شفیق خلش شفیق خلش ::::: کیوں قرار اب دِل کو میرے ایک پَل آتا نہیں ::::: Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین


proxy.php

غزل
کیوں قرار اب دِل کو میرے ایک پَل آتا نہیں
دُوسروں کا غم بھی سِینے سے نِکل جاتا نہیں

کِس کو لگتے ہیں بُرے یہ پیار کے مِیٹھے سُخن
تیری باتوں سے بھی اب غم اپنا ٹل جاتا نہیں

نصفِ شب کو اُٹھ کے بیٹھوں پُرملالِ حال سے
میرے خوابوں سے کبھی خوفِ اجَل جاتا نہیں


ہے یہی اِک فکر، کیسے کربِ فُرقت دُور ہو
کوئی اِمکاں ہو کبھی بچ کر نِکل جاتا نہیں


اب اُمیدیں اُستوار اُس جاں سے کیا میرے صنم
تیری قربت سے بھی جو اکثر بہل جاتا نہیں

کیا کروں فردا کا وعدہ تجھ سے اے جانِ خلش !
زندگی کو آج جانو، اِس میں کل آتا نہیں

اور بھی غم ہیں جہاں میں زندگی کے واسطے
اِک ذرا سے پیار سے، سب تو بدل جاتا نہیں

شفیق خلش
 
مدیر کی آخری تدوین:

طارق شاہ

محفلین
شاہ صاحب اس مصرع میں ایک لفظ جھوٹ گیا ہے
نصفِ شب اُٹھ کے بیٹھوں پُرملالِ حال سے

نصفِ شب کو اُٹھ کے بیٹھوں پُرملالِ حال سے
جی بہت شکریہ نشاندہی کے لئے
وارث صاحب سے گزارش ہے کہ
کو کا اضافہ کردیں پلیز
:bulgy-eyes:
 
Top