عشق

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ہم کہیں جانے والے ہیں دامنِ عشق چھوڑ کر
زیست تیرے حضور میں، موت تیرے دیار میں
(جگرمراد آبادی)
 

شمشاد

لائبریرین
تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں

آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں
(احمد فراز)
 

شمشاد

لائبریرین
ہر بات پے اب تو ہنسنا اچھا نہیں لگتا
غمِ عشق سے ہٹنا اچھا نہیں لگتا

کھڑکی میں کوئی میرا انتظار نہیں کرتا اب
تیری گلی سے اب گزرنا اچھا نہیں لگتا
 

الف عین

لائبریرین
کیا سب عشق وشق چھوڑ کر متقی ہو بیٹھے ہیں؟
یہ بھی تمھاری ایک ادا ہے رشتے باندھو اور توڑو
کاش کوئی بتلا ئے تم کو عشق میں کیا گہرائی ہے
 

شمشاد

لائبریرین
صرف جلانا ہی نہیں ہمکو بھڑکانا بھی تو ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے ہوا دی جائے

صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
اک شب اور میری شب سے ملا دی جائے

اور اک تازہ ستم اس نے کیا ایجاد
اُس کو اس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے
(پیرزادہ قاسم)
 

الف عین

لائبریرین
چلو ایک مشکل شعر دے دیں، ہم کو ہی سمجھ میں نہیں آیا:
دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلبگارِ مرد تھا
 

شمشاد

لائبریرین
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی کیوں نے بھاری لگے

نہ ہوئے اسے جگ میں ہرگز قرار
جسے عشق کی بیقراری لگے

(ولی محمد ولی)
 

شمشاد

لائبریرین
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
(میرزا غالب)
 

الف عین

لائبریرین
غالب چلنے دو آج کل گرم ہے:
ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
 

شمشاد

لائبریرین
اعجاز اختر نے کہا:
غالب چلنے دو آج کل گرم ہے:
ہم سے چھوٹا قمار خانۂ عشق
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

اعجاز بھائی آپ کا مندرجہ بالا شعر اس دھاگے کا سب سے پہلا شعر ہے جو کہ افتخار بھائی لکھ چکے ہیں۔ آپ کوئی اور شعر دیں۔
 
بات عشق کی چلی ہے ہم نے سوچا ہم بھی اپنی ٹانگ اڑا لیں‌ ۔ کیونکہ:
کہتے ہیں کہ عشق نام کے تھے ا ک بزرگ
ہم لوگ مرید اسی سلسلے کے ہیں‌
 

شمشاد

لائبریرین
نہ ہارا ہے عشق نہ دنیا تھکی ہے
دیا جل رہا ہے، ہوا چل رہی ہے
(خمار بارہ بنکوی)
 

شمشاد

لائبریرین
الٰہی کاش غمِ عشق کام کر جائے
جو کل گزرنی ہے مجھ پہ ابھی گزر جائے
(شمیم جےپوری)
 

الف عین

لائبریرین
عتیق الرحمان نے کہا:
عشق، ا ک میر بھاری پتھر ہے
یہ کب تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
صحیح یوں ہے دوسرا مصرعہ:
بوجھ ایسا کہاں سے اٹھتا ہے
نیا شعر:
کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا
 

شمشاد

لائبریرین
کتنا معصوم و رنگین ہے یہ سماں
حسن اور عشق کی آج معراج ہے
کل کی کس کو خبر جانِ جاں
روک لو آج کی رات کو

گیسوں کی شکن ہے ابھی شبنمی
اور پلکوں کے سائے بھی مدہوش ہیں
حسنِ معصوم کو جانِ جاں
بےخودی میں نہ رسوا کرو

آج جانے کی ضد نہ کرو

(فیاض ہاشمی)
 

الف عین

لائبریرین
پھر غالبِ خستہ سہی:
سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top