عبیداللہ علیم شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ھے ،،،،،،،،،،، عبید اللہ علیم

خوشی

محفلین
شکستہ حال سا، بے آسرا سا لگتا ھے
یہ شہر دل سے زیادہ دُکھا سا لگتا ھے

ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ھے
جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ھے

زمین ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں
جو چاند ھے سو وہ ٹوٹا ہوا سا لگتا ھے

مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو
جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ھے

جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار
جو دن ہُوا تو وہ دن کربلا سا لگتا ھے

یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ
جو رہ گیا ھے وہ بجھتا ہُوا سا لگتا ھے

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ھے

تو دل میں بجھنے سی لگتی ھے کائنات تمام
کبھی کبھی جو مجھے تو بجھا سا لگتا ھے

جو آ رہی ھے صدا غور سے سنو اس کو
کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ھے

ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ھے
مگر ضمیر کا سودا بُرا سا لگتا ھے

یہ موت ھے یا کوئی آخری وصال کے بعد
عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ھے

ہوائے رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے
علیم ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ھے
 

فاتح

لائبریرین
دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے
سبحان اللہ! سبحان اللہ!کیا ہی خوبصورت انتخاب ہ۔ بہت شکریہ خوشی صاحبہ!
 

خوشی

محفلین
بہت اچھا انتخاب ہے۔ ہر شعر اپنے وطن کی تصویر سا لگتا ہے۔

دعا کرو کہ میں اس کے لیے دعا ہو جاؤں
وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے
سبحان اللہ! سبحان اللہ!کیا ہی خوبصورت انتخاب ہ۔ بہت شکریہ خوشی صاحبہ!

بہت عمدہ غزل ہے۔ شکریہ خوشی صاحبہ!

آپ سب کا بہت شکریہ بڑی نوازش
 

محمداحمد

لائبریرین
بیان سے زیادہ خوبصورت غزل ہے۔

دل چاہ رہا تھا کہ بہت سے شعر انتخاب کروں لیکن شاید اس طرح پوری غزل ہی دہرانی پڑتی۔

:great:
 
Top