طلاق یافتہ اپنی عدت کہاں گزارے گی ؟

مبشر شاہ

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اکثر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ طلاق یافتہ خاتوں اپنی عدت کیا شوہر کے گھر میں گزارے گی یا پھر اپنے والدین کے گھر پر نیز وہ کتنے دن انتظار کرے گی جواب حاضر خدمت ہے ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
معلومات شئیر کرنے کا شکریہ۔ میری درخواست ہے کہ براہ مہربانی اپنے مضامین تحریری شکل میں پوسٹ کریں اور اپنا ٹیلی فون نمبر اپنی تحاریر میں شامل نہیں کریں۔
 

یوسف-2

محفلین
طلاق اور عدت کا ذکر قرآن مجید میں
٭ جن عورتوں کو طلاق دی گئی ہو، وہ تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رکھیں (بقرۃ:۲۲۸)
٭ اللہ نے مطلقہ عورتوں کے رحم میں جو کچھ خلق فرمایا ہو، اُسے چھپانا جائز نہیں ہے (البقرۃ:۲۲۸)
٭ جو کچھ تم اپنی بیوی کو دے چکے تھے، طلاق کے بعد اُسے واپس لینا جائز نہیں (البقرۃ:۲۲۹)
٭ عورتوں کو طلاق دے چکو تو بعد از عدت اُن کے نکاح کرنے میں رکاوٹ نہ ڈالو (البقرۃ:۲۳۲)
٭ عدت پوری ہونے تک عقد نکاح باندھنے کا فیصلہ نہ کرو (البقرۃ:۲۳۵)
٭ بعد از نکاح عورت کو ہاتھ لگانے سے قبل طلاق دینے میں کوئی گناہ نہیں (البقرۃ:۲۳۶)
٭ ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں نصف مہر دینا ہو گا (البقرۃ:۲۳۷)
٭ جنہیں طلاق دی جائے انہیں مناسب طور پر کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے (البقرۃ:۲۴۱)
٭ اے مومنو!اگر تم مومن عورتوں سے نکاح کے بعد انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے (الاحزاب:۴۹)
٭ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو اور عدت کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو (الطلاق :۱)
٭ عدت کے دوران نہ تم اُنہیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں (سورۃ الطلاق:۱)
٭ عدت کی مدت کے خاتمہ پر یا انہیں بھلے طریقے سے اپنے نکاح میں روک رکھو، یا بھلے طریقے سے اُن سے جدا ہو جاؤ۔ اور دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو تم میں سے صاحبِ عدل ہوں (الطلاق:۲)
٭ عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اُن کی عدت تین مہینے ہے۔ اور یہی حکم اُن کا ہے جنہیں ابھی حیض نہ آیا ہو (الطلاق:۴)
٭ اور حاملہ عورتوں کی عدت کی حد یہ ہے کہ اُن کا وضع حمل ہو جائے (الطلاق :۴)
٭ مطلقہ عورتوں کو عدت میں اُسی جگہ رکھو جہاں تم رہتے ہو، جیسی کچھ بھی جگہ تمہیں میسر ہو (الطلاق :۶)
٭ اور انہیں تنگ کرنے کے لیے ان کو نہ ستاؤ (طلاق :۶)
٭ اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر اُس وقت تک خرچ کرتے رہو جب تک ان کا وضع حمل نہ ہو جائے (الطلاق:۶)
٭ پھر اگر وہ تمہارے بچے کو دُودھ پلائیں تو ان کی اُجرت انہیں دو (الطلاق :۶)۔
٭ شوہر کے مرنے کے بعد بیوہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن تک روکے رکھے۔ (البقرۃ:۲۳۴)
٭ بیوہ عورتوں کو ایک سال تک شوہر کے گھر سے نہ نکالا جائے (البقرۃ:۲۴۰)

طلاق اور عدت کا ذکر احادیث میں​
٭ حلال اور جائز چیزوں میں اﷲ تعالیٰ کو سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز طلاق ہے (ابی داؤد)
٭ سخت تکلیف کے بغیر شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرنے والی پر جنت کی خوشبو حرام ہے (مسند احمد،ترمذی)
٭ عورتوں کو طلاق نہ دو ا لّا یہ کہ چال چلن مشتبہ ہو۔ ذائقہ چکھنے کے شوقین مردو زن نا پسندیدہ ہیں (طبرانی)
٭ کوئی عورت اپنی سوتن مسلمان بہن کو طلاق نہ دلوائے کہ اس کے حصہ کو بھی خود حاصل کر لے (بیوع، بخاری)
٭ نکاح،طلاق اور رجعت (ایک یا دو طلاق کے بعد رجوع کرنا)تین ایسی چیزیں ہیں جن کا ہنسی مذاق کے طور پر کہنا بھی حقیقت ہی کے حکم میں ہے (جامع ترمذی،سنن ابی داؤد)
٭ زبردستی کی طلاق اور زبردستی کے ’’عتاق‘‘ (غلام آزاد کرنا) کا اعتبار نہیں۔ (ابی داؤد ابن ماجہ)
٭ طلاق دورانِ حیض نہیں بلکہ ایامِ طہر میں مباشرت کئے بغیر دینا چاہئے
٭ طلاق بائنہ (غیر رجعی) کے بعد حلالہ کیے بغیر عورت پہلے شوہر کے پاس لوٹ نہیں جا سکتی (طلاق، بخاری)
٭ بیوہ کے لئے سرمہ لگانا جائز نہیں جب تک چار ماہ دس دن کی عدت نہ گزر جائے (طلاق، بخاری)
٭ دورانِ عدت بیوہ رنگین کپڑے، زیورات نہ پہنے نہ خضاب، مہندی یا سرمہ لگائے (ابی داؤد، نسائی)
٭ تین دن سے زیادہ سوگ منع ہے۔ شوہر کے انتقال پر چار مہینے دس دن سوگ کا حکم ہے (مسلم)

مندرجہ بالا قرآنی آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
  1. عورت مطلقہ ہو یا بیوہ، وہ اپنی عدت شوہر کے اُسی گھر میں گذارے گی، جہاں وہ قبل ازیں رہتی رہی ہے۔ بعد از طلاق دورانِ عدت نہ تو شوہر اُسے گھر سے نکال سکتا ہے نہ ہی بیوی گھر چھوڑ کر جاسکتی ہے۔ البتہ اگر بیوی کے کردار میں کوئی نقص ہو یا وہ فساد پر آمادہ ہو تب شوہر اُسے گھر سے نکال سکتا ہے۔ اسی طرح اگر مطلقہ کو بعد از طلاق سابقہ شوہر کے گھر میں رہ کر عدت گذارنے کی صورت میں شوہر یا سسرال کی طرف سے کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو تب وہ میکہ یا کہیں اور عدت گذارسکتی ہے۔
  2. طلاق رجعی (یعنی ایک یا دو طلاق) کے بعد شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی یا نامحرم نہیں ہوتے۔ بلکہ دوران عدت بیوی شوہر کے سامنے بن سنور کر آ جا سکتی ہے، بات چیت کر سکتی ہے۔ تاکہ شوہر کو ”رجوع“ کرنے کا ”موقع“ مل سکے۔ اگرمطلقہ بطور نامحرم الگ تھلگ رہ کر عدت گزارے گی تو شوہر ”رجوع“ کیسے کرے گا؟
  3. دوران عدت مطلقہ کا نان نفقہ سابق شوہر کے ذمہ ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
 

نیلم

محفلین
جزاک اللہ یوسف-2 انکل ہمارا معاشرہ جس میں ہم رہتے ہوئے بڑی بڑی باتیں تو ہم اسلام کی کرتے ہیں. لیکن جہاں پر عمل کا ٹائم آتا ہے ،وہاں ہم آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں ۔۔،،جہاں پہ عورت کو بے وجہ طلاق دے کر بھی، پھر اُس کے حقوق غضب کرنے کے چکروں میں بھی رہتے ہیں ،،عدت کے دوران گھر میں رکھنا اور اُس پہ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے اُس کا نان نفقہ بھی غضب کر جاتے ہیں ۔ہم لوگ مذہب کی باتیں کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور عمل دیکھو تو زیرو ہیں۔
کوئی حق مہر کھا رہا ہے
کسی کی نظر جہیز غضب کرنے پہ ہیں
کوئی نان نفقہ غضب کر جاتا ہے
اور ان کے علاوہ بھی ظلم کی کئی شکلیں ہٰیں ۔
"اگر کسی کا کردار دیکھنا چاہتے ہو تو اُس کا رویہ اُس کے اہل و اعیال کے ساتھ دیکھو کہ کیسا ہے۔"
اللہ ہم سب کو ہدایات دے ،،آمین
 

مبشر شاہ

محفلین
معلومات شئیر کرنے کا شکریہ۔ میری درخواست ہے کہ براہ مہربانی اپنے مضامین تحریری شکل میں پوسٹ کریں اور اپنا ٹیلی فون نمبر اپنی تحاریر میں شامل نہیں کریں۔
انشاءاللہ آئندہ آپ کی ترجیحات کا خیال رکھا جائے گا۔دراصل پی ڈی ایف میں کچھ فائلز اپلوڈ کی تھیں تو سوچھا کہ کیوں نہ محفل میں پیش کی جائیں
 

یوسف-2

محفلین
جزاک اللہ یوسف-2 انکل ہمارا معاشرہ جس میں ہم رہتے ہوئے بڑی بڑی باتیں تو ہم اسلام کی کرتے ہیں. لیکن جہاں پر عمل کا ٹائم آتا ہے ،وہاں ہم آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں ۔۔،،جہاں پہ عورت کو بے وجہ طلاق دے کر بھی، پھر اُس کے حقوق غضب کرنے کے چکروں میں بھی رہتے ہیں ،،عدت کے دوران گھر میں رکھنا اور اُس پہ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے اُس کا نان نفقہ بھی غضب کر جاتے ہیں ۔ہم لوگ مذہب کی باتیں کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور عمل دیکھو تو زیرو ہیں۔
کوئی حق مہر کھا رہا ہے
کسی کی نظر جہیز غضب کرنے پہ ہیں
کوئی نان نفقہ غضب کر جاتا ہے
اور ان کے علاوہ بھی ظلم کی کئی شکلیں ہٰیں ۔
"اگر کسی کا کردار دیکھنا چاہتے ہو تو اُس کا رویہ اُس کے اہل و اعیال کے ساتھ دیکھو کہ کیسا ہے۔"
اللہ ہم سب کو ہدایات دے ،،آمین

متفق۔ ہمارے معاشرے میں یہ سب بہت عام ہوچکا ہے۔ جس کی ایک بنیادی وجہ دین کے بنیادی مآخذ قرآن و حدیث سے دوری ہے۔ ہم بالعموم قرآن و حدیث کو سمجھ کر پڑھتے ہی نہیں۔ دیگر وجوہات میں شوہروں میں ”مردانہ غیرت“ کی بتدریج کمی، نکھٹو اور کام چوری جیسی صفات کا پیدا ہونا سر فہرست ہے۔ (ایک ”بے غیرت مرد“ ہی اپنی بیوی پر اس قسم کے ظلم کرسکتا ہے) اب تو ”نئے جوڑوں“ میں مجھے اکثر ایسے شوہر بھی نظر آتے ہیں جو بیوی سے کم تعلیم یافتہ بھی ہیں اور محنت سے بھی جان چراتے ہیں۔ نہ نوکری کرنا پسند کرتے ہیں نہ کوئی اپنا کام کرنا۔ بلکہ اس بات کے انتطار میں رہتے ہیں کہ بیوی کما کر لائے اور وہ گھر بیٹھ کر کھائیں۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے ہی نام نہاد شوہروں کی وجہ سے گھروں میں لڑائی جھگڑے اور طلاقوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بس اللہ سے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستانی مردوں کو اس قسم کی ”نامردی“ سے محفوظ کرے۔ ہماری خواتین کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی ایسی ”تعلیم و تربیت“ کریں کہ وہ اس قسم کے شوہر بننے سے بچے رہیں۔ آمین ثم آمین
 

شمشاد

لائبریرین
جزاک اللہ یوسف-2 انکل ہمارا معاشرہ جس میں ہم رہتے ہوئے بڑی بڑی باتیں تو ہم اسلام کی کرتے ہیں. لیکن جہاں پر عمل کا ٹائم آتا ہے ،وہاں ہم آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں ۔۔،،جہاں پہ عورت کو بے وجہ طلاق دے کر بھی، پھر اُس کے حقوق غضب کرنے کے چکروں میں بھی رہتے ہیں ،،عدت کے دوران گھر میں رکھنا اور اُس پہ خرچ کرنا تو دور کی بات ہے اُس کا نان نفقہ بھی غضب کر جاتے ہیں ۔ہم لوگ مذہب کی باتیں کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور عمل دیکھو تو زیرو ہیں۔
کوئی حق مہر کھا رہا ہے
کسی کی نظر جہیز غضب کرنے پہ ہیں
کوئی نان نفقہ غضب کر جاتا ہے
اور ان کے علاوہ بھی ظلم کی کئی شکلیں ہٰیں ۔
"اگر کسی کا کردار دیکھنا چاہتے ہو تو اُس کا رویہ اُس کے اہل و اعیال کے ساتھ دیکھو کہ کیسا ہے۔"
اللہ ہم سب کو ہدایات دے ،،آمین

پھر اللہ کا عذاب بھی آتا رہتا ہے جو کہ پاکستان میں نظر بھی آتا ہے۔
 
سوال تھا کہ عورت عدت کی مدت کہاں گذارے گی؟
جواب میں جو آیات پیش کی گئی ہیں ان کا تعلق عدت کی مدت سے ہے لیکن ان آیات میں عورت کے رہنے کی جگہ کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ایک عقد نکاح یعنی شادی کرنے کا معاہدہ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ شادی کے اس معاہدے کے مطابق جب ایک مرد نے اس معاہدے کو توڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو اب سوال یہ ہے کہ اب وہ مرد کہاں جائے گا نا کہ عورت؟ اس لئے کہ سادی کا معاہدہ توڑنے کا فیصلہ اور اپنے اس کاروبار زندگی سے الگ ہونے کا فیصلہ مرد کا اپنا، اس کی مرضی کا فیصلہ ہے۔

آئیے اللہ تعالی کا حکم دیکھتے ہیں۔

سورۃ طلاق ، آیت نمبر ایک:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

اس آیت سے صرف اور صرف ایک معانی نکلتے ہیں کہ ایک نیک عورت کو اس کے گھر سے نہیں نکالا جائے۔ یہ اللہ کی حد ہے۔

اس عورت کو کہاں رکھا جائے اور یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
سورۃ طلاق آیت نمبر 6
أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَی
تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو اُن پر خرچ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جَن لیں، پھر اگر وہ تمہاری خاطر (بچے کو) دودھ پلائیں تو انہیں اُن کا معاوضہ ادا کرتے رہو، اور آپس میں (ایک دوسرے سے) نیک بات کا مشورہ (حسبِ دستور) کر لیا کرو، اور اگر تم باہم دشواری محسوس کرو تو اسے (اب کوئی) دوسری عورت دودھ پلائے گی

طلاق کے بعد الگ ہوجانے والے اپنی مطلقہ بیویوں سے معاہدہ نکاح ختم کرنے کے بعد بھی اپنی سابقہ بیوی کے رہائش کے ذمے دار رہیں گے۔ اور وہ خاتون اسی طرح کی رہائش میں رہیں گی جس طرح کی وسعت ان کے شوہر کی ہے۔

یہ بات بہت سے لوگوں کو آسانی سے ہضم نہیں ہوتی۔۔۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کیا آپ پسند کریں گے کہ آپ کی والدہ محترمہ کی حق تلفی کی جائے کہ ان کو طلاق دے کر ان کے گھر سے باہر کھڑا کردیا جائے۔ اور وہ مرد جس نے ان سے شادی کرکے بچوں کے ساتھ باندھ دیا اب ساری ذمہ داری ماں پر ڈال کر الگ ہو کر دوسری شادی رچانے اور ایک اور عورت کو اس صورت حال میں مبتلا کرنے کے لئے پھر آزاد ہو؟

اگر آپ کو اللہ تعالی کا حکم پسند نہیں آتا ہے تو اس مسئلے پر بحث کرنے کے لئے صرف اور صرف قرآن حکیم سے حوالہ دے کر بحث فرمائیے ۔

والسلام
 
ایک اور حوالہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 240 کا دیا گیا ہے۔

2:240 وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِّأَزْوَاجِهِم مَّتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ فَإِنْ خَرَجْنَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ فِيَ أَنفُسِهِنَّ مِن مَّعْرُوفٍ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوں اور (اپنی) بیویاں چھوڑ جائیں ان پر لازم ہے کہ (مرنے سے پہلے) اپنی بیویوں کے لئے انہیں ایک سال تک کا خرچہ دینے (اور) اپنے گھروں سے نہ نکالے جانے کی وصیّت کر جائیں، پھر اگر وہ خود (اپنی مرضی سی) نکل جائیں تو دستور کے مطابق جو کچھ بھی وہ اپنے حق میں کریں تم پر اس معاملے میں کوئی گناہ نہیں، اور اﷲ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے

یہاں نا نکالے جانے کی مدت ایک سال نہیں ہے بلکہ دائمی ہے۔ طلاق یا بیوگی، عورت اسی گھر میں رہے گی جہاں وہ رہتی ہے۔

والسلام
 

یوسف-2

محفلین
1۔ مطلقہ کے بارے میں سورۃ طلاق آیت ایک میں عدت شمار کرنے کے پس منظر میں کہا گیا ہے کہ انہیں (دورانِ عدت) گھروں سے نہ نکالو اور انہیں اُسی گھر میں رکھو الا یہ کہ ۔۔۔ یہ کہیں واضح نہیں ہوتا کہ طلاق کے بعد مطلقہ دائمی طور پر اپنے سابقہ شوہر کے گھر رہنے اور نان نفقہ کی حقدار ہوگی۔ رہائش اور نان نفقہ کسی عورت کا اُسی وقت حق بنتا ہے جب وہ کسی مرد کو اپنا شوہر تسلیم کرکے حقوق زوجیت ادا کرے۔ طلاق رجعی کے بعد چونکہ دوران عدت مطلقہ اپنے سابقہ شوہر کو شریعت کے مطابق یہ حق ”دیتی“ ہے کہ وہ چاہے تو رجوع کر کے عورت سے استفادہ کرسکتا ہے، لہٰذا اس ”آفر“ کے جواب میں اُسے نان نفقہ اور رہائش کی سہولت شوہر کی طرف سے ملتی ہے۔ طلاق مکمل ہونے، عدت پوری ہونے اور دونوں کا ایک دوسرے کے لئے مکمل نامحرم بن جانے کے بعد مطلقہ کا شوہر کے گھر میں رہنا یا اس شوہر سے نان نفقہ کا حق مانگنا غیر منطقی ہے۔ اور یہ شوہر پر ”ظلم“ بھی ہے۔ نہ تو قرآن میں، نہ احادیث میں اور نہ ہی سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ میں اس کی کوئی نظیر ملتی ہے کہ کبھی کسی مطلقہ کو بعد از مدت عدت دائمی طور پر نان نفقہ یا رہائش کا حق دیا گیا ہو، خواہ مطلقہ نے دوسری شادی کی ہو یا نہیں۔ اگر کوئی ایسی مثال ملتی ہو تو پیش کی جائے۔

2۔ جب بیوہ کا نان نفقہ ایک سال تک کے لئے ہے تو اُسے رہائش کی سہولت دائمی کیسے مل سکتی ہے؟ کیا رہائش نان نفقہ (خرچہ ) سے کوئی علیحدہ چیز ہے؟ اس ”دائمی رہائش“ کی وضاحت کم از کم اس آیت مبارکہ سے تو نہیں ملتی۔ اگر کوئی اور آیت یا حدیث میں بیوہ کو دائمی رہائش دینے کی وضاحت ملتی ہو تو یہاں ضرور شیئر کی جائے۔ ویسے بیوہ کو دائمی رہائشی سہولت منجانب سسرال عملاً بھی ممکن نہیں ہے۔ اگر شوہر کی زندگی میں فراہم کردہ گھر کرایہ کا ہے تو اس کا کرایہ شوہر ادا کرتا تھا۔ اس کے مرنے کے بعد اُس کے ترکہ میں سے (یا سسرال کی طرف سے) سال بھر کا کرایہ تو دیا جاسکتا ہے۔ بیوہ کو عمر بھر اس گھر کا کرایہ کون دے گا اور کیوں دے گا؟ اور اگر گھر شوہر کی ملکیت تھا تو اس کے مرنے کے بعد یہ گھر وراثت میں تقسیم ہوگا۔ جس میں بیوہ، مرحوم کے والدین اور بچے حصہ دار ہیں۔ گھر یا اس کو فروخت کرکے اس کی رقم وراثت میں تقسیم ہوگی تو پھر بیوہ اسی گھر میں دائمی طور پر کیسے رہے گی؟ کیا مرحوم شوہر کی وراثت بیوہ کے مرنے کے بعد تقسیم ہوگی؟؟؟ یہ ایک غیر منطقی سی بات ہے۔

اصل میں ہم لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یا تومطلقہ اور بیوہ کو دوران عدت ہی نکال باہر کرتے ہیں۔ یا پھر ان کے اتنے ”خیر خواہ“ ہوجاتے ہیں کہ مطلقہ اور بیوہ کو تاحیات رہائشی سہولت کی بات کرنے لگتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ سارے حقوق عورتوں کے ہی نہیں بلکہ کچھ ”حقوق“ مردوں کے بھی ہوتے ہیں۔:)
 
ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ برادران غیر متفق ہیں۔ ان کے لئے یہ مثال پیش کرتا ہوں۔ آپ میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہوجائیں، اس کے لئے اپنا سارا مال متاع بیچ دیں، ایک دن میں طے کرتا ہوں کہ میں اس کاروبار کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔ چونکہ میں کاروبار کو چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں، اس لئے آپ سب کچھ چھوڑ کر چلے جائیں۔ اگر میں ایسی ڈیمانڈ کروں تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا؟؟؟؟

شادی کاروبار زندگی ہے، اس میں عورت اپنا سب کچھ ڈالتی ہے، وہ کچھ جو کہ واپس نہیں ہوسکتا، زندگیاں وجود میں آتی ہیں۔ گھر بنتے ہیں، قومیں بنتی ہیں اور ملک بنتے ہیں۔ ان قوموں اور ملکوں کی معمار ہماری یہی محترم مائیں ہوتی ہیں ۔ ان کے شوہر کے دل میں ایک دن یہ بات آئے کہ وہ اب اس کاروبار زندگی کا حصہ نہیں رہنا چاہتے تو ان حضرت کو خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس بے چاری ماں کو نکال باہر کیا جائے؟؟؟

رب عظیم کا انصاف اس معاملے میں ظاہر ہے کہ جو مرد طلاق دینا چاہتا ہے اور اپنی مرضی سے وہ اپنا گھر چھوڑے اور آگے بڑھے۔ اللہ تعالی کی آیات سے صرف اور صرف کتاب پر ایمان لانے والے ہی متفق ہوسکتے ہیں :)

والسلام
 
یہ کہاں لکھا ہے کہ عدت کی مدت کے دوران ہی عورت کو اس کے گھر میں رہنے کا حق ہے؟ مجھے حوالہ فراہم کیجئے۔

بائی دی وے، آپ کی شرط مجھے بہت ہی پسند آئی ہے ۔ شکریہ۔ آپ کی شرائط پر آپ کے لئے پیشکش ہے کہ آپ اپنے سب اثاثے بیچ کر میرے ساتھ کاروبار میں پیسہ لگادیجئے اور جس دن میرا دل اس کاروبار سے باہر نکلنے کا چاہا تو آپ باہر ، سب کچھ میرا۔۔۔ کیوں کیا خیال ہے؟؟؟

اگر آپ اپنے مال کو اس طرح لگانے کے لئے تیار نہیں ہیں تو ایک کمزور عورت کیوں کہتے ہیں کہ اپنا سب سے بڑا اثاثہ اپنی عزت اس طرح عقد نکاح یعنی شادی کے معاہدے میں باندھے؟؟؟؟ اور جب آپ کی مرضی ہوئی ، آپ بچے، گھر، رہائش، عزت، نان و نفقہ سب سے محروم کردیں گے؟؟؟
 

یوسف-2

محفلین
فلسفی کو بحث میں خدا ملتا نہیں :)
ڈور کو سلجھا رہے ہیں اور سرا ملتا نہیں​
اسلام میں انفرادی خود ساختہ منطق یا عقل کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اسلامی تعلیمات کے تین بنیادی مآخذ قرآن، حدیث، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا سیرت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے حوالہ سے یہ نکتہ ثابت کیجئے کہ:
مطلقہ یا بیوہ ساری عمر اپنے سابقہ یا مرحوم شوہر کے گھر رہنے کا حق رکھتی ہے
 
آیات پیش کرچکا ہوں ، اب کون سا ثبوت چاہئے؟ ان آیات میں صاف صاف لکھا ہے کہ
65:1 اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں
65:6 - تم اُن (مطلّقہ) عورتوں کو وہیں رکھو جہاں تم اپنی وسعت کے مطابق رہتے ہو اور انہیں تکلیف مت پہنچاؤ کہ اُن پر (رہنے کا ٹھکانا) تنگ کر دو

آپ کو ان آیات میں کیا قابل قبول نہیں ہے۔ آپ نے یہ کیوں فرض کرلیا ہے کہ یہ حکم صرف اور صرف عدت کے دوران کا ہے؟ کس بات یا نکتے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم عارضی طور پر رہائش کے بارے میں ہیں؟ کس حکم کا آپ انکار کرتے ہیں؟؟؟
 

یوسف-2

محفلین
  1. دائمی رہائش کی فراہمی کے ضمن میں اوپر پیش کی گئی کسی منطقی دلیل کا جواب ندارد؟
  2. ان آیات میں کہیں بھی ”دائمی رہائش“ کی فراہمی کا ذکر نہیں ہے۔
  3. دائمی رہائش جیسے اتنے اہم مسئلہ کا کوئی ثبوت کسی واضح صحیح حدیث سے بھی پیش نہیں کیا
  4. دور رسالت و صحابہ سے ایسی کوئی ایک واحد مثال بھی پیش نہیں کی گئی کہ کسی مطلقہ یا بیوہ کا دائمی رہائش فراہم کی گئی۔ کیا یہ حکم ہوا میں معلق تھا کہ اس کا کوئی عملی ثبوت ہی نہیں؟
جب ان میں سے کوئی دلیل یا سند آپ کے پاس نہیں ہے تو پھر آپ سے کیا مکالمہ کیا جائے۔ اسلام میں نہ آپ کی ذاتی رائے کی کوئی حیثیت ہے نہ میری رائے کی۔ الا یہ کہ ہم قرآن و حدیث اور سیرتوں سے اس کے ثبوت پیش کریں۔ اس مراسلہ کے بعد مجھے کچھ اور نہیں کہنے کی ضرورت نہیں۔ :)

محترم مفتی مبشر شاہ صاحب: آپ یہ دھاگہ شروع کرکے غالباً مصروف ہوگئے ہیں یا آپ کوعام محفلین سے مکالمہ کرنا پسند نہیں۔ یہ ایک اوپن فورم ہے۔ یہاں ہر ایک کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ دھاگہ کا آغاز کرنے والے کی حیثیت سے یہ آپ کا اخلاقی فریضہ بنتا ہے کہ اس مراسلہ کے مکالموں پر اپنی رائے دیجئے۔ ایک مفتی کی حیثیت سے آپ کا یہ فرض مزید بڑھ جاتا ہے کہ ہم محفلین کی رہنمائی فرمائیں، اگر ہم غلط ہیں تو۔ والسلام
 
Top