شفیق خلش -- سائے ہیں بادلوں کے وہ، چھٹتے نہیں ذرا

طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلش

سائے ہیں بادلوں کے وہ، چھٹتے نہیں ذرا
لا لا کے غم سروں پہ یہ، تھکتے نہیں ذرا

کیسے قرار آئے دلِ بے قرار کو
گھر سے اب اپنے وہ، کہ نکلتے نہیں ذرا

کیا وہ بچھڑگئے، کہ خُدائی بچھڑ گئی
دُکھ اب ہماری ذات کے بٹتے نہیں ذرا

سُوجھے کوئی نہ بات ہمیں آپ کے بغیر
موسم تخیّلوں کے بدلتے نہیں ذرا

ہر روز ہاتھ سُرخ ہیں اوروں کے خون سے
کیا لوگ ہیں، کہ ظُلم سے تھکتے نہیں ذرا

انسانیت کا خُون اُنہی نے یہاں کِیا
قاتل جو اپنی شکل سے لگتے نہیں ذرا

بے سُود، ذکرِ غم ہے زمانے کے سامنے
دل اب کسی بھی طَور پِگھلتے نہیں ذرا

رہتی نہیں ہے دُھوپ ہمیشہ اگر خلش
کیوں زندگی سے درد یہ ہٹتے نہیں ذرا

شفیق خلش
 
Top