عید میلاد النبی کا دن کیسے منایا جائے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

تعبیر

محفلین
مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی تاریخ آپ صلی اللہ الیہ وسلم کی یوم وفات کا بھی ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا ہم مبارک باد کہ سکتے ہیں :confused:
 

زونی

محفلین
مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی تاریخ آپ صلی اللہ الیہ وسلم کی یوم وفات کا بھی ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا ہم مبارک باد کہ سکتے ہیں :confused:




جی یوم وفات بھی ھے لیکن میں نے اکثر علماء سے سنا ھے کہ مبارکباد ہی کہنی چاھیئے کیونکہ اللہ نے آپ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا ھے جس کی خوشی ہر مسلمان کو منانی چاھہیئے:)
 

سارا

محفلین
مجھے ایک بات پوچھنی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہی تاریخ آپ صلی اللہ الیہ وسلم کی یوم وفات کا بھی ہے۔اگر ایسا ہے تو کیا ہم مبارک باد کہ سکتے ہیں :confused:

کچھ سال پہلے تک عید میلاد النبی منانے والے 12 وفات مناتے تھے لیکن پھر کسی نے کہہ دیا کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے اور تم خوشیاں مناتے ہو حلوے پکاتے ہو تو تاریخ اور منانا ویسا ہی رہا لیکن 12 وفات سے نام بدل کر عید میلاد النبی رکھ دیا گیا۔۔۔
 

خرم

محفلین
اور ویسے بھی نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وفات کی بجائے وصال کا لفظ استعمال کرنا بہتر ہوتا ہے کہ اس روز آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے محبوبِ حقیقی سے واصل ہوئے۔ لہٰذا خوشی کا ہی دن ہے۔
 

سارا

محفلین
لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے آج کل لوگ خوشیاں منا رہے ہیں ایسے خوشیاں منانی چاہیے؟ جلسے جلوس نکال کر نعرے لگا کر حلوے پکا کر چندے اکھٹے کر کے؟؟
یا جیسے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آنے کی خوشی منائی؟ ہر پیر کا روزہ رکھ کر؟
 

خرم

محفلین
بہنا خوشی منانے سے تو شریعت منع نہیں کرتی۔ آخر جب نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے تھے تب بھی تو جلوس نکلا اور ترانے پڑھے گئے۔ بس خیال درست رکھنا چاہئے کہ یہ خوشی کیوں منائی جا رہی ہے۔ حلوے پکانا، چندے دینا (خیرات کرنا) یا روزہ رکھنا یہ سب جائز ہیں۔ حدیث شریف ہے کہ آپ کی خوشی کی تقریب آپ کی غم کی تقریب سے مختلف دکھنی چاہئے۔ سو جب تک آپ لہو و لعب میں نہ جاپڑیں خوشی منانے کا ہر طریقہ جائز ہے۔
 

سارا

محفلین
خرم بھائی آپ سے ایک سوال۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے جتنے سال وہ زندہ رہے اپنے جائے پیدائش کو کس طریقے سے منایا؟
 
جشن عید میلاد النبی بہت مبارک۔ یہ اعتراض‌نہیں کہ یہ پہلے ہی طے پایا ہوا ہے کہ عید میلاد النبی منانا خوشی کا باعث ہے۔ نبی کی پیدائش کی سالگرہ کی عید ، تو پھر یہ ایک ہی نبی تک کیوں محدود رکھا جائے؟ باقی انبیاء بھی تو اسلام کے ہی نبی ہیں :) اگر مولانا حضرات کرسمس بھی اسی ذوق و شوق سے منائیں تو کیا بات ہو۔ باقی نبیوں‌کے یوم پیدائش بھی تحقیق کئے جاسکتے ہیں :) ا حق ادا ہوجائے گا کہ مسلمان نبیوں میں فرق نہیں کرتے منائیں تو سب انبیاء کا یوم پیدایش منائیں یا پھر (شاید) کسی کا بھی نہیں :)

[AYAH]2:136[/AYAH]
(مسلمانو) تم کہدو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا ہماری طرف اور جو نازل کیا گیا ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور جو دیا گیا موسٰی کو اور عیسٰی کو اور جو دیا گیا نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے، نہیں تفریق کرتے ہم ان کے درمیان اور ہم اللہ ہی کے فرمانبردار ہیں۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جشن عید میلاد النبی بہت مبارک۔ یہ اعتراض‌نہیں کہ یہ پہلے ہی طے پایا ہوا ہے کہ عید میلاد النبی منانا خوشی کا باعث ہے۔ نبی کی پیدائش کی سالگرہ کی عید ، تو پھر یہ ایک ہی نبی تک کیوں محدود رکھا جائے؟ باقی انبیاء بھی تو اسلام کے ہی نبی ہیں :) اگر مولانا حضرات کرسمس بھی اسی ذوق و شوق سے منائیں تو کیا بات ہو۔ باقی نبیوں‌کے یوم پیدائش بھی تحقیق کئے جاسکتے ہیں :) ا حق ادا ہوجائے گا کہ مسلمان نبیوں میں فرق نہیں کرتے منائیں تو سب انبیاء کا یوم پیدایش منائیں یا پھر (شاید) کسی کا بھی نہیں :)

[AYAH]2:136[/AYAH]
(مسلمانو) تم کہدو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا ہماری طرف اور جو نازل کیا گیا ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب پر اور اس کی اولاد پر اور جو دیا گیا موسٰی کو اور عیسٰی کو اور جو دیا گیا نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے، نہیں تفریق کرتے ہم ان کے درمیان اور ہم اللہ ہی کے فرمانبردار ہیں۔

آپ ہر جگہ اختلاف ہی پیدا کرتے ہیں
کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے کیا آپ انتشار پھیلا کر خوش ہوتے ہیں

میرے مطابق عید میلادالنبی منانا چاہے اور خوب خوشی کرنی چاہے
تیرا کھاوا میں تیرے گیت گاوا یا رسول اللہ
تیرا میلاد میں کیوں نا مناوا یا رسول اللہ
 
آپ ہر جگہ اختلاف ہی پیدا کرتے ہیں
کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے کیا آپ انتشار پھیلا کر خوش ہوتے ہیں

میرے مطابق عید میلادالنبی منانا چاہے اور خوب خوشی کرنی چاہے

خوشی منانے سے کون روک رہا ہے؟ مزید خوشی منانے کے لئے کہہ رہا ہوں۔۔ عید میلاد العیسوی اور عید میلاد االموسوی اور دیگر انبیاء‌ کا یوم پیدایش پر بھی یہی خوشی منانی چاہئیے صاحب کہ نہیں ؟
بائی دی وے، اپنے کچھ کھانے پینے کی بات کی ، یہ کھاوا کس کا کھاوا ہے؟ جناب اللہ کا دیا کھاتے ہیں‌ یا اللہ کے بندے کا دیا "کھاوا" ہیں؟

لگتا ہے لوگ آج بھی کرشنا پوجا کو مس کررہے ہیں۔
[ame]http://www.youtube.com/watch?v=Yvh4El4buBE[/ame]
 
خوشی منانے سے کون روک رہا ہے؟ مزید خوشی منانے کے لئے کہہ رہا ہوں۔۔ عید میلاد العیسوی اور عید میلاد النبی الموسوی پر بھی یہی خوشی منانی چاہئیے صاحب کہ نہیں ؟
فتنہ ڈالنے کے لئئے ہر اک بات کو آگئے نہ بڑھایا کریں اب اک دن بعد 23 مارچ ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا اور 23 مارچ کو پاکستان کے علاوہ کوئی اور کیوں نہیں مناتا ۔
رہی بات دیگر انبیائے کرام کی یوم ولادت منانے کی تو اگر وہ منانی شروع کر دیں تو ابھی تو ان دن منایا جاتا ہے اسی پر مخالفین پورا سال آرام سے نہیں رہ سکتے اور جب سب کے دن منائے جانا شروع ہو گے تو پھر کیا ہو گااور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یوم ولادت پر آپ کا اعتراض یہ یوم عیسی اور یوم موسی کیوں نہیں منایا جاتا تو جناب برحق دین اسلام ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عطا کردہ ہے نہ کہ عیسائی مذہب عطا کردہ ہے اور آپ کو اپنےعلم پر دعوی تو بہت بڑا ہے کیا بتا سکتے ہیں کہ مشہور انبیائے کرام علیہ السلام کی یوم ولادت کس کس تاریخ کو ہے ؟؟؟؟
 

ساجداقبال

محفلین
ارے ارے ایسے مواقع پر لڑائیاں نہیں کرتے۔ بس فاروق بھائی کو ذرا چڑ ہے مولویوں سے۔ ۔ ۔ امریکی مولوی ;)
نبیوں‌کے یوم پیدائش بھی تحقیق کئے جاسکتے ہیں ا حق ادا ہوجائے گا کہ مسلمان نبیوں میں فرق نہیں کرتے منائیں تو سب انبیاء کا یوم پیدایش منائیں یا پھر (شاید) کسی کا بھی نہیں
جہانتک مجھے علم ہے نبیوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہے۔ اگر سب کی یوم ولادت منائی جائے تو ہمیں سال کے کتنے دن ، بلکہ دن میں کتنوں کی ”وقت پیدائش“ منانی ہوگی؟ :grin:
 

سارہ خان

محفلین
آپ ہر جگہ اختلاف ہی پیدا کرتے ہیں
کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں اس کی کیا وجہ ہے کیا آپ انتشار پھیلا کر خوش ہوتے ہیں

میرے مطابق عید میلادالنبی منانا چاہے اور خوب خوشی کرنی چاہے
تیرا کھاوا میں تیرے گیت گاوا یا رسول اللہ
تیرا میلاد میں کیوں نا مناوا یا رسول اللہ


میرا نہیں خیال کہ فاروق سرور انتشار پھیلا رہے ہیں ۔۔ یہاں پر کوئی اپنمی رائے کسی پر زبردستی تھوپ نہیں رہا ہے ۔۔ اگر آپ کا ایمان اور عقیدہ مضبوط ہے تو کوئی بھی آپ کے ذہن کو منتشر نہیں کر سکتا ۔۔ اگر کسی کو کسی کی رائے سے اختلاف ہے تو اس کو برا بھلا کہنے کے بجائے براہ مہربانی مہذب طریقے اس پر تنقید کر سکتے ہیں یا اپنی دلیلوں سے اس کو غلط ثابت کر سکتے ہیں ۔۔ ورنہ بحث لڑائی کی صورت اختیار کر جاتی ہے ۔۔ اور یہ بالکل اچھی بات نہیں ۔۔
 

سارہ خان

محفلین
12ربیع الاول ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن اور بلا شبہ بہت افضل دن ہے اور میرا ذاتی خیال ہے کہ اس دن مبارک باد دینی چاہیئے اور جیسے کہ خرم بھائی نے کہا کہ ہم لوگ حلوے پکا کر عبادت اور خیرات کر کے اس دن کو منانا چاہئے ۔۔
لیکں آجکل جو لوگ اتنی بڑی بڑی تقریبات منعقد کر کے اس دن کو مناتے ہیں پروفیشنل میلاد پڑھنے والے بڑی بڑی رقمیں لے کر میلاد پڑھتے ہیں ۔۔ خیرات کے نام پر ہزاروں اپنے جیسے صاحب حیثیت لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے ( جبکہ خیرات تو اس طرح کرنی چاہئے کہ دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے۔۔ اگر ہم اتنی رقم سے کسی غریب کا بھلا کریں تو کیا زیادہ اچھا نہیں ہے ؟ )۔۔ یا جلوس وغیرہ نکالے جاتے ہیں ۔۔ کیا یہ سب ٹھیک ہے ؟

کیا ہمیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین ، تابعین یا تبا تابعین کے ادوار میں اس طرح عید میلادالنبی منانے کی کوئی روایت ملتی ہے ؟
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح محبت کا حق تو تب ادا ہو سکتا ہے جب ہم اپنی زندگیوں کو سیرت نبوی کے مطابق گزاریں ۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ۔۔ اللہ پاک ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں بات خوشی منانے یا نہ منانے کی سرے سے ہی غلط ہے، خوشی کیوں نہیں منانی چاہیئے، آخر وہ لوگ جو میلاد النبی کی خوشی منانے کو غلط جانتے ہیں وہ بھی تو اپنے بچوں کی سالگرہ کی خوشی مناتے ہونگے یا اپنے والدین کی سالگرہ منا کر ان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہونگے، یہ تو ایک انتہائی فطری چیز ہے اور جذبات انسان کے خمیر میں شامل ہیں، ان سے کون اور کیسے کوئی انکار کر سکتا ہے۔

اصل سوال خوشی منانے کے طریقہ کار پر ہے، مثلاً پچھلے دو دنوں میں خصوصاً اور پچھلے بارہ دنوں میں عموماً پاکستان میں کروڑوں روپے کے جھنڈے اور جھنڈیاں ہوا میں لہرا دی گئیں، کروڑوں روپے کی بجلی استعمال کی گئی، پلاؤ اور متنجن کی دیگیں پکار انہی لوگوں کو کھلا دی گئیں جو پہلے ہی سے ماشاءاللہ "کھاتے پیتے" گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یوں گویا کروڑ ہا اور ارب ہا روپوں کے وسائل ہوا میں تحلیل ہو گئے۔

کیا ہی اچھا ہوتا اگر یہ سارا روپیہ، حضور پاک (ص) کے نام پر، خوشی خوشی، غرباء میں بانٹ دیا جاتا، کسی اسکول، ہسپتال یا رفاحی ادارے کی نذر کر دیا جاتا۔ کسی کی جان بچ جاتی، کوئی بچہ تعلیم پا جاتا، کوئی 'کفر کی حدوں تک پہنچا ہوا' غریب، اپنا پیٹ بھر لیتا اور خدا کا شکر کرتا، اور آپ کی اس دریا دلی پر اتنے آنسو بہاتا کہ اسکے شکرانے کے آنسو دیکھ کر ہمارے پتھر دل اور پتھر آنکھیں بھی پانی پانی ہو جاتیں۔ میں ان بھک منگوں، پیشہ ور، بے شرم اور رذیل افراد اور اداروں کی بات نہیں کر رہا جن کو میں بھی جانتا ہوں اور آپ بھی بلکہ ان سفید پوش لوگوں کی بات کر رہا ہوں جو اپنی مجبوریوں کا ذکر اپنے گھر کی دیواروں سے کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں، اور طویل اور پچیدہ بیماریوں میں مبتلا ہو کر چپکے سے دنیا سے یوں گزر جاتے ہیں جیسے کوئی انسان نہیں مرا کوئی مکھی مچھر مر گیا ہو۔

خدا کی قسم، رسول (ص) کی قسم، ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کی قسم اور ان بچوں اور والدین کی قسم جن کی سالگرہیں منائی جاتی ہیں، اس دنیا میں بہت غربت ہے، بھوک ہے، قحط ہے، بیماری ہے، افلاس ہے ناداری ہے، بیکاری ہے، خواری ہے اور اس کو ختم کرنے کی کیا کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے یا فقط خواہ مخواہ کی منہ ماری ہے۔
 

رضا

معطل
جلوس محمدی کا مسئلہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت با سعادت دو شنبہ کے روز ہوئی۔ دو شنبہ ہی کو آپ کی بعثت و ہجرت ہوئی اور وصال مبارک بھی دو شنبہ ہی کو ہوا۔ ابو قتادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں۔ دو شنبہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں ایک شخص نےرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا! اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔ (صحیح مسلم)
بارہ ربیع الاول کو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم اس خاکدان عالم میں جلوہ گر ہوئے۔ سیرت نبوی کے سب سے قدیم و مستند تاریخ نگاہ محمد بن اسحٰق یسار (ولادت 85ھ۔ وصال 150ھ) نے یہی دن اور یہی تاریخ لکھی ہے۔ طبری و ابن خلدون جیسے مؤرخین نے بھی یہی لکھا ہے۔ سیرت کی مقبول کتاب الموھب اللدنیہ کے مؤلف علامہ احمد بن محمد قسطلانی (ولادت 851ھ۔ وصال 923ھ) یہی دن اور تاریخ لکھنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان رائج ایک مستحسن طریقہ کا ذکر اس طرح کرتے ہیں۔

(ترجمہ) رسول کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی ولادت طیبہ کے مہینہ میں اہل اسلام محافل و تقریبات منعقد کرتے رہتے ہیں۔ دعوتوں کا اہتمام اور شب ولادت میں صدقات و خیرات ان کا معمول ہے۔ اظہار فرح و سرور کرتے ہیں۔ خوب نیکیاں کرتے ہیں۔ ولادت طیبہ کے احوال و واقعات پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ جس سے ان پر بڑی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ (المواہب)

حجاز مقدس، یمن، عراق، شام، مصر، لیبیا، ترکی، افغانستان، سمر قند و بخار اور دیگر بلاد اسلامیہ میں قدیم روایات کے طرز پر آج بھی محافل ذکر ولادت کا انعقاد ہوتا ہے۔ جن میں ولادت رسول، فضائل رسول، سیرت رسول، دعوت رسول، کا بیان ہوتا ہے۔ اور مسلمان ذوق و شوق کے ساتھ انھیں سنتے سناتے ہیں۔ اظہار مسرت اور اداء شکر نعمت کے لئے صدقات و خیرات کرتے ہیں۔ اور یہ ساری چیزیں کتاب و سنت کی روشنی میں نہ صرف جائز بلہ محمود و مستحسن ہیں۔ دین میں ان کی اصل اور حکم ہے۔ اور ہر دور کے لحاظ سے اہل اسلام یہ امور خیر انجام دیتے رہتے ہیں۔ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے شکل وہئیت کی تبدیلی سے اصل حکم پر کوئی اثر اور فرق واقع نہیں ہوتا۔

جس حادث و جدید چیز کا سنت و شریعت کے کسی حکم اور کسی اصل سے تصادم ہو اسے اصطلاح شریعت میں بدعت کہا جاتا ہے۔ یہ بدعت کبھی اعتقادی ہوتی ہے اور کبھی عملی ہوتی ہے۔ جیسے خاتمیت نبوت محمدی کے مسلمہ عقیدہ میں تاویل، افضلیت و خلافت ابو بکر و عمر کا انکار، خلق قرآن، اور قدم عالم کا نظریہ، تجسیم و تشبیہ و امکان کذب باری تعالٰی کا اعتقاد، علوم و صفات رسول علیہ السلام کی تنقیص، طریقت کے نام پر احکام شریعت کا استخفاف، غیراللہ کے لئے سجدہ تعظیمی کا جواز، تقریبات میں اسراف و تبذیر، فرائض و واجبات سے غفلت اور مباحات و مندوبات میں انہماک وغیرہ وغیرہ۔

مبادی و معتقدات اسلام نہایت جامع و کامل و مکمل ہیں۔ ان میں کسی ترمیم و تغیر اور حذف و اضافہ کی گنجائش نہیں۔ کتاب و سنت و کتب دینیہ میں اعتقادی و عملی احکام اسلام اجمالاً و تفصیلاً مسطور و مذکور ہیں۔ فقہ اسلامی کے اصول و ضوابط اور مسائل و جزئیات صدیوں پہلے مدون و مرتب ہو چکے ہیں۔ اور سارا عالم اسلام ان سے واقف اور ان پر عامل ہے۔ سنت و شریعت سے انحراف اور ان میں کسی قسم کی آمیزش بدعت ضلالت ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس میں اہل حق کا ذرا بھی اختتلاف اور ان کے درمیان کہیں بھی دو رائے نہیں۔ سنت رسول و سنت خلفاء راشدین کی اتباع کا یہی مطلب ہے اور سنت و شریعت کا یہی مطلوب و مقصود ہے۔ جسے ہر لمحہ پیش نظر رکھنا ہر مسلمان کے اوپر لازم ہے۔

عہدرسالت مآب صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد جو بھی نئی چیز عالم ظہور میں آئے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار یہ ہے کہ سنت و شریعت کی اصل اور ان کے دائرہ میں ہو اور کسی اصل و حکم کے معارض و متصادم نہ ہو تو جائز ہے ورنہ ناجائز ہے۔ بدعات و محدثات امور کے قبول و انکار کا یہی ضابطہ اور معیار علماء اسلام و محدثین کرام سے بتصریح ثابت ہے۔ اسی کے مطابق مسلمانان عالم کا عمل بھی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں۔ جس چیز کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔

بدعت یعنی نئی چیز ناجائز وہی ہے جو سنت و شریعت کے حکم اور کسی اصل کے خلاف ہے۔ قدیم و مستند محدثین و فقہاء و علماء اسلام مثلاً علامہ ابن حجر عسقلانی، علامہ بدرالدین عینی، علامہ قسطلانی، امام نووی شافعی، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ زرقانی، علامہ ابن عابدین شامی وغیرہ ہم نے یہی تحریر فرمایا ہے۔

علامہ جلال الدین سیوطی شافعی حدیث کل بدعۃ ضلالۃ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ (ترجمہ) اس سے ایسی نئی باتیں مراد ہیں جن کی صحت کی شہادت شریعت سے نہ مل سکے۔ (ص234۔ جلد2، حاشیہ سیوطی سنن نسائی)

خود مؤلف نیل الاوطار محمد بن علی شوکانی حضرت امام شافعی کا یہ قول نقل کرتے ہیں۔ (ترجمہ) نئی چیزیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو کتاب یا سنت یا اثر یا اجماع کے خلاف ہو۔ اور یہی بدعت ضلالت ہے۔ اور دوسری وہ جس کی ایجاد میں کوئی خیر ہو۔ اس کے بارے میں امت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور یہ بدعت مذمومہ نہیں ہے۔ (ص33۔ القول المفید)

بہت نئی چیزیں ایجاد مستحسن کے حکم میں ہیں۔ عہد رسالت و عہد رسالت و عہد صدیقی میں باجماعت نماز تراویح کا معمول نہیں تھا۔ عمر فاروق کے دور میں ہوا جسے دیکھ کر آپ نے فرمایا نعمت البدعۃ ھذہ یہ کتنی اچھی بدعت (نئی چیز) ہے۔ حضرت علی مرتضٰی کے حکم سے ابوالاسود دئلی نے عربی گرامر یعنی نحو کے قواعد وضع کئے۔ جس کا جاننا آج عربی و عجمی ہر ایک کے لئے ضروری ہے۔ حجاج بن یوسف ثقفی کے حکم سے قرآن حکیم پر اعراب (زیر، زبر، پیش) لگایا گیا۔ آج اس اعراب کے بغیر قرآن حکیم چھپنے چھپانے کا تصور بھی نہیں ہے۔

ایمان مجمل، ایمان مفصل، چھ کلمے اور ان کی ترتیب، قرآن میں رکوع کی نشاندہی، تیس پاروں میں اس کی طباعت، رحل پر رکھ کر اسے پڑھنا ان چیزوں کا عہدرسالت و عہد صحابہ میں کوئی ذکر بھی نہ تھا۔

احادیث نبوی کی سند، ان پر جرح و تعدیل، صحیح و حسن و ضعیف وغیرہ کی تقسیم، سب نئی چیزیں ہیں۔ اصول حدیث کے قواعد و ضوابط نئے ہیں۔ فقہ اسلامی کے اصول، اس کی تدوین سب نئی چیزیں ہیں۔ اسی طرح قرآن فہمی کے لئے وضع کردہ تفسیر بھی نیا فن ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جس کا مذہب اور علوم اسلامیہ سے تعلق ہے۔ ان نئے علوم و فنون اور امور دنیاوی کا شمار مشکل ہے جن کے جائز ہونے پر ساری دنیا متفق ہے۔

ایک نئی چئز محفل ولادت نبوی کا انعقاد بھی ہے۔ جس کی اصل ذکررسول ہے۔ اور یہ اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے۔ قدیم و جدید علماء عرب کے علاوہ علماء ہند میں دہلی کے شاہ عبدالحق محدث دہلوی، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، شاہ ابو سعید مجددی دہلوی، شاہ ابوالخیر مجددی دہلوی وغیرہم اور سہار نپور کے حاجی امداد اللہ مہاجرمکی، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، مولانا رحمت اللہ کیرانوی، مولانا عبدالسمیع بیدل سہارنپوری، حاجی عابد حسین قادری بانی مدرسہ اسلامی عربی دیوبند، (موجودہ دارلعلوم دیوبند) وغیرہم جس کے جواز و اتحسان کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کے عامل بھی رہے ہیں۔ ان حضرات کی تحریرات و تصدیقات اس پر شاہد عدل ہیں۔ لیکن آج محافل میلاد کو بدعت کہا جا رہا ہے۔ اور سہارنپور کے جلوس محمدی کو بزورطاقت روکا جا رہا ہے۔

عہد رسالت و عہد صحابہ میں عصر حاضر جیسی عظیم الشان ومزین مساجد نہیں تھیں، عمارت اور نصاب تعلیم کے ساتھ دارالعلوم نہیں تھے۔ آج جیسے جلسہ و جلوس کا کوئی رواج نہیں تھا۔ سمینار اور کانفرنسیں نہیں ہوتی تھیں۔ مدارس سے تکمیل علوم کے بعد سند نہیں دی جاتی اور دستار بندی بھی نہیں ہوتی تھی۔ مگر ان میں سے کوئی چیز مسلمانوں کی نظر میں معیوب و مذموم نہیں، بدعت کہہ کر انھیں کوئی چھوڑنے کو تیار نہیں۔

1950ء کی دہائی میں جماعت اسلامی پاکستان نے تزک و احتشام کے ساتھ غلاف کعبہ تیار کراکے جلوس کی شکل میں شہر شہر گھمایا اور مکہ مکرمہ بھیجا۔ اخبارات میں خوب چرچا ہوا۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو بدعت ہے۔ مولانا ابوالاعلٰی مودودی نے اس کا تحریری جواب دیا کہ بدعت نہیں ہے اس میں کوئی چیز مزاج شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جماعت اہل حدیث کے علماء اپنی مذہبی شناخت کے لئے سلفی اور اثری لکھتے ہیں۔ موجودہ ائمہ حرمین شریفین کے دورہء ہند و پاک کے وقت سلفی علماء پروپیگنڈہ کرکے دور دور سے نمازیوں کو شدر حال کراکے ان کے پیچھے نمازیں پڑھواتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ دہلی سے سہارنپور کے مشہور مدارس ختم بخاری کے جلسے کراتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کے سہ روزہ و چالیس روزہ چلے اور گشت ہوتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ نماز عصر کے بعد بالالتزام تبلیغی نصاب و فضائل اعمال کا درس ہوتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ دیوبند کا صد سالہ جشن منایا جاتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ ندوہ کا پچاسی سالہ جشن منایا جاتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔

علماء دیوبند سیرۃ النبی کے جلسے اور کانفرنسیں کرتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ اپنے علماء پر سمینار کراتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ جمعیۃ العلماء ہند کے جلسے اور کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ بھوپال (انڈیا) رائے ونڈ (پاکستان) ڈھاکہ (بنگلہ دیش) میں سالانہ تبلیغی اجماعات ہوتے ہیں۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ جمعیۃ العلماء کی قیادت میں کانپور میں ہر سال جلوس میلادالنبی نکلتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔ مشہور دیوبندی عالم مولانا عبدالعلیم فاروقی کی قیادت میں لکھنئو میں جلوس مدح صحابہ نکلتا ہے۔ یہ بھی بدعت نہیں ہے۔

اگر بدعت ہے تو بارہ ربیع الاول کا جلوس محمدی! کیونکہ اس سے ایک جماعت کی بالادستی اور انا مجروح ہوتی ہے اور میلاد النبی کی محفلیں بھی بدعت ہیں تو صرف اس لئے کہ اس کے مفادات کو ضرب پہنچتی ہے۔ کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ؟
 

رضا

معطل
خرم بھائی آپ سے ایک سوال۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے جتنے سال وہ زندہ رہے اپنے جائے پیدائش کو کس طریقے سے منایا؟
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیر شریف (سوموار) کا روزہ رکھنے کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا : فیہ ولدت وفیہ انزل علیہ ۔ یعنی اسی دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل کیا گیا۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 179 ) اس فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور یوم نزول قرآن کی اہمیت اور اس دن کی یادگار منانا اور شکر نعمت کے طور پر روزہ رکھنا ثابت ہوا جیسے ہفتہ وار دنوں کے حساب سے یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی یادگار اہمیت ہے ویسے ہی سالانہ تاریخ کے حساب سے بھی یوم ولادت و یوم نزول قرآن کی اہمیت و امت میں مقبولیت ہے ، جس طرح نزول قرآن کا دن پیر 27 رمضان المبارک کو سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ، اسی طرح یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دن پیر 12 ربیع الاوّل میں ہونے کے باعث اہل اسلام میں ماہ ربیع الاوّل و 12 ربیع الاوّل کی سالانہ یادگار منائی جاتی ہے ۔ بلکہ امام احمد بن محمد قسطلانی شارح بخاری اور شیخ محقق علامہ عبد الحق محدّث دہلوی شارح مشکوٰۃ ( رحمۃ اللہ علیہما ) جیسے محدثین نے نقل فرمایا کہ امام احمد بن حنبل جیسے امام واکابر علماءامت نے تصریح کی ہے کہ شب میلاد شب قدر سے افضل ہے ۔ نیز فرمایا جب آدم علیہ السلام کی پیدائش کے دن جمعۃ المبارک میں مقبولیت کی ایک خاص ساعت ہے تو سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی میلاد کی ساعت کے متعلق تیرا کیا خیال ہے ۔( اس کی شان کا کیا عالم ہوگا)۔(زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ135.136 ۔ مدارج النبوت جلد 2 صفحہ 13 ) اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی کیا خوب ترجمانی کی ۔
[frame="1 80"]جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام[/frame]
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وَاِن تعدو نِعمَۃَ اللّٰہ ِ لَا تَحصُو ھَا۔

اور اگر اللہ کی نعمتوں کو گنو تو شما ر نہ کرسکوگے ۔ پارہ نمبر 12 رکوع نمبر 17

بے شک اللہ تعالیٰ کی نعمتیں لاتعداد اور بے حساب اور حد شمار سے باہر ہیں ، مگر ان سب نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت بلکہ تمام نعمتوں کی جان ، جان ِ جہان و جانِ ایمان حضور پر نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات ہے ، جن کے طفیل باقی سب نعمت و انعامات ہیں ، اعلیٰ حضرت مجددّ دین و ملت مولانا امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے فرمایا :۔

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

اس لئے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑھ کر ، سب سے زیادہ اور بہت ہی اہتمام و تاکید کے ساتھ آپ کی ذات بابرکات کے بھیجنے کا احسان ظاہر فرمایا ۔ لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیھم رسولا من انفسھم ۔ بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا ، مسلمانوں پر کہ ان میں انہی سے ایک رسول بھیجا ۔ (پ 14 ، رکوع 8 ) چونکہ ایمانداروں پر سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑا احسان ظاہر فرمایا ہے ، اس لئے اہل ایمان اس کی سب سے بڑھ کر قدرو منزلت جانتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ شکر ادا کرتے ہیں اور جس ماہ یوم میں اس احسان و نور و نعمت کا ظہور ہوا ، اس میں اس کا بالخصوص چرچا و مظاہرہ کرتے ہیں، اس لئے کہ مولیٰ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجا اپنی نعمتوں کی تذکیر تشکر اور ذکر اذکار کا حکم فرمایا ہے ، خاص طور پر سورۃ الضحیٰ میں ارشاد ہوا ہے ۔ واما بنعمۃ ربک فحدث ۔ ( اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔پ 30 رکوع 18 ۔) پھر بطور خاص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے نعم اللہ ہونے کا بیان اور ناشکری و ناقدری کرنے والے بے دینوں کا رد فرمایا ۔ الم تر الی الذین بدلو انعمۃ اللہ کفراََ۔ ( کیا تم نے انہیں نہ دیکھا ، جنہوں نے اللہ کی نعمت نا شکری سے بدل دی ۔ پ 13 رکوع 17 ۔) بخاری شریف و دیگر تفاسیر میں سید المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس و حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ :: کہ ناشکری کرنے والے کفار ہیں ۔ ومحمدنعمۃ اللّٰہ ۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں ( بخاری شریف جز ثالث صفحہ 6 ) جب اللہ کے فرمان اور قرآن سے ثابت ہوگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص نعمت ہیں جس پر اللہ نے اپنے خاص احسان کا ذکر فرمایا اور پھر نعمت کا چرچا کرنے کا بھی حکم دیا تو اب کون مسلمان و اہل ایمان ہے جو آپ کی ذات بابرکات ، نور کے ظہور اور دنیا میں جلوہ گری و تشریف آوری کی خوشی نہ منائے ، شکر ادا نہ کرے اور سب سے بڑی نعمت کا سب سے بڑھ کر چرچا و مظاہرہ پسند نہ کرے اور نعمت عظمٰی کے خصوصی شکرانہ اور چرچا و مظاہرہ کے لئے جشن عید میلا النبی صلی اللہ علیہ وسلم مولود شریف اور یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس مبارک پر برا منائے اور زبان طعن دراز کرے ۔ مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خاں مرحوم نے کیا خوب فرمایا ہے :۔
[frame="7 80"]حبیب حق ہیں خدا کی نعمت بنعمۃ ربک فحدث
یہ فرمان مولٰی پر عمل ہے جو بزم مولد سجارہے ہیں [/frame]
رحمت کے خوشی :۔
قرآن ہی میں یہ بھی بیان ہے کہ ( تم فرماؤ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر چاہیے ، کہ خوشی کریں ، وہ ان کی سب دھن دولت سے بہتر ہے )۔ پ 11 رکوع 11 ۔جس طرح اوپر نعمت کا چرچا کرنے کا ذکر ہوا ہے ، اسی طرح یہاں فضل و رحمت پر خوشی منانے کا بیان ہے اور کون مسلمان نہیں جانتا کہ اللہ کا سب سے بڑا فضل اور سب سے بڑی رحمت بلکہ جانِ رحمت اور رحمۃ اللعالمین (پ17 رکوع 7 ) آپ کی ذاتِ بابرکات ہے یہاں فضل و رحمت سے اگر کوئی بھی چیز مراد لی جائے تو یقینا وہ بھی آپ ہی کا صدقہ وسیلہ اور طفیل ہے ، لہذا آپ بہر صورت بدرجہ اولیٰ فضل الہٰی و رحمت خداوندی اور نعمۃ اللہ ہونے کا مصداق کامل ہیں ، کیونکہ دونوں جہان میں آپ کا ہی سب فیضان ہے اور آپ کی خوشی منانا ، چرچا و مظاہرہ کرنا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان و فرمان خداوندی کے تحت و اس کے مطابق ہے ، نہ کہ معاذ اللہ اس کے مخالف و منکر اور شرک و بدعات ۔
خدا کا شکر نعمت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت ہے
یہ دونوں کی اطاعت ہے قیام محفل مولد
حصول فیض و رحمت ہے نزول خیر و برکت ہے
حصول عشق حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے قیام محفل مولد
نہ اس میں رفع سنت ہے نہ شرک و کفر بدعت ہے
یہ رد شرک و بدعت ہے قیام محفل مولد​
 

رضا

معطل
12 ربیع الاول پر اجما ع امت :۔

امام قسطلانی ، علا مہ زرقانی ، علامہ محمد بن عابدین شاکی کے بھتیجے علامہ احمد بن عبد الغنی دمشقی ، علامہ یوسف نہبانی اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم نے تصریح فرمائی کہ امام المغازی محمد بن اسحاق وغیرہ علماءکی تحقیق ہے کہ یوم میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے ۔ علامہ ابن کثیر نے کہا یہی جمہور سے مشہور ہے اور علامہ ابن جوزی اور علامہ ابن جزار نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ اس لئےکہ سلف و خلف کا تمام شہروں میں 12 ربیع الاول کے عمل پر اتفاق ہے ۔ بالخصوص اہل مکہ اسی موقع پر جائے ولادت باسعادت پر جمع ہوتے اور اس کی زیارت کرتے ہیں ۔ ملخصاََ (زرقانی شرح مواہب جلد 1 صفحہ 132 ۔ جواہر البحار جلد 3 صفحہ 1147 ۔ماثبت من السنۃ صفحہ 57 ۔ مدارج النبوت صفحہ 14)

واقعہءابولہب : ۔

جلیل القدر آئمہ محدثین نے نقل کیا ہے کہ ابولہب نے اپنی لونڈی ثوبیہ سے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشخبری سن کر اسے آزاد کردیا ، جس کے صلہ میں بروز پیر اس کے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے اور انگلی سے پانی چوسنا میسر آتا ہے ، جب کافر کا یہ حال ہے تو عاشق صادق مومن کے لئے میلاد شریف کی کتنی برکات ہوں گی ؟ ( بخاری جلد 3 صفحہ 243 ، مع شرح زرقانی صفحہ 139 ماثبت بالسنہ صفحہ 60 )

دوسروں کی زبان سے :۔

( ہفت روزہ اہلحدیث) لاہور۔27 مارچ 1981 ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے ۔: ملک میں حقیقی اسلامی تقریبات کی طرح یہ بھی (عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اسلامی تقریب ہی شمارہوتی ہے اور اس امر واقعہ سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب ہر برس ہی 12 ربیع الاول کو اس تقریب کے اجلال و احترام میں سرکاری طور پر ملک بھر میں تعطیل عام ہوتی ہے اور آپ اگر سرکاری ملازم ہیں تو اپنے منہ سے اس کو ہزار بار بدعت کہنے کے باوجود آ پ بھی یہ چھٹی مناتے ہیں اور آئندہ بھی یہ جب تک یہاں چلتی ہے آپ اپنی تمام تر (اہلحدیثیت ) کے باوجود یہ چھٹی مناتے رہیں گے ۔۔۔۔ خواہ کوئی ہزار منہ بنائے دس ہزار بار ناراض ہوکر بگڑے جب تک خدا تعالیٰ کو منظور ہوا یہاں اس تقریب کی کارفرمائی ایک امر واقعہ ہی ہے ۔

جلوس :۔

حکومت اگر اپنے زیراہتمام تقریب کو سادہ رکھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی پرزور تلقین کرے تو اس کااثر یقینا خاطرخواہ ہوگا ۔ انشاءاللہ ۔ اس تقریب کے ضمن میں جتنے بھی جلوس نکلتے ہیں اگر ان کو حکومت کے اہتمام سے خاص کردیا جائے تو یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے ، ہر جگہ کے حکام بآسانی اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں ، اگر ہر شہر میں صرف ایک ہی جلوس نکلے اور اسے ہر ہر جگہ کے سرکاری حکام کنٹرول کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مفاسد اچھل سکیں اور مصائب رونما ہوں ۔( اہلحدیث 16.1.81...27.3.81. )

تنظیم اہلحدیث :۔

جماعت اہلحدیث کے بالعموم اورحافظ عبد القادر روپڑی کے بالخصوص ترجمان ہفت روزہ (تنظیم اہلحدیث ) لاہور نے 17 مئی 1963 ء کی اشاعت میں لکھا ہے کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو ۔تنظیم اہلحدیث کا یہ بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔(درۃ الناصحین صفحہ 263 ) مقام انصاف ہے کہ جب مومن کی اکھٹی پانچ عیدیں تکمیل دین کے خلاف نہیں تو جن کے صدقہ و وسیلہ سے ایمان قرآن اور خود رحمان ملا ، ان کے یوم میلاد کو عید کہہ دینے سے دین میں کونسا رخنہ پڑجائے گا ؟جبکہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مقابلے کے لئے ہے اور نہ ان کی شرعی حیثیت ختم کرنا مقصود ہے ، اہلحدیث مزید لکھا ہے کہ ( اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔( ہفت روزہ اہلحدیث لاہور 27 مارچ 1981 ئ)

سبحان اللہ ! اہلحدیث نے تو حد کردی کہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عید میلاد منانے ہی کی تصریح نہیں کی بلکہ ایک اور عید یعنی عید بعث منانے کا بھی اضافہ کردیا اور وہ بھی ہفتہ وار۔ ماہنامہ دارلعلوم دیوبند نومبر 1957 ء کی اشاعت میں ایک نعت شریف شائع ہوئی ہے کہ ؛

یہ آمد ، آمد اس محبوب کی ہے
کہ نور جاں ہے جس کا نام نامی
خوشی ہے عید میلاد النبی کی
یہ اہل شوق کی خوشی انتظامی
کھڑے ہیں باادب صف بستہ قدسی
حضور سرور ذات گرامی

الحمد اللہ ! اس تمام تفصیل اور لاجواب و ناقابل تردید تحقیقی و الزامی حوالہ جات سے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منانے اس نعمت کا چرچا کرنے شکر گزاری و خوشی کرنے محافل میلاد کے انعقاد و جلوس نکالنے کی روز روشن کی طرح تحقیق و تائید ہوگئی اور وہ بھی وہاں وہاں سے جہاں سے پہلے شرک و بدعت کی آوازیں سنائی دیتی تھیں ، ماشا ءاللہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عظمت و قوت عشق سے اپنی حقانیت کا لوہا منوالیا ، مگر ضروری ہے کہ میلاد شریف کے سب پروگرام بھی شریعت کے مطابق ہو ں اور منانے والے بھی شریعت و سنت کی پابندی کریں کیونکہ عشق رسالت کے ساتھ اتباع سنت بھی ضروری ہے ۔
 

damsel

معطل
بہنا خوشی منانے سے تو شریعت منع نہیں کرتی۔ آخر جب نبی پاک صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ شریف تشریف لائے تھے تب بھی تو جلوس نکلا اور ترانے پڑھے گئے۔ بس خیال درست رکھنا چاہئے کہ یہ خوشی کیوں منائی جا رہی ہے۔ حلوے پکانا، چندے دینا (خیرات کرنا) یا روزہ رکھنا یہ سب جائز ہیں۔ حدیث شریف ہے کہ آپ کی خوشی کی تقریب آپ کی غم کی تقریب سے مختلف دکھنی چاہئے۔ سو جب تک آپ لہو و لعب میں نہ جاپڑیں خوشی منانے کا ہر طریقہ جائز ہے۔

یہ حدیث جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس کا حوالہ کیا ہے؟؟کیونکہ میری نظر سے ایسی کوئی حدیث نہیں گزری، تھوڑی دشواری تو ہوگی لیکن اگر مل جائے تو بہت سارے ابہام دور ہوجائیں گے
 

رضا

معطل
فاروق سرور: بائی دی وے، اپنے کچھ کھانے پینے کی بات کی ، یہ کھاوا کس کا کھاوا ہے؟ جناب اللہ کا دیا کھاتے ہیں‌ یا اللہ کے بندے کا دیا "کھاوا" ہیں؟
حدیث پاک میں‌ہے۔
انما انا قاسم واللہ یعطی۔بے شک میں‌ تقسیم کرتا ہوں اور اللہ عزوجل عطا فرماتا ہے۔
دیلمی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے راوی،حضور سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں:
میرے پاس جبریل نے حاضر ہوکر عرض کی اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تم نہ ہوتے میں جنت کو نہ بناتا،اور اگر تم نہ ہوتے میں دوزخ کو نہ بناتا۔
یعنی آدم و عالم سب تمہارے طفیلی ہیں،تم نہ ہوتے تو مطیع و عاصی کوئی نہ ہوتا۔جنت و نار کس کیلئے ہوئیں؟اور خود جنّت و نار اجزائے عالم سے ہیں جن پرتمہارے وجود کا پرتو پڑا۔صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم۔(کنزالعمال)
[frame="7 80"]مقصود ذات اوست دگر جملگی طفیل
منظور نور اوست دگر جملگی ظلام[/frame]

مقصود ان کی ذات ہے باقی تمام طفیلی ہے،فقط انہی کا نور دکھائی دیتا ہے باقی سب تاریکیاں ہیں۔
تم کھانے کی بات کرتے ہو۔تمہارا تو وجود ہی ان کے طفیل سے ہے۔
[frame="5 80"]تیرا کھائیں تیرے غلاموں سے الجھیں
عجب ہیں‌ یہ کھانے غرّانے والے[/frame]
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top