علامہ محمد اقبالؒ کو ہم سے بچھڑے 75 برس بیت گئے

عبدالحسیب

محفلین
اقبال کا پیامِ آزادی - قائدِ ملّت بہادر یار جنگ
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد
تجّلی کی فراوانی سے فریاد
گوارا ہے اسے نظارۃ غیر
نگہ کی نا مسلمانی سے فریاد
سچّا شاعر وقت کے دربار کا نقیب ہوتا ہے اور وہی باتیں اس کی زبان سے شعر کا جامہ پہن کر نکلنے لگتی ہیں جو وقت کی ضرورت اور زمانہ کا تقاضہ ہوتی ہیں۔اگر اقبال انیسویں صدی میں پیدا ہونے کی بجائے پندرھویں صدی یا سولہویں صدی میں پیدا ہوتے تو شاید ان کی شاعری میں ہم کچھ اور پاتے ہماری خوش نصیبی سے وہ
اس زمانہ میں پیدا ہوتے ہیں جب کہ نہ صرف ہندوستاں بلکہ سارا عالم اسلام نہ سرف عالمِ اسلام بلکہ سارا جہانِ مشرق معاشی ،سیاسی اور ذہنی حیثیت سے مغرب کی غلامی کی لعنت میں گرفتار تھا ۔اقبال کا دل اور وہ حساس دل جس کو قدرت کا بہترین عطیہ کہنا چاہیئے اپنے ماحول کی اُن کیفیات سے تڑپ اُٹھتا ہے اور وہ اپنی اِس غلامی کا نوحہ پڑھنے لگتے ہیں۔کہا ہے ؏
شرق و غرب آزاد ما نخچیر غیر
خِشت ماسَر مایہ تعمیر غیر
زندگانی برمراد دیگراں
جاوداں مرگ است نے خواب گراں
جب وہ سیاسیاتِ حاضرہ کی تماشہ گاہ پر نظر ڈالتے ہیں تو اُن کو ہر طرف اصحاب تسلط و استبداد کی مکر سامانیوں اور اور فریب کاریوں سے سابقہ پڑتا ہے اُن کو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ غلاموں میں کس طرح نشۃ غلامی کہ تیز تر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور غلامیوں کے قلب و دماغ کو کس طرح دیوار محبس میں آسودہ رہنے کی تعلیم دی جا رہی ہے ۔وہ مرغ زیرک کی طرح دانہ مستی میں تڑپ جاتے ہیں اور اُس سیاسیاتِ حاضرہ کو توڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور اُس کی نسبت یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں؂
می کند بند غلامانِ سخت تر
حریت می خواند اور ابے بصر
در فضا یشن بال و پر نتواں کشود
با کلیدش ہیچ در نتواں کشود
گفت با مرغ قفس اے دردمند
آشیاں در خانہ صیاد بند
ہر کہ سازد آشیاں دردشت مرغ
اونباشدہین از شاہین و چرغ
از فسونسِ مرغ زیرک دانہ مست
تارہا اندر گلوئے خود شکست
الحذر از گرمئ گفتار اُو
الحذر از حرف پہلو دار اُو
اقبال کو اقوام مستبد و غالب کی اُن فسوں کاریوں سے زیادہ اقوام مغلوب و محکوم کی کوتاہیوں پر غصّہ آتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ غالب اپنی حاکمیت میں اتنا قصور وار نہیں جتنا مغلوب اپنی
محکومیت کے لیئے ذمہ دار ہے ،کہتے ہیں ؂
جاں بھی گروغیربدن بھی گروغیر
افسوس کہ باقی نی مکاں ہے نہ مکیں ہے
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھکو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں ہے
اُنھوں نے بارہا اس بات کو ظاہر کیا کہ خواجگی کی مشکلوں کو آسان کرنے میں تمام تر محرم غلام کی خوئے غلامی ہے ؂
دورِحاضر ہے حقیقت میں وہی عہدِ قدیم
اہلِ سجادہ ہیں یا اہلِ سیاست ہیں امام
اس میں پیری کی کرامت ہے نہ میری کا ہے زور
سینکڑوں صدیوں سے خوگر ہیں غلامی کے غلام
خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خوئے غلامی میں غلام
اُنھوں نے اِن صِفات کو ایک ایک کر کے گِنایا ہے جو قوموں میں گھن کی طرح لگتی ہیں۔آگ کی طرح بھڑکنے لگتی ہیں اور اُن کو عضوِمعطل بنا دیتی ہیں۔اِن صِفات کا زکر جس درد بھرے انداز میں اُنھوں نے کیا ہے وہ اُن کے قلب کی دردمندانہ کیفیات کا آئینہ دار ہے، کہتے ہیں ؂
وائے قومے کشتئہ تدبیر غیر
کارِاو تخریب خود تعمیر غیر
می شود در علم و فن صاحب نظر
از وجود خود نہ گرد و با خبر
نقش حق را از نگیں خود سترد
در ضمیرش آرزو یازا زومرد
از حیا بیگانہ پیرانِ کہن
نوجواناں چو زناں مشغول تن
درد دل شاں آرزو ہابے ثبات
مردہ زا سید از بطون امہات
ہر زماں اندر تلاش سازو برگ
کار او فکر معاش ہ ترس مرگ
منعماں اونحیل و عیش دوست
غافل از مغز اندواندربند پوست
دین او عہدوفا بستیں بہ غیر
یعنی از خشتِ حرم تعمیر دیر
اقبال کو قوم سے زیادہ امیرانِ قوم پر غصّہ ہے جو اُس گلہ کے چروہے ہیں اور اُس قافلہ کے سالار اور جن کی تن پرستی اور جاہ مستی نے کم نگاہی اور کلیسا دوستی نے نور جان سے محرومی اور لا الہ سے بدنصیبی نع قوم کو غلامی کے بُرے دن دکھائے۔اُن کی نسبت کہتے ہیں؂
داغم از سوائی ایں کار رواں
درامیر او ندیدم نور جاں
تن پرست و جاہ مست و کم نگہ
اندر ونش بے نصیب از لاالہٰ
در حرم زادو کلیسا را مرید
پردۃ ناموس ما زا بردرید
آپ کو جتنا غصّہ امیروں پر ہے اُتنا ہی قوم کے شعراء حکما اور علماء پر جہ ہمیشہ قوموں کی زندگی میں رہبر و رہنما رہے ہیں جن کی گرمئ گفتار اور پختگئ کردار سے قوم کے لیئے نشانِ راہ پیدا ہوتے ہیں جن کے فہم صحیح اور فکر مرتب نے مشکلات کے دشت و جبل کاٹ کر منزل کے قریب ترین راستے پیدا کیئے ۔اقبال کو غم ہوتا ہے کہ غلام قوموں میں شعراء بھی پیدا ہوتے ہیں اور علماء حکماء بھی لیکن ان کی فکرشیروں کو رم آہو سکھاتی ہے۔قوموں کو غلامی پر رضامند کرتی ہے اور جب اُن کا ضمیر اُنھیں ملامت کرتا ہے تو اُن کا دماغ اُن کو تاویل کا مسئلہ سکھا دیتا ہے۔؂
شاعر بھی ہیں پیدا علماء بھی حکماء بھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے اُن اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معانی میں یگانہ
بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ
اقتباس: غیر سیاسی تقریر 'قائدِ ملّت بہادر یار جنگ -بمقام زمرد محل ٹاکیز،حیدرآباد 15 ڈسمبر 1940
 
جناب سید شہزاد ناصر صاحب۔
ہم تو خود کو اس ایک شعر کے قابل نہیں بنا پائے:
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم​
رکھتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب​

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
کیا بات ہے حضرت کیا بات ہے
آپ مانیں نہ مانیں آپ کا وجود ہمارے لئے بڑی تقویت کا باعث ہے
 
سلطان ٹيپوکی وصيت


تو رہ نورد شوق ہے ، منزل نہ کر قبول
ليلی بھی ہم نشيں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جوئے آب بڑھ کے ہو دريائے تند و تيز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول
کھويا نہ جا صنم کدہ کائنات ميں
محفل گداز ! گرمی محفل نہ کر قبول
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرئيل نے
جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
باطل دوئی پسند ہے ، حق لا شريک ہے
شرکت ميانہ حق و باطل نہ کر قبول
 
ہندی مکتب



اقبال! یہاں نام نہ لے علم خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے ليے ايسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشيدہ رہيں باز کے احوال و مقامات
آزاد کي اک آن ہے محکوم کا اک سال
کس درجہ گراں سير ہيں محکوم کے اوقات
آزاد کا ہر لحظہ پيام ابديت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگ مفاجات
آزاد کا انديشہ حقيقت سے منور
محکوم کا انديشہ گرفتار خرافات
محکوم کو پيروں کی کرامات کا سودا
ہے بندہ آزاد خود اک زندہ کرامات
محکوم کے حق ميں ہے يہی تربيت اچھی
موسيقی و صورت گری و علم نباتات
 
اسرار پيدا
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد

ناچیز جہان مہ و پرویں ترے آگے
وہ عالم مجبور ہے ، تو عالم آزاد

موجوں کی تپش کيا ہے ، فقط ذوق طلب ہے
پنہاں جو صدف ميں ہے ، وہ دولت ہے خدا داد

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہيں گرتا
پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد
 
حکومت

ہے مریدوں کو تو حق بات گوارا ليکن
شیخ و ملا کو بری لگتی ہے درویش کی بات

قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار
بحث ميں آتا ہے جب فلسفہ ذات و صفات

گرچہ اس دير کہن کا ہے يہ دستور قديم
کہ نہیں مے کدہ و ساقی و مینا کو ثبات

قسمت بادہ مگر حق ہے اسی ملت کا
انگبیں جس کے جوانوں کو ہے تلخاب حيات


--------------
رياض منزل (دولت کد ہ سرراس مسعود)بھوپال ميں لکھے گئے
 
تربيت
زندگی کچھ اور شے ہے ، علم ہے کچھ اور شے
زندگی سوز جگر ہے ، علم ہے سوز دماغ
علم میں دولت بھی ہے ، قدرت بھی ہے ، لذت بھی ہے
ايک مشکل ہے کہ ہاتھ آتا نہیں اپنا سراغ
اہل دانش عام ہيں ، کم یاب ہیں اہل نظر
کيا تعجب ہے کہ خالی رہ گيا تیرا ایاغ
شيخ مکتب کے طريقوں سے کشاد دل کہاں
کس طرح کبریت سے روشن ہو بجلی کا چراغ
 
مرگ خودی
خودی کی موت سے مغرب کا اندروں بے نور
خودی کی موت سے مشرق ہے مبتلائے جذام
خودی کی موت سے روح عرب ہے بے تب و تاب
بدن عراق و عجم کا ہے بے عروق و عظام
خودی کی موت سے ہندی شکستہ بالوں پر
قفس ہوا ہے حلال اور آشيانہ حرام
خودی کی موت سے پیر حرم ہوا مجبور
کہ بیچ کھائے مسلماں کا جام ہ احرام
 
اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فرياد

اثر کرے نہ کرے ، سن تو لے مری فرياد
نہیں ہے داد کا طالب يہ بندۂ آزاد

يہ مشت خاک ، يہ صرصر ، يہ وسعت افلاک
کرم ہے يا کہ ستم تیری لذت ایجاد

ٹھہر سکا نہ ہوائے چمن ميں خیمۂ گل
یہی ہے فصل بہاری ، یہی ہے باد مراد؟

قصور وار ، غریب الديار ہوں لیکن
ترا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

مری جفا طلبی کو دعائيں دیتا ہے
وہ دشت سادہ ، وہ تیرا جہان بے بنیاد

خطر پسند طبيعت کو ساز گار نہيں
وہ گلستاں کہ جہاں گھات ميں نہ ہو صیاد

مقام شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں
انھی کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہيں زیاد
 
گيسوئےتاب دار کو اور بھی تاب دار کر
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب ميں ، حسن بھی ہو حجاب ميں
يا تو خود آشکار ہو يا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بے کراں ، ميں ہوں ذرا سی آبجو
يا مجھے ہمکنار کر يا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ ميرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر ميرے نصیب ميں نہ ہو
اس دم نيم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کيوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر
 
وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی
وہی میری کم نصیبی ، وہی تیری بے نیازی
میرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی
میں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، یہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
یہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تری کرشمہ سازی
اسی کشمکش ميں گزریں مری زندگی کی راتیں
کبھی سوزو ساز رومی ، کبھی پیچ و تاب رازی
وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کيا خبر کہ کيا ہے رہ و رسم شاہبازی
نہ زباں کوئی غزل کی ، نہ زباں سے باخبر ميں
کوئی دلکشا صدا ہو ، عجمی ہو يا کہ تازی
نہيں فقر و سلطنت ميں کوئی امتياز ايسا
يہ سپہ کی تیغ بازی ، وہ نگہ کی تیغ بازی
کوئی کارواں سے ٹوٹا ، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امير کارواں ميں نہیں خوئے دل نوازی
 
یارب ! یہ جہان گزراں خوب ہے ليکن

یارب! یہ جہان گزراں خوب ہے لیکن
کیوں خوار ہیں مردان صفا کيش و ہنرمند
گو اس کی خدائی ميں مہاجن کا بھی ہے ہاتھ
دنیا تو سمجھتی ہے فرنگی کو خداوند
تو برگ گیا ہے ندہی اہل خرد را
او کشت گل و لالہ بنجشد بہ خرے چند
حاضر ہیں کلیسا ميں کباب و مے گلگوں
مسجد میں دھرا کيا ہے بجز موعظہ و پند
احکام ترے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآں کو بنا سکتے ہیں پاژند
فردوس جو تیرا ہے ، کسی نے نہیں ديکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
مدت سے ہے آوارہ افلاک مرا فکر
کر دے اسے اب چاند کی غاروں ميں نظر بند
فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند
درویش خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی ، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہيں ، بیگانے بھی ناخوش
ميں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
مشکل ہے کہ اک بندہ حق بین و حق انديش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہ دماوند
ہوں آتش نمرود کے شعلوں میں بھی خاموش
میں بندہ مومن ہوں ، نہیں دانہ اسپند
پر سوز و نظرباز و نکوبین و کم آزار
آزاد و گرفتار و تہی کیسہ و خورسند
ہر حال ميں میرا دل بے قيد ہے خرم
کيا چھینے گا غنچے سے کوئی ذوق شکر خند
چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں ميں بھی اقبال
کرتا کوئی اس بندہ گستاخ کا منہ بند
 

عمراعظم

محفلین
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں ، نہ تہذیب کا فرزند
اپنے بھی خفا مجھ سے ہيں ، بیگانے بھی ناخوش
ميں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
واہ،واہ،واہ محسن وقار علی بھائی۔ کمال کی شراکت ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اقبال جیسی کثیرالجہات شخصیت کے بارے میں میرے جیسا فقیر کیا عرض کرے گا۔ فوری تأثر کے طور پر عرض کروں کہ اقبال (رحمہ اللہ) جیسی شخصیات کا ماتم نہیں کِیا کرتے۔ اُن کے نقوشِ فکر کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کِیا کرتے ہیں۔

اللہ توفیق دے۔ آمین!
استادِ محترم اللہ سلامت رکھے۔
آپ نے جو عرض کر دیا ہے وہ سب پہ بھاری ہے۔
اللہ تا قیامت سلامت رکھے۔ آمین!
 
Top