عرفان صدیقی عرفان صدیقی --------------- متفرق کلام

مغزل

محفلین
اگرچہ اردو کے صاحبِ طرز شاعر عرفان صدیقی کے انتقال کو چار سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے، لیکن اب تک ناقدین نے اس پر توجہ نہیں کی اوراب تک چند تاثراتی مضامین کے علاوہ ان پر زیادہ لکھا نہیں گیا۔ غالباً اس کی وجہ عرفان صدیقی کی افتادِ طبع بھی تھی کیونکہ وہ کسی بھی ادبی گروہ میں شامل نہیں رہے۔ ان کے پانچ شعری مجموعے سات سماوات ، کینوس، عشق نامہ، ہوائے دشتِ ماریہ اور شب درمیاں شائع ہوئے تھے، جب کہ پاکستان سے ان کی کلیات دریا کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ لیکن یہ سب کتابیں نایاب ہیں۔ محترم احبا ب گو کہ میں یہاں ’’ اردو نامہ ‘‘ عرفان صدیقی پر کتاب کے اجرا کا احوال (‌رضوان احمد کے قلم سے )اور اشعار پیش کرچکا ہوں مگر جی میں‌یہ آتا ہے کہ جناب کا کلام جو جہاں‌ سے بھی ملے یہاں جمع کیا جائے ۔ سو اسی خیال سے آپ کے ذوقِ‌سلیم کی تسکین کیلیے عرفان صدیقی کا کلام پیش کرتا ہوں ۔ امید ہے آپ اس راہ میں میرا ہاتھ بٹائیں‌گے ۔

’’ عرفان صدیقی ‘‘
Irfan-Siddiqui.jpg


شمعِ تنہا کی طرح، صبح کے تارے جیسے
شہر میں ایک ہی دو ہوں گے ہمارے جیسے
-----------------------------------------------------
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیلِ خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے

جو ہو سکے تو ذرا شہ سوار لوٹ آئیں
پیاد گاں کو ظفر یاب دیکھنے کے لیے
------------------------------------------------------
ہم نہ زنجیر کے قائل ہیں نہ جاگیر کے اہل
ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے
------------------------------------------------------
تم ہی صدیوں سے یہ نہریں بند کرتے آئے ہو
مجھ کو لگتی ہے تمہاری شکل پہچانی ہوئی
------------------------------------------------------
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تیری تلوار پہ خاک
------------------------------------------------------
شاعری کون کرامت ہے مگر کیا کیجے
درد ہے دل میں، سو لفظوں میں اثر ہے سائیں
------------------------------------------------------
کہاں سے آتے ہیں یہ گھر اجالتے ہوئے لفظ
چھپا ہے کیا مری مٹی میں ماہ پارہ کوئی
------------------------------------------------------
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سر سبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئےزیاں میں لگانا ہی تھا ہم کواپنےلہوکا شجر یا اخی
------------------------------------------------------
یہ کائنات مرے بال و پر کے بس کی نہیں
تو کیا کروں سفرِ ذات کرتا رہتا ہوں
------------------------------------------------------
ہوشیاری دلِ نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

رات کو جیت تو سکتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

آج کل اپنا سفر طے نہیں کرتا کوئی
ہاں سفر کا سرو سامان بہت کرتا ہے
------------------------------------------------------
عرفان صدیقی لمبی بحر میں مترنم غزلیں لکھنے کے باب میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ مندرجہ ذیل غزل ان کی مشہور ترین غزلوں میں شمار ہوتی ہے:

تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ، شامہ و ذائقہ، سامعہ، باصرہ، سب مرے رازدانوں میں ہیں

اور کچھ دامنِ دل کشادہ کرو، دوستو شکرِ نعمت زیادہ کرو
پیڑ، دریا، ہوا، روشنی، عورتیں، خوشبوئیں، سب خدا کے خزانوں میں ہیں

ناقہٴ حسن کی ہم رکابی کہاں، خیمہٴ ناز میں بازیابی کہاں
ہم تو اے بانوئے کشورِ دلبری پاس داروں میں ہیں، ساربانوں میں ہیں

میرے اندر بھی ہے ایک شہرِ دگر، میرے مہتاب، ایک رات ادھر سے گزر
کیسے کیسے چراغ ان دریچوں میں ہیں، کیسے کیسے قمران مکانوں میں ہیں

اک ستارہ ادا نے یہ کیا کر دیا، میری مٹی سے مجھ کو جدا کر دیا
ان دنوں پاؤں میرے زمین پر نہیں، اب مری منزلیں آسمانوں میں ہیں
------------------------------------------------------
شعلہٴ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے
وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی
اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے

میرے لفظوں میں بھی چھپتا نہیں پیکر اس کا
دل مگر نام بتانا بھی نہیں چاہتا ہے
------------------------------------------------------
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

تجھی پہ ختم ہے جاناں، مرے زوال کی رات
تو اب طلوع بھی ہو جا کہ ڈھل رہا ہوں میں

بلا رہا ہے مرا جامہ زیب ملنے کو
تو آج پیرہنِ جاں بدل رہا ہوں میں
------------------------------------------------------
بانوئے شہر، ہمیں تجھ سے ندامت ہے مگر
ایک دل ہے، سو کسی اور پہ آیا ہوا ہے
------------------------------------------------------
وہ ہلالِ ماہ و سال ہے دلِ مہرباں اسے دیکھنا
پسِ شامِ تن جو پکارنا، سرِ بامِ جاں اسے دیکھنا

وہ ستارہ ہے سرِ آسماں ابھی میری شامِ زوال میں
کبھی میرے دستِ کمال میں تہہِ آسماں اسے دیکھنا

وہ ملا تھا نخلِِ مراد سا ابھی مجھ کو نجدِ خیال میں
تو ذرا غبارِ شمال میں مرے سارباں اسے دیکھنا
------------------------------------------------------
حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہا تھا، تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

جب حشر اسی زمیں پہ اتارے گئے تو پھر
برپا یہیں پہ روزِ جزا کیوں نہیں ہوا

جو کچھ ہوا، وہ کیسے ہوا، جانتا ہوں میں
جو کچھ نہیں ہوا، وہ بتا، کیوں نہیں ہوا
------------------------------------------------------
اب زباں خنجرِ قاتل کی ثنا کرتی ہے
ہم وہی کرتے ہیں جو خلقِ‌خدا کرتی ہے

ہُو کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیر صدا کرتی ہے
------------------------------------------------------
اٹھو یہ منظرِ شب تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں‌خواب دیکھنے کے لیے

عجیب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
------------------------------------------------------
اے مرے ہم سفرو، رنجِ گراں باری کیا
اٹھ کےچلنا ہی تو ہے کوچ کی تیار ی کیا

ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تری چارہ گری کیا ، مری بیماری کیا
------------------------------------------------------
والسلام مع الاکرام
 

مغزل

محفلین
عرفان صدیقی کا شمار اردو کے اُن شعرا میں ہوتاہے جنہوں نے تقسیم کے بعد ہوش سنبھالا۔ انہوں نے اس ذہنی اور جذباتی فضا کو جس میں برصغیر کے مسلمان سانس لے رہے تھے ، بڑی ہنر مندی کے ساتھ اپنی غزل کا موضوع بنایا۔عرفان صدیقی جنوری 1939 میں اترپردیش کے شہر بدایوں میں پیدا ہوئے تھے ۔ وہ ایم اے تک کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1962 میں انڈین انفارمیشن سروس میں شامل ہوئے ۔ 1997 میں وہ اس ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور پھر عملی صحافت سے وابستہ ہو گئے ۔ عرفان صدیقی کے والد سلمان احمد ہلالی بھی اردو کے خوش گو شعرا میں شمار ہوتے تھے جبکہ نیاز بدایونی ان کے بڑے بھائی اور محشر بدایونی اور دلاورفگار ان کے قریبی اعزّا میں شامل تھے ۔ عرفان صدیقی کی شاعری کے پانچ مجموعے: کینوس، شب درمیاں، سات سماوات، عشق نامہ اور ہوائے دشت ماریہ کے نام سے شائع ہوئے تھے ۔ چند برس پہلے ان کی شاعری کی کلیات ’دریا‘ کے نام سے پاکستان میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ عرفان صدیقی ایک اچھے مترجم بھی تھے ۔ انہوں نے کالی داس کی ایک طویل نظم ’رت سنگھار‘ اور کالی داس کے ڈرامے ’مالویکا اگنی متر‘ کا ترجمہ براہ راست سنسکرت سے اردو میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مراکش کے ادیب محمد شکری کے سوانحی ناول کا ترجمہ بھی کیا تھا۔ وہ ابلاغیات کے موضوع پر تین کتابوں کے مصنف بھی تھے ۔ انہوں نے 1100ء سے 1850 ء تک کے اردو ادب کا ایک جامع انتخاب بھی کیا تھا۔ جو ساہتیہ اکیڈمی سے اشاعت پذیر ہوا تھا۔ 1998 میں عرفان صدیقی کو اترپردیش کی حکومت نے میر اکادمی کا اعزاز عطا کیا تھا۔ عرفان صدیقی کے چند اشعار پڑھنے چلیے اور دیکھیے دست اجل نے ہم سے کیسا اچھا شاعر چھین لیا:

20040505171641irfan_darya203.gif

(دریا ، عرفان صدیقی کی کلیات جو پاکستان میں شائع ہوئی)

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے
آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

کیا خبر کون سی تقصیر پہ ناراض نہ ہو
وہ شکایت بھی تو پیہم نہیں کرتا ہم سے

مجھے یہ زندگی نقصان کا سودا نہیں لگتی
میں آنے والی دنیا کوبھی تخمینے میں رکھتا ہوں

بھول جاوٴ کہ یہاں رہتے تھے کچھ دوسرے لوگ
کل پھر آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ
 

مغزل

محفلین
جب یہ عالم ہو تو لکھیئے لب و رخسار پہ خاک
اڑتی ہے خانۂ دل کے در و دیوار پہ خاک

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

ہم نے مدت سے اُلٹ رکھا ہے کاسہ اپنا
دستِ زردار ترے درہم و دینار پہ خاک

پتلیاں گرمی نظارہ سے جل جاتی ہیں
آنکھ کی خیر میاں رونقِ بازار پہ خاک

جو کسی اور نے لکھا ہے اسے کیا معلوم
لوحِ تقدیر بجا، چہرہ اخبار پہ خاک

پائے وحشت نے عجب نقش بنائے تھے یہاں
اے ہوائے سرِ صحرا تری رفتار پہ خاک

یہ بھی دیکھو کہ کہاں کون بلاتا ہے تمھیں
محضرِ شوق پڑھو، محضرِ سرکار پہ خاک

آپ کیا نقدِ دو عالم سے خریدیں گے اسے
یہ تو دیوانے کا سر ہے سرِ پندار پہ خاک

یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اُڑا دی میں نے
جم رہی تھی مرے آئینۂ اشعار پہ خاک

عرفان صدیقی
 

مغزل

محفلین
’’شب ِ درمیاں‘‘
عرفان صدیقی

چڑیوں ، پھولوں ، مہتابوں کا
مرا منظر نامہ خوابوں کا

آنکھوں میں لوح خزانوں کی
شانوں پر بوجھ خرابوں کا

یا نصرت آج کمانوں کی
یا دائم رنگ گلابوں کا

اک اسم کی طاہر چادر میں
طے موسم دھوپ عذابوں کا
----------------------------------------
خدا کرے صفِ سردادگاں نہ خالی ہو
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے
-----------------------------------------
اے پرندو، یاد کرتی ہے تمھیں پاگل ہوا
روز اک نوحہ سرِ شاخِ شجر سنتا ہوں میں

لا ؤ اُس حرفِ دعا کا بادباں لیتا چلوں
سخت ہوتا ہے سمندر کا سفر ، سنتا ہوں میں
----------------------------------------
مہرباں قاتل کا ممنونِ کرم ہونے کو ہوں
اے غرور ِ جاں مدد کرنا کہ خم ہونے کو ہوں

اے خدا،کٹنے کو ہے تجھ سے زمیں کا رابطہ
دیکھ، میں دستِ دُعا ہوں اور قلم ہونے کو ہوں
--------------------------------------------
یہ لو سنبھال کے رکھنا اگر چراغ ہو تم
یہ رات ہے تو خدا اس کو طول بھی دے گا
------------------------------------------------
میرے بازوئے بریدہ کا کنایہ بھی سمجھ
دیکھ، تجھ کو مری بیعت نہیں ملنے والی

[اس زمین میں پھر افتخار عارف نے بھی غزل کہی:
زندگی بھر کی کمائی ہیں یہ مصرعے دوچار۔۔۔ ایسے مصرعوں سے توشہرت نہیں ملنے والی
]
( حاشیہ سید انور جاوید ہاشمی )​
 

مغزل

محفلین
عرفان صدیقی کے شعری مجموعے شب ِ درمیاں ۷۸۹۱ئ، کینوس ۰۹۹۱ئ، سات سماوات ۲۹۹۱ئ، عشق نامہ ۷۹۹۱ء لکھنوؤ و دہلی سے اور چاروں مجموعوں ،نئی شاعری سمیت کلیات [دریا اسلام آباد] شائع ہوئے۔ مالویکا اگنی متر[منظوم ترجمہ]اور رت سنگھار[منظوم ترجمہ] تجزیات ِ شاعری،کتابوں پر تبصرے و مضامین روزانہ انگریزی میں مضامین، شعبہ اطلاعات و نشریات لکھنوؤ کے افسر ریٹائر ہوکے پاکستان آئے کراچی میں خواجہ رضی حیدر،عرفان ستار،عزم بہزاد،لیاقت علی عاصم،سید انورجاوید ہاشمی،میر حامد علی کانپوری کی کانپوراکادمی نارتھ کراچی میں ایک شعری نشست میں ان کے ساتھ شریک ہوئے۔معروف شاعر و استاد جناب نیاز بدایونی کے برادر خورد بھتیجے کی شادی میں آئے تھے پھر اسلام آباد اپنے دوست توصیف تبسم اور افتخار عارف کے مہمان رہے وہاں سے کلیات ”دریا“ توصیف تبسم کی کوششوں سے شائع ہوئی تھی۔ (‌متن : سید انور جاوید ہاشمی)
 

مغزل

محفلین
غزل (عرفان صدیقی)

ا یسا تونہیں کہ اُن سے ملاقات نہیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نہیں ہوئی

بہتر یہ ہے کہ وہ تن ِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نہیں ہوئی

پیش ِ ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر گزر اوقات نہیں ہوئی

تیرے بغیر بھی غم ِ جاں ہے وہی کہ نہیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نہیں ہوئی

ہم کون پیر ِ دل زدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نہیں ہوئی

کیا سہل اُس نے بخش دیا چشمہ ِحیات
جی بھر کے سیر ِ وادی ِظلمات نہیں ہوئی

میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نہیں ہوئی

اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزت ِ سادات نہیں ہوئی

یاقوت لب تو کار ِ محبت کا ہے صلہ
اُ جرت ہوئی حضور یہ سوغات نہیں ہوئی

کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہوجییے
اب تک تری طرف سے شروعات نہیں ہوئی
---------------------------------

افضال احمد سید کے مجموعے ” خیمہ ِ سیاہ “ کی غزل میں ایسا ہی اک شعر ملتا ہے:
بانوئے شہر سے کہنا کہ ملاقات کرے
اُس سے ہم جنگ کریں گے وہ شروعات کرے
حاشیہ : سید انور جاوید ہاشمی​
 

مغزل

محفلین
چند متفرق اشعار:

اگر میں فرض نہ کرلوں کہ سن رہا ہے کوئی
تو پھر مرا سخن ِ بے زباں کہاں جائے
--------------------------------------
بس اپنا اپنا فرض ادا کررہے ہیں لوگ
تیغ ِ سناں اسی کی ہے، سر بھی اسی کا ہے
----------------------------------------
مجھے وہ آنکھ نہ دیکھے تو میں ہی سب سے خراب
وہ انتخاب جو کرلے تو بہترین بھی میں

دیکھتے دیکھتے دروازے نظر سے اوجھل
بولتے بولتے نقش ِ کفِ پا بھی خاموش
------------------------------------
اس نے پوچھاتھاکہ سر بیچنے والا ہے کوئی
ہم نے سرنامہِ جاں نذر گزارا ہے کہ ہم
----------------------------------------
زمیں پہ ہوگا کہیں آسماں ہمارا بھی
یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی
-----------------------------------------
اسی سفر پہ نکلتے ہیں رفتگاں کی طرح
اب انتظار کریں بستیاں ہمارا بھی

سوادِ قریہِ نامہرباں میں یاد آیا
کہ لکھنوؤ میں ہے اک مہرباں ہمارا بھی
-----------------------------------
کوئی سلطان نہیں میرے سوا میرا شریک
مسند ِ خاک پہ بیٹھا ہوں برابراپنے
------------------------------
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیں
کچھ پرچہ ِ سوال بھی آ سان چا ہیئے
---------------------------------
مطالعہ : سید انور جاوید ہاشمی
[ہمارے پاس عرفان صدیقی کے تین مجموعوں کی فوٹو کاپیاں ہیں کسی کو درکار ہے تو کاپی کروائی جاسکتی ہے!]​
 

مغزل

محفلین
فاتح صاحب آخری سطر آپ کے لیے بھی ہے ۔ ’’ صلائے عام ہے ویسے تو یہ ’’خبر‘‘ لیکن ‘‘
 

نوید صادق

محفلین
مغل بھائی۔

ہم سب یہ گلہ کر کے ایک طرف ہو جاتے ہیں کہ فلاں فلاں پر ناقدوں نے توجہ نہیں کی۔
اگر یہ گلے شکوے کرنے کی بجائے ہم ان لوگوں پر کام شروع کر دیں تو مزا نہ آ جائے۔
آپ کی عرفان صدیقی کے اشعار جمع کرنے کی کوشش کو سراہتا ہوں۔
 

نوید صادق

محفلین
ہمارے دل کو کوئی روگ ہے ایسا نہیں لگتا
کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں

تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا
ڈال دی میرے بدن نے تری تلوار پہ خاک

فی الحال یہی یاد آ رہے تھے۔
 

نوید صادق

محفلین
دلِ شوریدہ کو تہذیب سکھا بیٹھا ہوں
ورنہ دیوار مجھے روکنے والی تو نہیں

عذابِ جاں ہے عزیزو خیالِ مصرعہ تر
سو ہم غزل نہیں کہتے، عذاب ٹالتے ہیں
 

مغزل

محفلین
شکریہ نوید بھائی آپ سے فون پر بات ہوگی تو میں‌ایک عرض کرنا چاہوں گا عرفان صدیقی کی ان تین کتابوں کے حوالے سے ۔
 

مغزل

محفلین
لیجیے کچھ اور کلام :

غزل

زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے

عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے

وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے

یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے

خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

ّعرفان صدیقی
کتاب: سات سموٰات ۔ صفحہ۴۷۔
 
Top