عرفان صدیقی عرفان صدیقی --------------- متفرق کلام

مغزل

محفلین
زندہ رہنا تھا سو جاں نذرِ اجل کرآیا
میں عجب عقدہِ دشوار کو حل کرآیا

میں نے کی تھی صفِ اعدا سے مبارز طلبی
تیر لیکن صفِ یاراں سے نکل کرآیا

تو نے کیا سوچ کے اس شاخ پہ وارا تھا مجھے
دیکھ میں پیرہن ِ برگ بدل کرآیا

یہ ہوس ہو کہ محبت ہو، مگر چہرے پر
اِک نیا رنگ اسی آگ میں جل کرآیا

عرفان صدیقی:
صفحہ۱۹۔۔سات سماوات
 

مغزل

محفلین
میرا جسم اور کہیں میرا خیال اور کہیں
مجھ کو لے جائے گی یہ موج وصال اور کہیں
----------------------------------------
ابھی کھلا بھی نہ رختِ شوق دّی میں
کہ پھر ہمیں کششِ لکھنوؤ بلانے لگی
---------------------------------
عبارتیں جو ستاروں پہ ہم کو لکھنا تھیں
تری جبینِ ستارہ نما پہ لکھیں گے
---------------------------------------
 

مغزل

محفلین
غزل

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یااخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یااخی

شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمھارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر جام و در یااخی

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

جنگ کا فیصلہ ہوچکا ے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی

نہر اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہِ معتبر یااخی

زردپتوں کے بکھرے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یااخی

صفحات ۱۲۱ تا ۲۲۱ سات سماوات:: عرفان صدیقی ۔

(آپ اس طرح میں غزل پر عرفان ستار کی غزل تکرارسماعت میں بھی دیکھ سکتے ہیں )
ابھی ابھی سعود بھائی نے تعارف پیش کیا ہے عرفان ستار کی سائٹ کا۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
غزل

حلقہ ِ بے طلباں رنج ِ گراں باری کیا
اُٹھ کے چلنا ہی تو ہے کوچ کی تیاری کیا

ایک کوشش کہ تعلق کوئی باقی رہ جائے
سو تری چارہ گری کیا مری بیماری کیا

تجھ سے کم پر کسی صورت نہیں راضی ہوتا
دلِ ناداں نے دکھارکھی ہے ہشیاری کیا

قید خانے سے نکل آئے تو صحرا کا حصار
ہم سے ٹوٹے گی یہ زنجیر گرفتاری کیا

وہ بھی طرفہ سخن آراءہیں چلو یوں ہی سہی
اتنی سی بات پہ یاروں کی دل آزاری کیا


عرفان صدیقی کا مجموعہ سات سمٰوات لکھنوؤ صفحہ ۳۶ کی غزل
( نقل : سید انورجاویدہاشمی)​
 

مغزل

محفلین
رونق شہر سے مایوس نہ ہو بانوئے شہر
خاک اڑانے کو ترے بے سروسامان جو ہیں

رات کی رات فقیروں کی بھی دل داری کر
دائم آباد زمیں ہم ترے مہمان جو ہیں

-------------------------------


غزل

چھت پہ مہتاب نکلتا ہوا سرگوشی کا
اور پازیب کی جھنکار سے زینہ روشن

اجنبی دھوپ میں جلتےہوئے رشتوں کے شجر
گھر کے آنگن میں مناجات کا پودا روشن

کانپتے ہاتھوں میں دلدار دعاؤں کے چراغ
اور اشکوں کے ستاروں سے مصلیٰ روشن

سرپھری لہروں سے لڑتے ہوئے بازو تھک جائیں
پھر بھی آنکھوں میں رہے کوئی جزیرہ روشن

کل کی دنیا کی بنا ڈال رہا ہے کوئی
ننھے ہاتھوں میں ہے مٹی کا گھروندا روشن

آنکھیں ایسی ہوں کہ جل جائیں سیاہی کے ورق
انگلیاں ایسی کہ تحریر کا سینہ روشن

سات سموٰات : عرفان صدیقی
 

مغزل

محفلین
غزل

ملالِ دولتِ بردہ پہ خاک ڈالتے ہیں
ہم اپنی خاک سے پھر گنج ِ زر نکالتے ہیں

میں اپنے نقدِ ہنر کی زکوٰۃ بانٹتا ہوں
مرے ہی سکے مرے ہم سخن اچھالتے ہیں

بڑھاکے میرے معانی پہ لفظ کا زنگار
مرے حریف مرے آئنے اجالتے ہیں

سجا کے آئنہِ حرف پیشِ آئنہ
ہم اک کرن سے ہزار آفتاب ڈھالتے ہیں

عذاب ِ جاں ہے عزیزو خیالِ مصرع ِ تر
سو ہم غزل نہیں لکھتے عذاب ٹالتے ہیں


سات سماوات کی آخری غزل صفحہ ۲۵۱۔۔۔
حاشیہ: (دوسرا تیسرا شعر غالبا عرفان صدیقی نے افتخار عارف،جلیل عالی اور ان کے ڈکشن میں کہنے والوں کی طرف استعارتاً کہے ہیں۔۔۔۔سید انور جاوید ہاشمی)​
 

مغزل

محفلین
بابا جانی ۔ میں سموٰ‌ت کو نیٹ پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ اسے تحریر کیا جاسکے ۔والسلام
 

مغزل

محفلین
سات سمٰوات کو تحریر کیا جارہا ہے ۔ جلد ہی اسے مکمل ترتیب کے ساتھ یہاں اور وہاں پیش (ای بک کی شکل میں)‌پیش کردیا جائے گا۔والسلام
 

الف عین

لائبریرین
محمود۔لیکن کاپی رائٹ سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ اس کے دو حصے کر دو، اور ’کتاب سبع سمٰوات سے انتخاب‘ کے طور پر نئے نام سے شائع کی جائے۔میرا مشورہ ہے کہ باقی مجموعوں سے انتخاب جو میں کر رہا تھا، اسے ایسے ہی شائع کیا جائے ’محاورۂ جاں‘ کے نام سے اور اس ایک کتاب کو کیوں کہ مکمل تم تحریر کر رہے ہو، دو حصے کر دئے جائیں۔ ناموں کا مشورہ دو، کلام میں سے ہی برامد کر کے۔ عرفان کے پاس ترکیبوب کی کمی نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
غزل

تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یااخی
کتنے موسم لگے ہیں ہمارے بدن پر نکلنے میں یہ بال و پر یااخی

شب گزیدہ دیاروں کے ناقہ سواروں میں مہتاب چہرہ تمھارا نہ تھا
خاک میں مل گئے راہ تکتے ہوئے سب خمیدہ کمر جام و در یااخی

یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سرسبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کو اپنے لہو کا شجر یا اخی

جنگ کا فیصلہ ہوچکا ے تو پھر میرے دل کی کمیں گاہ میں کون ہے
اک شقی کاٹتا ہے طنابیں مرے خیمہ خواب کی رات بھر یا اخی

نہر اس شہر کی بھی بہت مہرباں ہے مگر اپنا رہوار مت روکنا
ہجرتوں کے مقدر میں باقی نہیں اب کوئی قریہِ معتبر یااخی

زردپتوں کے بکھرے بدن اپنے ہاتھوں پہ لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یااخی

صفحات ۱۲۱ تا ۲۲۱ سات سماوات:: عرفان صدیقی ۔

(آپ اس طرح میں غزل پر عرفان ستار کی غزل تکرارسماعت میں بھی دیکھ سکتے ہیں )
ابھی ابھی سعود بھائی نے تعارف پیش کیا ہے عرفان ستار کی سائٹ کا۔۔۔۔

شکریہ مغل بھائی۔ یہ کس طویل بحر میں ہے ؟
 

مغزل

محفلین
محمود۔لیکن کاپی رائٹ سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ اس کے دو حصے کر دو، اور ’کتاب سبع سمٰوات سے انتخاب‘ کے طور پر نئے نام سے شائع کی جائے۔میرا مشورہ ہے کہ باقی مجموعوں سے انتخاب جو میں کر رہا تھا، اسے ایسے ہی شائع کیا جائے ’محاورۂ جاں‘ کے نام سے اور اس ایک کتاب کو کیوں کہ مکمل تم تحریر کر رہے ہو، دو حصے کر دئے جائیں۔ ناموں کا مشورہ دو، کلام میں سے ہی برامد کر کے۔ عرفان کے پاس ترکیبوب کی کمی نہیں۔

یہ ٹھیک ہے بابا جانی ۔ میں مکمل کرلوں پھر کچھ کرتے ہیں اس بارے میں ویسے نام اگر آپ تجویز کریں تو مجھے خوشی ہوگی ۔
والسلام
 

الف عین

لائبریرین
محمود۔۔ بحروں کے نام سے تو میں بے بہرا ہوں۔ اس کے رکن تو فاعلن ہی ہیں جیسا تم نے لکھا ہے۔ مکمل نام کے لئے وارث کا انتظار۔
 

محمد وارث

لائبریرین

فاتح

لائبریرین
فاتح صاحب آخری سطر آپ کے لیے بھی ہے ۔ ’’ صلائے عام ہے ویسے تو یہ ’’خبر‘‘ لیکن ‘‘
یہ تو خوش نصیبی ہے کہ یہاں‌بھی ہمارے حصے میں تلچھٹ ہی آئی۔;) حضور لیتے آئیے گا اپنے ہمراہ کل کی ملاقات میں۔

عرفان صدیقی کے شعری مجموعے شب ِ درمیاں ۷۸۹۱ئ، کینوس ۰۹۹۱ئ، سات سماوات ۲۹۹۱ئ، عشق نامہ ۷۹۹۱ء لکھنوؤ و دہلی سے اور چاروں مجموعوں ،نئی شاعری سمیت کلیات [دریا اسلام آباد] شائع ہوئے۔ مالویکا اگنی متر[منظوم ترجمہ]اور رت سنگھار[منظوم ترجمہ] تجزیات ِ شاعری،کتابوں پر تبصرے و مضامین روزانہ انگریزی میں مضامین، شعبہ اطلاعات و نشریات لکھنوؤ کے افسر ریٹائر ہوکے پاکستان آئے کراچی میں خواجہ رضی حیدر،عرفان ستار،عزم بہزاد،لیاقت علی عاصم،سید انورجاوید ہاشمی،میر حامد علی کانپوری کی کانپوراکادمی نارتھ کراچی میں ایک شعری نشست میں ان کے ساتھ شریک ہوئے۔معروف شاعر و استاد جناب نیاز بدایونی کے برادر خورد بھتیجے کی شادی میں آئے تھے پھر اسلام آباد اپنے دوست توصیف تبسم اور افتخار عارف کے مہمان رہے وہاں سے کلیات ”دریا“ توصیف تبسم کی کوششوں سے شائع ہوئی تھی۔ (‌متن : سید انور جاوید ہاشمی)

مغل صاحب! یوں لگتا ہے کہ ہاشمی صاحب نے ان پیج میں لکھا تھا اور آپ نے شاید ان پیج سے اس مواد کو یونی کوڈ میں کنورٹ کیا ہے لیکن یوں اعداد الٹ گئے ہیں اور سن کیا سے کیا بن گئے ہیں۔ نیز عیسوی کی علامت بھی "ئ"ڈالی گئی ہے جو ان پیج کمپوزنگ کی معروف غلطی ہے۔ اس کی درستگی کر لیجیے۔
 
Top