شفیق خلش شفیق خلش ::::: یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین

غزلِ


یوں بھی کچھ لوگ تھے محفل میں جو لائے نہ گئے
جب سُنا بھی کبھی آئے ہیں تو پائے نہ گئے

دوست احباب مُصیبت میں تو پائے نہ گئے
ہم اذیّت میں اکیلے گئے، سائے نہ گئے

راہ پر ہم سے کسی طور وہ لائے نہ گئے
کرکے وعدے جو مُلاقات کو پائے نہ گئے

اپنے معیار پہ ہم سے تو وہ لائے نہ گئے
گھر جو مرضی سے ہماری کبھی آئے نہ گئے

شاملِ حال رہِیں میرے، دُعائیں سب کی
اُن کی اُلفت کے مِرے سر رہے سائے نہ گئے

دِل کے سب دِل میں رہے راز، کِسے کیا کہتے
درجۂ دوست تک احباب بھی لائے نہ گئے

چھوڑنا ہم کو پڑا بادِلِ ناخواستہ گھر
فیصلوں میں جو تسلسل سے بٹھائے نہ گئے

دَیں نہ کیوں حُسنِ بَلاخیز پہ الزام، کہ جب
دوسرے خواب تک آنکھوں میں سجائے نہ گئے

سب گُماں جو ہمیں لاحق تھے یقیں میں بدلے
شکوک اُن سے جو ذرا دِل کے مِٹائے نہ گئے

موسمِ گُل ہی نہیں وجۂ آشفتہ سری !
ہم تِری یادوں سے کِس پَل کہ ستائے نہ گئے

شک کوئی چارہ گری پر نہ ہو، اے چارہ گرو !
ہم سے غم اپنے، دِلاسوں میں دبائے نہ گئے

ہوکے لازم رہے جینے کو تنفس کی طرح
بِیتے لمحے جو تِرے سنگ، بُھلائے نہ گئے

یاد آتے ہی نہیں اُن کو کسی طور خلش
ہاں مگر اوروں سے جب ناز اُٹھائے نہ گئے


شفیق خلش

 
Top