طارق شاہ
محفلین
غزلِ
شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے

شفیق خلش
کب اُن کو اپنا عمَل اِک بھی ظالمانہ لگے
کہوں جو حق کی اگر میں، تو باغیانہ لگے
فضائے عِشق و محبّت جسے مِلا نہ کبھی
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے
یہ دِل اِک ایسے پرندے کا آشیانہ لگے
مطیع بن کے ہمیشہ رہے تھے، جس کا یہاں
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے
عذاب ہم پہ سب اُس کا ہی شاخسانہ لگے
کہُوں یہ کیسے کہ اُن کے بغیر رہ نہ سَکوُں
اُنھیں تو میری ہر اِک بات عامیانہ لگے
اُنھیں تو میری ہر اِک بات عامیانہ لگے
اُنہی کی ذات ہو مُنتج ہمارے حال پہ جب
مِزاج پُرسی کا ہر لفظ تازیانہ لگے
مِزاج پُرسی کا ہر لفظ تازیانہ لگے
جو کِھل نہ پایا کسی طَور آرزُو کا کنْول !
ڈھلا غزل میں تو، ہر لفظ عاجزانہ لگے
ڈھلا غزل میں تو، ہر لفظ عاجزانہ لگے
اب اور کُھل کے اُنھیں حالِ دِل سُناؤں کیا
جنھیں غزل یہ مِری، اب بھی عاشقانہ لگے
جنھیں غزل یہ مِری، اب بھی عاشقانہ لگے
تمھاری بیخ کنی پر تُلے وہی ہیں، خلِش
سُنے پہ جن کی ہر اِک بات مُخلصانہ لگے
سُنے پہ جن کی ہر اِک بات مُخلصانہ لگے
شفیق خلش