عمران خان کا کامیاب جلسہ

ماظق

محفلین
عمران خان کا کامیاب جلسہ
عمران خان نے کل لاہور میں لاکھوں لوگوں کا کامیاب جلسہ کیا،مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والے اس جلسے نے ملک میں موجودہ سیاست دانوں نی نیندیں اڑا دی ہیں،اس جلسے میں اتنی شرکاء کی بڑی تعداد کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے،عمران خان کی قیادت میں یہ قافلہ اب کہیں رکنے والا نہیں،جلد ہی کراچی پشاور اور کوئٹہ میں بھی لوگوں کی سوچ میں تبدیلی کا عنصر شامل ہو جائے گا،عرصہ دراز سے حکومتی مزے لوٹنے والی اور ایک دوسرے کے خون کی پیاسی جماعتیں مستقبل قریب میں عمران خان کے خلاف جلد ہی اکٹھی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں،آپ سب کی اس بارے میں کیا آراء ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عمران خان اپنے پاؤں پر اور ن لیگ پر کلہاڑی چلا رہا ہے۔ اکیلا چنا بھاڑ نہیں جھونک سکتا۔ اس کو کئی ایک جماعتوں کے ساتھ الحاق کر لینا چاہیے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے بہت سارے مطالبے ایک جیسے ہیں۔
 
عمران خان بھی دوسرااصغر خان ہے۔ باتیں بڑی بڑی کرتا ہے مگر الیکشن میں امیدوار کھڑے نہیں کرتا۔ حالیہ پنجاب کے ضمنی انتخابات اس کی واضح مثال ہیں۔
 

پپو

محفلین
ابھی کچھ وقت لگے گا پاکستان میں الیکشن لڑنا ایک فن ہے بے شک عمران خان ایک ابھرتی ہوئی سیاسی جماعت کا لیڈر ہے مگر پہلے سے موجود سیاسی جماعتیں ان کو ٹکینکل طریقے سے مار دیں گی کیونکہ جب الیکشن ہوتا ہے تو ووٹر کو ووٹ ڈالنے تک کارکن کام کرتے ہیں یہ اس نئی جماعت میں کمزوری ہے یا کوئی بٹن سسٹم متعارف ہو جائے یا پھر وہ گُر چلانے کے لیے ابھی مزید سیکھنا پڑے گا
 

دوست

محفلین
عمران خان کو پی پی پی کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہیے۔ اور اپنی موجودگی دوسرے صوبوں میں ثابت کرنی چاہیے۔ ابھی تو اس کی "نوزائیدگی" سے خطرہ ہے کہ پرانے ٹھکرائے ہوئے لوٹوں سے آلودہ ہو جائے گی۔
 

کاشفی

محفلین
عمران خان نے لاہور میں کامیاب جلسہ کیا۔ اس کے لیئے عمران خان کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ مبارکباد۔۔۔
 

طالوت

محفلین
سوال یہ بھی ہے کہ اس کافی بڑے جلسے میں کتنے لوگ سیاست کے حوالے سے شریک ہوئے اور کتنے" کرکٹ اور عمران خان" کے باعث ۔ تاہم عمران کو تھوڑی توجہ سندھ اور خصوصی توجہ بلوچستان کو بھی دینا چاہیے ، سیٹیں نہ ملیں مگر ووٹ بینک تو نظر آئے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
اتنے زیادہ کرپٹ سسٹم میں عمران خان نے اتنا بھی کر لیا تو بہت ہے۔ ورنہ یہ نظام تو نئی سوچ کو پنپنے ہی نہیں دیتا۔ پھر ہم لوگ نسلی اور لسانی سیاست سے ماورا ہو کر سوچنے کے ابھی عادی نہیں ہوئے ہیں سو عمران خان کو بھی "وارم ویلکم" کہنے والے بہت کم ہیں ۔ اور ہماری قوم اب بھی نسلی اور لسانی بنیادوں پر کرپٹ جماعتوں سے ہیں اُمیدیں لگا کر بیٹھی ہے۔ ایک بات یہ ہے کہ انہیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان پر اینٹی نواز جماعت کا ٹھپہ نہ لگے بلکہ یہ عمومی طور پر ہر کرپٹ جماعت کی بیخ کنی کریں تو بہتر رہے گا۔

ویسے یہ لوٹوں سے آلودہ ہونے والی بات شاکر بھائی نے خوب کہی مجھے بھی اسی بات کا خدشہ ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
عمران خان کو پی پی پی کو بھی ٹارگٹ کرنا چاہیے۔ اور اپنی موجودگی دوسرے صوبوں میں ثابت کرنی چاہیے۔ ابھی تو اس کی "نوزائیدگی" سے خطرہ ہے کہ پرانے ٹھکرائے ہوئے لوٹوں سے آلودہ ہو جائے گی۔

میرا خیال ہے سندھ (کراچی) میں عمران خان کو کوئی خاص پزیرائی نہیں ملے گی۔ کیونکہ یہاں کے لوگوں کی سوچ "پابند" ہے اور جن کی سوچ پابند نہیں وہ بھی کسی نہ کسی حد تک "پابند" ہی ہیں کہ یہاں تحریک انصاف کی تائید ایم کیو ایم سے انحراف کی علامت ہے اور یہ انحراف کرنے کی ہمت لوگوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
میرا خیال ہے سندھ (کراچی) میں عمران خان کو کوئی خاص پزیرائی نہیں ملے گی۔ کیونکہ یہاں کے لوگوں کی سوچ "پابند" ہے اور جن کی سوچ پابند نہیں وہ بھی کسی نہ کسی حد تک "پابند" ہی ہیں کہ یہاں تحریک انصاف کی تائید ایم کیو ایم سے انحراف کی علامت ہے اور یہ انحراف کرنے کی ہمت لوگوں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

اور بلوچستان میں کس نے پکڑ رکھا ہے خان صاحب کو؟؟؟؟
 

زین

لائبریرین
بلوچستان میں تو اشتہاری مجرم بھی تحریک انصاف کے صوبائی صدر رہ چکے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ پاکستان میں سیاست شریفوں کے بس کی بات ہے۔ میں شریف برادران کی بات نہیں کر رہا۔
 
برادر ایک کامیاب جلسے کا یہ مطلب ھرگز نہیں کہ عمران خان کے جانثار ،، وزیر اعظم عمران خان،، کے خواب دیکھنا شروع کر دیں، اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 75 فیصدی ووٹر دیہی علاقے سے تعلق رکھتا ھے جہاں برادری سسٹم ، جاگیردارانہ نظام اور دھڑے بازی کی سیاست کا راج ھے ۔ اس سیاسی معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کیلئے عمران خان صاحب کو یا تو اپنے اصولوں کی قربانی دے کر انہی جاگیرداروں وڈیروں ، رسہ گیروں اور پولیٹیکل لارڈز کا سہارا لینا ھو گا جن کے خلاف وہ جہد کا نعرہ لگاتے رھے ھیں یا پھر دائیں بازو کی ان جماعتوں سے سیاسی الحاق کرنا ھو گا جو جو وہ تنقید کا نشانہ بنا رھے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وگرنہ ان کی پندرہ سالہ ان تھک جدوجہد کا فائدہ الیکشن ڈے پر انہی عناصر کو پہنچے گا جن کے خلاف نعرہ ِ کرپشن ان کی شناخت اور وجہ مقبولیت ھے ۔۔۔۔۔ ایک طرف پیپلز پاٹی، متحدہ اور قاف لیگ کے اتحاد اور دوسری طرف نون لیگ کو بیک وقت شکست دے کر اکیلے اقتدار تک پہنچنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناممکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا ممکن ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

طالوت

محفلین
گزشتہ ایک دہائی سے ہماری دیہی آبادی کم اور شہری آبادی بڑھ کیوں نہیں رہی ، وہ پچھتر ستر فیصد ووٹر۔ سیاست کے یہ سارے ہتھکنڈے شہروں میں بھی عام ہیں اور جو اس پر یقین نہیں رکھتے وہ عموما ووٹ ہی نہیں ڈالتے پاکستان میں ٹرن آؤٹ ہوتا ہی کتنا ہے کہ کسی کو الزام دیں ۔ جمہوریت کا بندر ہمارے مزاج اور حالات سے لگا نہیں کھاتا اور پارلیمانی طرز حکومت تو بالکل نہیں ۔ بذریعہ جمہوریت تبدیلی کے لئے دہائیوں کی ضرورت ہوتی اور ڈنڈا محض خرابی ۔ ہمیں کسی جادو کی چھڑی کی بجائے طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے اور وہ حکومتی سطح پر تبھی ممکن ہے جب عوام میں موجود باشعور طبقہ انفرادی طور پر اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے ۔ بیس سے تیس سال کی عمر کے افراد عموما تبدیلی کے لئے بے چین رہتے ہیں اور کس قدر کوشش بھی کرتے ہیں مگر حالات ان کے موافق نہیں ہوتے شادی اور بچوں کے بعد وہ خود اس ہٹ دھرمی کاہلی پر مبنی معاشرتی سوچ اور نظام کا حصہ بن جاتے ہیں اور حاصل نتیجہ صفر۔ بےشک اپنے ارد گرد نظر دوڑا لیں۔
 

ساجد

محفلین
آپ سے کس نے کہہ دیا کہ پاکستان میں سیاست شریفوں کے بس کی بات ہے۔ میں شریف برادران کی بات نہیں کر رہا۔
شمشاد بھائی ، شریف برادران کے لئیے موجودہ سیاسی حالات پریشان کن ہیں۔ پنجاب پورے پاکستان کے ووٹرز کا 60 فیصد ہے ۔ زرداری اینڈ کمپنی کی بد عنوانیوں کی وجہ سے عوام اپنی پریشانیوں کے حل کے لئیے ساڑھے تین سال تک شریف برادران سے آس لگائے بیٹھے رہے لیکن انہوں نے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کی بجائے عوام کو مایوس کیا۔ یہ درست کہ شریف برادران نے تعمیر و ترقی کے بہت کام کروائے لیکن ان کی ذمہ داری اس سے کہیں بڑھ کر تھی وہ زرداری کمپنی کے بد عنوان گھوڑے کو لگام ڈالنے کے لئیے کبھی میدان میں نہ آئے۔ مہنگائی اور بے روزگاری پر قابو پانے پر حکومت پر دباؤ نہ ڈال سکے۔ جس کا منطقی نتیجہ ان کی غیر مقبولیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
عمران خان سے ابھی کوئی بڑی امید نہیں لگانا چاہئیے ۔ جمہوریت اپنے طریقہ کار میں خود ہی اپنا اثر دکھاتی ہے لیکن عمران اس وقت جمہوریت کی بات کرتا اچھا لگے گا جب وہ خود اپنی پارٹی کے عہدوں کے لئیے جمہوری اصولوں کے مطابق الیکشن کروائے اور اس سے بھی زیادہ ضروری یہ کہ بلدیاتی نظام کی بحالی کے لئیے تحریک چلائے۔ جمہوریت کی بنیاد پارلیمان نہیں بلکہ مقامی حکومتیں ہوتی ہیں جنہیں بلدیاتی ادارے کہا جاتا ہے۔ اگر یہ کام کر رہے ہوں تو اقتدار پر چور اچکے اور چور دروازوں سے آنے والے براجمان نہیں ہو سکتے۔ شریف برادران کے اثاثوں کی بجائے عمران بنیادی جمہوریتوں کی بحالی کا ایشو اٹھائے تو اس کی جمہوریت پسندی کا پتہ چلے گا ۔ اگر عمران بھی جمہوریت کو پارلیمان سے شروع کرنا چاہتا ہے تو پاکستانیوں کو پر جوش ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ایسا کرنے سے یہ بھی روایتی سیاست دان ثابت ہونے والا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
برادر ایک کامیاب جلسے کا یہ مطلب ھرگز نہیں کہ عمران خان کے جانثار ،، وزیر اعظم عمران خان،، کے خواب دیکھنا شروع کر دیں، اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ پاکستان کی کل آبادی کا 75 فیصدی ووٹر دیہی علاقے سے تعلق رکھتا ھے جہاں برادری سسٹم ، جاگیردارانہ نظام اور دھڑے بازی کی سیاست کا راج ھے ۔ اس سیاسی معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کیلئے عمران خان صاحب کو یا تو اپنے اصولوں کی قربانی دے کر انہی جاگیرداروں وڈیروں ، رسہ گیروں اور پولیٹیکل لارڈز کا سہارا لینا ھو گا جن کے خلاف وہ جہد کا نعرہ لگاتے رھے ھیں یا پھر دائیں بازو کی ان جماعتوں سے سیاسی الحاق کرنا ھو گا جو جو وہ تنقید کا نشانہ بنا رھے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وگرنہ ان کی پندرہ سالہ ان تھک جدوجہد کا فائدہ الیکشن ڈے پر انہی عناصر کو پہنچے گا جن کے خلاف نعرہ ِ کرپشن ان کی شناخت اور وجہ مقبولیت ھے ۔۔۔۔۔ ایک طرف پیپلز پاٹی، متحدہ اور قاف لیگ کے اتحاد اور دوسری طرف نون لیگ کو بیک وقت شکست دے کر اکیلے اقتدار تک پہنچنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناممکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نا ممکن ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

برادری سسٹم ، جاگیردارانہ نظام اور دھڑے بازی کی سیاست کے علاوہ جو بھرے بھرائے ڈبے ہوتے ہیں ان کا کیا کریں گے؟
 
Top