طارق شاہ
محفلین

غزل
رکھّا ہے دل میں تجھ کو چُپھے راز کی طرح
دھڑکن بتا نہ دے کہ ہُوئی ساز کی طرح
تیرے خیال سے ہے بہار اب خِزاں کی رُت
خاموشی بھی چہک تِری آواز کی طرح
یوں کِھلکِھلانا اُس کا ہے اِس بات پر ثبوت
باقی نہ سرد مہری ہے آغاز کی طرح
پُھولے نہیں سماتا ہے قربت سے تیری دِل
پہلو میں توُ، اِسے ہے اِک اعزاز کی طرح
دِل اُس کے مُسکرانے پہ ہو مُطمئن نہ کیوں
ہے یہ بھی خوش شگونیِ آغاز کی طرح
عاشِق سے کیا بعید! اُڑان اُس کی جب رہے
اک بازِ با اِرداہ کے پرواز کی طرح
مولوُد پر ہُوا جو، بَھلا کب نہیں ہُوا
رونا وہی ہے زیست کی آغاز کی طرح
تشبیہ یا مِثال کی صُورت کوئی تو ہو !
کچھ بھی کہاں جہاں میں ہے خوش ںاز کی طرح
ہر شے اُداس ہجر میں اُس کے ہے اب خلش
بے چین دِل، طبیعتِ ناساز کی طرح
شفیق خلش