عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
اپنے ہی غم میں مبتلا رکها
ایسا بندہ ہمیں بنا رکها

ڈال کر خوف دل میں محشر کا
حشر سا اس نے اک اٹها رکها

کیوں کریں فکر روزگاری کی
کس نے دنیا کو ہے کما رکها

ہم نے ان محفلوں میں اپنا ہی
اک تماشا سا تها لگا رکها

کام جو آج ہونے والا تها
ہم نے اسکو بهی کل اٹها رکها

تم سے بهی دیکه جا چکا عالم
اور ہم کو بهی کیوں دکها رکها

خواہشیں آرزوئیں مجبوری
ایسی باتوں ہے آج کیا رکها

صاحب اس شوق نے ہمیں ہر دم
آپ اپنے سے بهی جدا رکها
 

عظیم

محفلین
کیا یہی خو ہے تم نرالوں کی
بات کرتے ہو گزرے سالوں کی

کیوں تغافل کا ان کے شکوہ ہو
یہ تو عادت ہے حسن والوں کی

کوئی قسمت کا دیکهے پهر جانا
اس پہ خوبی پهر ان کی چالوں کی

کیا ہماری جناب ہے صاحب
ہے یہ نعمت جناب والوں کی

ہم کہ ان کی مثال دے جائیں
شکل دیکهی ہے ان مثالوں کی
 

عظیم

محفلین
کیا کروں مجه میں آ بسا ہے عشق
جانتا ہوں بری بلا ہے عشق

کیسے بتلاوں اے جہاں والو
آپ سب نے فقط سنا ہے عشق

مجه سے بیمار کا مسیحا ہے
میرے ہر درد کی دوا ہے عشق

اک خلل ہے دماغ کا شاید
روح انسان کی غذا ہے عشق

آپ اپنے میں مبتلا پایا
آپ اپنے کو ہو گیا ہے عشق

کیا کہوں اس کی عظمتیں صاحب
میرے قد سے کہیں بڑا ہے عشق
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
عظیم صاحب کے حکم پر :)


کیا کروں مجھ میں آ بسا ہے عشق
جانتا ہوں بری بلا ہے عشق

کیسے بتلاؤں اے جہاں والو
آپ سب نے فقط سنا ہے عشق

مجھ سے بیمار کا مسیحا ہے
میرے ہر درد کی دوا ہے عشق

اک خلل ہے دماغ کا شاید
روح انسان کی غذا ہے عشق

آپ اپنے میں مبتلا پایا
آپ اپنے کو ہو گیا ہے عشق

کیا کہوں اس کی عظمتیں صاحب
میرے قد سے کہیں بڑا ہے عشق
 

عظیم

محفلین
بابا -

کیسے بتلاؤں اے جہاں والو
آپ سب نے فقط سنا ہے عشق

مجھ سے بیمار کا مسیحا ہے
میرے ہر درد کی دوا ہے عشق

×××
 

عظیم

محفلین
آ پڑی ہے یہ شب جدائی کی
اب ہمیں نیند بهی نہ آئے گی

اے غم انتظار کی وحشت
اور کتنوں کے بن جلائے گی

دل سے اس دید یار کی حسرت
کیا مری جان لے کے جائے گی

بچ بهی نکلے جو آسمانوں سے
تو یہ دنیا ہمیں ستائے گی

یاد رکهنا یہ دل لگی صاحب
ایک دن خون دل رلائے گی
 

الف عین

لائبریرین
واہ واہ عظیم، یہ تو اچھی نکالی ہے غزل۔۔ویسے ہر شعر میں معمولی سی تبدیلی سے بہتر ہو سکتی ہے


آ پڑی ہے یہ شب جدائی کی
اب ہمیں نیند بهی نہ آئے گی
÷÷’آ پڑی" اچھا نہیں لگ رہا۔ یہ مطلع بھی نہیں ہے جو ردیف قافئے کی مجبوری ہو
آ گئی رات پھر جدائی کی
میں کیا برائی تھی؟

اے غم انتظار کی وحشت
اور کتنوں کے بن جلائے گی
۔۔خوب، یوں ہی ٹھیک ہے

دل سے اس دید یار کی حسرت
کیا مری جان لے کے جائے گی
۔۔اس دید یار کی حسرت یا دید یار کی یہ حسرت؟
شاید یوں بہتر ہو
یار کی دید کی یہی حسرت
کیا مری جاں ہی لے کے۔۔۔۔

بچ بهی نکلے جو آسمانوں سے
تو یہ دنیا ہمیں ستائے گی
۔۔’تو‘ اچھا نہیں لگتا۔ تب ‘یا ’پھر‘ کہو۔

یاد رکهنا یہ دل لگی صاحب
ایک دن خون دل رلائے گی
÷ایک دن دل کو خوں۔۔
زیادہ بہتر ہو
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے میاں، کیا پہلے لکھنے میں املا کی اغلاط ہو گئی تھیں؟مطلع میں پہلے کو دوسرا اور دورے مصرع کو پہلا کر دو تو بہتر تاثر بنتا ہے۔

آپ اپنے میں مبتلا پایا
آپ اپنے کو ہو گیا ہے عشق
سمجھ میں نہیں آ سکا
باقی اچھے اشعار ہیں
 

الف عین

لائبریرین
پہلی غزل خوب،
دوسری غزل۔۔ محاورہ کا خیال نہیں رکھا۔ کچھ شعار بہت خوب
تیسری غزل ، اوسط۔ جناب واکا شعر سمجھ میں نہیں آ سکا
 
Top