کاشفی

محفلین
غزل
(افروژ رضوی)
عشق ہو جاؤں پیار ہو جاؤں
میں جو خوشبوئے یار ہو جاؤں


جب بھی نکلوں میں ڈھونڈ نے اس کو
دھول مٹی غبار ہو جاؤں


اس کے وعدے کا اعتبار کروں
پھر شب انتظار ہو جاؤں


اوڑھ لوں اس کی یاد کی چادر
اور خود پر نثار ہو جاؤں


میں ترا موسم خزاں پہنوں
اور فصل بہار ہو جاؤں


ایک شب اس کو اس طرح دیکھوں
دامن شب کے پار ہو جاؤں


جو ہوا تجھ کو چھو کے آئے میں
اس کو چھو لوں بہار ہو جاؤں


جس گھڑی اس کا آئنہ دیکھوں
اس گھڑی عکس یار ہو جاؤں


پھول ٹانکوں لباس میں اس کے
میں اگر دست کار ہو جاؤں


اس کا کاجل لگا کے آنکھوں میں
مستیٔ چشم یار ہو جاؤں


چاہتا وہ بھی ہے یہی افروزؔ
آگ پی لوں شرار ہو جاؤں
 
Top