فاتح

لائبریرین
فاتح بھائی!
یہاں وَحید اور جُنید ہم قافیہ ہیں؟
میرے ذہن میں بھی یہی بات آئی تھی لیکن لغت نامہ دہخدا (فارسی) میں دیکھا تو ن کی کسرہ کے ساتھ بھی ایک جنید موجود تھا۔ واللہ اعلم
میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ یہ ‘بحر الفصاحت‘ سے اقتباس ہے۔
جی بالکل، میں نے اپنے مراسلے کی سب سے پہلی سطر میں یہی لکھا ہے:
مولوی حکیم محمد نجم الغنی نجمی رامپوری "بحر الفصاحت" میں صنعت ترصیع کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں:
 

سید عاطف علی

لائبریرین
فاتح بھائی!
یہاں وَحید اور جُنید ہم قافیہ ہیں؟
میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ یہ ‘بحر الفصاحت‘ سے اقتباس ہے۔
میرے خیال میں ۔تو ہاں انہیں ہم قافیہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ زبانوں کے لہجات میں وقت کے تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں (اب یہ نہیں معلوم یہ شعر کب کہا گیا ) ۔تاہم اب اس کا رواج اتنا نہیں رہا۔
غالب کی غزل آپ کو ضرور یار ہو گی، بھید ،خورشید، شجر بید، امید وغیرہم ۔
دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ شاعر نے وحید کو فُعَیل۔یعنی جنید ہی وزن پر اسمِ تصغیر کی شکل پر باندھا ہو۔ :) ۔۔۔ آخر شاعر ہی تو ہے،
 

فاتح

لائبریرین
بزمِ قولی میں بس اقرار ہوئے جاتے ہیں
رزمِ فعلی میں بس انکار ہوئے جاتے ہیں

کس صفائی سے گنہگار ہوئے جاتے ہیں
کس سفیدی سے سیہ کار ہوئے جاتے ہیں

میری ایک طویل غزل کے پہلے دو اشعار۔
بزمِ و رزمِ
قولی و فعلی
کیا یہ الفاظ کسی بھی طرح ہم قافیہ کہلا سکتے ہیں؟
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
جلد ہی اگلے موضوع کی طرف بڑھیں گے، تب تلک ۔۔۔ فلیش بیک !!! :)

اس حوالے سے جس پہلی اصطلاح کو لے کر ہم اساتذہء کرام سے فیض پانا چاہتے ہیں، وہ ہے: ترصیع

ترصیع لفظی صنعت ہے ۔ اس کے لغوی معنی تونگینہ کاری اور زیور جڑنے کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں ایسے شعر کو مرصع کہتے ہیں کہ جس میں یہ التزام رکھا گیا ہو کہ دونوں مصرعوں میں الفاظ علی الترتیب ایک دوسرے کے ہم وزن ہوں ۔ مثلا اگر پہلے مصرع میں پانچ الفاظ ہیں تو مصرع ثانی میں بھی پانچ الفاظ ہوں گے اور ان میں سے ہر لفظ علی الترتیب مصرع اول کے ہر لفظ کا ہموزن ہوگا ۔

میں ۔ ترا۔ بندہ ۔ ہوں ۔ عاجز
تو ۔ مرا ۔ مالک ۔ ہے ۔ قادر

بعض مصنفین کے نزدیک صنعتِ ترصیع میں دونوں مصرعوں کے الفاظ کا ہم وزن ہونے کے ساتھ ساتھ ہم قافیہ ہونا بھی ضروری ہے ۔ مثلا کسی منقبت کا یہ شعر :

وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
ہم وزن اور ہم قافیہ کی شرائط کے ساتھ بہت کم اشعار ملتے ہیں یا میرے علم میں نہیں ۔ زیادہ تر تو صرف ہم وزن الفاظ کے التزام کو ترصیع سمجھا جاتا ہے ۔

ایک شعر بطور مثال ۔۔۔!!!

باصر ہیں یہ بصیر ہیں اہلِ وفا ہیں یہ
قادر ہیں یہ قدیر ہیں اہلِ سخا ہیں یہ

وضاحت:
ترصیع ایسی صنعت ہے جس میں شعر کے دو مصرعوں کے تمام ارکان باہم ہم وزن اورہم سجع ہوں یعنی ایسے الفاظ جس کی آخیر آوازیں ایک جیسی ہوں جیسے یار، غار انکار، افکار وغیرہ ۔

مولوی حکیم محمد نجم الغنی نجمی رامپوری "بحر الفصاحت" میں صنعت ترصیع کے بیان میں یوں رقم طراز ہیں:

یہ صنعت اس طرح ہے کہ ایک مصرع موزوں کریں اور اس کے مقابل دوسرا مصرع اس طریق پر لاویں کہ پہلے مصرع کا پہلا لفظ دوسرے مصرع کے پہلے لفظ کا قافیہ اور پہلے مصرع کا دوسرا لفظ دوسرے مصرع کے دوسرے لفظ کا قافیہ ہو۔ اسی طرح پہلے مصرع کے اور الفاظ بھی ترتیب وار دوسرے مصرع کے الفاظ کے قافیے ہوں۔ مثلاً
وحیدِ یگانہ ریاضت میں تھے
جنیدِ زمانہ عبادت میں تھے
(تاریخ بدیع)
وحید کے مقابل دوسرے مصرع میں جنید ہے اور یگانہ کے مقابل زمانہ اور ریاضت کے مقابل عبادت

اُدھر سے جہاندار کشورستاں
اِدھر سے سپہدارما زندراں
(منشی)

ہمت نے مری تجھے اڑایا
غفلت نے تری مجھے چھڑایا
(نسیم)

عالم ہیں یہ علیم ہیں یہ با خبر ہیں یہ
حاکم ہیں یہ حکیم ہیں یہ دادگر ہیں یہ
راحم ہیں یہ رحیم ہیں یہ راہبر ہیں یہ
سالم ہیں یہ سلیم ہیں یہ با ہنر ہیں یہ
باصر ہیں یہ بصیر ہیں اہلِ وفا ہیں یہ
قادر ہیں یہ قدیر ہیں اہلِ سخا ہیں یہ
(یعقوب علی خان نصرت)​
اور اگر الفاظ میں رعایت تجنیس کی بھی ہو یعنی مصرع ثانی میں بعینہٖ وہی الفاظ ہوں جو پہلے مصرع میں ہوں مگر معنے جداگانہ ہوں تو اسے ترصیع مع التجنیس کہتے ہیں۔
مثال اس کی یہ غزل کرم خان متخلص بہ کرم ساکن رامپور کی:
نہ وہ پہونچا نہ کلائی ہے ہات
نہ وہ پہونچا نہ کل آئی ہیہات
برسے کیوں جائے ہے رَہ رَہ برسات
بر سے کیوں جائے ہے رَہ رَہ بر سات
بُول میٹھا تو سنا جائے نہ بات
بول میٹھا تو سنا جائے نبات
آپ بس جائیں نہ گھر ہوتا رات
آپ بس جائیں نہ گھر ہو تارات (تاراج)
کہ کرم سے وہ بس آوے دے ہات
کہ کرم سے وہ بساوے دیہات​

چونکہ یہاں صنعتِ ترصیع کے حوالے سے گفتگو ہورہی ہے تو مرصع اس شعر کو کہا جارہا کہ جس میں یہ صنعت استعمال ہوئی ہو ۔ شعری اصطلاح مین مرصع کا یہی مفہوم ہوگا ۔ لیکن اس کے علاوہ عام گفتگو اور شعر پر تنقید و تبصرہ کے ضمن میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ ’’واہ واہ کیا مرصع غزل ہے اور کیا مرصع اشعار ہیں‘‘ تو یہاں اس سے مراد خوش بیانی اور اشعار کی مجموعی خوبصورتی مراد ہوتی ہے ۔ اس بات کی وضاحت اس لئے کردی ہے کہ گفتگو مین کوئی ابہام نہ رہے ۔

ترصیع: جب دونوں مصرعوں کے الفاظ بالترتیب ایک دوسرے کے ہموزن ہوں۔
مثال
اے شہنشاہِ فلک منظر بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل
پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ اورنگ
فرق سے تیرے کرے کسب سعادت اکلیل
تیرا اندازِ سخن شانۂ زُلفِ الہام
تیری رفتارِ قلم جنبشِ بالِ جبریل۔

ترصیع مع التجنیس: جب الفاظ ہموزن میں رعایت تجنیس کی بھی ہو اس کو ترصیع مع التجنیس کہتے ہیں۔
مثال
نہ وہ پہونچا نہ کلائی ہے ہات
نہ وہ پہونچا نہ کل آئی ہیہات

(آئینۂ بلاغت از محمد عسکری)

حمت حق بہانہ می جوید
رحمت حق بہا ،نمی جوید
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرے خیال میں ۔تو ہاں انہیں ہم قافیہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ زبانوں کے لہجات میں وقت کے تغیرات واقع ہوتے رہتے ہیں (اب یہ نہیں معلوم یہ شعر کب کہا گیا ) ۔تاہم اب اس کا رواج اتنا نہیں رہا۔
غالب کی غزل آپ کو ضرور یار ہو گی، بھید ،خورشید، شجر بید، امید وغیرہم ۔
دوسری صورت یہ ممکن ہے کہ شاعر نے وحید کو فُعَیل۔یعنی جنید ہی وزن پر اسمِ تصغیر کی شکل پر باندھا ہو۔ :) ۔۔۔ آخر شاعر ہی تو ہے،

عاطف بھائی آپ کی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کچھ اور عرض کروں گا ۔ اصولِ قافیہ میں کئی داخلی تضادات موجود ہیں ۔ اردو عروض کی بنیاد لفظوں کی ادائیگی پر ہے ان کی کتابت پر نہیں یعنی تقطیع ملفوظی ہے مکتوبی نہیں ۔ اس کے بر عکس قافیے کے معاملے میں ایک مکتبہء فکر ایک عرصے تک مکتوبی اصول پر قائم رہا ہے ۔ حرفِ روی اور دیگر حروفِ قافیہ کی پابندی کرنے کے چکر میں ملفوظی کے بجائے قافیے کے مکتوبی پہلو کو فوقیت دی گئی ۔ پروفیسر غالب ہی نے معنی ، تسلی ، معاصی وغیرہ کے قوافی میں لیلیٰ اور عیسیٰ بھی باندھے ہیں ۔ :):):)
 

محمد وارث

لائبریرین
عباد اللہ
ترصیع ایسی صنعت ہے جس میں شعر کے دو مصرعوں کے تمام ارکان باہم ہم وزن اورہم سجع ہوں یعنی ایسے الفاظ جس کی آخیر آوازیں ایک جیسی ہوں جیسے یار، غار انکار، افکار وغیرہ ۔
ترصیع کی اوپر کئی ایک مثالیں آئی ہیں جن میں الفاظ ہم قافیہ نہیں ہیں۔ آج اتفاق سے "سجع" پر کچھ معلومات نظر سے گزریں تو اس فرق کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔ جیسا کہ آپ کے اقتباس میں لکھا ہے کہ ترصیع میں سجع کا بھی اہم کردار ہے تو سجع کی تین اقسام ہیں۔

سجع متوازی - جس میں الفاظ نہ صرف ہم وزن ہوں بلکہ ہم قافیہ بھی ہوں جیسے، خامہ و نامہ، کار و بار، حاظر و ناظر، قاتل و قابل وغیرہ۔
سجع مطرف - جس میں الفاظ ہم قافیہ تو ہوں لیکن ہم وزن نہ ہوں جیسے راز و نواز، دست و شکست، قاتل و دل وغیرہ۔
سجع متوازن ۔ جس میں الفاظ ہم وزن تو ہوں لیکن ہم قافیہ نہ ہوں جیسے نہال و بہار، کام و کار، وغیرہ۔

ہو سکتا ہے کہ ترصیع کی ہمیں جو مختلف مثالیں ملی ہیں وہ انہی سجع کی مختلف قسموں کی وجہ سے ہوں۔
 

فرقان احمد

محفلین
ترصیع کی اوپر کئی ایک مثالیں آئی ہیں جن میں الفاظ ہم قافیہ نہیں ہیں۔ آج اتفاق سے "سجع" پر کچھ معلومات نظر سے گزریں تو اس فرق کو بھی سمجھنے کا موقع ملا۔ جیسا کہ آپ کے اقتباس میں لکھا ہے کہ ترصیع میں سجع کا بھی اہم کردار ہے تو سجع کی تین اقسام ہیں۔

سجع متوازی - جس میں الفاظ نہ صرف ہم وزن ہوں بلکہ ہم قافیہ بھی ہوں جیسے، خامہ و نامہ، کار و بار، حاظر و ناظر، قاتل و قابل وغیرہ۔
سجع مطرف - جس میں الفاظ ہم قافیہ تو ہوں لیکن ہم وزن نہ ہوں جیسے راز و نواز، دست و شکست، قاتل و دل وغیرہ۔
سجع متوازن ۔ جس میں الفاظ ہم وزن تو ہوں لیکن ہم قافیہ نہ ہوں جیسے نہال و بہار، کام و کار، وغیرہ۔

ہو سکتا ہے کہ ترصیع کی ہمیں جو مختلف مثالیں ملی ہیں وہ انہی سجع کی مختلف قسموں کی وجہ سے ہوں۔
عباد اللہ
 
Top