فارقلیط رحمانی

لائبریرین
لب پہ کانٹوں کے ہے فریادو فغاں تیرے بعد
کوئی آیا ہی نہیں آبلہ پا تیرے بعد
اب نہ وہ رنگِ جبیں ہے نہ بہارِ عارض
لالہ رویوں کا عجب حال ہوا تیرے بعد
چند سوکھے ہوئے پتے ہیں چمن میں رقصاں
ہائے بے گانگئ آب وہواتیرے بعد
منہ دھلاتی نہیں غنچوں کا عروس شبنم
گرد آلود ہے کلیوں کی قبا تیرے بعد
آدمیت شکنی بھی تو نہیں کم انور
ڈر ہے کچھ اور نہو اس سے سوا تیرے بعد
 

کاشف اختر

لائبریرین
بہت خوب فارقلیط صاحب ! حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا ،شنید ہے کہ علامہ بڑے لحیم شحیم اور لمبے قد کے تھے ، لمبا کرتا اور خوب چوڑا سا پاجامہ پہنتے تھے ، لوگوں پر ان کے رعب و جلال کا عجیب عالم تھا ، مستزاد یہ کہ ایک ایک مہینے تک غسل نہ فرمانے کے باعث چلتے پھرتے آثار قدیمہ معلوم ہوتے تھے ، جس مشاعرہ میں حاضر ہوتے سامعین کی توجہات کا مرکز بنے رہتے ، اور لابالی پن ایسا کہ غزل سنا کر اپنا لکھا ہوا کلام وہیں چھوڑ جاتے ، اس لئے کہتے ہیں کہ آپ کے کلام کا بہت سا حصہ ضائع ہوگیا ، ان کے بارے میں اور بھی عجیب و غریب واقعات ہم نے چشم دید گواہوں کی زبانی سن رکھے ہیں ، خیر ہماری قیام گاہ سے چند قدم کے فاصلے پر شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ سڑک والی مسجد میں علامہ کا مزار موجود ہے ، کتبے پر ایک شعر کندہ ہے جو ان کی شعری صداقت اور ایفائے عہد کی حسین یادگار بنا ہوا ہے ،


حشر تک اب زباں نہ کھولیں گے
تم پکارو گے ہم نہ بولیں گے
واقعی انہوں نے حسب وعدہ اب تک لب کشائی نہیں کی ، اور خاک کی چادر اوڑھے کھلی چھت کے نیچے محو خواب ہیں۔
 
Top