علامہ محمد اقبالؒ کو ہم سے بچھڑے 75 برس بیت گئے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
علامہ محمد اقبالؒ کو ہم سے بچھڑے 75 برس بیت گئے۔
لیکن اتنے برس بعد بھی وہ ہمارے درمیان ایسے ہی موجود ہیں، جیسے 75 برس پہلے موجود تھے۔
سوچا کہ کیوں نہ یہ دھاگے آج کے دن کے دن پر محفلین کے جذبات اور اس سلسلے میں ہونیوالی تقاریب، تحاریر وغیرہ سے سجایا جائے۔
گھر گھر میں یہ چرچے ہیں کہ اقبالؒ کا مرنا
اسلام کے سر پر ہے قیامت کا گزرنا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ماتم اقبال

صفر کی انیسویں اور اپریل کی اکیسویں کی صبح کو عمر کی اکسٹھ بہاریں دیکھ کر اور شاعری

کی دنیا میں چالیس برس چہچہا کر یہ بلبل ہزار داستان اب ہمیشہ خاموش ہوگیا۔
...
وہ ہندوستان کی آبرو، مشرق کی عزت اور اسلام کا فخر تھا، آج دنیا ان ساری عزتوں سے محروم ہوگئی،

ایسا عارف فلسفی، عاشق رسول شاعر، فلسفہ اسلام کا ترجمان اور کاروان ملت کا حدی خواں صدیوں

کے بعد پیدا ہوا تھا اور شاید صدیوں کے بعد پیدا ہو، اس کا دہن کا ہر ترانہ بانگ درا، اسکی جان حزیں کی ہر

آواز زبور عجم، اس کے دل کی ہر فریاد پیام مشرق، اس کے شعر کا ہر پرواز بال جبریل تھا، اسکی فانی عمر

گو ختم ہوگئی لیکن اس کی زندگی کا ہر کارنامہ جاوید نامہ بن کر انشاءاللہ باقی رہے گا، امید ہے کہ ملت کا

یہ غم خوارشاعر اب عرش الہی کے سایہ میں ہوگا، اور قبول و مغفرت کے پھول اس پر برسائے جا رہے

ہونگے، خداوندا! اس کے دل شکستہ کی جو ملت کے غم سے رنجور تھا، غمخواری فرما اور اپنی ربانی

نوازشوں سے اس کے قلب حزیں کو مسرور کر

علامہ سید سلیمان ندوی رحمت اللہ علیہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت
3505_84363442.jpg

خواجہ محمد زَکریا

شاعر ِمشرق ومفکرِ پاکستان کے یومِ وفات کی مناسبت سے ایک فکرانگیز تحریر اقبال چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملتِ اسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیا اقبال کا انتقال ہوا ،تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیں اقبال نے تین زبانوں میں لکھا ہے۔ اُن کی نثر اُردو اور انگریزی میں ہے جب کہ شاعری، جو اُن کی جملہ صلاحیتوں میں سے اعلیٰ ترین صلاحیت ہے، اُردو اور فارسی میں ہے۔ میرے خیال میں فلسفہ اور علم الاقتصاد پر مستقل کتابیں تصنیف کرنے اور سیاسیات اور بعض دیگر علوم و فنون پر اظہار خیال کرنے کے باوجود اُن کا اصل میدان شاعری ہے۔ نثری کتابوں میں وہ جن حقائق کو دلائل و براہین سے کہتے ہیں، انھیں کو شاعری میں جب وجدانی اور تخیلی سطح پر پرزور اور پرُکشش اُسلوب میں پیش کرتے ہیں ،تو اُن کا اثر بہت بڑھ جاتا ہے جب کہ اُن کی نثری تصنیفات کا استدلال بعض جگہ اختلافی معلوم ہونے لگتا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے نزدیک شاعر اقبال، فلسفی اقبال سے زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔ بہرحال اقبال کی نظم و نثر کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ملتِ اسلامیہ کے دین و دنیا کو سنوارنا اور پھر ملت ِ اسلامیہ کے توسط سے دنیا بھر کی اقوام و ملل کے افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا۔ انھوں نے جب آنکھ کھولی تو مغربی اقوام دنیا کے بیشتر ممالک پر بالواسطہ یا بلاواسطہ قابض ہو چکی تھیں۔ افریقا اور ایشیا کے بہت بڑے حصے پر متصرف ہونے کی وجہ سے انگریزی زبان اور مغربی اُن کی تہذیب محکوموں کے لیے قابلِ تقلید بن چکی تھی۔ بقول اکبر الہ آبادی:

اپنی منقاروں سے حلقہ کس رہے ہیں جال کا
طائروں پر سحر ہے صیاد کے اقبال کا
یہ درست ہے کہ بعض اسلامی ممالک میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہو چکا تھا، مگر اُن کے اثرات محدود تھے بل کہ اُن کی وجہ سے محکوم ملکوں کے تضادات اور بھی نمایاں ہو گئے تھے۔ مسلمان ممالک ایک ایک کر کے آزادی سے محروم ہو چکے تھے. ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات یا تو حکمرانوں کے مقلد بن چکے تھے یا پدرم سلطان بود کے خواب میں مست پڑے تھے. ان حالات میں قوم کے کسی بہی خواہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ ارد گرد کے حالات سے آنکھیں بند کر لے اور قوم کو ماضی کے سپنوں میں پڑا رہنے دے۔ سرسید احمد خاں، حالی، شبلی، نذیر احمد، اکبر الہ آبادی اور دوسرے بہت سے ادبا اور شعرا اپنے اپنے انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کی سعی کر رہے تھے۔ علامہ اقبال بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ وہ چونکہ مفکر شاعر تھے، اس لیے انھوں نے اس مسئلے پر مسلسل غور کیا کہ ملت ِاسلامیہ زوال کا شکار کیوں ہو گئی ہے۔ آخر وہ زوال کے اسباب تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے اور پھر اپنی بہترین صلاحیتوں کو ملت ِاسلامیہ کی خرابیاں دُور کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ اقبال کا انتقال ہوا تو بیداری کا آغاز ہو چکا تھا۔ بہت سے مسلمان ممالک رفتہ رفتہ آزاد ہونے لگے تھے۔ اس وقت دنیا بھر میں متعدد آزاد مسلم ممالک موجود ہیں جن کے پاس افرادی قوت کے ساتھ ساتھ وسیع زرعی رقبے بھی ہیں اور تیل و معدنیات کے ذخائر بھی، مگر ابھی تک مجموعی طور پر وہ دنیا میں غیر مؤثر ہیں۔ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور سوچنا چاہیے کہ آخر ملت اسلامیہ دنیا بھر میں بدستور غیر مؤثر کیوں ہے؟ اس سوال کے ایک یا ایک سے زیادہ جوابات تلاش کرنے چاہییں۔ ان پر عام بحث ہونی چاہیے اور پھر جس بات پر اجماع ِامت ہو اسے ملتِ اسلامیہ کا مشترکہ مقصد بنا کر بروئے کار لانے کے لیے ہمیں اپنی تمام تر کوششیں اسی ایک سمت میں مرکوز کر دینی چاہییں۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم و نثر میں ملت کے زوال کے اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور زوال سے اُبھرنے کا ایک واضح طریق کار متعین کیا ہے۔ یہ طریق کار ہے فرد کی اصلاح سے ملت کی اصلاح کی طرف جانا،لیکن علامہ اقبال اس بات سے واقف تھے کہ عام افراد کبھی اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کیونکہ وہ زوال آمادہ معاشرے کے شیطانی چکر میں پھنسے ہوئے ہوتے ہیں۔ اگر کسی بددیانت معاشرے میں کوئی فرد دیانت دار بننے کی کوشش کرے تو وہ معاشرے کو بہت کم درست کر سکے گا، البتہ ہو سکتا ہے کہ اس کشمکش میں وہ خود ہی مٹ جائے۔ اس لیے اقبال کا نقطۂ نظر یہی رہا ہے کہ اصلاح اوپر سے نیچے آتی ہے، نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ نظریۂ خودی مردان ِکامل کو پیدا کرتا ہے اور مردانِ کامل دنیا کی اصلاح کرتے ہیں۔ علامہ اقبال مثنوی ’اسرارِ خودی‘ میں مردِ کامل سے اُن توقعات کا اظہار کرتے ہیں:​
اے سوارِ اشہب دوراں بیا
اے فروغِ دیدۂ امکاں بیا
خیز و قانونِ اخوت ساز
دہ جامِ صہبائے محبت باز
دہ باز در عالم بیار ایّامِ صلح
جنگجویاں را بدہ پیغامِ صلح
ریخت از جورِ خزاں برگِ شجر
چوں بہاراں بر ریاضِ ما گذر
نوعِ انساں مزرع و تو حاصلی
کاروانِ زندگی را منزلی
ترجمہ:
اے زمانے کے گھوڑے کے سوار اور اے امکانات کی دنیا کو روشن کرنے والے، آ اور دنیا میں اخوت اور محبت کے جذبات پھر سے پیدا کر۔ دنیا میں صلح کا زمانہ واپس لا اور جنگجوؤں کو امن کا پیغام دے۔ دنیا کے باغ میں خزاں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تو اس میں بہار بن کر آ۔ بنی نوعِ انسان کی فصل کا حاصل اور زندگی کے کارواں کی منزل تو ہی ہے۔
جب کسی قوم میں ایسے افراد پیدا ہو جاتے ہیں ،تو اس قوم کا کارواں منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔ اسی کا نام رجائیت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ٹھیک ہو جائیں ،تو دنیا کی بہترین اقوام میں شمار ہو سکتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال ہر حال میں رجائیت کے پیغامبر ہیں۔ انھوں نے بار بار ملت کے مختلف افراد اور طبقات پر شدید تنقید کی ہے۔ خود انتقادی اور خود احتسابی کو لازمہ ترقی بتایا ہے اور یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ جب تک ہم اپنی خرابیوں کو تلاش نہیں کریں گے اس وقت تک اصلاح کا عمل شروع نہیں ہو سکے گا۔ اس وجہ سے اقبال کے ہاں ملت کے مختلف طبقات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی خرابیوں کو طشت ازبان کر کے انھیں اصلاح کا پیغام دیا ہے۔ اقبال ملتِ اسلامیہ کے رہنماؤں سے ناامید تھے۔ نظم ’شمع اور شاعر‘ میں شاعر در حقیقت رہنمائے ملت کی علامت ہے اور پوری نظم ملت اسلامیہ کے زوال کا ایک خوفناک مرقع ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملت نے باصلاحیت رہنما پیدا کرنے بند کر دیے ہیں۔ اس نظم کے علاوہ بھی یہ خیال کلام اقبال میں آخر تک موجود ہے:​
کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دلنوازی
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیکسی مردِ راہ داں کے لیے
نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں وہ شبانی
کہ ہے تمہیدِ کلیم اُللّہٰی
میرِ سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
منزلِ راہرواں دور بھی دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے
ابھی مصطفی کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی نے اپنی اپنی قوم کے لیے بہت کام کیا، لیکن ان کی سعی کے وہ نتائج نہ نکلے جس کے متمنی اقبال تھے۔ یہ حضرات اور ملت اسلامیہ پر مسلط ہونے والے دیگر شہنشاہ، رہنما اور علما ان صلاحیتوں سے عاری تھے جو کسی ملت کو دنیا کی منتخب قوموں میں بدل سکتی ہیں اس وجہ سے اقبال اُن کے گلہ گزار رہے۔ جن رہنماؤں سے اقبال نے توقعات وابستہ کیں انھیں ان کی قوم نے یا مغرب کی سازشوں نے کام کرنے کا موقع نہ دیا۔ نتیجہ یہ کہ ملت فیض حاصل کرنے سے محروم رہی اور حقیقت یہ ہے کہ عالم اسلام کا آج بھی سب سے بڑا مسئلہ رہنماؤں کی کمی کا ہے۔ اس وقت تک کسی اسلامی ملک کا کوئی رہنما اپنے آپ کو ملت اسلامیہ کا حقیقی قائد تسلیم نہیں کرا سکا۔ وہ ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اختلافات پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملت کو مزید تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔ رہنمایان ِملت میں علمائے دین اور سجادہ نشینان خانقاہ بھی نمایاں حیثیت کے حامل ہیں، جس طرح سیاسی رہنما انحطاط پذیر ہوئے اسی طرح صوفی و ملا بھی زوال کا شکار ہوئے۔ عالمِ اسلام میں مساجد اور خانقاہیں کثرت سے ہیں۔ خصوصاً ہندوستان اور پاکستان میں خانقاہی سلسلہ بے حد وسیع ہے۔ کروڑوں لوگ مسجدوں اور خانقاہوں میں جاتے ہیں اور علماء و صوفیاء سے فیض پانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ مسجدوں کے ائمہ اور خانقاہوں کے صوفیاء الا ماشاء اللہ ملت کے عام افراد سے بہتر نہیں ۔ اُن میں وہ تمام خرابیاں راہ پا چکی ہیں، جو عام لوگوں میں موجود ہیں۔ اُن کے ظاہر و باطن میں واضح تضادات موجود ہیں۔ مذہب اور تصوف نے اُن کے دل و دماغ کو روشن نہیں کیا۔ وہ روایتی طور پر چند رسوم و عبادات انجام دیتے ہیں اور پھر اُن تمام برائیوں میں عملی طور پر ملوث ہو جاتے ہیں، جو مذہب و تصوف کی ضد ہیں۔ پیروں نے ’نذرانوں‘ سے اپنے محل تعمیر کر لیے ہیں اور علمائے دین نے فرقوں کے اختلافات کو ابھار ابھار کر اپنی حیثیتیں بنا لیں ہیں۔ اس لیے مسجد و خانقاہ مردہ ادارے بن کر رہ گئے ہیں ،جہاں سے کوئی مرد مومن نہیں اُٹھتا۔ مسجد و خانقاہ کے وارثوں سے اختلاف رائے کرنا اپنی تکفیر کرانے کے مترادف ہے۔ فروعی مسائل میں قوم کو الجھا کر اس کی صلاحیتیں ضائع کی جا رہی ہیں۔ مختلف مسالک کے افراد ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں اور جو طاقت اغیار کے خلاف استعمال ہونی چاہیے، وہ آپس میں لڑ لڑ کر تقسیم ہو رہی ہے۔ اقبال اپنے دَور کے علمائے دین، مفتیان شرع اور صوفیا سے بہت بیزار تھا۔ شاید اس کے کلام میں سیاسی رہنماؤں سے بھی زیادہ تنقید کا نشانہ علماء و صوفیا کو بنایا گیا ہے:​
واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ ازاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحبِ اوصاف حجازی نہ رہے
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگِ مسلمانی
یہ پیرانِ کلیسا و حرم، اے وائے مجبوری
صلہ ان کی کد و کاوش کا ہے سینوں کی بے نوری
علما و صلحا کے بعد اقبال کی تنقید کا نشانہ اہل مدرسہ بنے ہیں، جن میں اساتذہ اور طلبہ دونوں شامل ہیں۔ اقبال کو اساتذہ سے یہ گلہ ہے کہ وہ طلبہ کو نصابات پڑھاتے رہتے ہیں ،مگر اُن کے اذہان کی تربیت نہیں کرتے۔ طلبہ نصابات میں الجھے رہتے ہیں۔ مشاہیر کے اقتباسات رٹ کر امتحانات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں، مگر ’صداقت‘ کی تلاش اُن کا مطمح نظر نہیں بنتی۔ چنانچہ اقبال کبھی تو ملا، صوفی، طالب علم اور استاد کو الگ الگ تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور کبھی اُن کو یکجا کر کے اُن کی خرابیوں کو واضح کرتے ہیں:​
اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خونِ دل مرداں ہو جس فقر کی دستاویز
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
فقیہہ و صوفی و شاعر کی ناخوش اندیشی
میں ایسے فقر سے اے اہلِ حلقہ باز آیا
تمھارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
مکتبوں میں کہیں رعنائیِ افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟
خراب کوشکِ سلطان و خانقاہِ فقیر
فغاں کہ تخت و مصلٰی تمام زرّاقی
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری
میں جانتا ہوں جماعت کا حشر کیا ہو گا
مسائلِ نظری میں الجھ گیا ہے خطیب
ملا کی نظر نورِ فراست سے ہے محروم
بے سوز ہے میخانۂ صوفی کی مئے ناب
اقبال چاہتے ہیں کہ کورانہ تقلید کی بجائے ملت کے افراد سچائی کی تلاش کے لیے تحقیق و تدقیق کے راستے پر چلیں۔ یہ بڑا کٹھن راستہ ہے، پرُخار اور طویل، مگر اس کو اختیار کیے بغیر منزل پر پہنچنا ممکن نہیں، لیکن حالات یہ ہیں کہ صوفی، ملا اور اُستاد کسی کو آزادی اظہار دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ کیفیت ہو تو تحقیق کیسے پنپ سکتی ہے۔ یہ بات بلاوجہ نہیں کہ اقبال کے ہاںتحقیق اور صداقت کی تلاش پر اتنا زور دیا گیا ہے:​
شیر مردوں سے ہوا بیشۂ تحقیق تہی
رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی
فقیہہِ شہر کی تحقیر کیا مجال مری
مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈھتا ہوں دل کی کُشاد
کیے ہیں فاش رموزِ قلندری میں نے
کہ فکرِ مدرسہ و خانقاہ ہو آزاد
حلقۂ شوق میں وہ جرأتِ رندانہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
اور ایک دعائیہ نظم میں کہتے ہیں:​
بے لوث محبت ہو بیباک صداقت ہو
سینوں میں اجالا کر دل صورتِ مینا دے
احساس عنایت کر آثارِ مصیبت کا
امروز کی شورش میں اندیشۂ فردا دے
تحقیق کے ذریعے صداقت کی تلاش پر اقبال نے جب اتنا زور کلام صرف کیا ہے تو ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا اقبال کو خرد دشمن کہنا درست ہے یا محض غلط فہمی ہے؟ انھوں نے عشق کی توصیف میں بہت نغمے گائے ہیں اور قوت عمل کو اُبھارنے کے لیے عقل پر تنقید بھی کر دی ہے، مگر انھیں معروف معنوں میں عقل کا مخالف قرار دینا درست نہیں، جو شخص مردِ مومن کے بارے میں یہ لکھے وہ عقل کا مخالف نہیں ہو سکتا:​
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیِ محفل ہے وہ
جب وہ ہمیں بار بار تدبر اور تحقیق اور تلاش صداقت پر اکساتے ہیں تو یہ باتیں عقل کے بغیر حاصل نہیں کی جا سکتیں۔ اگر جہان تازہ کی افکار تازہ سے نمود ہوتی ہے، تو اقبال افکار تازہ کی دعوت دیتے ہوئے عقل کے مخالف ہو ہی نہیں سکتے کہ افکار کا تعلق عقل سے ہے۔ اب اقبالیات کے ماہرین کو چاہیے کہ ہماری جذباتی قوم کو نعروں پر زندہ رکھنے کی بجائے اسے غور و فکر کی دعوت دیں۔ جب کوئی قوم غور و فکر کے بعد اپنا ہدف متعین کر لیتی ہے ،تو عشق کا مرحلہ اس کے بعد آتا ہے۔ جب آپ کو یقین ہو جائے کہ آپ نے اپنے مقاصد کا تعین کر لیا ہے، اس وقت ان کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگانے کا مرحلہ آتا ہے، اور اسی کا نام عشق ہے،مگر اس کے بغیر قوم میں جذباتیت پیدا کرنے کا مقصد محض اُن کو آپس میں لڑانا اور تقسیم کرنا ہی ہو سکتا ہے۔ مثلاً پاکستان کے فرقہ وارانہ، لسانی، علاقائی، اقتصادی، سیاسی مسائل پر جس قدر از سر نو غور کرنے کی آج ضرورت ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی،لیکن اقبالیات کے جلسوں میں محض چند جذباتی یا روایتی باتیں کہہ کر لوگ رخصت ہو جاتے ہیں اور کسی ایک فرد کے دل میں تحقیق و اکتشاف کی ایک لہر بھی پیدا نہیں ہوتی۔ اقبال ملت ِاسلامیہ کے ایک بہت بڑے مفکر ہیں ،مگر اُن کی سوچ کو چند فرسودہ باتوں تک محدود کر دینا نہ تو اقبال کے ساتھ انصاف ہے اور نہ ہی ملتِ اسلامیہ کی خدمت ہے۔ اقبال ملت کے افراد کو ذاتی اغراض سے بلند ہو کر سب کی بھلائی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہنماؤں اور مقتدر طبقات کی توجہ خود احتسابی اور خود انتقادی کی طرف دلاتے ہیں، جس کے بغیر اصلاح ممکن ہی نہیں۔ خوش فہمیوں میں مبتلا قومیں اپنی کمزوریوں کو دُور نہیں کر سکتیں۔ وہی قومیں عروج کی طرف سفر کرتی ہیں، جن کے افراد اس سلسلۂ روز و شب کے حالات و واقعات کو پرکھتے ہیں اور اس غور و فکر کے نتائج کو رُو بہ عمل لانے کے لیے اُن خصوصیات کو پیدا کرتے ہیں ،جن کی تلقین خضر راہ (بانگِ درا) کے مندرجہ ذیل بند میں کی گئی ہے:​
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
زندگی کی قوتِ پنہاں کو کر دے آشکار
تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیداکرے
خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعلِ گراں پیدا کرے
سوئے گردوں نالۂ شبگیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنا راز داں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

ماخذ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اقبالؒ کی ایک کرداری نظم جبریل وابلیس - مختصر جائزہ
3504_14632614.jpg

ڈاکٹر ضیاء الحسن

جبریل و ابلیس اقبال کی ایک مکالماتی اور کرداری نظم ہے، جو عنوان کی مناسبت سے دو کرداروں ، جبریل اور ابلیس پر مشتمل ہے۔ جبریل کا کردار تقدیس ، تسبیح و تمجید ،عبادت واطاعت کی علامت ہے جب کہ ابلیس کا کردار سرکشی ، بغاوت ،حرکت وعمل ، نافرمانی ، خودشناسی و خودنگری کی علامت ہے ۔ جبریل صرف اتنا ہی جانتا ہے جتنا اس بتادیا گیاہے ۔ وہ مزید جاننا بھی نہیں چاہتا ۔ ابلیس منشائے خداوندی سے سب سے زیادہ آگاہی رکھتا ہے ، انسان سے بھی زیادہ جسے صحائف کے ذریعے وقتاً فو قتاً آگاہی دی جاتی رہی ہے ۔اقبال ایک ایسے شاعر تھے، جنھوں نے کائنات کی پیدا ئش ، آدم کی تخلیق ، ہبوط ِ آدم اور انسان وکائنات کی غرض وغایت پر مابعد الطبیعاتی فکر کی روشنی میں غور کیا ۔ وہ جہاں صحائف میں مذکور دانش سے آگاہ تھے ، وہاں مشرق ومغرب کے جدید و قدیم فلسفوں ، سائنس اور شوشل سائنسوں سے بھی واقفیت رکھتے تھے ۔ انھیں قصۂ آدم سے خصوصی دل چسپی تھی اور اس قصہ کی فلسفیانہ جہات سے انھوں نے انسان ، کائنات اور خداکے وجود کو سمجھنے کی سعی کی اور اس نظریے تک پہنچے، جس کی مختلف تفصیلات اُن کی اردو فارسی شاعری میں بکھری ہوئی ہیں ۔ اقبال نے یہ نظم غزل کی ہئیت میں لکھی ہے ۔ اس نظم کی بحرر جز مثمن سالم ہے ،جو پر شکوہ لب و لہجے کے لیے بہترین ہے ۔ یوں تو اقبال کی پوری شاعری میں اُسلوب کا شکوہ مسلسل اپنا احساس دلاتا ہے، لیکن اس نظم میں اقبال نے دو کائناتی کرداروں کی گفتگو کو پیش کرنا تھا ، اس لیے اس کی لفظیات ، استعارات اور اصوات سے انھوں نے وہ کائناتی گونج پید ا کی ہے ،جس سے اس کی تاثیر کئی گنا بڑھ گئی ہے :
ہم دم دیرینہ کیساہے جہان ِرنگ وبو؟
نظم کے اس پہلے حصے میں جبریل اپنے پرانے ساتھی ابلیس سے پوچھتے ہیں کہ وہ جہان جس کے لیے تُونے فرشتوں کی پاکیزہ محفل چھوڑی ہے، کیساہے ۔ اس یک مصری مکالمے میں دوتراکیب بہت اہم ہیں ۔
(۱) ہم دم دیرینہ
(۲) جہانِ رنگ وبو۔
پہلی ترکیب سے اس تعلق کا اظہارہوتاہے ،جو ایک پرانے دوست کے لیے چاہے و ہ دوستی ترک ہی کیوں نہ کر چکا ہو، فطری طورپردل میں موجود ہوتاہے ۔ یہ دوستی کا ایک تقاضا ہے ۔ اس میں محبت اور چاہت ہے ،لیکن ساتھ ملال اور افسوس بھی ہے ۔ا س ترکیب سے مصرعے کے مجموعی مزاج کا تعین کیاگیاہے ۔ دوسری ترکیب جہانِ رنگ بوہے ،جس سے پتا چلتا ہے کہ اختیار نہ کر سکنے کے باوجود جبریل کے دل میں بھی دنیاکی کشش ہے ۔ بنیادی طور پر جہانِ رنگ و بو حسُن کا استعارہ ہے :
سوزوسازودردوداغ وجستجو وآرزو
ابلیس کا جواب جامع اور اشارتی ہے ۔ یہاں ابلیس کے لب ولہجے میں ان عناصر کی قدروقیمت کا احساس ہوتا ہے ۔ مصرعے کی ساخت بتاتی ہے کہ ابلیس ان عناصر کو کتنا اہم سمجھتا ہے ۔ا س ایک مصرعے میں اقبال نے انسانی زندگی کی کل سرگزشت بیان کر دی ہے ۔ گویاانسانی زندگی ان ہی عناصر پر مشتمل ہے ۔ انسان کے دل میں آرزو پید اہوتی ہے، وہ اس آرزو کی جستجو کر تاہے ۔اس جستجو کے دوران میں اسے درد و داغ ملتے ہیں اور آخر کار منزل یعنی سوزوساز تک رسائی حاصل ہوتی ہے ۔ اقبال کے نزدیک زندگی نہ محض سوز ہے اور نہ محض ساز بلکہ ان دونوں پر مشتمل ہے ۔یہاں سوز جلال کا اور ساز جمال کا استعارہ ہے یا سوز قوت کا اور ساز عشق کا استعارہ ہے ۔ اقبال زندگی کو ان دونوں کا مرکب یعنی دونوں کے ملاپ کا نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ اقبال نے اس بات کوایک اور شعرمیںیوں بیان کیا ہے :
شمشیروسنان اوّل ، طاؤس و رباب آخر
یہاں انسان جلال وجمال کا مرقع نظر آتا ہے ۔ اس مکالمے کواس نظم کا مرکزی خیال سمجھنا چاہیے:
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاکِ دامن ہو رفو؟
جواب میں جبریل اُسے بتاتے ہیں کہ اے ابلیس اگرچہ تونے منزل افلاک چھوڑ دی ہے، لیکن تونے جو پاکباز اور سراپا نیاز زندگی افلاک پر گزاری تھی ، وہ آج بھی فرشتوں کے لیے مثال ہے ۔اس مکالمے کے پس منظر میں ابلیس کی انکار سے قبل کی تمام زندگی کی طرف اشارہ ہے جس میں وہ اپنی عبادت گزاری وفرمانبرداری کے طفیل فرشتوں میں اعلیٰ ترین مقام تک جاپہنچا تھا ۔ اس مکالمے کے دوسرے مصرعے میں جبریل اور دیگر فرشتوں کی اپنے ساتھی کی ذلت وخواری پر درمندی کا اظہار بھی ہوتاہے اور اس کو اس ذلت سے نکالنے کی آرزو کا اظہار بھی ہے ۔ جب جبریل کہتے ہیں :
کیانہیں ممکن کہ تیرا چاک ِ دامن ہورفو؟
تواس میں خوف بھی ہے کہ کہیں ابلیس انکار نہ کر دے اور آرزو بھی ہے کہ کاش وہ چاکِ دامن کی رفو گری پر آمادہ ہوجائے یعنی غلطی کی تلافی ہوجائے ۔ اس مصرعے کالب ولہجہ بتاتا ہے کہ بظاہردو ہم مرتبہ ایک دوسرے سے محوِ گفتگو ہیں ،لیکن ایک کے لہجے میں تیقن او راتھارٹی ہے جب کہ دوسرے کے لہجے میں منت سماجت اور رَد کیے جانے کا خوف اور ہمدردی ہے۔یہاں دامن کا چاک ہونا بہت اہم علامت ہے کیونکہ ہماری تمام کلاسیکی شاعری میں چاک دامانی عشق کااستعارہ ہے۔ بنیادی طور پر بندگی ہی مقام عشق ہے اور شانِ خداوندی مقام محبوبیت ہے ۔ اسی طرح ایک اور نظم میں اقبال نے ابلیس کو خواجۂ اہل فراق کہاہے ،جس سے پتا چلتا ہے کہ اقبال ابلیس کے کس قدر بلند مرتبے کے قائل تھے کیونکہ وہ ہجر کو عشق کی سب سے اعلیٰ منزل سمجھتے ہیں ۔ کیوں کہ وصل آرزو کی موت اور ہجر میں طلب کی لذت ہے جو ہمہ وقت مصظرب اور متحرک رکھتی ہے :
آہ اے جبریل! تُو واقف نہیں اسے راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو، ٹوٹ کر میرا سبو
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو
جس کی نومیدی سے ہو سوزِ درون کائنات
اس کے حق میں ’’تقنطو اچھا ہے یا لاتقنطو‘‘
جبریل کے سوال کے جواب میں ابلیس کا ایک طویل مکالمہ ہے ۔ اس میں بھی دراصل اقبا ل نے اپنا نظریہ بیان کیاہے۔اس کے پہلے لفظ آہ میں افسوس اور ملال کا عنصر ہے کہ کاش تو واقف ہوتا کہ تیری ساری بزرگی ،عبادت ، رضامندی تیری ناواقفیت میں پوشدہ ہے ۔ یہاں اقبال نے لفظ واقف لکھ کر کمال کردیاہے کہ اس کے پس منظر میںپورا قصہ آدم ؑرکھ دیا ہے ۔ جہاں فرشتے خدا سے کہتے ہیں انسان تو دنیا میں خون خرابا کرے گا اور تیری عبادت ہم کرتے ہیںاوراس سے اعلیٰ ہیں، لیکن خداتعالی آدمؑ کو اسما ء سکھا کر برتر کرتے ہیں، یعنی ناواقف کو واقف کرتے ہیں ۔ یہ چھوٹا سا لفظ بڑی معنویت رکھتا ہے ۔یہاں جبریل اپنے بلند مقام اور خدا سے اپنے تقرب کے باوجود ، ابلیس سے جو واقف اسرار ہے ، کم ترمقام پر نظر آتاہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میرا سبواگرچہ ٹوٹ گیاہے لیکن ردعمل کے طورپر مجھے یہ رندی وسرمستی کی کیفیت دے گیاہے ۔ سبو کے ٹوٹنے کا نتیجہ تویہ ہونا چاہیے تھا کہ سرمستی ختم ہوجاتی لیکن یہ ایسا سبو ہے جو ٹوٹ کر بھی سر مست کر تاہے ۔ سبو کا ٹوٹنا اس کی غلطی کا استعارہ ہے ۔ سائنسی اصطلاح میںبات کریں تو ابلیس یہاںMutation کی بات کر رہا ہے، جس سے زندگی ارتقا کے مراحل طے کرتی ہے اور آگے بڑھتی ہے ۔ ابلیس کے سبو کا ٹوٹنا بھی ایک Mutational عمل ہے، جس کی وجہ سے کائنات نے نئی کروٹ لی اور نئے ڈھب سے آگے بڑھی ۔ اس لیے ابلیس جبریل کی ناواقفیت پر ملال کر تاہے اور کہتا ہے کہ میَںجس جہاں سے آشنا ہوا ہوں، تُو اس سے واقف نہیں ،ورنہ تو مجھے افلاک پر واپسی کی دعوت نہ دیتا کیونکہ تیری رضا خاموش ہے ، سوزو ساز سے خالی ہے ، بے ہنگامہ و بے رونق ہے ۔ اس جہاں میں اب میرا گذار نہیں ہوسکتا ، ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اقبال نے ایک اور کمال کیاہے کہ ’’ممکن نہیں‘‘ کی تکرار سے اسے حق الیقین کے مرتبے پرپہنچا دیا ہے ۔ یہ تکرار صرف تکرار نہیں بل کہ گہر ی مغویت کی حامل ہے ۔ ابلیس نافرمانی کی وجہ سے دنیامیں بھیجا گیا ، چنا نچہ و ہ رحمت ایزدی سے مایوس و ناامید ہوگیا لیکن اس کی وجہ سے ہی دنیا میں تلاش و جستجو کا سلسلہ جاری ہوا ،اس لیے وہ لا تقنطو کو اپنے لیے بہتر سمجھتا ہے : کھو دیے انکار سے تُو نے مقامات بلند چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو؟ ابلیس کے مکالمے سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اپنے مقام سے مطمئن ہے لیکن اس حصے میں جبریل کا سوال یہ ظاہر کرتاہے کہ وہ ابلیس کے جواب سے مطمئین نہیں ۔ وہ اسے کہتا ہے کہ اے ابلیس تو خودہی راندہ ِ درگاہ نہیں ہوا بل کہ تُونے تمام فرشتوں کو اپنے عمل سے خداوند کریم کے سامنے شرمسار اورنگوں کردیا ہے ۔ جبریل کا انداز الزام عائد کرنے والا ہے ۔ اس شعر سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکار سے پہلے ابلیس جس مقام و مرتبہ پر فائز تھا ، وہ جبریل کے لیے بھی مقام رشک ہے ۔ جبریل بھی اس مقام پر فائز نہیں ہوااور وہ مقام جبر یل کے لیے بھی مقام بلند ہے ۔ جبریل کی اس بات کے جواب میں ابلیس جو کچھ کہتاہے، اس سے پتاچلتا ہے کہ زندگی ، کائنات اور منشا ے خدا وندی تینوں کو ابلیس جبریل سے زیادہ بہتر جا نتا ہے ۔ا س شعر میں بھی اقبا ل کے ہاں ابلیس کا کردار بہت طاقتور نظر آتاہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اقبال سمجھتے ہیں کہ ابلیس کا کردار اس کارخانہ خداوندی کو چلانے کے لیے سب سے اہم ہے حتیٰ کہ نائب خدااور اشرف المخلوقات حضرت انسان کا ہر عمل ابلیس کا مرہون منت نظر آتاہے :

ہے مری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو

ابلیس کی آخری گفتگو پر مشتمل یہ مکالمہ مطلع سے شروع ہوتاہے، جس سے پتا چلتا ہے کہ ہئیتی اعتبار سے یہ غز ل کے بجائے دو غزلہ ہے ۔ اقبال چاہتے تو غزل کی ہئیت برقرار بھی رکھ سکتے تھے، لیکن اس حصے کو مطلع سے آغاز کرکے انھوں نے اس مکالمے کی اہمیت اور مرکز یت قائم کی ہے ۔ گویا ہئیت نے اس کی معنویت میں اضافہ کیا ہے :

دیکھتا ہے تُو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، میَں کہ تُو؟


اس بند کے دوسرے شعر میں ابلیس نے اپنا موازنہ جبر یل سے کیاہے ۔ یہاں بھی اقبال نے وہ استعاراتی زبان استعمال کی ہے جس کی وجہ سے اقبال کی شاعری اعلیٰ مقام پر فائز ہوجاتی ہے ۔انھوں نے اس نظم کو تخلیق کرتے وقت جو قصہ منتخب کیا ہے وہ ان کا اپنا تخلیق کردہ نہیں ہے بل کہ یہ ان تک مختلف مذاہب کے ذریعے اور خاص طورپر قرآن کے ذریعے سے پہنچا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اے جبریل تو ساحل پر کھڑے ہوکر طوفان خیروشر کو محض دور سے دیکھتا ہے ۔ تو طوفان خیر وشر نہ پیدا کرسکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے ۔ یہ میں ہی ہوں جو اس طوفان میں مردانہ وار کود پڑتاہوں ۔ اس طوفان کومیں نے ہی پیدا کیا ہے اور میں ہی اس کی سختیاں اور مصیبتیں برداشت کر رہا ہوں ۔ اس شعر میں بھی ابلیس کے لب ولہجہ میں بڑے فرشتے جبریل کے لیے حددرجہ حقارت پائی جاتی ہے ۔ یہاں بھی ابلیس کا کردار غالب نظر آتاہے :
خضر بھی بے دست و پا، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفان یم بہ یم، دریا بہ دریا، جوُ بہ حُو
یہاںابلیس نے دو پیغمبروں سے اپنا موازنہ کیاہے ۔ اقبال کے بیان سے صاف محسوس ہوتاہے کہ ابلیس کا کردار اُن دونوں سے بڑا ہے ۔ جب اقبال نے خضر ؑو الیاسؑ کے لیے بے دست وپا کا لفظ استعمال کیا ،تو اس کے سامنے پورا کائناتی منظر تھا۔ کائنات کوان دو شعروں میں اقبال نے ایسے دیکھا ہے جیسے اس کے ذرّے ذرّے میں طوفان خیروشر برپاہے ۔ جبریل اس طوفان میں پاؤں دھرنے کے قابل نہیں ۔ خضرؑ والیاسؑ اس طوفان میں کودے ضرور،لیکن تنکے کی طرح بہہ گئے اور ابلیس یہ طوفان پید ا کررہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کائنات کا کوئی گوشہ ایسانہیں، جو میرے طوفانوں سے بچا ہوا ہو۔ گویا ابلیس پوری دنیا پر اپنے چھا جانے کا ثبوت دیتا ہے :

گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو

اس شعر کا لب ولہجہ تباتا ہے کہ ابلیس جبر یل کو فہم سے عاری مخلوق سمجھتا ہے، جسے صرف اتنا ہی معلوم ہوتا ہے جتنا اُسے بتا یا جاتاہے ۔ ہ کہتا ہے کہ تمھیں میرے بارے میں کئی باتیں بتائی گئی ہیں لیکن یہ نہیں بتا یا گیا کہ قصہ آدم میں رنگینی میرے ہی لہو سے پیدا کی گئی ہے ۔ گویا ابلیس یہ کہتاہے کہ میرالہو یعنی میرا انکار شامل نہ ہوتا تو قصہ آدم بے رنگ رہتا۔ اس میں حسن ، کشش اور گہرائی نہ ہوتی ، اس کے کوئی معنی نہ ہوتے ۔ اس شعرکی اس ترکیب کہ ’’گرکبھی خلوت میسر ہو ‘‘ کا ٹکڑا ظاہر کرتا ہے کہ ابلیس جبریل کو کس کم تر درجے پر فائز سمجھتا ہے کہ اُسے خدا سے خلوت میسر ہوتی ہی نہیں ، اگرچہ اُسے خدا کا مقرب سمجھا جاتاہے :

میَں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح
تُو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو

اس شعر میں بھی اقبال نے جبریل وابلیس کا موازنہ کیاہے ۔ یہاں جبریل ایک ٹیپ ریکارڈر نظرآتا ہے جس میں اللہ ہو، اللہ ہو، ریکارڈ کردیا گیا ہے اور وہ اس کے علاوہ کچھ بھی نہیںکہنے کی طاقت صلاحیت نہیں رکھتا ۔ اس کے مقابل ابلیس وہ ہے ،جو خدا سے انکار بھی کرسکتا ہے اور حکم عدولی بھی ۔اس مقام بلند پر ابلیس کے علاوہ کوئی متمکن نہیں ۔ جب وہ کہتاہے کہ میَں دل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہوں ،تواس اس سے اپنی عظمت کا اظہار مقصود ہے ۔ شعر کا لب ولہجہ طنزیہ ہے اور طنز کا ہدف جبریل ہے جسے اقبال نے عبادت ِمحض کا استعارہ بنایا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جہاں کانٹے کی طرح کھٹکنے کی بات ہے وہاں اقبال نے یزداں کا لفظ استعمال کیاہے ۔ یزداں ایرانی فکر میں خدا ئے خیر ہے ، گویا یہاں اقبال خدا وند کائنات کی با ت نہیں کررہے بل کہ خدائے خیر کی بات کر رہے ہیں ۔ اقبال نے جس جگہ ’’یزداں بہ کمند آور‘‘ لکھا ،وہاں بھی اُن کی یہی احتیاط پسند ی نظر آتی ہے ۔

ماخذ
 
عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال

تحریر:
پروفیسر عبدالجبار شاکر
مغرب میں تہذیبِ جدید کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں ہوا۔ دریافت، جستجو، تحقیق اور تلاش کی روایت نے علوم و فنون میں نئے نئے امکانات پیدا کیے۔ علوم میں اس سائنسی فکر نے مسیحیت کے حلقوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑا دی۔ مذہب اور علومِ جدیدہ میں ایک کشمکش کا آغاز ہوا جو بالآخر ایک نفرت اور تصادم میں ڈھل گیا۔ علومِ نو اور فنونِ جدیدہ کی روایت کو مستحکم کرنے میں سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں نے سُقراط نما قربانیاں پیش کیں۔ مگر اس رویے نے مغرب میں سائنس اور مذہب کے درمیان ایک مستقل خلیج پیدا کردی۔ تہذیبِ مغرب میں سیکولرازم کا رویّہ اسی فکری تصادم کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ مذہب اور سائنس کے درمیان یہ خلیج جدید عالمی تہذیب کے مادّی ارتقا میں ایک اخلاقی اور روحانی افلاس کا پیش خیمہ بن گئی جس سے تہذیبی اور تمدنی اقدار ابھی تک مضمحل ہیں۔​
تہذیب جدید نے سائنسی فکر کے فروغ اور ارتقا میں جو کردار ادا کیا اس کے نتیجے میں مغرب ایک صنعتی اور مشینی کلچر میں ڈھل گیا۔ اشیا اور خدمات کا ایک ریلا تھا جس کے لیے نئی نئی منڈیوں کی تلاش ایک ناگزیر ضرورت بن گئی۔ سستے خام مال کی ضرورت نے بھی یورپی اقوام کو افریشیائی ممالک کی طرف پہلے جھانکنے، پھر داخل ہونے اور بالآخر قابض ہونے کے مواقع فراہم کیے۔ یوں تہذیبِ جدید علومِ نو اور فنونِ جدیدہ کی پیغام بر ہونے کے باوجود استبدادی، استحصالی اور استعماری رویوں کی حامل بن گئی۔ سترہویں صدی عیسوی میں مغرب کو مشرق کی سلطنتو ں میں داخل ہونے اور پھر سیاسی غلامی میں تبدیل کرنے کے مواقع ملے۔ اس سیاسی غلامی سے مشرق اقتصادی اور معاشی بحران کا شکار ہوا۔ اس بحران کی تکلیف دہ صورت وہ ذہنی غلامی تھی جس کے نتیجے میں مشرق و مغرب کے درمیان ایک دائمی نفرت کی دیوار تعمیر ہو گئی۔ یوں مشرق و مغرب ایک دوسرے کے حلیف بننے کے بجائے حریف بنتے چلے گئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ایک مدت تک مغرب اور انگریز سے نفرت مغربی علوم سے بھی نفرت میں ڈھل گئی، جس کے دیرپا اور دوررس نتائج کو ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ مغرب بھی ایک تاریخی غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مادّی ترقیات اور سائنسی فتوحات کے نتیجے میں جو قوت و سبقت اسے حاصل ہوئی ہے، وہ اب اسے ایک عالمی غلبے کی صورت دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے قریب ترین حریف روس کو ایک عارضی شکست سے دوچار کر دیا ہے اور اب وہ اسلامی تہذیب یا مشرقی تہذیبوں کو نگل کر ایک عالمی تہذیب کا خواب دیکھ رہا ہے جس کی جلد تعبیر کی تمنّا میں دنیا ایک جہنم زار کی صورت میں سلگ رہی ہے۔​
مغرب آج جس آفاقی تمدن اور عالمگیر تہذیب کا تمنائی ہے، اس منصب پر کبھی یونانی اور ان کے بعد رومی فائز رہ چکے ہیں مگراب ان کی حیثیت تاریخ کے اوراق پر ثبت ایک مرقع عبرت سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔​
ہم اس موقع پر کلچر اور سویلائزیشن کی اصطلاحات کی تشریح و توضیح میں الجھنا نہیں چاہتے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ اصطلاحات کبھی مترادف اور کبھی مخصوص مفاہیم میں استعمال ہوتی چلی آئی ہیں۔ مشرقی علوم کے آداب کو پیش نظر رکھا جائے تو تہذیب کے لیے کلچر اور تمدن کے لیے سویلائزیشن کی اصطلاحات موزوں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں پر ایک تاریخی حقیقت کا بیان ضروری ہے کہ عالمِ اسلام میں تہذیب کے اصول و مبادی پہلے بیان ہوئے اور پھر ان کی روشنی میں تمدنی ارتقا کے مظاہر سامنے آتے چلے گئے۔ مغرب میں معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ مغرب میں تمدنی ارتقا پہلے ہوا ہے اور بعد ازاں تہذیبی آداب و رسوم کی تخلیق یا تلاش کا عمل جاری ہوا ہے۔ مشرق و مغرب کی تہذیب و تمدن میں تاخیر اور تقدیم کے اس راز کو سب سے زیادہ جس شخص نے سمجھا ہے وہ علامہ محمد اقبال ہیں، جنہوں نے اس بات کو فلسفیانہ سطح پر تو اپنے الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید والے خطبات میں پیش کیا ہے مگر سریع الفہم اسلوب میں اپنی شاعری میں بیان کر دیا ہے۔ پیش نظر رہے کہ تمدنی ارتقا کا تعلق ہمیشہ مادّی وسائل سے رہا ہے اور تہذیبی ارتقا کی بنا اخلاقی یا روحانی اقدار ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال نے مغرب کے اس تہذیبی افلاس کا اولین مشاہدہ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء کے دوران میں قیامِ انگلستان میں کیا۔ اس دورانیے میں وہ بہت تھوڑے وقفے کے لیے جرمنی بھی گئے۔ مارچ ۱۹۰۷ء میں انہوں نے اپنی ایک نظم میں پہلی مرتبہ جدید تہذیب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا:​
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا​
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا​
گزر گیا اب وہ دورِ ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے​
بنے گا سارا جہاں میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا​
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے​
کَھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا​
تمہاری تہذیب، اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی​
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا​
علامہ محمد اقبال نے گوئٹے کے ’’مغربی دیوان‘‘ کے سو سال بعد ۱۹۲۳ء میں ’’پیامِ مشرق‘‘ کے عنوان سے اس کا منظوم جواب فارسی زبان میں لکھا مگر اس کا فکر انگیز مقدمہ اردو زبان میں تحریر کیا، اپنے موضوع کی مناسبت سے اس دیباچے کے آخر سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے:​
’’۔۔۔ اقوامِ عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم محض اس لیے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں، ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ یورپ کی جنگِ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن اسٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے۔ یورپ نے اپنے علمی، اخلاقی اور اقتصادی نصب العین کے خوفناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں۔۔۔ اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالکِ مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابلِ احترام ہے۔‘‘​
آج کے موضوع کی تفہیم ایک بڑے علمی چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ عالمی سیاسیات میں مسلسل مدوجزر نے جو ارتعاش پیدا کر رکھا ہے، اس کا ایک پہلو وہ خطرناک جنگی صورت حال ہے جس نے تہذیبوں کی شکست و ریخت میں عالمی سکون کو برباد کر دیا ہے۔ دنیا کی مجموعی آمدنی کا ایک غالب حصہ انسانی قدروں میں احترامِ باہمی کی فضا پیدا کرنے والے اسباب کی دریافت کی نسبت ایسے حربی آلات کی تیاری میں صَرف ہو رہا ہے جن کا مقصود یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ بااندازِ دیگر یہ بھی عرض کیا جا سکتا ہے کہ عالمی دانش مکالمے اور مذاکرات کے کلچر کی نسبت قوت کی زبان سے مسائل کا حل چاہتی ہے، جو انسانی تاریخ میں نہ پہلے ممکن ہوا اور نہ آج ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ علامہ اقبال نے اس مسئلے کی فلسفیانہ توضیح کرتے ہوئے اسلامی الٰہیات کی تشکیلِ جدید میں ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ عالمِ اسلام ذہنی طور پر بڑی تیز رفتاری سے مغرب کی طرف جارہا ہے۔ ان کے نزدیک اس سفر میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ مغربی تہذیب اپنے شعوری پہلو سے اسلامی تہذیب ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔ ہمیں اگر خوف ہے تو صرف اس بات کا کہ مغربی تہذیب کی جو ظاہری چکاچوند ہے، وہ ہمارے اس شعوری سفر کو اسلام کی صحیح باطنی رسائی سے محروم نہ کر دے۔ جن صدیوں میں ہم سوئے رہے یورپ ان میں بڑے بڑے مسائل پر غور کرتا رہا اور ان مسائل کی نوعیت وہی ہے جن پر اس سے پہلے مسلم سائنس دان اور فلسفی غور و فکر کرتے رہے تھے۔ ازمنۂ وسطیٰ میں جب مسلمانوں کے کلامی مکاتبِ فکر تشکیل پا چکے تھے، اس سے اگلے دور میں انسانی فکر اور تجربے میں بہت قیمتی ترقی ہوئی ہے۔ انسان کا فطرت کو مسخر کرنا اسے ایک نیا ایمان اور غلبے کا نیا احساس عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر ایشیا اور افریقا کے مسلمانوں کی نئی نسل اپنے ایمان اور عقیدے کی نئی تعبیر چاہتی ہے، تو اس میں کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے۔ اسلام کی حیاتِ نو کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم ایک کھلے ذہن کے ساتھ مغربی افکار کا تجزیہ کریں اور یہ جائزہ لیں کہ جن نتائج پر آج مغرب پہنچا ہے وہ ہماری فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید میں کتنی معاونت کر سکتے ہیں۔​
گزشتہ تین چار صدیوں میں مغرب نے سائنسی انکشافات، طبّی معلومات، تسخیرِ کائنات اور حیرت انگیز ایجادات کے جو انبار لگائے ہیں، وہ بلاشبہ لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید ہیں۔ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو متعدد مقامات پر ہمیں اس کائنات کے مختلف اجزا میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے اور اس کے ساتھ تسخیرِ کائنات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ سائنس اور اسلام کہیں بھی متعارض دکھائی نہیں دیتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس مسلسل آیاتِ وحی کی تصدیق اور توثیق کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ہمارے علمائے دین اکثر اس علمی اور تحقیقی پیش رفت سے بے خبر اور غافل ہیں۔ اس علمی اور تحقیقی غفلت نے ہمیں جو نقصان پہنچائے ہیں، اس کے نتائج عالم اسلام میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال کو مغرب کی اس علمی اور سائنسی ترقی سے کوئی اختلاف نہیں مگر وہ اس مادّی ترقی کے جلو میں جو اخلاقی اور روحانی افلاس کے مناظر دیکھتے ہیں، اس پر انہیں بجا طور پر تشویش ہے۔ علومِ وحی سے غفلت یا انکار کے نتیجے میں جو سائنسی یا مادّی ترقی ہو گی وہ نسلِ آدم کے لیے اخلاقی زوال اور روحانی افلاس کے نتائج پیدا کرے گی۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’بالِ جبریل‘‘ میں ایک فکر انگیز نظم ’’لینن۔ خدا کے حضور میں‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس کے ایک مقام پر اقبال فرماتے ہیں:​
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی​
مغرب کے خداوند درخشندہ فِلزّات!​
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم​
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات!​
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت​
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات​
علم و تحقیق کے سوتے جب وحی سے منقطع ہو جائیں تو پھر اس کے نتیجے میں الحاد پھیلتا ہے۔ مادّی ترقی کے مظاہر ایک سیکولر معاشرے میں نگاہوں کو چکا چوند کر سکتے ہیں مگر اس سے دل کی دنیا برباد اور خوئے آدمیت مجروح ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے مغرب کی اس سائنسی ترقی اور ثقافتی انقلاب کا آج سے ایک صدی قبل خود اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کیا، اس لیے ان کے تجزیات میں ایک گہرائی اور دردمندی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے ہی مغربی معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہوئے وہ مذکورہ نظم میں کہتے ہیں:​
یورپ میں بہت روشنئ علم و ہنر ہے​
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات​
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں​
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں، بنکوں کی عمارات​
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے​
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات​
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت​
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات​
بیکاری و عریانی و مئے خواری و افلاس​
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟​
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟​
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات​
(بالِ جبریل)​
فکرِ اقبال میں ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کا تقابل دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ تقابل کے لیے ہم جنس اشیا اور حقائق کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے ہاں نثری تحریروں میں مغربی علوم کی تخلیقی نمو کا ذکر موجود ہے مگر وہ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر مغربی اقوام کے حال اور مستقبل سے مایوس اور نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلامی تہذیب بنیادی طور پر دل کی تہذیب ہے جب کہ مغربی تہذیب دماغی فتوحات پر منحصر ہے۔ اوّل الذکر تہذیب روح کی بالیدگی کا تقاضا کرتی ہے جب کہ ثانی الذکر تہذیب میں جسمانی اور بدنی لذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب وحی الٰہی کو اپنا سرچشمہ قرار دیتی ہے جب کہ مغربی تہذیب شعورِ انسانی پر انحصار کرتی ہے اور یہی اس کی محدودیت ہے۔ اسلامی فکر معاد پر توجہ دلاتی ہے جبکہ مغربی تہذیب فکر معاش کے جھمیلوں سے آگے نہیں جاتی۔ مشرقی تہذیب باطن کی روشنی پر توجہ دلاتی ہے جب کہ مغربی تہذیب ظاہر کے جمالِ دل فریب میں گھری دکھائی دیتی ہے:​
چہروں پر جو سرخی نظر آتی ہے سرِ شام​
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات​
(بالِ جبریل)​
اپنی نظم ’’خضرِ راہ‘‘ کے ایک بند میں اقبال نے مغربی تہذیب اور اس کے جمہوری نظام کے علاوہ اس کے اداروں پر برمحل تنقید کی ہے، جس سے اقبال کے ہاں شعور کی گہری، کارفرمائی، ادراک کی سطح اور تجزیے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے:​
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام​
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری​
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب​
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری​
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق​
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری​
گرمئی گفتارِ اعضائے مجالس الاماں​
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری!​
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو​
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو​
(بانگِ درا)​
فکرِ اقبال میں یہ توانائی تو موجود تھی کہ اس نے فرد کی خودی کو بیدار کر کے اس کو ملّی بے خودی کا درس دیا۔ غلام قوموں میں اپنی آزادی کے حصول کی تڑپ پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مراکش سے ملائیشیا تک غلامی کے شکنجے ٹوٹنے لگے اور بالآخر عالمِ اسلام نو آبادیاتی نظام کے استبدادی اور استعماری پنجوں سے آزاد ہو گیا۔ مگر اب نصف صدی سے زائد کا وقت گزر چکا کہ ہم ذہنی اور ثقافتی غلامی کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکے۔ ملّتِ اسلامی اپنی فکر و نظر اور نظامِ زندگی کے موافق کسی نظریاتی ریاست کی تشکیل نہ کر سکی اور یہ خواب ہنوز شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس ضمن میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ کاایک واقعہ لائقِ تذکرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ماسکو میں اسٹالن سے ملنے کا اتفاق ہوا تو اس کے سامنے انہوں نے اسلامی تہذیب کا نقشہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو کے خاتمے پر اسٹالن نے پوچھا:​
’’دنیا میں کون سی قوم اس نقشے کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہے؟‘‘ مولانا نے جواب دیا: ’’فی الوقت تو کوئی قوم بھی اپنی زندگی اس کے مطابق بسر نہیں کر رہی‘‘ تو اسٹالن نے آخر میں کہا: ’’جب کوئی قوم اس پر کاربند ہو جائے گی اور اس کا تجربہ ہو جائے گا تو پھر ہم دیکھیں گے کہ اس سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔‘‘​
علامہ اقبالؒ جس دور میں پیدا ہوئے، یہ برصغیر اور عالمِ اسلام میں نو آبادیاتی دور تھا۔ عالمِ اسلام میں مزاحمت کی تحریکیں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں۔ اس زمانے میں مشرقی اور مغربی تہذیبی اور ثقافتی اقدار میں کشمکش اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ مشرق بالخصوص عالمِ اسلام نہ صرف مغربی استعمار کے خلاف تھا بلکہ ان کی ثقافت اور علوم وفنون سے بھی نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ مسلمانوں میں ایک محدود تعداد مغربی علوم اور انگریزی زبان کے مطالعے کے حق میں تھی، جس کے نتیجے میں مسلمان بالعموم اور برصغیر کے مسلمان بالخصوص جدید تعلیم کے حصول میں بہت پیچھے رہ گئے۔ سائنسی تحقیقات اور علومِ جدیدہ نے ایک نئے عالمی معاشرے کی تشکیل میں بہت تیز رفتار اثرات پیدا کیے، جس کے باعث اسلامی فکر کو ایک نئے چیلنج کا سامنا تھا۔ علامہ محمد اقبال نے ایک طرف تو علومِ جدیدہ کے مطالعے کی پُرزور تائید کی تو دوسری طرف تمدنی مظاہر کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے ازالے کے لیے اجتہاد کی ضرورت پر بھی توجہ دلائی۔ مسلمانوں کے قدیم ادوار میں مختلف مکاتبِ فکر میں اجتہاد کا عمل جاری رہا مگر اب جدید اسلامی ریاستوں کے تقاضوں نے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت کو پیدا کیا جس میں علمائے کرام اور دینی علوم کے متخصصین کی اہمیت تو برقرار، مگر اجتہاد کے لیے اجتماعی اداروں کی ضرورت پیدا ہوئی۔ اقبال دورِ جدید میں پارلیمنٹ کو اجتہاد کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں، مگر اس پارلیمنٹ کی تشکیل کس طرح کی جائے کہ ماہرینِ شریعت جو اجتہاد کی بصیرت رکھتے ہوں، اسمبلیوں تک پہنچ سکیں؟ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی کی دہلیز پر سانس لیتی ہوئی اسلامی دنیا اپنی کسی ایک پارلیمنٹ میں ایسی فضا تیار نہیں کر سکی۔ البتہ ایسے قانونی اور فقہی ادارے جا بجا تشکیل پا چکے ہیں جو ریاستی دائرے کے اندر یا باہر امورِ اجتہاد کو آگے بڑھانے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔​
مغربی تہذیب نے اپنی سیاسی ہیئت کے لیے جمہوریت کو اختیار کیا جو بلاشبہ اسلام کے عطا کردہ شورائی نظام سے ماخوذ اور مستفیض دکھائی دیتی ہے مگر وہ اپنے عملی قالب میں وہ نتائج پیدا نہیں کر سکی جو ایک اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات سے ہم آہنگ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے مغربی جمہوریت کے تصور پر شدید تنقید کی ہے:​
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام​
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری​
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب​
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری​
(حضرِ راہ۔ بانگ درا)​
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو​
جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!​
(بالِ جبریل)​
متاعِ معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی؟​
زموراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید​
گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو​
کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانے نمی آید​
(جمہوریت، پیامِ مشرق)​
مغربی تہذیب اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں مگر اسلامی ریاستوں کے لیے اقبال ایک ایسی روحانی جمہوریت کے قالب کے تمنائی ہیں جو اسلامی معاشرت کی اقدارِ خیر کی ضمانت فراہم کر سکے۔ مغربی حکومتیں جمہوری مزاج رکھنے کے باوجود دنیا کو متحد کرنے کے بجائے منقسم کر رہی ہیں۔ معاشی سطح پر بھی مغربی تہذیب ایک استحصالی رویہ رکھتی ہے، جس کا مشاہدہ گزشتہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ یہ کیسی انصاف دشمن اور غیر عادلانہ تہذیب ہے کہ اقوامِ عالم کے پلیٹ فارم پر چند قوتوں کو ویٹو کا حق دیتی ہے جس کے نتیجے میں ظلم اور شقاوت پنپتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی اسی صورتحال کے پیش نظرمغربی تہذیب تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے اور مغرب کے پیرانِ خرابات اس تباہی اور بربادی کے منظر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ تہذیب کو ان دنوں جس زوال اور شکست کا سامنا ہے، اس کا علاج کسی دانشور کو سجھائی نہیں دیتا۔ امنِ عالم تار تار ہو رہا ہے اور چاروں جانب برق و بارود کا دھواں چھایا ہوا ہے۔ مشہور مغربی ادیب جارج برنارڈشا نے کیا خوب کہا تھا:​
’’جو ایک آدمی کو قتل کرے، اسے قاتل کہتے ہیں لیکن جو ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ لے، وہ فاتح کہلاتا ہے۔‘‘​
بیسویں صدی کے معروف برطانوی مؤرخ نائن بی نے تہذیبوں کے تصادم کے لیے Encounter of Civilization کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ دورِ حاضر کے یہودی مفکر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) نے اس Encounter کو Clash کا درجہ دے دیا ہے۔ اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا کے پروفیسر سیموئل پی ہٹنگٹن نے اپنی کتاب (Clash of Civilizations) میں تہذیبوں کے اس تصادم میں آویزش کے اس تصور کو جنگی جنون تک بڑھا دیا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب ’’خاتمۂ تاریخ‘‘ (The End Hastory) میں دنیا کے مستقبل کو جس نگاہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں بالآخر اقتدار ایک یک محوری قوت کے پاس چلا جائے گا اور یوں باقی ماندہ دنیا ایک نوآبادی کی شکل اختیار کر لے گی۔​
مغربی اقوام کے نزدیک اس تاریخی آویزش کا علاج گلوبلائزیشن یا عالمگیریت میں مضمر ہے۔ وہ اپنی عسکری قوت اور اقتصادی غلبے کے ذریعے سے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج دیکھنا چاہتے ہیں جس پر صرف اور صرف ان کی حکمرانی ہو مگر افریشیائی مسلمانوں کی نسلِ نو اپنے ایمان اور عقائد کی نئی تعبیر چاہتی ہے۔ تسخیرِ فطرت اور مظاہرِ کائنات کے مطالعہ کی تلقین ہمارے قرآنی صحیفے کی اہم تعلیم ہے، لہٰذا ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ مغرب کی اس ترقی کا جائزہ لینا ہو گا کہ جن نتائج اور سائنسی فتوحات کو ابھی تک مغرب نے حاصل کیا ہے، اس کے اصول کیا ہیں اور ان اصولوں کی اسلامی فکر کے ساتھ کس حد تک موافقت یا مغائرت موجود ہے۔ مغربی طاقتوں نے تسخیرِ کائنات کے اس سفر میں جہاں گیری اور جہاں داری کا درجہ تو حاصل کیا ہے مگر وہ جہاں بانی اور جہاں آرائی کے منصب سے محروم ہیں۔​
جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی​
جگر خون ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا​
(طلوعِ اسلام، بانگِ درا)​
اکیسویں صدی عیسوی میں تہذیبوں کی کشمکش نے جو عالمی صورتحال پیدا کر دی ہے، وہ کئی اعتبار سے تشویشناک ہے۔ اقوام کے درمیان مفادات کی جنگ نے ظلم اور استحصال کی قبیح صورتیں اختیار کر لی ہیں۔​
علامہ محمد اقبال نے نظم و نثر میں اپنا جو علمی کارنامہ پیش کیا ہے، اس کا مطالعہ تہذیبوں کی اس کشمکش میں امن و سلامتی کا پیغام پیش کرتا ہے۔ وہ مطالعہ احترامِ آدم کی اقدار پر مشتمل اس راستے کی نشاندہی کرتا ہے جس کی منزل اقوامِ عالم میں رنگ و خون اور زبان و جغرافیہ کے امتیازات سے بالاتر ہے۔ آیئے پیغامِ اقبال کو دنیا کے سامنے اس اعتماد کے ساتھ پیش کریں کہ یہ ہمارے موجودہ عالمی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔​
انسانی وحدت اور احترامِ آدم اسلام کے بنیادی عقائد اور اساسی تعلیمات میں شامل ہیں۔ اقبال احترامِ آدمیت کے شاعر ہیں اور اس کے مستقبل کی درخشانی کے لیے کائنات کی مادّی تعبیر کے ساتھ اس کی روحانی تعبیر کو سائنسی بنیادوں پر پیش کرتے ہیں، وہ عالمِ انسانیت کے مستقبل کا ایک واضح وژن اورمشن رکھتے ہیں۔ برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کا تصور انہوں نے اسی مشن کی تکمیل کے لیے پیش کیا تھا کہ انسانیت کی ایمانی، اخلاقی اور روحانی بالیدگی اور نشوونما کے لیے ایک ماڈل وجود میں لایا جائے جو ریاستِ مدینہ کے رنگ اور آہنگ میں ڈھلا ہوا ہو۔ اقبال کے نزدیک یہی وہ نظام اور پیغام ہے جس سے ایک عالمی تہذیب وجود میں آ سکتی ہے:​
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود​
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم​
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام​
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟​
(ضربِ کلیم)​
مغربی تہذیب انسانی تمدن کے ارتقا کی ایک شکل ہے جو جمہوریت اور سیکولرازم کی آغوش میں لپٹی ہوئی ایمانی اور روحانی اقدار سے نابلد ہے۔ مغرب کو کلیسا کی غیر حکیمانہ سوچ اور نفرت نے روحِ مذہب سے دور کر رکھا ہے یہاں تک کہ یہ انسانی فطرت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ مغرب مادّی ارتقا کے ساتھ اخلاقی نشوونما کے تقاضوں کو ہم آہنگ نہیں رکھ سکا ہے۔ اس کے ہاں مذہب سے انحراف کی وجوہ واضح ہیں۔ اس کا فکری تضاد یہ ہے کہ وہ عالمگیریت پر یقین رکھتا ہے مگر انسانوں اور معاشروں کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی تقسیم پر کاربند ہے۔ مغرب کا موجودہ معاشی، معاشرتی اور اخلاقی بحران اسے بہت جلد تبدیلی کی طرف مائل کرے گا مگر یہ تغیّر مستقیم ہونا چاہیے معکوس نہیں۔ مغربی دانشوروں کو جلد یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ موجودہ صورتحال تہذیبوں کا نہیں بلکہ مفادات کا تصادم ہے۔ عالمِ اسلام کے مفکرین کو بھی اس حقیقت کو اور زیادہ واضح کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی۔ عالمی تہذیب کا رنگ روپ الٰہامی پیغام سے تیار ہو گا اور یہ کارنامہ وہی انجام دے سکے گا جو Word of God اور Work of God کو ایک امتزاجی تناظر میں دیکھ سکے تاکہ ہم روشنی کی تہذیب کے بجائے تہذیب کی روشنی میں زندہ رہ سکیں۔​
بحوالہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ اپریل ۲۰۰۹ء
 
علامہ اقبال مسجد قرطبہ میں از حکیم راحت نسیم سوہدروی

تاریخ اسلام میں سپہ سالار طارق بن زیاد کی قیادت میں اندلس کی فتح کے بعد مسلمانوں نے وہاں ساڑھے سات سو سال سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی۔یورپ کی اس عظیم الشان سلطنت کو علم و حکمت اور فنون کا مرکز بنا کر اس بے پناہ ترقی دی گئی، جسکی روشنی سے یورپ منور ہوا۔ اس دوران مسلمانوں کا شہرہ یورپ ہی نہیں دنیا بھر میں ہونے لگا۔ پورا یورپ اس سے مرعوب تھا اور دنیا کی ہر قوم اس سے کوسوں پیچھے تھی۔ مگر دوسرا پہلو اس سے بھی المناک اور خوں چکاںہے کہ جب اندلس کے ان مجاہدوں نے اس حقیقت کو فراموش کردیا کہ وہ عقیدہ توحید اور امامت عالم کے امین ہیں تو خدا واحدہ لاشریک نے انہیں فراموش کردیا جس کے نتیجے میں وہ تاریخ عالم میں اس طرح فنا ہوئے کہ صدیوں گزرنے کے باوجود سرزمین اندلس کا چپہ چپہ ان کی ہلاکت بربادی اور زوال پر ماتم کناں ہے۔اس ہلاکت اور زوال کا سبب داخلی اتحاد کی کمزوری فرقہ واریت میں اُلجھنا اور شمشیر وسناں کو چھوڑ کر طاﺅس و رباب کا دلدادہ ہونا تھا۔ فرڈنیارڈ نے 1236ءمیں تقریباً آٹھ سو سال قبل جب مسلمانوں کو شکست دیکر اندلس( اسپین) پر اسلامی اقتدار کا خاتمہ کیا تو مسلمانوں کو ملک بدر بھی کردیا۔ مسلمانوں کی تعمیر کردہ عمارات اور مساجد پر فاتح عیسائی رائبوں نے قبضہ جمالیا۔ اس طرح قرطبہ کی عالی شان اور پُر شکوہ مسجد جسے مسجد قرطبہ کا نام دیا جاتا ہے اور جسکی تعمیر عبدالرحمن اول نے وادی الکبیر کے کنارے 758ءمیں شروع کرائی اور اسکی توسیع دسویں صدی تک جاری رہی۔اس مسجد میں چودہ سو منقش ستون نصب تھے۔شاہ فلسطین نے جہاز میں ساڑھے چار سو من قیمتی پتھر بھجوائے۔ اس پر کتبے خط کو فی میں سونے کے موٹے موٹے لفظوںسے لکھے گئے۔ صدیاں گزر گئیں ہیں مگر آج بھی اس کے آثار سے وہ کچھ نظر آتا ہے کہ عقل انسانی ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔اندلس(اسپین) میں مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی دوسری مساجد کی طرح یہ مسجد بھی عیسائی راہبوں کے تسلط میں آگئی جنہوں نے اسے گرجا گھر(Cathdral) میں تبدیل کردیا۔منبر اور دیوان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی البتہ اذان اورنماز پر پابندی عائد کردی گئی کہ اب یہ گرجا گھر ہے جہاں عیسائی عبادت کرسکتے ہیں۔تقریباً آٹھ صدیاں گزرنے پر علامہ اقبال کو یہ شرف و امتیاز حاصل ہوا کہ انہوں نے اس پابندی کے باوجود مسجد قرطبہ میں نہ صرف اذان دی بلکہ نماز ادا کی۔ اگرچہ اس حوالے سے علامہ اقبال کی کوئی تحریری شہادت موجود نہیں ہے تاہم تصویری ثبوت موجود ہے اور مختلف افراد نے تفصیلات بتائی ہیں جن کے مطابق پہلی گول میز کانفرنس جو 12 نومبر 1930ءتا 19جنوری 1931 تک ہوئی۔ اس میں علامہ اقبال کو شریک نہ کیا گیا۔دوسری گول میز کانفرنس 7ستمبر تا یکم دسمبر 1931ءتک ہوئی اس میں علامہ اقبال شریک ہوئے اور کانفرنس کے خاتمے پر مولانا غلام رسول مہر کے ہمراہ برطانیہ سے فلسطین چلے گئے اور موتمر عالم اسلامی میں الوداعی تقریر کرکے واپس ہندوستان آگئے۔مولانا عبدالمجید سالک کے مطابق
” تیسری گول میز کانفرنس کا آغاز16نومبر کو ہونا تھا۔ علامہ اقبال 13 اکتوبر1933ءکو لاہور سے فرنٹیر میل پر بہ عزم یورپ روانہ ہوئے۔مقصد یہ تھا کہ لندن پہنچنے سے پہلے ویانا، بوراپٹ، برلن وغیرہ کے علمی مراکز میں دوچار روز قیام کرتے جائیں۔
(ذکر اقبال صفحہ 178 )
علامہ اقبال 12نومبر کو لندن پہنچے تیسری گول میز کانفرنس17نومبر کو شروع ہوکر17دسمبر 1933ءمیں ختم ہوگئی۔ کانفرنس ختم ہونے کے بعد علامہ پیرس پہنچے اور علمی حلقوں کے علاوہ برگستان سے ملاقات کی۔ اس کے بعد علامہ نے ہسپانیہ کا دورہ کیا۔
( صفحہ180 )
علامہ اقبال خود ایک اخبار کے نامہ نگار سے سفر اسپین بارے فرماتے ہیں۔
”مجھے لندن میں اسپین جا کر لیکچر دینے کی دعوت ملی تھی۔اسلام کے مرکز کو دیکھنے کا مشتاق تھا۔میں نے دعوت قبول کرلی“۔( آئینہ اقبال مرتبہ محمد عبداللہ قریشی صفحہ198 )
” قرطبہ پہنچنے کے بعد آپ(علامہ) وہاں کی یگانہ روزگار مسجد میں تشریف لے گئے جواب گرجا گھر بن چکی ہے۔ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے گائیڈ سے کہا میں یہاں نماز ادا کرناچاہتا ہوں۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ بات پادریوںکو ناگوار ہوگی اور وہ ہرگز اجازت نہ دیں۔ اقبال اس جگہ مصلی بچھا کر بیٹھ گئے۔ جس کو بے حد مقدس سمجھا جاتا ہے۔اتنے میں ایک پادری آپہنچا اور زور شور سے احتجاج کرنے لگا۔اقبال نے پادریوں کی طرف رخ کرکے گائیڈ سے کہا ایک دفعہ مکہ میں عیسائیوں کا وفد کوئی التماس لے کر پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس کے اراکین کو مسجدنبوی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ جب ان کی عبادت کا وقت آیا تو وہ متردد تھے کہ انہیں اسکی اجازت دی جائے گی کہ نہیں۔ آنحضرت کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ یقینا اپنے طور طریقے کے مطابق عبادت کرسکتے ہیں۔ اگر عیسائیوں کو آنحضرت نے اپنی ہی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی تھی۔انہیں ایک ایسی جگہ پر نماز ادا کرنے کی اجازت کیوں نہیں جو کبھی مسجد تھی۔ اقبال سے یہ سن کر کہا میں بڑے پادری سے پوچھ کر آتا ہوں۔اقبال نے پادریوں اور محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت لے کر مسجد میں اذان دی جسکی فضا صدیوں سے بے اذان پڑی ہوئی تھی نماز پڑھی۔ آپ کی نماز کی حالت میں ایک پادری نے تصویر بھی اتاری“
(ملفوظات اقبال مرتبہ محمود نظامی صفحہ 318 )
مولانا عبدلامجید سالک لکھتے ہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے یہ سارا واقعہ سید امجد علی کے نام لکھ بھیجا“( ذکر اقبال صفحہ138 )
علامہ اقبال کا یہ خط تا حال منظر عام پر نہیں آسکا۔ وگرنہ علامہ کے قلم سے یہ تفصیل سامنے آچکی ہوتی۔
مسجد قرطبہ میں علامہ اقبال کی دو تصاویر چھپ چکی ہیں جو روزگار فقیر صفحہ49,48 پر موجود ہیں۔ یہ دونوں تصاویر ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ ایک تصویر میں وہ مصلیٰ پر قعود کی حالت میں نماز ادا کرنے میں مشغول ہیں جبکہ دوسری تصویر میں مصلیٰ پر ہاتھ میں چھڑی لیے کھڑے ہیں۔اندازہ ہوتا ہے کہ یہ نماز سے فراغت کے بعد کی ہے۔یہ تصاویر مسجد کے اس مقام پر لی گئیں ہیں جو بڑی تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔پتہ چلتا ہے کہ علامہ اقبال نے نماز ادا کرنے کیلئے مسلمانوں کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر کو ذہن میں لاتے ہوئے اس جگہ کا انتخاب کیا ہوگا۔ یوں اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ علامہ نے طے شدہ پروگرام کے مطابق نمازادا کی۔ اور یہ کس اضطراری حالت کا نتیجہ نہیں جیسا کہ ان کے بعض تذکرہ نگار یہ تاثر دیتے ہیں علامہ اقبال نے جس جگہ نماز ادا کی وہ مسجد قرطبہ کا دلان ہے اس ہاتھ ایک محرابی راستہ ہے جو خلیفہ الحکم ثانی نے 961ءمیں تعمیر کرایا تھا۔یہ فن تعمیر کے حوالے سے انتہائی منفرد خصوصیات کا حامل ہے اور اس قدر اہم ہے کہ اسلامی فن تعمیر اور آرٹ کے نقطہ نظر سے تقریباً ہر کتاب میں مختلف زاویوں نے اس محراب کی تصویرREPRODUCE کی جاتی ہے کہ اس فن تعمیر کے حوالے سے اس کے محاسن بیان کئے جاتے ہیں۔
” ڈاکٹر صاحب کو قدیم عربی تہذیب سے نہایت دلچسپی بلکہ عشق تھا اور اسپین قدیم زمانے میں عربی تہذیب کا مرکز تھا اور اس زمانے میں اس کا مدفن ہے اس لئے اس سلسلے میں انہوں نے اسپین کا سفر کیا اور اسکی ہرچیز سے متاثر ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب نے خالص مذہبی اور تاریخی جذبات کے زیر اثر اسپین کا سفر کیا تھا اور اُس حیثیت سے وہاں کی ہر چیز پر نظر ڈالی۔اسپین کے سفر میں ڈاکٹر صاحب کو پروفیسر امین سے ملاقات کا موقع ملا (اقبال کامل29تا32 از مولانا عبدالسلام ندوی) علامہ اقبال نے اپنے سفر اسپین اپنے فرزند جاوید اقبال کے نام دوکارڈ بھیجے جو تصویری تھے جس پر مسجد قرطبہ کے عکس تھے اس کے ساتھ ہی لکھا کہ ”میں خدا کا شکر گزارہوں کہ میں اس مسجد کو دیکھنے کیلئے زندہ رہا مسجد تمام دنیا کی مساجد سے بہتر ہے خدا کرے تم جواں ہوکر اس عمارت کے انوار سے اپنی آنکھیں روشن کرو“۔
علامہ اقبال اسپین کی مسجد قرطبہ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسپین سے۔ واپسی پر پیرس( فرانس ) سے ایڈیٹر انقلاب کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ
”مرنے سے قبل قرطبہ ضرور دیکھو،
”علامہ اقبال 27مارچ1933ءکو محمد اکرام کے نام اپنے خط میں سفر اسپین کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔
” میں اپنی شاعری سے اس قدر لذت گیر ہوا۔ وہاں دوسری نظموں کے علاوہ ایک نظم مسجد قرطبہ پر لکھی گئی۔جو کسی وقت شائع ہوگی۔الحمراءکا تو مجھ پر کوئی زیادہ اثر نہیں ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچا یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔
( اقبال نامہ،جلد دوم ص321 )
علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ پر ذیل کی نظم لکھی جس سے ان کے جذبات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔
آنی وفانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
اول و آخر فنا باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہوکہ نو منزل آخر فنا
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہوکسی مرد خدا نے تمام
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود ایک سیل ہے سیل کو لیتا ہے تھام
عشق کی تقویم میں عصر رواںکے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
عشق دم جبرائیل عشق دل مصطفےٰ
عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
عشق کی مستی سے ہے پیکرگل تابناک
عشق ہے صبہائے خام عشق ہے کاسن الکرام
عشق فقیر حرم عشق امیر جنود
عشق ہے ابن سبل اس کے ہزاروں مقام
عشق کے مضراب سے لقمہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نارحیات
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت و بود
رنگ ہویا خشت و سنگ چنگ ہویا صورت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
قطرہ خون جگر سیل کو نبھاتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
عرش معلی سے کم سینہ ¿ آدم نہیں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہرِ کبود
پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو سیر نہیں سوز و گداز سجود
کافر ہندی ہوں میں دیکھ میرا ذوق شوق
دل میں صلوٰة و درود لب پر صلوٰة درود
شوق میری لے میں ہے شوق میری نے میں ہے
نغمہ اللہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
تیرا جلال و جمال مرا خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل
تیری بنا پائیدار تیرے ستون بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیرے درو بام پروادی ایمن کا نور
تیرا مینار بلند جلوہ گہ جبرائیل
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلمان کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرِ کلیم وخلیل
اسکی زمین بے حدود اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج دجل دینوب و نیل
اس کے زمانے عجیب اس کے فسانے غریب
عہد کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
ساقی اربابِ ذوق فارس میدان شوق
بادہ ہے اس کا رحیق تیغ ہے اسکی اصیل
مرد سپاہی ہے وہ اسکی زِرہ لا اِلہ
سایہ شمشیر میں اسکی پناہ لااِلہ
 
اقبال کے تصور عشق کی آفاقیت - ڈاکٹر محبوب راہی


ڈاکٹر محبوب راہی: ایک تو عشق باعتبار موضوع بجائے خود اتھاہ سمندروں سی گہرائی ۔گیرائی ،وسعت عمق بیکرانی ،موج در موج طغیانی اور تہہ در تہہ معنویت نیز آسمانوں سی بلندیوں اور پہاڑوں سی ٹھوس حقیقت کا حامل ،اس پر مستزاد اقبال کا فلسفیانہ انداز فکر حکیمانہ زاویہ نظر،خطیبانہ انداز تخاطب ،غنائیت سے بھر پور پر تمکنت لہجہ،منفرد رنگ و آہنگ باوقار طرز تکلم، جدت تخیل ندرت بیان اور فکر و نظر کی آفاقیت اس طرح عشق کے جذبہ لا فانی اور اقبال کی فکر لاثانی دونوں کے خوشگوار امتزاج اور متوازن ومتناسب اشتراک سے جو تخلیق پارے عالم شہود میں آئے اردو کے خزینہ شعر وادب میں بیش بہا اور لازوال اضافوں کا موجب قرار پائے ۔موضوع کی آفاقیت ،ہم گیریت ،وسیع تر معنویت ،وقعت،عظمت اور افادیت اس امر کی متقاضی ہے کہ متعلقہ تمام تر تفصیلات کا اگر اجمالی طور پر دیانت دارانہ محاکمہ کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں در کار ہوں لہذا ایک مختصر سے مقالے میں اس کے حق کی منصفانہ ادائیگی کے دعوے کی حماقت مجھ سے نہیں ہوگی ۔ساتھ ہی اس موضوع پر خامہ فرسائی کی اولیت کا سہرا اپنے سر باندھنے کا بچکانہ دعویٰ بھی نہیں کروں گا کہ جانتا ہوں ۔اقبال کی کثیر الجہات شاعری کی ہر ہر جہت پر اتنے سارے ارباب کمال اصحاب فکر و بصیرت نے ایسے ایسے عالمانہ اور محققانہ انداز میں اتنا بہت کچھ لکھا ہے کہ ان کا سر سری تجزیہ تو درکنار نمبر شماری کی بھی اس مضمون میں گنجائش نہیں ہے ۔اور جب معاملہ اقبال کے تصور عشق کی آفاقیت کا ہو تو صورت حال کی صداقت کے لئے غالب کا مصرعہ،سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لئے، عرض کر دینا کافی ہے لہذا بغیر عالمانہ یا محققانہ تکمیلیت کے کسی دعوے کے اپنے ناقص مطالعے کا آموختہ ایک طالب علم کی حیثیت سے پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔اقبال کا تصور عشق جو ایک آفاقی یا تکوینی جذبے سے وابستہ ہے جس پر اقبال نے اپنے موضوعاتی اشعار کی بنیاد یں استوار کی ہیں وہ عشق ہر گز ہر گز نہیں ہے جس کے وسیلے سے ہماری بیشتر غزلیہ شاعری اور فلمی گیتوں میں بدن کی جمالیات سے متعلق فحاشی اور عریانیت کی تشہیر و تر سیل کرتے ہوئے سفلی جذبات کی ترجمانی اور نفسانی خواہشات یعنی شہوانیت کی تسکین کے اسباب فراہم کئے جاتے ہیں اور جسے ارباب ہوس نے عشق مجازی سے موسوم کرتے ہوئے عشق جیسے آفاقی ،مقدس اور پاکیزہ جذبے کو خواہ مخواہ حقیقی اور مجازی کے خانوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اس طرح اپنی فکر کی عریانی اور تخیل کی بے لباسی کو ایک خوش رنگ طلسمی اور خیالی قبا سے چھپانے کی سعی نا تمام کی ہے ۔عشق مجازی اور بدن کی جمالیات دونوں کی اصل میرے نزدیک ایک لذت انگیزی اور لطف آموزی کے ایک قطعی عارضی وقتی اور ہنگامی خوشگوار جھونکے سے زیادہ کچھ نہیں ہے ۔وہ عشق مجازی جو بدن کی جمالیات بالفاظ دیگر شہوانی خواہشات سے وابستہ ہے لذت انگیزی کی چند ہیجانی ساعتوں یا عمر کی چند برسوں کی ایک متعینہ مدت پر محیط ہوتا ہے جسے ایام شباب یا پھر امنگوں کی راتیں مرادوں کے دن سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔اس کے گزرتے ہی عشق کا سارا نشہ ہرن یعنی ٹائیں ٹائیں فش ہو کر رہ جاتا ہے ۔پھر وہ عشق کیونکر ہوا کہ عشق تو حیات و کائنات کی رگ و پے میں روح رواں کی طرح جاری و ساری ایک ابدی اور لازوال جذبہ ہے بقول شاعر
عشق ہی عشق ہے جدھر دیکھو سارے عالم پہ چھا رہا ہے عشق
یہی آفاقی اور لافانی جذبہ عشق جسے موت بھی مار نہیں سکتی اقبال کی شاعری کی رگوں میں گرم لہو کی طرح دوڑ رہا ہے بقول اسلوب احمد انصاری ”لفظ عشق اقبال کے ہاں وسیع معانی کا ھامل ہے ۔یہ حیاتیاتی سے زیادہ روحانی اور آفاقی ،مضمرات کی طرف ذہن کو منتقل کرتا ہے ۔برطانوی شاعر ورڈ زدرتھ ہی کی مثل اقبال ہے ہاں بھی جس کا گزر نہیں یہ انسانی رشتوں اور احساسات قلبی کی شاعری نہیں ۔اس کا رنگ و آہنگ حافظ ،میر،غالب سے مختصر اور متمائز ہے “ (اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں تنقیدی مطالعہ ۔اسلوب احمد انصاری ۔ص ۲۷)یہ انسانی رشتے اور احساسات وہی ہیں جنہیں خاکسار نے جسمانی رشتوں یا نفسانی خواہشات سے وابستہ احساسات سے تعبیرکیا ہے جنہیں ارباب نظر ہوس کاری سے بھی موسوم کرتے ہیں ۔عشق کوئی رشتہ نہیں یہ تو یک آفاقی جذبہ ہے جس کا تعلق جسمانی تقاضوں سے نہیں راست روح کی پروازوں سے ہوتا ہے ۔جو حسن و جمال سے وابستہ ضرور ہوتا ہے لیکن اس حسن و جمال سے جو ازلی اور ابدی ہے اللہ جمیل یحب الجمال۔اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے ۔لہذا اللہ کے جمال سے عشق ہی عشق لازوال ہے ۔اللہ بس باقی ہوس ۔بقول اقبال
عشق طینت میں فرو مایہ نہیں مثل ہوس
پر شہباز سے ممکن نہیں پرواز مگس
اور بقول غالب
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ¿ اہل نظر گئی
وجودزن کے تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب ہونے کے اعتراف کے باوجود اقبال کو اس کا فنکاروں کے اعصاب پر ہمہ وقت سوار رہنا پسند نہیں ۔فرماتے ہیں
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
عشق تو اقبال کے ہاں کبھی آوارہ و بے خانماں ہے کبھی شہنشاہ نو شیرواں ،کبھی میدان میں زرہ پوش ہے کبھی بے تیغ و سناں عریاں اور نہتا۔کبھی کوہ ودمن میں تنہا ہے کبھی سوز وسرور انجمن بن کر محراب و منبر پر جلوہ آرا اور کبھی شیر خدا حضرت علی کے ساتھ خیبر شکن۔اقبال تو درد عشق کو بھی گہرآبدار سے تعبیر کرتے ہیں اور اسے نا محرموں سے پردہ داری کا مشورہ دیتے ہیں ۔
اے درد عشق ہے گہرا آبدار تو
نا محرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
لہذا وہ ظاہر پرستوں کی نگاہوں سے اسے دور رکھنا چاہتے ہیں کہ دونوں میں عشق کا اظہار بے لطفی کا موجب ہے ۔وہ اسے نالہ¿ بلبل ،جام لالہ ،گریہ¿ شبنم ،اشک جگر گداز زبان شاعر یا آواز کا منت پذیر ہونے کے بجائے کسی سر بستہ راز کی طرح سینے میں پوشیدہ رکھنا چاہتے ہیں ۔لہذا فرماتے ہیں
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
اس طرح نظم عشق اور موت کے وسیلے سے وہ موت کو لافانی اور عشق کو لافانی قرار دیتے ہوئے تبسم کی بجلی سے موت کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں
بقا کو جودیکھا فنا ہوگئی وہ
قضا تھی شکار قضا ہو گئی وہ
اور نظم دل کے آخری شعر میں دل کی کیفیت بیان کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ
عشق اب پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کوچہ جاناں میں نہ برباد کرے
کہنہ پیکر میں نئی روح کو آباد کرے
یا کہن روح کو تقلید سے آزاد کرے
دل ہی کے تعلق سے اقبال انکشاف کرتے ہیں کہ
عشق کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو نخل ہرا ہوتا ہے
اقبال کا عشق دنیا بھرسے نرالا ہے
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
و ہ شوق دید میںآنکھیں کھلی رکھنے کے بجائے بند رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
آنکھیں بند رکھتے ہوئے دل خونچکاں کو بھی تنبیہ کرتے ہیں
خموش اے دل بھری محفل میں چلانہ نہیں اچھا
ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اور اس قرینے کے ساتھ یہ بھی کہ
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی،حرم بھی ،کلیسابھی چھوڑدے
جس کا جواز اقبال کے پاس یہ ہے کہ
شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشائے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
اقبال نے اپنے بیشتر اشعار میں عقل پر عشق کو فوقیت اور برتری دی ہے ان کا تجربہ ہے کہ
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن وتارافو
وہ یہ بھی جانتے ہیں
عقل عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے
عشق بیچارہ نہ ملا ہے، نہ مجاہد، نہ حکیم
لہذا تاریخ عالم میں اس واقع کی دوسری نظیر نہیں ملتی جب چشم فلک نے دیکھا کہ
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس لئے اقبال پاسبان عقل کو دل کے پاس رکھنا اچھا تو سمجھتے ہیں تاہم اسے کبھی تنہا چھوڑنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں تاکہ وہ تقاضائے عشق پر لبیک کہتا ہوا بے خطر آتش نمرود میں کود پڑے اور اپنے آقا کی ایک جنبش ابروپر آمناّ و صدّقنا کہتے ہوئے اپنی تمام تر متاع حیات اس کے قدموں میں نچھاور کر دے یہ کہتا ہوا کہ
پراوانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس
صدیق ؓکے لئے ہے خدا کا رسولﷺ بس
اور جو کبھی اسماعیل ؑ کی طرح اپنے آپ کو رہ عشق میں قربان کرنے کے لئے پیش کردے اور کبھی حسین ؓ کی طرح اپنے تمامتر افراد خاندان کے لہو سے صحرا ئے کربلا کو لالہ زار کردے ۔
بقول اقبال
غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتدا ہے اسماعیلؑ
اقبال تاریخ عالم میں اس زندہ و تابندہ اور قربانیوں کے اس تسلسل کی حقیقت ابدی سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر دور میں حسینوں کو کبھی صلیب و دار پر اور کبھی صحراﺅں اور بیابانوں میں اپنی جانیں قربان کرنی پڑی ہیں ۔صرف یزیدیوں کے نام اور مقام بدلتے رہے ہیں کبھی کوفہ و شام میں شمر اور ابن زیاد ،کبھی وسط ایشیا ءمیں چنگیز وہلاکو ،کبھی عراق و افغانستان میں بش اور کبھی بھارت میں مودی کی صورت میں
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی
”پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم “ کے مصداق اقبال عشق میں ایک لمحہ¿ زندگی کو حرام سمجھتے ہیں ۔بقول ان کے
عشق ہے مرگ با شرف مرگ حیات بے شرف کھول کے کیا بیاں کروں سر مقام مرگ و عشق
تاہم حد ادراک س پرے عشق و مستی کے اس سر نہں کو وہ اس قدر سمجھ پاتے ہیں کہ
حد ادراک سے باہر ہیں باتیںعشق و مستی کی
سمجھ میں اسقدر آیا کہ دل کی موت ہے دوری
اور جب عشق و مستی کا یہ بھیدا ن پر کھل جاتا ہے تو وہ زماں ومکاں کی حدود سے پرے جاودانی کی حقیقت سے آشنا ہو جاتے ہیں
عشق کی اک جست نے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھاتھا میں
اقبال وجود زن کو تصویر کائنات کی رنگینی کا سبب مانتے ہیں۔نسوانی حسن انکی فطرت میں بجلی کی حرارتیں بھر دیتا ہے اس کے باوجود وہ محفل حسن میں وفانا آشنا اور تلون مزاج کے طور پرر سوا ہیں جبکہ وہ عشق میں صحرا نوردی کی بجائے شمع سوزاں کی طرح محفل حسن و عشق کو شریک سوز ودردکرنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت کا کشف رکھتے ہیں کہ
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر وبم
عشق سے مٹی کی تصویر وں میں سوزد مبدم
آدمی کے ریشے ریشے میں سما جاتاہے عشق
شاخ گل میں جس طرح باد سحر گاہی کا نم
اور وہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے نا پائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھادے اجل کی پھونک
اس میں مزہ نہیں تپش انتظار کا
اقبال یہ بھی جانتے ہیں کہ
بنایا عشق نے دریا ئے ناپیداکراں مجھ کو لہذا انہیں اندیشہ ہے کہ
یہ میری خود نگہداری مراساحل نہ ہو جائے
اقبال لندن میں زیر تعلیم اپنے لخت جگر جاوید کو لکھتے ہیں
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نئے زمانے ن ئے صبح و شام پیدا کر
ساتھ ہی اسے کامیابی اور کامرانی کے نسخہ¿ کیمیا کا پتہ بھی بتاتے ہیں
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی انگبیں
اور کبھی اپنے آپ سے یوں مخاطب ہوتے ہیں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئینہ ساز میں
وہ عشق میںدوئی اور ریاکاری کے قائل نہیں
میں جو سر سجدہ کبھی ہوا تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اقبال ایسی بے سرو ر نمازوں اور بے حضور سجدوں کو عشق کی آگ کے بجھ جانے کا سبب قرار دیتے ہیں اور نہایت حسرت و یاس کے ساتھ فرماتے ہیں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
کیونکہ اگرمسلماں کے دل میں عشق کی آگ روشن ہوتی تو
خوار جہاں میں کبھی ہو نہیں سکتی وہ قوم
عشق ہو جس کا جسور فقر ہو جس کا غیور
اور یہ کہ
توڑ دیتا ہے بت ہستی کو ابراہیم ؑعشق
ہوش کا دارو ہے گویا مستی تسنیم عشق
غزلوں اور نظموں کے ان منتخب اشعار کے علاوہ کلیات اقبال میں عشق کے موضوع پر اقبال کی اور بھی کئی طویل و مختصر نظمیں شامل ہیں جنہیں ایثار وقربانی کے اسلامی یا قرآنی فلسفے کے خمیر میں تاریخی،سماجی اور ثقافتی حقائق کے ساتھ گوندھ کر عشق کی لازوال آفاقیت کو اجاگر کرتے ہوئے اسے اسلام کی عین روح قرار دیتے ہیں اور دور حاضر میں جس کے فقدان کو اسلام اور مسلمانوں کی زوال پذیر ی کا بنیادی سبب قرار دیتے ہیں ۔اقبال کی ان نظموں میں درد عشق اور موت،دل حسن و عشق،عاشق ہرجائی ،پیام عشق ،صدیق ،بلال،فرشتوں کاگیت ،ذوق و شوق ۔جنگ یرموک ،ہنروران ہند،علم عشق اور عصر حاضر ،اقبال کے تصور عشق کی ترجمانی کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں لیکن اس موضوع پر اقبال کی سب سے زیادہ معرکة الآرا نظم مسجد قرطبہ ہے جس کے وسیلے سے اقبال نے عشق ،وقت تاریخ اور انقلاب کے بارے میںاپنی فکری نظام کے نتائج پیش کئے ہیں ۔اس نظم میں جو چیز اقبال کی حس تخلیق کو متحرک ،متموج اور مہمیز کرتی ہے وہ اس عظیم القدر عدیم المثال اور یکتا ئے روز گار عمارت کی فن تعمیر کے دلکش اور جاذب نظر نقوش ہیں۔اقبال امواج تخیل کے زیر وبم کی بنیاد پر مسجد قرطبہ کو موضوع سخن بنا کر زماں و مکاں سے وابستگی ادغام اور تسلسل کو نقش گر حیات اور سلسلہ روز و شب کو اصل حیات وممات قرار دیتے ہیں اور اسی سلسلہ حیات و ممات کے تسلسل کی درمیانی کڑی عشق ہے جسے اقبال نے زندگی کا اضطراب ،کشمکش، تموج نیز اس کا مبداءاور منتہا قرار دیا ہے ساتھ ہی عشق کو ابدیت ،دوامیت اور استحکام سے موسوم کرتے ہوئے اسے اصل حیات اور موت کو اس پر حرام بتایا ہے
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
پھر تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے اقبال عشق کو دم جبریل ،دل مصطفی ،خدا کے رسول ،خداکے کلام صہبائے خام ،کاس الکرام ،فقیہہ حرم ،امیر جنود،ابن السبیل ،نغمہ تارحیات، نورحیات اور نارحیات جیسے عظمت ورفعت کے مقامات اعلیٰ و ارفع پر متمکن کر کے مسجد قرطبہ کے وجود کو عشق کامرہون منت قرار دیتے ہیں
اے حرم قرطبہ عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام جس میں نہیں رفت وجود
اور پھر معجزہ¿ فن میں خون جگر کی کرشمہ سازیوں ،شوق کی نغمہ سنجیوں ،مسجد قرطبہ کے جلال و جمال اور حسن ظاہری و باطنی کو بندہ¿ مومن کے راز افشا کرنے کا سبب بتاتے ہیں ۔پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مرد مومن کے مقامات بلند کی نشاندہی کرتے ہیں ،اور آخری بند میں قرطبہ سے ملحق دریائےے کبیر کے کنارے امید افزا مستقبل کے خواب میں محو ہو کر ان دو عبرت انگیز حقیقت آمیز اور سبق آموز اشعار پر اس انقلاب آفریں نظم کا اختتام کرتے ہیں
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب نا تمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
یہی خون جگر جس کے بغیر اس نگاہ خانہ شش جہات اور حسن و جمال و رنگ و نور سے معمور اس کائنات کے نقش و نگار بے رنگ اور نامکمل ہیں ۔یہی خون جگر جو سودائے خام کو شرف نغمگی عطا کر کے اسے مقبول خاص و عام بنا دیتا ہے ۔یہی خون جگر جو سل کو دل بنا دیتا ہے ۔یہی خون جگر جس سے بے کیف صدا سوز و سرور کی تاثیر انگیزی کے ساتھ دلوں کو مسحور کرتی ہے ۔یہی خون جگر تو ہے جس کا تموج اقبال کے افکار و اشعار کی رگوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور جس سے اقبال کا معجزہ فن نمو پا کر ان کے جذبہ¿ شوق اور تصور عشق کی رنگینی و رعنائی کو آفاقیت عطا کرتا ہے ۔
٭٭٭ڈاکٹر محبوب راہی
بارسی ٹاکلی ضلع اکولہ مہاراشٹر
 
علامہ سر محمد اقبال کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر


ماہ و سالِ اقبال
== 1877ء ،نومبر 9 ، بروز جمعہ شیخ محمد اقبال شیخ نور محمد کے ہاں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے
== 1891ء ، اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے مڈل پاس کیا
== 1893ء ،مئی 4 ، کریم بی بی سے پہلی شادی ہوئی
== 1893ء ،مئی 4 ،اسلاچ مشن ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا
== 1895ء ، اسکاچ مشن ہائی اسکول (جو اب کالج بن چکا تھا) سے ایف اے پاس کیا اور اعلٰی تعلیم کے لیے لاھور منتقل ہوگئے
== 1895ء ، دسمبر ، حکیم شجاع احمد اور دین محمد نے اُردو بزمِ مشاعرہ" قائم کی ہوئی تھی - اس بزم کے دوسرے اجلاس میں انہوں نے سیالکوٹ سے لاھور منتقلی کے بعد کسی بھی مشاعرے میں پہلی بار شرکت کی اور اپنی غزل "موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے" سُنائی
== 1897ء ، گورنمنٹ کالج لاھور سے بی اے پاس کیا
== 1899ء ، نومبر 12 انجمن حمایت اسلام لاھور کی مجلس انتظامیہ کے رکن منتخب ہوئے
== 1899ء ، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں نظم "فریادِ اُمت" پڑھی
== 1899ء ، گورنمنٹ کالج لاھور سے ایم اے (فلسفہ) پاس کیا
== 1899ء ،مئی 13 ، یونیورسٹی اوریئنٹل کالج میں میکوڈ عریبک ریڈر مقرر ہوئے
== 1901ء ،جنوری 1 ، اسلامیہ کالج لاھور میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے
== 1900ء ، فروری 14 ، انجمن حمایت اسلام کے سالانہ اجلاس میں "نالۂ یتیم" پڑھی - اس اجلاس کی صدارت ڈپٹی نذیر احمد نی کی تھی
== 1901ء ، اپریل ،شمارہ "مخزن" میں شیخ محمد اقبال ایم اے قائم مقام پروفیسر گورنمنٹ کالج لاھور کی پہلی نظم ہمالہ "کوہستانِ ہمالہ" کے عنوان سے شائع ہوئی
== 1901ء ، مئی ،شمارہ "مخزن" میں نظم "گلِ رنگین" شائع ہوئی
== 1901ء ، جون شمارہ "مخزن" میں ایک غزل " نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی" شائع ہوئی
== 1901ء ، جولائی شمارہ "مخزن" میں نظم "عہدِ طفلی" شائع ہوئی
== 1901ء ، ستمبر شمارہ "مخزن" میں نظم "مرزا غالب" شائع ہوئی
== 1901ء ، نومبر شمارہ "مخزن" میں نظم "ابرِ کوہسار" شائع ہوئی
== 1902ء ، جنوری شمارہ "مخزن" میں ایک غزل "چاہیں اگر تو اپنا کرشمہ دکھائیں ہم" شائع ہوئی
== 1902ء ، فروری شمارہ "مخزن" میں نظم "خفگانِ خاک سے استفسار" شائع ہوئی
== 1902ء ، مارچ شمارہ "مخزن" میں ایک غزل "دِل کی بستی عجیب بستی ہے" شائع ہوئی
== 1902ء ، اپریل میں ایک نظم "شمع و پروانہ" شائع ہوئی
== 1902ء ، مئی شمارہ "مخزن" میں "خطِ منظوم" جو "بانگِ درا" میں "عقل و دِل" کے عنوان سے موجود ہے شائع ہوئی
== 1902ء ، جون شمارہ "مخزن" میں "صدائے درد" شائع ہوئی
== 1902ء ، جولائی شمارہ "مخزن" میں نظم "ماتمِ پسر" جو "بانگِ درا" میں شامل نہیں شائع ہوئی
== 1902ء ، اگست شمارہ "مخزن" میں نظم "آفتاب" شائع ہوئی
== 1902ء ، ستمبر شمارہ "مخزن" میں ڈاکٹر رائٹ برجنٹ کے ایک مضمون کا ترجمہ "زبانِ اُردو" کر کے شائع کرایا
== 1902ء ،اکتوبر 13، گورنمنٹ کالج لاھور میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے
== 1902ء ، اکتوبر شمارہ "مخزن" میں ایک غزل "عاشق دیدار محشر کا تمنائی ہوا" شائع ہوئی
== 1902ء ، دسمبر شمارہ "مخزن" میں دو نظمیں "شمع" اور "ایک آرزو" شائع ہوئیں
== 1903ء ، جنوری شمارہ "مخزن" میں نظم "سید کی لوحِ تربت" شائع ہوئی
== 1903ء ، فروری شمارہ "مخزن" میں ایک غزل "کیا کہوں اپنے چمن سے میں جدا کیونکر ہوا" شائع ہوئی
== 1903ء ، اپریل شمارہ "مخزن" میں دو تازہ غزلیں "لڑکپن کے ہیں دن صورت کسی کی بھولی بھولی ہے" اور "ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی" شائع ہوئیں
== 1903ء ، مئی شمارہ "مخزن" میں "اہلِ درد" کے عنوان کے تحت دو ہم زمیں غزلیں شائع ہوئیں
== 1903ء ،جون 3 ، گورنمنٹ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر (فلسفہ) مقرر ہوئے
== 1903ء ، اگست شمارہ "مخزن" میں ایک غزل "عبادت میں زاہد کو مسرور رہنا" شائع ہوئی
== 1903ء ، ستمبر شمارہ "مخزن" میں نظم "برگِ گُل" شائع ہوئی
== 1903ء ، اکتوبر شمارہ "مخزن" میں ایک مضمون شائع ہوا
== 1903ء ، نومبر شمارہ "مخزن" میں نظم "عشق اور موت" اور ایک قصیدہ جو ہزہائنس نواب محمد بہاول خاں عباسی پنجم کی تخت نشینی کے موقع پر لکھا گیا شائع ہوئے
== 1903ء ، دسمبر شمارہ "مخزن" میں نظم "زہد و رندی" شائع ہوئی
== 1904ء ، فروری شمارہ "مخزن" میں نظم "طفلِ شیرخوار" شائع ہوئی
== 1904ء ، مارچ شمارہ "مخزن" میں در نظمیں "رخصت اے بزمِ جہاں" اور "تصویرِ درد" شائع ہوئیں
== 1904ء ، اپریل شمارہ "مخزن" میں "علم الاقتصاد" کا ایک باب "آبادی" شائع ہوا
== 1904ء ، مئی شمارہ "مخزن" میں نظم "نالۂ فراق" شائع ہوئی
== 1904ء ، جولائی شمارہ "مخزن" میں نظم "چاند" شائع ہوئی
== 1904ء ، ستمبر شمارہ "مخزن" میں ایک نظم "ہلال" اور ایک غزل "نگاہ پائی ازل سے جو نکتہ بیں میں نے" یہ غزل "بانگِ دردا" میں "سرگذشتِ آدم" کے عنوان سے شامل ہے ، شائع ہوئیں
== 1904ء ، دسمبر شمارہ "مخزن" میں دو نظمیں "جگنو" اور "صبح کا ستارہ" شائع ہوئیں
== 1905ء ، جنوری شمارہ "مخزن" میں فارسی نظم "سپاس کنابِ امیر" شائع ہوئی
== 1905ء فروری شمارہ "مخزن" میں "ہندوستانی بچوں کا قومی گیت" شائع ہوا
== 1905ء ، مارچ شمارہ "مخزن" میں نظم "نیا شوالہ" شائع ہوئی
== 1905ء ، اپریل شمارہ "مخزن" میں نظم "داغ" شائع ہوئی
== 1905ء ، مئی شمارہ "مخزن" میں غزل "مجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے" شائع ہوئ
== 1905ء ،ستمبر 1 ، اعلٰی تعلیم کے لیے انگلستان روانہ ہوئے
== 1905ء ، اکتوبر شمارہ "مخزن" میں نظم "التجائے مسافر" شائع ہوئی
== 1905ء ، نومبر شمارہ "مخزن" میں نظم "کنارِ راوی" شائع ہوئی
== 1906ء ، دسمبر شمارہ "مخزن" میں دو غزلیں شائع ہوئیں
== 1907ء ، جنوری شمارہ "مخزن" میں نظم "سوامی رام تیرتھ" شائع ہوئی
== 1907ء ، فروری شمارہ "مخزن" میں نظم" پرندے کی فریاد" شائع ہوئی
== 1907ء ، اپریل شمارہ "مخزن" میں "علم الاقتصاد" کا اشتہار شائع ہوا
== 1907ء ، میونخ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی
== 1908ء ،جولائی 1 ، لنکنز ان سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی
== 1908ء ، اگست شمارہ "مخزن" میں نظم "جزیرہ سسلی" انگلستان سے واپسی پر شائع ہوئی
== 1908ء ، دسمبر شمارہ "مخزن" میں نظم "عبدالقادر کے نام" شائع ہوئی
== 1909ء ، اپرل شمارہ "مخزن" میں نظم "بلادِ اسلامیہ" شائع ہوئی
== 1910ء ، اپریل 7 ، عطیہ فیضی کو خط لکھا
== 1910ء ، جون شمارہ مخزن" میں دو نظمیں "شکریہ" اور "گورستان" جو شیخ عبدالقادر نے "مخزن" کے طریقۂ کار کو تبدیل کرکے مضامین سے پہلے جگہ دے کر شائع کیں
== 1911ء ، مئی شمارہ "مخزن" میں انجمن کے سالانہ جلسے میں پڑھا گیا کلام شائع ہوا
== 1911ء ، جولائی 7 ، عطیہ فیضی کو خط لکھا
== 1911ء ، اکتوبر شمارہ "مخزن" میں نظم "غزۃٔ شوال" شائع ہوئی
== 1912ء، جنوری شمارہ "مخزن" میں نظم "ہمارا تاجدار" شائع ہوئی
== 1912ء ، مارچ شمارہ "العصر" لکھنؤ(مدیر ،پیارے لال شاکر میرٹھی) میں نظم "درد عشق" شائع ہوئی
== 1913ء ، نومبر 23 ، مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو خط لکھا
== 1914ء ، اپریل 29 کے "زمیندار" میں انجمن حمایتِ اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں پڑھی گئی نظم کا کچھ حصہ شائع ہوا
== 1915ء ، ستمبر 9 ، مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو خط لکھا
== 1918ء ، ستمبر 15 ، پنجاب پبلسٹی کمیٹی لاھور کے شاعرے میں شرکت کی اور اپنا فارسی کلام پڑھا
== 1919ء ، اکتوبر شمارہ "معارف" اعظم گڑھ میں ایک قطعہ شائع ہوا
== 1923ء ، مئی 18 ، مہاراجہ کشن پرشاد شاد کو خط لکھا
== 1924ء ، ستمبر 3 ، "بانگِ درا" کا پہلا ایڈیشن شائع ہوا
== 1926ء ، اپریل ، "بانگِ درا" کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا
== 1930ء ، دسمبر ، 29 مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد کی صدارت فرمائی
== 1930ء ، دسمبر 27 کو نواب آف بھاول پور نے انجمن حمایت اسلام کی صدارت کی جس میں سپاس نامہ علامہ اقبال نے پیش کیا
== 1932 ، دسمبر ، 29 ، غالب نامہ کے مصنف شیخ محمد اکرام نے لندن میں ملاقات کی
== 1935ء ، جنوری "بالِ جبریل" کا پہلا ایڈیشن تاج کمپنی لمٹیڈ لاھور سے شائع ہوا
== 1935ء ، اکتوبر 13 ، وصیت نامہ لکھوایا
== 1936ء ، جولائی گورنمنٹ کالج لاہور کے مشاعرے میں شرکت کی جہاں انہوں نے فیض احمد فیض کو "مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ" پڑھنے پر فیض احمد فیض کو بُلا کر بہت داد دی
== 1937ء ، اپریل 27 انجمن حمایت اسلام لاھور کے صدر منتخب ہوئے
== 1937ء ، مئی 28 قائد اعظم کو خط لکھا
== 1937ء ، جون 21 قائد اعظم کو خط لکھا
== 1938ء ،اپریل 20 ، صبح ناشتے میں دلیے کے ساتھ چائے پی - میاں محمد شفیع نے اخبار پڑھ کر سنوایا - حجام سے شیو بنوائی - شام 4.30 بجے بیرن جان والتھائیم ملنے آئے اُن کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کرتے رہے - شام کو اپنا پلنگ خوابگاہ سے اُٹھوا کر دالان میں بچھوایا - ایک گھنٹے بعد پلنگ گول کمرے میں لانے کو کہا - وہاں حسبِ عادت منیزہ اُن کے بستر میں گھس کر اُن سے لپٹ گئی - اُس رات معمول سے ہٹ کر زیادہ دیر اُن کے ساتھ رہی - جب اُس کو ہٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ نہ ہٹی - اس پر انہوں نے انگریزی میں کہا "اُسے اُس کی حِس آگاہ کر رہی ہے کہ شاید باپ سے یہ آخری ملاقات ہے" - اس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد فاطمہ بیگم ،پرنسپل اسلامیہ کالج برائے خواتین نے ملاقات کی - رات تقریباّ 8 بجے چودھری محمد حسین ، سید نذیر نیازی ، سید سلامت اللہ شاہ ، حکیم محمد حسن قرشی اور راجہ حسن اختر آ گئے - ڈاکٹروں کے بورڈ نے اُن کا معائینہ کیا - اُس رات وہ زیادہ ہشاش بشاش نظر آ رہے تھے - 11 بجے رات انہیں نید آ گئی لیکن گھنٹہ بھر سونے کے بعد شانوں میں درد کے باعث جلد بیدار ہوگئے - ڈاکٹروں نے خواب آوار دوا دینے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا کہ "دوا میں افیون کے اجزا ہیں اور مَیں بے ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا" - رات 3 بجے کے قریب اُن کی حالت اچانک پھر خراب ہو گئی - انہوں نے اپنا پلنگ گول کمرے سے واپس خواب گاہ میں رکھوایا
== 1938ء ،اپریل 21 ، بروز جمعرات صبح ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع فجر کی نماز ادا کرنے مسجد گئے ہوئے تھے تو انہیں پھر شدید درد ھوا جس پر انہوں نے "اللہ" کہا اور پھر...5 بجکر 14 منٹ پر ... اللہ کو پیارے ہوگئے ... انا للہ و انا الیہ راجعون - 5 بجے شام جاوید منزل سے جنازہ اُٹھایا گیا - اسلامیہ کالج کے گراونڈ میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی - سیالکوٹ سے شیخ عطا محمد رات نو بجے کے بعد لاھور پہنچے - پونے دس بجے رات سپردِ خاک کر دئیے گئے


کالجز،یونیورسٹیز،انسٹی ٹیوٹس،چیئرز،اکیڈیمیز بنام اقبال
== اقبال اکیڈمی ، 1953ء
== گورنمنٹ علامہ اقبال کالج فار بوائز،کراچی ، شاہ فیصل ٹاؤن ،
== علامہ اقبال میڈیکل کالج ، لاہور ، علامہ شبیر احمد عثمانی روڈ
== علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، اسلام آباد
== اقبال انسٹی ٹیوٹ ، کشمیر یونیورسٹی ، سرینگر

روڈز بنام علامہ اقبال
== علامہ اقبال روڈ ، کراچی
== علامہ اقبال روڈ لاھور

پارکس بنام علامہ اقبال
== اقبال پارک سری نگر ائر پورٹ سری نگر
== اقبال پارک لاھور

ٹاؤنز بنام علامہ اقبال
== اقبال ٹاؤن لاھور

خاص شمارے
== 1932ء ،ستمبر اکتوبر ماہنامہ "نیرنگِ خیال" لاھور ایڈیٹر بدرالدین حسن 456 ص
== 1938ء ، اکتوبر سہ ماہی "اُردو" دہلی مدیر مولوی عبدالحق
== 1973ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور حصہ اول 411 ص
== 1974ء ، جنوری سہ ماہی "صحیفہ" لاھور حصہ دوم 145 ص
== 1977ء ، جولائی سہ ماہی "صحیفہ" لاھور حصہ سوم 316 ص
== 1977ء ، نومبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور حصہ چہارم 196 ص
== 1977ء ، نومبر دسمبر ماہنامہ "نگار پاکستان" کراچی مدیر ڈاکٹر فرمان فتح پوری 222 ص
== 1977ء ، دسمبر شمارہ "برگِ گُل" کراچی وفاقی اُردو یونیورسٹی ،مدیرِ اعلٰی، امتیاز حسین مفتی 544 ص
== Dec 1977 , "Orienta College Magzine" ,University Oriental College , Lahore editor, Dr Ebadat Brelvi p 342
== 1982ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 154 ص
== 1984ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 102 ص
== 1985ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 104 ص
== 1986ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 150 ص
== 1987ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 162 ص
== 1988ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 127 ص
== 1990ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 121 ص
== 1992ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 84 ص
== 1999ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 122 ص
== 2000ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 94 ص
== 2001ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 76 ص
== 2002ء ، اکتوبر سہ ماہی "صحیفہ" لاھور 87 ص

اقبالیاتی تحقیق ، جامعات میں
مقالات ایم اے
== 1953ء ، "علامہ اقبال کے کلام میں حکمرانوں کا تذکرہ" ، منظورالحق صدیقی نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1953ء ، "اُردو ترجمہ "اقبال لاہوری" ، محمد صدیق نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1954ء ، "اقبال کا فلسفۂ حیات" ، مبارک علی مرزا نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1956ء ، "اُردو شاعری پر اقبال کے اثرات"، مہر افراز درانی نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1961ء ، "اقبال کی اُردو غزل" ، حمیدہ ملک نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1962ء ، "اقبال کی ملی شاعری" ، نیر جہاں نامی نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1962ء ، "اقبال کا ذہنی ارتقاء" ، فریدہ مفتی نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1963ء ، "بانگِ درا کا تنقیدی جائزہ" ، شکیلہ نور جہاں نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1964ء ، "اقبال کی طویل نظموں کا تجزیہ" ، یاسمین سلطانہ نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1965ء ، ""بالِ جبریل" کا تنقیدی جائزہ" ، محمد صدیق جاوید نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1966ء ، "اقبال کی شاعری کا فنی پہلو" ، خدیجہ نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1966ء ، "اقبال کے سیاسی نظریات" ، عذرا سلطانہ نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1968ء ، "اقبال کی امیجری" ، حریت ناصر نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1970ء ، "مکالماتِ اقبال کا تجزیہ" ، سیدہ سلطانہ اختر نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1970ء ، "اقبال کی قومی شاعری" ، شمیم ملک نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور
== 1971ء ، "کلامِ اقبال میں تاریخی شخصیتیں" ، ریحانہ دارا نگران پروفیسر سید وقار عظیم ، پنجاب یونیورسٹی ، لاھور


مقالات ایم فل

مقالات پی ایچ ڈی


کِتابیات
== غالب نامہ ، اکرام،لاھور، تاج کمپنی لمٹیڈ ،بار اول دسمبر 1936ء ، بار دوم 1939ء
== سرخ ستارہ ، قومی دارالاشاعت،لاھور، ت ن، ص 1-26
== Art In Poetry , Shahabuddin Ramatullah , Dacca , Monu Press , 1954 p 80-108
== اقبال ، چراغِ فکر ،من موہن تلخ ، دہلی،مکتبۂ قصرِ اُردو ،1958ء ص 115-117
== تعارف تاریخِ اُردو ، ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی ،لکھنؤ، سرفراز قومی پریس ،بار اول 1962ء بار دوم 1963ء ص 178
== Realm's of Gold , Syed Ross Masood edited by Jalil Ahmad Kidwai ,Karachi , Ross Masood Education and Culture Society of Pakstan , 1986 p 90-108

رسائل
== بیابہ مجلس اقبال ، بابائے اُردو ماہنامہ "قومی زبان" کراچی 28-4 ، اپریل 1966ء، ص 3-8
== علامہ اقبال سے دو ملاقاتیں ، مولانا ابو محمد مصلح ماہنامہ "قومی زبان" کراچی 28-4 ، اپریل 1966ء، ص 9-13
== خود نوشت سوانح عمری کا ایک باب ، ملا واحدی ، ماہنامہ "قومی زبان" کراچی 28 - 5 ، مئی 1966ء ،ص 39 -47

کِتابیات (اقبالیات)
== معارفِ اقبال ، عبدالرحمٰن طارق ،لاہور، اشاعت منزل ،س ن 267 ص
== A Voice From The East (The Poetry Of Iqbal) Nawab Zulfiqar Ali Khan , Lahore , The Mercantile Electric Press , 1922 ,Karachi , Iqbal Academy Pakistan , 1966 p 22
== اقبال پر ایک نظر ، مولوی احمدالدین ،لاھور، اسلامیہ اسٹیم پریس ، 1926ء،284 ص
== اقبال کی شاعری ، عبدالمالک آروی ،آرہ ، ادارۂ طاق ِ بستاں ، 1940ء
== قرآن اور اقبال ، ابو محمد مصلح ،حیدرآباد دکن، ادارۂ عالمگیر تحریک قرآن ، 1940ء ،192 ص
== اقبال ، اختر اورینوی، لاھور،رام نرائن لال بل سیلر، 1942ء
== اقبال اور آرٹ ،لطیف فاروقی، لاھور، کتاب منزل، 1943ء
== اقبال کے چند جواہر ریزے ، خواجہ عبدالحمید ،لاھور، دین محمدی پریس، 1943ء
== اقبال کامل ، مولانا عبدالسلام ندوی ،اعظم گڑھ ، مطبع معارف ، 1948ء ، 400 ص
== اقبال اور قرآن ، عارف بٹالوی ،کراچی، کتاب ، 1950ء، 416 ص
== رموزِ فطرت ، عبدالرحمٰمن طارق ،مترجم ، لاھور، اشاعت منزل ، 1950ء 212 ص
== کلیدِ اقبال ،منصور بی اے ،مُرتبہ، لاھور، قومی کُتب خانہ ، 1950ء 86 ص
== اقبال نامہ ، شیخ عطاء اللہ ،مُرتب، لاھور،محمد اشرف،1951ء ،298 ص
== ٹیگور اور اقبال ، عارف بٹالوی،لاھور،ملک دین محمد ،1951ء، 172 ص
== روحِ مشرق ، عبدالرحمٰن طارق ،مترجم، لاھور، ملک دین محمد ،1952ء، 264 ص
== ترجمانِ اسرار ، عبدالرحمٰن طارق ،مترجم، لاھور، مکتبۂ کاروان ،1952ء، 124 ص
== Poems From Iqbal , Kiernan V G , London , John Murray , 1955
== ذکر اقبال ،عبدالمجید سالک ،لاہور، بزم اقبال ، 1955ء، 296 ص
== حکمتِ کلیمی ، ظفر احمد صدیقی،مترجم، علی گڑھ ،یونیورسٹی پبلشرز ، 1955ء، 119 ص
== مطالب ضربِ کلیم ، مولانا غلام رسول مہر، لاھور،شیخ غلام رسول اینڈ سنز،بار اول 1956ء ، بار دوم،1963ء ، بار سوم 1966ء، بار چہارم 1972ء، 211 ص
== مکتوباتِ اقبال ، سید نذیر نیازی،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان، بار اول ستمبر 1957ء بار دوم اکتوبر 1977ء، 372+12 ص
== اقبال کے دس شعر ، مولانا صلاح الدین احمد، لاہور، پنجاب اکیڈمی 1958ء، 64 ص
== مقامِ اقبال ،اشفاق حسین ، کراچی، ادارہ اشاعتِ اُردو ،1959ء، 310 ص
== اسلامی تصوف اور اقبال ،ابو سعید نورالدین ، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ، بار اول اپریل 1959ء بار دوم مئی 1977ء، 381 ص
== اقبال اور اُس کا عہد ، جگن ناتھ آزاد ،الہ آباد، ادارۂ انیس ،1960ء، 126 ص
== شعرِ اقبال ،سید عابد علی عابد ،لاہور، بزمِ اقبال ، 1964ء، 637 ص
== اقبال باکمال ،ملک نذیر احمد ،لاھور، تاج بُک ڈپو، 1966ء، 668 ص
== باقیاتِ اقبال ،سید عبدالواحد معینی ،لاھور، آئینہ ادب ،بار اول 1966ء بار دوم 1978ء، 608 ص
== اقبال اور تحریک پاکستان ،عاشق حسین بٹالوی ،لاھور، پنجاب یونیورسٹی ،1967ء
== انوار اقبال ،بشیر احمد ڈار، کراچی،اقبال اکادمی ،1967ء، 348 ص
== فیضانِ اقبال ،شورش کاشمیری ،لاہور، مطبوعات چٹان ،1968ء ،456 ص
== اقبال شاعر اور فلسفی ، سید وقار عظیم،لاہور، تصنیفات، 1968ء، 328 ص
== مطالب اسرار و رموز، مولانا غلام رسول مہر،لاھور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1969ء، 290 ص
== اقبال کے آخری دو سال ،عاشق حسین بٹالوی، کراچی، اقبال اکادمی، 1969ء، 759 ص سرینگر، شاہین بُک اسٹال ، 1994ء، 704 ص
== تصوراتِ اقبال ،مولانا صلاح الدین احمد ،لاہور، المقبول پبلی کیشنز ، 1969ء، 53 ص
== گفتارِ اقبال ،محمد رفیق افضل،مرتب ،لاہور، ادارہ تحقیقاتِ پاکستان ،1969ء،292 ص
== اقبال کا عِلم کلام ، پروفیسر سید علی عباس جلالپوری ،جہلم ، خرد افروز، بار اول 1971ء بار دوم ستمبر 1987ء، 278 ص
== Studies In Iqbal's Thought And Art , Sheikh Saeed , Lahore , Bazm i Iqbal , 1972
== مطالب بانگِ درا ، مولانا غلام رسول مہر ، لاھور، شیخ غلام علی اینڈ سنز، 1972ء، 359 ص
== اقبال ماعصرین کی نظر میں ،سید وقار عظیم ، لاہور،مجلس ترقی ادب ، 1973ء، 543 ص
== اقبال اور مغربی مفکرین ،جگن ناتھ آزاد ،نئی دہلی، مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ،1976ء
== اقبال کی کہانی ، جگن ناتھ آزاد، نئی دہلی، ترقی اُردو بورڈ ،1976ء ،1984ء ،1988ء
== بچوں کا اقبال ،جگن ناتھ آزاد ،سری نگر، کپور برادرس ،1977ء
== اقبال: زندگی شخصیت اور شاعری ،جگن ناتھ آزاد، نئی دہلی، نیشنل کونسل فار ایجوکیشن ریسرچ اینڈ ٹرینگ ،1977ء
== اقبال اور کشمیر ، جگن ناتھ آزاد، سرینگر، علی محمد اینڈ سنز ، 1977ء
== آئینہ ایامِ اقبال ، نسیم فاطمہ ،کراچی، لائبریری پُروموشن بیورو ،1977ء، 159 ص
== مُرقعِ اقبال ،جگن ناتھ آزاد،مرتبہ،لاھور، مکتبۂ علم و دانش ،بار اول 1977ء بار دوم 1985ء بار سوم 1996ء، 69 ص
== عرفان اقبال ،پروفیسر آلِ احمد سُرور ، زہرا مُعین ،مرتبہ ،بار اول 1977ء کراچی، اُردو اکیڈمی سندھ ،1983ء
== روایات اقبال ،ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ،لاہور ، اقبال اکادمی پاکستان بار اول 1977ء بار دوم 1989ء، 223 ص
== تصوراتِ عشق و خرد - اقبال کی نظر میں ،ڈاکٹر وزیر آغا ،لاھور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء 256 ص
== انتخاب پیامِ مشرق مترجم فیض احمد فیض ، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء، 211 ص
== انتخاب کلام اقبال ، صوفی غلام مصطفٰی تبسم ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء 140+81 ص
== اقبال کی فارسی شاعری کا تنقیدی جائزہ ، ڈاکٹر عبدالشکور احسن، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء، 586 ص
== اقبال اور قائد اعظم ، احمد سعید ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء، 128 ص
== پاکستان کے جامعاتی کتب خانوں میں اقبالیات پر کُتب ،محمد عادل عثمانی + نسیم فاطمہ ،کراچی، ڈاکٹر محمود حسین لائبریری جامعہ کراچی ،1977ء 62+24 ص
== جامعات میں اقبال کا تحقیقی اور تنقیدی مُطالعہ - ایک جائزہ ،ڈاکٹر سید معین الرحمٰن ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،468 ص
== اقبال کی صحبت میں ، ڈاکٹر محمد عبداللہ چغتائی ، لاہور،مجلس ترقی ادب ، نومبر 1977ء ،579 ص
== اقبال اور کشمیر ، ڈاکٹر صابر آفاقی،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،189 ص
== نقشِ اقبال ،اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،231 ص
== انتخاب پیامِ مشرق ، حضور احمد سلیم،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،159 ص
== ترجمانِ زبور ،جسٹس ایس اے رحمٰن،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،289 ص
== نذرِ اقبال ، ذوالفقار احمد تابش،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،303 ص
== اقبال اور فارسی شعراء ، ڈاکٹر محمد ریاض،لاہور ،اقبال اکادمی پاکستان ، 1977ء ، 376 ص
== اقبال اور مسلکِ تصوف ، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،627 ص
== مُتعلقاتِ خُطباتِ اقبال مُرتبہ ڈاکٹر سید عبداللہ ، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء ،380 ص
== سرا پردۂ افلاک ، صوفی غلام مصطفٰی تبسم ،لاہور، اقبال اکادمی پاکستان ،1977ء، 167 ص
== اقبال اور بزمِ اقبال حیدرآباد دکن ، عبدالرؤف عروج،کراچی، دارالاب پاکستان ،1978ء ، 164ص
== زندہ رُود - حیاتِ اقبال کا تشکیلی دَور، جاوید اقبال ،لاھور، شیخ غلام علی اینڈ سنز لمٹیڈ ،1979ء،157 ص
== سرگذشتِ اقبال ایک محاکمہ ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار،لاھور،مکتبۂ خیابان ،1979ء، 45 ص
== اقبال اور مغرب ،آل احمد سُرور،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی ،1981ء ،212 ص
== اقبال اور مغربی فکر ، وحیدالدین،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی،1981ء ،72 ص
== اقبال نامے ، اخلاق اثر ، نئی دہلی، مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ، 1981ء، 144 ص
== اقبال - اقوال و افکار ، عبادت بریلوی، دہلی، مکتبۂ نعیمہ ،1981ء ،208 ص
== اقبال اور مودودی کا تقابلی مُطالعہ ، عمر حیات خان،دہلی، مرکزی مکتبۂ اسلامی ،1981ء ،288 ص
== اقبال مجدد عصر ، سہیل بخاری،دہلی، مکتبۂ نعیمہ ،1981ء ،184 ص
== اقبال سب کے لیے ، فرمان فتح پوری،دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ،1981ء ،528 ص
== اقبال اور مشاہیر،طاہر تونسوی ،دہلی، مکتبۂ نعیمہ ،1981ء ،240 ص
== محمد اقبال - ایک ادبی سوانح حیات ،جگن ناتھ آزاد،نئی دہلی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،1983ء ،136 ص
== فکرِ اقبال کے بعض اہم پہلو، جگن ناتھ آزاد، سرینگر ،شیخ غلام محمد اینڈ سنز ،1983ء ، سرینگر،شاہین پبلشرز ، 1994ء ،408 ص
== اقبال کی نظری اور عملی شعریات، مسعود حسن خان،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی ،1983ء،96 ص
== اقبال کی قومی شاعری ، امتہ الکریم،حیدرآباد، امتہ الکریم ،1983ء،94 ص
== خطباتِ اقبال پر ایک نظر ،سید احمد البرآبادی، اقبال انسٹی ٹیوٹ،کشمیر یونیورسٹی ،1983ء،88 ص
== اقبال کا فن ، گوپی چند نارنگ ،نئی دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1983ء،345 ص
== اقبال - جہانِ دیگر ، محمد فریدالحق ،کراچی، گردیزی پبلشرز، جولائی 1983ء،153 ص
== تشخص کی تلاش کا مسئلہ اور اقبال ،آل احمد سُرور،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی ، 1984ء،164 ص
== رازِ حرف - اقبال کا مُطالعہ ،حامدی کاشمیری، نئی دہلی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،1984ء،144 ص
== حکمت گوئٹے اور فکرِ اقبال ،سرینگر،اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی، 1984ء،64 ص
== اقبال آشنائی ، حاتم رامپوری،مظفرپور،امجدی پبلیکیشن ،1984ء،208 ص
== اقبال اور عالمی ادب ، عبدالمغنی، گیا،کریسینٹ پبلی کیشنز،1984ء،576 ص
== اقبال کی اُردو نثر ، عبادت بریلوی،علی گڑھ ، مکتبۂ الفاظ ،1984ء،224 ص
== اقبالیات کی تلاش ، عبدالقوی دسنوی،نئی دہلی ،مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ،1984ء،208 ص
== زندہ رُود - حیاتِ اقبال کا اختتامی دَور ،جاوید اقبال ،لاھور،شیخ غلام علی اینڈ سنز لمٹیڈ ،1984 ،291-711 ص
== اقبال - کشِش اور گُریز ، پروفیسر عالم خوندمیری ،حیدرآباد، اقبال اکیڈمی، فروری 1985ء،160ص
== اقبال - فکر و فن ، محمد ہاشم ،علیگڑھ ،شعبۂ اُردو مسلم یونیورسٹی، 1985ء،326 ص
== اقبال کے ہم نشین ، پروفیسر صابر کلوروی، مرتبہ، لاھور، مکتبۂ خلیل،اکتوبر1985ء، 283 ص
== قرآن اور اقبال ،ابو محمد مصلح ،1986ء ، حیدرآباد،1986ء،192 ص
== اقبال اور اُردو نظم ، آل احمد سُرور،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، 1986ء،120 ص
== اقبال اور غزل ،ساحل احمد ،الہ آباد، اُردو رائٹرس گلڈ ،1986ء،296 ص
== اقبال کا ذکر و فکر ،سید لطیف الرحمٰن ، کولکتہ،سید لطیف الرحمٰن ، 1986ء،112 ص
== ریاست بھوپال اور اقبال - حقیقت کے آئینے میں ،ماسٹر اختر،بھوپال، نیا کتاب گھر ،1987ء،160 ص 160
== سر سید ، اقبال اور علی گڑھ ،اصغر عباس، علی گڑھ ،ایجوکیشنل بُک ہاؤس، 1987ء،64 ص
== فلسفۂ اقبال - خطبات کی روشنی میں ،وحیدالدین ،نئی دہلی، ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سینٹر، 1987ء،148 ص
== مُفکر اقبال ،وحیدالدین ،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی، 1987ء،48 ص
== اقبال فکر و فن ،سید اطہر،پٹنہ،ادارۂ تحقیقاتِ عربی و فارسی، 1988ء،197 ص
== اقبال کے تصوراتِ عشق و خرد ،وزیر آغا، دہلی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،1988ء،254 ص
== اقبال شناسی اور بلوچستان کے کالج میگزین جلد اول دوم ،انعام الحق کوثر،لاہور، بار اول 1988ء بار دوم 1994ء،280 ص
== اقبالیات کی مختلف جہتیں ،یونس جاوید،لاہور، بزمِ اقبال ،1988ء،384 ص
== اقبال کا فارسی کلام - ایک مطالعہ ،رفیق خاور، لاہور، بزمِ اقبال ،جولائی 1988ء،318 ص
== اقبال شناسی اور جولیو ،ڈاکٹر طارق عزیز،لاہور، بزمِ اقبال ،اگست 1988ء، 87+28 ص
== اقبال کا تصورِ دین ، شفیق الرحمٰن،نئی دہلی، اسلامک بُک فاؤنڈیشن ، 1990ء،388 ص
== اقبال پر نئی تنقید و دیگر مضامین ،محمد حنیف ،گیا، رضوان پبلی کیشنز، 1990ء،200 ص
== اقبال کا نظریہ خودی ، عبدالمغنی،نئی دہلی، مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ،1990ء،544 ص
== علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی ،حامد جلالی ،دہلی، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، 1990ء ،175 ص
== Tulip In The Desert A Selection Of The Poetry Of Muhammad Iqbal , Mustansir Mir , Lahore , Iqbal Academy Pakistan ,1990 p 196 ISBN -978-969-416-389-5
== اقبال نئی تحقیق ، شکیل احمد ،حیدرآباد، اقبال اکادمی،1991ء،70 ص
== اقبال کی ما بعد الطبعیات ،عشرت حسن انور ، شمس الدین صدیقی، مترجم،سرینگر، گلشن پبلشرز ،1991ء،160 ص
== اسلوبیاتِ اقبال ،طارق سعید ،علی گڑھ ،ایجوکیشنل بُک ہاؤس ،1991ء،168 ص
== افکارِ اقبال ،محمد عبدالسلام خان،نئی دہلی، مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ، 1991ء،388 ص
== اقبال: شاعر و مفکر ، ڈاکٹر نورالحسن تقوی، علی گڑھ ، 1992ء ،248 ص
== اقبال ماورائے دیر و حرم ،سلیمان اطہر جاوید، نئی دہلی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،1992ء،160 ص
== اقبال اور بچوں کا ادب ،زیب النساء بیگم، نئی دہلی، ترقیٔ اُردو بیورو، 1992ء،216 ص
== علامہ اقبال اور قرونِ اولٰی کے مسلمان مجاہدین ، عبدالصبور طارق،نئی دہلی ،اسلامک بُک فاؤنٍیشن ، 1993ء،366 ص
== محمد اقبال ،شکیل الرحمٰن،نئی دہلی، موڈرن پبلشنگ ہاؤس ،1993ء،200 ص
== شعریات بالِ جبریل ، توقیر احمد خاں،نئی دہلی، توقیر احمد خاں ،1993ء،200 ص
== خیالاتِ اقبال ،طیب انصاری،حیدرآباد، ادبی مرکز ،1993ء،104 ص
== اقبال اور تصوف ،آل احمد سُرور،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی ،1994ء،256 ص
== اقبال کا نظریہ شعر اور اُن کی شاعری ،آل احمد سُرور،نئی دہلی، مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ،1994ء،80 ص
== اقبال کی شعری زبان - ایک مُطالعہ ،سید صادق علی،ٹونک، سید صادق علی،1994ء،90 ص
== دانشور اقبال ،آل احمد سُرور،علی گڑھ ، ایجوکیشنل بُک ہاؤس، 1994ء،288 ص
== مجلس اقبال حصہ چہارم ،آفاق احمد،بھوپال، کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز،1994ء،208 ص
== مفتاحِ اقبال ،سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ، کشمیر یونیورسٹی، 1994ء،236 ص
== خطباتِ اقبال - ایک جائزہ ،محمد شریف بقا، سرینگر،گلشن پبلشرز ، 1994ء ،144ص
== Iqbal's Reconstruction Of Ijtihad , Muhammad Khalid Masud , Lahore , Iqbal Academy Pakistan , 1995 p 236
== افکارِ اقبال ،صابر ابوہری،ہریانہ، صابر ابوہری ،1995ء،112 ص
== اقبال اور اسلامی معاشرہ ،الطاف حسین، سرینگر،گلشن پبلشرز ، 1995ء،152 ص
== اقبال - شاعر اور سیاست دان ،نئی دہلی، انجمن ترقی اُردو (ہند) ، 1995ء،274 ص
== اقبال - فکرِ اسلام کی تشکیلِ جدید ،حسین محمد جعفری،نئی دہلی، اسلامک بُک فاؤنڈیشن ،1995ء،324 ص
== برہانِ اقبال ،محمد منور ،سرینگر، گلشن پبلشرز، 1995ء،288 ص
== مضامینِ اقبال ،تصدق حسین تاج،حیدرآباد، تصدق حسین تاج ،بار دوم 1995ء ،282 ص
== اقبال اور چند دوسرے شعراء ،محمد طٰہ صدیقی، بستی، محمد طٰہ صدیقی، 1996ء،150 ص
== اقبال کا حرفِ تمنا ، شمیم حنفی،نئی دہلی، انجمن ترقی اُردو (ہند) ، 1996ء،120 ص
== بالِ جبریل - ایک مُطالعہ ،اثر لکھنوی + ساحل احمد ،الہ آباد، 1996ء،50 ص
== اقبال ایک سیاسی مُفکر ،مشیر الحق مُرتب ماہ طلعت ،نئی دہلی، ماہ طلعت ،1996ء،82 ص
== اقبال - شخصیت اور پیام ،طیب عثمان ندوی، فہلی، مرکزی مکتبۂ اسلامی پبلشرز،1997ء ،224 ص
== اقبالیاتِ آزاد ،جگن ناتھ آزاد ،نئی دہلی، محروم میموریل لٹریری سوسائٹی ،1997ء،204 ص
== اقبال کی شعری و فکری جہات ،عبدالحق، دہلی، شعبۂ اُردو ،1998ء،314 ص
== مجلس اقبال حصہ ششم ،بھوپال، کل ہند علامہ اقبال ادبی مرکز،1998ء،96 ص
== اقبال اور مابعدالتاریخ ، حیات عامر حسینی، سرینگر، اقبال انسٹی ٹیوٹ ،کشمیر یونیورسٹی، 1998ء،600 ص
== اقبال فن اور فلسفہ ، نورالحسن نقوی،علی گڑھ ، ایجوکیشنل بُک ہاؤس، 1999ء،168 ص
== اقبال کا نظریۂ شعر اور اُن کی شاعری ،آل احمد سرور،نئی دہلی، مکتبۂ جامعہ لمٹیڈ ،بار دوم 1999ء،80 ص
== اقبال کے شعری اسالیب - ایک جائزہ ، صادق علی،دہلی، نازش بُک سینٹر ،1999ء،168 ص
== اقبال کا اُردو کلام ، پروفیسر ڈاکٹر ایوب صابر ،اسلام آباد، مقتتدرہ قومی زبان ،2003ء،198 ص
== Iqbal Commemorative Volume , Ali Sardar Jafri + Duggal K S , Lahore, Iqbal Academy Pakistan , 2004 p 318+6 ISBN - 969-416-324-2
== The Poet Of The East , A Anwar Beg , Lahore , Iqbal Academy Pakistan , 2004 p 323 ISBN - 969-416-326-9
== Iqbal The Poet Of Tomorrow , KhawaJa Abdur Rahim , Lahore , Iqbal Academy Pakistan , 2004 p 273 ISBN-969-416-323-4
== iqbal the great poet philosopher of the muslim world mujibur rahman lahore iqbal academy pakistan , 2004 p 143 ISBN - 969-416-321-8
== How to read Iqbal? , Shamsur Rehman Faruqi ,Lahore, Iqbal Academy Pakstan, 2005 p 47
== Iqbal , Mustansir Mir , Lahore , Iqbal Academy Pakistan , 2006 p 157 ISBN -969-416-380-3
== زوال سے اقبال تک - قیامِ پاکستان کا نظریاتی پسِ منظر ،محمد جہانگیر تمیمی ،لاہور،عباسی پبلیکیشنز ، 2008ء،469 ص
 
وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے از ڈاکٹر جاوید اقبال


بعض اہم موضوعات پر علامہ اقبال نے شعر یا نثر میں کچھ نہ کچھ تحریر کرنے کے منصوبے تو بنائے مگر زندگی نے وفا نہ کی، اس لیے اُن کی تکمیل نہ ہو سکی۔ مثلاً مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں بھگوت گیتا کا اردو اشعار میں ترجمہ کرنے کے ارادے کا ذکر کرتے ہیں۔صوفی غلام مصطفی تبسم کو خط میں انگریزی میں ایسی کتاب لکھنے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہوگا ’’اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘۔ نذیر نیازی فرماتے ہیں کہ حادثہ کربلا پر ہومرکے اوڈیسے کی طرز پر ایک طویل نظم لکھنا چاہتے تھے۔ جاوید نامہ میں اضافی ارواح سے ملاقاتوں کے بارے میں لکھنے کا سوچتے تھے۔ انگریزی میں ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب تحریر کرنے کا منصوبہ تھا۔
آخری ایام میں نواب بھوپال سے وعدہ کیا کہ ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھیں گے۔ اس سلسلے میں میاں محمدشفیع(م ۔ش) سے انگریزی میں کچھ ابتدائی نوٹس بھی لکھوائے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خط محررہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء میں فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غربت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اُس کے آئندہ ارتقا میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قانونِ شریعت کا نفاذ اور ارتقا اس سر زمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ کو کسی مناسب شکل میں جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کر لینا’’ انقلاب‘‘ نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔
ان منصوبوں میں بعض تو ادبی نوعیت کے ہیں، بعض کا تعلق فلسفہ، مابعد الطبیعیات یا دینیات سے ہے اور بعض خالصتاً عنقریب وجود میں آنے والی مسلم ریاست(پاکستان) کی عملی ، سیاسی اور معاشی ضروریات سے متعلق ہیں۔ مثلاً بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، حادثۂ کربلا پر ہومر کے اوڈیسے کی طرز پر نظم لکھنا یا جاوید نامہ میں اضافی ارواح شامل کرنا، ایسے ادبی منصوبے تھے جو شاعر کے تخیلی سمندر میں مضطرب لہروں کی طرح ابھرے اور ڈوب گئے ۔ لیکن باقی منصوبوںکے بارے میں ایسا گمان کرنا درست نہ ہوگا ۔ ’’اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب‘‘ جیسی کتب تحریر کرنے کا اگر اُنھیں موقع مل جاتا تو تخلیقی سوچ کے اعتبار سے وہ خطبات اسلامی فکر کی تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ اسی طرح ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر اگر وہ کتب تحریر کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اُن کے افکار مسلمانان پاکستان کی مزید فکری رہبری کا باعث بن سکتے تھے۔
خطبات تشکیل نو کن کے لیے تحریر کیے گئے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفہ سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے خیالات میں خامیاں ہیں تو اُن کو رفع کیا جائے۔
جب یہ لیکچر علی گڑھ یونی ورسٹی کے طلبہ نے سنے تو صدر شعبۂ فلسفہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے علامہ اقبال سے کہا:
جناب والا! آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنونِ احسان ہیں۔ آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔
خطبات کے ایک مبصر سلیم احمد تحریر کرتے ہیں:
اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الٰہیات کی تشکیل کا مطالبہ کر رہا تھا۔ اقبال کی نئی الٰہیات کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے۔ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اسے اپنے اندر جذب کرکے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر اُن کی ہم آہنگی کو الٰہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک زبردست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔
یہ سب اپنی جگہ درست۔ حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اُسے ناپسند فرمایا۔ جہاں تک مسلمانوں کی ’’مغرب زدہ‘‘ نئی نسل کا تعلق ہے ، انھوں نے خطبات کو ، جس توجہ کے وہ مستحق تھے، نہیں دی۔لہٰذا علامہ اقبال کی ’’فکر افزائی‘‘ اوروں کی ہمت نہ بندھا سکی۔
خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُنھیں تحریر کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔پہلی یہ کہ علامہ اقبال کو احساس تھا کہ دنیائے اسلام ہر طور پر مغرب کی طرف جھکتی چلی جا رہی ہے۔ وہ اس تحریک کے مخالف نہ تھے کیونکہ یورپی تہذیب عقل و دانش کے اعتبار سے اُنھی نظریات کی ترقی یافتہ صورت پیش کرتی ہے جن پر اسلام کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یورپی تہذیب کو ایک طرح سے اسلامی تہذیب ہی کی توسیع خیال کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کی نئی نسل کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ اسلامی عقائد اور نظریۂ حیات کا ایک بار پھر جائزہ لے کر ایسی نئی تعبیر یا تشریح کی ضرورت ہے جو وقت کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ اُنھیں خدشہ صرف اس بات کا تھا کہ مادہ پرست یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک ہمیں اتنا متاثر نہ کر دے کہ ہم اس کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچ سکنے کے قابل نہ رہیں۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ بقول اقبال انسان مختلف قسم کے رشتوں کے ذریعے خدا اور کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کی توجہ سائنسی علوم کی طرف مبذول کرنے کی خاطر اُن پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام روحانی دنیا کے ساتھ مادی دنیا کو بطور حقیقت تسلیم کرتا ہے اور انسان کو مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل سے تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔
تیسری وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کے نزدیک روحانی (یا مذہبی) تجربہ بھی ایک نوع کا علم ہے جسے دیگر علوم کی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے خطبات میں فکری نقطۂ نگاہ سے اسلام کو بطور ارفع مذہب پیش کیا اور بعض آیات کی تعبیر سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مابعد الطبیعیات ، طبیعیات یا مادے اور زمان و مکان سے متعلق فکری یا تجربی علوم کے نئے انکشافات کی تصدیق قرآن سے کی جا سکتی ہے۔
خطبات کا مطالعہ مختلف جہتوں سے کیا جا سکتا ہے اور اُنھیں تحریر کرنے کی اور وجوہ بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔ جس طرح پہلے کہا جا چکا ہے ، اگر علامہ اقبال ’’ اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب ‘‘ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقینا وہ خطبات تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ یہ کام صرف علامہ اقبال خود ہی انجام دے سکتے تھے۔ اس میدان میں اُن کی ’’فکر افزا‘‘ مثال نے پہلے کسی کی ہمت نہ بندھائی تو اب کیا بندھائے گی۔
اب علامہ اقبال کے ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ کے مطالبے میں علامہ اقبال نے پہل نہیں کی ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و تمدنی زوال و انتشار کے عالم میں دراصل شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے کو اٹھایا اور اپنے وضع کردہ فقہی اصول’’ تلفیق‘‘ کے تحت اہل سنت والجماعت فرقے کو اُن کے چار مدرسہ ہائے فقہ (حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی) میں سے ہر کسی معاملے میں سب سے سہل راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ۔ یہ صحیح معنوں میں اجتہاد تو نہ تھا، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سنیوں کے چاروں فقہی مذاہب کے علماء ایک دوسرے پر کفرکے فتوے صادر کرتے رہے۔ شاید اسی بنا پر بعد میں سر سید احمد خان نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں نے اگر’’تقلید‘‘ کو نہ چھوڑا تو برصغیر میں اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ علامہ اقبال نے ۱۹۲۴ء میں جب ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اپنا پہلا خطبہ دیا تو اُن پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ بعد ازاں اسی خطبے کو بہتر صورت میں خطباتِ تشکیل نو میں شامل کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے ’’اجتہادِ مطلق‘‘ پر اصرار کے اسباب کیا تھے؟
علامہ اقبال نے مسلمانوں کے عالمی دینی ، سیاسی ، تہذیبی، معاشرتی زوال کی جو وجوہ بیان کی ہیں اُن میں نمایاں تین ہیں: ملوکیت، ملائیت اور خانقاہیت۔ اُن کے خیال میں اسلام کا ’’نزول‘‘ اس وقت ہوا جب انسان کی عقلِ استقرائی بالغ ہو چکی تھی اور اُسے نبیوں، مذہبی پیشوائوں اور بادشاہوں جیسے سہاروں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نبوت ختم ہو گئی۔ اسلام میں پرانے مذاہب کی مانند کسی قسم کی پاپائیت یا مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں۔ مسلمانوں نے ابتدا ہی میں ساسانی اور رومن سلطنتوں کا خاتمہ کرکے ثابت کر دیا کہ ملوکیت کا تعلق عہدِ جاہلیت سے تھا۔ بقول علامہ اقبال اسلام کا پیغام سلطانیِ جمہور کا قیام ہے اور یہ کہ اب شعور کی بلوغت کے سبب انسان وحی اور اُس کے احکام کی تعبیر و تشریح خود کر سکتا ہے اور اُس کی بقا اسی میں ہے کہ کرتارہے۔
علامہ اقبال ’’اجتہاد مطلق‘‘ پر اس لیے بھی زور دیتے ہیں کہ اُن کے مطابق اسلام مسلمانوں کو ’’ثبات فی التغیر‘‘کے اصول پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآنی احکام جو عبادات سے متعلق ہیں اُن میںکسی ردو بدل کی گنجائش نہیں، انھیں ثبات حاصل ہے۔ لیکن جن احکام کا تعلق ’’معاملات‘‘ سے ہے وہ اصولِ تغیر کے تحت ہیں اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اُن میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اسی سبب علامہ اقبال کی رائے میں ’’اجتہاد‘‘ بطور عمل اسلام کی ابتدا ہی کے ساتھ جاری ہو گیا تھا۔ علامہ اقبال ’’اجتہاد‘‘ کی تعریف ’’اصولِ حرکت‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔ اس بنا پر فرماتے ہیں کہ جو اجتہادات ماضی میں کیے گئے وہ اپنے اپنے زمانوں کے مطابق درست تھے۔ مگر وہ حال کی ضروریات کے مطابق صحیح قرار نہیں دیے جا سکتے۔ جو کوئی بھی اجتہاد کی تاریخ اور ارتقا کے موضوع پر مستند کتاب لکھنے کا اہل ہو گا، وہ اپنے وقت کا مجدد قرار پائے گا۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شاید یہ ایک شخص کاکام نہ ہو بلکہ اسے انجام دینے کے لیے فقہاء کا ایک بورڈ قائم کرنا پڑے۔ اور اُس کی تکمیل کے لیے خاصی مدت لگے۔
اگر سوال کیا جائے کہ علامہ اقبال کی سوچ کا ’’عطر ‘‘ کیا ہے؟ تو اس کا جواب اُن کے جاوید نامہ کے اُن چند اشعار سے دیا جا سکتا ہے، جب وہ خدائے اسلام کے حضور میں کھڑے ہیں اور خدا وند تعالیٰ کے منہ ہی سے کہلواتے ہیں:
ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست
از جمالِ ما نصیبِ خود نبرد
از نخیلِ زندگانی بر نخورد
(ہر وہ جو تخلیقی سوچ کی قوت نہیں رکھتا، ہمارے نزدیک اصل کا فر اور منافق ہے۔ اُس نے ہمارے جمال میں سے اپنا نصیب حاصل نہیں کیا اور وہ زندگانی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا۔)
علامہ اقبال کو اس المیے کا بخوبی احساس تھا کہ تحریکِ پاکستان سے پیشتر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تحریکیں، یعنی تحریک مجاہدین اور اُس کے بعد تحریک خلافت، جو اسلام کے نام پر چلیں، اس لیے ناکام ہوئیں کہ اُن کے پیچھے سوچ ’’تقلیدی ‘‘تھی۔ تحریکِ پاکستان بھی اسلام ہی کے نام پر چلی، لیکن اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس لیے کہ اُس کے پیچھے سوچ ’’اجتہادی ‘‘ تھی۔علامہ اقبال نے ’’علاقائی قومیت‘‘ کے مغربی تصور کو ’’اسلامی یا مسلم قومیت‘‘ کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ یعنی اگر مشترک علاقہ، زبان یا نسل کی بنیاد پر انسانوں کا گروہ ایک قوم بن سکتا ہے تو مشترک روحانی مطمحِ نظر کی بنیاد پر مسلمان ایک قوم کیوں نہیں کہلا سکتے؟۱۹۳۰ء میں خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے’’ مسلم قومیت‘‘کے اسی اصول کی بنیاد پر علیحدہ ’’ریاست‘‘کا مطالبہ کیا۔ اُس سے پیشتر ۱۹۳۰ء میں وہ اپنا خطبہ ’’اجتہاد بطور اصولِ حرکت ‘‘ دے چکے تھے۔ وفات سے چند روز قبل اسی موضوع پر علامہ اقبال کا مناظرہ دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا۔ مولانا کا موقف تھا کہ برصغیر کے مسلمان، قوم کے اعتبار سے ہندوستانی ہیں مگر ملت کے اعتبار سے مسلمان۔ علامہ اقبال نے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک ’’قوم و ملت‘‘ میں کوئی امتیاز نہیں، دونوں کے ایک ہی معانی ہیں۔ پس بالآخر اسی اجتہادی سوچ کے نتیجے میں برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں نے پاکستان کو وجود میں لا کر سیاسی و تہذیبی آزادی حاصل کی۔
اگر پاکستان اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے تو اسلامی قانون سازی کے معاملے میں اجتہاد ہی کے ذریعے زندہ رہ سکتا ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال آئین کے تحت جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ(اجماع یا شوریٰ) کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک آئندہ کے مجتہد وہ قانونی ماہرین یا وکلاء ہونے چاہییں جنھوں نے ’’اسلامی فقہ‘‘ اور ’’جدید جو رسپروڈنس‘‘ کے تقابلی مطالعہ کے موضوع پر اعلیٰ تربیت حاصل کی ہو۔ ایسے قانونی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اسلامی قانون سازی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیرمیں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی ۔ اس دوران بادشاہوں نے قلعے بنائے تو اپنی حفاظت کے لیے، محل بنائے تو اپنی عیش و عشرت کے لیے ، مقبرے بنائے تو اس لیے کہ یاد رکھے جائیں اور مساجد تعمیر کرائیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہ معاف کر دے۔ لیکن نہ کوئی دارالعدل کی عمارت نظر آئے گی نہ دارالعلم کی۔ بادشاہوں کی تاریخ کتب سے ہم اتنا جانتے ہیں کہ فیروز تغلق کے زمانے میں آئین فیروز شاہی لاگو ہوا یا اورنگ زیب کے عہد میں فتاویٰ عالمگیری کی روشنی میں انصاف کیا جاتا تھا۔ ایسی کتب جن سے معلوم ہو سکے کہ اس دوران عدل گستری کے لیے نافذ قوانین کی نوعیت کیا تھی؟ اسی طرح ایسی کتب موجود نہیں جو اس دوران ہمیں اپنے تہذیبی ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم کر سکیں۔ یعنی کیا اس مسلم دور کے ہندوستانی مدرسوں نے علم الکلام، فلسفہ یا تجربی علوم میں کوئی اہم یا قابلِ ذکر ہستیاں پیدا کیں؟ اگر علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ رہتے تو ایسے سب میدانوں میں تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے۔
’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کے بارے میں علامہ اقبال نے کوئی مستند مقالہ یا خطبہ تو تحریر نہیں کیا۔ شعر و نثر میں چند اشارے موجود ہیں۔ البتہ وہ مارکسنرم، کمیونزم یا اشتراکیت کے اتنے ہی خلاف تھے جتنے سرمایہ داری یا جاگیرداری کے۔ اُن کے خیال میں انسانی بہبود یا فلاح کا ہر وہ نظام جو روحانیت سے عاری ہو، انسان کے لیے صحیح سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتا۔ شاید اسی بنا پر انھوں نے خطبات میں شامل اپنے خطبہ ’’اجتہاد‘‘ میں فرمایا کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی‘‘ جمہوریت کا قیام ہے۔ علاوہ اس کے پیش گوئی کی تھی کہ سویٹ روس میں کمیونزم بطور نظام ختم ہو جائے گا، جو بالآخر درست ثابت ہوئی۔ مغربی تہذیب کے روحانیت سے عاری سرمایہ دارانہ نظام کے استبداد کے بارے میں بھی وہ سمجھتے تھے کہ شاخِ نارک پر بنا یہ آشیانہ نا پائیدار ہو گا۔ علامہ اقبال کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن کو اسلامی نظامِ معیشت قرار دیتے ہوئے اُسے ’’اقتصاد‘‘ کا نام دیتے ہیں یعنی درمیانے طبقے کی فلاحی ریاست ۔بہرحال یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اگرچہ علامہ اقبال نے ابتدائی زمانہ میں ’’پولیٹکل اکانومی‘‘ پر کتابچہ تحریر کیا اور قیام انگلستان کے دوران ’’اکانومکس‘‘ کی کلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے،لیکن وہ صحیح معنوں میں تربیت یافتہ اکانومسٹ یا اقتصادیات کے ماہر نہ تھے۔
۱۹۲۶ء میں علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اُس زمانہ میں ’’انڈسٹری‘‘ کے میدان میں تو مسلمانوں کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ البتہ ’’جاگیرداری‘‘ کا مسئلہ تھا۔ لہٰذا اس موضوع پر کونسل میں اُن کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو زمین کا مالک سمجھتے تھے۔ یعنی اُن کے نزدیک چار بنیادی عنصر جن سے کائنات تشکیل کی گئی۔ آگ ، پانی، ہوا اور زمین، سب خدا کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا انسان اصولی طور پر زمین کا مالک نہیں، محض ’’ٹرسٹی‘‘ہے تاکہ اُس کے ذریعے روزی کما سکے۔ اس اصول کا اطلاق وہ ’’کرائون ‘‘ یا ’’سٹیٹ‘‘ پر بھی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ’’کرائون‘‘ (اسٹیٹ) کے تصرف میں جو اراضی ہے وہ آسان قسطوں پر بے زمین کاشتکاروں میں بانٹ دی جائے۔ نیز جاگیردار کے پاس اتنی اراضی رہنے دی جائے جو وہ خود کاشت کرتا ہو۔ گویاعلامہ اقبال جاگیردار کے ’’ٹیننٹ‘‘ سے ’’بٹائی ‘‘ (مخابرہ )لینے کے بھی خلاف تھے ۔ اسی طرح اُس زمانہ میں بڑے زمینداروں پر ’’ایگریکلچرل‘‘ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی، جو ٹیکس، عشر اور زکاۃ کی وصولی کے علاوہ تھا ۔ علامہ اقبال مسلم جاگیرداروں پر اسلامی قانونِ وراثت کے سختی کے ساتھ اطلاق سے بھی سمجھتے تھے کہ یوں چند نسلیں گزرنے کے بعد جاگیرداری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال ’’لینڈ ریفارم‘‘ کے بارے میں مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔
تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ کی معیشت کی بنیادیں دراصل ابتدا ہی سے ’’فیوڈل‘‘ (جاگیرداری) نظام پر قائم ہونے کی بجائے ’’مرکنٹائیل‘‘ (تجارتی) نظام پر قائم تھیں۔ اسی لیے اسلامی فقہ میں ’’مال ‘‘ سے مراد ’’سرمایہ‘‘ (ویلتھ) بھی ہے اور ’’اراضی‘‘ (اسٹیٹ)بھی ۔ نیز تجارت کے ذریعے پیداوار بڑھانا یا منافع کمانا اخلاقی طور پر عمدہ اسلامی خصائل سمجھے جاتے تھے۔ ’’تجارتی معیشت’’ (مارکیٹ اکانومی)کے لیے ’’سرمایہ‘‘ کی فراہمی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے اگرچہ اسلامی قانون کے مطابق ربا حرام ہے ، لیکن ایسے لین دین کو مختلف ’’حیلوں‘‘ کے ذریعے جاری رکھا گیا ۔ بقول ناصر خسرو گیارھویں صدی اصفہان میں’’تبادلہ سرمایہ‘‘ (منی ایکسچینج) کی خاطر دوسو کے قریب کاروباری ادارے موجود تھے یہی کاروبار کرتے تھے ۔ علامہ اقبال معاشرہ میں ’’سرمایہ‘‘ (کیپٹل) کی قوت کو بالکل ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ’’مارکیٹ اکانومی‘‘ کے فروغ کے لیے اس کی موجودگی کو اہم خیال کرتے ہیں۔ اسی سبب مولانا شبلی کی طرح بنک کے سود کو ’’منافع‘‘ قرار دیتے ہیں کیوںکہ اس میں استحصال کا ویسا امکان نہیں جو ربا کی وصولی میں ہے۔
پرانے زمانے کی اسلامی ریاست کی آمدنی کے ذرائع مختصراً یہ تھے : ذمیوں سے ’’جزیہ‘‘ اور اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’خراج‘‘کی وصولی۔ ’’غینمہ‘‘ مسلمانوں سے ، اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’عشر‘‘ اور اُس کے علاوہ ’’ زکاۃ‘‘ کی وصولی (اگر رضاکارانہ طور پر ادا نہ کی گئی ہو تو)۔ ریاست کو ’’تجارتی معیشت‘‘ کے ذریعے منافع پر مختلف نوعیت کے ٹیکسوں کی آمدنی بھی ہوتی تھی۔ معاشیات کے بارے میں تحریر کرنے والوں میں امام ابو یوسف کی کتاب الخراج معروف ہے مگر ابن خلدون ، البیرونی ، ابن تیمیہ، ناصر طوسی، ابن مسکویہ اور اخوان الصفا نے بھی اپنی کتب میں ایسے مسائل پر بحث کی ہے۔
جہاں تک انسان کے بنیادی حقوق کا تعلق ہے، قرآن کی سورۃ طٰہٰ آیات ۱۱۸،۱۱۹ میں اللہ تعالیٰ آدم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: اے آدم، تمھارے لیے یہاں انتظام ہے۔ نہ بھوکے ننگے رہو گے، نہ گرمی تمھیں ستائے گی۔‘‘ ان آیات کے ساتھ اگر ترمذی کی بیان کردہ حدیث پڑھی جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: آدم کے بیٹے کے تین حقوق ہیں: رہنے کو مکان، ننگاپن چھپانے کو کپڑا اور کھانے پینے کو روٹی اور پانی۔‘‘ تو اسلامی فلاحی ریاست کے ارباب بست و کشاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر شہری کو یہ سہولتیں فراہم کریں۔ اور اب تو اُن میں دو مزید حقوق، یعنی بلا معاوضہ تعلیم اور مفت طبی امداد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہے کہ علامہ اقبال خاندانی منصوبہ بندی کے اس طرح قائل تھے کہ اگر بیوی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو خاوند اُسے مجبور نہیں کر سکتا۔
علامہ اقبال جب قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ اسلامی قانون کے طویل مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ’’جدید نظریات‘‘کی روشنی میں اس کے ارتقا کے ذریعے قابل قبول’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ قائم کی جا سکتی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے: وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد کن قرآنی آیات پر استوار کرتے ہیں، عین ممکن ہے انھوں نے فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کی بنیاد سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ اور سورۃ الذاریات آیت ۱۹ پر رکھی ہو۔ سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ میں حکم ہے : ’’پوچھتے ہیں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا جائے ؟ قل العفو (کہو جو ضرورت سے زاید ہے)!!‘‘اس ضمن میں علامہ اقبال کے اشعار قابل غور ہیں:
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار
’’قل العفو‘‘کے بارے میں ’’تقلیدی‘‘ سوچ تو یہی ہے کہ انسان رضا کارانہ طور پر جو اپنی ضرورت سے زاید یا فالتو سمجھے خدا کی راہ میں دے دے۔ مگر ’’جدت کردار‘‘ سے علامہ اقبال کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ طے کرنے کے لیے کہ ضرورت سے زاید یا فالتو کیا ہے، ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ سورۃ الذاریات آیت ۱۹ میں ارشادہوتا ہے ’’دولت مندوں کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ ہے۔‘‘ کیا علامہ اقبال کے نزدیک اس حصے کا تعین کرنے کی خاطر بھی ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ علامہ اقبال کے ارشادات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے قرآنی تصور اور دولت مندوں کی ذمہ داری سے متعلق قرآنی احکام کے تحت ’’روحانی‘‘ بنیادوں پر قائم ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ یا ’’اسلامی فلاحی ریاست ‘‘ وجود میں لائی جا سکتی ہے۔
بہر حال خصوصی طور پر ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر کتب تحریر کرنا ایسے کام تھے جو علامہ اقبال تو ادھورے چھوڑ گئے مگر علامہ اقبال کے نام پر قائم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے انجام دے سکتے ہیں۔ یہی امید ہمیں اس ادارے سے رکھنی چاہیے جو میاں اقبال صلاح الدین اور اُن کے رفقاء نے علامہ اقبال کے نام پر قائم کیا ہے۔ شاید ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ پر کوئی مستند کتاب تحریر کرنے کی خاطر علماء و فقہاء کا بورڈ قائم کرنے کی ضرورت پڑے ۔ اسی طرح ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘کے موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی خاطر ماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کرنی پڑیں۔ علامہ اقبال احیائے اسلام کے شاعر ہیں۔ انھوں نے فرما رکھا ہے کہ وہ ’’حرف آخر ‘‘ نہیں ۔ اگر اُن کا شروع کردہ عملِ احیا واقعی جاری ہے تو بقول اُن کے، اُن کے پیش کردہ نظریات سے بہتر نظریات سامنے آ سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اُن کے اس شعر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے:
ہر کہ او را قوّت تخلیق نیست
پیشِ ما جز کافر و زندیق نیست
 
اقبال کی برکتیں از عاصی کرنالی


مولوی عبدالصمد خان نے کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے کہا ''میاں! خدا تمہاری خیر کرے' علم و فضل کی ناقدری جیسی اس زمانے میں دیکھی' کبھی کاہے کو ہوگی۔ نوکری چاکری کا ہر دروازہ بند ہوگیا۔ سفارش کہاں سے لاتا۔ کام نکالنے کے لیے چاہیے تھا پیسا' وہ میرے پاس کہاں۔ کسی مسجد کی امامت تک نہ مل سکی۔ میں بھوکوں مرنے لگا۔ آخر میں نے سوچا' علم کو تین طلاق دوں اور اَدب کو اپنے حبالۂ عقد میں لے آوں۔ تم جانو بندقسمت ہونا اور بات ہے' کند ذہن ہونا اور چیز۔ میں ے ذہانت کی تیز چھری سے بدقسمتی کی رسیاں کاٹنی شروع کردیں اور آج خدا تمہاری خیر کرے میاں! کوٹھی ہے' کار ہے' جائیداد ہے' عزت ہے' شہرت ہے' خدا کا دیا سب کچھ ہے۔'' ''مولوی صاحب! آپ کو شاید الٰہ دین کا چراغ مل گیا' جو چٹکی بجاتے یہ کایا پلٹ ہوگئی۔'' میں نے ازراہِ تحیر پوچھا۔ مولوی عبدالصمد خان نے اسکوائش کا گلاس مجھے تھماتے ہوئے کہا ''بتاتا ہوں' سب کچھ بتاتا ہوں۔ میاں خدا تمہاری خیر کرے' تم جانو' میں مکار نہیں ہوں۔ کسی کو دھوکا نہیں دیتا۔ ہر معاملے میں سونے کی طرح کھرا ہوں۔ یہ سب ہوت جوت جو تم دیکھ رہے ہو' یہ نیت کا پھل ہے۔ میری نیت اور ذہانت دونوں' گویا جڑواں بچے ہیں۔ میں اڑتی چڑیا کے پَر گنتا ہوں۔ زمانے کی ہوا پہچانتا ہوں۔'' ''مولوی صاحب پہیلیاں نہ بھجوایئے۔ دولت مند بننے کا گْر بتایئے۔'' میں نے گلاس ختم کرتے ہوئے کہا۔ ''بتاتا ہوں۔ میاں خدا تمہاری خیر کرے' تم جانو ہماری قوم مردہ پرست ہے۔'' ''مردہ پرست یعنی چہ؟'' میں نے تعجب کا اظہار کیا۔ ''مردہ پرست' یعنی مرنے کے بعد قدر کرنے والی' یعنی… خیر چھوڑو اس بات کو' بس یوں سمجھو کہ جب تک اقبال زندہ رہے' میں ان کے مخالفین میں شامل رہا' ان کے خلاف جن علما نے کفر کا فتویٰ دیا' ان میں یہ حقیر پرتقصیر بھی شامل تھا۔ توبہ ہے' توبہ…'' مولوی عبدالصمد خان نے اپنے دونوں رخساروں پر ہلکے ہلکے چپت لگائے جیسے خود کو سزا دے رہے ہوں۔ ''توبہ ہے' توبہ!… خیر یہ بحث بھی چھوڑو۔ پھر اقبال مر گئے۔ میں پھر بھی مخالف رہا۔ پھر جس مسجد میں' میں امامت کا خواست گار تھا' وہاں مولوی غلام غوث' خدا اس کا بیڑا غرق کرے' قابض ہوگیا' میں بھوکا مرنے لگا تو میاں' خدا تمہاری خیر کرے' میں اقبال پرست بن گیا۔ یہ ادب میں میری پہلی مداخلت تھی۔ میں چند دل والوں اور دولت والوں کو جمع کیا اور کہا: ''اقبال ہمارا شاعر' ہمارا محسن' پاکستان کے تصور کا خالق اور ہم اسے زندہ رکھنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے ہیں' لعنت ہے ہم پر…'' ''ہمیں کیا کرنا چاہیے مولوی صاحب؟…'' ایک دوسرے امیر کبیر نے کہا ''آپ جو چاہیں کریں۔ پیساہم سے لے لیں' ہم آپ کو کنوینئر بناتے ہیں۔'' ''منظور ہی… منظور ہے۔'' سب نے ایک آواز ہو کر کہا۔ ''تو میاں خدا تمہاری خیر کرے' یہ لو پیو اسکوائش' لونا بھئی' ایک گلاس اور ''میری خاطر'' اچھا چلو اقبال کے صدقے میں' ہاں شاباش پیو' پی لو… تو میاں! میں نے ایک بڑا بھاری جلسہ کیا۔ خرچ اخراجات کے لیے ایک ہی سیٹھ نے دس ہزار تھما دیے۔ بھئی لوگ بڑے اہل دل ہیں۔ جلسہ کامیاب رہا۔ اخباروں میں بڑی دھوم ہوئی۔ میری اور سیٹھ عبدالسلام کی تصویریں خوب خوب چھپیں۔ چار ہزار روپیا بچا' جسے حق محنت کے طور پر اس خادم نے اپنے ہی پاس رہنے دیا۔'' ''سب نیت کا پھل ہے مولوی صاحب!'' میں نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ''ہاں تو میاں! جلسہ کامیاب رہا۔ میرا دل کھل گیا۔ چھ ماہ بعد میں نے مشاعرے کی تجویز رکھی۔ مجلس عاملہ نے قبول کی۔ مجھی کو پھر کنوینئر بنادیا۔ ارکان عاملہ نے حسب توفیق چندہ جمع کیا۔ دو سو روپے اس حقیر پرتقصیر' خادم اقبال نے بھی پیش کیے۔ اس نشست میں پانچ ہزار اکٹھے ہوگئے۔ پھر میں نے عطیہ مہم شروع کی' پھر خیرات مہم' پھر چندہ مہم اور آخر میں ٹکٹ مہم۔ ایک مہینے کی محنت شاقہ سے پچاس ہزار کی ڈھیری لگ گئی۔ روح اقبال کے فیض کے قربان جایئے۔ پھر میں نے شعرائ کو دعوت نامے لکھے۔ پہلے اْن شاعروں کو مدعو کیا جن سے دوستی یا جان پہچان تھی' بدیں مضمون کہ چند سوختہ ساماں قلندروں نے اپنی اپنی کشتیاں جلا کر اقبال کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کارِ خیر میں آپ بھی جذبہ قربانی سے کام لیتے ہوئے ازراہِ اقبال نوازی بلا معاوضہ تشریف لایئے۔ کھانا اور چائے بہ ذمہ منتظمین۔ دس شاعروں کِی طرف سے قبولیت نامے وصول ہوگئے۔ بعض شاعروں کو دعوت نامے اس انداز میں لکھے گئے گویا یہ بزم اقبال نہیں' یتیم خانہ ہے۔ مقامِ عبرت ہے ازرہِ کرم معاوضے کے بجائے حقیر سا نذرانہ قبول کیجیے۔ (نذرانے کی رقم پچاس ہزار سے سو روپے تک کے درمیان لکھ دی گئی) پندرہ شاعروں نے دعوت قبول کرلی۔ ''اب بڑے شاعروں کی باری تھی۔ بعض منتظمین چاہتے تھے کہ حضرت غیظ اور جناب احمد قسیم نادمی اور جناب خروش ملیح آبادی اور حضرت حافظ جالندھری جیسی بڑی توپوں کو بلوائیں۔ میں نے اس موقع پر حکمتِ عملی لڑائی۔ میں نے عرض کیا ایک صاحب تو نام کے بڑے ہیں' درشن تھوڑے۔ ڈھول ہی ڈھول ہیں' اندر سے خالی۔ زبان اور گرامر تک کی غلطیاں کرتے ہیں۔ ایک اور صاحب بیمار رہتے ہیں۔ پچھلے ہفتے سے تبخیر معدہ میں مبتلا ہیں اور ابھی دو تین ماہ انشائ اللہ مبتلا رہیں گے۔ اور اقبال جیسے مرد مومن کے مشاعرے میں ایسوں کو بلانا گناہ کبیرہ ہے۔ پھر ان لوگوں کے معاوضے بھی بہت لمبے چوڑے ہیں۔ ہم سب نیلام بھی ہوجائیں تو ان کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ اس لیے میری رائے یہ ہے کہ ان اوّل درجے کی نمائشی ہاتھیوں کے بجائے متوسط درجے کے محنتی اور معقول شعرائ کو بلوایئے جن میں اخلاص بھی ہے' ایثار بھی۔'' ''آہو جی' پیسے کا کھیال رکنھا جروری ہی…'' ایک رکن نے کہا ''مساعرہ کرانا ہے کوئی ساعروں کا مکابلہ حسن تو نہیں کرنا ہے۔'' اس اخلاقی تائید کے بعد میں نے کہا ''اب یوں دیکھیے حضرات ایک بڑا شاعر فرض کیجیے ایک ہزار لیتا ہے' دو سیکنڈ کلاس شاعر پانچ پانچ سو پر راضی ہوجائیں گے۔ پانچ تھرڈ کلاس شاعر دو' دو سو پر خوش ہوکر آئیںگے۔ دس شاعر' جن کی مارکیٹ ویلیو ابھی مقرر نہیں ہوئی' سو سو پر آکر زندگی بھر ہمارے ممنون رہیں گے۔ دیکھیے' اس طرح خرچ وہی ہزار ہوا' آگے ایک کے بجائے دس۔ سب نے میری ذہانت کو داد دی۔ ایک رکن نے جوش میں آکر کہا ''آفرین ہے مولوی عبدالصمد خان پر… یہ نہ ہوتے تو اقبال بھی نہ ہوتا… الغرض بڑے دھوم دھڑکے سے مشاعرہ ہوا۔ تیسرے اور چوتھے اور پانچویں اور چھٹے درجے پانچویں اور چھٹے درجے کے تمام شاعروں نے وہ تانتا باندھا کہ مشاعرہ ساری رات جاری رہا۔ میرا اعتقاد ہے کہ روحِ اقبال تمام رات قبر میں خوش ہوتی رہی ہوگی۔ تبھی تو روحِ اقبال کی برکت سے اس مشاعرے میں مجھے تیس ہزار روپے ساڑھے تیرہ آنے حقِ محنت اور حق الخدمت کے طور پر بچے۔ ''میاں خدا تمہاری خیر کرے' زیادہ کیا کان کھاوں' مختصر یوں سمجھو کہ خدمتِ اقبال کے سبب کیا عزت اور کیا شہرت اور کیا پبلسٹی نہ تھی' جو اس حقیر فقیر' کمترین خادم اقبال کو نصیب نہ ہوئی اور خدا نے میرے حسن نیت کے صلے میں وہ خوش حالی' وہ فارغ البالی دی کہ دو لڑکیون کے جہیز تیار کرلیے۔ دو لڑکے اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر گئے ہیں۔ پری خانم (یہ میری بیوی ہیں' اصل نام غفورن بی بی ہے' میں انہیں پیار سے پری خانم کہتا ہوں) ہاں تو پری خانم کو خدا نے اتنا زر دیا کہ سر سے پیر تک لدی پھندی رہتی ہے۔ ''ہاں تو میاں! خدا تمہاری خیر کرے' پھر میں نے اقبال کو زندہ رکھنے کے لیے اور کارہائے نمایاں انجام دیے۔ اقبال میموریل لائبریری میں نے قائم کی۔ اقبال پبلک اسکول میں نے جاری کیا۔ اقبال عرس فنڈ میں نے کھولا۔ ایک مسجد بنوا دی۔ اوپر لکھوا دیا ''بہ یادگار اقبال بناشد…'' الغرض بہت کچھ کیا اور کررہا ہوں۔ اللہ بہت کچھ دے رہا ہے اور دے گا۔ سبحان اللہ! کیا تھے علامہ اقبال جیے تب فیض' مرے تب فیض۔ گویا فیض کا سمندر موجزن ہی…'' ''ارے میاں ضربِ کلیم' بھئی کہاں ہو ضربِ کلیم؟'' ایک لڑکا آکھڑا ہوا ''جی ابا جی!'' ''میاں ضرب کلیم! ابھی تک زبورِ عجم کو اسکول لے کر نہیں گئی؟ جاو جلدی جاو اورذرا ''پیامِ مشرق'' کو میرے پاس بھیج دو۔'' ''مولوی صاحب یہ کیا؟'' میں نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا یہ ضرب کلیم' یہ زبور عجم؟'' ''ہاں ہاں…'' مولوی عبدالصمد خان نے فخر سے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے کہا ''مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے۔ وہ میرے محسن ہیں۔ میرے رازق ہیں۔ انہوں نے میرا گھر بھر دیا۔ میں ان کا معتقد ہوں میاں! میں نے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام انکی تصانیف پر رکھ دیے ہیں ''ضربِ کلیم'' چھٹی میں پڑھتا ہے۔ بی بی زبورِ عجم'' دوسری کی طالبہ ہے۔ ''پیام مشرق'' گھڑی ساز کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے۔ ''بالِ جبریل'' قرآن کریم حفظ کررہا ہے۔ ''اسرارِ خودی'' کالج میں زیر تعلیم ہے' بلکہ میں نے پری خانم یعنی غفورن بی بی کا نام ''بانگِ درا'' رکھ چھوڑا ہے۔'' اندر سے دستک ہوئی ''ذرا سننا مولوی صاحب۔'' مولوی صاحب دروازے کی طرف لپکے۔ ''ہاں پھوپھی فاطمہ' کوئی خوش خبری ہے کیا؟'' ''ہاں مولوی صاحب! مبارک ہو۔ خدا نے آپ کو جڑواں بچے دیے ہیں۔ دونوں لڑکے ہیں۔'' ''اللہ تیرا شکر ہے۔ اللہ پاک تیرا شکر ہے۔'' مولوی صاحب آکر بیٹھ گئے' خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ ''خدا نے جڑواں بچے عطا کیے ہیں میاں!'' ''مبارک باد قبول کیجیے مولوی صاحب۔'' ''ہاں میاں' خدا کا احسان ہے۔ اچھا میاں! خدا تمہاری خیر کرے۔ ان کا نام تو بتاو۔ اقبال کی کتاب کے نام تو قریب قریب ختم ہوگئے۔ تاہم دماغ لڑاو اچھے سے دو نام سوچو۔'' ''سو لیے مولوی صاحب! سوچ لیے۔'' ''ہاں… ہاں بتاو۔'' ''شکوہ' جوابِ شکوہ۔''
 

عینی شاہ

محفلین
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
سارا تو مجھ سے نہیں پڑھا جائے گا ۔۔مجھے تو بس یہ پتہ ہے کہ اقبال ہمارے قومی شاعر،گریٹ فلاسفر ایند آ ویری انسپائرنگ تھنکر ہیں ۔۔۔تھے نہیں ہیں :)
 

عبدالحسیب

محفلین
بہت عمدہ شراکت محمد بلال اعظم بھائی ۔ بہترین دھاگہ تخلیق کیا ہے۔

پر اس تحریر '
علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت' کا حسن​
اس وجہ سے ضائع ہو رہا ہے کہ تحریر میں کہاں شعر شروع ہوتا ہے کہاں ختم پتہ ہی نہیں چلتا۔ جملے اور مصرعے علیحدہ علیحدہ رہیں تو قارعین کو پڑھنے اور سمجھنے دونوں میں آسانی ہو گی۔ بس ایک نظرِ ثانی پر تحریر درست ہو جائے گی۔ امید کرتا ہوں اس طرف توجہ دیں گے۔

اگر اجازت ہو تو کچھ "فکرِ اقبال" یہ خاکسار بھی پیش کرے؟
 

عبدالحسیب

محفلین
Top