علمائے دیوبند اور طالبان

آپ کو معلوم ہے آج کل دنیا میں ایسی ٹیکنالوجی آچکی ہے جو یہ بتا سکتی ہے کہ ہر بُرائی کی جڑ میِن سی لیول سے911 کلومیٹر اندر زمین سے ہوتے ہوئے امریکہ میں جاکر ملتی ہے۔۔ وہیں سے تمام روٹس نکلتے ہیں۔ جو کہ ہر جگہ نمودار ہوتے ہیں۔۔۔
اس جڑ کو کاٹنا مشکل ہے۔کیونکہ جڑ کاٹنے کی کوشش کرنے والا کچھ دنوں بعد نو دو گیارہ ہوجاتا ہے۔۔
ایک جڑ برائی کی انسان کا نفس ہے۔۔اس پر قابو پانا چاہیئے۔۔۔ ۔
اب آپ پوچھیں گے کہ اس پر بندہ کیسے قابو پا سکتا ہے۔۔۔ یہ ایک اچھا سوال ہے۔۔ اس کے لیئے بندے کو اپنے سیدھے کی کلائی کو اُلٹے ہاتھ سے زور سے دبانا چاہیئے اتنا دبانا چاہیئے کے نبض دب جائے۔اس طرح نفس پر قابو پاسکتا ہے بندہ۔۔

کوشش کرتے رہیں :)
 
نفس کدھر ہوتا ہے۔۔۔ ؟ کیسے کنٹرول کرتے ہیں؟

اب آپ پوچھیں گے کہ اس پر بندہ کیسے قابو پا سکتا ہے۔۔۔ یہ ایک اچھا سوال ہے۔۔ اس کے لیئے بندے کو اپنے سیدھے کی کلائی کو اُلٹے ہاتھ سے زور سے دبانا چاہیئے اتنا دبانا چاہیئے کے نبض دب جائے۔اس طرح نفس پر قابو پاسکتا ہے بندہ۔۔
 

میر انیس

لائبریرین
میں ملا کی بات کررہا ہوں
ملا اور عالم میں فرق ہے
ملا ایک ذہنیت کا نام ہے ۔ یہ کسی مسلک مذہب سے متعلق نہیں۔ مثلا اکثر ذاکرین اور واعظ ملا ہوتے ہیں۔ ضروری نہیں امام مسجد ملا بھی ہو
یہاں میرے بھائی آپ تھوڑی سی خیانت کرگئے۔ اگر ملا سے مراد آپ کی علماء سو اور عالم سے آپ کی مراد علماء حق ہے تو میری ناچیز رائے میں ایک عالم کبھی بزدل نہیں ہوتا ہے نا ہی لالچی ہوتا ہے یعنی اگر اسکا تعلق علماء حق سے ہے تو وہ حق بات سولی پر بھی کہے گا اور بڑی سے بڑی دولت کو ٹھکرادے گا لیکن حق کہنے سے باز نہیں آئے گا جابر سے جابر سلطان کے آگے حق کی بات کرے گا لیکن اگر آپ سعودیہ میں دیکھیں تو اسکے بالکل برعکس ہے۔ امام کعبہ ہوں یا امام مسجد نبوی اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کہ سکتے اور اگر کہ سکتے ہیں تو آج تک کوئی ایسی مثال پیش کریں جس میں انہوں نے کبھی اپنے بادشاہ کے خلاف کوئی بات کی ہو یا کسی بات پر نقطہ چینی کی ہو۔ اسکے برعکس اگر آپ ایران کی تاریخ پڑھیں تو باوجود جلا وطن ہونے کے اور ایران کی عوام سے بہت دور فرانس میں ہونے کے اس بادشاہ کا تخت ہلادیا جو اپنے عوام میں موجود تھا۔ علماء کو پاور میں ہی ہونا چاہیئے اور یہ آنحضرت ٖ کی سیرت کے عین مطابق ہےخلفاء راشدین کی سیرت کے مطابق ہے ایک خلیفہ کو اپنے زمانے کا سب سے بڑا عالم بھی ہونا چاہیئے ۔

آصل طاقت ور ملا ایران کے ہیں۔ میرا مطلب ہے جو پاور میں بھی ہیں۔ ولایت فقیہ کے ماننے والے۔
ایران میں ملا یا عالم ہی ولایت فقیہ کو نہیں مانتے بلکہ ایک عام آدمی بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے یہاں تک کے میں بھی اس عقیدے کا حامی ہوں میں تو ملا نہیں ہوں میرے نزدیک شریعیت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے کو ہی سب سے زیادہ پاور ملنی چاہیئے تاکہ وہ اپنے حکمران کے سامنے مجبور نہ ہوجائے فیصلہ کرنے میں جب سب سے زیادہ پاور ہوگی تو وہ فیصلہ کرنے میں کسی بھی دباؤ میں نہیں آئے گا جسطرح آنحضرت (ص) نے جب حکم دے دیا تھا ایک چور عورت کے ہاتھ کاٹنے کا تو اسکے خاندان کے بہت زیادہ اثر رسوخ والے افراد بھی آئے تو کچھ کر نہ سکے انہوں نے سفارش کروائی اور پیسے کا لالچ بھی دیا پر آپ نے نہیں مانا اب اگر اس جگہ کوئی بادشاہ ہوتا اور فتوٰی دینے والا کوئی عام مولوی ہوتا تو بادشاہ اپنی مرضی سے فتوٰی لکھوادیتا جیسا قاضی شریع نے یزید کے کہنے پر حضرت امام حسین علیہ السلام کو نعوذوباللہ واجب القتل قرار دے دیا تھا۔
 
آخری تدوین:
طالبان ظالمان کی طرف سے کوئی نمائندہ اگر ہے تو سعودی فرمانروا، اماراتی فرمانروا ، کویتی فرمانروا اور ایرانی فرمانروا۔ کسی اور سے بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ان فرمانرواؤں کے سمن جاری کرکے ، اسلام آباد بلوائے اور ان سے صاف صاف ڈیمانڈ کرے کہ اپنے پٹھوؤں کی ہم نوائی بند کرو ، ان کو پیسے کی سپلائی بند کرو۔ اور اپنے ممالک میں اسلامی جمہوریت قائم کرو۔ ورنہ ہماری توپوں کے رخ تمہاری طرف۔

پاکستان کے مرد موومن ، اقبال کی آنکھ نے تو بہت پہلے دیکھ لیا تھا کہ ہوئے تم دوست جس کے ، دشمن اس کا آسمان کیوں ہو؟
 

قیصرانی

لائبریرین
جہاد کے لئے سرگرداں افراد کے لئے ایک خصوصی مشورہ:
برگیڈیئر یوسف کی کتاب Bear Trap کا مطالعہ کر لیں۔ اس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ جہاد افغانستان کی اصلیت محض یہ تھی کہ جنرل اختر عبدالرحمان کی خواہش تھی کہ اس کے آباؤ اجداد کے وطن، افغانستان کو آزاد کرایا جائے اور جنرل اختر عبدالرحمان کی سب سے بڑی خواہش آزاد افغانستان میں جا کر کابل میں نماز ادا کرنا تھی۔ باقی اس میں مذہب کی ملاوٹ اور جہاد اتنی حد تک تھا کہ مقامی لوگوں کو اس جنگ پر مائل کیا جا سکے کیونکہ مغربی دنیا افغانستان سے پہلے ہی ہاتھ دھو چکی تھی :)
مزید تفصیل کے لئے آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی باہمی چپقلش والے ابواب پڑھ لئے جائیں جہاں سی آئی اے ہتھیاروں کی سپلائی براہ راست "مجاہدین" تک پہنچانا چاہتی تھی اور آئی ایس آئی نے محض اس وجہ سے سی آئی اے کو پسِ پردہ رکھا تھا کہ اس طرح "مجاہدین" کو یہ نہ پتہ چل جائے کہ وہ امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں :)
 
Top