عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
اچھی غزل ہے میاں، کیا پہلے لکھنے میں املا کی اغلاط ہو گئی تھیں؟مطلع میں پہلے کو دوسرا اور دورے مصرع کو پہلا کر دو تو بہتر تاثر بنتا ہے۔

آپ اپنے میں مبتلا پایا
آپ اپنے کو ہو گیا ہے عشق
سمجھ میں نہیں آ سکا
باقی اچھے اشعار ہیں

جی بابا اسے ایک بار پهر دیکهوں گا انشاء اللہ - جی نہیں بابا موبائل سے ٹائپ کرتا ہوں تو ٹیکسٹ ٹوٹا پهوٹا دکهائی دیتا ہے -
 

عظیم

محفلین
واہ واہ عظیم، یہ تو اچھی نکالی ہے غزل۔۔ویسے ہر شعر میں معمولی سی تبدیلی سے بہتر ہو سکتی ہے


آ پڑی ہے یہ شب جدائی کی
اب ہمیں نیند بهی نہ آئے گی
÷÷’آ پڑی" اچھا نہیں لگ رہا۔ یہ مطلع بھی نہیں ہے جو ردیف قافئے کی مجبوری ہو
آ گئی رات پھر جدائی کی
میں کیا برائی تھی؟

اے غم انتظار کی وحشت
اور کتنوں کے بن جلائے گی
۔۔خوب، یوں ہی ٹھیک ہے

دل سے اس دید یار کی حسرت
کیا مری جان لے کے جائے گی
۔۔اس دید یار کی حسرت یا دید یار کی یہ حسرت؟
شاید یوں بہتر ہو
یار کی دید کی یہی حسرت
کیا مری جاں ہی لے کے۔۔۔۔

بچ بهی نکلے جو آسمانوں سے
تو یہ دنیا ہمیں ستائے گی
۔۔’تو‘ اچھا نہیں لگتا۔ تب ‘یا ’پھر‘ کہو۔

یاد رکهنا یہ دل لگی صاحب
ایک دن خون دل رلائے گی
÷ایک دن دل کو خوں۔۔
زیادہ بہتر ہو

جی بابا یہ رات کہی - جی دیکهتا ہوں
 

عظیم

محفلین
آ گئی رات پهر جدائی کی
اب ہمیں نیند بهی نہ آئے گی

اے غم انتظار کی وحشت
اور کتنوں کے بن جلائے گی

دل سے اس، دید یار کی حسرت
کیا مری جان لے کے جائے گی

بچ بهی نکلے جو آسمانوں سے
پهر یہ دنیا ہمیں ستائے گی

یاد اس بے وفا کی ہم کو کیا
جب بهی آئے گی خوں رلائے گی

دل لگی ہے وہ دل لگی صاحب
تم بجهاو گے بڑهتی جائے گی
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
خاک دامن میں بهر کے لایا ہوں
اب بهی کیا نور سے پرایا ہوں

اے زمانے نہ یوں ستا مجه کو
میں بہت عشق کا ستایا ہوں

اب کرو قتل کا ارداہ کیوں
لاش اپنی گهسیٹ لایا ہوں

ایسا محرم ہوں اس خدائی کا
میں کہ اب آپ سے پرایا ہوں

اے نگاہ نیاز مندانہ
دیکه تجه میں ہی تو سمایا ہوں

ہے عبث آدمی کی خو صاحب
آدمیت کو لوٹ آیا ہوں
 

عظیم

محفلین
اس کے ہونے کا واسطہ دے نا
اے صبا یار کا پتا دینا

اپنا حق تها کہ دل کیا آتش
کام دنیا کا ہے ہوا دینا

زندگی کیا کہ موت جی لوں گا
کس کی خاطر مگر بتا دینا

اللہ اللہ جناب دیکهو تو
اس جفاکار کا دغا دینا

یاد آتا ہے اب بهی رو رو کر
حال دل یار کو سنا دینا

چوٹ کرتی ہے دل پہ صاحب تم
اپنے دشمن کو بهی دعا دینا
 

عظیم

محفلین
لب پہ ان کے سوا سوال نہ تها
ہم کو اپنا بهی کچه خیال نہ تها

اب یہ جانا تها التفات اے دوست
میری جاں پر کوئی وبال نہ تها

اے مرے دل تجهے ہوا کیا ہے
اسقدر تو کبهی نڈهال نہ تها

کہہ چکا جو سنا گیا لوگو
اس میں میرا کوئی کمال نہ تها

زندگی تجه سے کیا شکایت اب
میری قسمت میں ہی وصال نہ تها

روز محشر کو لوگ چیخیں گے
اس زمانے پہ یہ جمال نہ تها

کها گئی کس کی فکر صاحب کو
اس تو اپنا بهی کچه خیال نہ تها
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اب تو اپنے بهی ساته چهوڑ گئے
رخ کیوں ہم سے جناب موڑ گئے

وہ ہمیں قتل کو بلاتے تهے
شوق اپنا کہ دوڑ دوڑ گئے

دل ترے غم سے ٹوٹنے والے
ابن مریم کہو تو جوڑ گئے

میرے اس دل کے آئینے کو آپ
ایسا دیکها کئے کہ توڑ گئے

صاحب ایسے بهی رہنما دیکهے
بیچ رستے جو ہم کو چهوڑ گئے
 

عظیم

محفلین
فلک سے آزمایا جا رہا ہوں
زمانے سے چرایا جا رہا ہوں

کوئی دیکهے مرا بن جانا اب کے
میں ان ہاتهوں مٹایا جا رہا ہوں

ہجوم خلق ہے اس دہر میں لیک
تن تنہا ستایا جا رہا ہوں

چلا جاتا ہوں دل میں وہم لے کر
تری جانب بلایا جا رہا ہوں

وہ جن کی یاد میری زندگی ہے
میں کب ان سے بهلایا جا رہا ہوں

خدا جانے عظیم اس کی رضا کو
میں کیونکر یوں رلایا جا رہا ہوں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اس غم دہر سے گزر جائیں
جی میں آتا ہے آج مر جائیں

حال مت پوچهئے غریبوں کا
عین ممکن ہے آپ ڈر جائیں

سارا عالم بهی غم گسار ہو گر
زخم دل کے نہیں جو بهر جائیں

ہو چکے عشق میں ترے رسوا
کچه تو دنیا میں نام کر جائیں

ہم کہ صاحب عظیم وعدوں سے
اتنے گهٹیا نہیں مکر جائیں
 

عظیم

محفلین
اپنے عاشق کا امتحاں لیجے
لاکه بہتر کہ میری جاں لیجے

دل ہتهیلی میں پیش کرتا ہوں
لیجئے میرے مہرباں لیجے

اپنے غم کی اب اس زمانے کو
ہم سنائیں گے داستاں لیجے

کب مکرتے ہیں عہد سے اپنے
ہم سے ہر طور کے بیاں لیجے

جانے کس دوستی کو روتے تهے
آج دشمن ہے آسماں لیجے

جان دینے پہ ہم بهی مائل ہیں
آپ کہئے کہ کب کہاں لیجے

یوں خسارا کیا ہمارا ان
سود لگنے لگا زیاں لیجے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
بابا ردیف کو ہر جگہ ٹهوک بجا کر فٹ کیا ہے - اگر اب بهی کوئی غلطی ہوئی --- تو کیا پهر کوشش کرلوں گا - تک بندیوں کا تو ماسٹر ہو چکا ہوں -
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
اس ستمگر کو مہرباں جانا
اس بهلے کا بهی ان برا مانا

توڑ کر آئینہء ہستی کو
ہم نے اپنا وجود پہچانا

کیا خبر کل کی صبح دیکهے کون
آج کے خواب میں ہی آ جانا

دیدہ و دل کو راہ کردوں گا
اس طرف ہو جو آپ کا آنا

صاحب اپنے نصیب میں کب تها
سکه سے جینا سکوں سے مرجانا
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل کہی ہے۔ بس ایک غلطی ہے
توڑ کر آئینہء ہستی کو
ہم نے اپنا وجود پہچانا
آئینائے‘ تقطیع میں آتا ہے جو غلط ہے۔ یہ محض مفعول ہے
توڑ کر زندگی کا آئینہ
کر دو،
 

الف عین

لائبریرین
مجھے ایک ہی شعر اچھا لگا
میرے اس دل کے آئینے کو آپ
ایسا دیکها کئے کہ توڑ گئے
باقی تو تک بندی ہے
 
Top