شک تو تھا ہم کو، محبت میں خسارے ہوں گے

نمرہ

محفلین
شک تو تھا ہم کو، محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن اندازہ نہ تھا، سب ہی ہمارے ہوں گے

اور کیا روشنی ہو گی شبِ ہجراں میں بھلا
جل اٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے

صبح دم جو نئے منظر نظر آتے ہیں ہمیں
خونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے

عشق گردی کو ہم اس شوق میں تنہا نکلے
رہ میں شاید ہمیں کچھ غیبی اشارے ہوں گے

کیا غرض ظلمتِ پیہم کو، اندھیرے اتنے
شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے

ہم سمجھتے تھے کہ ٹھہرائیں گے کشتی کو جہاں
منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے

خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

جل کے دل خاک یا کندن ہوا ہو گا پہلے
لفظ تو بعد میں کاغذ پہ اتارے ہوں گے

اس غلط فہمی میں مارے گئے دشمن اپنے
برف کی تہہ میں کہاں کوئی شرارے ہوں گے​
 
مدیر کی آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
شک تو تھا ہم کو، محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن اندازہ نہ تھا، سب ہی ہمارے ہوں گے

اور کیا روشنی ہو گی شبِ ہجراں میں بھلا
جل اٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے

صبح دم جو نئے منظر نظر آتے ہیں ہمیں
خونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے

عشق گردی کو ہم اس شوق میں تنہا نکلے
رہ میں شاید ہمیں کچھ غیبی اشارے ہوں گے

کیا غرض ظلمتِ پیہم کو، اندھیرے اتنے
شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے

ہم سمجھتے تھے کہ ٹھہرائیں گے کشتی کو جہاں
منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے

خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

جل کے دل خاک یا کندن ہوا ہو گا پہلے
لفظ تو بعد میں کاغذ پہ اتارے ہوں گے

اس غلط فہمی میں مارے گئے دشمن اپنے
برف کی تہہ میں کہاں کوئی شرارے ہوں گے​
نمرہ صاحبہ
اردو غزل کے کلاسیکل رنگ میں آپ کی یہ غزل بہت اچھی لگی
کچھ مصرعوں میں روانی لائی جاسکتی ہے اور تمام شعروں میں باہمی ربط، مضبوط اور اجاگر کیا جاسکتا ہے
تاہم یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہ شرطِ مطالعہ حاصل ہو ہی جائے گا

ایک اچھی کوشش پر میری داد قبول کیجئے

اپنی بالا باتوں کی وضاحت میں، آپ کی غزل کو اپنی کہی یا مطلوبہ صورت دے رہا ہوں تاکہ آپ
موازنہ کرسکیں یا یوں کہیں، کہ میری بات سمجھ سکیں۔
یہ مخلصانہ مشورے کے سوا کچھ نہیں، اور اس سے متفق ہونا بھی ضروری نہیں ۔
ڈھیر ساری نیک تمنائیں اور دعائیں آپ کے لئے
بہت خوش رہیں اورلکھتی رہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شک ہمیں تھا کہ محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن اتنا بھی نہیں، سارے ہمارے ہوں گے

روشنی اِس سے شبِ ہجر گو ممکن تو نہیں
جل اُٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے

صبح دم دیکھ کے منظر یہ خیال آیا تھا
خُونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے

عشق گردی کو توکّل میں یوں تنہا نکلے
غیب سے راہ میں شاید کہ اشارے ہوں گے

کیا غرض ظلمتِ دائم کو کہ تنہا راتیں
شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے

ہم سمجھ بیٹھے تھے منجدھار سے نکلے جو ذرا
منتظر کشتی کی سارے ہی کنارے ہوں گے

خاک کے پُتلے میں کیا خُوب ہی رعنائی ہے
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

جل کے دل خاک یا کندن ہُوا ہوگا ان سے
لفظ یوں ہی تو نہ کاغذ پہ اتارے ہوں گے

اس غلط فہمی میں مارے گئے ناداں دشمن
برف کی سِل کی رگڑ سے بھی شرارے ہوں گے
 
شک تو تھا ہم کو، محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن اندازہ نہ تھا، سب ہی ہمارے ہوں گے

اور کیا روشنی ہو گی شبِ ہجراں میں بھلا
جل اٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے

صبح دم جو نئے منظر نظر آتے ہیں ہمیں
خونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے

عشق گردی کو ہم اس شوق میں تنہا نکلے
رہ میں شاید ہمیں کچھ غیبی اشارے ہوں گے

کیا غرض ظلمتِ پیہم کو، اندھیرے اتنے
شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے

ہم سمجھتے تھے کہ ٹھہرائیں گے کشتی کو جہاں
منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے

خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

جل کے دل خاک یا کندن ہوا ہو گا پہلے
لفظ تو بعد میں کاغذ پہ اتارے ہوں گے

اس غلط فہمی میں مارے گئے دشمن اپنے
برف کی تہہ میں کہاں کوئی شرارے ہوں گے​

بہت خوب۔ تمام اشعار ہی خوبصورت ہیں۔ بہت داد نمرہ صاحبہ۔ آپ بھی محفل پر استانی ہوگئی ہیں۔ :)
 

نمرہ

محفلین
نمرہ صاحبہ
اردو غزل کے کلاسیکل رنگ میں آپ کی یہ غزل بہت اچھی لگی
کچھ مصرعوں میں روانی لائی جاسکتی ہے اور تمام شعروں میں باہمی ربط، مضبوط اور اجاگر کیا جاسکتا ہے
تاہم یہ وقت کے ساتھ ساتھ بہ شرطِ مطالعہ حاصل ہو ہی جائے گا

ایک اچھی کوشش پر میری داد قبول کیجئے

اپنی بالا باتوں کی وضاحت میں، آپ کی غزل کو اپنی کہی یا مطلوبہ صورت دے رہا ہوں تاکہ آپ
موازنہ کرسکیں یا یوں کہیں، کہ میری بات سمجھ سکیں۔
یہ مخلصانہ مشورے کے سوا کچھ نہیں، اور اس سے متفق ہونا بھی ضروری نہیں ۔
ڈھیر ساری نیک تمنائیں اور دعائیں آپ کے لئے
بہت خوش رہیں اورلکھتی رہیں

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
شک ہمیں تھا کہ محبت میں خسارے ہوں گے
لیکن اتنا بھی نہیں، سارے ہمارے ہوں گے

روشنی اِس سے شبِ ہجر گو ممکن تو نہیں
جل اُٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے

صبح دم دیکھ کے منظر یہ خیال آیا تھا
خُونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے

عشق گردی کو توکّل میں یوں تنہا نکلے
غیب سے راہ میں شاید کہ اشارے ہوں گے

کیا غرض ظلمتِ دائم کو کہ تنہا راتیں
شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے

ہم سمجھ بیٹھے تھے منجدھار سے نکلے جو ذرا
منتظر کشتی کی سارے ہی کنارے ہوں گے

خاک کے پُتلے میں کیا خُوب ہی رعنائی ہے
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

جل کے دل خاک یا کندن ہُوا ہوگا ان سے
لفظ یوں ہی تو نہ کاغذ پہ اتارے ہوں گے

اس غلط فہمی میں مارے گئے ناداں دشمن
برف کی سِل کی رگڑ سے بھی شرارے ہوں گے
توجہ کے لیے بہت شکر گزار ہوں، اور آپ کی تجویز کردہ صورت پر غور کر کے سمجھنے کی کوشش بھی کروں گی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم سمجھتے تھے کہ ٹھہرائیں گے کشتی کو جہاں
منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے

خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

واہ جنابہ شاعرہ۔۔۔۔۔ ویسے تو ایک ایک شعر ہی کمال ہے۔۔۔ ماشاءاللہ کہ کس کس پر داد دوں۔۔۔ لیکن درج بالا اشعار۔۔۔ ہائے۔۔۔۔ منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے۔۔۔ واہ واہ۔۔۔

بہت ساری داد آپ کی نذر ہے۔۔۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
شک تو تھا ہم کو، محبت میں خسارے ہوں گے

لیکن اندازہ نہ تھا، سب ہی ہمارے ہوں گے

÷÷سب ہی ہمارے کی جگہ ’سارے ہمارے‘ کا مجھے اسی وقت خیال آیا تھا، جب پہلی بار دیکھا تھا۔ ضرورت تو بس اسی اصلاح کی ہے، ہسند ہو تو طارق شاہ کی بھی قبول کر لو۔

اور کیا روشنی ہو گی شبِ ہجراں میں بھلا

جل اٹھیں گے سرِ مژگاں جو ستارے ہوں گے

÷÷÷ بت خوب۔ مجھے یہ شعر ہی پسند آیا بہ نسبت طارق شاہ کی اصلاح کے

صبح دم جو نئے منظر نظر آتے ہیں ہمیں

خونِ دل دے کے کسی نے یہ نکھارے ہوں گے

۔۔درست

عشق گردی کو ہم اس شوق میں تنہا نکلے

رہ میں شاید ہمیں کچھ غیبی اشارے ہوں گے

÷÷غیبی کی ’ی‘ کا اسقاط بھلا نہیں لگ رہا، یہ شکل بہتر ہو گی

غیب سے راہ میں شاید کچھ اشارے ہوں گے

عشق گردی کی ترکیب مجھے تو اچھی لگ رہی ہے، لیکن اعتراض کیا بھی جا سکتا ہے۔ اس لئے پہلا مصرع یوں کہو تو وہی بات رہے

کوچۂ عشق میں ہم سیر کو تنہا نکلے

یا مزید بہتر ہو

کوچۂ عشق میں یہ سوچ کے تنہا نکلے


کیا غرض ظلمتِ پیہم کو، اندھیرے اتنے

شب گزیدوں نے بھلا کیسے گزارے ہوں گے

//ظلمتِ پیہم؟ اور گزارے ہوں گے، ظلمتیں تو مؤنث ہیں۔ اور نہ اندھیرے ہی گزارے جاتے ہیں، ہاں راتیں گزاری جاتی ہیں۔ یوں کہو تو شاید۔۔۔۔

کیا خبر رات کو، تاریک سے دن بھی کتنے

شب گزیدوں نے کسی طورگزارے ہوں گے


ہم سمجھتے تھے کہ ٹھہرائیں گے کشتی کو جہاں

منتظر بس وہیں دریا کے کنارے ہوں گے

//درست


خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی

خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

//شعر واضح نہیں، شاید ’آتی‘ کی جگہ ’آئی‘ کہو تو بات بن جائے۔


جل کے دل خاک یا کندن ہوا ہو گا پہلے

لفظ تو بعد میں کاغذ پہ اتارے ہوں گے

//لفظ کی جگہ اگر نقش کہو تو، ان کے ساتھ اتارنے کا فعل زیادہ درست ہو جاتا ہے۔


اس غلط فہمی میں مارے گئے دشمن اپنے

برف کی تہہ میں کہاں کوئی شرارے ہوں گے

//دوسرا مصرع بہت خوب، پہلا مصرع اس کا ساتھ نہیں دے رہا۔ ویسے درست ہے، لیکن کوئی دوسری گرہ لگ سکے تو مزا آ جائے۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
خاک کے پتلے میں رعنائی کہاں سے آتی
خال و خد ہاتھ سے خالق نے سنوارے ہوں گے

جل کے دل خاک یا کندن ہوا ہو گا پہلے
لفظ تو بعد میں کاغذ پہ اتارے ہوں گے
واہ سبحان اللہ!
کیسے کیسے دل بنائے اللہ نے کہ جہاں خوبصورت الفاظ پرورش پاتے ہیں۔
بہت شاندار اور جاندار!
 
Top