عقیدت اور عقیدہ - تبرکات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

طالوت

محفلین
یہ بھی عجیب گورکھ دھندا ہے ، اب یہ فیصلہ کون کرے کہ کس کی (روایت)حدیث صحیح ہے اور کس کی غلط (ضعیف اسلیے نہیں لکھ رہا کہ ضعیف کہہ کہہ کر ہم ان کی جگہ پکی کرتے ہیں) ۔۔۔ دلائل ہمیشہ زبردست ہوتے ہیں ، بڑے بڑے مجتہد فقہا اور محدثین لائے جاتے ہیں لیکن معاملہ جوں کا توں ، اور جب ہم کہیں کہ بھئ قران اور صرف قران کو ہی اولیت دیجیے تو سب ناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں ۔۔۔ اور اس پر بھی اصرار کرتے ہیں کہ جی قران ہی اول ہے اور پھر حدیثوں کا ہی انبار لگا کر قرانی آیت کو اپنی مرضی کے مطابق ، پسندیدہ سانچے میں ڈھال لیا جاتا ہے ۔۔۔
کل ایک صاحب فرمانے لگے کہ ہر جگہ مسلک کو کیوں بیچ میں لے آتے ہو ، اگر ان نظر پڑے تو وہ دیکھیں کہ مسلک کو ہم نہیں لاتے بیچ میں ، خود ہی آ جاتا ہے اسلیے کہ ہمیں اللہ کے کلام سے زیادہ ، اپنی انا ، اپنے فقہا و مجتہدین ، اپنے محدثین اور علماء عزیز ہیں ۔۔۔ اگر بات محض قران کی ہوتی تو اختلافات کا یہ عالم نہ ہوتا ۔۔۔ اور پھر اس پر نیا شوشہ ظاہری و باطنی کا ۔۔۔۔۔
نتیجہ صفر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہوش بہن میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ماں عائشہ (رض) اور پس پردہ اصحاب مدینہ کے بارے لکھی گئی تحریر کو تبدیل کریں ، لیکن وہ جوں کی توں ہے ۔۔ اسلیے آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ یا تو اسے حذف کر دیں یا جملے کو کسی اور ڈھنگ سے لکھیں ۔۔ اگر اس مراسلے کے بعد بھی آپ نے اسے تبدیل نہ کیا تو مجھ سے شکایت مت کیجیے گا ۔۔۔ اور برائے مہربانی ناظمین بھی اسے نوٹ فرما لیں ۔۔
جا کر پھر یہ حضرت عائشہ اور مدینہ کی پوری کمیونٹی کو سمجھائیں
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
از باذوق:
اقتباس:
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔
یہ خودساختہ اصول ہے۔
قارئین سے گذارش ہے کہ اس تھریڈ میں ہر وہ پوسٹ چیک کر لیں جہاں لفظ "مس" آیا ہو۔ پتا چل جائے گا کہ کوئی بھی ایک ایسی صحیح حدیث پیش نہیں کی گئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے ایسا اصول بیان کیا ہو۔
باخدا، اس معاملے میں جو احادیث نبوی پیش کی جا چکی ہیں، وہ اتنی صاف و واضح ہیں کہ انہیں ٹھکرایا ہی نہیں جا سکتا [ماسوائے دلوں کے آگے پردے ڈال لینے کے]
تو اب اس چیز کا مختلف حیلوں سے انکار صرف بحث برائے بحث ہے اور یہ میری ڈیوٹی نہیں کہ بحث برائے بحث میں پڑوں، بلکہ مجھے فقط حق بات کو واضح کر کے بیان کرنا تھا۔ لہذا جسے ہدایت حاصل کرنا ہے وہ ان دسیوں احادیث نبوی سے بہت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ انشاء اللہ۔

اور اگر آپ کو دیکھنا ہے کہ دلوں پر انسان پردے ڈال لے تو اُسے کون کون سی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں، تو اس کا ایک نمونہ ذیل میں دیکھ لیں:

۔ اور باخدا اگر صرف عام کرتے کی بات ہوتی تو عبداللہ ابن ابی کا بیٹا [جو کہ مومن اور بلند پایہ صحابی رسول ہے] کبھی اتنی کنجوسی نہ کرتا کہ رسول ص کو دی ہوئی عام چیز کی واپسی کا مطالبہ کرتا۔
۔ اور باخدا اگر عام کُرتے کی بات ہوتی تو رسول ص جواب میں مال غنیمت سے کوئی دوسرا عام کرتا اسے دے دیتے۔[مال غنیمت سے اس لیے کیونکہ رسول ص نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے اس سے کُرتہ مستعار نہیں لیا تھا]
۔ مگر باخدا، یہ عام کُرتے کی بات نہیں تھی اور اس صحابی رسول نے مال غنیمت یا بیت المال سے کوئی چیز نہیں مانگی، بلکہ خاص طور پر خواہش کی کہ رسول ص اسکو وہ کُرتہ عطا فرمائیں جو کہ اُن کی جلد سے مس رہا ہو۔
۔ اس مومن صحابی رسول کی نیت صاف تھی کہ وہ رسول ص کے تبرکات سے اپنے باپ کو نفع پہنچانا چاہتا تھا۔
۔ اور رسول ص نہ صرف وہ کرتہ عنایت فرماتے ہیں جو خصوصی طور پر انکی جلد سے مس رہا ہو، بلکہ اس پر اپنا لعاب دہن بھی چھڑکتے ہیں۔
[نوٹ: لعاب دہن کی اہمیت اور مجازی برکت کا انکار کرنے کے لیے جس طرح کا حیلہ بنایا گیا ہے وہ قابل ذکر ہے [یعنی آپ ص کے لعاب دہن میں کوئی برکت نہیں بلکہ اللہ کی طرف جو تمام برکتوں کی حقیقی نسبت ہے، اسکا استعمال کرتے ہوئے رسول ص کے لعاب دہن میں پائے جانے والی مجازی برکت کا انکار کیا جا رہا ہے۔
اور میں آگے دکھاوں گی کہ کس طرح صحابہ تبرکات نبوی میں برکت کا ذکر کر رہے ہیں اور اسکے بعد باذوق برادر کو دعوت دوں گی کہ اپنی ظاہر پرستی میں مبتلا رہتے ہوئے وہ ان صحابہ کو جھٹلا دیں اور انکار کر دیں انکی گواہیوں کا۔

/۔ اور نہ صرف مس شدہ کُرتہ، ۔۔۔۔۔ بلکہ لعاب دہن ۔۔۔۔۔ اور اس میں نماز جنازہ بھی شامل ہے۔ یہ مومن صحابی اپنے بات کو نفع پہنچانے کے لیے مس شدہ کپڑے کے علاوہ نماز جنازہ کی درخواست بھی کرتا ہے، اور رسول ص نہ صرف کُرتہ، بلکہ لعاب دہن اور نماز جنازہ بھی ادا کرتے ہیں۔
[نوٹ: مجھ پر الزام کہ میں نے چادر والا واقعہ بیان نہیں کیا، مگر خود کرتے اور لعاب دہن کا ذکر کرتے ہوئے نماز جنازہ کا ذکر گول کر گئے]

////////////////////////////////

تمام حقیقی برکت بے شک صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے
میں نے پہلے بیان کر دیا تھا کہ اس ظاہر پرستی کی بیماری کی وجہ سے کیسے کیسے فتنے پھیلے ہوئے ہیں اور کس طرح یہ ظاہر پرست حضرات رسول ص کی ایک حدیث کا انکار دوسری حدیث سے کرتے ہیں [کیونکہ انہیں اس میں تضاد نظر آتا ہے]، اور قران کی ایک آیت کو نظر انداز/چھپاتے ہیں کیونکہ دوسری قرانی آیت ظاہر پرستی کی وجہ سے اس کے مخالف نظر آتی ہے [مثلا رسول ص کے متعلق قرانی میں اللہ کی گواہی کہ یہ رسول بھی اللہ کے ساتھ فضل سے غنی کرتا ہے]

اوپر جو حدیث نبوی میں آیا ہے کہ رسول ص نے اپنے لعاب دہن چھڑکا تھا، تو ظاہر پرستی کو بنیاد بنا کر اس لعاب دہن میں ہر قسم کے اثر اور برکت کا انکار کیا جا رہا ہے۔

مجھے بات لمبی نہیں کرنی، بلکہ جواب میں بس ایک روایت پیش کر دیتی ہوں تاکہ یہ حیلے بازیاں اور واضح ہو جائیں۔ انشاء اللہ۔

604 / 56. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَدْخُلُ بَيْتَ أُمِّ سُلَيْمٍ رضي اﷲ عنها فَيَنَامُ عَلَي فِرَاشِهَا. وَلَيْسَتْ فِيْهِ. قَالَ : فَجَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ فَنَامَ عَلَي فِرَاشِهَا. فَأُتِيَتْ فَقِيْلَ لَهَا : هَذَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم نَامَ فِي بَيْتِکِ، عَلَي فِرَاشِکِ. قَالَ : فَجَائَتْ وَقَدْ عَرِقَ، وَاسْتَنْقَعَ عَرَقُهُ عَلَي قِطْعَةِ أَدِيْمٍ، عَلَي الْفِرَاشِ. فَفَتَحَتْ عَتِيْدَتَهَا فَجَعَلَتْ تُنَشِّفُ ذَلِکَ الْعَرَقَ فَتَعْصِرُهُ فِي قَوَارِيرِهَا. فَفَزِعَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : مَا تَصْنَعِيْنَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! نَرْجُو بَرَکَتَهُ لِصِبْيَانِنَا قَالَ : أَصَبْتِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم 56 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : طيب عرق النبي صلي الله عليه وآله وسلم والتبرک به، 4 / 1815، الرقم : 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 221، الرقم : 1334 / 1339.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر سو گئے، وہ آئیں تو ان سے کہا گیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے ٹھیک کیا ہے۔‘‘
اب خود سوچئے کہ کیا اس بنا پر رسول ص پر اور اس صحابیہ پر بدعت کا الزم نہیں لگ جائے گا کہ برکت تو صرف اللہ کی طرف سے ہے؟ یا پھر وہی پرانی روش و چال کہ اس حدیث کو نظر انداز کر دیں اور لوگوں سے چھپاتے پھریں؟
اے ایھا الناس، میں تمہیں بہتر نصیحت ہی کرتی ہوں کہ اس ظاہر پرستی کی بیماری سے نکل آو قبل اس کے کہ اور فتنے پھیلاتے پھرو۔
 

مہوش علی

لائبریرین
علامہ البانی کے قیاسات

از باذوق:
علاوہ ازیں ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال صالحہ کی طرف کس طرح حکیمانہ رہنمائی کی تھی ۔۔۔۔
حضرت ابی قراد رضي الله عنه سے روایت کی گئی صحیح حدیث اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں :

عن عبد الرحمن بن أبي قراد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ يوما فجعل أصحابه يتمسحون بوضوئه فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم : ( ما يحملكم على هذا ؟ ) قالوا : حب الله ورسوله : فقال النبي صلى الله عليه وسلم : من سره أن يحب الله ورسوله أو يحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث وليؤد أمانته إذا أؤتمن وليحسن جوار من جاوره
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ کے اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر اپنے بدن پر ملنے لگے تو آپ نے فرمایا :
تمہیں ایسا کرنے پر کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے؟
ان لوگوں نے کہا : اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو ۔۔۔
جب وہ بات کرے تو سچی بات کرے
اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرے
اور جو اس کا پڑوسی ہو ، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔


(علامہ البانی نے اس حدیث کو ثابت کہا ہے اور اس کے متعدد طرق و شواہد کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنے مجموعے "الاحادیث الصحیحہ" میں حدیث نمبر:2998 کے تحت درج کیا ہے)

۔۔۔
عصر حاضر کے محدث کبیر علامہ البانی اپنی کتاب "التوسل انواعه واحكامه" میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اقتباس:
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حدیبیہ وغیرہ میں صحابہ کرام کو اپنے آثار سے تبرک حاصل کرنے میں رضامندی ظاہر کی تھی کیونکہ اس وقت اس کی سخت ضرورت تھی اور وہ ضرورت یہ تھی کہ آپ کفار قریش کو ڈرائیں اور اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت ، تعظیم و تکریم اور خدمت کے جذبہ کو ظاہر کریں۔
لیکن اس کے بعد آپ نے نہایت حکیمانہ طور پر مسلمانوں کو اس تبرک سے پھیر دیا تھا اور ان کو اعمال صالحہ کی طرف رہنمائی کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اعمال صالحہ اللہ کے نزدیک اس تبرک سے بہتر ہے۔
البانی صحاب نے یہاں دو قیاسات فرمائے ہیں اور دونوں کے دونوں ہی نصوص کے عین خلاف ہیں۔

1۔ پہلا یہ کہ تبرکات نبوی ص میں کوئی برکت و نفع نہیں تھا، بلکہ صرف اور صرف تعظیم کے نام پر کفار کو ڈرانے کے لیے یہ کام کرنے دیا گیا۔
2۔ اور پھر رسول نے اس سے بھی منع فرما کر اعمال صالحہ کی طرف صحابہ کو پھیر دیا۔

اس روایت [جسکی مکمل سند اور حوالہ سوائے البانی صاحب کے نام کے نہیں پیش کیا گیا ہے] ان دو قیاسات کے متعلق نوٹ فرمائیے:

1۔ پہلی بات تو یہ کہ روایت سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت ہی ابتدا کی بات تھی، جبکہ صحابہ کرام نے پہلی پہلی مرتبہ آپ ص سے مس شدہ پانی سے برکت حاصل کرنا چاہی۔ اس وقت رسول ص نے نہ صرف اس فعل کہ پہلی مرتبہ اجازت دی [اور البانی صاحب کے قیاس کے برعکس یہ بغیر کفار و مشرکین کا ذکر اور خوف و ڈرانے کے کیا]

بلکہ اسکے بعد یہ فعل اتنا پسند آیا کہ بار بار آپکی حیات مبارکہ کے آخر تک یہ فعل صحابہ کرام کرتے رہے اور آپ ص خود انکی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ان میں اپنے موئے مبارک تقسیم کرواتے تھے، اور پانی کو مختلف طریقوں سے انکو برکت حاصل کرنے کے لیے دیتے تھے، یعنی کبھی خالی برتن میں پانی کو مس کر کے، اور کبھی اس پانی سے وضو کر کے، اور کبھی اس پانی سے کلی کر کے۔ [ایمان تازہ کرنے کے لیے کچھ احادیث میں آگے آپ لوگوں کو ہدیہ کروں گی۔۔۔۔۔ اور اگر آپکے ایمان تازہ ہو جائِیں تو مجھے دعاووں میں نہ بھولیے گا]

2۔ اور البانی صاحب دوسرا قیاس کر رہے ہیں کہ اسی حدیث میں رسول ص نے صحابہ کو تبرکات سے موڑ دیا اور کہا کہ اعمال صالحہ کریں۔
عجیب ہی قیاس ہے۔

/۔ پہلا یہ کہ یہ بالکل ابتدا کی بات ہے جب صحابہ نے پہلی پہلی مرتبہ رسول ص کے مس شدہ پانی سے برکت حاصل کرنا چاہی۔ تو البانی صاحب پھر اس "ابتدا" کو "بعد میں" کیوں کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ [یعنی بعد میں رسول نے اس حدیث کے ذریعے صحابہ کو تبرکات نبوی سے موڑ دیا]

/۔ اور ایک نیک کام انجام دینے پر رسول ص اگر دوسرے نیک اعمال کا بھی ذکر کر دیں تو اسکا مطلب ہرگز یہ قیاس کر لینا نہیں ہے کہ رسول ص اس پہلے نیک عمل کو حرام قرار دے رہے ہیں۔ بلکہ رسول ص کا کام اللہ کی شریعت کو صاف صاف اور واضح طریقے سے ہم تک پہنچا دینا ہے۔

/۔ اور اسی لیے صحابہ کرام نے کبھی اس حدیث کو لیکر وہ قیاسات نہیں کیے جو کہ البانی صاحب کر رہے ہیں [یعنی رسول تبرکات سے موڑ رہے ہیں]، بلکہ:
1۔ صحابہ کرام رسول ص کی پوری زندگی تبرکات سے فائدہ و نفع و شفا حاصل کرتے رہے۔
2۔ حتی کہ جب رسول ص کا انتقال ہوا تو اس سے لمحوں قبل تک ام المومنین حضرت عائشہ رسول ص کی ہاتھوں کی برکت کو درد میں کمی لانے کے لیے استعمال کر رہی تھیں۔

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از اہلحدیث عالم مولانا وحید الزمان خان صاحب

تو اگر صرف کفار کے خوف کی وجہ سے ہوتا تو رسول اس آخر وقت میں حضرت عائشہ کو منع فرما دیتے
اور اگر رسول پہلے ہی تبرکات نبوی سے موڑ چکے ہوتے تو بھی اس آخری وقت حضرت عائشہ کو منع فرما دیتے۔
[نوٹ: اور رسول ص کی جس مجازی برکت سے ظاہر پرست حضرات کو بیر ہے، اسی مجازی برکت کا ذکر ایک مرتبہ پھر ام المومنین حضرات عائشہ بنت ابی بکر فرما رہی ہیں۔ [روایت کے عربی الفاظ ہیں "۔۔۔بید نفسہ لبرکتھا"]۔ تو اب ظاہر پرست حضرات یا تو جا کر حضرت عائشہ بنت ابی بکر کی تصحیح کروا دیں کہ برکت رسول ص کے ہاتھ میں نہیں بلکہ صرف اللہ کے پاس ہے، یا پھر اس حدیث کو نظر انداز اور چھپانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں، اور تیسرا آپشن یہ ہے کہ اپنی ظاہر پرستی کی بیماری سے نکل آئیں اور حق بات کو قبول کر لیں اور رسول ص کو اللہ کی طر ف سے دی گئی مجازی برکت کا انکار کرنے کے لیے اللہ کی حقیقی برکت کے نام کا غلط استعمال بند کر دیں۔
اور اگر اب بھی حق بات کے اقرار کا انکار ہے تو یہی تضادات انکا مقدر ہیں اور ہدایت دینا تو صرف اللہ کا کام ہے۔

/ ۔ اور اگر واقعی صرف کفار کو خوف دلانے کے لیے تھا اور رسول ص صحابہ کو تبرکات سے موڑ چکے تھے، تو پھر صحابہ کرام البانی صاحب کے قیاسات کے بالکل برخلاف رسول ص کی وفات کے بعد بھی کیوں اسی جوش و خروش کے ساتھ تبرکات نبوی سے نفع و شفا حاصل کر رہے ہیں؟

صحیح مسلم اللباس والزينة تحريم استعمال إناء الذهب والفضة على الرجال والنساء

حضرت اسماء کے مولیٰ عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر نے کسروانی طیلسان کا جبہ نکالا جس کے گریبان اور چاکوں پر ریشم کا کپڑا لگا ہوا تھا۔ کہنے لگیں: یہ حضرت عائشہ کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہوئیں تو یہ جبہ میرے قبضے میں آ گیا۔ نبی کریم ﷺ اس کو پہنتے تھے۔ اور اب ہم بیماروں کہ لیے اس کو دھوتے ہیں اور اس سے بیماروں کے لیے شفاء طلب کرتے ہیں۔
اور صرف حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت اسماء ہی نہیں مدینہ کے صحابہ کی پوری کمیونٹی کا یہ طرز عمل ہے۔ شاید البانی صاحب کا علم اور انکی سوچ بوجھ ان صحابہ کی پوری کمیونٹی سے زیادہ تھی۔
باخدا رسول ص اور صحابہ کی پوری کمیونٹی سے ایک بھی حدیث نبوی یا واقعہ نہیں ملتا جس سے اس قیاس کو مدد مل سکے کہ تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کرنا صرف کفار کے خوف سے تھا اور یہ کہ رسول ص اپنی زندگی میں ہی صحابہ کرام کو تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرنے سے منع کر کے موڑ چکے تھے۔
البتہ کئی سو احادیث اور صحابہ کرام کے واقعات ہیں جو کہ البانی صحاب کے ان قیاسات کی مکمل نفی کر رہے ہیں اور ان قیاسات کا پول کھول رہے ہیں۔

میں اللہ کا شکر ادا کر رہی ہوں کہ مجھے اُس نے توفیق عطا فرمائی ہے کہ نہ صرف میں ان نظر انداز/چھپائی جانے والی احادیث نبوی کو لوگوں کے سامنے پیش کر سکوں، بلکہ ان کو نظرانداز کرنے اور انکی اہمیت کم کرنے کے لیے جو طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مشینری لگی ہوئی ہے، اسکا بھی پردہ چاک کر کے سامنے پیش کر سکوں۔ شکر الحمد للہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ رسول ص سے مس شدہ چیزوں میں برکت کے بارے میں روایات اتنی واضح اور روشن ہیں کہ انہیں پیش کر دینے کے بعد ممکن نہیں کہ کوئی حق کا متلاشی پھر بھی حق تک نہ پہنچ پائے۔ اور اگر کوئی ابھی بھی ان روایات کے سامنے حیل ججت کرے تو ایسوں کے بحث برائے بحث والی چال میں پھنسنے کے، انہیں اللہ کے حوالے کر کے الگ ہو جانا چاہیے۔

یہاں پر پھر ایک مرتبہ پھر اس سلسلے میں احادیث نبوی سے چند واقعات آپ لوگوں کے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے۔

آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مس شدہ کپڑے میں برکت
مس شدہ کپڑے سے حصولِ برکت

1۔ علی ابن ابی طالب کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا، غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 67، رقم : 189
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
ابونعيم، حلية الاولياء، 3 : 121
ابن جوزی، العلل المتناهية، 1 : 269، رقم : 433
ابن جوزی، صفوة الصفوة، 2 : 54
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 213
سمهودی، وفاء الوفاء، 3 : 8 - 897
عسقلانی، الاصابه فی تمييز الصحابه، 8 : 60، رقم : 11584
هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 256

نوٹ: ۔۔۔ حضرت علی یا آپکی والدہ نے تو رسول ص کو پہلے کوئی کُرتہ ادھار نہ دیا تھا۔ تو پھر رسول ص کیوں خصوصی طور پر اپنے کرتے میں انہیں دفنا رہے ہیں؟ ذرا غور کریں اور اللہ آپ لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے۔ امین۔

2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تکفین کے لئے اپنا مبارک ازاربند عطا فرمایا۔
بخاری، الصحيح، 1 : 423، کتاب الجنائز، رقم : 1196
مسلم، الصحيح، 2 : 646، کتاب الجنائز، رقم : 939
ابو داؤد، السنن، 3 : 197، کتاب الجنائز، رقم : 3142
نسائی، السنن، 4 : 30، 31، 32، کتاب الجنائز، رقم : 1885، 1886، 1890
ترمذی، الجامع الصحيح، 3 : 315، ابواب الجنائز، رقم : 990
ابن ماجه، السنن، 1 : 468، کتاب الجنائز، رقم : 1458
مالک، المؤطا 1 : 222، رقم : 520
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 84
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 407، رقم : 27340
حميدی، المسند، 1 : 174، رقم : 360
ابن حبان، الصحيح، 7 : 304، 302، رقم : 3033، 3032

سوال: کیا یہ بھی صرف اس لیے تھا کہ رسول ص نے حضرت زینب کی زندگی میں ان سے کوئی ازاربند ادھار لیا ہوا تھا؟ اگر آپ اب بھی کوئی اس قسم کا حیلہ بنا سکتے ہیں تو میں صرف اللہ کی پناہ ہی طلب کروں گی۔

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :
إنّی واﷲ ماسألته لألبسها، إنما سألته لتکون کفنی. قال سهل : فکانت کفنه.
’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘


بخاری، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 1218
بخاری، الصحيح، 2 : 737، کتاب البيوع، رقم : 1987
بخاري، الصحيح، 5 : 2189، کتاب اللباس، رقم : 5473
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 5689
نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 480، رقم : 9659
بيهقي، السنن الکبریٰ، 3 : 404، رقم : 6489
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 462
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، 169، 200، رقم : 5785، 5887، 5997
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 6234
قرشي، مکارم الاخلاق، 1 : 114، رقم : 378
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 3555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 1 : 454

سوال:
کیا یہ مومن صحابی بدعت ضلالہ کا مرتکب ہوا کہ جس نئی چیز کا حکم اللہ اور اسکے رسول ص نے نہیں دیا [یعنی رسول ص کی چادر کو کفن بنانے کا]، اُسے یہ صحابی نیا کام کرتے ہوئے خامخواہ میں ہی بنا فائدے و نفع کے اپنا کفن بنا رہا ہے؟ معاذ اللہ۔
اے متلاشیان حق، کیا ان واضح و روشن روایات کے بعد بھی ایسے حیلوں بہانوں کی کوئی جگہ باقی ہے اور کیا واقعی میں کوئی اور دلیل اپنی طرف سے پیش کر سکتی ہوں جو کہ ان صاف و روشن احادیث نبوی سے زیادہ روشن و صاف ہوں؟



4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔
ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 262
عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 111، رقم : 4715
سوال:
کیا اس صحابی سے بھی رسول ص نے معاذ اللہ کوئی کُرتہ ادھار لے رکھا تھا [معاذ اللہ]؟ یا پھر رسول ص مسلسل اپنے عمل سے مسلمانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ تبرکات نبوی کو خالی خولی کفار کو خوف و ڈرانے والا ایسا بے فائدہ عمل سمجھیں کہ جس سے رسول انہیں منع کر کے انکا رخ موڑ بھی چکے ہیں۔ [معاذ اللہ]





5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

ابن اثیر، اسد الغابہ، 3 : 207
ابن عبدالبر، الاستیعاب، 3 : 884، رقم : 1496
عسقلانی، الاصابہ فی تمییز الصحابہ، 4 : 47، رقم : 4605
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 48


نوٹ:

باخدا رسول ص تو اتنا صاف و واضح فرما رہے ہیں کہ یہ حضرت عبداللہ کی خوش قسمتی ہے، مگر البانی صاحب قیاس فرمائیں کہ تبرکات نبوی تو بے فائدہ صرف کفار کو خوف و ڈرانے کے لیے تھے کہ جن سے رسول نے صحابہ کو موڑ دیا ہے۔ استغفراللہ۔



6۔ حضرت عبداﷲ بن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو

دفنه النبی صلی الله عليه وآله وسلم في قميصه.
عسقلاني، الاصابة في تمييز الصحابة، 4 : 29، رقم : 4575
’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قمیص مبارک میں دفن کیا۔‘‘

جاری ہے۔ انشاء اللہ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
چند ایمان افروز احادیث نبوی مزید ہدیہ:

حضرت ابو موسیٰ صروایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور بولا : اے محمد ! آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’خوش ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے مجھ سے بہت دفعہ کہا ہے : ’’خوش ہوجاؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے (خوشخبری) قبول کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ انور دھوئے اور اس میں کلی کی، پھرفرمایا :
إشربا منه، و أفرغا علیٰ وجوهکما و نحورکما، و أبشرا. فأخذا القدح ففعلا ما أمرهما به رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، فنادتهما أم سلمة رضي اﷲ عنها من وراء الستر : أفضِلا لأمکما مما فی إنائکما، فأفضلا لها منه طائفة.
مسلم، الصحيح، 4 : 1943، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2497
بخاري، الصحيح، 4 : 1573، کتاب المغازی، رقم : 4073
هندی، کنز العمال، 13 : 608، 609، رقم : 37556
عسقلانی، تغليق التعليق، 2 : 128
فاکهی، أخبار مکه، 5 : 64، رقم : 2845
ابويعلی، المسند، 13، 301، رقم : 7314
ابن حبان، الصحيح، 2 : 318، رقم : 558
ذهبی، سير أعلام النبلاء، 2 : 385
شوکانی، نیل الاوطار، 1 : 24
’’تم دونوں اس کو پی لو اور اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی : اس برتن میں جو بچا ہوا پانی ہے وہ اپنی ماں کے لئے بھی لاؤ پھر وہ اس میں سے کچھ پانی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے لئے بھی لے گئے۔‘‘
حضرت ابو موسیٰ صروایت کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور بولا : اے محمد ! آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : ’’خوش ہو جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : آپ نے مجھ سے بہت دفعہ کہا ہے : ’’خوش ہوجاؤ۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلال کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال رضی اﷲ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم نے (خوشخبری) قبول کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اور اس میں اپنے دونوں ہاتھ اور چہرہ انور دھوئے اور اس میں کلی کی، پھرفرمایا :
إشربا منه، و أفرغا علیٰ وجوهکما و نحورکما، و أبشرا. فأخذا القدح ففعلا ما أمرهما به رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، فنادتهما أم سلمة رضي اﷲ عنها من وراء الستر : أفضِلا لأمکما مما فی إنائکما، فأفضلا لها منه طائفة.
’’تم دونوں اس کو پی لو اور اپنے چہرے اور سینے پر مل لو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی : اس برتن میں جو بچا ہوا پانی ہے وہ اپنی ماں کے لئے بھی لاؤ پھر وہ اس میں سے کچھ پانی ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے لئے بھی لے گئے۔‘‘


مسلم، الصحيح، 4 : 1943، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2497
بخاري، الصحيح، 4 : 1573، کتاب المغازی، رقم : 4073
هندی، کنز العمال، 13 : 608، 609، رقم : 37556
عسقلانی، تغليق التعليق، 2 : 128
فاکهی، أخبار مکه، 5 : 64، رقم : 2845
ابويعلی، المسند، 13، 301، رقم : 7314
ابن حبان، الصحيح، 2 : 318، رقم : 558
ذهبی، سير أعلام النبلاء، 2 : 385
شوکانی، نیل الاوطار، 1 : 24

تو کیا اب بھی اس قیاس کی کوئی جگہ ہے کہ رسول اس فعل سے صحابہ کو اپنے تبرکات سے پھیر رہے ہیں۔ معاذ اللہ۔

پیالہ مبارک سے حصولِ برکت

لبِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس برتن کو مس کیا وہ بھی بڑے بابرکت ہو گئے۔
ظاہر پرست حضرات کے برعکس، صحابہ کرام ایسے برتنوں کو بطور تبرک اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے اور پینے پلانے کے ایسے برتنوں کا استعمال باعث برکت و سعادت گردانتے تھے۔


1۔ حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبداﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے انہیں ایک ایسے برتن میں پانی پلانے کی پیشکش کی کہ جس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی نوش فرمایا تھا اور انہوں نے اس مبارک برتن کو اپنے پاس محفوظ کر لیا اور فرمایا :
ألا أسقيک فی قدح شرب النبی صلی الله عليه وآله وسلم فيه؟
’’کیا میں آپ کو اس پیالے میں (پانی) نہ پلاؤں جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہے؟‘‘
بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الأشربة، رقم : 5314
عسقلانی، تغليق التعليق، 5 : 32


تو اب ہمت ہے تو کہہ دیجئیے کہ رسول ص تو اپنی زندگی میں اپنے تبرکات سے صحابہ کو موڑ چکے تھے اور یہ صحابی رسول معاذ اللہ صرف اپنی رائے سے ایک نیا فعل/عمل/بدعت انجام دے رہا ہے اور اس صحابی کو پیالے سے کوئی نفع نہیں حاصل ہوئی بلکہ معاذ اللہ معاذ اللہ وہ یہ کام صرف شخصیت پرستی میں مبتلا ہو کر کر رہا تھا [نوٹ: میں سخت نہیں ہونا چاہتی، مگر میں نے "شخصیت پرستی" کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ ظاہر پرست حضرات ہم پر تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کرنے کے عیقدے پر شخصیت پرستش کی فتوے عام جاری کرتے ہیں۔]



حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے دوسرے الفاظ اس طرح مروی ہیں کہ میں مدینہ پاک حاضر ہوا تو مجھے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ ملے اور اس نے کہا :
انطلق إلی المنزل فأسقيک فی قدح شرب فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
’’میرے ساتھ گھر چلیں میں آپ کو اس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 6 : 2673، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، رقم : 6910
بيهقي، السنن الکبری، 5 : 349، رقم : 10708
عسقلانی، فتح الباری، 7 : 131، رقم : 3603
عسقلانی، تغليق التعليق، 5 : 32


2۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
فأقبل النبی صلی الله عليه وآله وسلم يومئذ حتي جلس في سقيفة بني ساعدة هو و أصحابه ثم قال : اسقنا، يا سهل : فخرجت لهم بهذا القدح فأسقيتهم فيه. (قال أبو حازم : ) فأخرج لنا سهل ذلک القدح فشربنا منه. قال : ثم استوهبه عمر بن عبدالعزيز بعد ذلک، فوهبه له.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سقیفہ بنی ساعدہ میں تشریف فرما ہوئے۔ پھر حضرت سہل سے فرمایا : اے سہل! ہمیں پانی پلاؤ۔ پھر میں نے ان کے لیے یہ پیالا نکالا اور انہیں اس میں (پانی) پلایا۔ (ابو حازم نے کہا :) سہل نے ہمارے لیے وہ پیالہ نکالا اور ہم نے بھی اس میں پیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان سے مانگ لیا تو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے وہ پیالہ ان کو دے دیا۔‘‘
بخاري، الصحيح، 5 : 2134، کتاب الاشربة، رقم : 5314
مسلم، الصحيح، 3 : 1591، کتاب الأشربة، رقم : 2007
ابوعوانه، المسند، 5 : 136، رقم : 8125
بيهقي، السنن الکبري، 1 : 31، رقم : 123
روياني، المسند، 2 : 201، رقم : 1036
ابن جعد، المسند، 1 : 431، رقم : 2935
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 145، رقم : 5792
عسقلاني، فتح الباري، 10 : 99، رقم : 5314




صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ پانی اپنے سروں اور چہروں پر انڈیلا
3۔ حضرت حجاج بن حسان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
کنا عند أنس بن مالک، فدعا بإناء و فيه ثلاث ضباب حديد و حلقة من حديد، فأخرج من غلاف أسود و هو دون الربع و فوق نصف الربع، فأمر أنس بن مالک فجعل لنا فيه ماء فأتينا به فشربنا وصببنا علی رؤوسنا و وجوهنا و صلينا علی النبی صلی الله عليه وآله وسلم.

’’ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھے کہ آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں لوہے کے تین مضبوط دستے اور ایک چھلا تھا۔ آپ نے اسے سیاہ غلاف سے نکالا، جو درمیانے سائز سے کم اور نصف چوتھائی سے زیادہ تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس میں ہمارے لیے پانی ڈال کر لایا گیا تو ہم نے پانی پیا اور اپنے سروں اور چہروں پر ڈالا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھا۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 187، رقم : 12971
ابن کثير، البديه والنهيه، 6 : 7
مقدسي، الآحاديث المختارة، 5 : 216، رقم : 1845
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔


حضرت انس رضی اللہ عنہ نے پیالۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاندی کے تار سے جوڑا

جب وہ مبارک پیالہ ٹوٹ گیا (جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی پیا تھا) جو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ تھا تو اس کی مرمت کا انہوں نے جس قدر اہتمام کیا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسوب اشیاء کو کس قدر حرزجاں بنائے ہوئے تھے۔
4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
أن قدح النبی صلی الله عليه وآله وسلم انکسر فاتخذ مکان الشعب سلسلةً من فضة. قال عاصم : رأيتُ القدح و شربتُ فيه.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیالہ ٹوٹ گیا تو آپ (حضرت انس رضی اللہ عنہ) نے اسے جوڑنے کے لئے عام چیز کی بجائے چاندی کے تار لگا دیئے۔ عاصم (راوی ) کہتے ہیں : خود میں نے اس پیالے کی زیارت کی ہے اور اس میں پیا ہے۔‘‘
بخاري، الصحيح، 3 : 1131، ابواب الخمس، رقم : 2942
طبرانی، المعجم الاوسط، 8 : 87، رقم : 8050
بيهقي، السنن الکبریٰ، 1 : 29، رقم : 113 - 111
عسقلانی، تلخيص الجبير، 1 : 52
ملقن، خلاصة البدر المنير، 1 : 25
احمد بن علي، الفصل للوصل المدرج، 1 : 249
صنعاني، سبل السلام، 1 : 34
ابن قدامه، المغني، 1 : 59
شوکاني، نيل الاوطار، 1 : 84

مشکیزہ سے حصولِ برکت

1۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مس شدہ مشکیزہ کا منہ حصول خیر و برکت کے لئے کاٹ کر محفوظ کیا۔ جیسا کہ حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ اپنی دادی حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم دخل عليها، و عندها قِربة معلقة فشرب منها و هو قائم، فقطعت فم القِربة تبتغي برکةَ موضع في رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ہاں تشریف لائے تو وہاں ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے پانی پیا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے تھے، پس میں نے مشکیزے کا منہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دہنِ اقدس والی جگہ سے حصول برکت کے لیے کاٹ کر رکھ لیا۔‘‘
ابن ماجه، السنن، 2 : 1132، کتاب الأشربه، رقم : 3423
ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 306، ابواب الأشربه، رقم : 1892
ترمذي، الشمائل المحمديه، 1 : 174، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 212
ابن حبان، الصحيح، 12 : 138، رقم : 5318
حميدي، المسند، 1 : 172، رقم : 354
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 15، رقم : 8
شيباني، الآحاد والمثاني، 6 : 138، رقم : 3365
بغوي، شرح السنه، 11 : 379، رقم : 3042
ابن ماجہ کی روایت کی سند صحیح ہے جبکہ امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح غریب قرار دیا ہے۔


نوٹ: ظاہر پرست حضرات بتائیں کہ کیا البانی صاحب ان صحابہ اور صحابیات سے زیادہ علم رکھتے ہیں؟ کیا اب آپ اس موقع پر خاور بلال صاحب کی روش پر چلتے ہوئے کہنا شروع کر دیں گے کہ یہ بزرگوار [صحابہ و صحابیات] رسول ص کے حکم کے خلاف آپکی مس شدہ چیزوں کو بطور تبرک محفوظ کر رہے ہیں؟
تو اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ لوگ خود اللہ کے ہاں اپنے اعمال کے ذمہ دار ہیں، اور میرا کام فقط حق کو عیاں کرنا اور پہنچا دینا ہے۔



2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن النبي صلی الله عليه وآله وسلم دخل علي أم سليم، و في البيت قِربة معلقة، فشرب من فيها و هو قائم، قال : فقطعت أم سليم فم القربة فهو عندنا.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنہا کے یہاں تشریف لائے تو ان کے گھر میں (پانی کا) ایک مشکیزہ لٹکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مشکیزہ سے کھڑے ہوئے پانی نوش فرمایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا نے اس مشکیزہ کا منہ کاٹ لیا۔ پس وہ (اب بھی) ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 119، رقم : 12209
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 431، رقم : 27468
ترمذي، الشمائل المحمدية، 1 : 177، باب صفة شرب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، رقم : 215
طيالسي، المسند، 1 : 229، رقم : 1650
طبراني، المعجم الکبير، 25 : 127، رقم : 307
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 204، رقم : 654
مقدسي، الآحاديث المختاره، 7 : 295، رقم : 2750
ابن جعد، المسند، 1 : 329، رقم : 2255
هيثمي، موارد الظمان، 1 : 333، رقم : 1372
ابن جارود، المنتقیٰ، 1 : 220، رقم : 868


حضرت ام سلیم رضی اﷲ عنھا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں۔
ان دونوں صحابیات کا مشکیزے کے ٹکڑوں کو محفوظ کر لینا فقط حصولِ برکت کے لیے اس وجہ سے تھا کہ انہیں محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے مس کیا تھاجس سے یہ ٹکڑے عام ٹکڑوں سے ممتاز ہو گئے تھے، فقط اس لئے کہ دہنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشبو سما جانے کے بعد یہ ہمیشہ کے لیے خیر وبرکت کا باعث سمجھے جانے لگے۔

منبر مبارک سے حصولِ برکت

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس منبر شریف پر بیٹھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو دین سکھاتے تھے، عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس منبر شریف کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے آثار کی طرح دل و جاں سے حصولِ برکت کا ذریعہ بنا لیا، وہ اسے جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے اوراس سے برکت حاصل کرتے۔
قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :
و رُئی ابن عمر واضعا يدَه علي مَقْعَدِ النبیِ صلي الله عليه وآله وسلم من المِنبَر، ثم وضعها علي وَجْهه.
قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 620
تميمي، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 254
ابن قدامه، المغني، 3 : 299
’’اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔‘‘
اگر ان احادیث کو پڑھ کر آپ کے ایمان تازہ ہو گئے ہوں تو میرے لیے ضرور دعا فرمائیے گا [خصوصا میری آنکھوں کے لیے]۔
والسلام۔
 

باذوق

محفلین
از باذوق:
بہت شکریہ۔ امید ہے کہ اب آپ ایسے باتیں نہیں دہرائیں گے جو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم۔
سب سے پہلے میں معذرت چاہتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔
موضوع سے ہٹ کر کچھ سوالات کے جواب دے رہا ہوں۔ امید کہ اتنا حق تو مجھے یہاں ضرور ملے گا کہ اپنی "صفائی" دے سکوں ۔۔۔۔

مجھ پر اعتراض کرنا کہ ان احادیث کو کیوں بیان کر رہی ہوں جو دوسری سائیٹس پر موجود ہیں، جبکہ خود اردو پیجز اور مجلس پر بار بار بار بار بار بار پلٹ پلٹ پلٹ کر آپ وہی مٹیریل پوسٹ کرتے ہیں جو پہلے سے ہی آپ حضرات کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔
اللہ کی قسم ! میں نے کہیں بھی کسی بھی جگہ ایسا نہیں لکھا ہے کہ :
آپ ان احادیث کو کیوں بیان کر رہی ہیں ؟؟
ایسا الزام آپ اس شخص کو دے رہی ہیں جس نے نیٹ کی اردو کمیونیٹی میں سب سے پہلی مرتبہ اردو یونیکوڈ میں 10 عدد معروف کتبِ احادیث کی پیشکشی کا بیڑہ انفرادی طور پر اٹھایا اور جس پر کام اب تک جاری ہے اور یہ میری وہ واحد سائیٹ ہے (پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی فورم کی شکل میں) جس کو قائم کرنے کے لیے تکنیکی تعاون مجھے اردو محفل ہی سے ملا تھا۔
میرا اعتراض احادیث پر نہیں بلکہ "مخصوص/متنازعہ نظریات" پر ہے اور تھا۔

جبکہ خود اردو پیجز اور مجلس پر بار بار بار بار بار بار پلٹ پلٹ پلٹ کر آپ وہی مٹیریل پوسٹ کرتے ہیں جو پہلے سے ہی آپ حضرات کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔
میں شائد پہلے بھی ایک بار یہاں بتا چکا ہوں کہ میرا تعلق اب صفر فیصد بھی اردوپیجز سے نہیں ہے۔
"آپ حضرات کی ویب سائٹس" کا جو طعنہ آپ نے دیا ہے ۔۔۔۔ ذرا بتائیے ان ویب سائیٹس سے کوئی مواد لے کر کسی نئے تھریڈ کی شروعات میں نے کبھی محفل پر کی؟؟ اگر ہاں تو براہ مہربانی "ثبوت" دیجئے گا۔

اردو پیجز پر ہر کسی حتی کہ قادیانی حضرات اور غیر مسلموں کو بھی پوسٹ کرنے کی اجازت تھی، مگر میں تھی کہ جب پوسٹ کرتی تھی تو اسے ہمیشہ لاک کر دیا گیا، پھر انکی ڈیلیشن بھی ہوئی، اور آخر میں میرا مہوش علی والا اکاونٹ ہی ڈیلیٹ کر دیا گیا اور آئی پی ایڈریس ہی بلاک کر دیا گیا۔
صرف آپ کے تھریڈ نہیں بلکہ بیشمار اراکینِ اردوپیجز کے تھریڈ اسلام سیکشن میں لاک کیے گئے تھے ۔۔۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ تمام اردوپیجز کے اسلام سیکشن کے قوانین کے خلاف تھے۔
اور جہاں تک آپ کے تھریڈ کو حذف کرنے کی بات ہے ، میں نے شائد اللہ کو گواہ بنا کر یہیں محفل کی کسی پوسٹ میں بہت پہلے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے کسی بھی تھریڈ کو اردوپیجز پر میں نے حذف نہیں کیا۔ چاہے تو ابھی جا کر دریافت کر لیں۔
ایک اور بار اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ اردوپیجز پر آپ کا اکاؤنٹ میں نے حذف نہیں کیا اور نہ ہی آپ کا آئی-پی میں نے بین کیا اور نہ ہی ان دونوں کاموں میں میرا کسی بھی قسم کا کوئی ہاتھ رہا ہے۔

آپ توحید کے نام پر پروگرامڈ ہو چکے ہیں
اس ذاتی الزام کا میں بہترین جواب دے سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔
میں یہ معاملہ اللہ رب العزت پر چھوڑتا ہوں کہ ہدایت دینا اور نہ دینا اسی کے ہاتھ ہے !!

۔۔۔۔۔ کہ جس مرضی طریقے سے ممکن ہو سکے ہر اُس ثبوت کو چھپا دیا جائے اور دبا دیا جائے جو آپ کے بنائے ہوئے عقیدہ توحید کی مخالفت میں جاتا ہو۔
اتنی معصومیت پر مجھے غالب کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے ۔۔۔۔ مگر خیر جانے دیجئے !!
بھلا نیٹ پر بھی کوئی چیز "چھپائی" یا "دبائی" جا سکتی ہے؟؟ واللہ اگر ایسا کرنے کا جادو مجھ میں ہوتا تو میں سب سے پہلے فحاشی پھیلانے والی تمام پورنوگرافک سائیٹس پر یہ جادو آزماتا !!

سعودیہ میں ایسی کتابوں پر مکمل بین لگا کر ایسا کیا گیا
ممکن ہے !!
مگر میں نے آج تک ایسا نہیں سنا کہ سعودی عرب نے اپنے اثر ورسوخ سے دیگر اسلامی ممالک یا برصغیر میں بھی ایسا بین لگایا ہو۔ آج بھی میرے پاس مختلف ممالک سے مختلف فرقوں کی کتب آتی ہیں اور نیٹ سے بھی تقریباَ ہر فرقہ کی کتاب میں بآسانی ڈاؤنلوڈ کر لیتا ہوں۔ اب ایسی صورت میں آپ کے احتجاج کی کیا وقعت رہ جاتی ہے ۔۔۔ یہ صاحبان عقل خود سمجھ سکتے ہیں۔

اسکا ایک نمونہ آپ نے اوپر خود ہی پیش کر دیا جب مجھے یہ کہہ کر بحث سے الگ کرنے کی کوشش کی کہ مواد پہلے سے ہی نیٹ پر موجود ہے، جبکہ خود اپنی روش کی طرف نہ دیکھا، اور پھر خود ہی سے مجھے یہ نصیحت کرنے کے بعد مراسلوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اس کا بہتر جواب یہ ہے کہ : آپ لاعلمی میں تضاد بیانی کا شکار ہو چکی ہیں۔
ذیل کی اپنی پوسٹ کو یاد کیجئے :
اور کیا ڈرامہ ہے کہ:
1۔ میں فاروقی برادر کی کال پر گفتگو تمام کر چکی تھی۔
جب آپ قبول کر چکی ہیں کہ میرے اس مراسلے سے قبل آپ اپنی "گفتگو تمام" کر چکی تھیں تو پھر
بحث سے الگ کرنے کی کوشش
کا ذکر کیوں ؟؟
اور میں محفل کا کوئی ناظم تھوڑی ہوں کہ آپ پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک لگا سکوں۔

اور یہ بات بھی آپ کی غلط ہے کہ
اور پھر خود ہی سے مجھے یہ نصیحت کرنے کے بعد مراسلوں کا سلسلہ شروع کر دیا
میں نے کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا۔ بلکہ سلسلہ تو حقیقتاً آپ نے شروع کیا ہے۔ میں نے تو صرف آپ کے ارسال کردہ نظریات کے مقابل جو دیگر "نظریات" پائے جاتے ہیں ، ان کو جوابات کی شکل میں لگایا ہے۔
کیا محفل پر اس قسم کی کوئی پابندی ہے کہ یہاں صرف آپ کے "مرغوب نظریات" کی ہی پیشکشی ہو؟؟

----
آپ کے مزاج کی موجودہ گرمی کو دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ میں فی الحال خاموشی اختیار کر رہا ہوں۔
اور میرے آخری تین مراسلوں کے جو جو بھی جوابات آپ نے دئے ہیں ۔۔۔۔۔ ان کے جواب در جواب میں ان شاءاللہ کچھ عرصہ بعد دوں گا۔

فی الحال ان نکات کی نشاندہی ضرور کروں گا جن سے مجھے لگتا ہے کہ میرے مراسلوں کو کوٹ کرنے میں آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بہن میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ ماں عائشہ (رض) اور پس پردہ اصحاب مدینہ کے بارے لکھی گئی تحریر کو تبدیل کریں ، لیکن وہ جوں کی توں ہے ۔۔
بھائی جی، میں نے اسے تبدیل تو کیا تھا۔
میں دوبارہ دیکھتی ہوں اور اسے مکمل ہی حذف کر دیتی ہوں۔

اس کے علاوہ بھی آپ کو کہیں چیزیں غلط رنگ میں نظر آئیں تو براہ مہربانی انہیں پوائنٹ آوٹ کر دیجئے تاکہ میں انکی تصحیح کر دوں۔ شکریہ۔
والسلام۔
 

سعود الحسن

محفلین
تفرقہ بازی برھنے سے روکو
منتظم حضرات اس موضوع کو بند کر دیں
وسلام
شکریہ
بھائی صاحب یہ مضمون آپ نے جو لکھا ہے صرف مسلمانوں میں تفرقہ بازی پیدا کر سکتا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
بات اس چیز کی کرو یا اس چیز کی تبلیغ کرو جس سے سب کا اتحاد رہے اور سب اسلام کے راہنما اصولوں پر چل سکیں۔
آئندہ محتاط رہیں۔ اس پر میں بھی ایک لمبا سا جوابی مضمون لکھ سکتا ہوں۔
انشاللہ میں کچھ احادیث اور کچھ آیات سے پہلی فُرصت میں آپ کو زاتی پیغام بھیج دوں گا تا کہ آپ کا عقیدہ صاف ہو جائے۔
وسلام
باذوق صاحب۔
اچھی بحث ہے ۔ خوش رہیں ۔
اگر یہ آپ کا عقیدہ ہے خوب ہے۔
میرا عقیدہ مختلف ہے ۔
فورم پر کوشش کر کے وہ مراسلات پیش کریں
جس سے ہم ایک ہو ں فروعی و عقیدتی معاملات کو
چھیڑ کر آپ اور ہم ( جو بھی ہو) ۔۔ محض فرقہ پرستی کرسکتے ہیں
کوئی اچھا کام کیجئے یہ کام علماء کے نام پر بہت سے لوگوں نے کیا ۔
نتیجہ ڈھاک کے تین پات والا رہا ۔۔
میں ایسے بیسوں مناظرے بھی دیکھ چکا جس میں ہارنے والا آج بھی
توبہ نہیں کرتا ۔۔ بلکہ اسی طرح اپنے علم کو شر کیلیے استعمال کرتا ہے
جیسے وہ کرتا چلا آیا ہے ۔۔
والسلام

میرا سوال ان دونوں حضرات سے صرف یہ ہے کہ، ان کی اوپردی گئی پوسٹس جو اس تھریڈ میں ہیں کا اطلاق صرف باذوق کی پوسٹس پر ہی ہوتا ہے یا اس تھریڈ میں موجود مہوش صاحبہ کی پوسٹس پر بھی ہوتا ۔
شکریہ
اس حوالہ سے میں اپنی رائے کا اظہار اپنی اوپر کی پوسٹس میں کرچکا ہوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
السلام علیکم۔
سب سے پہلے میں معذرت چاہتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔
موضوع سے ہٹ کر کچھ سوالات کے جواب دے رہا ہوں۔ امید کہ اتنا حق تو مجھے یہاں ضرور ملے گا کہ اپنی "صفائی" دے سکوں ۔۔۔۔


اللہ کی قسم ! میں نے کہیں بھی کسی بھی جگہ ایسا نہیں لکھا ہے کہ :
آپ ان احادیث کو کیوں بیان کر رہی ہیں ؟؟
ایسا الزام آپ اس شخص کو دے رہی ہیں جس نے نیٹ کی اردو کمیونیٹی میں سب سے پہلی مرتبہ اردو یونیکوڈ میں 10 عدد معروف کتبِ احادیث کی پیشکشی کا بیڑہ انفرادی طور پر اٹھایا اور جس پر کام اب تک جاری ہے اور یہ میری وہ واحد سائیٹ ہے (پی۔ایچ۔پی۔بی۔بی فورم کی شکل میں) جس کو قائم کرنے کے لیے تکنیکی تعاون مجھے اردو محفل ہی سے ملا تھا۔
میرا اعتراض احادیث پر نہیں بلکہ "مخصوص/متنازعہ نظریات" پر ہے اور تھا۔


میں شائد پہلے بھی ایک بار یہاں بتا چکا ہوں کہ میرا تعلق اب صفر فیصد بھی اردوپیجز سے نہیں ہے۔
"آپ حضرات کی ویب سائٹس" کا جو طعنہ آپ نے دیا ہے ۔۔۔۔ ذرا بتائیے ان ویب سائیٹس سے کوئی مواد لے کر کسی نئے تھریڈ کی شروعات میں نے کبھی محفل پر کی؟؟ اگر ہاں تو براہ مہربانی "ثبوت" دیجئے گا۔


صرف آپ کے تھریڈ نہیں بلکہ بیشمار اراکینِ اردوپیجز کے تھریڈ اسلام سیکشن میں لاک کیے گئے تھے ۔۔۔ صرف اس وجہ سے کہ وہ تمام اردوپیجز کے اسلام سیکشن کے قوانین کے خلاف تھے۔
اور جہاں تک آپ کے تھریڈ کو حذف کرنے کی بات ہے ، میں نے شائد اللہ کو گواہ بنا کر یہیں محفل کی کسی پوسٹ میں بہت پہلے آپ سے کہا تھا کہ آپ کے کسی بھی تھریڈ کو اردوپیجز پر میں نے حذف نہیں کیا۔ چاہے تو ابھی جا کر دریافت کر لیں۔
ایک اور بار اللہ کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں کہ ۔۔۔۔۔ اردوپیجز پر آپ کا اکاؤنٹ میں نے حذف نہیں کیا اور نہ ہی آپ کا آئی-پی میں نے بین کیا اور نہ ہی ان دونوں کاموں میں میرا کسی بھی قسم کا کوئی ہاتھ رہا ہے۔


اس ذاتی الزام کا میں بہترین جواب دے سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔
میں یہ معاملہ اللہ رب العزت پر چھوڑتا ہوں کہ ہدایت دینا اور نہ دینا اسی کے ہاتھ ہے !!


اتنی معصومیت پر مجھے غالب کا ایک مصرعہ یاد آ رہا ہے ۔۔۔۔ مگر خیر جانے دیجئے !!
بھلا نیٹ پر بھی کوئی چیز "چھپائی" یا "دبائی" جا سکتی ہے؟؟ واللہ اگر ایسا کرنے کا جادو مجھ میں ہوتا تو میں سب سے پہلے فحاشی پھیلانے والی تمام پورنوگرافک سائیٹس پر یہ جادو آزماتا !!


ممکن ہے !!
مگر میں نے آج تک ایسا نہیں سنا کہ سعودی عرب نے اپنے اثر ورسوخ سے دیگر اسلامی ممالک یا برصغیر میں بھی ایسا بین لگایا ہو۔ آج بھی میرے پاس مختلف ممالک سے مختلف فرقوں کی کتب آتی ہیں اور نیٹ سے بھی تقریباَ ہر فرقہ کی کتاب میں بآسانی ڈاؤنلوڈ کر لیتا ہوں۔ اب ایسی صورت میں آپ کے احتجاج کی کیا وقعت رہ جاتی ہے ۔۔۔ یہ صاحبان عقل خود سمجھ سکتے ہیں۔


اس کا بہتر جواب یہ ہے کہ : آپ لاعلمی میں تضاد بیانی کا شکار ہو چکی ہیں۔
ذیل کی اپنی پوسٹ کو یاد کیجئے :

جب آپ قبول کر چکی ہیں کہ میرے اس مراسلے سے قبل آپ اپنی "گفتگو تمام" کر چکی تھیں تو پھر
بحث سے الگ کرنے کی کوشش
کا ذکر کیوں ؟؟
اور میں محفل کا کوئی ناظم تھوڑی ہوں کہ آپ پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک لگا سکوں۔

اور یہ بات بھی آپ کی غلط ہے کہ

میں نے کوئی سلسلہ شروع نہیں کیا۔ بلکہ سلسلہ تو حقیقتاً آپ نے شروع کیا ہے۔ میں نے تو صرف آپ کے ارسال کردہ نظریات کے مقابل جو دیگر "نظریات" پائے جاتے ہیں ، ان کو جوابات کی شکل میں لگایا ہے۔
کیا محفل پر اس قسم کی کوئی پابندی ہے کہ یہاں صرف آپ کے "مرغوب نظریات" کی ہی پیشکشی ہو؟؟

----
آپ کے مزاج کی موجودہ گرمی کو دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ میں فی الحال خاموشی اختیار کر رہا ہوں۔
اور میرے آخری تین مراسلوں کے جو جو بھی جوابات آپ نے دئے ہیں ۔۔۔۔۔ ان کے جواب در جواب میں ان شاءاللہ کچھ عرصہ بعد دوں گا۔

فی الحال ان نکات کی نشاندہی ضرور کروں گا جن سے مجھے لگتا ہے کہ میرے مراسلوں کو کوٹ کرنے میں آپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔

بات یہ نہیں کہ "آج" آپکا اردو پیجز سے تعلق ہے یا نہیں، بلکہ یہ اُسوقت کی بات ہے جب آپ اردو پیجز کے اسلام سیکشن کے کرتا دھرتا تھے۔
اردو پیجز پر تمام تر موڈریٹر آپ ہی کے قریبی ساتھی تھے اور بات یہ نہیں کہ آپ نے براہ راست مجھے بین کیا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ آپکے ساتھیوں نے جو سلوک میرے ساتھ کیا وہ آپکے علم میں تھا اور آپ نے کچھ نہیں کیا۔

بہرحال، یہ محفل ہے اور یہ تھریڈ تبرکات نبوی کے متعلق ہے، اور میں مزید اس میں ہمارے معاملے کو بیچ میں نہیں لانا چاہتی بلکہ یہ معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتی ہوں۔
والسلام۔

پی ایس:
تبرکات نبوی کا معاملہ میں نے شروع نہیں کیا، اور میں بھی سالوں سے محفل پر ہوں اور پہلی پوسٹ یا پہلی شروعات نہیں کرتی بلکہ اکثر دوسروں کو صحیح طرح اپنا عقیدہ بیان کرنے کی مکمل آزادی دیتی ہوں جیسا کہ جب "سارہ" محفل میں "سلفی عقیدہ" پر کتاب مراسلوں کی صورت میں پوسٹ کر رہی تھیں، اور اس میں شفاعت و توسل پر اعتراضات بھی موجود تھے اور جس پر دوسرے کچھ اراکین نے اعتراضات بھی کیے تھے۔۔۔۔۔ مگر میں نے سارہ کے اُس تھریڈ پر ایک بھی اعتراض نہیں کیا اور مکمل حوصلے کے ساتھ انکو انکا موقف پیش کرنے دیا۔

معاملہ کا آغار فاروقی بھائی کے اس بیان سے ہوا تھا کہ کچھ جہلاء مردے کو غسل دیتے ہوئے آب زمزم اس میں تبرک کے طور پر شامل کر لیتے ہیں۔
بہرحال، بات جیسے بھی شروع ہوئی ہو، مجھے فاروقی بھائی سے کوئی گلہ نہیں اور جب فاروقی بھائی نے بات ختم کرنے کی بات کی تو مجھے انکی بات قبول کرنے میں کوئی عذر نہ ہوا اور میں انکی نیک نیتی کی طرف حسن ظن رکھتی ہوں۔
 

زیک

مسافر
اس تھریڈ پر مزید بحث کا کوئ فائدہ نہیں (ویسے تو جو بحث ہو چکی ہے اس کا فائدہ بھی مجھے نظر نہیں آیا :p) اس لئے تھریڈ مقفل کر رہا ہوں۔

ناظمین سے درخواست ہے کہ جو پوسٹس آبِ زم زم سے متعلق نہیں انہیں علیحدہ تھریڈ میں کر دیں۔

شکریہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
زیک میں یہی کرنا چاہ رہا تھا لیکن نجانے کیا وجہ ہے کہ اس دھاگے کے پیغامات میں الگ نہیں کر پا رہا، جبکہ دوسرے دھاگوں کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top