طارق شاہ
محفلین

شفیق خلش
غزل
آنکھوں کی طرح میری چمکتے رہو تارو
تم دل کی طرح دِید کی اُمید نہ ہارو
ہے ہجر کا موسم یہ مِرے دل کے سہارو
قائم رہے کچھ وصل کی اُمّید تو پیارو
غالب رہے ضو باری بچھی تِیرہ شبی پر
چہرے نہ لگیں یاس کی تصویر سی تارو
اے چاند ، اُسے میری تسلّی ہی کی خاطر
آجائے وہ تم میں نظر ایسا تو پُکارو
صدقے میں بَھلی ذات کے پھر ہجر میں اُس کی
اے ماہِ منّور وہی صُورت تو اُبھارو
حسرت میں نہ مرجاؤں مِرے ذوقِ تخیّل
لے آؤ مقابل اُسے ، قالب میں اُتارو
قدموں تلے آجائے گی منزل ، جو خلش تم
لو سر سے کوئی کام ، نہ دیوار پہ مارو
شفیق خلش
مدیر کی آخری تدوین: