہیں کہ اگر چاہیں تو ہاتھ بڑھا کر اس کی نعمتیں بھی حاصل کر سکتے ہیں اور جب یہ دونوں چیزیں آپ کے لئے صحیح حدیث سے ثابت ہیں تو پھر یہ اعتقاد رکھنا کہ آپ ہمیں مدینہ منورہ سے دیکھ سکتے ہیں۔ اور اللہ تعالٰی کی عطا کردہ نعمتوں کو اپنے غلاموں کو تقسیم فرما سکتے ہیں بالکل حق و درست ہے۔

(2) آپ نے ولادت شریف کے واقعات میں سنا کہ بوقت ولادت ایسا نور نکلا کہ جس کی برکت سے بی بی آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ہزاروں میل دور شام کے محلات کو اپنی چشمان ظاہری سے ملاحظہ فرما لیا۔ تو جب نور سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے والدہء محترمہ کی نگاہوں میں اتنی وسعت پیدا ہو گئی تو پھر خود اس سراپا نور کی بصارت کا عالم کیا ہو گا، اس کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ دشوار نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مولانا امجد علی خاں رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بہارشریعت (حصہ ششم) میں تحریر فرماتے ہیں “یقین جانو کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سچی حقیقی و دنیاوی جسمانی حیات سے ویسے ہی زندہ ہیں جیسے وفات شریف سے پہلے تھے، ان کی اور تمام انبیاء علیھم السلام کی موت صرف وعدہء خدا عزوجل کی تصدیق کو، ایک آن کے لئے تھی ان کا انتقال صرف نظر عوام سے چھپ جانا ہے، امام محمد ابن حاج مکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ “مدخل“ اور امام احمد قسطلانی “مواہب الدنیہ“ میں اور ائمہ دین رحمۃ اللہ تعالٰی علیھم اجمعین فرماتے ہیں، “ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حیات و وفات میں اس بات میں کچھ فرق نہیں کہ وہ اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں اور ان کی حالتوں، ان کی نیتوں، ان کے ارادوں اور ان کے دلوں کے خیالوں کو پہنچانتے ہیں اور یہ سب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر ایسا روشن ہے جس میں اصلاً (یعنی بالکل) پوشیدگی نہیں۔“

جاوید :- سبحان اللہ عزوجل یہ بات سن کر تو بہت ہی لذت و سرور حاصل ہوا۔ دل خوش ہو گیا۔ اچھا اب ایک اور سوال ہے۔

سوال:- بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس موقع پر اتنا خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ یہی رقم غریبوں کو دے دی جائے، اس طرح نہ جانے کتنوں کا بھلا ہو جائے گا۔

احمدرضا: پیارے اسلامی بھائیو! یہ صرف اور صرف ہمیں اپنے نبیء کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی خوشیاں منانے سے روکنے کی ایک ناکام کوشش ہے، آپ سے گذارش ہے کہ خود اس قسم کے جملے کہنے والوں کے گھر میں جب کوئی تقریب ہو رہی ہو تو یہی “مخلصانہ“ مشورہ انھیں بھی دے کر دیکھئے، کبھی بھی اپنی تقریب موقوف کرکے غریبوں کو پیسہ نہ دیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا بارھویں پر دل کھول کر خرچ کرنا دراصل اللہ تعالٰی عزوجل کے فضل و کرم اور انعامات کی بارشیں طلب کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اور یہ بات سب جانتے ہی ہیں کہ جب بارش برستی ہے تو پھر ہر خاص و عام کو اس سے فیض پہنچتا ہے۔ مولود پاک کے صدقے نازل ہونے والی برکات سے بھرپور مدنی بارش کا حال اس روایت سے بخوبی جانا جا سکتا ہے کہ جسے امام احمد قسطلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے “مواہب الدنیہ“ میں نقل فرمایا ہے کہ “طبرانی“ و “بیہقی“ وغیرہ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نقل کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ “میں قبیلہ بنی سعد بن بکر کے ساتھ دودھ پلانے کے لئے کسی بچے کو لینے مکہء مکرمہ آئی یہ زمانہ شدید قحط سالی کا تھا آسمان سے زمین پر پانی کا ایک قطرہ نہ برستا تھا ہماری ایک مادہ گدھی تھی جو لاغری و کمزوری کی وجہ سے چل نہیں سکتی تھی ایک اونٹنی تھی جو دودھ کی ایک بوند نہ دیتی تھی میرے ساتھ میرا بچہ اور میرے شوہر تھے ہماری تنگی کا یہ عالم تھا کہ رات چین سے گزرتی تھی اور نہ دن آرام سے۔ جب ہمارے قبیلے کی عورتیں مکہ پہنچیں تو انھوں نے دودھ پلانے کے لئے تمام بچوں کو لے لیا، سوائے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے۔ کیونکہ جب وہ یہ سنتی تھیں کہ وہ یتیم ہیں تو ان کے یہاں جاتی ہی نہ تھیں۔ کوئی عورت ایسی نہ رہی جس نے کوئی بچہ نہ لے لیا ہو صرف میں ہی باقی تھی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے سواء کسی کو نہ پاتی تھی۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا “واللہ عزوجل! بغیر بچے لیے مکہء مکرمہ سے لوٹنا مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا، میں جاتی ہوں اور اس یتیم بچے کو لئے لیتی ہوں، میں اسی کو دودھ پلاؤں گی۔“ ا سکے بعد میں گئی، میں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دودھ سے زیادہ سفید اونی کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں اور آپ سے مشک و عنبر کی خوشبوئیں لپٹیں مار رہی ہیں، آپ کے نیچے سبز ریشم بچھا ہوا ہے اور آپ خراٹے (آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے خراٹے بہت بلند نہ ہوتے تھے بلکہ بہت آہستہ آہستہ خراٹے لیتے، جس سے کسی کو تکلیف نہ ہوتی تھی۔) لیتے ہوئے اپنی گدی شریف پر محو خراب ہیں، میں نے چاہا کہ آپ کو نیند سے بیدار کر دوں مگر آپ کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گئی، پھر میں نے آہستہ سے قریب ہو کر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنا ہاتھ آپ کے سینہء مبارکہ پر رکھا تو آپ نے تبسم فرما کر اپنی چشم مبارک کھول دی (ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان ہے ورنہ ایسے موقع پر بچے عموماً روتے ہیں) میری طرف نظر کرم اٹھائی تو آپ کے چشمان مبارک سے ایک نور نکلا جو آسمان تک پرواز کر گیا میں نے آپ کی دونوں چشمان مبارک کے درمیان بوسہ دیا اور اپنی گود میں بٹھا لیا تا کہ دودھ پلاؤں، میں نے داہنا پستان آپ کے دہن مبارک میں دیا آپ نے دودھ نوش فرمایا پھر میں نے چاہا کہ اپنا بایاں دہن مبارک میں دوں تو آپ نے نہ لیا اور نہ پی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ “حق تعالٰی نے آپ کو ابتدائی حالت میں ہی عدالت و انصاف ملحوظ رکھنے کا الھام فرما دیا تھا اور آپ جانتے تھے کہ ایک ہی پستان میں دودھ آپ کا ہے کیونکہ حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا اپنا بیٹا بھی ہے۔“

حلیمہ سعدیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ “اس کے بعد آپ کا یہی حال رہا کہ ایک پستان کو اپنے رضاعی (یعنی دودھ شریک) بھائی کیلئے چھوڑ دیا کرتے تھے، پھر آپ کو لے کر اپنے شوہر کے پاس آئی، وہ بھی آپ کے حسن و جمال مبارک پر عاشق ہو گئے اور سجدہ شکر ادا کیا، وہ اپنی اونٹنی کے پاس گئے دیکھا تو اس کے تھن دودھ سے بھرے ہوئے تھے حالانکہ پہلے ان میں ایک قطرہ بھی نہ تھا، انھوں نے دودھ دوہا، ہم سب نے سیر ہو کر پیا، اور خیرو برکت کے ساتھ اس رات چین کی نیند سوئے۔ اس سے پہلے بھوک و پریشانی میں نیند نہیں آتی تھی۔ میرے شوہر نے کہا “اے حلیمہ! بشارت و خوشخبری ہو کہ تم نے اس ذات گرامی کو لے لیا، تم نہیں دیکھتیں کہ ہمیں کتنی خیرو برکت حاصل ہوئی ہے یہ سب اس ذات مبارک کے طفیل ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہمیشہ اور زیادہ خیرو برکت رہے گی۔“

اس کے بعد سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے مجھے رخصت کیا، میں اپنی مادہ گدھی پر آپ کو گود میں لے کر سوار ہوئی میری گدھی خوب چست و چالاک ہو گئی اور اپنی گردن اوپر تان کر چلنے لگی جب ہم کعبہ کے سامنے پہنچے تو اس نے تین سجدے کئے اور اپنے سر کو آسمان کی طرف اٹھا کر چلائی۔ پھر قبیلے کے جانوروں کے آگے آگے دوڑنے لگی، لوگ اس کی تیز رفتاری پر تعجب کرنے لگے، عورتوں نے مجھ سے کہا، “اے بنت ذویب! کیا یہ وہی جانور ہے جس پر سوار ہو کر ہمارے ساتھ آئی تھیں جو تمھارے بوجھ کو اٹھا نہیں سکتا تھا اور سیدھا چل تک نہ سکتا تھا ؟“ میں نے جواب دیا “واللہ عزوجل یہ وہی جانور ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اس فرزند کی برکت سے اسے قوی و طاقت ور کر دیا ہے“ اس پر انھوں نے کہا “واللہ عزوجل! اس کی بڑی شان ہے۔“ میں نے اپنی گدھی کو جواب دیتے سنا کہ “ہاں ! خدا عزوجل کی قسم، میری بڑی شان ہے میں مردہ تھی مجھے زندگی عطا فرمائی، میں لاغر و کمزور تھی مجھے قوت و توانائی بخشی۔ اے بنی سعد کی عورتو! تم پر تعجب ہے کہ تم غفلت میں ہو اور تم نہیں جانتیں کہ میری پشت پر کون ہے ؟ میری پشت پر سیدالمرسلین، خیرالاولین والآخرین اور حبیب رب العلمین (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) ہیں “میں بکریوں کے جس ریوڑ کے پاس سے گزرتی، بکریاں سامنے آکر کہتیں “اے حلیمہ! تم جانتی ہو کہ تمھارا دودھ پینے والا کون ہے ؟ یہ محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم آسمان و زمین کے رب عزوجل کے رسول (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اور تمام بنی آدم میں افضل ہیں۔“ ہم جس منزل پر قیام کرتے حق تعالٰی اسے سرسبز شاداب فرما دیتا باوجود کہ وہ قحط سالی کا زمانہ تھا اور جب ہم بنی سعد میں پہنچ گئے تو کوئی اس سے زیادہ خشک اور ویران نہ تھا لیکن جب میری بکریاں چراگاہ میں جاتیں تو شام کو خوب شکم سیر، تروتازہ اور دودھ سے بھری ہوئی لوٹتیں۔ تو ہم ان کا دودھ نکالتے خود بھی سیر ہو کر پیتے اور دوسروں کو بھی پلاتے ہماری قوم کے لوگ اپنے چرواہوں کو کہتے کہ “تم اپنی بکریوں کو ان چراگاہوں میں کیوں نہیں چراتے جس چراگاہ میں بنت ابی ذویب (یعنی حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا) کی بکریاں چرتی ہیں۔“ حالانکہ وہ نہ جانتے تھے کہ ہمارے گھر میں یہ خیرو برکت کہاں سے آئی ہے، یہ برکت و افروانی، غیبی چراگاہ“ اور “کسی اور چارہ سے“ تھی۔ اس کے بعد قو کے دیگر چرواہوں نے ہمارے چرواہوں کے ساتھ بکریاں چرانی شروع کر دیں یہاں تک کہ حق تعالٰی نے ان کے اموال اور ان کی بکریوں میں بھی خیرو برکت پیدا فرما دی اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی وجہ سے تمام قبیلے میں خیرو برکت پھیل گئی۔“

پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خدمت کی سعادت تو سیدہ حلیمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حاصل کی تھی لیکن جب اس کے بدلے میں بارش کرم برسی تو ہر ایک نے خوب خوب اس سے اپنا اپنا حصہ حاصل کیا، اسی طرح جب ہم بھی مولود پاک کی خوشیاں منا کر اللہ تعالٰی کی رحمت کے دروازے پر مدنی دستک دیتے ہیں تو اس کا دریائے کرم جوش میں آتا ہے اور پھر ہر ایک کو اس کے اخلاص و جذبے کے مطابق حصہء رحمت و برکت عطا کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ امام جوزی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تو ارشاد فرماتے ہیں کہ “میلاد شریف کی یہ تاثیر ہے کہ اس کی برکت سے سال بھر امن رہتا ہے۔“ (روح الییان)

جاوید: الحمدللہ عزوجل! یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا بس اب آخری سوال وہ یہ کہ :-

سوال: یہ بتائیے کہ بعض لوگوں کی یہ بات کہاں تک درست ہے کہ اگر بارھویں شریف کو جائز مان بھی لیا جائے تو چونکہ ا سکی وجہ سے عوام الناس کثیر غلطیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں لٰہذا اس سلسلے کو بند کر دینا چاہئیے۔ مثلاً بہت سے لوگ ان دنوں میں بلند آواز سے گانا لگا لیتے ہیں، کہیں زبردستی چندہ کیا جاتا ہے، کسی مقام پر جانوروں اور خیالی بزرگوں کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں کر دی جاتی ہیں، کہیں ہندؤوں کی رسم کے مطابق ایک دوسرے پر رنگ پھینکا جاتا ہے، کہیں جلوسوں میں سیٹیاں اور تالیاں بج رہی ہوتی ہیں، کہیں دوران جلوس ڈھول کی تھاپ پر نوجوان محو رقص ہوتے ہیں بعض اوقات کھانا، تھیلیوں میں بھر کر پھینکا جاتا ہے، جس کی بناء پر رزق کی بےحرمتی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط بھی دیکھا گیا ہے ؟“

احمدرضا: پیارے اسلامی بھائیو! اگر صرف عوام الناس کے برے عمل کی وجہ سے عبادات و معاملات کو ترک کر دے جانے کا ضابطہ بنا دیا جائے تو پھر تو ہمارے تمام کاروبار زندگی رک جائیں گے کیونکہ آج کل کونسا ایسا دینی یا دنیاوی کام ہے کہ جس کی ادائیگی کے وقت عوام الناس اغلاط میں مبتلا نہ ہوتے ہوں ؟ جیسا کہ شادی کرنا سنت مبارکہ ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ شادی تو جائز ہے لیکن اس کی وجہ سے چونکہ کثیر گناہ ہوتے ہیں مثلاً تصویریں کھنچی جاتی ہیں، عورتوں مردوں کا اختلاط ہوتا ہے، رقص و سرور کی محافل قائم کی جاتی ہیں، دولہا کو مہندی لگائی جاتی ہے، اور لگانے والی بھی نامحرم ہوتی ہے، دولہا کو سونا پہنایا جاتا ہے، گانوں کی صورت میں ایک دوسرے کو فحش گالیاں دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ اب شادی کا سلسلہ بند ہو جانا چاہئیے کیا خیال ہے آپ اس کی بات مان لیں گے ؟

جاوید: بالکل نہیں۔

احمدرضا: تو پھر آپ ایسے شخص کو کیا جواب دیں گے ؟

جاوید: یقیناً یہی کہیں گے کہ شادی جائز ہے چنانچہ اسے ترک نہ کیا جائے بلکہ لوگوں کو حرام کام سے روکنے کی کوشش کریں۔

احمدرضا: شاباش، میری بھی یہی عرض ہے کہ بارھویں شریف محبوب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے بابرکت اور بابرکت بنانے والی ہے لٰہذا اسے ترک نہ کیا جائے بلکہ خطاؤں میں مبتلا اسلامی بھائیوں کو شفقت سے سمجھایا جائے، اللہ تعالٰی کی ذات پاک سے امید ہے کہ ہمارے محبت بھرے انداز سے سمجھانے کی برکت سے ایک دن تمام اسلامی بھائی بھی عین شریعت کے مطابق بارھویں شریف منانے میں کامیاب ہو جائیں گے

شاید آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ میرا تعلق سنتوں کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک “دعوت اسلامی“ سے ہے جس کے امیر ایک بہت بڑے عاشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالٰی کی بارگاہ کے ایک مقبول ولی ہیں ان کا نام محمد الیاس قادری مدظلہ العالی ہے۔

دعوت اسلامی کے روحانی اور بابرکت ماحول سے باقاعدہ وابستگی سے پہلے ہمیں بھی اس کا کچھ شعور حاصل نہ تھا چنانچہ جیسا ذہن میں آتا الٹے سیدھے طریقوں سے خوشی کا اظہار کر لیا کرتے تھے، لیکن الحمدللہ عزوجل! جب امیر اہلسنت امیر دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری مدظلہ العالی کی صحبت و تربیت میں آنے کی سعادت حاصل ہوئی تو آپ کی حکمت اور دانائی نے ہمارے ذہنوں میں ان دنوں کو عین اسلامی طریقے کے مطابق گزارنے کا انقلابی شعور بیدار کر دیا، چنانچہ آپ بھی اس مرتبہ بارھویں شریف، دعوت اسلامی کے پاکیزہ ماحول کے ساتھ منا کر دیکھیں، انشاءاللہ عزوجل، بہت ہی زیادہ سرور و اطمینان محسوس کریں گے کیونکہ ہمارے ماحول میں کوئی عمل خلاف شرع نہیں کیا جاتا جیسے ہی ربیع الاول شروع ہوتا ہے ہم اپنے گھروں گلیوں محلوں گاڑیوں اور دکانوں کو قمقوں اور جھنڈوں وغیرہ سے سجانا شروع کر دیتے ہیں، ساتھ ساتھ ہی چوک اجتماعات اور نعتیہ محافل کے ذریعے اسلامی دوسرے بھائیوں کو بھی اسکی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمارے امیر اہلسنت امیر دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم عالیہ، بارھویں شریف منانے کا خصوصی اہتمام فرماتے ہیں چنانچہ اس “عاشقوں کی عید“ پر حتی الامکان ہر چیز نئی خریدنے کی کوشش فرماتے ہیں مثلاً لباس، چادر، رومال، عمامہ، ٹوپی، سربند، تسبیح، پین، مسواک، گھڑی، جوتی، یہاں تک کہ بنیان و ازاربند تک نیا لیتے ہیں۔ اور اپنے بیانات اور تحریروں کے ذریعے بھی اسلامی بھائیوں کو بارھویں شریف خوب دھوم دھام کے ساتھ منانے کی ترغیب ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔

بارہ ربیع الاول کی رات، اجتماع منعقد کیا جاتا ہے، جس میں اصلاحی انداز میں ولادت کے واقعات اور فضائل و کمالات سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم بیان کئے جاتے ہیں، پھر نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سحری تک جاری رہتا ہے اجتماع گاہ میں ہی کثیر سحری کا انتظام کیا جاتا ہے۔ تمام شرکاء اسلامی بھائی سحری کرتے ہیں اور بارھویں شریف سنت کے مطابق روزہ رکھ کر مناتے ہیں۔ دن میں عموماً ظہر کی نماز کے بعد جلوس نکالے جاتے ہیں۔ ہمارے جلوس انتہائی پر امن اور منکرات سے پاک و صاف ہوتے ہیں۔ ماحول سے وابستہ اسلامی بھائی سنت کے مطابق سفید لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں، سر پر عمامہء مقدسہ کا تاج اور ہاتھوں میں سبز سبز جھنڈے ہوتے ہیں، درود و سلام اور نعتیں پڑھتے ہوئے جس مقام سے گزرنا ہو انتہائی منظم طریقے سے گزرتے ہیں۔ اس نظم و ضبط اور شرعی تقاضوں کی رعایت کی برکت سے “ساتھ چلنے والے ماحول سے غیر وابستہ اسلامی بھائی“ بھی غلطیوں اور گناہوں سے بچ جاتے ہیں، دیکھا گیا ہے کہ[ بعض اوقات ہمارے جلوس کی نورانیت کو دیکھ کر لوگوں کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔

امیر اہلسنت مدظلہ العالی بھی ہر سال باقاعدگی کے ساتھ جلوس میں شرکت فرماتے ہیں۔ آپ کا جلوس بارہ تاریخ کو ظہر کی نماز کے بعد شہید مسجد کھارادر (کراچی) سے روانہ ہوتا ہے، “بلا مبالغہ پاکستان بھر میں باعمل اسلامی بھائیوں کا یہ سب سے بڑا جلوس ہوتا ہے“، اس کا اختتام دعوت اسلامی کے عالمی مرکز فیضان مدینہ پر ہوتا ہے۔

جاوید: سبحان اللہ عزوجل! آپ کے ماحول میں جس انداز سے مولود پاک کی خوشیاں منائی جاتی ہیں مجھے تو یہ بہت ہی پسند آیا ہے اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا ہے کہ انشاءاللہ تعالٰی اس مرتبہ بارھویں شریف خوب دھوم دھام سے مناؤں گا اور دعوت اسلامی کے ماحول کے ساتھ مناؤں گا۔“
باقی دوست: انشاءاللہ تعالٰی! “ہم سب بھی اس مرتبہ ماحول کے ساتھ ہی میلاد پاک منائیں گے۔“
احمدرض: صرف بارھویں کے موقع پر نہیں بلکہ ہمارا اور آپ کا محبت اور اپنائیت کا یہ تعلق تو اب تاحیات قائم رہنا چاہئیے۔

جاوید: بےشک بےشک یہ تو ہمارے لئے بہت بڑی سعادت ہو گی، کہ آپ جیسے نیک لوگ اگر ہم پر نگاہ شفقت فرماتے رہیں گے تو انشاءاللہ عزوجل، ہم گناہ گاروں کا بھی بیڑہ پار ہو جائے گا۔ یقین کیجئے آپ سے ملاقات سے پہلے بارھویں شریف سے متعلق عجیب عجیب خیالات اور وسوسے دل میں موجود تھے، لیکن آپ کے اپنا قیمتی وقت دینے کی برکت سے الحمدللہ عزوجل، اب ہمارے دلوں میں نہ صرف بارھویں شریف منانے کا جذبہ بیدار ہو چکا ہے بلکہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی جتنی محبت آج ہمارے دلوں میں پیدا ہوئی ہے، بری صحبت کی نحوست کی بناء پر اللہ تعالٰی نے اس سے پہلے ہمیں محروم فرمایا ہوا تھا، بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اگر پہلی والی حالت ہی میں ہمیں موت آ جاتی، تو ہمارا انجام بہت برا ہونا تھا، اللہ تعالٰی آپ کو بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ نے ہمیں تباہی سے بچا لیا۔

جانی:- یہ ساری نحوست اسی شیطان کی ہے جو ہمارے محلے میں رہتا ہے، اسی خبیث نے ہمارے دلوں میں یہ وسوسے پیدا کیے تھے اور وہی ہمیں نبیء پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی پر ابھارا کرتا تھا، اب اگر وہ میرے پاس آیا تو اس کے دانت توڑ دوں گا۔

احمدرضا: ماشاءاللہ عزوجل! گستاخان رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایسے ہی جذبات ہونے چاہئیں کیونکہ یہ ایمان کامل کی واضح نشانی ہے۔ جیسا کہ سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جو کسی سے اللہ تعالٰی کیلئے محبت رکھے، اللہ تعالٰی ہی کیلئے دشمنی رکھے، اللہ تعالٰی کے لئے دے اور اللہ تعالٰی ہی کیلئے منع کرے تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا۔“ (مشکوٰۃ)

لیکن اگر اس قسم کے دشمنان رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو جلا جلا کر مارا جائے تو اس کا مزہ کچھ اور ہی ہے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ نہ صرف ہم خود، اللہ تعالٰی اور اس کے محبوب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا کی خاطر، خوب خوب خوشیاں منائیں بلکہ انتہائی جوش و جذبہ کے ساتھ اپنے پورے محلے بلکہ پورے شہر کے ہر ہر مسلمان بھائی کے ذہن میں اس کا شعور بیدار کریں، جب ازلی بدبخت و محروم، جشن سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی یہ دھوم دھام دیکھیں گے تو انشاءاللہ تعالٰی خود ہی سڑ سڑ کر ہلاک ہو جائیں گے۔



“حشر تک ڈالیں گے ہم پیدائش مولا کی دھوم
مثل فارس نجد کے قلعے گراتے جائیں گے

انشاءاللہ عزوجل


جاوید: آپ سے جدا ہونے کو دل تو نہیں چاہ رہا، لیکن آپ کی یقیناً دوسری بھی مصروفیات ہوں گی آپ پہلے ہی ہمیں بہت زیادہ وقت دے چکے ہیں۔ مگر اس سے پہلے کے ہم جدا ہوں میں آپ کی خدمت میں ایک سوال اور ایک درخواست پیش کرنا چاہتا ہوں، امید ہے کہ جہاں اتنی شفقت فرمائی ہے، مذید بھی فرمائیں گے۔

احمدرضا: (مسکراتے ہوئے) ارشاد فرمائیں۔

جاوید: سوال تو یہ ہے کہ آپ تعارف کے وقت غمگین کیوں ہو گئے تھے ؟ اور درخواست ہے کہ جاتے جاتے ہمیں کوئی نصیحت ضرور ارشاد فرمائیں۔

احمدرضا: بات دراصل یہ تھی کہ جب آپ نے سب کا تعارف کروایا تو مجھے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ یاد آ گئیں تھی جن کی بناء پر دل غمگین ہو گیا تھا۔

جاوید: ہمیں بھی سنائیے وہ کون سی احادیث تھیں ؟

احمدرضا: آپ لوگ ناراض تو نہیں ہو جائیں گے ؟

جاوید: ارے، یہ آپ کیا فرما رہے ہیں، ناراض ہو کر ہمیں ہلاک ہونا ہے ؟

احمدرضا: اچھا تو سنئیے وہ احادیث یہ تھیں

ابوداؤد میں ہے کہ مدنی آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا انبیاء (علیھم السلام) کے نام پر نام رکھو۔

دیلمی میں رحمت عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ “اچھوں کے نام پر نام رکھو۔“

مسند امام احمد میں ہے کہ شاہ مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا “قیامت کے دن تم کو تمھارے نام اور تمھارے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا لٰہذا اچھے نام رکھو۔“

اور بخاری و مسلم میں آپ کا فرمان عالیشان ہے کہ “میرے نام پر نام رکھو۔“
اب غمگین ہونے کی وجہ یہ تھی کہ آپ میں سے کسی کا نام بھی ان احادیث کے معیار پر پورا نہیں اترتا سب کے سب غیر اسلامی نام ہیں۔
(اسلامی ناموں کے سلسلے میں مکمل رہنمائی کیلئے اعلٰی حضرت رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تصنیف النور و الضیاء فی احکام بض الاسماء کا ضرور ضرور مطالعہ فرمائیے) مثلاً پرویز، ایک بہت بڑے گستاخ رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا نام تھا، یہ وہ بدبخت تھا کہ جب سرکار صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دعوت اسلام پر مشتمل مکتوب مبارک اس کے پاس پہنچا تو اس نے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے نام مبارک کو غصے میں چاک کرنے کی ناپاک جسارت کی تھی۔

جاوید: دراصل اس میں ہمارا قصور نہیں ہے، ہم نے جن گھرانوں میں آنکھ کھولی ہے، ان میں اسی قسم کے نام رکھ کر فخر کیا جاتا ہے۔ بہرحال آپ نے نشاندہی فرمائی ہے تو واقعی میں تو شرم محسوس کر رہا ہوں، اب آپ ارشاد فرمائی، ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ جیسا فرمائیں گے، ہم ویسے ہی کریں گے۔

احمدرضا: پیارے پیارے اور اچھے اچھے اسلامی بھائیو! ترمذی شریف میں سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا فرمان عالی شان ہے کہ “سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم برے ناموں کو بدل دیتے تھے“ چنانچہ آپ سب بھی اپنا اپنا نام بدل دیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سوال: ہم نے سنا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کل بدعۃ ضلالۃ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے (ابو داؤد) اور بدعت ہر وہ کام ہے جو ہمارے رسول اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد پیدا ہوا اور آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا “کہ میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑ لو (ترمذی۔ ابو داؤد) ان دونوں احادیث کی روشنی میں بارھویں شریف منانا، گمراہی اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ نہ تو سرکار مدینہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں تھی اور نہ ہی یہ، آپ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) کی یا صحابہء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت ہے ؟

احمدرضا: دیکھیں یہاں دو چیزیں ہیں۔

وہ عبادات و اعمال و افعال، جو ان دنوں میں، اظہار خوشی اور حصول برکت کیلئے اختیار کیے جاتے ہیں۔

ان سب کو باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک مخصوص دن اور مخصوص تاریخ میں اللہ تعالٰی اور اس کے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی رضا و خوشنودی کیلئے جمع کر دینا۔

اب ابتداءً پہلی چیز کو لیجئے یعنی وہ افعال جو ان دنوں میں اختیار کئے جاتے ہیں مثلاً

رحمت کونین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل بیان کرنا۔
آپ کی ولادت مبارکہ اور بچپن شریف کے واقعات ذکر کرنا۔
آپ کے معجزات بیان کرنا۔
نعتیہ محافل قائم کرنا۔
ایصال ثواب کیلئے شربت و دودھ پلانا اور کھانا وغیرہ کھلانا۔
قمقموں اور جھنڈوں وغیرہ سے گھر محلہ بازار و مسجد سجانا۔
آپس میں مبارک باد و خوشخبری دینا۔
عیدی تقسیم کرنا۔
بوقت ولادت قیام کرنا۔
روزہ رکھنا۔
جلوس نکالنا۔
تو ان کے بارے میں عرض ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا فعل نہیں کہ جس کی اصل زمانہ نبوی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں موجود نہ ہو یا اسے صحابہء کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی سنت قرار نہ دیا جا سکتا ہو، چنانچہ پہلے میں اس کے بارے میں دلائل عرض کرتا ہوں لیکن یاد رکھئے کہ وقت کی قلت کے باعث یہ تمام دلائل انتہائی اختصار کے ساتھ پیش کروں گا۔

اپنی جہالت پر شرمندہ ہوتے ہوئے ایک انتہائی بنیادی نوعیت کا سوال: ایصال ثواب زندوں کے لئے بھی کیا جاتا ہے یا صرف مردہ افراد کے لئے ہوتا ہے؟
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی آپ کو اتنا کچھ پتا ہےتو آپ کو یہ بھی پتا ہوگاکہ سعود بحری ڈاکو تھا۔۔۔۔۔۔

اس کا کوئی ثبوت ہے یا سینہ با سینہ چلتی ہوئی روایات ہیں۔

آپ ایک کتاب " اتحاد جزیرۃ العرب " پڑھیں۔ لکھنے والے کا نام ڈاکٹر المانع ہے۔ اردو میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بہت عرصہ شاہ سعود کے ساتھ کام کیا، پھر بعد میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے کے شہر الخبر میں اپنا ایک کلینک کھول کر بیٹھ گئے۔ (اس وقت مشرقی صوبے میں ان کے سب سے زیادہ ہسپتال ہیں۔)
 

رضا

معطل
اپنی جہالت پر شرمندہ ہوتے ہوئے ایک انتہائی بنیادی نوعیت کا سوال: ایصال ثواب زندوں کے لئے بھی کیا جاتا ہے یا صرف مردہ افراد کے لئے ہوتا ہے؟

زندوں کو بھی ایڈوانس میں‌کیا جاسکتا ہے۔جیسے اکثر لوگ دعا میں‌اس طرح کہتے ہیں یا اللہ جتنے میں مسلمان حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر قیامت تک ہوں گے اس کا ثواب ان سب کو پہنچے۔تو پتا چلا زندوں کیلئے بھی کرسکتے ہیں اور جو مسلمان ابھی دنیا میں‌آئے نہیں ان کو بھی کیا جاسکتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہر سال عیدالاضحی پہ اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے۔تو یہ ایڈوانس میں‌ایصال ثواب ہی ہوا۔
 
اور یہ رہی روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جالی کی تصویر۔ جہاں یا اللہ اور یا مجید لکھا ہوا صاف نظر آ رہا ہے۔
شمشاد بھائی میرے والد محترم اور نانا ابو اور نانی اماں و دیگر رشتہ دار 1996 میں گئے تھے حج کے فریضہ کے لئے اور جو سوال میں نے کیا ہے وہ بھی ابو نے واپس آ کر جب ان پیاری جگہوں کے پر نور نظارے بیان کئے تو ساتھ میں اس بات کا ذکر بھی کیا اور رہی بات کہ کہاں پہ ہے تو رات کو دوبارہ میں تفصیلی پوچھا تو جو جواب ملا وہ لکھتا ہوں
گنبد حضری صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے تین دروازے مبارک 1۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم، 2۔ حضرت عیسی علیہ السلام، 3۔ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ)،حضرت عمر فاروق(رضی اللہ)
تینوں دروازوں کے کناروں پر ایک طرف یا اللہ لکھا ہوا ہے جبکہ اسی کی سیدھ میں دوسری طرف یا کے نقطے سلامت ہیں یا کا الف سلامت ہے اور محمد (ص) مکمل لکھا ہوا ہے

جتنا میرے علم میں تھا وہ بتا دیا

ٰ
 

رضا

معطل
اس کا کوئی ثبوت ہے یا سینہ با سینہ چلتی ہوئی روایات ہیں۔
شیخ نجدی کے بھائی
شیخ نجدی کے بھائی سلیمان بن عبد الوہاب متوفی 1208 ھ اپنے والد کے مسلک کے حامل تھے اور اسلاف کے معمولات کو عقیدت سے لگائے ہوئے تھے ، ان کا تعارف کراتے ہوئے طنطناوی نے لکھا ہے :
وکان لعبد الوھاب ولد ان محمد و سلیمان اما سلیمان فکان عالما فقیھا ، وقد خلف اباہ فی قضاء حریملۃ وکان لہ ولدان عبد اللہ و عبد العزیز وکانا فی الورع والعبادۃ ایۃ من الایات ۔
( محمد بن عبد الوہاب نجدی مصنف شیخ علی طنطناوی جوہری مصری متوفی 1335 ھ صفحہ 13 )
ترجمہ : شیخ عبدالوہاب کے دو بیٹے تھے محمد اور سلیمان ، شیخ سلیمان بہت بڑے عالم اور فقیہہ تھے اور حریملہ میں اپنے والد کے بعد قاضی مقرر ہوئے ، ان کے دو لڑکے تھے عبد اللہ اور عبد العزیز وہ بھی عالم تھے اور عبادت اور تقوٰی میں اللہ تعالٰی کی آیات میں سے ایک آیت تھے ۔
شیخ سلیمان بن عبد الوہاب تمام زندگی شیخ نجدی سے عقائد کی جنگ لڑتے رہے ۔
(بحوالہ الدررالسنیۃ مصنف سید احمد بن زینی دحلان مکی شافعی متوفی 1304 ھ صفحہ 47 )
انہوں نے شیخ نجدی کے عقائد کے رَد میں ایک انتہائی مفید اور مدلل رسالہ الصواعق الالٰہیہ تصنیف کیا جس کو عوام و خواص میں انتہائی شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی ، موجودہ دور کے نجدی علماء کہتے ہیں کہ شیخ سلیمان نے اخیر عمر میں اپنے عقیدہ سے رجوع کرکے شیخ نجدی سے اتفاق کرلیا تھا لیکن یہ دعوٰی بلا دلیل ہے ، اس دعوٰی کے ثبوت پر نہ کوئی تاریخی شھادت ہے اور نہ شیخ سلیمان رحمۃ اللہ علیہ نے الصواعق الالٰہیہ کے بعد کوئی ایسی کتاب لکھی جس نے الصواعق الالٰہیہ میں مذکور دلائل پر خط نسخ کھینچ دیاہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد عبدالوہاب کا مختصر تعارف
جناب شوکت صدیقی 14 تا 21 مئی 1976ء کے الفتح میں لکھتے ہیں۔ اہلسنت اور وہابیوں کے اختلاف لگ بھگ ڈھائی سو سال پرانے ہیں۔ ان اختلافات کا آغاز تحریک وہابیت سے ہوا جس کے بانی محمد ابن عبدالوہاب نجدی تھے وہ 1703ء میں اعلینہ کے مقام پر پیدا ہوئے انہوں نے ابتدائی تعلیم بصرہ اور مدینہ منورہ میں حاصل کی عربوں نے اس وقت کے مسلم معاشرہ کی اصلاح کے لئے آواز بلند کی اور اتحاد اور اصلاح کے نام پر دل آزاری اور گستاخی کی حد تک سخت تنقید کی اور ان کے پیرو نے مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا محمد ابن عبدالوہاب نجدی نے جوش خطابت میں احادیث کو “خرافات کا پلندہ“ بتایا اپنے رسالوں اور اپنی تصانیف میں اسوہ رسول کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کی اور برملا ایسی باتیں کہیں جن سے تکفیر کی بُو آتی تھی چنانچہ وہ حکام کی خفگی اور عتاب کے مورد بنے انہیں جلاد وطن کر دیا گیا آخر انہیں “داریہ نجد“ کے ہمسایہ حکمران امیر محمد ابن مسعود کے دربار میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ رفتہ رفتہ وہ امیر سعود کی حکومت کے دینی پیشوا اور نگران بن گئے۔ دونوں نے مل کر ترکوں کے خلاف جنگ کی اور 1765ء تک نجد کا ایک بڑا حصہ فتح کر لیا اس سال امیر محمد مسعود کا انتقال ہوا اور ان کا بیٹا عبدالعزیز ان کا جانشین ہوا امیر عبدالعزیز کے عہد میں نظام حکومت براہ راست محمد ابن عبدالوہاب نجدی کی نگرانی میں آگیا 1792ء میں ابن عبدالوہاب کا انتقال ہوا مگر جب تک وہ زندہ رہے نجد کی حکومت اور ان کے حکمران ان کے زیر نگرانی رہے انہوں نے نجد کے لوگوں کو اپنے عقائد میں اس طرح ڈھالا کہ مسلمانوں میں ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جو وہابی کہلایا ابن عبدالوہاب کے انتقال کے بعد بھی وہابیوں کی سلطنت کی توسیع کا سلسلہ جاری رہا حتٰی کہ پورا نجد ان کے قبضے میں آ گیا وہابیوں نے اپنے عقائد کی توسیع و ترویج میں انتہا پسندی سے کام لیا انہوں نے مسلمانوں پر ہر قسم کا ظلم و تشدد ڈھایا حتٰی کہ دیوبند کے ممتاز عالم مولانا حسین احمد مدنی کو بھی جو اپنے عقائد کے اعتبار سے وہابیوں سے قریب نظر آتے تھے وہابیوں کے جورستم کا اعتراف کرتے ہوئے محمد ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کے مقلدین کے بارے میں یہ کہنا پڑا۔
صاحبو ! محمد ابن عبدالوہاب نجدی ابتداً تیرہویں صدی ہجری میں نجد سے ظاہر ہوا اور چونکہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اہلسنت و الجماعت سے قتل و قتال کیا ان کے اموال کو غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اہل عرب کو خصوصاً اہل حجاز کو عموماً اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ چھوڑنا پڑا۔ ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوگئے دراصل وہ ایک ظالم، باغی، خونخوار اور فاسق شخص تھا۔ (الشہاب الثاقب ص 42)
یہ عبارت حسین احمد مدنی کی ہے تو پھر یہی بات حسین احمد مدنی کے کہنے کے باوجود محترم و مقدس رہے آپ کے نزدیک صاحب کمال قرار دئیے گئے اور جب یہی لفظ بلکہ اس سے بھی کمتر ہم کہتے ہیں تو دیوبند کا سارا خانوادہ کیوں برہم اور سیخ پا ہو جاتا ہے۔ (اس کا جواب عوام دیوبندیوں سے لینا چاہئیے۔)
مکہ و مدینہ پر قبضہ
مکہ معظمہ پر قبضہ کے کچھ ہی عرصہ بعد امیر عبدالعزیز کو ایک ایرانی نے قتل کر دیا اور اس کا بیٹا سعود ابن عبدالعزیز اس کا جانشین ہوا۔ 1806ء میں اس نے مکہ اور مدینہ پر جو وہابیوں کے ہاتھوں سے نکل گئے تھے ایک بار پھر ترکوں سے چھین کر قبضہ کرلیا امیر سعود نے اس کے بعد حجاز میں اپنی طاقت مستحکم کی اور وہابیوں کے دائرہ اثر کو شام اور عراق اور خلیج تک وسیع کرنے کی کوشش کی۔ نجدی وہابیوں کو اپنی اس جدوجہد میں جو خلافت عثمانیہ اور عرب ممالک پر تسلط کے خلاف تھی انگریزوں کی پشت پناہی حاصل تھی انگریز اور دوسری یورپی طاقتیں سلطنت عثمانیہ کی یورپی عرب اور افریقی مقبوضات پر عرصہ سے دانت لگانے اور قبضہ کرنے کی سخت کوشش میں تھے کہ ترکوں کو مذہبی خلفشار میں مبتلا کرکے فائدہ اٹھایا جائے وہابیوں نے ان کے اس منصوبے کو کامیاب بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔
وہابیوں نجدیوں کا قبضہ کیسا
تاریخ شاہد ہے کہ نورالدین و صلاح الدین ایوبی رحمہااللہ کے بعد ترکوں نے انگریزوں اور دوسرے دشمنان اسلام ترک کی قوت و طاقت سے لرزہ براندام تھے لیکن ترکوں کو بہر جانب جنگوں میں گھیر رکھا تھا ترک کی انہی دشمنوں میں مصروفیت سے وہابیوں نے فائدہ اٹھا کر حرمین طیبین پر قبضہ کرلیا۔ مگر ترک حکمران جلد ہی وہابیوں اور ان کے پشت پناہ انگریزوں کے بڑھتے ہوئے سیاسی خطرے سے باخبر ہوگئے اور انہوں نے وہابیوں کی سرکوبی کے لئے مصر کے محمد علی پاشا سے مدد مانگی محمد علی پاشا نے 1816ء میں اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کی زیر کمان ایک فوجی مہم وہابیوں کے خلاف روانہ کی اس وقت امیر سعود کا بیٹا ان کے انتقال کے بعد برسر اقتدار آیا تھا 1818ء میں ابراہیم پاشا نے اسے شکست دی اور گرفتار کرکے قسطنطینہ بھیج دیا جہاں اسے قتل کر دیا گیا مصری فوجوں نے وہابیوں کا دارالحکومت لوٹ لیا اور اسے آگ لگادی اس طرح وہابیوں کی سیاسی قوت کا قلع قمع کر دیا گیا۔ مگر پہلی عالمی جنگ کے دوران وہابیوں نے خلافت عثمانیہ کے اقتدار کو حجاز اور دوسرے ممالک سے ختم کرنے کے لئے ایک بار پھر انگریزوں کی امداد و حمایت سے اپنی فہم کا آغاز کیا 1918ء میں ترکوں کی شکست کے بعد وہ دوبارہ برسر اقتدار آگئے مگر ان کی سلطنت آزاد نہ تھی ان کی حیثیت انگریزوں کی نو آبادی سے زیادہ نہ تھی۔
انگریز کی تمنا
“دنیائے اسلام پر دو بڑے کٹھن وقت آئے۔ ایک وہ جب تاتاریوں نے مسلم ممالک کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک روند ڈالا دوسرا جب پہلی عالمی جنگ کے بعد یورپی اقوام نے سارے مسلم ممالک پر تسلط جمالیا تھا اس جنگ میں جرمن اور ترک شکست کھا گئے تھے ان دنوں برطانیہ بہت طاقتور تھا آج امریکہ کو بھی وہ اقتدار حاصل نہیں: برطانوی وزیر اعظم اس بات پر تُلا ہوا تھا کہ ترکی نام کا کوئی ملک روئے زمین پر باقی نہ رہے بظاہر اس کی خواہش کے راستہ میں کوئی رکاوٹ نہ تھی مگر اللہ تعالٰی کی مدد سے اتاترک نے موجودہ ترکی بچا لیا۔ (نوائے وقت 24 جولائی 1989ء )
انگریزوں کا پروردہ
انگریز کی آرزو اور ترکوں کی شکست محمد بن عبدالوہاب کی تحریک وہابیت کا دوسرا نام ہے اور یہ بدبخت انسان ازلی شقاوت سے باپ حضرت مولانا عبدالوہاب رحمہ اللہ تعالٰی کی بد دعاء کا نتیجہ ہے اس کی ابتدائی تحریک میں وہ زندہ تھے اور وہ خود آبائی سنی مسلک تھے آپ کا تمام خاندان اسلاف صالحین کے عقائد و معمولات کے پابند تھے صرف یہی ایک بدبخت انسان نہ صرف ان کے مسلک کے خلاف تھا بلکہ تحریک چلا کر رسوائے زمانہ ہوا بالآخر ایک آپ اس کی شرارت سے تنگ ہوکر اپنے اصل وطن عینیہ کی سکونت ترک کرکے اس علاقہ کے ایک دوسرے شہر حریملا میں سکونت اختیار کر لی تھی کیونکہ عینیہ شیخ (نجدی) کی تحریک کا مرکز بن گیا تھا۔ اور وہ یہاں پر 1153ء میں وفات پاگئے۔ (تاریخ نجد و حجاز ص 26)
نبوی دعاء
علامہ عینی شارح بخاری و علامہ قسطلانی و مُلا علی قاری و دیگر محققین نے زور دار دلائل سے ثابت کیا کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ہر دعا مستجاب ہے اور احادیث مبارکہ شاہد ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو کفار و مشرکین نے شکست وغیرہ کی مجلسیں مشارہ قائم کیں ان میں ابلیس شیخ نجدی کی صورت میں شامل ہوتا آخر اس میں کچھ تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد بن عبدالوہاب نجدی کا اصلی چہرہ
یہ ازلی شقی نجد کے اسی علاقہ میں پیدا ہوا جس علاقہ کا مسیلمۃ الکذاب تھا اور تعلیم بھی ان اساتذہ پر اثر انداز ہوئی جو اب تیمیہ کے عاشق زار تھے یعنی ابن سلیف اور حیات سندھی علی طلنطاوی وہبی نجدی اس کے متعلق لکھتا ہے۔
ان الشیخ کان یغلو فی الانکار علٰی فاعلھا حتی یصل الٰی تکفیرھم و تطبیق الایات التی نزلت فی المشرکین علیھم وقد بنہ محمد الٰی ما یصنع بعض زور اقبر الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقال لہ اترٰی ھٰولاء لان ھؤلاء متبرکاً ھم فیہ وباطل ما کانوا یعملون ویظھی ان ما انکروہ علی ابن عبدالوہاب من تکفیر الناس کان اللہ من آثار ھذا الشیخ الھتدی محمد عبدالوہاب (کی تاریخ از طنطاوی ص 16، 17، تاریخ نجد و حجاز ص 35)
ہمفرے کے اعتراضات
یہ ایک انگریز حکومت کے جاسوس ہمفرے نامی کی آپ بیتی ہے (انگریری زبان میں) اب اردو میں بھی چھپ چکی ہے یہ جاسوس خود لکھتا ہے مجھے ترکوں کے خلاف جاسوسی کے لئے چھوٹی عمر میں بھیجا گیا وہاں مسلمان بن کر قرآن مجید اور اسلامی کتابیں ترکوں کے ایک بڑے معتمد علیہ عالم دین سے پڑھیں ترکوں کے مخالفین کی تاک میں رہا علماء میں محمد بن عبدالوہاب نجدی خوب انسان ملا اس سے دوستی جوڑی اور انگریز سربراہوں سے ملاقاتیں کرائیں انہوں نے اسے خوب تیار کیا اور ہر طرح کی تربیت کے بعد ترکوں کے خلاف استعمال کیا یہاں تک کہ وہ ترکوں کی شکست میں اسی تحریک وہابیت سے کامیاب ہوا گھر کی ایک اور تصدیق ملاحظہ ہو۔
انگلیڈ کی تصدیق
انگلینڈ (برطانیہ) سے شائع ہونے والا ماہنامہ دعوت الحق (اپریل) 1980ء میں ہے کہ حکومت ترکی کے ساتھ پاکستان کا گہرا تعلق رہا ہے 1014ء کی جنگ میں حالانکہ پاکستان نہیں بنا تھا یہ ہندوستان تھا اور برطانیہ کا غلام تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں نے ترکی کا ساتھ دیا۔ یورپ و برطانیہ دونوں نے شریف حسین شاہ حسین جارڈن کے دارا کو بلا کر نجدی وہابی تحریک کی مدد کی ترکوں کو مکہ مدینہ سے نکال کر دم لیا۔ پانچ سو سال تک ترکوں نے تمام یورپ کے عیسائیوں کا مقابلہ کیا جب یورپ والے ترکوں کو فتح نہ کر سکے تو پھر مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا۔ مکہ مدینہ سے ترکوں کو نکالا اور وہابی بن کر ان کی مدد کرائی جب نجدی وہابیوں کی مدد کر چکے تو ترک عرب سے نکل گئے پھر ہندوستان میں نجدی وہابیوں کے خلاف ایک جماعت باندی کہ تم وہابیوں کے خلاف ایک جماعت بنا دی کہ تم وہابیوں کے خلاف بغاوت کرو مرزا غلام احمق قادیانی کو کھڑا کر دیا کہ تم تمام مسلمانوں کے خلاف بغاوت کرو، جنگ لڑو، نبوت کا دعوٰی کرو پوری پوری مدد مرزا قادیانی کی برطانیہ نے فرمائی، آج ترکی حکومت میں لڑائی جھگڑا ہو رہا ہے مارشل لاء لگایا ہوا ہے اس بڑے جھگڑے میں یورپ والوں کا ہاتھ ہے۔
پانچوں انگلیاں گھی میں
سب کو معلوم ہے کہ جس فرقہ کو انگریز بہادر کی سرپرستی نصیب ہوئی وہ عوام کی نظروں میں کتنا ذلیل و حقیر ہو وہ آسمان سے باتیں کرتا ہے اپنے ملک میں دیکھ لیجئے کہ قادیانی، وہابی، دیوبندی فرقے کیسے ترقی پذید ہوئے دور حاضرہ تک یہی کیفیت جاری و ساری ہے کہ جس فرقہ کو امریکہ یا کوئی دشمن ملک و ملت گلے لگا لیتا ہے وہ ملک میں کتنا جلدی چھا جاتا ہے یہی حالت محمد بن عبدالوہاب کی ہے اس کا ایک نام لیوا خود لکھتا ہے۔
شیخ الاسلام (محمد بن عبدالوہاب) کے تجدیدی مساعی کی روشنی میں اب بھی پورے زور و شور کے کام ہو رہا ہے کروڑوں روپیہ صرف کیا جا رہا ہے۔ (تاریخ نجدوحجاز ص52 ازعطار کی تصنیف ص 128 )
طوفان برپا
محمد بن عبدالوہاب انگریز کی نمکخواری میں ترکوں (اہلسنت) کے عقائد و معمولات کو شرک و بدعات کا نشانہ بنایا تو تمام عالم اسلام میں ایک طوفان برپا ہوگیا ہر طرف سے وہابیت پر لعنت لعنت کا غلغلہ سنائی دیا اس کے اپنے خاندان کے علاوہ ہزاروں علماء اسلام نے ہزاروں کی تعداد میں اس کے رَد میں کتابیں، رسالے لکھے لیکن کیا ہو سکتا تھا۔
جسے انگریز رکھے اسے کون چکھے
آج تک انگریز (امریکہ وغیرہ) کی سرپرستی میں جس طرح کا تحفظ نجدی حکومت کو حاصل ہے اسے عالم اسلام کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
خوارج کا دوسرا نام وہابیت
اس کی تفصیل فقیر نے کتاب “ابلیس تا دیوبند“ میں لکھی ہے سردست امام شامی جن کے فتاوٰی ہمارے ملک (ہند و پاک) کے علاوہ ہر اسلامی ملک میں حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں وہ اپنی مشہور زمانہ تصنیف فتاوٰی شامی میں وہابیت اور بانیء وہابیت ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کی ذریت کے متعلق فرماتے ہیں۔
کما وقع فی زماننا فی اتباع عبدالوہاب الذین حرجُو ومن مجد و تقلبوا علی الحرمین وکانوا ینتحلون مذھب الحنایا لکنھوا اعتقدوا انھوا المسلمون وان من خارج اعتقادھم مشرکون فاستباحوا بذالک قتل اھل السنۃ وقتل علماءھم حتی کسراللہ شوکنتھم وخرب بلادھم وظفر مبھم عساکر المسلمین عام ثلث و تلشین وماتین والف۔
جیسے کہ یہ لوگ نجد سے نکلے اور مکہ و مدینہ پر غلبہ کرلیا۔ اپنے آپ کو حنبلی کہلائے لیکن ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف ہم ہی مسلمان ہیں اور جو ہمارے عقائد کے خلاف ہے وہ مشرک ہیں اس لئے کہ انہوں نے اہلسنت و الجماعت کا قتل جائز سمجھا اور علماء اہلسنت کو قتل کیا یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے وہابیوں کی شوکت توڑ دی اور ان کے شہروں کو ویران کردیا اور اسلامی لشکروں کو ان پر فتح دی یہ 1233ھ کا واقعہ ہے۔
غیر مقلدین وہابی
(اپنے منہ میاں مٹھو بن کر یہ حضرات خود کو اہلحدیث بتاتے ہیں حالانکہ در حقیقت یہ لوگ بہت سی احادیث کے منکر ہیں فقیر نے کتاب شتر بے مہار میں لکھ دیا ہے یہ ایسے ہیں جیسے منکرین حدیث خود کو اہل قرآن بتاتے ہیں۔)
اسی خارجی اور خونخوار ظالم وہابی کے پیروکار ہی نہ صرف حرمین طیبین بلکہ پوری نجدی حکومت کی مساجد ادقاف میں امامت و خطابت سر انجام دیتے ہیں غیر مقلد وہابی اصولی لحاظ سے نجدی حکومت مشرک اور بدعتی ہے لیکن چونکہ محمد بن عبدالوہاب اور نجدی حکومت ترکوں سے جب برسر پیکار تھے تو ہند سے انہوں نے دست تعاون بڑھایا اسی لئے وہ یاری بشرط استواری کو نبھا رہے ہیں ورنہ ان کے فتاوٰی و عقائد کی روشنی میں نجدی حکومت مشرک اور بدعتی ہے اس لئے کہ نجدی حکومت مع تحریک وہابیت حنبلی ہیں نہ صرف زبانی جمع خرچ بلکہ اپنے تمام ملک میں عملاً حنبلیت (تقلید) پر زور دیتے ہیں اور ان کے بہت سے عملی امور ایسے ہیں جو بدعات ہی بدعات ہیں اور غیر مقلدین کے نزدیک بڑا مشرک اور بُرا بدعتی ہے۔
فیصلہ حبیب کبریا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم
حدیث شریف میں ہے۔ ان رجلا ام قوما فبصق فی القبلۃ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ینظر قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حین فرغ لا یصلی لکم فاراد بعد ذلک ان یصلی لھم فمتعوہ واخبروہ بقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فذکر ذالک لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعم وحسبت انہ قال انک اذیت اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ (رواہ ابو داؤد ص 76 ج1)
اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ نے روایت کی کہ ایک آدمی نے قوم کو جماعت کرائی اور قبلہ رُخ تھوک دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ جب فارغ ہوا تو آپ نے فرمایا اس کے بعد یہ شخص جماعت نہ کرائے اصحاب مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو منع کردیا اور اس شخص کو بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فیصلے سے متنبہ کردیا اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صورت حال عرض کی آپ نے فرمایا کہ تونے اللہ اور رسول کو اذیت تکلیف پہنچائی ہے۔
فائدہ :۔سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین کے پرسار (عاشق) سے اپیل ہے کہ غور فرمائیں کہ صرف کعبہ مکرمہ کی طرف تھوکنے والے امام (صحابی) کو خود سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امامت سے ہٹا دیا بلکہ وہی امام دوبارہ امامت کی جراءت کرتا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اس کی امامت قبول نہیں کرتے۔ بتائیے اس امام کی نماز کس کھاتے میں جائے گی جو کعبہ کے آقا بلکہ کعبہ کے کعبہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گستاخ ہے اور وہ امام تو کعبہ کی سمت (جو مدینہ طیبہ سے تخمیناً تین سو میل دورہے) کو تھوکتا ہے تو امامت کے لائق نہیں یہاں تو کھلے بندوں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لاعلمی بے اختیار و دیگر بہت بُرے امور کا الزام لگاتا ہے اس کی امامت تم نے کس طرح برداشت کر رکھی ہے کیا بے غیرتی توسر نہیں ہوگی بے غیرت بنو یا غیرت مند اس سے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت میں کمی یا اضافہ نہ ہوگا البتہ یہ فیصلہ ابھی سے کرلیں کہ ایسے بے ادب گستاخ کے پیچھے تیری نماز برباد ہوگئی۔
امام نماز کو قتل کردیا
حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک پیش امام ہمیشہ قراءت جہری میں سورۃ عبس و تولٰی کی تلاوت کرتا۔ مقتدیوں کی شکایت پر اسے طلب کیا گیا اور پوچھا کہ تم ہمیشہ یہی سورۃ تلاوت کیوں کرتے ہو۔ کہنے لگا، “مجھے خط آتا ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالٰی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جھڑکا ہے۔“ اس پر اس کا سَر قلم کر دیا گیا۔
امام اسمٰعیل حنفی حقی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں کہ “حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو پتہ چلا کہ ایک امام ہمیشہ نماز میں اسی سورت (عبس و تولٰی) کی قراءت کرتا ہے تو آپ نے ایک آدمی بھیجا جس نے اس کا سر قلم کر دیا۔ چونکہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرتبہ عالیہ کی تنقیص کے ارادے سے اس کی قراءت کیا کرتا کہ مقتدیوں کے دل میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کم ہو جائے اس لئے نگاہ فاروقی میں وہ مرتد تھا اور مرتد واجب القتل ہوتا ہے۔ (روح البیان سورۃ عبس پ30)
فائدہ :۔ کاش کوئی آج سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسا غیور بادشاہ یا حاکم وقت دُنیا میں پیدا ہوتا کہ ایسے گستاخ بے ادب ائمہ مساجد و مبلغین مُنہ پھٹ اور بے باک قسم کے خطیبوں پر تعزیرات فاروقی جاری فرمائے ورنہ کاغذی سزائیں تو ہم اپنے لیڈروں سے سُن سُن کر مایوس ہو چکے ہیں۔
 

رضا

معطل
inUrduJuly2007.gif
 
رضا بھائی کیا کرتے ہیں یہاں پر کیسے فتوی لگے الٹا مثالیں ہی اسی ملک کی دی جاتی ہیں اور ہم سے مطالبہ کہ دلیل دیں
پانی ہمیشہ نشیب کی طرف جلدی بہتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
آپ نے کہا " آپ کو اتنا کچھ پتا ہےتو آپ کو یہ بھی پتا ہوگاکہ سعود بحری ڈاکو تھا۔۔۔۔۔۔ " جس پر میں کہا کہ اس کا کوئی ثبوت ہے یا سینہ با سینہ چلتی ہوئی روایات ہیں۔

اس پر آپ نے اتنی لمبی چوڑی پوسٹ بھیج دی لیکن اس میں کہیں بھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ سعود بحری ڈاکو تھا۔ خیر یہ آپ کا اپنا طریقہ کار ہے۔

اس دھاگے کا عنوان " عید میلاد النبی کا دن کیسے منایا جائے"، اس پر اراکین نے سیر حاصل بحث کی۔ اب یہ بحث کسی اور طرف جاتی نظر آ رہی ہے۔ پیشتر اس کے کہ یہ بحث کسی اور موضوع پر ہونے لگے، میرے خیال میں اس دھاگے کو مقفل کر دینا چاہیے۔ اگر کسی رکن کو اعتراض ہو تو مجھے ذاتی پیغام بھیج سکتا ہے۔

آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ ہم سبکو قرآن سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ان تمام اراکین کا شکریہ جنہوں نے اس میں حصہ لیا اور ان تمام اراکین کا بھی جنہوں نے اسے پڑھا۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top