صابرہ امین
لائبریرین
یہ مضمون خالصتا خواتین کے لیے لکھا گیا ہے۔ برائے مہربانی مرد حضرات اس مضمون کو سمجھنے کی ہرگز کوشش نہ کریں- البتہ پڑھ کر مثبت ریٹنگ اور تعریفی تبصرے وغیرہ (خدارا اس وغیرہ کو بہت سنجیدہ مت لے لیجیے گا۔۔جی ہاں!) کی گنجائش بڑی مشکلوں سے پرانے اور حالیہ تعلقات کے باعث نکال لی گئی ہے! (کہیے شکریہ اور ساتھ ساتھ تالیاں!!)
یہ مضمون خاص طور پر ان خواتین کے لیے لکھا گیا ہے کہ جن کو اپنے اچھے بھلے شوہروں سے خواہ مخواہ کا بیر ہوتا ہے (ہمارے بارے میں سوچنے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں۔ ایک اور جی ہاں!!)۔ ان کو گاہے بگاہے اس بات کا ملال رہتا ہے کہ ان کے شوہر فلاں کے جیسے کیوں نہیں۔ حالانکہ وہ نہیں جانتیں کہ اگر وہ فلاں کے جیسے ہوتے تو وہ محترمہ فلانی سے ہی شادی کرتے!! اس لیے ہم نے ان معصوم و نادان و بے وقو۔ ۔ ۔ بہنوں کے لیے نہایت کم فیس پرایک مشورہ کارنر کا اہتمام کرتے ہوئے ان باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے ان کے ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال ہو جائیں۔۔ (اگر نہ ہوں تو منی بیک گارنٹی!!) چند مثالیں البتہ فری آف کاسٹ ہیں تاکہ آپ کو ہماری جاندار پلس شاندار سروس کے بارے میں آگاہی ہو۔
تو چلئے شروع کرتے ہیں۔ آپ سب مندرجہ بالا خواتین کو ہماری دانشمندانہ (جی جی دانش پلس مندانہ) رائے کو اپنی زندگی کے ہر ہر موڑ اور چوک اور چوراہے پر لازما آزمانا ہو گا۔ (اس کے بغیر ریفنڈ نہیں ہو گا۔ جی ہاں)
1۔ سب سے پہلے تو دل ہی دل میں یہ تسلیم کر لیں کہ آپ کے مجازی خدا دنیا کے سب سے عقل مند آدمی ہیں۔ ظاہر ہے اگر نہ ہوتے تو بھلا آپ سے شادی کرتے! جب آپ اپنے دل کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اس بات کو اپنے خاوند محترم کو بتانے سے پہلے بار بار زبان سے اس بات کے کہنے کی پریکٹس کریں۔ اب جب بھی کوئی بات منوانی ہو تو دیکھیے گا اس بات کا ایک وظیفے کی طرح اثر ہو گا اور وہ آپ کی باتوں میں آسانی سے آ جائیں گے۔ مگر اس وظیفے کی کچھ شرائط ہیں۔ اگر یہی بات ماتھے پر بل ڈال کر اور طنزیہ لہجے میں کی یعنی "دنیا میں بس ایک آپ ہی عقلمند انسان ہیں؟ یا پنجابی کا تڑکہ لگایا کہ اے اک تسی ہی وڈے عقل مند او۔۔ (ہائے ہماری پنجابی!!)" تو یہی وظیفہ الٹا ہو جائے گا۔ آپ نے نہایت شیریں لہجے میں مسکراتے ہوئے یہ بات کرنی ہے۔ کندھے پر ہاتھ بھی رکھ سکتی ہیں۔( اس سے زیادہ میٹھا زہر ہو سکتا ہے۔ لازما احتیاط کیجیے گا!)
2- اپنے شوہر کو بس شوہر سمجھیے اس سے زیادہ کچھ نہیں! بعض خواتین ان کو دوست و سہیلی وغیرہ بنانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ جب اس کام میں ناکامی ہو تو انہیں ان سے شکوے شکا یات ہوتیں ہیں۔ مثلا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کی شاعری سنیں اور سر دھنیں یا ان کی کہانیاں پڑھیں اور موسٹ فیوریٹ رائٹر کا خطاب عطا کر دیں۔ یا کم از کم ان کے لطائف پر ہی ہنس لیں۔ ہم ان تمام باتوں کی ایک ایک کر کے وضاحت کرتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے تو ہم اپنا تجربہ شئیر کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ہماری شاعری کی فیس بک پر کچھ زیادہ ہی واہ واہ ہو گئی اور ہم خود بھی دم بخود رہ گئے کہ اتنی کوئی خاص تو نہ تھی۔ تو ہم نے سوچا کہ صاحب کو سنائی جائے۔ پہلے ہم نے انہیں بتایا کہ آج تک ہماری ایک غزل پر اتنے لائیکس، اتنے ہارٹس وغیرہ وغیرہ ملے ہیں تو چلیں آپ کو سناتے ہیں۔ ۔ کہنے لگے،" یار مجھے کھانا چاہئے اور اس کے بعد چائے سر میں پہلے ہی شدید درد ہے۔ مجھے ہر کام میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے!" وہ دن اور آج کا دن ہم نے اس بات کا تہیہ کر لیا کہ ساری دنیا کو شاعری سنائی جائے گی مگر اس مخلوق کو ہرگز نہیں!! ایک دن حسب معمول ہم ان کے والد صاحب کو اپنی شاعری سنا رہے تھے اور ابا ازراہ شفقت و مروت واہ واہ کر رہے تھے کہ ہم نے اچانک اس مخلوق کو دیکھا۔ وہ ہمارے پاس آئے اور بیٹھ کر خاصے خوشگوار لہجے میں کہنے لگے،" کیا ہو رہا ہے بھئی؟" ہم نے اپنی کچی بیاض یعنی اپنا موبائیل فون بند کرتے ہوئے کہا۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ تلملا کر اٹھے اور دوسرے کمرے میں اماں کے پاس جا کر ہمیں زور زور سے آوازیں دینے لگے۔ "محترمہ ادھر آ جایئے۔ اماں بیمار ہیں۔ ان کے پاس بھی بیٹھا کریں۔ ہاں ان کو تو بس اپنی شاعری سے مطلب ہے۔" وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ان کی باتیں سن کر ہماری اور ابا کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اینج تے فیر اینج سہی۔ تو لب لباب یہ ہے کہ خاندان میں کوئی بامروت شخص ڈھونڈا جائے۔ اس مخلوق پر ہی تکیہ نہ کیا جائے۔
آپ کے لطیفے آپ کی نظر میں بہت مزیدار ہوں گے۔ خدارا انہیں اپنی سہیلیوں تک محدود رکھیں کہ آپ کے لطائف میں آپ کے مجازی خدا کے لیے ہنسنے کا کچھ سامان نہیں۔ ۔ مثلا ایک دن ہم نے انہیں ایک ادبی لطیفہ سنایا۔ کہ ایک شاعر (جن کا نام حسب معمول ہم بھول چکے ہیں ) اپنے دوست سے بے انتہا تعریف سننے کے بعد ایک گائیکہ کے کوٹھے پر ان کے ساتھ گئے۔ جب وہ ڈیوڑھی سے اندر داخل ہوئے ہی تھے تو دیکھا کہ وہ گائیکہ ململ کا دوپٹہ سر پر اوڑھے چرخہ کات رہی تھیں۔ وہ شاعر الٹے قدموں واپس آئے اور دوست سے کہنے لگے کہ ایسی تو میں گھر پر چھوڑ کر آیا ہوں۔۔ ہم نے داد طلب نظروں سے انہیں دیکھا- کہنے لگے پھر کیا ہوا؟ ہم نے کہا"۔ یہ تو لطیفے میں نہیں لکھا تھا۔ شاید گھر چلے گئے ہوں۔" کہنے لگے،" یہ لطیفہ ہوتا ہے؟" ہم نے کہا۔" یہ ادبی لطیفہ ہوتا ہے۔ " یاد رہے کہ زور ادبی پر تھا۔ تو بہنوں لطیفے صرف سہیلیوں تک ہی محدود رکھیں۔ ان کے لطائف کا لیول آپ کی معصومانہ سطح سے بہت اوپر ہے!
اسی طرح اپنے شوہر کا کسی اور کے شوہر سے موازنہ ہرگز ہرگز نہ کیجیے گا۔ معلوم ہے کہ اس بات کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی۔ مثلا ہماری موسٹ فیورٹ نند جرمنی میں رہتی ہیں اور نظمیہ اور نثریہ شاعری کرتی ہیں۔ ان کے شوہرجو کہ پابند شاعری کرتے ہیں، ان کے ایک ایک تازہ ترین شعر کو اپنی فیس بک پوسٹ میں فورا شئر کرتے ہیں۔ ان کو وہاں کے کمیونٹی پروگراموں میں لے کر جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور دو کتابوں میں چھپ بھی چکا ہے۔ ہم نے بھی اپنے صاحب کو غیرت دلانے کہ کوشش کی اور یہ تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں۔ غیر متوقع طور پر تمام باتیں تحمل سے سن کر کہنے لگے۔ "عادل بھائی تو معصوم سے آدمی ہیں۔ وہ یہ سب کر سکتے ہیں۔ " ہم نے استفسار کیا،" یہ کیا بات ہوئی؟ پھر آپ کیا ہیں؟" کہنے لگے،" میں خاصا عقل مند ہوں اور کسی کی باتوں میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔" ہم نے یہ باتیں اپنی نند صاحبہ کے گوش گزار کیں تاکہ وہ ان کی خبر لیں۔۔ (یقین کریں یہ غیبت نہیں تھی!) ان کا جواب سن کر تو ہم ہکا بکا ہی رہ گئے۔۔ کہنے لگیں کہ عادل تو واقعی بہت ہی اچھے ہیں۔ تم نے غور نہیں کہ کہ ہمارا فیسبک پیج ایک ہی ہے۔ ان کا میرے اور بچوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں۔ ان کا عادل نامہ سن کر ہم رشک و حسد کی وادی سے چند ہی قدم دور تھے کہ اچانک صاحب دل و جان سے پیارے لگنے لگے۔ بات تھی ہی ایسی کہ جس پر ہم جتنا شکر کریں کم ہے۔ ایسی باتوں میں بھی ازدواجی زندگی میں کمپرومائز کرنا پڑ جائے تو زندگی بدتر از جہنم نہ ہو جائے! شوہرنامہ سناتے ہوئے کہنے لگیں، "بھئی میرے تو کپڑوں تک کی شاپنگ وہ ہی کرتے ہیں۔ " ہمارے منہ سے جھٹ نکلا، "کیوں؟؟؟" کہنے لگیں کہ انہیں اپنی پسند کے کپڑے خریدنے کا شوق ہے۔ اب ہمیں خاصی گھٹن محسوس ہونے لگی ۔ ۔ دس از ٹو مچ ۔ ۔ کپڑوں پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو اپنی شادی اور ولیمے تک کے کپڑے خود ڈیزائن کیے تھے۔ ایک دن عید کی شاپنگ کرتے ہوئے صاحب نے ہمیں ہمارے لیے ایک سوٹ دکھایا۔ اف!!! پورا براؤن رنگ کا سوٹ! کہنے لگے،" مٹیریل دیکھیں کتنا اچھا ہے"۔ ہم نے چڑ کر کہا کہ خرید لیجیے ہم اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر پہن لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ شخصی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اچانک یہ احساس ہوا۔
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے تیری بھینس بنائی
تو پیاری بہنو! ہم نے آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے عظیم راز بتا دیئے ہیں۔ امید ہے آپ کے کام آئیں گے۔ اگر مزید اچھی بیویوں کے رہنما اصول جاننے ہیں تو معمولی فیس پر آپ کی کئی الجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ اگر پیسوں کی بچت کرنی ہو تو محفل میں کئی ایک قابل شخصیات ہیں جو اپنی بیگمات سے شدید نالاں ہیں اور آپ کو اچھی بیگم بننے کے طریقے بتا سکتے ہیں۔ یاد رہے آپ نے ان لوگوں سے تو بالکل مشورہ نہیں لینا جن کے گھر میں ٹی وی ہے۔ ان سے بھی نہیں جن کے گھر میں سترہ سال سے کم عرصے تک ٹی وی نہیں۔ مشورہ انہی سے کرنا ہے جن کے گھر پورے سترہ سال سے یہ ایڈیٹ باکس نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے گا!
یہ مضمون خاص طور پر ان خواتین کے لیے لکھا گیا ہے کہ جن کو اپنے اچھے بھلے شوہروں سے خواہ مخواہ کا بیر ہوتا ہے (ہمارے بارے میں سوچنے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں۔ ایک اور جی ہاں!!)۔ ان کو گاہے بگاہے اس بات کا ملال رہتا ہے کہ ان کے شوہر فلاں کے جیسے کیوں نہیں۔ حالانکہ وہ نہیں جانتیں کہ اگر وہ فلاں کے جیسے ہوتے تو وہ محترمہ فلانی سے ہی شادی کرتے!! اس لیے ہم نے ان معصوم و نادان و بے وقو۔ ۔ ۔ بہنوں کے لیے نہایت کم فیس پرایک مشورہ کارنر کا اہتمام کرتے ہوئے ان باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے ان کے ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال ہو جائیں۔۔ (اگر نہ ہوں تو منی بیک گارنٹی!!) چند مثالیں البتہ فری آف کاسٹ ہیں تاکہ آپ کو ہماری جاندار پلس شاندار سروس کے بارے میں آگاہی ہو۔
تو چلئے شروع کرتے ہیں۔ آپ سب مندرجہ بالا خواتین کو ہماری دانشمندانہ (جی جی دانش پلس مندانہ) رائے کو اپنی زندگی کے ہر ہر موڑ اور چوک اور چوراہے پر لازما آزمانا ہو گا۔ (اس کے بغیر ریفنڈ نہیں ہو گا۔ جی ہاں)
1۔ سب سے پہلے تو دل ہی دل میں یہ تسلیم کر لیں کہ آپ کے مجازی خدا دنیا کے سب سے عقل مند آدمی ہیں۔ ظاہر ہے اگر نہ ہوتے تو بھلا آپ سے شادی کرتے! جب آپ اپنے دل کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اس بات کو اپنے خاوند محترم کو بتانے سے پہلے بار بار زبان سے اس بات کے کہنے کی پریکٹس کریں۔ اب جب بھی کوئی بات منوانی ہو تو دیکھیے گا اس بات کا ایک وظیفے کی طرح اثر ہو گا اور وہ آپ کی باتوں میں آسانی سے آ جائیں گے۔ مگر اس وظیفے کی کچھ شرائط ہیں۔ اگر یہی بات ماتھے پر بل ڈال کر اور طنزیہ لہجے میں کی یعنی "دنیا میں بس ایک آپ ہی عقلمند انسان ہیں؟ یا پنجابی کا تڑکہ لگایا کہ اے اک تسی ہی وڈے عقل مند او۔۔ (ہائے ہماری پنجابی!!)" تو یہی وظیفہ الٹا ہو جائے گا۔ آپ نے نہایت شیریں لہجے میں مسکراتے ہوئے یہ بات کرنی ہے۔ کندھے پر ہاتھ بھی رکھ سکتی ہیں۔( اس سے زیادہ میٹھا زہر ہو سکتا ہے۔ لازما احتیاط کیجیے گا!)
2- اپنے شوہر کو بس شوہر سمجھیے اس سے زیادہ کچھ نہیں! بعض خواتین ان کو دوست و سہیلی وغیرہ بنانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ جب اس کام میں ناکامی ہو تو انہیں ان سے شکوے شکا یات ہوتیں ہیں۔ مثلا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کی شاعری سنیں اور سر دھنیں یا ان کی کہانیاں پڑھیں اور موسٹ فیوریٹ رائٹر کا خطاب عطا کر دیں۔ یا کم از کم ان کے لطائف پر ہی ہنس لیں۔ ہم ان تمام باتوں کی ایک ایک کر کے وضاحت کرتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے تو ہم اپنا تجربہ شئیر کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ہماری شاعری کی فیس بک پر کچھ زیادہ ہی واہ واہ ہو گئی اور ہم خود بھی دم بخود رہ گئے کہ اتنی کوئی خاص تو نہ تھی۔ تو ہم نے سوچا کہ صاحب کو سنائی جائے۔ پہلے ہم نے انہیں بتایا کہ آج تک ہماری ایک غزل پر اتنے لائیکس، اتنے ہارٹس وغیرہ وغیرہ ملے ہیں تو چلیں آپ کو سناتے ہیں۔ ۔ کہنے لگے،" یار مجھے کھانا چاہئے اور اس کے بعد چائے سر میں پہلے ہی شدید درد ہے۔ مجھے ہر کام میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے!" وہ دن اور آج کا دن ہم نے اس بات کا تہیہ کر لیا کہ ساری دنیا کو شاعری سنائی جائے گی مگر اس مخلوق کو ہرگز نہیں!! ایک دن حسب معمول ہم ان کے والد صاحب کو اپنی شاعری سنا رہے تھے اور ابا ازراہ شفقت و مروت واہ واہ کر رہے تھے کہ ہم نے اچانک اس مخلوق کو دیکھا۔ وہ ہمارے پاس آئے اور بیٹھ کر خاصے خوشگوار لہجے میں کہنے لگے،" کیا ہو رہا ہے بھئی؟" ہم نے اپنی کچی بیاض یعنی اپنا موبائیل فون بند کرتے ہوئے کہا۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ تلملا کر اٹھے اور دوسرے کمرے میں اماں کے پاس جا کر ہمیں زور زور سے آوازیں دینے لگے۔ "محترمہ ادھر آ جایئے۔ اماں بیمار ہیں۔ ان کے پاس بھی بیٹھا کریں۔ ہاں ان کو تو بس اپنی شاعری سے مطلب ہے۔" وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ان کی باتیں سن کر ہماری اور ابا کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اینج تے فیر اینج سہی۔ تو لب لباب یہ ہے کہ خاندان میں کوئی بامروت شخص ڈھونڈا جائے۔ اس مخلوق پر ہی تکیہ نہ کیا جائے۔
آپ کے لطیفے آپ کی نظر میں بہت مزیدار ہوں گے۔ خدارا انہیں اپنی سہیلیوں تک محدود رکھیں کہ آپ کے لطائف میں آپ کے مجازی خدا کے لیے ہنسنے کا کچھ سامان نہیں۔ ۔ مثلا ایک دن ہم نے انہیں ایک ادبی لطیفہ سنایا۔ کہ ایک شاعر (جن کا نام حسب معمول ہم بھول چکے ہیں ) اپنے دوست سے بے انتہا تعریف سننے کے بعد ایک گائیکہ کے کوٹھے پر ان کے ساتھ گئے۔ جب وہ ڈیوڑھی سے اندر داخل ہوئے ہی تھے تو دیکھا کہ وہ گائیکہ ململ کا دوپٹہ سر پر اوڑھے چرخہ کات رہی تھیں۔ وہ شاعر الٹے قدموں واپس آئے اور دوست سے کہنے لگے کہ ایسی تو میں گھر پر چھوڑ کر آیا ہوں۔۔ ہم نے داد طلب نظروں سے انہیں دیکھا- کہنے لگے پھر کیا ہوا؟ ہم نے کہا"۔ یہ تو لطیفے میں نہیں لکھا تھا۔ شاید گھر چلے گئے ہوں۔" کہنے لگے،" یہ لطیفہ ہوتا ہے؟" ہم نے کہا۔" یہ ادبی لطیفہ ہوتا ہے۔ " یاد رہے کہ زور ادبی پر تھا۔ تو بہنوں لطیفے صرف سہیلیوں تک ہی محدود رکھیں۔ ان کے لطائف کا لیول آپ کی معصومانہ سطح سے بہت اوپر ہے!
اسی طرح اپنے شوہر کا کسی اور کے شوہر سے موازنہ ہرگز ہرگز نہ کیجیے گا۔ معلوم ہے کہ اس بات کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی۔ مثلا ہماری موسٹ فیورٹ نند جرمنی میں رہتی ہیں اور نظمیہ اور نثریہ شاعری کرتی ہیں۔ ان کے شوہرجو کہ پابند شاعری کرتے ہیں، ان کے ایک ایک تازہ ترین شعر کو اپنی فیس بک پوسٹ میں فورا شئر کرتے ہیں۔ ان کو وہاں کے کمیونٹی پروگراموں میں لے کر جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور دو کتابوں میں چھپ بھی چکا ہے۔ ہم نے بھی اپنے صاحب کو غیرت دلانے کہ کوشش کی اور یہ تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں۔ غیر متوقع طور پر تمام باتیں تحمل سے سن کر کہنے لگے۔ "عادل بھائی تو معصوم سے آدمی ہیں۔ وہ یہ سب کر سکتے ہیں۔ " ہم نے استفسار کیا،" یہ کیا بات ہوئی؟ پھر آپ کیا ہیں؟" کہنے لگے،" میں خاصا عقل مند ہوں اور کسی کی باتوں میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔" ہم نے یہ باتیں اپنی نند صاحبہ کے گوش گزار کیں تاکہ وہ ان کی خبر لیں۔۔ (یقین کریں یہ غیبت نہیں تھی!) ان کا جواب سن کر تو ہم ہکا بکا ہی رہ گئے۔۔ کہنے لگیں کہ عادل تو واقعی بہت ہی اچھے ہیں۔ تم نے غور نہیں کہ کہ ہمارا فیسبک پیج ایک ہی ہے۔ ان کا میرے اور بچوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں۔ ان کا عادل نامہ سن کر ہم رشک و حسد کی وادی سے چند ہی قدم دور تھے کہ اچانک صاحب دل و جان سے پیارے لگنے لگے۔ بات تھی ہی ایسی کہ جس پر ہم جتنا شکر کریں کم ہے۔ ایسی باتوں میں بھی ازدواجی زندگی میں کمپرومائز کرنا پڑ جائے تو زندگی بدتر از جہنم نہ ہو جائے! شوہرنامہ سناتے ہوئے کہنے لگیں، "بھئی میرے تو کپڑوں تک کی شاپنگ وہ ہی کرتے ہیں۔ " ہمارے منہ سے جھٹ نکلا، "کیوں؟؟؟" کہنے لگیں کہ انہیں اپنی پسند کے کپڑے خریدنے کا شوق ہے۔ اب ہمیں خاصی گھٹن محسوس ہونے لگی ۔ ۔ دس از ٹو مچ ۔ ۔ کپڑوں پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو اپنی شادی اور ولیمے تک کے کپڑے خود ڈیزائن کیے تھے۔ ایک دن عید کی شاپنگ کرتے ہوئے صاحب نے ہمیں ہمارے لیے ایک سوٹ دکھایا۔ اف!!! پورا براؤن رنگ کا سوٹ! کہنے لگے،" مٹیریل دیکھیں کتنا اچھا ہے"۔ ہم نے چڑ کر کہا کہ خرید لیجیے ہم اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر پہن لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ شخصی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اچانک یہ احساس ہوا۔
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے تیری بھینس بنائی
تو پیاری بہنو! ہم نے آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے عظیم راز بتا دیئے ہیں۔ امید ہے آپ کے کام آئیں گے۔ اگر مزید اچھی بیویوں کے رہنما اصول جاننے ہیں تو معمولی فیس پر آپ کی کئی الجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ اگر پیسوں کی بچت کرنی ہو تو محفل میں کئی ایک قابل شخصیات ہیں جو اپنی بیگمات سے شدید نالاں ہیں اور آپ کو اچھی بیگم بننے کے طریقے بتا سکتے ہیں۔ یاد رہے آپ نے ان لوگوں سے تو بالکل مشورہ نہیں لینا جن کے گھر میں ٹی وی ہے۔ ان سے بھی نہیں جن کے گھر میں سترہ سال سے کم عرصے تک ٹی وی نہیں۔ مشورہ انہی سے کرنا ہے جن کے گھر پورے سترہ سال سے یہ ایڈیٹ باکس نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے گا!
آخری تدوین: