سید عاطف علی
لائبریرین
شاید بالترتیب حالی اور ندا فاضلی کے ہیں یہ دونوں ۔
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا۔مگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ 
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی ۔جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا 
شاید بالترتیب حالی اور ندا فاضلی کے ہیں یہ دونوں ۔
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا۔مگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ 
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی ۔جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا 
یہ کہہ کر کے اسے شعر آتے ہیں؟ یا یہ کہہ کر کے یہ ویلا جب شعر یاد رکھ سکتا ہے تو کچھ بھی یاد رکھ سکتا ہے!کیوں نہ آپ کو منتظمِ اعلیٰ بنا دیا جائے؟
یہ کہہ کر کے اسے شعر آتے ہیں؟ یا یہ کہہ کر کے یہ ویلا جب شعر یاد رکھ سکتا ہے تو کچھ بھی یاد رکھ سکتا ہے!
اور خود بھی نہیں جائے گا۔یا یہ کہہ کر کہ یہ شعری اور ادبی ذوق والوں کو کہیں نہ کہیں الجھا کر رکھے گا اور لوگوں کا دھیان کسی اور تخریب کاری کی طرف نہیں جائے گا۔

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نےنئے آنے والے پہلے اپنا اسکور لکھیں۔
نازکی اس کی لب کی کیا کہیئے۔۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک۔۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے۔۔ نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن۔۔ بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔۔ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔۔ مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی۔۔ اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم۔۔ بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب۔۔ تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آو۔۔ مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمھاری باتوں کو۔۔ وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا۔۔ تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔ وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے وقت رخصت وہ چپ رہا عابد۔۔ آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی۔۔ وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے۔۔ کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں نہیں دنیا کو جب پرواہ ہماری۔۔ تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے۔۔ نیت شوق بھر نہ جائے کہیں۔۔ تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے۔۔ مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی محبت مجھے ان جوانوں سے ہے۔۔ ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔ آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی۔۔ میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔۔ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا۔۔ عمر میرے تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے۔۔ تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا میں جو بولا کہا کہ یہ آواز۔۔ اُسی خانہ خراب کی سی ہے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔۔ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک موت کا ایک دن معین ہے۔۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ۔۔ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے۔۔ لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے۔۔ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے گر بتادیں گے بادشاہی کے۔۔ ہم فقیروں سے دوستی کر لو کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا۔۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف۔۔ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی۔۔ یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے۔۔ وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے دوستی جب کسی سے کی جائے۔۔ دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں۔۔ فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا۔۔ غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے۔۔ کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام۔۔ وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔۔ اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں۔۔ کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں 
جنہوں نے اپنا اسکور لکھ دیا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر کلک کریں۔
خاکسار نے تقریباً چالیس اشعار مکمل کر دیے ہیں ، محض یادداشت کے بھروسے پر (دو مصرع البتہ گوگل سے مکمل کروائے۔)۔ غلطی اور سہو کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔
زیادہ اسکور والے میری اصلاح کریں۔ اور یہ ٹیبل مکمل کرنے میں مدد کریں۔
نئے آنے والے پہلے اپنا اسکور لکھیں۔
نازکی اس کی لب کی کیا کہیئے۔۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے اختر انصاری یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک۔۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک جون ایلیا زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے۔۔بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن۔۔ بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔۔ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔۔ مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی۔۔ اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم۔۔ بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب۔۔ تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آو۔۔ مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے شہزاد احمد یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمھاری باتوں کو۔۔اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے اسلم انصاری وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا۔۔ تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔ وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے وقت رخصت وہ چپ رہا عابد۔۔ آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل ناصر کاظمی وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی۔۔وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے۔۔ کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں نہیں دنیا کو جب پرواہ ہماری۔۔ تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم شہزاد احمد نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے۔۔وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے نیت شوق بھر نہ جائے کہیں۔۔ تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے۔۔ مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی محبت مجھے ان جوانوں سے ہے۔۔ ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔ آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں ندا فاضلی ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی۔۔جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔۔ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا۔۔ عمر میرے تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا مرزا رضا برق لکھنوی مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے۔۔ تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے مجروح سلطانپوری میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا میں جو بولا کہا کہ یہ آواز۔۔ اُسی خانہ خراب کی سی ہے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔۔ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک غالب موت کا ایک دن معین ہے۔۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ۔۔ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے خاطر غزنوی گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے۔۔ لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے فیض احمد فیض گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے۔۔ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ساغر صدیقی گر بتادیں گے بادشاہی کے۔۔ ہم فقیروں سے دوستی کر لو کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا۔۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا حفیظ جالندھری دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف۔۔ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی۔۔ یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے۔۔ وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے راحت اندوری دوستی جب کسی سے کی جائے۔۔دشمنوں کی بھی رائے لی جائے ساحر لدھیانوی دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں۔۔جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں مولانا حالی فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا۔۔ مگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے۔۔ کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا اکبر الہ آبادی ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام۔۔ وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔۔ اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں۔۔ کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں 
جنہوں نے اپنا اسکور لکھ دیا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر کلک کریں۔
خاکسار نے تقریباً چالیس اشعار مکمل کر دیے ہیں ، محض یادداشت کے بھروسے پر (دو مصرع البتہ گوگل سے مکمل کروائے۔)۔ غلطی اور سہو کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔
زیادہ اسکور والے میری اصلاح کریں۔ اور یہ ٹیبل مکمل کرنے میں مدد کریں۔
اسکور کو گولی ماریںنئے آنے والے پہلے اپنا اسکور لکھیں۔
نازکی اس کی لب کی کیا کہیئے۔۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے اختر انصاری یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔۔ چھین لے مجھ سے حافظہ میرا آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک۔۔ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک جون ایلیا زلیخائے عزیزاں بات یہ ہے۔۔بھلا گھاٹے کا سودا کیوں کریں ہم نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن۔۔ بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر۔۔ تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں۔۔ مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی۔۔ اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم۔۔ بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب۔۔ تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں۔۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں انھی پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آو۔۔ مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے شہزاد احمد یہ سمجھ کے مانا ہے سچ تمھاری باتوں کو۔۔اتنے خوبصورت لب جھوٹ کیسے بولیں گے اسلم انصاری وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا۔۔ تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔ وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے وقت رخصت وہ چپ رہا عابد۔۔ آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل ناصر کاظمی وہ دوستی تو خیر اب نصیب دشمناں ہوئی۔۔وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے۔۔ کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں نہیں دنیا کو جب پرواہ ہماری۔۔ تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم شہزاد احمد نہ سہی کچھ مگر اتنا تو کیا کرتے تھے۔۔وہ مجھے دیکھ کے پہچان لیا کرتے تھے نیت شوق بھر نہ جائے کہیں۔۔ تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے۔۔ مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی محبت مجھے ان جوانوں سے ہے۔۔ ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔ آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں ندا فاضلی ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی۔۔جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں۔۔ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا۔۔ عمر میرے تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا مرزا رضا برق لکھنوی مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے۔۔ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے۔۔ تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے مجروح سلطانپوری میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر۔۔ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا میں جو بولا کہا کہ یہ آواز۔۔ اُسی خانہ خراب کی سی ہے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن۔۔ خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک غالب موت کا ایک دن معین ہے۔۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں ۔۔ کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے خاطر غزنوی گو ذرا سی بات پہ برسوں کے یارانے گئے۔۔ لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے فیض احمد فیض گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے۔۔ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ساغر صدیقی گر بتادیں گے بادشاہی کے۔۔ ہم فقیروں سے دوستی کر لو کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا۔۔ میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا حفیظ جالندھری دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف۔۔ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی۔۔ یہ خزانے تجھے ممکن ہیں خرابوں میں ملیں دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے۔۔ وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے راحت اندوری دوستی جب کسی سے کی جائے۔۔دشمنوں کی بھی رائے لی جائے ساحر لدھیانوی دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں۔۔جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں مولانا حالی فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا۔۔ مگر اس میں ہوتی ہے محنت زیادہ غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے۔۔ کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا اکبر الہ آبادی ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام۔۔ وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔۔ اُس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں۔۔ کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں 
جنہوں نے اپنا اسکور لکھ دیا ہے وہ اپنی ذمہ داری پر کلک کریں۔
خاکسار نے تقریباً چالیس اشعار مکمل کر دیے ہیں ، محض یادداشت کے بھروسے پر (دو مصرع البتہ گوگل سے مکمل کروائے۔)۔ غلطی اور سہو کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔
زیادہ اسکور والے میری اصلاح کریں۔ اور یہ ٹیبل مکمل کرنے میں مدد کریں۔
واہ کیا خوب کہیخود بھی خوش رہا کریں اور دوسروں کو بھی خوش رکھا کریں
تم محبت تو ہو مگر پہلی نہیںاُن اشعار کی نشاندہی بھی کر دی جائے جن سے ذوق پر بٹہ لگ رہا تھا۔
اے خان تم اپنے پچاس اشعار پیش کرو۔۔۔ جس کسی کو بیچ میں پندرہ بیس آتے ہو۔ وہ اے خان کے مزاج پر کچھ بھی بتا سکتا ہے۔اسکور کو گولی ماریں
یہ ایسے اشعار ہیں جو ہرجگہ فٹ ہو سکتے ہیں.
کاپی کر کے پیسٹ کیا کریں
خود بھی خوش رہا کریں اور دوسروں کو بھی خوش رکھا کریں
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے۔۔ وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کےاے خان تم اپنے پچاس اشعار پیش کرو۔۔۔ جس کسی کو بیچ میں پندرہ بیس آتے ہو۔ وہ اے خان کے مزاج پر کچھ بھی بتا سکتا ہے۔
