عادت کب بدلتی ہے

عمر سیف

محفلین
مسافر تو بچھڑتے ہیں، رفاقت کب بدلتی ہے
محبت زندہ رہتی ہے، محبت کب بدلتی ہے

تمہی کو چاہتے ہیں ہم، تمہی سے پیار کرتے ہیں
یہی برسوں سے عادت ہے، یہ عادت کب بدلتی ہے

تمھیں جو یاد رکھا ہے، یہی اپنی عبادت ہے
عبادت کرنے والوں کی عبادت کب بدلتی ہے

کِلی کا پھول بننا اور بکھر جانا مقدر ہے
یہی قانونِ فطرت ہے یہ فطرت کب بدلتی ہے

جو دل پہ نقش ہو جائے، نگاہوں میں سمٹ آئے
علامت ہے یہ چاہت کی تو چاہت کب بدلتی ہے

پُرانے زخم کو ارشد بُھلا دینا ہی اچھا ہے
اگر چاہے نہ خود کوئی تو قسمت کب بدلتی ہے
 
Top