شعر جو ضرب المثل بنے

وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
اس شعر پہ ہمارے کالج میں بھی ایک بار بحث ہوئی تھی ، پروفیسر صاحب نے بتایا کہ یہ شعر میر صاحب کا نہیں ہے بلکہ برق دہلوی صاحب کا ہے
 
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

اور غالب
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
کعبے کس مونہہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

محترم الف عین صاحب

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی..

یہ مکمل غزل عطا فرمائیں
 
السلام علیکم محترم احباب...

کوئی بھی دوست جو اس وقت آن لائن ہو...

یہ غزل عطا کریں...

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
 

فاتح

لائبریرین
السلام علیکم محترم احباب...

کوئی بھی دوست جو اس وقت آن لائن ہو...

یہ غزل عطا کریں...

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
وہ آئے بزم میں اتنا تو برقؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
یہ شعر غلط طور پر میر تقی میر کے نام سے منسوب ہے۔ دراصل یہ شعر مہاراج بہادر برق دہلوی کا ہے اور میری معلومات کے مطابق یہ مکمل غزل میسر نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

احسان قمی

محفلین
م
اعجاز صاحب آپ نے تو یہ شعر میرے منہ سے چھین لیا ، بہت خوب میں یہی پوسٹ کرنے آیا تھا کہ دیکھا آپ نے پوسٹ کردیا ہے۔ چلیں اتنا تو ہوا کہ مجھے پتہ چل گیا کہ میرا خیال بھی کبھی بلند سمت پرواز کر سکتا ہے

غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
شاید کعبہ کس منھ سے جاو گے غالب اس طرح ہے لکھنے میں
اور غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
 
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

شاید اسی دھاگے کے پہلے یا دوسرے صفحہ پر جناب وہاب صاحب نے میر کا ایک مصرع لکھا تھا "اس عاشقی میں عزت سعادت بھی گئی" جو میرے ناقص علم کے مطابق کچھ یوں ہے:
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں


مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی

کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئی

کچھ کہتے آ کے ہم تو سنا کرتے وے خموش
اب ہر سخن پہ بحث ہے وہ بات بھی گئی

نکلے جو تھی تو بنتِ عنب عاصمہ ہی تھی
اب تو خراب ہو کر خرابات بھی گئی

عمامہ جا نماز گئے لے کے مغ بچے
واعظ کی اب لباسِ کرامات بھی گئی

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی

(میر تقی میر)
 
Top