شوہریات!!!

صابرہ امین

لائبریرین
یہ مضمون خالصتا خواتین کے لیے لکھا گیا ہے۔ برائے مہربانی مرد حضرات اس مضمون کو سمجھنے کی ہرگز کوشش نہ کریں- البتہ پڑھ کر مثبت ریٹنگ اور تعریفی تبصرے وغیرہ (خدارا اس وغیرہ کو بہت سنجیدہ مت لے لیجیے گا۔۔جی ہاں!) کی گنجائش بڑی مشکلوں سے پرانے اور حالیہ تعلقات کے باعث نکال لی گئی ہے! (کہیے شکریہ اور ساتھ ساتھ تالیاں!!)

یہ مضمون خاص طور پر ان خواتین کے لیے لکھا گیا ہے کہ جن کو اپنے اچھے بھلے شوہروں سے خواہ مخواہ کا بیر ہوتا ہے (ہمارے بارے میں سوچنے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں۔ ایک اور جی ہاں!!)۔ ان کو گاہے بگاہے اس بات کا ملال رہتا ہے کہ ان کے شوہر فلاں کے جیسے کیوں نہیں۔ حالانکہ وہ نہیں جانتیں کہ اگر وہ فلاں کے جیسے ہوتے تو وہ محترمہ فلانی سے ہی شادی کرتے!! اس لیے ہم نے ان معصوم و نادان و بے وقو۔ ۔ ۔ بہنوں کے لیے نہایت کم فیس پرایک مشورہ کارنر کا اہتمام کرتے ہوئے ان باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے ان کے ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال ہو جائیں۔۔ (اگر نہ ہوں تو منی بیک گارنٹی!!) چند مثالیں البتہ فری آف کاسٹ ہیں تاکہ آپ کو ہماری جاندار پلس شاندار سروس کے بارے میں آگاہی ہو۔

تو چلئے شروع کرتے ہیں۔ آپ سب مندرجہ بالا خواتین کو ہماری دانشمندانہ (جی جی دانش پلس مندانہ) رائے کو اپنی زندگی کے ہر ہر موڑ اور چوک اور چوراہے پر لازما آزمانا ہو گا۔ (اس کے بغیر ریفنڈ نہیں ہو گا۔ جی ہاں)

1۔ سب سے پہلے تو دل ہی دل میں یہ تسلیم کر لیں کہ آپ کے مجازی خدا دنیا کے سب سے عقل مند آدمی ہیں۔ ظاہر ہے اگر نہ ہوتے تو بھلا آپ سے شادی کرتے! جب آپ اپنے دل کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اس بات کو اپنے خاوند محترم کو بتانے سے پہلے بار بار زبان سے اس بات کے کہنے کی پریکٹس کریں۔ اب جب بھی کوئی بات منوانی ہو تو دیکھیے گا اس بات کا ایک وظیفے کی طرح اثر ہو گا اور وہ آپ کی باتوں میں آسانی سے آ جائیں گے۔ مگر اس وظیفے کی کچھ شرائط ہیں۔ اگر یہی بات ماتھے پر بل ڈال کر اور طنزیہ لہجے میں کی یعنی "دنیا میں بس ایک آپ ہی عقلمند انسان ہیں؟ یا پنجابی کا تڑکہ لگایا کہ اے اک تسی ہی وڈے عقل مند او۔۔ (ہائے ہماری پنجابی!!)" تو یہی وظیفہ الٹا ہو جائے گا۔ آپ نے نہایت شیریں لہجے میں مسکراتے ہوئے یہ بات کرنی ہے۔ کندھے پر ہاتھ بھی رکھ سکتی ہیں۔( اس سے زیادہ میٹھا زہر ہو سکتا ہے۔ لازما احتیاط کیجیے گا!)

2- اپنے شوہر کو بس شوہر سمجھیے اس سے زیادہ کچھ نہیں! بعض خواتین ان کو دوست و سہیلی وغیرہ بنانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ جب اس کام میں ناکامی ہو تو انہیں ان سے شکوے شکا یات ہوتیں ہیں۔ مثلا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کی شاعری سنیں اور سر دھنیں یا ان کی کہانیاں پڑھیں اور موسٹ فیوریٹ رائٹر کا خطاب عطا کر دیں۔ یا کم از کم ان کے لطائف پر ہی ہنس لیں۔ ہم ان تمام باتوں کی ایک ایک کر کے وضاحت کرتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے تو ہم اپنا تجربہ شئیر کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ہماری شاعری کی فیس بک پر کچھ زیادہ ہی واہ واہ ہو گئی اور ہم خود بھی دم بخود رہ گئے کہ اتنی کوئی خاص تو نہ تھی۔ تو ہم نے سوچا کہ صاحب کو سنائی جائے۔ پہلے ہم نے انہیں بتایا کہ آج تک ہماری ایک غزل پر اتنے لائیکس، اتنے ہارٹس وغیرہ وغیرہ ملے ہیں تو چلیں آپ کو سناتے ہیں۔ ۔ کہنے لگے،" یار مجھے کھانا چاہئے اور اس کے بعد چائے سر میں پہلے ہی شدید درد ہے۔ مجھے ہر کام میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے!" وہ دن اور آج کا دن ہم نے اس بات کا تہیہ کر لیا کہ ساری دنیا کو شاعری سنائی جائے گی مگر اس مخلوق کو ہرگز نہیں!! ایک دن حسب معمول ہم ان کے والد صاحب کو اپنی شاعری سنا رہے تھے اور ابا ازراہ شفقت و مروت واہ واہ کر رہے تھے کہ ہم نے اچانک اس مخلوق کو دیکھا۔ وہ ہمارے پاس آئے اور بیٹھ کر خاصے خوشگوار لہجے میں کہنے لگے،" کیا ہو رہا ہے بھئی؟" ہم نے اپنی کچی بیاض یعنی اپنا موبائیل فون بند کرتے ہوئے کہا۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ تلملا کر اٹھے اور دوسرے کمرے میں اماں کے پاس جا کر ہمیں زور زور سے آوازیں دینے لگے۔ "محترمہ ادھر آ جایئے۔ اماں بیمار ہیں۔ ان کے پاس بھی بیٹھا کریں۔ ہاں ان کو تو بس اپنی شاعری سے مطلب ہے۔" وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ان کی باتیں سن کر ہماری اور ابا کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اینج تے فیر اینج سہی۔ تو لب لباب یہ ہے کہ خاندان میں کوئی بامروت شخص ڈھونڈا جائے۔ اس مخلوق پر ہی تکیہ نہ کیا جائے۔

آپ کے لطیفے آپ کی نظر میں بہت مزیدار ہوں گے۔ خدارا انہیں اپنی سہیلیوں تک محدود رکھیں کہ آپ کے لطائف میں آپ کے مجازی خدا کے لیے ہنسنے کا کچھ سامان نہیں۔ ۔ مثلا ایک دن ہم نے انہیں ایک ادبی لطیفہ سنایا۔ کہ ایک شاعر (جن کا نام حسب معمول ہم بھول چکے ہیں ) اپنے دوست سے بے انتہا تعریف سننے کے بعد ایک گائیکہ کے کوٹھے پر ان کے ساتھ گئے۔ جب وہ ڈیوڑھی سے اندر داخل ہوئے ہی تھے تو دیکھا کہ وہ گائیکہ ململ کا دوپٹہ سر پر اوڑھے چرخہ کات رہی تھیں۔ وہ شاعر الٹے قدموں واپس آئے اور دوست سے کہنے لگے کہ ایسی تو میں گھر پر چھوڑ کر آیا ہوں۔۔ ہم نے داد طلب نظروں سے انہیں دیکھا- کہنے لگے پھر کیا ہوا؟ ہم نے کہا"۔ یہ تو لطیفے میں نہیں لکھا تھا۔ شاید گھر چلے گئے ہوں۔" کہنے لگے،" یہ لطیفہ ہوتا ہے؟" ہم نے کہا۔" یہ ادبی لطیفہ ہوتا ہے۔ " یاد رہے کہ زور ادبی پر تھا۔ تو بہنوں لطیفے صرف سہیلیوں تک ہی محدود رکھیں۔ ان کے لطائف کا لیول آپ کی معصومانہ سطح سے بہت اوپر ہے!

اسی طرح اپنے شوہر کا کسی اور کے شوہر سے موازنہ ہرگز ہرگز نہ کیجیے گا۔ معلوم ہے کہ اس بات کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی۔ مثلا ہماری موسٹ فیورٹ نند جرمنی میں رہتی ہیں اور نظمیہ اور نثریہ شاعری کرتی ہیں۔ ان کے شوہرجو کہ پابند شاعری کرتے ہیں، ان کے ایک ایک تازہ ترین شعر کو اپنی فیس بک پوسٹ میں فورا شئر کرتے ہیں۔ ان کو وہاں کے کمیونٹی پروگراموں میں لے کر جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور دو کتابوں میں چھپ بھی چکا ہے۔ ہم نے بھی اپنے صاحب کو غیرت دلانے کہ کوشش کی اور یہ تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں۔ غیر متوقع طور پر تمام باتیں تحمل سے سن کر کہنے لگے۔ "عادل بھائی تو معصوم سے آدمی ہیں۔ وہ یہ سب کر سکتے ہیں۔ " ہم نے استفسار کیا،" یہ کیا بات ہوئی؟ پھر آپ کیا ہیں؟" کہنے لگے،" میں خاصا عقل مند ہوں اور کسی کی باتوں میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔" ہم نے یہ باتیں اپنی نند صاحبہ کے گوش گزار کیں تاکہ وہ ان کی خبر لیں۔۔ (یقین کریں یہ غیبت نہیں تھی!) ان کا جواب سن کر تو ہم ہکا بکا ہی رہ گئے۔۔ کہنے لگیں کہ عادل تو واقعی بہت ہی اچھے ہیں۔ تم نے غور نہیں کہ کہ ہمارا فیسبک پیج ایک ہی ہے۔ ان کا میرے اور بچوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں۔ ان کا عادل نامہ سن کر ہم رشک و حسد کی وادی سے چند ہی قدم دور تھے کہ اچانک صاحب دل و جان سے پیارے لگنے لگے۔ بات تھی ہی ایسی کہ جس پر ہم جتنا شکر کریں کم ہے۔ ایسی باتوں میں بھی ازدواجی زندگی میں کمپرومائز کرنا پڑ جائے تو زندگی بدتر از جہنم نہ ہو جائے! شوہرنامہ سناتے ہوئے کہنے لگیں، "بھئی میرے تو کپڑوں تک کی شاپنگ وہ ہی کرتے ہیں۔ " ہمارے منہ سے جھٹ نکلا، "کیوں؟؟؟" کہنے لگیں کہ انہیں اپنی پسند کے کپڑے خریدنے کا شوق ہے۔ اب ہمیں خاصی گھٹن محسوس ہونے لگی ۔ ۔ دس از ٹو مچ ۔ ۔ کپڑوں پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو اپنی شادی اور ولیمے تک کے کپڑے خود ڈیزائن کیے تھے۔ ایک دن عید کی شاپنگ کرتے ہوئے صاحب نے ہمیں ہمارے لیے ایک سوٹ دکھایا۔ اف!!! پورا براؤن رنگ کا سوٹ! کہنے لگے،" مٹیریل دیکھیں کتنا اچھا ہے"۔ ہم نے چڑ کر کہا کہ خرید لیجیے ہم اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر پہن لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ شخصی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اچانک یہ احساس ہوا۔

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے تیری بھینس بنائی

تو پیاری بہنو! ہم نے آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے عظیم راز بتا دیئے ہیں۔ امید ہے آپ کے کام آئیں گے۔ اگر مزید اچھی بیویوں کے رہنما اصول جاننے ہیں تو معمولی فیس پر آپ کی کئی الجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ اگر پیسوں کی بچت کرنی ہو تو محفل میں کئی ایک قابل شخصیات ہیں جو اپنی بیگمات سے شدید نالاں ہیں اور آپ کو اچھی بیگم بننے کے طریقے بتا سکتے ہیں۔ یاد رہے آپ نے ان لوگوں سے تو بالکل مشورہ نہیں لینا جن کے گھر میں ٹی وی ہے۔ ان سے بھی نہیں جن کے گھر میں سترہ سال سے کم عرصے تک ٹی وی نہیں۔ مشورہ انہی سے کرنا ہے جن کے گھر پورے سترہ سال سے یہ ایڈیٹ باکس نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے گا!
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زبردست و شدید زبردست!!!!!!!!
آپ نے ہنسادیا ! بہت مزیدار تحریر ! لطف آیا پڑھ کر ۔ دوبارہ پڑھوں گا ۔



نہیں ۔۔۔۔۔ سمجھ میں تو آگیا ہے ۔ مزید مسکرانے کے لیے دوبارہ پڑھوں گا ۔ :D
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
صابرہ امین ، آپ مزاح بھی لکھ سکتی ہیں اور اتنا جاندار! یہ راز اہل محفل سے اب تک پوشید ہ کیوں تھا ؟ ظلم کیا آپ نے ۔
محفل بند ہونے سے پہلے پہلے تمام تحریریں یہا ں لگائی جائیں ورنہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ اب تو ہم صبر ہی کرسکتے ہیں ۔ 😃 ☹️
 

صابرہ امین

لائبریرین
زبردست و شدید زبردست!!!!!!!!
آپ نے ہنسادیا ! بہت مزیدار تحریر ! لطف آیا پڑھ کر ۔ دوبارہ پڑھوں گا ۔



نہیں ۔۔۔۔۔ سمجھ میں تو آگیا ہے ۔ مزید مسکرانے کے لیے دوبارہ پڑھوں گا ۔ :D
شکریہ۔۔ اور کیا کہوں!!
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین ، آپ مزاح بھی لکھ سکتی ہیں اور اتنا جاندار! یہ راز اہل محفل سے اب تک پوشید ہ کیوں تھا ؟ ظلم کیا آپ نے ۔
محفل بند ہونے سے پہلے پہلے تمام تحریریں یہا ں لگائی جائیں ورنہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ اب تو ہم صبر ہی کرسکتے ہیں ۔ 😃 ☹️
تمام تحریریں؟؟؟
یہ تو ابھی دوپہر کو لکھا ہے۔ چند منٹس پہلے!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
تمام تحریریں؟؟؟
یہ تو ابھی دوپہر کو لکھا ہے۔ چند منٹس پہلے!!
پھر تو آپ کو باقاعدہ نہ لکھنے پر سزا ملنی چاہیے ۔

پھر یہی کہوں گا کہ لکھنا مت چھوڑیے گا ۔ آپ میں لکھنے کی فطری صلاحیت ہے ۔ اور زیادہ تعریف کیا کروں ۔ ماشاءاللہ ۔ بہت خوب!!!!
اللہ کرے زور ِقلم اور زیادہ!
 

صابرہ امین

لائبریرین
پھر تو آپ کو باقاعدہ نہ لکھنے پر سزا ملنی چاہیے ۔

پھر یہی کہوں گا کہ لکھنا مت چھوڑیے گا ۔ آپ میں لکھنے کی فطری صلاحیت ہے ۔ اور زیادہ تعریف کیا کروں ۔ ماشاءاللہ ۔ بہت خوب!!!!
اللہ کرے زور ِقلم اور زیادہ!
حسن ظن کا بہت شکریہ! آپ کے تعریفی کلمات میرے لیے ایک سند کا درجہ رکھتے ہیں۔ جزاک اللہ خیر!
 

صابرہ امین

لائبریرین
صابرہ امین ، آپ مزاح بھی لکھ سکتی ہیں اور اتنا جاندار! یہ راز اہل محفل سے اب تک پوشید ہ کیوں تھا ؟ ظلم کیا آپ نے ۔
محفل بند ہونے سے پہلے پہلے تمام تحریریں یہا ں لگائی جائیں ورنہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ورنہ اب تو ہم صبر ہی کرسکتے ہیں ۔ 😃 ☹️
میں اس کو پال میں لگانا چاہتی تھی مگر محفل کو بند ہونے کی کوئی دستیاب تاریخ نہ ہونے کے باعث آج ہی پوسٹ کر دی۔ دس عدد ٹائپوز اب تک ٹھیک کر چکی ہوں۔ کوئی غلطی رہ گئی ہو تو نشاندہی کیجیے گا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں اس کو پال میں لگانا چاہتی تھی مگر محفل کو بند ہونے کی کوئی دستیاب تاریخ نہ ہونے کے باعث آج ہی پوسٹ کر دی۔ دس عدد ٹائپوز اب تک ٹھیک کر چکی ہوں۔ کوئی غلطی رہ گئی ہو تو نشاندہی کیجیے گا۔
بالکل درست۔ ادبی تحریروں میں ٹائپوز نہیں ہونے چاہئیں ۔ بعض اوقات مزا کرکرا کردیتے ہیں ۔
چند ایک ٹائپوز جو نظر آرہے ہیں: اگاہی ، لازما ، فیس بک ہر ، ڈوپٹہ ، بات کہ بھی وضاحت ، فیس بک پوسٹ مییں ، فیس بک پیچ ، پیاری بہنوں
باقی سب کچھ زبردست ہے ۔ پال میں لگانا ویسے تو عموماً اچھا ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ اس قسم کی تحریریں جو فی البدیہہ لکھی جائیں ان کی ایک الگ ہی چاشنی ہوتی ہے ۔ ان میں زیادہ رد وبدل سے ان کی spontaneityکم ہوجاتی ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
توبہ توبہ۔۔۔۔
یہ تحریر ایک ایسے طبقے کے متعلق ہے جسے اکثر و بیشتر اپنے پیر و مرشد کا تابع فرمان دیکھا گیا۔ اور خود ملاحظہ فرمائیے اس سادہ مخلوق کا عالم، میں نے دورانِ مطالعۂ تحریر تہیہ کر لیا تھا کہ کم سے کم راقم التحریر کے خلاف تحریر اسکوائر تک تو مارچ پکا ہے۔ میں جیسے ہی اس کے خلاف انجمنِ تحفظِ مظلوم و مجبور و مقہور شوہران کا جرگہ بلوا کر راقم کی خبر لینے کا عزم مصمم کیا، تو کیا دیکھتا ہوں یہی مظلوم طبقہ راقم التحریر کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔
اب اگر میں اکیلا نکلا تو جلوس ، مارچ کا اطلاق کیا ہونا ہے لوگ کہیں گے اس دور میں ابن بطوطہ کی سستی کاپی کہاں سے چلی آ رہی ہے۔
ہمارے ہاں کہا جاتا ہے "مجبوری دا ناں شکریہ" یعنی کے مجبوری کا دوسرا نام شکریہ۔۔۔ چل بھئی عبدل تو بھی بول دے اب دو چار تعریفانہ بول۔۔
صابرہ امین ، ماشاء اللّٰه بہت اچھی تحریر ہے اسی طرح 😢 لکھتی رہیے۔ اللھم زد فزد
آپ اس مقتبس زیریں مراسلہ کی وضاحت فرمائیں۔
اگر مزید اچھی بیویوں کے رہنما اصول جاننے ہیں تو معمولی فیس پر آپ کی کئی الجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ اگر پیسوں کی بچت کرنی ہو تو محفل میں کئی ایک قابل شخصیات ہیں جو اپنی بیگمات سے شدید نالاں ہیں اور آپ کو اچھی بیگم بننے کے طریقے بتا سکتے ہیں۔
مجھے اس پر احمد فراز کا شعر کیوں یاد آ رہا ہے

یار و اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فراز
اور ہم دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تو تھا
 

صریر

محفلین
یہ مضمون خالصتا خواتین کے لیے لکھا گیا ہے۔ برائے مہربانی مرد حضرات اس مضمون کو سمجھنے کی ہرگز کوشش نہ کریں- البتہ پڑھ کر مثبت ریٹنگ اور تعریفی تبصرے وغیرہ (خدارا اس وغیرہ کو بہت سنجیدہ مت لے لیجیے گا۔۔جی ہاں!) کی گنجائش بڑی مشکلوں سے پرانے اور حالیہ تعلقات کے باعث نکال لی گئی ہے! (کہیے شکریہ اور ساتھ ساتھ تالیاں!!)

یہ مضمون خاص طور پر ان خواتین کے لیے لکھا گیا ہے کہ جن کو اپنے اچھے بھلے شوہروں سے خواہ مخواہ کا بیر ہوتا ہے (ہمارے بارے میں سوچنے کی ہرگز ہرگز ضرورت نہیں۔ ایک اور جی ہاں!!)۔ ان کو گاہے بگاہے اس بات کا ملال رہتا ہے کہ ان کے شوہر فلاں کے جیسے کیوں نہیں۔ حالانکہ وہ نہیں جانتیں کہ اگر وہ فلاں کے جیسے ہوتے تو وہ محترمہ فلانی سے ہی شادی کرتے!! اس لیے ہم نے ان معصوم و نادان و بے وقو۔ ۔ ۔ بہنوں کے لیے نہایت کم فیس پرایک مشورہ کارنر کا اہتمام کرتے ہوئے ان باتوں کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے ان کے ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال ہو جائیں۔۔ (اگر نہ ہوں تو منی بیک گارنٹی!!) چند مثالیں البتہ فری آف کاسٹ ہیں تاکہ آپ کو ہماری جاندار پلس شاندار سروس کے بارے میں آگاہی ہو۔

تو چلئے شروع کرتے ہیں۔ آپ سب مندرجہ بالا خواتین کو ہماری دانشمندانہ (جی جی دانش پلس مندانہ) رائے کو اپنی زندگی کے ہر ہر موڑ اور چوک اور چوراہے پر لازما آزمانا ہو گا۔ (اس کے بغیر ریفنڈ نہیں ہو گا۔ جی ہاں)

1۔ سب سے پہلے تو دل ہی دل میں یہ تسلیم کر لیں کہ آپ کے مجازی خدا دنیا کے سب سے عقل مند آدمی ہیں۔ ظاہر ہے اگر نہ ہوتے تو بھلا آپ سے شادی کرتے! جب آپ اپنے دل کو قائل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اس بات کو اپنے خاوند محترم کو بتانے سے پہلے بار بار زبان سے اس بات کے کہنے کی پریکٹس کریں۔ اب جب بھی کوئی بات منوانی ہو تو دیکھیے گا اس بات کا ایک وظیفے کی طرح اثر ہو گا اور وہ آپ کی باتوں میں آسانی سے آ جائیں گے۔ مگر اس وظیفے کی کچھ شرائط ہیں۔ اگر یہی بات ماتھے پر بل ڈال کر اور طنزیہ لہجے میں کی یعنی "دنیا میں بس ایک آپ ہی عقلمند انسان ہیں؟ یا پنجابی کا تڑکہ لگایا کہ اے اک تسی ہی وڈے عقل مند او۔۔ (ہائے ہماری پنجابی!!)" تو یہی وظیفہ الٹا ہو جائے گا۔ آپ نے نہایت شیریں لہجے میں مسکراتے ہوئے یہ بات کرنی ہے۔ کندھے پر ہاتھ بھی رکھ سکتی ہیں۔( اس سے زیادہ میٹھا زہر ہو سکتا ہے۔ لازما احتیاط کیجیے گا!)

2- اپنے شوہر کو بس شوہر سمجھیے اس سے زیادہ کچھ نہیں! بعض خواتین ان کو دوست و سہیلی وغیرہ بنانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں۔ جب اس کام میں ناکامی ہو تو انہیں ان سے شکوے شکا یات ہوتیں ہیں۔ مثلا ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان کی شاعری سنیں اور سر دھنیں یا ان کی کہانیاں پڑھیں اور موسٹ فیوریٹ رائٹر کا خطاب عطا کر دیں۔ یا کم از کم ان کے لطائف پر ہی ہنس لیں۔ ہم ان تمام باتوں کی ایک ایک کر کے وضاحت کرتے ہیں۔ جہاں تک شاعری کی بات ہے تو ہم اپنا تجربہ شئیر کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ جب ہماری شاعری کی فیس بک پر کچھ زیادہ ہی واہ واہ ہو گئی اور ہم خود بھی دم بخود رہ گئے کہ اتنی کوئی خاص تو نہ تھی۔ تو ہم نے سوچا کہ صاحب کو سنائی جائے۔ پہلے ہم نے انہیں بتایا کہ آج تک ہماری ایک غزل پر اتنے لائیکس، اتنے ہارٹس وغیرہ وغیرہ ملے ہیں تو چلیں آپ کو سناتے ہیں۔ ۔ کہنے لگے،" یار مجھے کھانا چاہئے اور اس کے بعد چائے سر میں پہلے ہی شدید درد ہے۔ مجھے ہر کام میں گھسیٹنے کی کیا ضرورت ہے!" وہ دن اور آج کا دن ہم نے اس بات کا تہیہ کر لیا کہ ساری دنیا کو شاعری سنائی جائے گی مگر اس مخلوق کو ہرگز نہیں!! ایک دن حسب معمول ہم ان کے والد صاحب کو اپنی شاعری سنا رہے تھے اور ابا ازراہ شفقت و مروت واہ واہ کر رہے تھے کہ ہم نے اچانک اس مخلوق کو دیکھا۔ وہ ہمارے پاس آئے اور بیٹھ کر خاصے خوشگوار لہجے میں کہنے لگے،" کیا ہو رہا ہے بھئی؟" ہم نے اپنی کچی بیاض یعنی اپنا موبائیل فون بند کرتے ہوئے کہا۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی ادھر ادھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔ یہ سننا تھا کہ تلملا کر اٹھے اور دوسرے کمرے میں اماں کے پاس جا کر ہمیں زور زور سے آوازیں دینے لگے۔ "محترمہ ادھر آ جایئے۔ اماں بیمار ہیں۔ ان کے پاس بھی بیٹھا کریں۔ ہاں ان کو تو بس اپنی شاعری سے مطلب ہے۔" وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ان کی باتیں سن کر ہماری اور ابا کی ہنسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اینج تے فیر اینج سہی۔ تو لب لباب یہ ہے کہ خاندان میں کوئی بامروت شخص ڈھونڈا جائے۔ اس مخلوق پر ہی تکیہ نہ کیا جائے۔

آپ کے لطیفے آپ کی نظر میں بہت مزیدار ہوں گے۔ خدارا انہیں اپنی سہیلیوں تک محدود رکھیں کہ آپ کے لطائف میں آپ کے مجازی خدا کے لیے ہنسنے کا کچھ سامان نہیں۔ ۔ مثلا ایک دن ہم نے انہیں ایک ادبی لطیفہ سنایا۔ کہ ایک شاعر (جن کا نام حسب معمول ہم بھول چکے ہیں ) اپنے دوست سے بے انتہا تعریف سننے کے بعد ایک گائیکہ کے کوٹھے پر ان کے ساتھ گئے۔ جب وہ ڈیوڑھی سے اندر داخل ہوئے ہی تھے تو دیکھا کہ وہ گائیکہ ململ کا دوپٹہ سر پر اوڑھے چرخہ کات رہی تھیں۔ وہ شاعر الٹے قدموں واپس آئے اور دوست سے کہنے لگے کہ ایسی تو میں گھر پر چھوڑ کر آیا ہوں۔۔ ہم نے داد طلب نظروں سے انہیں دیکھا- کہنے لگے پھر کیا ہوا؟ ہم نے کہا"۔ یہ تو لطیفے میں نہیں لکھا تھا۔ شاید گھر چلے گئے ہوں۔" کہنے لگے،" یہ لطیفہ ہوتا ہے؟" ہم نے کہا۔" یہ ادبی لطیفہ ہوتا ہے۔ " یاد رہے کہ زور ادبی پر تھا۔ تو بہنوں لطیفے صرف سہیلیوں تک ہی محدود رکھیں۔ ان کے لطائف کا لیول آپ کی معصومانہ سطح سے بہت اوپر ہے!

اسی طرح اپنے شوہر کا کسی اور کے شوہر سے موازنہ ہرگز ہرگز نہ کیجیے گا۔ معلوم ہے کہ اس بات کی بھی وضاحت کرنی پڑے گی۔ مثلا ہماری موسٹ فیورٹ نند جرمنی میں رہتی ہیں اور نظمیہ اور نثریہ شاعری کرتی ہیں۔ ان کے شوہرجو کہ پابند شاعری کرتے ہیں، ان کے ایک ایک تازہ ترین شعر کو اپنی فیس بک پوسٹ میں فورا شئر کرتے ہیں۔ ان کو وہاں کے کمیونٹی پروگراموں میں لے کر جاتے ہیں۔ ان کی شاعری کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور دو کتابوں میں چھپ بھی چکا ہے۔ ہم نے بھی اپنے صاحب کو غیرت دلانے کہ کوشش کی اور یہ تمام باتیں ان کے گوش گزار کیں۔ غیر متوقع طور پر تمام باتیں تحمل سے سن کر کہنے لگے۔ "عادل بھائی تو معصوم سے آدمی ہیں۔ وہ یہ سب کر سکتے ہیں۔ " ہم نے استفسار کیا،" یہ کیا بات ہوئی؟ پھر آپ کیا ہیں؟" کہنے لگے،" میں خاصا عقل مند ہوں اور کسی کی باتوں میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔" ہم نے یہ باتیں اپنی نند صاحبہ کے گوش گزار کیں تاکہ وہ ان کی خبر لیں۔۔ (یقین کریں یہ غیبت نہیں تھی!) ان کا جواب سن کر تو ہم ہکا بکا ہی رہ گئے۔۔ کہنے لگیں کہ عادل تو واقعی بہت ہی اچھے ہیں۔ تم نے غور نہیں کہ کہ ہمارا فیسبک پیج ایک ہی ہے۔ ان کا میرے اور بچوں کے علاوہ کوئی دوست نہیں۔ ان کا عادل نامہ سن کر ہم رشک و حسد کی وادی سے چند ہی قدم دور تھے کہ اچانک صاحب دل و جان سے پیارے لگنے لگے۔ بات تھی ہی ایسی کہ جس پر ہم جتنا شکر کریں کم ہے۔ ایسی باتوں میں بھی ازدواجی زندگی میں کمپرومائز کرنا پڑ جائے تو زندگی بدتر از جہنم نہ ہو جائے! شوہرنامہ سناتے ہوئے کہنے لگیں، "بھئی میرے تو کپڑوں تک کی شاپنگ وہ ہی کرتے ہیں۔ " ہمارے منہ سے جھٹ نکلا، "کیوں؟؟؟" کہنے لگیں کہ انہیں اپنی پسند کے کپڑے خریدنے کا شوق ہے۔ اب ہمیں خاصی گھٹن محسوس ہونے لگی ۔ ۔ دس از ٹو مچ ۔ ۔ کپڑوں پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو اپنی شادی اور ولیمے تک کے کپڑے خود ڈیزائن کیے تھے۔ ایک دن عید کی شاپنگ کرتے ہوئے صاحب نے ہمیں ہمارے لیے ایک سوٹ دکھایا۔ اف!!! پورا براؤن رنگ کا سوٹ! کہنے لگے،" مٹیریل دیکھیں کتنا اچھا ہے"۔ ہم نے چڑ کر کہا کہ خرید لیجیے ہم اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر پہن لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ شخصی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اچانک یہ احساس ہوا۔

رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے تیری بھینس بنائی

تو پیاری بہنو! ہم نے آپ کو اپنی ازدواجی زندگی کی کامیابی کے عظیم راز بتا دیئے ہیں۔ امید ہے آپ کے کام آئیں گے۔ اگر مزید اچھی بیویوں کے رہنما اصول جاننے ہیں تو معمولی فیس پر آپ کی کئی الجھنوں کو سلجھایا جا سکتا ہے۔ اگر پیسوں کی بچت کرنی ہو تو محفل میں کئی ایک قابل شخصیات ہیں جو اپنی بیگمات سے شدید نالاں ہیں اور آپ کو اچھی بیگم بننے کے طریقے بتا سکتے ہیں۔ یاد رہے آپ نے ان لوگوں سے تو بالکل مشورہ نہیں لینا جن کے گھر میں ٹی وی ہے۔ ان سے بھی نہیں جن کے گھر میں سترہ سال سے کم عرصے تک ٹی وی نہیں۔ مشورہ انہی سے کرنا ہے جن کے گھر پورے سترہ سال سے یہ ایڈیٹ باکس نہیں ہے۔ اللہ بھلا کرے گا!
ہاہاہا، بہت خوب! زبردست!!
میں نے تو تین بار پڑھی یہ تحریر،‌ شروع سے آخر تک، ہر بار پہلی مرتبہ سے زیادہ لطف آیا۔ آپ کا سینس آف ہیومر بہت اعلی اور آپ کی وِٹ بہت میچیور ہے۔ ہمیں تو پطرس بخاری کی سی جھلک محسوس ہوئی۔ آپ باقاعدہ طور پر طنزومزاح لکھا کریں، اور اسے پبلش بھی کراتی رہیں۔ ادبی حلقوں اور ادبی دنیا کے لئے آپ کی تحاریر کسی خزانے سے کم نہ ہوں گی۔
 

یاسر شاہ

محفلین
کپڑوں پر تو کوئی کمپرومائز نہیں ہو سکتا۔ ہم نے تو اپنی شادی اور ولیمے تک کے کپڑے خود ڈیزائن کیے تھے۔ ایک دن عید کی شاپنگ کرتے ہوئے صاحب نے ہمیں ہمارے لیے ایک سوٹ دکھایا۔ اف!!! پورا براؤن رنگ کا سوٹ! کہنے لگے،" مٹیریل دیکھیں کتنا اچھا ہے"۔ ہم نے چڑ کر کہا کہ خرید لیجیے ہم اپنی پینسٹھویں سالگرہ پر پہن لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے کبھی اصرار نہیں کیا۔ شخصی آزادی کتنی بڑی نعمت ہے، اچانک یہ احساس ہوا۔
:ROFLMAO:
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں یہ مضمون اپنی بیگم کی پہنچ سے دور رکھوں گا۔۔۔ ویسے اس کی پہنچ میں بھی رکھ دوں تو اس نے کون سا پڑھنا ہے۔۔۔ ہوہوہوہوہو

بہت ہی اعلی و شگفتہ۔۔۔ جگ جگ جئیں صابرہ
 
بہت خوب صورت مضمون ہے۔ مردوں کے لیے مزاحیہ ہے، عورتوں کے لیے جو تیرا حال ہے وہ میرا حال ہے کے مصداق ہے۔ ویسے دوسری خواتین بھی ہوتی ہوں گی، جن کی آپ نے مثالیں دیں لیکن وہ بندے بھی کوئی اور ہوتے ہیں! 🤣
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
واہ واہ
کیا خوب تیر بہدف نسخہ جات تحریر فرمائے ہیں صابرہ امین ۔ پڑھ کر لطف آ گیا۔
کہنے کو تو دنیا کی آبادی کے دو زمرے ہیں، دیہی اور شہری۔ تاہم ہمارا یہ ماننا ہے کہ یہ تقسیم غلط ہے، اور دراصل دنیا شوہری اور غیرشوہری آبادی میں منقسم ہے۔ انہی دو "انواع" کے توازنِ تعلقات کے لئے آپ کے تحریر کردہ نکات رہنما اصول کے طور پر سکھائے جانے چاہییں، بلکہ شوہریت کا گرین کارڈ دینے سے پہلے ان کا تحریری و عملی امتحان بھی ضروری ہے۔
اور پھر اسی تحریر سے اکبر اللہ آبادی بھی یاد آتے ہیں:

خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا

آپ کی مزید ایسی ہی شگفتہ تحاریر کا انتظار رہے گا۔ مزید زورِ قلم کے لئے دعاگو ۔
 
مشتاق احمد یوسفی کا خاکم بدہن میں لکھا ہوا ایک جملہ یاد آگیا:
“مصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں، مگر عورتیں اس لحاظ سے قابلِ ستائش ہیں کہ اُنھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔”

آپ کی تحریر پڑھ کے مجھے پرمزاح سے زیادہ غم ناک مزاحِ اسود کا سا احساس ہوا اور یک گونہ اطمینان بھی کہ دنیا میں اس حوالے سے وومین نیریٹو کم سہی، مگر موجود ضرور ہے۔ ورنہ آدمیوں نے بیگمات پہ لطیفے گھڑ گھڑ کے اور خود ہی ہنس ہنس کے انی پائی ہوئی ہے!
"جینے کے لیے سوچا ہی نہیں "م"رد سنںھالنے ہوں گے! 🤣
(مسکرائے تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے 😌)
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت ہی زبردست۔۔۔ :ROFLMAO:
کیا ہی شگفتہ انداز میں حقیقت بیان کی ہے آپ نے۔آپ کا یہ مضمون نہ صرف مزاح سے بھرپور ہے بلکہ ازدواجی زندگی کی کئی باریک حقیقتوں پر روشنی بھی ڈال رہا ہے۔ آپ نے جس ہنر مندی سے طنز و مزاح کو حکمت اور تجربے کے ساتھ ملایا ہے، وہ قابلِ داد ہے۔ پڑھ کر ایسا لگا جیسے ہنسی اور دانش ایک ساتھ قہقہے لگا رہے ہوں۔براؤن سوٹ تو شاید کبھی نہ بھول پائیں اب۔
واقعی یہ تحریر ان تمام بہنوں کے لیے ایک بہترین رہنمائی ہے جو اپنے شوہروں کو سمجھنے میں الجھی ہوئی ہیں، اور اس کوشش میں لگی ہیں کہ با ادب بیوی بننے کی کوشش میں کہیں بے ادب ہی نہ کہلائی جائیں۔آخر کو ہوتا تو مجازی خدا ہی ہے نا۔ پر سانوں کہیہ۔
داد کے ساتھ ساتھ دل کی گہرائیوں سے نکلی ڈھیروں دعائیں زورِ قلم کے لئے ۔۔۔ کہ آئیندہ بھی ایسی پُر مزاح تحریر پڑھنے کو ملے۔
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
توبہ توبہ۔۔۔۔
یہ تحریر ایک ایسے طبقے کے متعلق ہے جسے اکثر و بیشتر اپنے پیر و مرشد کا تابع فرمان دیکھا گیا۔
تھا کا اضافہ کر لیجئیے روفی بھیا۔
لیکن ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ بہنوں کا ساتھ دیں یا بھائیوں کا۔۔۔ ہمارے لئے دونوں برابر ہیں اپنی دونوں آنکھوں کی طرح۔ :redheart::redheart::redheart:
 
Top