فاتح

لائبریرین
تو کیا " میں " کو بروزن ف لیا جا سکتا ہے۔۔۔۔

اور " صوتِ جَرَس " کو شاعری میں کس مطلب پر استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔اور اس کا وزن بھی بتا دیجیئے۔۔۔

جی بالکل درست فرمایا آپ نے۔ میں کو فا اور فَ دونوں طرح باندھا جاتا ہے۔
نون غنہ کا تو کوئی وزن ہی نہیں ہوتا اس میں اور یوں یہ "مے" ٹھہرا جس کا وزن "فا" ہو گا اور اگر اسے اخفا کے ساتھ پڑھا جائے تو "مے" کی ے گر جاتی ہے اور یہ محض مَ بچتا ہے جس کا وزن "فَ" ہے۔

صوت بمعنی آواز ('صَ و ت' بر وزن فاع)
اور جرس بمعنی گھنٹی ('جَ رَ س' بر وزن فعو)
صوتِ جَرَس یعنی گھنٹی کی آواز
یارانِ تیز گام نے محمل کو جا لیا
ہم محوِ نالۂ جرسِ کارواں رہے
صوت کی کسرہ کو یا سے بھی بدلا جا سکتا ہے یعنی صوتِ بر وزن فاع بھی ہو سکتا ہے اور صوتِ کو صوتے بر وزن فعلن بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
اس کے علاوہ منہ کو کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے

اس سے قبل کہ اس کے وزن بارے کچھ کہوں اس لفظ کے متعلق یہ دیکھ لیں کہ یہ ہے کن حروف کا مجموعہ۔
منہ دراصل ہندی کا لفظ ہے جو م، نون غنہ اور ہ کا مجموعہ ہے۔ بعض اوقات اسے م اور نھ کا مجموعہ بھی کہا جاتا ہے۔
منہ کو کسی زمانہ میں‌مونہ بھی لکھا گیا مگر اب عرصہ دراز سے منہ ہی لکھا جاتا ہے۔
منہ کا وزن فَا مانا جاتا ہے اور یہی وزن غالب نے بھی باندھا مثلاً
منہ نہ کھلنے پرہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا
یا
آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا​

چونکہ یہ ہندی لفظ ہے جس کی ہ گرائی جا سکتی ہے اور نون غنہ بھی تو اس طرح اس کا وزن محض فَ بھی کیا جا سکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایک دور میں اس کی املا مونہ بھی لکھی گئی تھی تو اس املا کے باعث شاعری میں بھی اس لفظ کا وزن فاع کیا گیا جو میری رائے میں غلط ہے اور فی الحال کوئی مثال بھی نہیں ملی۔
 

الف عین

لائبریرین
شخص کا یہی تو تلفظ ہوتا ہے اور اسی طرح باندھا جاتا ہے۔ بر وزن فعل۔ بر وزن فعو، شَخَص کہاں بولا جاتا ہے؟ ذرا مجھے بھی پتہ چلے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فقط 'فع' یا 2، وجہ یہ کہ نون غنہ کا وزن ہی نہیں ہوتا اور 'ی' کی آواز اس ہندی لفظ میں آدھی ہے مکمل نہیں اور اس طرح کی آواز کا کوئی وزن عروض میں شمار نہیں کیا جاتا، جیسے 'کیا' استفہامیہ میں بھی 'ی' کا وزن نہیں ہے اور اس طرح کے دیگر کئی الفاظ، یعنی کیوں کا وزن صرف 'کو' ہے جو فع یا 2 ہے۔

بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے
تم اچھے مسیحا ہو شفا کیوں نہیں دیتے

(فیض)

اور

خاموش ہو کیوں دادِ جفا کیوں نہیں دیتے
بسمل ہو تو قاتل کو دعا کیوں نہیں دیتے

(فراز)

دونوں غزلوں کی ردیف میں 'کیوں' ہے، اچھی پریکٹس ہو سکتی ہے!
 
معافی چاہتا ہوں، صاحبان!
اولاً تو اس بات پر کہ اس تاگے سے بے خبر رہا۔
ثانیاً ۔۔۔۔ عرض کرتا ہوں:

ہم سارے دوست یہاں ایک عمومی فروگزاشت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
یہ بات جزوی طور پر درست ہے کہ عروضی حوالے سے ہر لفظ کا ایک متعینہ ’’وزن‘‘ ہوتا ہے۔ شعر میں ہم حسبِ موقع الف، واو، یاے، ہاے کو گرا سکتے ہیں (اِخفاء) بشرطے کہ کوئی اور امر مانع نہ ہو۔ اس طرح کہیں کہیں تو لفظ کی املاء بھی بدل جاتی ہے اور کہیں یہ ہوتا ہے کہ املاء تو نہیں بدلتی اس کا عروضی وزن موقع کے مطابق بدل جاتا ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی لفظ پر انفرادی طور پر بحث کریں کہ اس کا وزن کیا ہے تو اِس میں ہمیں یہ ملحوظ رکھنا پڑے گا، کہ ایک شعر میں اس کا وزن یہ ہے تو دوسرے میں وہ ہے۔
دو لفظوں کے اشتراک میں اِخفاء کے علاوہ ایک صورت اشباع کی بھی ہو سکتی ہے کہ مرکب اضافی اور مرکب توصیفی میں زیر کو طویل کر کے یاے کے برابر کر دیتے ہیں۔

مثال کے طور پر:
اُسے صبحِ اَزَل اِنکار کی جرأت ہوئی کیونکر​
مجھے معلوم کیا وہ راز داں تیرا ہے یا میرا​

اور
مرا عیش غم مرا شہد سم مری بود ہم نفسِ عدم​
ترا دل حرم گروِ عجم ترا دیں خریدہءِ کافری​
۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 
اُسے صبحِ اَزَل اِنکار کی جرأت ہوئی کیونکر​
مجھے معلوم کیا وہ راز داں تیرا ہے یا میرا​

اس کی ’’املائے اصوات‘‘:
اُ سے صُب حے اَ زل اِن کا ر کی جُر ءَت ہُ ئی کُو کر​
مُ جے مع لُو م کا وہ را ز دا تے را ہ یا مے را​
م فا عی لُن م فا عی لُن م فا عی لُن م فا عی لُن​
یہاں (یعنی اس شعر میں)​
’’صبحِ ازل‘‘ میں حاے مکسور کی صوتیت ’’حے‘‘ ہو گئی، یعنی زیر لمبی ہو کر یاے کے برابر ہو گئی۔​
’’ہوئی‘‘ کی صوتیت ’’ہُئی‘‘ بنی۔​
’’مجھے‘‘ میں جھ حرفِ مرکب ہے اور اس کی صوتیت اصولی طور پر ج سے مختلف ہے۔ گرمکھی میں یہ ایک حرف ہے ’’جھجھا‘‘، شاہ مکھی میں یہ بظاہر دو حرف لیکن عملاً ایک حرف ہے۔ املائے اصوات میں ہم نے اپنی آسانی کے لئے اس کو ’’م جے‘‘ سے ظاہر کیا ہے۔​
’’کیوں‘‘ اور ’’کیا‘‘ استفہامیہ یا انشائیہ۔ ان کی گرمکھی املاء میں کاف اور الف کے بیچ کی یاے کو حرف کی بجائے حرکت لکھتے ہیں۔ شاہ مکھی میں یاے حرف کی صورت میں لکھا جاتا ہے مگر حیثیت اس کی وہی حرکت والی رہتی ہے۔ نون غنہ کا عروضی وزن نہیں ہوتا، کہ غنہ آواز کو ناک سے نکالنے کے عمل کا نام ہے۔ سو، اِن کی صوتیت بالترتیب ’’کُو‘‘ اور ’’کا‘‘ کے برابر ٹھہری، اور ویسا ہم نے املائے اصوات میں لکھ لیا۔ ’’راز داں‘‘ کے نون غنہ کو بھی اسی پر قیاس کریں۔​
’’تیرا‘‘ اور ’’میرا‘‘ میں یاے اور الف پورے پورے بول رہے ہیں۔​
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 
مرا عیش غم مرا شہد سم مری بود ہم نفسِ عدم
ترا دل حرم گروِ عجم ترا دیں خریدہءِ کافری
اس کی املائے اصوات:
مِ رَ عے ش غم مِ رَ شہ د سم مِ رِ بو د ہم نَ فَ سے ع دم
تِ رَ دل حَ رم گِ رَ وے عَ جم تِ رَ دی خَ ری دَءِ کا فِ ری
مُ تَ فا عِ لُن مُ تَ فا عِ لُن مُ تَ فا عِ لُن مُ تَ فا عِ لُن
’’مِرا‘‘ کا اصل ’’میرا‘‘ ہے، یہاں املاء میں یاے حذف ہوئی اور الف پر اخفاء واقع ہوا۔ ایسا ہی کچھ ’’مری‘‘ اور ’’ترا‘‘ پر مؤثر ہو رہا ہے۔
’’ہم نفسِ عدم‘‘ سین کی زیر پر اشباع واقع ہوا۔ جیسے ’’گروِ عجم‘‘ میں واو کی زیر پر ہوا ہے۔
’’خریدہء کافری‘‘ میں ہاے کا اخفاء ہوا۔
’’دین‘‘ کا نون غنہ ہو کر ’’دیں‘‘ بنا اور اس کے مطابق صوتیت میں میں اس کی حیثیت نون کی نہ رہی، محض غنہ رہا۔ اس سے پہلے شعر میں غنہ پر بات ہو چکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔
 
عرض یہ کرنا ہے کہ بے شمار الفاظ ایسے ہیں کہ جب شعر میں استعمال ہوتے ہیں تو بحر کے زیرِ اثر ان کا ’’وزن‘‘ کسی قدر بدل سکتا ہے۔ سو، ہم کلیتاً یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں لفظ ہمیشہ فلاں وزن پر ہو گا۔ دوسری طرف بے شمار الفاظ ایسے بھی ہیں، جو جہاں بھی ہوں گے ان کا عروضی وزن اپنی حیثیت میں مستقل ہو گا۔ ان میں عام طور پر حرفِ علت یا تو نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو اس کو گرانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بہ ایں ہمہ ایک صورت یہ بھی ہے کہ:
سڑک ۔۔۔ سَ ڑَک: اس میں ڑ مفتوح ہے۔ جب ’’سڑکیں‘‘ (سڑ کے ں) بنا تو ڑ مجزوم ہوا۔ ہِلنا ۔۔۔ ہِل نا: اس میں لام مجزوم ہے، جب ’’ہِلا، ہِلو، ہِلیں‘‘ بنا تو لام متحرک ہوا۔ و علٰی ھٰذا القیاس۔

۔۔۔۔ جاری ہے
 
لگے ہاتھوں ’’اِیصال‘‘ کی ایک مثال بھی دیکھتے چلئے۔
کبھی اے حقیقتِ منتظَر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں

املائے اصوات:
کَ بَ اے ح قی قَ تِ من ت ظَر نَ ظَ را ل با سِ م جا ز مے
ک ہ زا ر سج دِ تَ ڑپ ر ہے ہَ مِ ری ج بی نِ نَ یا ز مے

’’نظر آ‘‘ کی صوتیت اس شعر میں ’’نَ ظَ را‘‘ بن گئی۔ آ جو دو الف کا مجموعہ ہے اس میں سے پہلے الف کا اخفاء ہوا اور دوسرا ’’نظر‘‘ کی راے سے مل کر ’’را‘‘ ہوا۔ یہ ایصال ہے۔
دیگر ۔۔۔ ’’میں‘‘ (ردیف) کا نون غنہ، پہلے بات ہو چکی۔ ’’کبھی‘‘ کی یاے کا اخفاء ہوا۔ ’’کہ‘‘ کی ہائے کا بھی اخفاء ہوا اور ’’ہزاروں‘‘ کی واو کا بھی، نون غنہ حسبِ سابق، یہ لفظ صوتیت میں ’’ہزار‘‘ رہ گیا۔ ’’ہیں‘‘ میں یاے کا اخفاء ہوا۔

حاصل یہ ہے کہ: اصوات تو شعر بہ شعر (ایک حد کے اندر اندر) تبدیل ہو سکتی ہیں۔


آپ میرے ساتھ رہے اور اس خشک بحث کو پڑھا، بہت نوازش!
 

فاتح

لائبریرین
Top