عقیدت اور عقیدہ - تبرکات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

آبی ٹوکول

محفلین
سب گورکھ دھندہ ! بے کار کی باتیں ! اتنی برکات ہوتیں ان بے جان چیزوں میں تو آج ہم اس حال میں نہ ہوتے ۔۔۔
خیر ہم کچھ نہیں کہتے ورنہ یہ برکات تو کشمیر سے لے کر فلسطین و ترکی تک موجود ہیں اور حال ؟؟؟؟؟
وسلام

اجی حجور برکات تو بعد کی بات ہیں کہ کہاں ہیں اور کہاں نہیں ہیں ؟ مگر وہ برکات دینے والی ذات تو ہر جگہ موجود ہے اور مومنین و صالحین کا وجود بھی ابھی اس دنیا سے ناپید نہیں ہوا کہ جن کہ ساتھ نصرت الٰہی کا وعدہ ہے ۔ ۔مگر حالت پھر بھی دگرگوں۔۔
 

باذوق

محفلین
باذوق برادر، پہلی بات تو یہ کہ مفسر قران یا شارح حدیث [اور وہ بھی ایسا مفسر اور ایسا شارح جسے آپ مانتے ہوں] کی شرط آپ کی اپنی ہے۔ مجھ پر جب کوئی معاملہ اس حد تک واضح ہو چکا ہو کہ جس کے بعد کم از کم اس معاملے میں تمام کے تمام نصوص سامنے آ چکے ہوں، تو پھر میرے لیے ممکن نہیں کہ میں کسی کی تقلید کروں، بلکہ یہاں اللہ تعالی مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں خود نصوص پر غور و فکر اور تدبر کروں۔
معاف کیجئے گا !! میں آپ سے قطعاً یہ مطالبہ نہیں کر رہا ہوں کہ آپ غور و فکر اور تدبر نہ کریں اور علماء / محدثین / شارحین کی "تقلید" کرلیں۔
آپ کی عقل یا آپ کا فہم بےشک خود آپ کو معتبر ہوگا لیکن افسوس کہ یہ ہمارے لئے حجت نہیں۔
آپ دینی عقائد کے معاملے میں جو چاہے نقطہ نظر رکھیں اس سے ہمیں کوئی مطلب نہیں ہوگا ۔۔۔ لیکن اگر آپ کا اصرار ہوگا کہ اسلام بس وہی ہے جسے میں نے قرآن و حدیث پر غور و فکر اور تدبر سے سمجھا ہے ۔۔۔۔۔ تو ذرا بتلائیے علماء / ائمہ / فقہا / محدثین / شارحین کا کیا کام رہ گیا پھر؟؟
جس مولانا مودودی پر آپ یوں الزام لگا رہی ہیں:
آپ لوگ ذہنوں میں رکھیے کہ مولانا مودودی اس معاملے میں بھی کلاسیکل قدیم علماء و مفسرین کے برخلاف اس بات کو ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔

یہی بات جب آپ کے تعلق سے ہم دریافت کرتے ہیں تو آپ کیوں کلاسیکل قدیم علماء و مفسرین کے حوالے نہ دے کر ایسا کہتی ہیں کہ :
میرے لیے ممکن نہیں کہ میں کسی کی تقلید کروں، بلکہ یہاں اللہ تعالی مجھ سے کہہ رہا ہے کہ میں خود نصوص پر غور و فکر اور تدبر کروں۔

جب یہ مطالبہ مولانا مودودی سے کیا جا سکتا ہے کہ دین کی تشریح میں سلف الصالحین کے نقطہ نظر سے انحراف نہ کریں تو ہم بھلا یہی مطالبہ آپ سے بھی کیوں کر نہ کریں ؟؟

اہل سنت کے تمام ائمہ و محدثین کا اجماع ہے کہ ابوطالب کی وفات کفر پر ہوئی اور صحیح احادیث کے مطابق جہنم میں ان کے درجے کا بیان ہو چکا ہے۔
اس کے باوجود آپ کا صرف یہ کہنا کہ :
جناب ابو طالب کے متعلق میرا نظریہ یہ ہے کہ وہ مومن ہیں اور جو روایات سعید ابن مسیب سے نقل ہو رہی ہیں ان میں تضاد ہے اور بذات خود اس شخص کے متعلق صراحت ہے کہ یہ بنی امیہ کا حامی تھا۔
بہرحال ایمان ابو طالب الگ مسئلہ رہا۔
کیا یہ وہی "تقلید" نہیں جس سے گریز کی آپ تھوڑی دیر پہلے رائے دے رہی تھیں۔
صحیح مسلم کی حدیث کے ذریعے تو ہم اہل سنت کے تمام ائمہ و محدثین کا اجماع نقل کر رہے ہیں اور اس کے مقابلے میں آپ کا فرمان ہے :
جناب ابو طالب کے متعلق میرا نظریہ یہ ہے

کیا دین کا انحصار میرے / تیرے انفرادی نظریات پر ہے؟؟

یہاں تو عام پڑھا لکھا فرد بھی جانتا ہے کہ کسی حدیث کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لئے کسی کے عقلی یا انفرادی توجہیات نہیں بلکہ محدثین کے اجماع سے ٹھوس دلائل درکار ہوتے ہیں !

۔۔۔۔ جاری ہے۔
 

باذوق

محفلین
جب برکت کی بات ہو تو رسول اللہ (ص) کے "ذاتی کمال" کا شور اٹھ جاتا ہے لیکن جب المیہ کا ذکر ہو تو یہاں اللہ میاں کی "مشیت" یاد دلائی جاتی ہے۔ آخر یہ کون سا فہمِ دین ہے؟

احادیث کے ذریعے رسول اللہ (ص) کے کرتے کو متبرک بتایا گیا ہے۔ اس حدیث کا انکار نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لباس سچ مچ اپنی ذات میں اس قدر ہی کراماتی تھا یا اس کے پیچھے اللہ کی تقدیر غالب تھی؟؟
اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ نبی (ص) کا کرتا ہی اس قدر متبرک تھا تو چاہئے تھا کہ اس کا ایک ایک ٹکڑا "امام ضامن" کی طرح اُن 70 قاریوں کے بازو پر باندھ دیا جاتا اور وہ بئر معونہ کے واقعے میں شہید نہ ہوتے۔
کیا ہم کو علم نہیں کہ ان 70 قراء کی شہادت اتنا بڑا سانحہ تھا کہ نبی کریم (ص) قریب ایک ماہ تک نماز میں قاتلین پر بددعا بھیجتے رہے۔

مگر یہاں شائد یہی کہہ دیا جائے گا کہ : یہ اللہ کی مشیت تھی !!

عطائی و ذاتی کی بحث بھی برسوں سے جاری ہے۔ ہمارے ایک برادرِ محترم خلیل رانا صاحب نے اردوپیجز کی ایک بحث میں فرمایا تھا :
بیئر معونہ ، واقعہء افک ، تین خلفاء راشدہ کی شہادتیں ، جمل و صفین کے واقعات مسلمانوں پر کڑے وقت تھے ، جن کا ذکر ہمارے مخالف لہک لہک کر کرتے ہیں ، یہ سمجھتے ہیں کہ ان واقعات سے توحید مضبوط ہوتی ہے ، حالانکہ اس طرح کے واقعات سے اللہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور امتحان میں اضافی پاورز کے استعمال کا اذن نہیں ہوتا ۔۔۔ وہابی بیچارہ نبی ولی کے امتحان کو دیکھتا ہے تو اُن کے صبر و رضا کی طرف اس کا ذہن نہیں جاتا ۔۔۔
بھائی ! آپ امتحان یا المیہ کا نشانہ صرف اللہ کی ذات کو ہی کیوں بناتے ہیں؟ خوشی یا برکت کا منبع اللہ کو کیوں نہیں بتاتے؟
یہ تو وہی بات ہوئی کہ میٹھا میٹھا رسول اللہ (ص) کے لیے اور کڑوا کڑوا اللہ تعالیٰ کے لئے؟

جہاں دلیل نہ دے سکیں وہاں "اللہ کی مشیت" کا نعرہ لگاؤ اور فردِ مخالف کا منہ بند کر دو ۔۔۔۔؟؟ اس کو بھلا علمی بحث کہتے ہیں؟؟

[یہ عطائی علم الکتاب تھا، مگر اکثر لوگ عطائی علم و کمال و فضل کو نہیں مانتے]
سوال تو یہی ہے کہ اس "عطائی علم و کمال و فضل" کا ثبوت ہے کہاں ؟ کس قرآنی آیت میں ؟ کس صحیح حدیث میں؟؟
اللہ تعالیٰ تو واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ وہ بےمثال ہے ، اس کی کوئی مثال نہیں۔
اب ہمارے یہ عزیز دوست ، اللہ تعالٰی کی مخصوص صفات ، بندوں کو عطا کرنا چاہتے ہیں۔
خدارا یہ تو بتائیے کہ :
اللہ تعالٰی نے اپنی یہ مخصوص صفات کب اپنے بندوں کو تفویض کی تھیں اور اللہ تعالٰی کے کاروبار عالم سے مستعفی ہونے ( یعنی : ریٹائرمنٹ) کی اطلاع انہیں کس طرح ملی ؟؟؟

سارے ہی مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ہے کہ :
جو شخص اللہ کی صفات کو بندوں کی صفات سے مشابہ خیال کرنے کا عقیدہ رکھے ، وہ یقیناََ مشرک ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے جو بھی صفات بندوں کو عطا کی ہیں مثلاََ دیکھنا ، سننا ، مدد کرنا ۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔ یہ تمام بندوں والی صفات ۔۔۔ اللہ کے دیکھنے ، سننے اور مدد کرنے وغیرہ والی صفات کے برابر نہیں ہیں ۔
لہذا اسی بات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ۔۔۔ ایک ہی صفت کا کمال اللہ کے لیے الگ ہے اور بندے کے لیے الگ ۔
بندہ ۔۔۔ اسباب کے ذریعے مدد کر سکتا ہے جبکہ اللہ بغیر اسباب کے ذریعے مدد کرنے پر بھی قاصر ہے ۔
اللہ نے بندے کو جو بھی صفات عطا کی ہیں وہ صفات بہرحال وہ نہیں ہیں جو اللہ کی اپنی صفات ہیں ۔۔۔ اگر اللہ اور بندے کی صفات کو ایک جیسا مان لیا جائے تو یہ شرک ہے ۔

اللہ نے اپنی ہی کمال والی صفات نہ تو کسی نبی کو عطا کی ہے ، نہ ولی کو اور نہ ہی کسی عام بندے کو ۔
اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ : جس طرح اللہ اسباب کے بغیر مدد کرتا ہے ، اسی طرح نبی یا اولیاء اللہ بھی مدد کرتے ہیں ۔۔۔
تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ : نبی یا اولیاء اللہ کی صفات ، خود اللہ کی صفات کے مشابہ ہیں ۔
جبکہ یہ مانا جا چکا ہے کہ اللہ کی اور بندے کی صفات مشابہ نہیں ہو سکتیں۔

اور اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ : اللہ نے اپنی ہی کمال والی صفات بندوں کو بھی ، مثلاََ نبی یا اولیاء اللہ کو عطا کی ہیں ۔
تو پھر اللہ اور بندے کے صفات کی ساری بحث ہی کھڑی نہ ہوگی اور یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کہ اللہ اور بندے کی صفات مشابہ نہیں ہیں۔
اس طرح تو توحید اور شرک کی بحث بھی باقی نہ رہے گی ۔
جب خود اللہ کے کمال والی صفات مخلوق میں بھی پائی جائیں (چاہے ہم اس کو "عطائی" جیسی خوبصورت اصطلاح ہی قرار کیوں نہ دے لیں) تو قرآن کی وہ ساری آیتیں ہی جھوٹ قرار پا جائیں گی جن میں اللہ اپنے آپ کو بےمثال قرار دیتا ہے ۔

نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت میں ۔۔۔ نبی یا ولی کو اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
اور جب اختیار حاصل نہ ہو تو معجزے یا کرامت کے سبب افعال کی نسبت بھی
نبی یا ولی کی ذات کی جانب
یا
ان سے وابستہ اشیاء کی جانب
نہیں کی جا سکتی بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی جانب کی جائے گی ۔

یہی وجہ ہے کہ سورہ اٰل عمرٰن کی آیت نمبر 49 میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔۔۔
مٹی کے پرندہ کو جاندار پرندہ بنانے
اندھے اور کوڑھی کو اچھا کرنے
مردے کو زندہ کرنے
ان تمام افعال کی نسبت دو مرتبہ باذن اللہ (اللہ کے حکم سے) کے الفاظ کے ذریعے اللہ تعالیٰ ہی کی جانب کرتے ہیں ۔

حجر اسود کو چومنے والی بات بار بار دہرائی جاتی ہے۔ اس کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکی۔
کیا اتباع رسول ہمارے لئے کافی نہیں؟ رسول اللہ (ص) نے حجر اسود کو چوما تھا ، اب انہی کی ہم اتباع کرتے ہیں۔ کیا یہ دلیل ناکافی ہے؟؟
اب بھلا اس میں شعائر اللہ کی تعظیم کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟
اگر آپ ترمذی کی اس حدیث کا حوالہ دیں گے تو اس کی وضاحت بھی وہیں موجود ہے ، خود مہوش علی کا ترجمہ یوں ہے :
اور میں رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے:”اس کالے پتھر کو قیامت کے روز لایا جائے گا، اور اس کو زبان عطا کی جائے گی جو کہ اُن لوگوں کی شہادت دے گی جو توحید پر قائم تھے اور اپنے فرائض انجام بجا لاتے تھے۔" چنانچہ یہ پتھر نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی۔"

اس الفاظ سے تو واضح ہو رہا ہے کہ قیامت کے روز حجر اسود شہادت دے گا۔ اب اس حدیث سے یہ مفہوم کیسے نکالا جا سکتا ہے کہ یہ پتھر دنیا میں بھی ہمیں فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے؟؟
اور ۔۔۔۔
شہادت یعنی گواہی دینے کو ۔۔۔ شفاعت کے معنوں میں لینے کی دلیل کیا ہے؟؟
احادیث سے تو یہ بھی ثابت ہے کہ انسان کے بدن کی ایک ایک چیز شہادت دے گی کہ اس سے کیا کیا نیک/بد کام لیا گیا؟
اب کیا اسی بنیاد پر ہم انسانی اعضاء کی تعظیم شروع کر دیں؟؟

اگر یہ عقیدہ پھیلا دیا جائے کہ فلاں فلاں تبرکات ، دنیا میں یہ یہ فوائد پہنچا سکتے ہیں ۔۔۔۔ تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟ برصغیر میں درگاہوں پر جو افعال و اعمال انجام پاتے ہیں کیا وہ ہمارے مشاہدے کے لئے کافی نہیں؟ کم علم اور ضعیف الاعتقاد عوام اس کے بعد اللہ پر بھروسہ قائم رکھیں گے یا "تبرکات" پر منحصر ہو کر بیٹھ جائیں گے؟؟
زمینی حقائق سے آخر ہم کب تک نظر چراتے رہیں گے؟؟


اس معاملے میں تو واللہ سعودی علماء ہی مجھے بہتر نظر آتے ہیں کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے شرک کے اُس چور دروازے کو انہوں نے سختی سے بند کر دیا ہے جسے کچھ لوگوں نے "تبرکات کی تعظیم" کا سنہرا عنوان دے رکھا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ یہاں سعودی عرب میں ایک بھی درگاہ یا "مزارِ شریف" نظر نہیں آتا !!

تبرکات نبوی کے متعلق سعودی علماء کا یہ عمومی عذر ہوتا ہے کہ تبرکات نبوی اب مہیا نہیں اس لیے کسی چیز کی تعظیم واجب نہیں۔ مگر بہرحال حجر الاسود کے متعلق یہ عذر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
سعودی علماء کا یہ "عذر" نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے !!
صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے تو روبرو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے "تبرکات" کا مشاہدہ کیا تھا ۔۔۔۔ ذرا بتائیے کہ آج کون ایسا مسلمان ہے جو پورے یقین سے کہہ سکے کہ یہ یہ بال رسول کریم (ص) کا ہے ، یہ جوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ، یہ کرتے کا ٹکڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے؟؟
جب "اصل تبرک" کا ثبوت فراہم کرنا ہی ناممکن ہے تو کہاں کی تعظیم اور کیسے فوائد کا حصول؟
حجر اسود کے متعلق بھی کہا جا چکا ہے کہ یہ متبرک چیز کی تعظیم کی بات نہیں بلکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا معاملہ ہے۔ اور اتباع کے لیے اپنی عقل و فکر کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں پڑتی !

اوپر ہمارے دوست خلیل رانا صاحب نے بڑی عمدہ بات کہی تھی :
وہابی بیچارہ نبی ولی کے امتحان کو دیکھتا ہے تو اُن کے صبر و رضا کی طرف اس کا ذہن نہیں جاتا ۔
یعنی نبی یا ولی پر آزمائشیں ہوتی تھیں تو وہ صبر و رضا کا مظاہرہ کرتے تھے ۔۔۔۔۔
تو اسی اسوہ کی طرف آج کیوں توجہ دلائی نہیں جاتی؟؟
کیوں "تعظیمِ تبرکات" کے بہانے شرک کے چور دروازوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے؟؟
کیوں ؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
کچھ تمہیدی طور پر پہلے عرض کر دوں۔

جہانزیب صاحب نے بالکل درست فرمایا کہ "یہاں‌ تو سب پرانی تحقیق اور تفتیش جاری ہے"۔
سسٹر مہوش علی ! برا نہ مانیں۔ قریب 6 سال پہلے کی بات ہے جب اردوستان فورم پر اسی موضوع پر بالکل یہی تحقیق آپ نے پیش فرمائی تھی اور پھر گزرتے وقت کے دوران بہت سے فورمز ، ویب سائیٹ ، بلاگز وغیرہ پر یہی "تحقیق" امیجز ، یونیکوڈ تحریر اور پ۔ڈ۔ف فائلز کی شکل میں نظر نواز ہوئی اور کچھ جگہ اس پر آپ سے میرا اور چند احباب کا آپسی بحث مباحثہ بھی ہوا۔ مگر حیرت یہی کہ آپ کا پرانا مطالبہ ہمیشہ کی طرح آج بھی برقرار ہے کہ :


دیکھئے۔ نبیل نے بالکل سچ کہا ہے کہ اس قسم کے بحث مباحثوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے کا ، بلکہ الٹا ان پروگراموں کا حرج ہوگا جس کی خاطر اردو محفل کے ذمہ داران بلا کسی تعصب کے اردو کی ترویج اور اس کے فروغ کے لیے کمر باندھے ہوئے ہیں۔
اختلاف رائے پیش کرنا ایک علیحدہ معاملہ ہے اور اس کی آڑ میں لاحاصل بحث و مباحثے کا دروازہ کھولنا ایک مختلف امر ہے۔
جہانزیب صاحب جانتے ہیں ، میں جانتا ہوں ۔۔۔ اس کے علاوہ بھی مزید لوگ ہیں جو یہ بات جانتے ہیں کہ آپ کی یہ مخصوص "تحقیق" کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہے اور کہاں کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔

آپ خود غور فرما لیجئے کہ فاروق بھائی کے ساتھ جب مجھ سمیت دیگر احباب کی "بیٹھکیں" یہاں کم ہوئیں (بلکہ "ختم" ہوئیں) تو محفل کے کتنے اہم پراجکٹس کی طرف نظر ثانی ہوئی اور کتنے نئے پراجکٹس کی طرف سب کی نظریں اٹھیں؟ بلکہ خود آپ نے ہی تو جوملہ لائیبریری جیسے پراجکٹ کی طرف پیش قدمی کی۔

کسی اوپن فورم پر ایک خاص انداز میں چند مخصوص نظریات کی پیشکشی کیا لایعنی بحث و مباحثے کا دروازہ نہیں کھولتی؟
کیا یہ تحریریں آپ پہلی بار یہاں پیش کر رہی ہیں؟ کیا یہ مختلف جگہوں پر مختلف عنوانات کے سہارے ہر فارمیٹ میں برائے مفت مطالعہ موجود نہیں ہیں؟ کیا ان کا ربط دے دیا جانا کافی نہیں ہوگا؟

امید کہ کبھی ان باتوں پر بھی ضرور غور فرمائیں گی۔ شکریہ۔

باذوق بھائی،
جتنی باتیں آپ نے یہاں میرے متعلق کی ہیں، اور جتنے الزامات لگائے ہیں، وہ سب کے سب کئی گنا زیادہ ہو کر آپ کے اپنے سر لگتے ہیں اور میں نے آپ کا رویہ اردو پیجز اور اس نئی مجلس کے حوالے کروانا شروع کر دیا کہ کتنی مرتبہ آپ نے اپنے عقائد کو دہرایا ہے جبکہ وہ پہلے ہی دسیوں ویب سائیٹ پر موجود ہیں اور سعودیہ سے لاکھوں کڑوڑوں کی تعداد میں چھپ چھپ کر مفت تقسیم ہوتی ہیں [مثلا ہزاروں کتب میں یہ واقعہ تو نقل ہو گیا کہ حضرت عمر نے حجر اسود سے کہا تو نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا، مگر حجر اسود اور تبرکات نبوی کے متعلق خود احادیث رسول لکھتے ہوئے قلموں کی سیاہی مکمل خشک تھی اور انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے، انہیں چھپایا جاتا ہے، اور اگر کوئی انکی نقاب کشائی کر کے حقیقت حال بیان کرنا چاہے تو اسکے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جایا جاتا ہے۔ اس لیے جب فاروقی بھائی نے حجر اسود والی آدھی حدیث نقل کر کے حجر اسود سے کسی بھی نفع و نقصان کا انکار کیا تو میں نے انہیں ذمہ دار نہیں ٹہرایا بلکہ ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے لاکھوں کڑوڑوں کتابچے شائع کر کے یہ یکطرفہ پروپیگنڈہ کیا ہوا ہے ]۔ اس عظیم پروپیگنڈے کے باوجود یہ آپ ہی کی ہمت ہے کہ مجھ پر پلٹ کر ایسے الزامات لگانے کی ہمت کرتے ہیں۔
بہرحال، آپ کو جتنے ایسے الزامات لگانے ہیں، مجھے ان سے پرہیز کرتے ہوئے اصل موضوع پر رہنا ہے اور میں نے یہ تھریڈ اس لیے نہیں شروع کیا کہ آپ لوگوں سے کچھ منواووں، بلکہ مجھے صرف نصوص و دلائل اللہ کے نام پر اچھے طریقے سے سامنے لانے تھے اور بہت سے ہیں جن کو ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور انکے ایمان نصوص و دلائل پڑھ کر مضبوط ہوتے ہیں اور وہ حق و باطل اور پروپیگنڈے کے درمیان اور بہتر طریقے سے فرق کر پاتے ہیں۔
اور اس گفتگو سے بذات خود میں نے بہت کچھ سیکھا کہ جن لوگوں کو تبرکات نبوی سے شفا و نفع کا انکار ہے، اُن کے اذھان میں کون کون سے شکوک و وسوسے جنم لے رہے ہیں اور انکا علاج کیونکر ممکن ہے۔
//////////////////////////
اور کیا ڈرامہ ہے کہ:
1۔ میں فاروقی برادر کی کال پر گفتگو تمام کر چکی تھی۔
2۔ مگر فریق مخالف اس فیصلے کا احترام نہ کرتے ہوئے مزید مراسلے پوسٹ کرتا ہے۔
3۔ اور پھر جب میں جواب دیتی ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ بحث ختم کر دوں کیونکہ ایسے بحوث سے اردو ویب کے پراجیکٹ پر اثر پڑتا ہے۔
4۔ اور یہ نصیحت کرتے ہی پھر مجھ پر الزامات کی بارش شروع کر دی جاتی اور بحث کو آگے لیجایا جاتا ہے۔

باذوق برادر، کیا میں نے آپ کو نہیں کہا جو الزامات آپ مجھ کو دے رہے ہوتے ہیں، وہ کہیں بڑھ کر خود آپکے سر پر زیادہ سج رہے ہوتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میں آپ کی اس پوسٹ پر ہلکا پھلکا تبصرہ کرنا کافی سمجھتی ہوں کیونکہ اس میں ایک بھی نص بطور ثبوت نہیں لائے ہیں بلکہ صرف بحث برائے بحث کر کے شکوک و وساوس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مزید یہ کہ آگے دوڑ پیچھے چھوڑ؟ سعودی علماء نے ان جگہوں کے متبرک ہونے کا انکار کیا تھا جہاں پر رسول ص نے قیام کیا اور آپ نے اسی حوالے سے مجھ پر اپنی پچھلی پوسٹ میں اعتراض کیا تھا۔ میں نے نصوص سے اس دعوے کو غلط ثابت کیا تھا۔ امید ہے آپ اس مسئلے کو اس بحث برائے بحث میں الجھا کر ہضم نہیں کر جائیں گے۔
/////////////////////////////
جب برکت کی بات ہو تو رسول اللہ (ص) کے "ذاتی کمال" کا شور اٹھ جاتا ہے لیکن جب المیہ کا ذکر ہو تو یہاں اللہ میاں کی "مشیت" یاد دلائی جاتی ہے۔ آخر یہ کون سا فہمِ دین ہے؟
احادیث کے ذریعے رسول اللہ (ص) کے کرتے کو متبرک بتایا گیا ہے۔ اس حدیث کا انکار نہیں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ لباس سچ مچ اپنی ذات میں اس قدر ہی کراماتی تھا یا اس کے پیچھے اللہ کی تقدیر غالب تھی؟؟
اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ نبی (ص) کا کرتا ہی اس قدر متبرک تھا تو چاہئے تھا کہ اس کا ایک ایک ٹکڑا "امام ضامن" کی طرح اُن 70 قاریوں کے بازو پر باندھ دیا جاتا اور وہ بئر معونہ کے واقعے میں شہید نہ ہوتے۔
کیا ہم کو علم نہیں کہ ان 70 قراء کی شہادت اتنا بڑا سانحہ تھا کہ نبی کریم (ص) قریب ایک ماہ تک نماز میں قاتلین پر بددعا بھیجتے رہے۔
مگر یہاں شائد یہی کہہ دیا جائے گا کہ : یہ اللہ کی مشیت تھی !!
آپ امام ضامن اور ایمان ابو طالب جیسے مسائل اٹھا کر بحث کو جو رنگ دینا چاہتے ہیں اور اسے اصل ٹریک سے ہٹانا چاہتے ہیں، وہ بہت افسوسناک ہے۔
اور بذات خود مشیت ایزدی کے حوالے سے سوال اتنا غیر ضروری اور الٹا سوال ہے کہ جسکا سر سمجھ آتا ہے نہ پیر۔
یہ انتہائی بیہودہ استدلال ہے کہ بیر معونہ میں مسلمانوں کے شہید ہونے پر اسکا انکار کر دیا جائے کہ تبرکات نبوی شفع و نفع نہیں دیتے تھے۔
اگر ایسا ہوتا تو ام المومنین حضرت عائشہ اور مدینے کی پوری کمیونٹی کبھی تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل نہ کرتی بلکہ بیر معونہ جیسے واقعات کے بعد ان تبرکات کا مطلقا انکار کر دیتی۔
میں نے مشیت ایزدی کے حوالے سے یہ بات کہیں تھی [جسے پتا نہیں کس رنگ میں پیش کیا گیا]

1۔ مشیت ایزدی ہے جو ایک انسان توحید گزاروں کے درمیان پیدا ہو جاتا ہے اور اسے پیغام حق گٹھی میں پڑا مل جاتا ہے۔ مگر دوسرا انسان ہے کہ جس تک کبھی توحید کا پیغام ہی نہیں پہنچتا بلکہ اُس کے چہار سو شرک کا پرچار ہے۔ مگر اسکے باوجود بھِی نص کے مقابلے میں ہم اللہ سے اسکی مشیت کے متعلق سوال نہیں کر سکتے۔

2۔ اور رسول ص کے لعاب دہن اور پھونک میں وہ اثر تھا کہ جس سے زخم اور درد ایسے غائب ہوتے تھے جیسے کبھی رہے ہی نہ ہوں [اگر غلط بول رہی ہوں تو ہمت کر کے مجھے جھٹلا دیں] ۔ تو پھر کیوں ایسا ہے جب اسی رسول ص کے اپنے پتھر لگتا ہے تو اسکے خون بھی نکلتا ہے اور وہ درد سے بھی تڑپتا رہتا ہے؟
میرا جواب تھا یہ مشیت ایزدی ہے اور اولیاء اللہ کی مرضی اپنی مرضی نہیں ہوتی بلکہ انکی مرضی مشیت ایزدی کے طابع ہوتی ہے۔
چنانچہ اگر ہمت ہے تو میرے جواب کو ٹھکرا دیں۔
مگر اس صورت میں آپ کو جواب دینا ہو گا کہ پھر رسول کو جب پتھر لگا تو آپکے لعاب دہن اور پھونک سے زخم فورا ہی مندمل کیوں نہ ہو گیا؟
یہ کیا کہ اس سوال کا تو جواب دیتے نہیں، اور بس فقط الزامات اور اعتراضات کرنا ہی اپنا دین و ایمان بنائے بیٹھے ہیں۔ تو بتلائیں کہ اگر یہ مشیت ایزدی نہیں تو پھر کیا چیز ہے؟

تبرکات نبی سے نفع و شفا کا اصل عقیدہ
تبرکات نبی کے متعلق اصل عقیدہ یہ ہے کہ :
1۔ یہ تبرکات شعائر اللہ میں شامل ہیں، اور انکا احترام کرنا واجب ہے۔
2۔ اور جب انکی تعظیم کی جاتی ہے تو یہ جواب میں اللہ کے حضور ہمارے لیے دعا کرتے ہیں [جو شفاعت کا دوسرا نام ہے]
3۔ اصل شفا و نفع دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔
کبھی اللہ تعالی انکی ہمارے حق میں کی گئی دعا کو قبول فرماتا ہے، تو کبھی قبول نہیں فرماتا۔ یاد کریں اللہ کے رسول ص کی دوسروں کے لیے کی گئی کچھ دعائیں قبول ہوتی تھیں اور کچھ نہیں۔ مثلا اللہ کے رسول نے اہل طائف کو راہ راست دکھانے کی دعا کی تھی، مگر وہ قبول نہ ہوئی۔
مگر اس بنا پر کیا ہم رسول ص کی دعا کا ہی انکار کر دیں کہ رسول اگر ہمارے حق میں دعا کر کے شفاعت کر رہا ہے تو اسکی کوئی اہمیت ہی نہیں؟
تو جو کوئی اس چیز کو بنیاد بناتا ہوا رسول کی ہمارے میں کی گئی دعا و شفاعت کا انکار کر دے وہ انتہائی گمراہی میں ہے۔
اور اسی روش پر چلتا ہوا کوئی اگر تبرکات نبوی کی شفاعت و نفع و شفا کا انکار کر دے وہ بھی بالکل اسی طرح غلطی و گمراہی پر ہے۔

دعاوں کا قبول کرنے والا صرف اور صرف اللہ ہے۔
اور شفاعت سے اللہ کے حضور دعاووں کے شرف قبولیت بخشے جانے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے شریعت اسلامیہ میں اولیاء اللہ اور تبرکات نبوی اور دیگر شعائر اللہ کی شفاعت بالکل حلال ہے، مگر اسے قیاسی حیلوں کا نشانہ بناتے ہوئے کہ بیر معونہ میں پھر لوگ کیوں شہید ہوئے۔۔۔۔۔ اسکا انکار کر دینا جہالت و گمراہی ہے۔

اور بے شک اللہ تعالی بغیر شفاعت کے بھی دعائیں قبول کرتا ہے، مگر ایسی دعائیں کی قبولیت کے چانسز شفاعت کے مقابلے میں کم ہے۔

اس فرق کو نصوص سے انشاء اللہ اگلی پوسٹ میں واضح کرتی ہوں اور پھر کسی کو ان نصوص کے سامنے بھاگنے یا اپنی عقلی قیاسات استعمال کرنے کی ہمت نہ ہو گی۔ انشاء اللہ۔

قران کی گواہی کہ بنی اسرائیل کو جنگ میں تبرکات انبیاء نے فائدہ پہنچایا
اور بیر معونہ جیسے حیلے لے کر تبرکات نبوی کی برکت و اثرات کا انکار کر دینے والوں کے لیے اس آیت میں بہت بڑی نصیحت ہے [اگر وہ نصیحت حاصل کرنے والے ہیں]:


وَقَالَ لَهُمْ نِبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

(القران 2:248)"اور ان کے پیغمبرعلیہ السّلام نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت کی نشانی یہ ہے یہ تمہارے پاس وہ تابوت لے آئیں گے جس میں پروردگار کی طرف سے سامانِ سکون اور آل موسی ٰعلیہ السّلام اور آل ہارون علیہ السّلام کا چھوڑا ہوا ترکہ بھی ہے. اس تابوت کو ملائکہ اٹھائے ہوئے ہوں گے اور اس میں تمہارے لئے تمہارےُ پروردگار کی نشانی ہے اگر تم صاحبِ ایمان ہو"


یہ وہی سکینہ ہے جو کہ اللہ نے جنگ بدر میں براہ ِراست مومنین کے دلوں میں اتاری تھی۔ مگر یہاں اللہ بنی اسرائیل کے دلوں پر براہ ِراست نازل کرنے کی بجائے انہیں حکم دے رہا ہے کہ وہ اسے اس صندوق کے وسلیے سے حاصل کریں۔
اس تابوتِ سکینہ میں جنابِ موسیٰ (علیہ السلام) اور جنابِ ہارون(علیہ السلام) کے تبرکات تھے جیسے عصا، عمامہ، اور نعلین شریف وغیرہ۔ اور بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ جنگ کے دوران اس تابوتِ سکینہ کو اپنے سامنے رکھیں تاکہ اس کی برکت و وسیلے سے دشمنوں پر فتح پا سکیں (دیکھیں تفسیر ابن کثیر، تفسیر طبری و قرطبی وغیرہ)


مگر ان سب سے زیادہ اچھا رہے گا کہ آپ سعودی عرب کے چھپے قران کی تفسیر دیکھ لیں جہاں وہ خود ان تبرکات انبیاء کے متعلق دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے جنگ میں بنی اسرائیل کی مدد کی اور انکے دلوں کے چین و سکون کا باعث تھی۔
حیرت ہے کہ پھر بھی باذوق برادر اتنے واضح ثبوت خود سعودی قران میں موجود ہونے کے باوجود بیر معونہ کے حوالے سے تبرکات نبوی کی برکت و اثر پر اعتراضات کرتے ہوئے اپنا منہ کھولیں؟ بس اللہ سے دعا ہی ہے کہ وہ انکی روش میں بہتری لائے۔ امین۔
جاری ہے۔ انشاء اللہ۔
 

طالوت

محفلین
یہ انتہائی بیہودہ استدلال ہے کہ بیر معونہ میں مسلمانوں کے شہید ہونے پر اسکا انکار کر دیا جائے کہ تبرکات نبوی شفع و نفع نہیں دیتے تھے۔ اور آپ مجھے سے کیا پوچھتے ہیں۔ جا کر پھر یہ حضرت عائشہ اور مدینہ کی پوری کمیونٹی کو سمجھائیں اگر ان تبرکات میں اثر ہوتا کہ جنہیں تم بیماری و نظر بد وغیرہ کے خلاف شفع و نفع کے لیے استعمال کرتے ہو، تو تمہارے یہ قارئیں بیر معونہ شہید نہ ہوتے۔
مجھے آپ کی باقی بےکار باتوں اور فضول بحث سے کچھ لینا دینا نہیں مگر اگلی بار ام المومنین (رض) کا ذکر کریں تو احترام کے ساتھ۔۔۔۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
مجھے آپ کی باقی بےکار باتوں اور فضول بحث سے کچھ لینا دینا نہیں مگر اگلی بار ام المومنین (رض) کا ذکر کریں تو احترام کے ساتھ۔۔۔۔
وسلام
طالوت، پورا تھریڈ گواہ ہے کہ میں نے کہیں کسی کے لیے بے احترامی نہیں کی ہے۔ اردو زبان میں یہ کلام کا طریقہ ہے اور اسی بنیاد پر اللہ کو مخاطب کرتے ہوئے "تو" کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے [حالانکہ کہہ سکتے ہیں "اللہ آپ بہت بڑے ہیں"،]۔
میں دیکھتی ہوں اسی چیز کو دوسرے الفاظ میں لکھ دوں تاکہ شکوک ختم ہو جائیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سوال تو یہی ہے کہ اس "عطائی علم و کمال و فضل" کا ثبوت ہے کہاں ؟ کس قرآنی آیت میں ؟ کس صحیح حدیث میں؟؟
پتا نہیں کس بند آنکھوں سے دوسروں کے موقف کو پڑھتے ہیں۔
کتنی دفعہ کتنے واضح الفاظ میں اس عطائی علم و کمال کا ذکر ہو چکا ہے کہ یہ اللہ کا خاص فضل ہے جو وہ اپنے خاص منتخب بندوں پر کرتا ہے۔
اس مسئلے پر آپکو قرانی آیت کا حوالہ دیا تھا آصف بن برخیا کے متعلق مگر اسے آپ بالکل گول کر گئے۔
قران میں اللہ فرماتا ہے:
[سورۃ نمل] قَالَ الَّذِي عِندَهُ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ فَلَمَّا رَآهُ مُسْتَقِرًّا عِندَهُ قَالَ هَذَا مِن فَضْلِ رَبِّي لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَن شَكَرَ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌO (پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہےo (النَّمْل ، [SIZE=-1]27[/SIZE] : [SIZE=-1]40)[/SIZE]
یہ کتاب کا وہ علم ہے جو کہ اسم اعظم ہے اور اللہ اپنے خاص اور منتخب بندوں کو عطا کرتا ہے۔
تو سوچئیے کہ کیا آپ بھی پلک جھپکنے سے قبل میں ہزاروں میلوں دور کی چیزوں کو حاضر کر سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر اپنے بے معنی باتوں اور انکے تکرار سے اجتناب کیجئیے کہ انکا کچھ فائدہ نہیں سوائے موضوع کو ادھر اُدھر بھٹکانے کی کوشش کرنے کے۔
ہمارا عقیدہ ہے کہ کتاب کا علم وہ اسم اعظم ہے کہ جس کی بدولت اللہ سے مانگی گئی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ایسا شخص مستجاب الدعوۃ ہوتا ہے اور اسی دعاووں کی بدولت وہ اس قابل ہوتا ہے کہ ہزاروں میلوں کا فاصلہ پلک جھپکنے سے قبل طے کر لے۔
آپ بھی اس کتاب کے علم کے بغیر اللہ سے ایسی دعا مانگ سکتے ہیں کہ ہزاروں میل کا فاصلہ پلک جھپکنے میں طے کر لیں۔ مگر بغیر کتاب کے علم کے بہت مشکل ہے کہ آپکی یہ دعا قبول ہو۔
خدا کے ایسے منتخب بندے، جنہیں اللہ نے یہ کتاب کا علم عطا کیا ہوتا ہے، وہ اللہ کی مشیت کے خلاف کوئی عمل نہیں کرتے، بلکہ جو اللہ کی مرضی ہوتی ہے اسی پر عمل کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ آصف بن برخیا علم الکتاب کی مدد سے ملکہ بلقیس کا تخت پلک جھپکتے میں حاضر کر دیں تو اسی علم کو استعمال کرتے ہوئے قاروں کے خزانوں کو بھی سامنے ڈھیر کر دیں، کیونکہ یہ چیز مشیت الہیہ کے خلاف ہے۔
////////////////////////////////////////////
اللہ تعالیٰ تو واشگاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ وہ بےمثال ہے ، اس کی کوئی مثال نہیں۔
اب ہمارے یہ عزیز دوست ، اللہ تعالٰی کی مخصوص صفات ، بندوں کو عطا کرنا چاہتے ہیں۔
خدارا یہ تو بتائیے کہ :
اللہ تعالٰی نے اپنی یہ مخصوص صفات کب اپنے بندوں کو تفویض کی تھیں اور اللہ تعالٰی کے کاروبار عالم سے مستعفی ہونے ( یعنی : ریٹائرمنٹ) کی اطلاع انہیں کس طرح ملی ؟؟؟

سارے ہی مسلمانوں کا اعتقاد تو یہ ہے کہ :
جو شخص اللہ کی صفات کو بندوں کی صفات سے مشابہ خیال کرنے کا عقیدہ رکھے ، وہ یقیناََ مشرک ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے جو بھی صفات بندوں کو عطا کی ہیں مثلاََ دیکھنا ، سننا ، مدد کرنا ۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔ یہ تمام بندوں والی صفات ۔۔۔ اللہ کے دیکھنے ، سننے اور مدد کرنے وغیرہ والی صفات کے برابر نہیں ہیں ۔
لہذا اسی بات سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ۔۔۔ ایک ہی صفت کا کمال اللہ کے لیے الگ ہے اور بندے کے لیے الگ ۔
بندہ ۔۔۔ اسباب کے ذریعے مدد کر سکتا ہے جبکہ اللہ بغیر اسباب کے ذریعے مدد کرنے پر بھی قاصر ہے ۔
اللہ نے بندے کو جو بھی صفات عطا کی ہیں وہ صفات بہرحال وہ نہیں ہیں جو اللہ کی اپنی صفات ہیں ۔۔۔ اگر اللہ اور بندے کی صفات کو ایک جیسا مان لیا جائے تو یہ شرک ہے ۔

اللہ نے اپنی ہی کمال والی صفات نہ تو کسی نبی کو عطا کی ہے ، نہ ولی کو اور نہ ہی کسی عام بندے کو ۔
اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ : جس طرح اللہ اسباب کے بغیر مدد کرتا ہے ، اسی طرح نبی یا اولیاء اللہ بھی مدد کرتے ہیں ۔۔۔
تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ : نبی یا اولیاء اللہ کی صفات ، خود اللہ کی صفات کے مشابہ ہیں ۔
جبکہ یہ مانا جا چکا ہے کہ اللہ کی اور بندے کی صفات مشابہ نہیں ہو سکتیں۔

اور اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ : اللہ نے اپنی ہی کمال والی صفات بندوں کو بھی ، مثلاََ نبی یا اولیاء اللہ کو عطا کی ہیں ۔
تو پھر اللہ اور بندے کے صفات کی ساری بحث ہی کھڑی نہ ہوگی اور یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کہ اللہ اور بندے کی صفات مشابہ نہیں ہیں۔
اس طرح تو توحید اور شرک کی بحث بھی باقی نہ رہے گی ۔
جب خود اللہ کے کمال والی صفات مخلوق میں بھی پائی جائیں (چاہے ہم اس کو "عطائی" جیسی خوبصورت اصطلاح ہی قرار کیوں نہ دے لیں) تو قرآن کی وہ ساری آیتیں ہی جھوٹ قرار پا جائیں گی جن میں اللہ اپنے آپ کو بےمثال قرار دیتا ہے ۔

نبی کے معجزے یا ولی کی کرامت میں ۔۔۔ نبی یا ولی کو اختیار حاصل نہیں ہوتا ۔
اور جب اختیار حاصل نہ ہو تو معجزے یا کرامت کے سبب افعال کی نسبت بھی
نبی یا ولی کی ذات کی جانب
یا
ان سے وابستہ اشیاء کی جانب
نہیں کی جا سکتی بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی جانب کی جائے گی ۔

پورا اقتباس غیر متعلق ہے اور آپ فریق مخالف کے موقف کو بند آنکھوں سے پڑھ کر اپنے وہی پرانے اعتراضات کیے جا رہے ہیں اور اُن چیزوں کا ہم کو الزام دے رہے ہیں جسکا ہم سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ:

1۔ اللہ تعالی نے انبیاء، اولیاء اللہ، شعائر اللہ بلکہ ہر مسلمان کو شفاعت کا عموما حق دیا ہے [یعنی وہ دوسرے مسلمان بردار کے حق میں اللہ کے حضور دعا کر سکتا ہے]

2۔ مگر انبیاء اور اولیاء اللہ اور عام مسلمانوں کے درجوں میں فرق ہے اور اپنے علم و فضل کی بنا پر ان میں سے بعض بعضوں کی نسبت اللہ کی بارگاہ میں زیادہ مستجاب الدعوۃ ہیں اور ان میں سے بعض کی شفاعت بعضوں کی نسبت زیادہ باعث قبولیت ہے۔

3۔ اس لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء، اولیاء اللہ، تبرکات نبوی یہ سب اپنی شفاعت کے ذریعے [یعنی اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا کر کے] ہماری مدد کر سکتے ہیں۔

4۔ اور یہ کہ اللہ تعالی اپنی ذات و صفات میں یکتا و تنہا ہے اور مطلقا مالک ہے اور کوئی اس جیسا نہیں۔ اور اسی اللہ نے اپنے انبیاء و اولیاء کو یہ صفات مجازی معنوں میں بھی عطا کی ہیں۔
چنانچہ جو ہمیں الزام دے کہ ہم اولیاء اللہ کو انہی معنوں میں ان صفات کا مالک جانتے ہیں جیسا کہ اللہ ہے۔۔۔۔۔ تو یہ باخدا بہت بڑی کذب بیانی ہے اور انتہائی بڑا الزام ہے اور ایسی کذب بیانی اور الزام دینے والا شرم کرے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور اپنے اس گناہ کی معافی مانگے۔

اسی طرح جو: اس بات کا انکار کرے کہ مجازی معنوں میں اللہ نے رسول ص کو بھی فضل سے غنی کر دینے والا بیان کیا ہے، وہ گمراہی و بربادی میں ہے۔

اوراسی طرح جو انکار کرے کہ اللہ نے رسول کو بھی روف و رحیم، قوی، کریم جیسی صفات سے نوازا ہے وہ بھی گمراہی و بربادی میں ہے۔

اور جو انکار کرے کہ اللہ کے علاوہ کوئی مجازی معنوں میں کسی کو ولی ماننا شرک ہے اور رسول ص، جبرئیل امین، صالح مومنین مجازی معنوں میں ہمارے ولی و مددگار نہیں، تو باخدا وہ بھی صریح گمراہی و غلطی پر ہے [اور بعض لوگ علم آ جانے کے بعد بھی اس چیز کو چھپاتے ہیں کہ اس سے انکی اپنی بنائی ہوئی توحید پر چوٹ پڑتی ہے۔ باخدا بہت ہی بدقسمت ہیں یہ لوگ اور حق بات کو چھپانے کا انجام اچھا نہیں]۔
۔۔۔۔جاری ہے۔ انشاء اللہ۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
حجر اسود کو چومنے والی بات بار بار دہرائی جاتی ہے۔ اس کی مجھے کبھی سمجھ نہیں آ سکی۔
کیا اتباع رسول ہمارے لئے کافی نہیں؟ رسول اللہ (ص) نے حجر اسود کو چوما تھا ، اب انہی کی ہم اتباع کرتے ہیں۔ کیا یہ دلیل ناکافی ہے؟؟
اب بھلا اس میں شعائر اللہ کی تعظیم کا پہلو کہاں سے نکل آیا؟

شعائر اللہ اور حرمات کی تعظیم کا حکم
جو چیزیں اللہ کے نام پر موسوم ہیں وہ شعائر اللہ اور حرمات میں شمار ہوتی ہیں اور انکی تعظیم واجب و لازم اور دین کا حصہ ہے۔

دیکھئیے اللہ قران میں شعائر اللہ و حرمات اور انکی تعظیم کے متعلق کیا فرما رہا ہے۔

[size=+2]30.[/size] ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ عِندَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِo 30. یہی (حکم) ہے، اور جو شخص اﷲ (کی بارگاہ) سے عزت یافتہ چیزوں کی تعظیم کرتا ہے تو وہ اس کے رب کے ہاں اس کے لئے بہتر ہے،۔۔۔۔۔۔۔[القران 22:30]

[size=+2]32.[/size] ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِo 32. یہی (حکم) ہے، اور جو شخص اﷲ کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات، احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو اﷲ یا اﷲ والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقوٰی میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقوٰی نصیب ہوگیا ہو)سورۃ الحج 22:32
اللہ کے نام کیے گئے قربانی کے جانور بھی شعائر اللہ ہیں
[size=+2]2.[/size] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحِلُّواْ شَعَآئِرَ اللّهِ وَلاَ الشَّهْرَ الْحَرَامَ وَلاَ الْهَدْيَ وَلاَ الْقَلآئِدَ
2. اے ایمان والو! اﷲ کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو اور نہ حرمت (و ادب) والے مہینے کی (یعنی ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب میں سے کسی ماہ کی) اور نہ حرمِ کعبہ کو بھیجے ہوئے قربانی کے جانوروں کی اور نہ مکّہ لائے جانے والے ان جانوروں کی جن کے گلے میں علامتی پٹے ہوں ۔۔۔
نوٹ:
سعودی عرب کے شائع کردہ قران میں درج ہے کہ اللہ کے نام پر موسوم ہونے والے ان قربانی کے جانوروں کی تعظیم یہ ہے کہ ان پر سواری نہ کی جائے، اور انہیں بہترین کھانے پینے کا سامان مہیا کیا جائے۔

اور یاد کریں اس موقع پر جناب صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو کس طرح اسے شعائر اللہ قرار دے کر اللہ اسکی تعظیم کروا رہا ہے

[size=+2]73.[/size] وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُواْ اللّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَ۔هٍ غَيْرُهُ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ هَ۔ذِهِ نَاقَةُ اللّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللّهِ وَلاَ تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌo 73. اور (قومِ) ثمود کی طرف ان کے (قومی) بھائی صالح (علیہ السلام) کو (بھیجا)، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اﷲ کی عبادت کیا کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، بیشک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل آگئی ہے۔ یہ اﷲ کی اونٹنی تمہارے لئے نشانی ہے، سو تم اسے (آزاد) چھوڑے رکھنا کہ اﷲ کی زمین میں چَرتی رہے اور اسے برائی (کے ارادے) سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ تمہیں دردناک عذاب آپکڑے گاالقران 7:73
یہ سب شعائر اللہ کی تعظیم ہے، انکی عبادت نہیں۔
وادی طوی کی تعظیم کہ اس میں داخل ہونے پر جوتے اتار دو
[size=+2]12.[/size] إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًىo 12. بیشک میں ہی تمہارا رب ہوں سو تم اپنے جوتے اتار دو، بیشک تم طوٰی کی مقدس وادی میں ہو
یہ بھی وادی طوی کی تعظیم ہے اسکی عبادت نہیں۔
طواف خالی خانہ کعبہ کا ہی نہیں، بلکہ شعائر اللہ صفا و مروہ کا بھی ہے
[size=+2]158.[/size] إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَآئِرِ اللّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌo 158. بیشک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے [یعنی ان کے درمیان چکر لگائے]، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقیناً اﷲ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبردار ہے

اب بھی آپ کو حجر اسود کی بطور شعائر اللہ تعظیم پر بدعت کے فتوے دینے کے قریب پہنچ جاتے ہیں تو اللہ آپکا نگہبان۔ اور بے شک میرا کام صرف اور صرف پیغام و حق بات کا دلائل کے ساتھ پہنچا دینا ہے۔
//////////////////////////////////////////////

حجر اسود پر اعتراض کہ وہ اس دنیا میں نفع نہیں پہنچا سکتا
از باذوق:
اس الفاظ سے تو واضح ہو رہا ہے کہ قیامت کے روز حجر اسود شہادت دے گا۔ اب اس حدیث سے یہ مفہوم کیسے نکالا جا سکتا ہے کہ یہ پتھر دنیا میں بھی ہمیں فائدہ یا نقصان پہنچا سکتا ہے؟؟
سینکڑوں احادیث نبوی نظر سے گذر گئیں مگر جنہوں نے ہدایت حاصل کرنے کی بجائے اپنے دلوں پر پردے ڈال لیے ہوں ان کے لیے کوئی نص و دلیل کارگر نہیں، اور انکا معاملے اب صرف اور صرف خدا کے ہاتھوں میں ہے۔
تو جن کے دل کے دروازے ہدایت کے لیے ابھی تک کھلے وہ نوٹ کریں:

1۔ جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔ چاہے وہ آپ صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کا کرتہ ہو یا وضو کا پانی، یا آپکا پیالہ یا کچھ اور۔
اور ان مس کی ہوئی چیزوں سے مدینہ کی پوری کمیونٹی بیماری و نظر بد وغیرہ کے خلاف شفا و نفع حاصل کرتی تھی۔
جب ان تبرکات نبوی میں یہ خاصیت تھی کہ وہ دنیا میں بیماری و نظر بد کے خلاف نفع و شفا پہنچا رہے ہیں تو اندازہ کیجئیے کہ حجر اسود کی یہ کتنی بڑی توہین کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ اس کی تعظیم کا کچھ فائدہ نہیں اور یہ خالی خولی بے فائدہ عقیدت ہے۔
یا ایھا الناس، حجر اسود کو رسول ص نے ایک بار نہیں، کئی کئی بار چوما ہے۔ اور ایک نبی نے نہیں، بلکہ کئی کئی انبیاء نے چوما ہے۔ اب پتا نہیں کہ حجر اسود کو انہیں چومنے سے برکت ملی یا ان انبیاء کو حجر اسود سے برکت ملی، مگر یہ حجر اسود کی بہت بڑی توہین ہے جب اسے اسکے مقام سے نیچے لا کر اسے صرف خالی خولی بے فائدہ عقیدت کا نام دے دیں۔
اور میں تو بس اللہ ہی کی پناہ طلب کرتی ہوں۔
//////////////////////////////////////////
شریعت اسلامیہ کو اپنی توحید کے نام پر بدلنے/چھپانے کا اعتراف
از باذوق:
اگر یہ عقیدہ پھیلا دیا جائے کہ فلاں فلاں تبرکات ، دنیا میں یہ یہ فوائد پہنچا سکتے ہیں ۔۔۔۔ تو کیا نتیجہ نکلے گا؟ کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے؟

جب صحابہ کرام میں یہ عقیدہ رسول ص کے حکم و اذن سے پھیلایا گیا کہ تبرکات نبوی بلاشبہ بیماری و نظر بد وغیرہ کے خلاف شفا و نفع دیتے ہیں تو اسکا کیا نتیجہ نکلا؟
آج جو آپ اپنی توحید کے نام پر تبرکات نبوی کے فضائل و شفا و نفع کو پھیلانے کی بجائے چھپانے کے چکر میں ہیں اور موقع ملتے ہیں اسکو خالی خولی عقیدت کا نام دے کر اسکا انکار کرنے کے چکر میں ہیں۔۔۔۔۔ تو یہ بتائیں آپ کو اس شریعت سازی کا حق کس نے دیا ہے؟
یہ شاہ سے زیادہ شاہ پرست بننا وہ فتنہ ہے کہ جس سے امت کو عظیم نقصان پہنچنے والا ہے اور پچھلے کئ سو سالوں کے خلف مسلمانوں کو فرعون و نمرود سے بڑا مشرک ثابت کیا جا رہا ہے۔

اور یہی فتنہ باعث ہے اس چیز کا آج لاکھوں کڑوڑوں کی تعداد میں کتابچے چھاپ کر مفت میں بانٹے جا رہے ہیں جہاں تبرکات نبوی سے نفع حاصل کرنے کو شرک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اور اس سلسلے میں رسول ص کی ان دسیوں احادیث کو جان بوجھ کر چھپایا جاتا ہے اور صرف اور صرف حضرت عمر کا حجر اسود والا ادھورا واقعہ پیش کیا جاتا ہے اور یوں چالاکی یوں کی جاتی ہے کہ آدھا واقعہ پیش کر کے حجر اسود میں نفع نقصان شفاعت ہر چیز کا انکار کر دیا جاتا ہے اور اسے صرف اور صرف خالی خولی عقیدت دکھا دیا جاتا ہے۔
اور خالی ایک فاروقی بھائی ہی نہیں، ایسے دسیوں سادہ لوح مسلمان مل چکے ہیں جو سعودی پروپیگنڈے سے متاثر ہو کر تبرکات نبی کا نام آتے ہی اس حجر اسود والی آدھی روایت کو لے کر آ جاتے ہیں کہ جسے سعودی علماء پہلے ہی اپنے مرضی کی وہ غلط معنی پہنا چکے ہوتے ہیں جو اصلی نص کے بالکل مخالف اور ضد ہیں۔ اس لیے میں اس میں قصور ان سادہ لوح مسلمانوں کا نہیں بلکہ اُنکا سمجھتی ہوں جنہوں نے علم ہوتے ہوئے بھی حق کو چھپایا اور اسے جان بوجھ کر غلط رنگ میں پیش کر کے اپنے عقائد کا پرچار کیا ہے۔

لوگوں میں جہالت تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے نہ کہ شعائر اللہ کی تعظیم اور ان سے نفع حاصل کرنے کی وجہ سے۔ اور اگر انہیں اس جہالت سے نکالنا ہے تو انہیں صحیح بات کی تعلیم دینا ہے نا کہ خود شریعت ساز بن کر شعائر اللہ کی تعظیم اور شفا و نفا کو خالی خولی بے فائدہ عقیدت کا نام دے لینا۔

از باذوق:
اس معاملے میں تو واللہ سعودی علماء ہی مجھے بہتر نظر آتے ہیں کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے شرک کے اُس چور دروازے کو انہوں نے سختی سے بند کر دیا ہے جسے کچھ لوگوں نے "تبرکات کی تعظیم" کا سنہرا عنوان دے رکھا ہے۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔
یہ ہے خدا کے حلال کو خود شریعت ساز بن کر حرام کر دینے کا فتنہ۔
"شعائر اللہ اور تبرکات نبوی کی تعظیم" کو یوں گالی بنا کر پیش کرنا انکی سب سے بڑی توہین ہے۔
ہر چیز کو اُس کے مقام پر رکھنا عدل ہے۔ اور یہی عدل اللہ کی وہ صفت ہے جو مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ بجائے غلط چیزوں کی اصلاح کرنے کے، یہ لوگ شعائر اللہ اور تبرکات نبوی کی توہین میں مبتلا ہیں اور منکر ہیں انکے نفع و شفا پہنچانے کے۔

سعودی حکومت کا مسلمانوں کے انتہائی احتجاج کے باوجود متبرک جگہوں کو مسمار کرنا
اور اس توہین تبرکات نبوی کے فتنے کو اور جاننا ہے تو دیکھئیے سعودی حکومت کے افعال کہ کس طرح متبرک جگہوں کو شرک کے نام پر ڈھایا جا رہا ہے اور کچھ جگہوں پر تو وہاں ٹوائلٹ تک بنائے گئے ہیں۔

اللہ اس امت کے گناہوں کو معاف کرے۔
شمع رسالت کے پروانوں نے اس پر بھرپور احتجاج کیا، مگر پروپیگنڈہ و پیسہ کے بل بوتے پر سعودی حکومت نے ہر احتجاج کو ٹھکراتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کی۔

اسی مقصد کے لیے سعودی علماء نے فتوی جاری کیا کہ جہاں رسول ص نے قیام کیا ہے وہ چیزیں متبرک نہیں، جبکہ اس معاملے میں احادیث نبوی اتنی صاف و واضح ہیں کہ خود ہی پہلے اقرار کر چکے ہیں کہ جو چیز رسول ص سے مس ہو جائے وہ متبرک ہو جاتی ہے مثلا پانی، کرتہ پیالہ وغیرہ۔

اس سلسلے میں اوپر میں نصوص و دلائل کا پہلا حصہ نقل کر چکی ہوں۔ اور اب باذوق برادر سے گذارش ہے اسکا جواب دیں تاکہ میں بات کو مکمل کرتے ہوئے اپنے دلائل کو مکمل کروں اور مجھے پوری لسٹ پیش کرنی ہے کہ کون کون سی متبرک جگہوں کو سعودی حکومت نے مسمار کروایا ہے ۔
----- جاری ہے ۔ انشاء اللہ۔
 

باذوق

محفلین
اس سلسلے میں اوپر میں نصوص و دلائل کا پہلا حصہ نقل کر چکی ہوں۔ اور اب باذوق برادر سے گذارش ہے اسکا جواب دیں تاکہ میں بات کو مکمل کرتے ہوئے اپنے دلائل کو مکمل کروں اور مجھے پوری لسٹ پیش کرنی ہے کہ کون کون سی متبرک جگہوں کو سعودی حکومت نے مسمار کروایا ہے ۔
----- جاری ہے ۔ انشاء اللہ۔
آپ نے مجھے جواب دینے کو بھی کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ : جاری ہے
جب آپ کی بات مکمل ہو جائے تو بتا دیجئے گا۔ میں تب ہی جواب دینا شروع کروں گا، ان شاءاللہ۔

ویسے میرا ناقص مشورہ یہ ہے کہ آپ جو لسٹ پیش کرنا چاہتی ہیں ، علیحدہ تھریڈ کی شکل میں پیش فرمائیں۔ تاکہ محفل پر بھی یہ بحیثیت ایک "ریکارڈ" کے محفوظ رہے۔
( یہ الگ بات ہے کہ یہ لسٹ عرصہ دراز سے مختلف فورمز / ویب سائیٹس پر سرکلیشن میں‌ ہے)
 

شمشاد

لائبریرین
بحث موضوع سے خاصی ہٹ گئی ہے۔ اس لیے اس دھاگے کو مقفل کر رہا ہوں۔
اگر موضوع پر کوئی مراسلہ بھیجنا چاہتے ہیں تو مجھے ذ پ کر دیں۔ میں دھاگہ غیر مقفل کر دوں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ دھاگہ ایک رکن کی درخواست پر غیر مقفل کیا گیا ہے۔

موضوع پر رہتے ہوئے مراسلے ارسال کریں۔ شکریہ۔
 

باذوق

محفلین
1/3

باذوق بھائی،
جتنی باتیں آپ نے یہاں میرے متعلق کی ہیں، اور جتنے الزامات لگائے ہیں،
اور پھر جب میں جواب دیتی ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ بحث ختم کر دوں کیونکہ ایسے بحوث سے اردو ویب کے پراجیکٹ پر اثر پڑتا ہے۔
سسٹر مہوش علی !
میں نے الزامات نہیں لگائے تھے بلکہ اردو ویب پراجکٹس کی بھلائی کی خاطر مخلصانہ مشورہ دیا تھا۔ اگر آپ اسے "الزامات" گردانتی ہیں تو پھر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔

جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔
یہ خودساختہ اصول ہے۔
قارئین سے گذارش ہے کہ اس تھریڈ میں ہر وہ پوسٹ چیک کر لیں جہاں لفظ "مس" آیا ہو۔ پتا چل جائے گا کہ کوئی بھی ایک ایسی صحیح حدیث پیش نہیں کی گئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے ایسا اصول بیان کیا ہو۔
صرف ایک حدیث میں کچھ ملتے جلتے ایسے الفاظ آئے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :
عبداللہ ابن ابی کا بیٹا پکا مسلمان تھا۔
اس نے رسول ص سے خصوصا ان الفاظ میں درخواست کی تھی کہ "یا رسول اللہ، میرے والد کو اپنا وہ کرتہ عطا فرمائیے جو کہ خصوصی طور پر آپکی جلد سے مس رہا ہو۔"
مجھے نہیں معلوم کہ مہوش علی نے حدیث کی آخری سطر کیوں حذف کر ڈالی؟
بہرحال مکمل حدیث ۔۔۔ تینوں زبانوں میں ملاحظہ فرمائیں :
انگریزی : آنلائن ربط
Narrated Jabir bin 'Abdullah:
Allah's Apostle came to Abdullah bin Ubai (a hypocrite) after his death and he has been laid in his pit (grave). He ordered (that he be taken out of the grave) and he was taken out. Then he placed him on his knees and threw some of his saliva on him and clothed him in his (the Prophet's) own shirt. Allah knows better (why he did so). 'Abdullah bin Ubai had given his shirt to Al-Abbas to wear. Abu Harun said, "Allah's Apostle at that time had two shirts and the son of 'Abdullah bin Ubai said to him, 'O Allah's Apostle! Clothe my father in your shirt which has been in contact with your skin.' ' Sufyan added, "Thus people think that the Prophet clothed 'Abdullah bin Tubal in his shirt in lieu of what he (Abdullah) had done (for Al Abbas, the Prophet's uncle.)"
عربی : آنلائن ربط
[ARABIC]حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله ۔ رضى الله عنهما ۔ قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن أبى بعد ما أدخل حفرته فأمر به فأخرج، فوضعه على ركبتيه، ونفث عليه من ريقه، وألبسه قميصه، فالله أعلم، وكان كسا عباسا قميصا‏.‏ قال سفيان وقال أبو هارون وكان على رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصان، فقال له ابن عبد الله يا رسول الله، ألبس أبي قميصك الذي يلي جلدك‏.‏ قال سفيان فيرون أن النبي صلى الله عليه وسلم ألبس عبد الله قميصه مكافأة لما صنع‏.‏[/ARABIC]
اردو : آنلائن ربط
اردو ترجمہ : مولانا محمد داؤد راز
حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) سے سنا ، انہوں نے کہا کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی (منافق) کو اس کی قبر میں ڈالا جا چکا تھا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتا اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
(غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) کو ایک قمیص پہنائی تھی (غزوۂ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے)۔ سفیان نے بیان کیا کہ ابو ہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے (جو مومن مخلص تھے رضی اللہ عنہ) نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسد اطہر کے قریب رہتی ہے۔
سفیان نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔
صحيح بخاري ، كتاب الجنائز ، باب : میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جا سکتا ہے؟ ، حدیث : 1365

تینوں تراجم میں سرخ الفاظ پر غور فرمائیں۔
صحیح بخاری کا ایک سچا اور عادل راوی اپنا علم اور اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے کہ :
لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔

بتائیے کہ صحیح بخاری کے صادق و عادل گواہ کی شہادت کو قبول کیا جائے یا 1400 سال بعد کے کسی قاری کے قیاس کو؟
وہ قیاس جو یہ فیصلہ صادر کر رہا ہے کہ :
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔

ایک خاص ملک کو ، اس ملک کے علماء کو بڑے طعنے دئے گئے کہ ۔۔۔۔۔ احادیث کو چھپایا جا رہا ہے ۔۔۔۔
کون چھپا رہا ہے احادیث کو؟؟ کون احادیث کے بعض الفاظ پر انگلی رکھ کر خودساختہ مفہوم پیش کر رہا ہے؟؟ کیا یہ بھی بتانے کی ضرورت رہ جاتی ہے؟؟

حدیث غدیر خم کا تو خوب زور و شور سے پروپگنڈا کیا جاتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اپنے ان محترم دوستوں کے قلم یا منہ سے صحیح بخاری میں درج وہ قولِ علی (رضی اللہ عنہ) بھی سنا جس میں علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر ابوبکر(رضی اللہ عنہ) اور ان کے بعد عمر(رضی اللہ عنہ) ہیں۔
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، حدیث : 3715

مگر ہم کبھی نہیں کہتے کہ فلاں فلاں طبقہ احادیث کو چھپا رہا ہے کیونکہ فقۂ اسلامی کا مشہور اصول ہے کہ :
عدم ذکر ، نفیِ ذکر نہیں۔
لہذا اگر کسی کی نظر سے سعودی علماء کی کتب میں کوئی حدیث نہ گزرے تو اس کا یہ مطلب نہیں لیا جانا چاہئے کہ : سعودی علماء فلاں فلاں حدیث کا انکار کرتے ہیں یا اس کو چھپاتے ہیں !
علاوہ ازیں ۔۔۔۔
یہ تو سب کو پتا ہے کہ دنیا بھر میں مغربی میڈیا کا تسلط ہے ، لیکن کیا یہ دعویٰ بھی کوئی کر سکتا ہے کہ دنیا بھر کے اسلامی میڈیا پر سعودی عرب کا قبضہ ہے؟
کیا نیٹ پر اسلام کے ہر مکتب فکر اور فرقہ/ مسلک کی کتب موجود نہیں ہیں؟ کیا ہر کتابِ حدیث کی من پسند شرح آپ کو نہیں ملے گی؟
اتنا سب ہوتے ہوئے بھی کتمانِ علم کا الزام شور و غل کے ساتھ برپا کیا جائے تو یہ کس ذہنیت کی نشانی ثابت ہوگی؟؟

معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ ۔۔۔۔ ایک اسلامی ملک کے خلاف لگائے جانے والے خودساختہ الزامات کی حقیقت سوائے الزام لگانے والے کے اپنے ذاتی بغض، کینہ اور تعصب کے اور کچھ نہیں !!

خیر چلئے ۔۔۔۔ موضوع پر آتے ہوئے مزید آگے بڑھتے ہیں ۔۔۔
اس حدیث کے درج ذیل الفاظ ۔۔۔
سفیان نے کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتا اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔
۔۔۔ کی شرح میں ، بخاری کی مشہور شرح "فتح الباری" میں حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :

یہ سند سفیان کے نزدیک متصل ہے اور اسے امام بخاری نے کتاب الجہاد میں باب "قیدیوں کو کپڑا پہنانے کے بارے میں" عبداللہ بن محمد بن سفیان سے مذکورہ سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

حافظ عسقلانی کی تحقیق پر آئیے خود چیک کر لیتے ہیں وہ حدیث جو کہ باب "قیدیوں کو کپڑا پہنانے کے بارے میں" میں موجود ہے۔

حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن عيينة، عن عمرو، سمع جابر بن عبد الله ۔ رضى الله عنهما ۔ قال لما كان يوم بدر اتي باسارى، واتي بالعباس ولم يكن عليه ثوب، فنظر النبي صلى الله عليه وسلم له قميصا فوجدوا قميص عبد الله بن ابى يقدر عليه، فكساه النبي صلى الله عليه وسلم اياه، فلذلك نزع النبي صلى الله عليه وسلم قميصه الذي البسه‏.‏ قال ابن عيينة كانت له عند النبي صلى الله عليه وسلم يد فاحب ان يكافئه‏
صحيح بخاري , كتاب الجهاد والسير , باب : الكسوة للاسارى

اردو ترجمہ : مولانا داؤد راز
حضرت عمرو بن دینار رضی اللہ عنہ نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ بدر کی لڑائی سے قیدی (مشرکین مکہ) لائے گئے۔ جن میں حضرت عباس (رضی اللہ عنہ) بھی تھے (جو کہ اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے)۔ ان کے بدن پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے قمیص تلاش کروائی۔ (وہ لمبے قد کے تھے) اس لیے عبداللہ بن ابی (منافق) کی قمیص ہی ان کے بدن پر آ سکی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہ قمیص پہنا دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (عبداللہ بن ابی کی موت کے بعد) اپنی قمیص اتار کر اسے پہنائی تھی۔
ابن عیینہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو اس کا احسان تھا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ اسے ادا کر دیں۔
صحيح بخاري ، كتاب الجهاد والسير ، باب : الكسوة للاسارى ، حدیث : 3045

غیر جانبدار اور انصاف پسند قارئین ذرا تجزیہ فرمائیں۔
ان دونوں احادیث سے کیا وہ اصول اخذ کیا جا سکتا ہے جس کے تحت محترمہ مہوش علی لکھتی ہیں کہ :
[نوٹ: اس روایت کی رو سے اس وقت تک کفار و منافقین کے متعلق آیات نازل نہ ہوئی تھِیں اور رسول ص کا خیال تھا کہ انکے تبرکات سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے]
ذرا انصاف سے بتائیں کہ وہ "خیال" کہاں ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ سے زبردستی منسوب کیا جا رہا ہے؟؟
مانا کہ درج بالا دونوں احادیث میں ایسا بھی لکھا نہیں ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدنِ مبارک سے مس کیا ہوا لباس یا لعابِ دہن متبرک نہیں ہے !
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔
ہم نہایت ادب سے دین کا درد رکھنے والوں سے پوچھنا چاہیں گے کہ :
کس کا قول قبول کیا جائے؟؟
حدیث کا ادھورا متن پیش کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے خودساختہ خیال باندھنے والے کا
یا
صحیح بخاری کے متفقہ مصدقہ راوی حضرت سفيان ابن عيينة رحمة اللہ علیہ کا ۔۔۔۔ جو فرماتے ہیں کہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر منافق اعظم عبداللہ بن ابی کا جو احسان تھا ، اس کا بدلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص پہنا کر اتار دیا !!

---
یہ تو ہوئے نقلی دلائل ۔۔۔
آئیے کہ ذرا عقل سے بھی اس اصول کو پرکھ لیتے ہیں :
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام مکہ اور مدینہ میں رہا۔ لامحالہ ایسے بےشمار اوقات آئے ہوں گے جب زمین کے بےشمار مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کو زمین کی مٹی نے مس کیا ہوگا۔
مکہ اور مدینہ کے ایسے تمام مقامات کیا واقعی "متبرک" قرار پا گئے ہیں کہ مسلمانوں کو ان مقامات کی "تعظیم" کا اللہ نے یا رسول اللہ نے یا صحابہ نے مکلف ٹھہرایا ہو؟؟
کیا یہ غیر عقلی اور غیر فطری بات نہیں لگتی۔

------
اب بات رہ جاتی ہے ان دو سوالات کی :
1۔ نبی کریم کی طرف سے اپنا لعاب دہن ایک منافق کے منہ میں ڈالنے کی کیا حکمت تھی؟
2۔ عبداللہ بن ابی کے مسلمان بیٹے نے خصوصی طور پر ایسا کیوں پوچھا کہ : اپنا وہ کرتہ عطا فرمائیے جو کہ خصوصی طور پر آپکی جلد سے مس رہا ہو۔

یہاں پر اصل سوال یہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن یا آپ کا کرتا متبرک تھا یا نہیں؟
بلکہ یہ ہے کہ : "اِس حدیث" کے کس فقرے سے کس کو ایسا حتمی فیصلہ سنانے کا حق مل سکتا ہے کہ :
نبی کے تبرکات سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
؟؟؟؟؟؟؟
جبکہ نبی کریم کے اس فعل پر تو حدیث کے اصل راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
[ARABIC]فالله اعلم[/ARABIC] (اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے)۔

برکت پہنچانے والی ذات تو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے ، ذیل کی حدیث دلیل کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ معجزات کو ہم تو باعث برکت سمجھتے تھے اور تم لوگ ان سے ڈرتے ہو۔
ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے اور پانی تقریباً ختم ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ بھی پانی بچ گیا ہو اسے تلاش کرو۔ چنانچہ لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے۔ آپ نے اپنا ہاتھ برتن میں ڈال دیا اور فرمایا :
[ARABIC]حى على الطهور المبارك، والبركة من الله[/ARABIC]
برکت والا پانی لو اور برکت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔
میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان میں سے پانی فوارے کی طرح پھوٹ رہا تھا۔
صحيح بخاري ، كتاب المناقب ، باب : علامات النبوة في الاسلام ، حدیث : 3620

برکت درحقیقت خیر کا نام ہے اور فرمانِ نبوی کے مطابق سب خیر اللہ کی طرف سے ہے۔
اور اللہ کب کس کو برکت سے نوازے ، وہ خود نبی کو وحی سے بتائے گا یا پھر ان لوگوں کی بات کا اعتبار ہوگا جو نبی کے تبرکات سے برکت کے حصول کا اعتراف کریں (جیسا کہ کچھ صحیح احادیث سے ایسے اعترافات سامنے آتے ہیں)۔
لیکن محض اپنے قیاس سے حتمی طور پر یہ کہہ دینا کہ :
فلاں فلاں کافر / منافق کو نبی کے تبرکات سے برکت مل گئی یا فائدہ پہنچ گیا ۔۔۔۔
معذرت کہ ایسے بلا دلیل قیاسات نہ تو ہم کو قابل قبول ہیں اور نہ تبرکات پر ایسا انحصار کر بیٹھنے کی تعلیم ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دی ہے۔

بلکہ نبی کریم ص نے جو اصل تعلیم ہم کو دی ہے ، اس کی طرف بھائی خاور بلال نے بجا طور پر یہ کہہ کر اشارہ کیا تھا کہ :
نجات کا دارو مدار تو اعمال ہی رہیں گے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ تعلیم دی ہو کہ تم لوگ میرے استعمال کی چیزوں، میرے کپڑوں یا میرے بالوں کو باعثِ شفاعت سمجھنا۔

ہمارا آپ سے پُرخلوص مطالبہ ہے کہ کوئی ایک ایسا سچا و مستند فرمانِ نبی لے آئیں جس میں نبی ص نے ایسا "حکم" دیا ہو جس کی طرف اوپر کے اقتباس میں بھائی خاور نے اشارہ کیا ہے۔

بےشک ان تمام صحیح احادیث پر ہمارا ایمان ہے جن سے وضاحت ہوتی ہے کہ صحابہ نے نبی کے تبرکات سے فوائد حاصل کیے۔
لیکن کیا صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تبرکات کو بذات خود شفا سمجھتے تھے یا ان کو "شفا کا سبب" سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ : برکت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے ؟؟

علاوہ ازیں ۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال صالحہ کی طرف کس طرح حکیمانہ رہنمائی کی تھی ۔۔۔۔
حضرت ابی قراد رضي الله عنه سے روایت کی گئی صحیح حدیث اس ضمن میں ملاحظہ فرمائیں :

[ARABIC]عن عبد الرحمن بن أبي قراد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم توضأ يوما فجعل أصحابه يتمسحون بوضوئه فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم : ( ما يحملكم على هذا ؟ ) قالوا : حب الله ورسوله : فقال النبي صلى الله عليه وسلم : من سره أن يحب الله ورسوله أو يحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث وليؤد أمانته إذا أؤتمن وليحسن جوار من جاوره[/ARABIC]
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی قراد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو کیا تو آپ کے اصحاب آپ کے وضو کا پانی لے کر اپنے بدن پر ملنے لگے تو آپ نے فرمایا :
تمہیں ایسا کرنے پر کون سی چیز آمادہ کر رہی ہے؟
ان لوگوں نے کہا : اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص کو یہ پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرے تو ۔۔۔
جب وہ بات کرے تو سچی بات کرے
اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرے
اور جو اس کا پڑوسی ہو ، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے۔


(علامہ البانی نے اس حدیث کو ثابت کہا ہے اور اس کے متعدد طرق و شواہد کا ذکر کرتے ہوئے اسے اپنے مجموعے "الاحادیث الصحیحہ" میں حدیث نمبر:2998 کے تحت درج کیا ہے)

۔۔۔
عصر حاضر کے محدث کبیر علامہ البانی اپنی کتاب "التوسل انواعه واحكامه" میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے حدیبیہ وغیرہ میں صحابہ کرام کو اپنے آثار سے تبرک حاصل کرنے میں رضامندی ظاہر کی تھی کیونکہ اس وقت اس کی سخت ضرورت تھی اور وہ ضرورت یہ تھی کہ آپ کفار قریش کو ڈرائیں اور اپنے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مسلمانوں کی عقیدت و محبت ، تعظیم و تکریم اور خدمت کے جذبہ کو ظاہر کریں۔
لیکن اس کے بعد آپ نے نہایت حکیمانہ طور پر مسلمانوں کو اس تبرک سے پھیر دیا تھا اور ان کو اعمال صالحہ کی طرف رہنمائی کی تھی اور یہ بتایا تھا کہ اعمال صالحہ اللہ کے نزدیک اس تبرک سے بہتر ہے۔

۔۔۔ جاری ہے (مزید 2 پوسٹس باقی ہیں)
 

باذوق

محفلین
2/3

سعودی علماء نے تبرکات نبوی کا اقرار تو کیا ہے [کہ رسول ص کے بال، آپ ص سے مس شدہ کرتہ اور دیگر اشیاء یہ متبرک ہیں، مگر ایک جگہ پر آ کر وہ اسکا انکار کر رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہ یہ چیز نہیں مانتے کہ جس جگہ رسول ص قیام کر لیں وہ بھی متبرک ہے۔
قرآن و حدیث کی تشریحات کے مطابق کون سی جگہیں متبرک ہیں اور ان کی تعظیم کس طرح کی جانی چاہئے ۔۔۔۔ ان شاءاللہ کسی دوسرے موقع پر اس کے دلائل پیش کروں گا۔
اور ان آیاتِ ربانی کا بھی جائزہ لیا جائے گا جن کے ذریعے تبرکات کی تعظیم کا اصول بتایا گیا ہے۔

ویسے حجر الاسود کے متعلق ہمارے استفسار کا جواب ابھی تک ادھار ہے۔
میں نے لکھا تھا :
کیا اتباع رسول ہمارے لئے کافی نہیں؟ رسول اللہ (ص) نے حجر اسود کو چوما تھا ، اب انہی کی ہم اتباع کرتے ہیں۔ کیا یہ دلیل ناکافی ہے؟؟
میری بات چھوڑئے کہ میں تو ایک غیرمعروف فرد ہوں ۔۔۔
صحیح بخاری کی حجر الاسود والی اس حدیث :
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں جانتا ہوں ، تُو ایک پتھر ہے ، نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے (کبھی) بوسہ نہ دیتا ۔
صحیح بخاری ، كتاب الحج ، باب : ما ذكر في الحجر الاسود ، حدیث : 1622

کی شرح میں صاحبِ "فتح الباری" ، حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں :
[ARABIC]وفي قول عمر هذا التسليم للشارع في أمور الدين وحسن الاتباع فيما لم يكشف عن معانيها , وهو قاعدة عظيمة في اتباع النبي صلى الله عليه وسلم فيما يفعله ولو لم يعلم الحكمة فيه[/ARABIC]
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں دین کے معاملے میں شارع کے لیے سر تسلیم خم کر دینا ہے اور جس کا مطلب واضح نہ کیا گیا ہو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حسن اتباع کی جائے اگرچہ اس کی حکمت معلوم نہ ہو ، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنے کا ایک عظیم قاعدہ ہے !!

صحیح بخاری کے اس عظیم شارح کے مقابلے میں ذرا ملاحظہ فرمائیں محترمہ مہوش علی کی خامہ فرسائی ۔۔۔۔ فرماتی ہیں :
یا ایھا الناس، حجر اسود کو رسول ص نے ایک بار نہیں، کئی کئی بار چوما ہے۔ اور ایک نبی نے نہیں، بلکہ کئی کئی انبیاء نے چوما ہے۔ اب پتا نہیں کہ حجر اسود کو انہیں چومنے سے برکت ملی یا ان انبیاء کو حجر اسود سے برکت ملی، مگر یہ حجر اسود کی بہت بڑی توہین ہے جب اسے اسکے مقام سے نیچے لا کر اسے صرف خالی خولی بے فائدہ عقیدت کا نام دے دیں۔

اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔ جس کی تاکید وہ خلیفۂ راشد کر رہا ہے جس کے بارے میں فرمانِ نبوی ہے:
[ARABIC]لقد كان فيمن كان قبلكم من بني إسرائيل رجال يكلمون من غير أن يكونوا أنبياء، فإن يكن من أمتي منهم أحد فعمر[/ARABIC]
تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر (رضی اللہ عنہ) ہیں ۔
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : مناقب عمر بن الخطاب
اس "تاکید" پر
خالی خولی بے فائدہ عقیدت
جیسا استہزائیہ جملہ چست کرنا ۔۔۔۔۔۔
ہمیں اگر "حبِّ علی بغض معاویہ" والے محاورہ کی یاد دلا جائے تو قارئین کو چیں بہ چیں نہ ہونا چاہئے !!

مزید غور فرمائیے کہ کیسا تضاد ہے خود محترمہ کے جملوں میں ۔۔۔۔۔

جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی۔۔۔۔۔ یا ایھا الناس، حجر اسود کو رسول ص نے ایک بار نہیں، کئی کئی بار چوما ہے۔

ہمارا سوال ہے کہ :
کیا حجر الاسود ، نبی کریم کے چومنے کے بعد ہی متبرک بنا ہے؟؟
اگر ہاں تو پھر یہ جو آپ نے لکھا ہے :
اور ایک نبی نے نہیں، بلکہ کئی کئی انبیاء نے چوما ہے۔
تو سابقہ انبیاء کس سبب چومتے تھے ؟؟

ثابت ہوا کہ یہ اصول کہ :
جو چیز بھی رسول ص سے ایک دفعہ مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی
خود ساختہ اصول ہے جس کی کوئی دلیل قرآن و سنت اور سلف الصالحین کے فہم سے ہم کو نہیں ملتی اور اس بات کو ہم اوپر بھی ثابت کر چکے ہیں !!

اور یہ تو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان :
خدا کی قسم، اللہ اس (حجر اسود) کو روزِ قیامت آنکھیں عطا کرے گا جو انہیں دیکھیں گی، اور زبان عطا کرے گا جو اُن کے حق میں شہادت دیں گی جنھوں نے اُس کے ساتھ صحیح سلوک کیا ہے۔ (ترمذی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا مخالف نہیں۔
کیونکہ اس قولِ علی (رض) میں حجر اسود کے بروزِ قیامت "گواہی" دینے کا ذکر ہے۔ ظاہر ہے جو مسلمان جیسا عمل کرے گا ، ویسی ہی گواہی ملے گی۔ اگر نیک عمل ہوگا تو حجر اسود کی گواہی پر (بروز قیامت) فائدہ اٹھائے گا اور اگر برا عمل ہوگا تو نقصان۔

ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دونوں عظیم صحابہ (رض) کے اقوال میں کس طرح تناقض ثابت کیا جا سکتا ہے؟؟
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ؟؟

دوسری طرف صحابہ کرام کھل کر تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔
اگر صحابہ نے یہ حکم نص کے بغیر کیا ہے تو ان پر بدعت و ضلالت کا فتوی کیوں نہیں۔۔۔۔
جب صحابہ کرام میں یہ عقیدہ رسول ص کے حکم و اذن سے پھیلایا گیا کہ تبرکات نبوی بلاشبہ بیماری و نظر بد وغیرہ کے خلاف شفا و نفع دیتے ہیں تو اسکا کیا نتیجہ نکلا؟
واللہ !! آپ خیر القرون کی عظیم ہستیوں کو آج کے دورِ شر کے ضعیف الاعتقاد مسلمانوں پر قیاس کر رہی ہیں۔
یہ کسی کاہن نجومی کی گواہی نہیں بلکہ خاتم النبیین (ص) کی گواہی ہے کہ :
بہتر لوگ میرے قرن کے ہیں، پھر جو ان سے نزدیک ہیں ، پھر جو ان سے نزدیک ہیں۔
صحيح بخاري ، كتاب فضائل الصحابة ، باب : فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم

جب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو "سب سے بہترین لوگ" قرار دے دیا تو کس مسلمان کی ہمت ہے جو ان اصحابِ خیر القرون کے بدعت و ضلالت میں مبتلا ہونے کا ذرہ برابر خیال بھی دماغ میں لائے؟؟

یہ صحابہ کرام کی عظمت پر ظلم ہے جو ان کے ذمہ وہ بات گھڑ کر لگا دی جائے جس کے وہ قائل نہیں تھے۔
رسول کریم کا فرمان تو یہ تھا کہ :
[ARABIC]والبركة من الله[/ARABIC] (برکت تو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے)
اور
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستہ تبرکات اور اقوال و افعال ، اماکن و جمادات ، زمان و اوقات اور کھانے پینے کی چیزیں ۔۔۔
بذات خود شفا نہیں بلکہ شفا کا سبب ہیں اور شفاء پہنچانے والا تو اللہ اکیلا ہے وہی خیر و بھلائی سے نوازتا ہے
اور اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرماتے تھے (بروایت حضرت علی رضی اللہ عنہ)
[ARABIC]والخير كله في يديك[/ARABIC] [(اے اللہ!) تمام بھلائیاں تیرے ہی ہاتھ میں ہیں]
صحیح مسلم

3۔ اس لیے ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء، اولیاء اللہ، تبرکات نبوی یہ سب اپنی شفاعت کے ذریعے [یعنی اللہ کے حضور ہمارے حق میں دعا کر کے] ہماری مدد کر سکتے ہیں۔
4۔ اور یہ کہ اللہ تعالی اپنی ذات و صفات میں یکتا و تنہا ہے اور مطلقا مالک ہے اور کوئی اس جیسا نہیں۔ اور اسی اللہ نے اپنے انبیاء و اولیاء کو یہ صفات مجازی معنوں میں بھی عطا کی ہیں۔
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ہر فرد کو آزادی ہے کہ جیسا چاہے اپنا عقیدہ بنا رکھے۔
لیکن ۔۔۔۔۔
اصل عقیدہ بہرحال وہی ہے جو خیر القرون میں معروف تھا۔
اور اس کو میری کم علمی سمجھئے کہ مجھے اس دَور (قرآن / حدیث / اجماع صحابہ) سے ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس میں "صفات حقیقی" اور "صفات مجازی" کی وضاحت کی گئی ہو۔
اگر آپ کے علم میں ایسی کوئی ایک بھی دلیل ہو تو ضرور شئر کیجئے گا تاکہ ہم بھی اپنے "عقیدہ" کو سدھار لیں۔
ورنہ صرف قصے کہانیاں سنانا مقصد ہو تو میرے پاس ایسی بہت سی کتابیں ہیں !!

--------
جاری ہے ۔۔۔ (ایک آخری پوسٹ باقی ہے)
 

باذوق

محفلین
آخری پوسٹ

سعودی عرب میں غیر موجود درگاہ / مزار کے متعلق میں نے ذاتی طور پر اپنا برسوں کا مشاہدہ/تجربہ بیان کیا تھا ، جس سے ضروری نہیں کہ ہر کسی کو اتفاق ہو مگر ۔۔۔۔
یہ کیسا اختلافِ رائے ہے کہ طیش میں آ کر جواباً " شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کا طعنہ " دیا جاتا ہے اور ایک خاص اسلامی ملک کو مطعون کیا جاتا ہے اور مسمار کئے جانے والی "مفروضہ متبرک" جگہوں کی لسٹ فراہم کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ۔۔۔
یہ گویا سامنے والے کو زبردستی "کاؤنٹر اٹیک" پر مجبور کرنے والی بات ہے۔
لہذا ۔۔۔۔ ذرا ہماری بھی کچھ گذارشات دل تھام کر سن لیجئے۔

1۔ کیا خیال ہے اس ملک کے بارے میں جس نے مخصوص نظریات پر مبنی انقلاب کو "اسلامی انقلاب" کا عنوان دیا تھا؟

2۔ اسلامی شعار کی بےحرمتی کچھ یوں بھی ہوتی ہے جب خالص اسلامی اصطلاحات کو عام کر دیا جائے ، ان کا امتیاز اور تشخص ختم کر دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے : [arabic]جَعَلَ اللّهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ[/arabic] (اللہ نے کعبۃ کو دارالحرم بنایا)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو "حرم" قرار دیا۔
براہ کرم کوئی ہم کو بتائے کہ تہران ، قم اور مشہد میں جو تین مزارات کو "حرم" کا نام دیا گیا ہے ، وہ شعائر اسلامی کا احترام ہے یا اس کی توہین ؟؟

3۔ تہران کے سب سے بڑے "حرم" کے "موزۂ حرم (عجائب گھر)" میں دیوار پر لٹکائے جانے والے قالین پر حضرت علی اور آپ کے فرزندان (رضی اللہ عنہم) کی تصاویر ۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر ۔۔۔۔
مختلف بادشاہوں کے سکے رکھے جانے والے کمرے میں اُس ایک "مخصوص" تصویر میں کس "عظیم شخصیت" کی عکاسی کی گئی ہے جس کے اوپر سورہ المائدۃ کی آیت نمبر:97 درج ہے؟؟

اللہ کے رسول (ص) نے تو واضح طور پر فرمایا تھا کہ : "جب ان میں سے کوئی نیک آدمی مر جاتا تھا تو یہ لوگ (نصرانی) اس کی قبر پر عبادت گاہ تعمیر کر دیتے اور اس میں وہ تصاویر لٹکا دیتے ، یہ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہیں

آخری بات ۔۔۔۔
بار بار کچھ ایسا تاثر دیا گیا ہے کہ باذوق یا سعودی عرب کے علماء نے تبرکاتِ نبوی کا انکار کیا ہے۔
حالانکہ جو بات صحیح حدیث میں بیان ہو جائے اصولی طور پر کوئی بھی مسلمان اس کا انکار نہیں کرتا۔
بہتر ہے کہ سعودی عرب میں نہایت قابل احترام سمجھے جانے والے اور اہل سنت کے تمام مکاتب فکر کے معتبر علماء کے نزدیک قابل اعتبار اور عصر حاضر کے عظیم محدث امام ناصر الدین البانی رحمة اللہ علیہ کا وہ اعتراف نامہ پیش کر دیا جائے جسے انہوں نے اپنی کتاب "التوسل انواعه واحكامه" میں لکھا ہے :
اس بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ہمارے نزدیک جائز ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کرتے ہیں جیسا کہ بعض لوگ ہمارے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ لیکن اس تبرک کے لیے کچھ شرطیں ہیں ، ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ایمان شرعی ہو ، لہذا جو سچا مسلمان نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اس تبرک سے کوئی چیز عطا نہیں کرے گا۔
دوسری شرط یہ ہے کہ تبرک کا طلب کرنے والا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آثار میں سے کسی اثر کو حقیقت میں پا جائے اور اس کو استعمال کرے ، لیکن ہم یہ بات جانتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) کے آثار جیسے کہ کپڑا ، بال وغیرہ مفقود ہیں اور کوئی یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کپڑا یا بال ہے۔ لہذا ان آثار سے اس زمانے میں تبرک حاصل کرنا بےمعنی اور بےموضوع بات ہے اور یہ صرف ایک خیالی معاملہ ہے ، لہذا اس بارے میں مزید گفتگو مناسب نہیں !

التوسل انواعه واحكامه ، ص:146

اور اس توہین تبرکات نبوی کے فتنے کو اور جاننا ہے تو دیکھئیے سعودی حکومت کے افعال کہ کس طرح متبرک جگہوں کو شرک کے نام پر ڈھایا جا رہا ہے اور کچھ جگہوں پر تو وہاں ٹوائلٹ تک بنائے گئے ہیں۔
اگر یہ واقعی "فتنہ" ہے تو بڑی عجیب بات ہے کہ اُس حجازِ مقدس پر برپا ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :
جو اہل مدینہ کو تکلیف پہنچانا چاہے گا اللہ اس کو ایسے ہی پگھلا دے گا جیسے کہ پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔
(مسلم)


والسلام علیکم !!
- باذوق
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ دھاگہ ایک رکن کی درخواست پر غیر مقفل کیا گیا ہے۔
موضوع پر رہتے ہوئے مراسلے ارسال کریں۔ شکریہ۔

شمشاد بھائی،
کیا باذوق برادر نے اگلے تین مراسلے موضوع پر رہتے ہوئے ارسال کیے ہیں؟

بہرحال، آپ نے ایک رکن کی درخواست پر اسے غیر مقفل کیا ہے تو اس دوسرے رکن کی درخواست ہے کہ:

1۔ اسے آپ نے کھول ہی دیا ہے تو اب ہرگز مقفل نہ کیجئیے گا۔ یہ بہت اہم موضوع ہے اور ایک ریفرنس کے طور پر ہمیشہ اردو ویب پر موجود رہے گا۔ انشاء اللہ۔

2۔ اور آپ سے درخواست ہے کہ آب زمزم کے اصل موضوع سے الگ جتنے بھی مراسلات لکھے گئے ہیں، انہیں تبرکات نبوی نامی ایک الگ دھاگے میں منتقل فرما دیں۔

مجھے آپکے جواب کا انتظار ہے۔
 
اور آپ سے درخواست ہے کہ آب زمزم کے اصل موضوع سے الگ جتنے بھی مراسلات لکھے گئے ہیں، انہیں تبرکات نبوی نامی ایک الگ دھاگے میں منتقل فرما دیں۔

اس بات کی میں بھی تائید کروں گا اگر ایسا ہو جائے تو بہت اچھا ہے۔نیز اب تک جو گفتگو ہوئی اگر اسی نہج پر آئندہ بھی بات چیت ہوتی رہے تو بہت خوب ہوگا اور انتظامیہ سے میری یہی درخواست ہے کہ اس موضوع کو فی الحال مقفل بھی نہ کیا جائے یہ اور دیگر چند موضوعات پر میرا بھی ارادہ کچھ تحریر کرنے کا ہے قدرے توقف کے بعد۔
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد بھائی،
کیا باذوق برادر نے اگلے تین مراسلے موضوع پر رہتے ہوئے ارسال کیے ہیں؟

بہرحال، آپ نے ایک رکن کی درخواست پر اسے غیر مقفل کیا ہے تو اس دوسرے رکن کی درخواست ہے کہ:

1۔ اسے آپ نے کھول ہی دیا ہے تو اب ہرگز مقفل نہ کیجئیے گا۔ یہ بہت اہم موضوع ہے اور ایک ریفرنس کے طور پر ہمیشہ اردو ویب پر موجود رہے گا۔ انشاء اللہ۔

2۔ اور آپ سے درخواست ہے کہ آب زمزم کے اصل موضوع سے الگ جتنے بھی مراسلات لکھے گئے ہیں، انہیں تبرکات نبوی نامی ایک الگ دھاگے میں منتقل فرما دیں۔

مجھے آپکے جواب کا انتظار ہے۔

مہوش بہن السلام علیکم

میں نے ایک دھاگہ الگ سے کھولا تھا "عقیدت اور عقیدہ" کے نام سے کہ اس دھاگہ سے غیر متعلقہ تمام پیغامات وہان منتقل کر دوں لیکن سسٹم میں‌کچھ خرابی کی وجہ سے نہیں کر پایا، حتی کہ کھولا ہوا دھاگہ حذف بھی نہیں کر پایا۔ جیسے ہی سسٹم ٹھیک ہوتا ہے، سب سے پہلا کام یہی کروں گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مثبت جواب دینے کا بہت شکریہ شمشاد بھائی۔
ٹاپک کو "عقیدت اور عقیدہ [تبرکات نبوی]" کر لیں تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو سکے یہ عیقدت اور عقیدہ پر کس حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے۔
//////////////////////////
از باذوق:
سسٹر مہوش علی !
میں نے الزامات نہیں لگائے تھے بلکہ اردو ویب پراجکٹس کی بھلائی کی خاطر مخلصانہ مشورہ دیا تھا۔ اگر آپ اسے "الزامات" گردانتی ہیں تو پھر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں۔
بہت شکریہ۔ امید ہے کہ اب آپ ایسے باتیں نہیں دہرائیں گے جو کہ دو رخے معیار میں آتی ہیں۔ مثلا مجھ پر اعتراض کرنا کہ ان احادیث کو کیوں بیان کر رہی ہوں جو دوسری سائیٹس پر موجود ہیں، جبکہ خود اردو پیجز اور مجلس پر بار بار بار بار بار بار پلٹ پلٹ پلٹ کر آپ وہی مٹیریل پوسٹ کرتے ہیں جو پہلے سے ہی آپ حضرات کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔اردو پیجز پر ہر کسی حتی کہ قادیانی حضرات اور غیر مسلموں کو بھی پوسٹ کرنے کی اجازت تھی، مگر میں تھی کہ جب پوسٹ کرتی تھی تو اسے ہمیشہ لاک کر دیا گیا، پھر انکی ڈیلیشن بھی ہوئی، اور آخر میں میرا مہوش علی والا اکاونٹ ہی ڈیلیٹ کر دیا گیا اور آئی پی ایڈریس ہی بلاک کر دیا گیا۔

میں سب مسلمان برادران کی طرف سے اچھا حسن ظن رکھتی ہوں۔ مگر بدقسمتی سے تجربات کے حوالے سے میں اب یہ بات آپ کے لیے نہیں کہہ سکتی۔

جب فاروقی بھائی نے مجھ سے بحث ختم کرنے کے لیے کہا تو میں نے ان پر اعتماد کیا۔ لیکن بدقسمتی سے میں تجربات کی روشنی میں ان معاملات میں آپ کے متعلق حسن ظن نہیں رکھ سکتی، اور مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ ایک ہی بل سے دو بار ڈسا جائے۔

آپ توحید کے نام پر پروگرامڈ ہو چکے ہیں کہ جس مرضی طریقے سے ممکن ہو سکے ہر اُس ثبوت کو چھپا دیا جائے اور دبا دیا جائے جو آپ کے بنائے ہوئے عقیدہ توحید کی مخالفت میں جاتا ہو۔ سعودیہ میں ایسی کتابوں پر مکمل بین لگا کر ایسا کیا گیا اور آپکے ڈسکشن فورمز میں اراکین کو بین کر کے ایسا کیا جاتا ہے۔ اس لیے میں آپ سے انصاف کی توقع نہیں کر سکتی اور اسکا ایک نمونہ آپ نے اوپر خود ہی پیش کر دیا جب مجھے یہ کہہ کر بحث سے الگ کرنے کی کوشش کی کہ مواد پہلے سے ہی نیٹ پر موجود ہے، جبکہ خود اپنی روش کی طرف نہ دیکھا، اور پھر خود ہی سے مجھے یہ نصیحت کرنے کے بعد مراسلوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔
مگر اس دفعہ مجھے آپکی اس حرکت پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ میں آپکو پہلے سے زیادہ اچھی طرح جان چکی تھی۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top