جان کی امان طلب کرتے ہوئے
سید عاطف علی بھائی سے ابتداء کرتے ہیں ۔۔۔
آپ نے اپنی ایک لڑی کا عنوان رکھا:
بتائیں اس لڑی کے اس عنوان میں عاطف بھائی نے عاجزی و انکساری کی حد کردی یا نہیں؟ اتنے شاندار فن پارے ایک سے ایک نئے اندازِ فکر کے ساتھ از حد محنت کرکے پیش کیے، اس کے باوجود مجال ہے جو عنوان سے ذرا بھی اکڑ فونی کا اظہار ہورہا ہو، الٹا اپنے کو کچھ نہ سمجھنے کے اشارے مل رہے ہیں۔ ان کی جگہ ہم ہوتے تو شور مچا مچا کے دنیا کی چھت سر پر اٹھا لیتے۔ تاہم ان کی عاجزی کے اظہار کے باوجود ہم جب یہ عنوان پڑھتے ہیں رہ رہ کے ذہن میں کلبلی اور ہاتھ میں کھجلی ہونے لگتی ہے۔ آج ہم نے اپنے اس خلفشار سے چھٹکارا پانے کا عزم کرنے کی ٹھان لی۔ اب انجام جو ہو خدا جانے۔
صاحبو ہم یہ عنوان پڑھ کے سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ اگر یاد رہے تو یہ یاد رہے کہ عاطف بھائی ہرگز ہرگز کوئی فن کار ونکار نہیں ہیں۔ نہ تو اِس آرٹ والے فنکار نہ اُس آرٹ والے فنکار۔ ہاں البتہ اگر یاد نہ رہے اور آپ بھول چوک کی بھول بھلیوں میں نکل کر بھول جائیں تب یہ یاد رہنا چاہیے کہ عاطف بھائی بہت بڑے فنکار ہیں۔۔۔
ارے ہائیں! یہ انکشاف تو اب ہورہا ہے کہ درپردہ عاجزی و انکساری کے پردہ میں عاطف بھائی کہنا کیا چاہ رہے۔ اب سب بات سمجھ میں آگئی کہ عاطف بھائی نے سیدھی سادی بات کو جلیبی کی طرح گھما پھرا کر کس طرح اپنے آپ کو صف اوّل کا فنکار منوالیا۔۔۔
عاطف بھائی، تسی وی ناں وڈّے فنکار ہو!!!