طارق شاہ
محفلین
غزل
آ ہ رُکتی نظر نہیں آتی
آنکھ لگتی نظر نہیں آتی
یاد ٹلتی نظر نہیں آتی
رات ڈھلتی نظر نہیں آتی
کیا کِرن کی کوئی اُمید بندھے
دُھند چَھٹتی نظر نہیں آتی
گو تصوّر میں ہے رُخِ زیبا
یاس ہٹتی نظر نہیں آتی
یُوں گُھٹن سی ہے اِضطراب سے آج
سانس چلتی نظر نہیں آتی
کیا تصوّر میں کچھ تغیّر ہو
سوچ بٹتی نظر نہیں آتی
ٹھہری ایسی ہے خوش خیال پہ ایک
عُمر کٹتی نظر نہیں آتی
ایک خواہش نے کیا جَلا ڈالا
خود گو جلتی نظر نہیں آتی
وہ اُفق پر ہے چاندنی کے ہمَیں
ساتھ چلتی نظر نہیں آتی
خاک تاثیر بھی محبّت کی !
جو بدلتی نظر نہیں آتی
ایسی سِل برف کی ہے دِل پہ لِئے
جو پگھلتی نظر نہیں آتی
حِدّتِ عشق کارگر بھی نہیں
دال گھلتی نظر نہیں آتی
یہ ملال اب ہمَیں کہ کیوں ہم پر
وہ اُچٹتی نظر نہیں آتی
ہو تغافل پہ کیا گلہ کہ خلش
آگ جلتی نظر نہیں آتی
مانیے اُلفت ایک طرفہ خلش !
اُن میں پلتی نظر نہیں آتی
شفیق خلش
آخری تدوین: