طالب کی پیاس اور طلب ہے کہ ۔۔۔ کیا کہوں۔۔ توجہ فرمائے

حقیقت یا فسانہ کر گیا ہے
مگر مجھ کو دیوانہ کر گیا ہے

مِرے ہی جسم کا وہ عضو بن کر
بدن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے

دل مکانوں جیسا لگتا تھا
مگر وہ آشیانہ کر گیا ہے

لوگ جاتے بھی نہ تھے جس جگہ پر
وہ ہی گھر آستانہ کر گیا ہے

کوئی کرتا متکبّر اظہر
مگر تو عاجزانہ کر گیا ہے​
 

محمد وارث

لائبریرین
دل مکانوں جیسا لگتا تھا

لوگ جاتے بھی نہ تھے جس جگہ پر

کوئی کرتا متکبّر اظہر

بے بحر مصرعے ہیں، پھر کہیے!
 

محمد وارث

لائبریرین
حقیقت یا فسانہ کر گیا ہے
مگر مجھ کو دیوانہ کر گیا ہے

یوں کیسا رہے گا

حقیقت کو فسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے
 
السلامُ علیکُم جناب وارث صاحب،
ممنون و مشکور کہ آپ کی توجہ بھی نصیب ہوئی
بجا فرمایا مطلعع وہی جو آپ نے فرمایا، بس فرمایے میرے علم کے لیے کہ " دوانہ" بھی کیا بمعنیٰ دیوانہ ہی آے گا؟
جزاک اللہ خیر
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
دیوانہ اور دوانہ ہم معنی ہیں، جہاں مکمل نہ آ سکے وہاں ’دوانہ‘ لایا جا سکتا ہے۔ مطلع کی اصلاح درست کی ہے وارث نے، شکریہ وارث۔
دوسرے مصرعوں کا وزن بھی دیکھیں جن کی نشان دہی وارث نے کی ہے۔
ہاں۔ ایک بات اور۔۔ ’وہ ہی‘ کی جگہ ’وہی‘ وزن میں آتا ہے۔ یونی
وہی گھر آستانہ کر گیا ہے
 
حقیقت کوفسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے

مِرے ہی جسم کا وہ عضو بن کر
بدن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے

یوں تو دل ویرانہ بن گیا تھا
مگر وہ آشیانہ کر گیا ہے

گزر انساں کا ہوتا ہی نہ تھا
وہی گھر آستانہ کر گیا ہے

کوئی کرتا نہ مگر تو اظہر
اِسے بھی عاجزانہ کر گیا ہے

اب دیکھیے تو اُستاد جی
 

محمد وارث

لائبریرین
یوں تو دل ویرانہ بن گیا تھا

گزر انساں کا ہوتا ہی نہ تھا

کوئی کرتا نہ مگر تو اظہر

ابھی بھی درست نہیں ہیں۔ پھر کہیے، اس بحر کا وزن مفاعیلن مفاعیلن فعولن ہے

م فا عی لن 1 2 2 2
م فا عی لن 1 2 2 2
ف عو لن 1 2 2
 
حقیقت کوفسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے

مِرے ہی جسم کا وہ عضو بن کر
بدن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے

یہ دل تو تھا مرا ویرانہ لیکن
مگر وہ آشیانہ کر گیا ہے

گزرتا تھا نہیں انساں جہاں سے
وہی گھر آستانہ کر گیا ہے

تکبُّر سے نہ کرتا کؤی اظہر
اِسے بھی عاجزانہ کر گیا ہے


یہ- دل- تو- تھا----مفاعیلن
م - را -وی - را-----مفاعیلن
نہ لے- کن-----فعولن


گ - زر-تا-تھا----مفاععیلن
ن-ہیں-ان-ساں-----مفاعیلن
ج-ھاں-سے------فعولن


ت-کب-بر-سے----مفاععیلن
نہ-کر-تا-کو-----مفاععیلن
ءی-اظ-ہر-----فعولن


آستادِ گرامی،
اب صحیع ہے کیا؟
والسلام
اظہر
 

محمد وارث

لائبریرین
ہاں اب آپ کے تمام مصرعے وزن میں ہیں لیکن اب ہی صحیح کام شروع ہوا ہے :)

مطلع کے بعد چاروں اشعار میں کچھ نہ کچھ مسئلہ ہے مثلاً دوسرے شعر میں مطلب واضح نہیں ہے، عضو بننا، کیسے؟ اور وہ بھی اب، کیوں؟ تیسرے شعر میں 'لیکن اور مگر' دونوں ایک ہی مطلب دے رہے ہیں۔ چوتھے شعر میں 'گزرتا تھا نہیں' تبدیلی چاہتا ہے اور گزرا گلی میں یا سڑک پر جاتا ہے نہ کہ گھر میں۔ مقطع کی موجودہ صورت سے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ شاعر کہنا کیا چاہتا ہے۔
 
حقیقت کوفسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے

مِرے ہی قلب کا وہ حصہ بن کر
بدن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے

یہ دل تو تھا مرا ویرانہ لیکن
اُسے وہ آشیانہ کر گیا ہے

گزرتا تھا نہیں انساں جہاں سے
وہی در آستانہ کر گیا ہے

تکبُّر سے بھرا تھا ذہن اظہر
اِسے وہ عاجزانہ کر گیا ہے


یہ- دل- تو- تھا----مفاعیلن
م - را -وی - را-----مفاعیلن
نہ لے- کن-----فعولن


گ - زر-تا-تھا----مفاععیلن
ن-ہیں-ان-ساں-----مفاعیلن
ج-ھاں-سے------فعولن


ت-کب-بر-سے----مفاععیلن
بھ-را--تھا--ذ ہ---مفاععیلن
ن--اظ-ہر-----فعولن


آستادِ محترم،
بلا شبہ آپ کی بات درست ہے، ایک کوشش اور کی ہے ملاحضہ کیجیے
مشکور
اظہر​
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب اظہر صاحب، اگر اساتذہ گستاخی نہ سمجھیں اور آپ برا نہ منائیں تو اب بھی غزل میں کچھ خم ہیں مثلاُ---
گزرتا تھا نہیں انساں جہاں سے
وہی در آستانہ کر گیا ہے

اور اس شعر میں تکبُّر سے بھرا تھا ذہن اظہر
اُسے بھی عاجزانہ کر گیا ہے

اور اس شعر میں بھی "اُسے" کی جگہ شاید "اِسے" آنا چاہئیے اور "بھی" کی جگہ "وہ"۔

شکریہ۔
 
حقیقت کوفسانہ کر گیا ہے
مجھے وہ یوں دوانہ کر گیا ہے

مِرے ہی قلب کا وہ حصہ بن کر
بدن میں اب ٹھکانہ کر گیا ہے

یہ دل تو تھا مرا ویرانہ لیکن
اُسے وہ آشیانہ کر گیا ہے

کسی کے راستے میں ہی نہیں تھا
وہی در آستانہ کر گیا ہے

تکبُّر سے بھرا تھا ذہن اظہر
اِسے وہ عاجزانہ کر گیا ہے


یہ- دل- تو- تھا----مفاعیلن
م - را -وی - را-----مفاعیلن
نہ لے- کن-----فعولن


ک- سی--کے--را--مفاععیلن
س--تے-میں--ہی-----مفاعیلن
ن-ہیں-تھا------فعولن


ت-کب-بر-سے----مفاععیلن
بھ-را--تھا--ذ ہ---مفاععیلن
ن--اظ-ہر-----فعولن


اُستادِ گرامی ،
آپ کی اجازت متصور کرتے جناب راجہ صاحب کی تجاویز نافز کر دیں ہیں، گستاخی معاف اگر برا لگے تو
والسلام
اظہر​
 

محمد وارث

لائبریرین
مطلع و مقطع درست ہیں اب۔

تیسرا اور چوتھا شعر قابلِ قبول کہے جا سکتے ہیں، تیسرے میں 'یہ دل' کے ساتھ 'اُسے' نہیں آئے گا، 'اِسے' کر دیں۔

'ذہنِ اظہر' کے ساتھ مجھے 'اِسے' کہ بجائے 'اُسے' ہی صحیح لگ رہا ہے۔

دوسرے شعر کا مطلب سمجھنے سے میں ابھی بھی قاصر ہوں، شاید آپ سمجھا سکیں :)
 
Top