کاشفی

محفلین
شکایت

شادی کے چند دنوں کے بعد جمیلہ میکے آئی تو اس کی بہنوں اور سہیلیوں نے اس سے پوچھا:

"دولہا بھائی کیسے آدمی ہیں؟"

جمیلہ کے چہرے پر شرم کی لالی ابھری۔ وہ اپنی مسکراہٹ روکتے ہوئے بولی:

"اچھے ہیں۔"

پھر اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس کے چہرے کی لالی میں ہلکی سی سیاہی کی آمیزش ہوئی۔ اس نے برا سا منہ بنا کر کہا:

"لیکن ہر وقت اپنی ماں کے مرید ہی بنے رہتے ہیں۔ ہر کام اس سے پوچھ کر کرتے ہیں۔ میں نے کہا: گھر میں گیزر لگوا لیں، تو بولے: ماں جی سے بات کروں گا۔ میں نے کہا: کسی پارک میں سیر کرنے چلیں، تو بولے: ماں جی سے بات کرتے ہیں، اجازت ملی تو ضرور چلیں گے۔۔۔۔"

ایک سہیلی بولی:

"معلوم ہوتا ہے وہ اپنی ماں سے شدید محبت کرتے ہیں۔"

یہ بات سن کر جمیلہ نے اس سہیلی کو ترچھی نظر سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے 'ہوں' کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔

دو سال کے بعد جمیلہ کے گھر لڑکا پیدا ہوا۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ ادھر وقت نے جمیلہ کے خاوند پر کوئی اثر نہ کیا۔ اس کا اپنی ماں کے ساتھ تعلق اسی طرح قائم رہا۔ جمیلہ بھی ویسی کی ویسی ہی رہی۔ جب بھی وہ میکے جاتی یا اس کی کوئی سہیلی اسے ملنے آتی تو وہ اپنے شوہر کے اس کی ماں کے ساتھ تعلق پر ضرور شکایت کرتی۔ اسے سب سے زیادہ اس بات پر شکوہ رہتا تھا کہ وہ اپنی ساری تنخواہ اپنی ماں کے ہاتھ پر کیوں رکھ دیتے ہیں۔

وقت کا پہیا چلتا رہا۔ ایک دن جمیلہ کے لڑکے کی شادی ہو گئی۔ وہ لڑکا بچپن سے اپنی ماں کی شکایت سن رہا تھا۔ وہ بیوی کے حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہو چکا تھا۔ چنانچہ وہ اپنی بیوی کا بہت خیال رکھتا تھا۔ وہ اسے بالکل اسی طرح چاہتا تھا جس طرح جمیلہ بیوی کی حیثیت سے چاہتی تھی کہ اسے چاہا جائے۔ ایک دفعہ اس کی بیوی نے اپنے کمرے میں اے سی لگوانے کی بات کی، اس نے اسی وقت ہامی بھر لی۔ وہ کبھی باہر کھانا کھانے کی خواہش ظاہر کرتی تو وہ ہنسی خوشی مان جاتا اور ماں سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہ کرتا۔ حتی کہ چند ماہ بعد اس نے تنخواہ بھی بیوی کو دینا شروع کر دی۔

وقت کا دریا اسی طرح بہتا رہا۔

ایک دن جمیلہ اپنے گھر کے صحن میں چہرہ لٹکا کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا لڑکا اپنی بیوی کے ساتھ باہر کھانا کھانے گیا ہوا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ معلوم ہوا جمیلہ کی ایک پرانی سہیلی اسے ملنے آئی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی گرم جوشی سے ملیں۔ پھر وہ باتیں کرنے لگیں۔ باتوں باتوں میں جمیلہ کے لڑکے کا ذکر آ گیا۔ جمیلہ غمگین ہو گئی۔ اس کے ماتھے پر بہت سی شکنیں ابھر آئیں۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولی:


"وہ تو ہر وقت اپنی بیوی کا مرید ہی بنا رہتا ہے۔ اس کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ تنخواہ بھی ساری اس کے ہاتھ پر رکھ دیتا ہے۔"

سہیلی نے کہا:

"معلوم ہوتا ہے وہ اپنی بیوی سے شدید محبت کرتا ہے۔"

یہ بات سن کر جمیلہ نے سہیلی کو ترچھی نظر سے دیکھا۔ پھر اس کی ناک سے تیزی سے 'ہوں' کی آواز نکلی اور اس نے اپنا سر جھٹک کر دوسری طرف کر لیا۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

بات یہ نہیں بات ہےسوچ کی ۔ کہ آپ اس معاملےمیں کس کوقصوروارسمجھتےہیں۔ یہ کہانی ہمارےمعاشرےکی حقیقی تصویردکھارہی ہے۔ شایدیہ بات بہت سےلوگوں کوبری لگلےلیکن یہی حقیقت ہے۔جوکہ کسیلی ہے۔کیونکہ جب وہ شکایت کرتی تھی کہ اسکاشوہراسکی بات نہیں مانتاہربات پہلےماں سےپوچھتاہےتواسکےبات کچھ اورتھی لیکن جب وہی بات اس پرآئی اوراس نےتجربہ کیاتواسےاس حقیقت کاعلم ہواکہ ماں کارشتہ ایک ایسارشتہ ہےجوکہ اٹوٹ انگ ہے۔ جوکہ سب رشتوں سےحاوی ہوتاہے۔ کیونکہ ماں کادل ایک خوبصورت پھول کی مانندہوتاہے۔اوروہ بچےکی چھوٹی چھوٹی بات کودل پرلےلیتی ہےکیونکہ وہ اس کی محبت میں بےحداحساس ہوتی ہے۔جبکہ باپ چھوٹی چھوٹی باتوں کونظراندازکردیتاہے۔ہمیں چاہیےکہ اس بات کوترجیح دیں کہ اپنی بچوں کوتعلیم کےساتھ تربیت بھی مہیاکریں کریں اوران کی صحیح رہنمائی کریں۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح طورپرمسلمان بنائے اورہم درست طریقےسےاسلام کی تعلیمات پرعمل کریں۔ آمین ثم آمین۔

والسلام
جاویداقبال
 

مہوش علی

لائبریرین
چند ایک تلخ حقیقتیں اور معاشرے اور مذہب کے ٹکراؤ کے حوالے سے۔

مجھے باقی اسلامی فقہ کے متعلق مکمل علم نہیں، مگر ائمہ اہلبیت کے فقہ کےمطابق:

1۔ اگر بیوی یہ خواہش ظاہر کرے کہ وہ شوہر کے گھر والوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو الگ گھر یا کم از کم الگ ایسا کمرہ دے کہ جس میں وہ آزادی سے اپنی زندگی بسر کر سکے بغیر شوہر کے گھر والوں کی مداخلت کے۔

2۔ بیوی کا نان و نفقہ شوہر پر واجب ہے اور بیوی پر لازم نہیں کہ نان و نفقے اور کھانے پینے وغیرہ کے لیے شوہر کی ماں یا گھر والوں کی محتاج ہو۔

3۔ شوہر اپنی بیوی کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ شوہر و پورے کنبے کے لیے کھانے بنائے، کپڑے دھوئے، صفائیاں کرے اور پورے کنبے کی خدمتیں کرے۔

مختصرا بہو اور ساس کا جو رشتہ ہمارے معاشرے میں رائج ہے، وہ اسلامی بہو ساس رشتے سے مختلف ہے (کم از کم ائمہ اہلبیت کے فقہ کے مطابق)۔

یہ اوپر بات ہو رہی تھی "حقوق" کی۔ مگر اسکے بعد بات آتی ہے "مستحبات" کی۔

اور مستحبات یہ ہیں کہ بیوی اگر شوہر کے والدین کی خدمت کرتی ہے اور یوں اپنے شوہر کا دل خوش رکھتی ہے تو یہ ایک مستحب فعل ہے جسکا بہت اجر ہے۔

اختلافات کی صورت میں:

اگر بیوی اور گھر والوں میں اختلافات ہوں تو بیوی کو حق حاصل ہے کہ وہ علیحدہ ہو جائے۔
مگر ماں باپ کی خدمت کرنا پھر بھی مرد پر واجب رہتا ہے۔
الگ ہونے کا مطالبہ کرتے وقت بیوی کو اپنے شوہر کے اس حق کا خیال رکھنا پڑے گا کہ علیحدہ گھر ہونے کی صورت میں بھی وہ شوہر سے یہ مطالبہ نہیں کر سکتی کہ شوہر ہر رات اُس کے گھر میں اُس کے ساتھ بسر کرے۔ بلکہ اگر شوہر چاہے کہ ہفتے میں کچھ دن ماں باپ کے ساتھ بسر کرے اور کچھ دن بیوی کے ساتھ تو بیوی اُسے اس سے روک نہیں سکتی۔ حتی کہ اگر شوہر چھ دن ماں باپ کے ساتھ بسر کرتا ہے اور ایک دن بیوی کے ساتھ تو بھی بیوی اس پر کوئی احتجاج نہیں کر سکتی۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر شوہر کے والدین کو بہو کے حقوق کا اچھی طرح علم ہو (یعنی اس پر گھر والوں کی خدمت کرنا فرض نہیں اور اختلافات پیدا ہونے کی صورت میں وہ علیحدہ گھر کا مطالبہ کر سکتی ہے)، اور اسی طرح اگر بیوی کو شوہر کے والدین کے حقوق کا علم ہو کہ علیحدہ گھر ہونے کی صورت میں شوہر اگر ہفتے میں کئی دن اور راتیں ماں باپ کی خدمت میں گذارنا چاہتا ہے تو وہ اُسے اس سے روک نہیں سکتی، ۔۔۔۔ تو ان حقوق اور نتائج کا علم آ جانے کے بعد ساس بہو ایک دوسرے سے لڑائیاں کرتے ہوئے انکے نتائج سے کچھ نہ کچھ ضرور سے ڈریں گے۔

افسوس کہ معاشرے میں موجود اہل تشیع گھرانوں کی 99٫9 فیصد گھرانوں میں لوگوں کو ماں باپ اور بیوی کے ان حقوق کا علم نہیں، بلکہ وہ اس معاملے میں فقط معاشرتی اقدار کی پیروی کرتے ہیں کہ جہاں جو "غالب" آجائے وہی مقدر کا سکندر ٹھرا۔ کبھی ساسیں اپنی بہو کو کولہو کا بیل بنائے ان سے پورے کنبے کی خدمتیں لے رہی ہوتی ہیں، اور کہیں بہوؤیں اپنے شوہروں کو ایسا الگ کروا کر اُن پر ایسی غالب ہوتی ہیں کہ عید بقرعید کے علاوہ شوہر ماں باپ کا دیدار نہیں کرتا۔

دودھ پلائی کا مسئلہ:
ائمہ اہلبیت کی فقہ کے مطابق بیوی اگر اولاد کو دودھ پلاتی ہے تو وہ اس پر شوہر سے اجرت کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
برادران اہلسنت کی فقہ کا پوری طرح مجھے علم نہیں، مگر کم از کم اس بات کا علم یقینی ہے کہ اختلافات کی صورت میں اگر میاں بیوی الگ ہو چکے ہیں اور پھر بھی ماں بچے کو دودھ پلا رہی ہے تو اہلسنت فقہ کے مطابق بھی باپ کو دودھ پلائی کی اجرت ماں کو ادا کرنا ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ آپ کی سب کی سب باتیں صحیح ہیں۔

لیکن کاشفی نے تو افسانچہ لکھا تھا جو کہ معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ بھی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ آپ کی سب کی سب باتیں صحیح ہیں۔

لیکن کاشفی نے تو افسانچہ لکھا تھا جو کہ معاشرے کی دکھتی ہوئی رگ بھی ہے۔

یہ افسانچہ تو واقعی ہمارے معاشرے کی وہ تصویر ہے کہ جو ہر دوسرے تیسرے گھر کی کہانی ہے۔ اب اگلا سوال یہ ہے کہ ہم نے معاشرے کی اس کہانی سے سبق کیا سیکھا؟

مگر میرے نزدیک معاشرے کی ایک دکھتی رگ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں مذہب اور معاشرتی اقدار کا کچھ جگہوں پر ٹکراؤ ہو رہا ہے اور ہم ایسے میں مذہب سے رہنمائی لینے کی بجائے رسوم و رواج کو فوقیت دیتے ہیں۔
ساس بہو تعلقات پر معاشرتی رسوم و رواجوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں میزان نہیں ہے اور یہ انتہائی نوعیت پر جا کر ختم ہوتے ہیں جہاں یا تو ساس مکمل فاتح ہوتی ہے یا پھر بہو۔

حتی کہ مغرب کی ترقی یافتہ معاشرے میں بھی یہ مسئلہ انتہائی نوعیت کا ہے کہ جہاں بیوی و بچے ہی سب کچھ بن کر رہ جاتے ہیں اور مرد اپنے ماں باپ کو کرسمس کے علاوہ دیکھتا بھی نہیں ہے۔

عربی معاشرے کا مجھے علم نہیں۔ جو لوگ عرب ممالک میں رہ رہے ہیں وہ عرب معاشرے میں ساس بہو کے تعلقات کی نوعیت پر کیا کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں تاکہ ہم کچھ اچھی باتیں سیکھ سکیں؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
شکریہ مہوش صاحبہ کیوں کہ اردو محفل پر ایسا کوئی تھریڈ نہیں تو اگر موضوع شروع ہو ہی گیا ہے تو جاری رکھیں۔
ویسے کچھ یہاں پر بھی بحث ہوئی ہے، اسی بارے میں۔۔۔۔!
 

شمشاد

لائبریرین
عربی معاشرے میں ساس بہو اکٹھے رہتی ہی نہیں ہیں۔

جیسے ہی لڑکے کی شادی ہوتی ہے، لڑکا پہلے سے گھر لیکر اور سجا سنوار کر مطلب گھریلو ضرورت کی تمام چیزیں تیار رکھتا ہے۔

ایسے گھر بھی ضرور ہیں جہاں مشترکہ خاندان رہتا ہے لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ مہوش صاحبہ کیوں کہ اردو محفل پر ایسا کوئی تھریڈ نہیں تو اگر موضوع شروع ہو ہی گیا ہے تو جاری رکھیں۔
ویسے کچھ یہاں پر بھی بحث ہوئی ہے، اسی بارے میں۔۔۔۔!

شکریہ نقوی بھائی،
میرے خیال میں آپ کے دیے ہوئے لنک پر بات مکمل ہو چکی ہے اور جسے اس سلسلے میں مزید جاننا ہو وہ اس لنک کا مطالعہ کر سکتا ہے۔
اور شکریہ شمشاد بھائی عربی معاشرے سے متعارف کروانے کا۔

عملی طور پر وسائل کی کمی کے باعث اور زیادہ آبادی کے باعث شاید یہ تو ناممکن ہو کہ پاکستان میں ہر بچہ اپنی بیوی کو والدین سے الگ گھر لے کر دے سکتا ہو۔ بہرحال، اگر ایک گھر میں بھی رہیں تو بھی کم از کم یہ بات شوہر اور اسکے گھر والوں کو معلوم ہو جانی چاہیے کہ وہ بہو سے پورے کنبے کی خدمتیں نہیں کروا سکتے ہیں۔ اور بہو کو بہت اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ اُس نے اگر بالکل الگ ہونے کی شرط کی تو اُس کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے شوہر کو پابند کرے کہ وہ ہر روز اسکے پاس حاضری دے۔
 

تیشہ

محفلین
عربی معاشرے میں ساس بہو اکٹھے رہتی ہی نہیں ہیں۔

جیسے ہی لڑکے کی شادی ہوتی ہے، لڑکا پہلے سے گھر لیکر اور سجا سنوار کر مطلب گھریلو ضرورت کی تمام چیزیں تیار رکھتا ہے۔

ایسے گھر بھی ضرور ہیں جہاں مشترکہ خاندان رہتا ہے لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔


ہائے کتنے اچھے ہیں اس بات کو لے کر عربی معاشرہ :happy:
ہمارے معاشرے میں تو کتوُں کے جیسے خوانخوار ہوتے ہیں ۔۔ سسرال والے جو دنیا جہان کا تعویذ گنڈے کرڈالتے ہیں بہو سے جان چھڑوانے کو ۔۔ مگر پھر بھی لڑ مر کر ساس بہو ایک دوسرے کی صورت کے سامنے ہی پڑی رہتی ہیں نا جان چھوڑتیں ہیں نا جان چھڑانے دیتی ہیں :chatterbox:
 
Top