شریف برادران کے کارنامے پیپلز پارٹی کے اشتہارات کی زینت

اس وقت پیپلز پارٹی کے اشتہارات میں شریف برادران کے کارہائے نمایاں پیش کیے جا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) اب کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کبھی لاہور ہائی کورٹ جا رہی ہے اور کبھی الیکشن کمیشن سے اپنا سیاہ نامہ چھپانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

کچھ دوست اگر ان اشتہارات کی ویڈیوز لگا سکیں تو لطف رہے گا۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
احمد مگر پی پی پی ایک اچھا کام کر رہی ہے کہ اس کی رسائی جس خفیہ معلومات تک ہے اسے منظر عام پر لا کر شریفوں کی "شرافت" عیاں کر رہی ہے۔ :)
لیکن یہ خفیہ رسائی اور معلومات خاص انہی دنوں میں سامنے کیوں آئیں؟ میں ن لیگ کی حامی نہیں ہوں لیکن پی پی پی کی اس حرکت پر ہنسی بھی آتی ہے اور کوفت بھی ہوتی ہے کہ اپنے کریڈٹ پر کچھ ایسا نہیں جس کو بنیاد بنا کر عوام کے پاس جایا جائے اس لئے سارا زور' بی بی' اور 'بھٹو' کے نام پر ووٹ مانگنے اور ن لیگ کی ، بقول آپ کے ، شرافت عیاں کرنے پر ہے۔
باقی رہی سیاسی و انتخابی مہم تو عمران خان سے لیکر شہباز شریف تک کوئی بھی سیاست دان (میں کم از کم ان لوگوں کو ابھی 'رہنما' کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ یہ صرف سیاست دان ہیں ، رہنما نہیں) اپنی مہم کو صرف ارادوں ، منصوبہ بندی اور وعددوں تک محدود نہیں کر پا رہا۔ الزامات اور جوابی الزامات کی بوچھاڑ کر کے اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ عوامی لوگ ہیں یا قومی ترقی کے علمبردار ہیں تو یہ ان لوگوں کی خوش فہمی ہے اور ہم جیسے عوام کی غلط فہمی۔
 
لیکن یہ خفیہ رسائی اور معلومات خاص انہی دنوں میں سامنے کیوں آئیں؟ میں ن لیگ کی حامی نہیں ہوں لیکن پی پی پی کی اس حرکت پر ہنسی بھی آتی ہے اور کوفت بھی ہوتی ہے کہ اپنے کریڈٹ پر کچھ ایسا نہیں جس کو بنیاد بنا کر عوام کے پاس جایا جائے اس لئے سارا زور' بی بی' اور 'بھٹو' کے نام پر ووٹ مانگنے اور ن لیگ کی ، بقول آپ کے ، شرافت عیاں کرنے پر ہے۔
باقی رہی سیاسی و انتخابی مہم تو عمران خان سے لیکر شہباز شریف تک کوئی بھی سیاست دان (میں کم از کم ان لوگوں کو ابھی 'رہنما' کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ یہ صرف سیاست دان ہیں ، رہنما نہیں) اپنی مہم کو صرف ارادوں ، منصوبہ بندی اور وعددوں تک محدود نہیں کر پا رہا۔ الزامات اور جوابی الزامات کی بوچھاڑ کر کے اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ عوامی لوگ ہیں یا قومی ترقی کے علمبردار ہیں تو یہ ان لوگوں کی خوش فہمی ہے اور ہم جیسے عوام کی غلط فہمی۔

سیاست میں حریفوں پر حملے اور جوابی الزام پاکستان تک محدود نہیں اور نہ صرف آج کے دور کی اختراع ہے۔

جلسوں اور عوامی اجتماعات پر منشور اور پالیسی پر گفتگو کم ہی ممکن ہوتی ہے۔ لوگ وہاں نعرے اور دلچسپ تقاریر سننے آتے ہیں حتی کہ امریکہ میں بھی براک اوبامہ کی تقریر انتہائی لچھے دار ہونے کی وجہ سے بہت مقبول ہوا کرتی ہیں ورنہ اگر وہ منشور اور پالیسیوں کو لے کر تفصیلا پیش کرنا شروع کر دے تو نہ لوگ لطف لیں نہ مجمع بڑا ہو۔

منشور پر بحث کے لیے ٹی وی شو یا مناظرہ ہوتا ہے جس کے لیے عمران نے تو بہت زور لگایا مگر حریفوں کو یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ لگتا ہے۔ اب ایسے حریف ہوں تو کیا خیال ہے آپ کا ، جوابی مہم کیسے چلائی جائے گی۔

نواز شریف تو اب بھی عمران کے گھر نہ بسنے کو مثال بنا کر ملک نہ چلانے کے نتائج نکال رہے ہیں۔

عمران کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے نوجوانوں اور سیاست سے لا تعلق بہت سے لوگوں کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور ہی نہیں معمور بھی کر دیا ہے ، میری نظر میں یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے عمران کا اب تک کا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
واقعی ! گذشتہ چھ آٹھ ماہ سے تو ہمارے ہاں کیبل ٹی وی تھا نہیں ۔۔۔۔! اب دوبارہ دیکھ رہا ہوں تو نیوز چینلز اور انتخابی مہمات دیکھ کر شدید کوفت ہو رہی ہے۔ خاص طور پر پی پی کے اشتہارات بہت ہی بیزار کن ہیں۔

میں عمران خان کو کافی حد تک پسند کرتا ہوں لیکن اس بات کا حامی ہوں کہ عمران خان کو اپنی شخصیت کو مزید معتبر بنانا چاہیے اور روایتی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی بیان بازیوں سے بالا تر ہو کر اپنی بات کرنی چاہیے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ کیچڑ کی لڑائی میں جیتنے والا ہارنے والے سے زیادہ گندا ہو جاتا ہے۔

ٹی وی پر انتخابی جلسے دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ ہماری قوم ہی میلے ٹھیلوں کو پسند کرنے والی ہے، جبھی ہر سیاست دان مداری بن کر "تماشائیوں" کی زیادہ سے زیادہ "توجہ" حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ جو قوم احتجاجی جلسوں میں بھی رقص سے باز نہیں آتی اُس سے کوئی کیا اُمید رکھ سکتا ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
سیاست میں حریفوں پر حملے اور جوابی الزام پاکستان تک محدود نہیں اور نہ صرف آج کے دور کی اختراع ہے۔

جلسوں اور عوامی اجتماعات پر منشور اور پالیسی پر گفتگو کم ہی ممکن ہوتی ہے۔ لوگ وہاں نعرے اور دلچسپ تقاریر سننے آتے ہیں حتی کہ امریکہ میں بھی براک اوبامہ کی تقریر انتہائی لچھے دار ہونے کی وجہ سے بہت مقبول ہوا کرتی ہیں ورنہ اگر وہ منشور اور پالیسیوں کو لے کر تفصیلا پیش کرنا شروع کر دے تو نہ لوگ لطف لیں نہ مجمع بڑا ہو۔

منشور پر بحث کے لیے ٹی وی شو یا مناظرہ ہوتا ہے جس کے لیے عمران نے تو بہت زور لگایا مگر حریفوں کو یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ لگتا ہے۔ اب ایسے حریف ہوں تو کیا خیال ہے آپ کا ، جوابی مہم کیسے چلائی جائے گی۔

نواز شریف تو اب بھی عمران کے گھر نہ بسنے کو مثال بنا کر ملک نہ چلانے کے نتائج نکال رہے ہیں۔

عمران کا کریڈٹ یہ ہے کہ اس نے نوجوانوں اور سیاست سے لا تعلق بہت سے لوگوں کو سیاست میں دلچسپی لینے پر مجبور ہی نہیں معمور بھی کر دیا ہے ، میری نظر میں یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے عمران کا اب تک کا۔
آپ کی شروع والی باتوں سے تو میں کسی حد تک متفق ہوں لیکن آپ ہی کے ملک میں صدارتی امیدوار یا گورنرز کسی نہ کسی مرحلے پر سنجیدگی سے منشور پر بات کرتے بھی ہیں اور تفصیل بھی بتاتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی بور کر دینے والی کیوں نہ ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
میں بھی کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان کی بہت بڑی مداح تھی لیکن اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو عمران خان کی تقاریر اور بیانات کا زیادہ تر حصہ مخالفانہ بیانات و الزامات پر مشتمل ہوتا ہے۔ باقی کا کچھ حصہ ایسے ارادوں یا وعدوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کا پورا ہونا میرے جیسی خوابوں کی دنیا میں رہنے والی کو بھی خواب ہی لگتا ہے کیونکہ زمینی حقائق ان وعدوں کی کریڈیبیلٹی کو کافی کم کر دیتے ہیں۔
عمران خان کافی لوگوں کو سامنے لائے ہیں لیکن آپ خود بتائیں ان میں سے کتنے آزمائے ہوئے ہیں اور کتنے نئے؟ جو نئے ہیں ان کی کامیابی کے امکانات اور جو پرانے ہیں ان کے واپس اسمبلی میں پہنچنے کے امکانات کا موازنہ کریں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ 'نئے چہرے ، نئی سوچ اور نیا نظام' کا وعدہ کیسے پورا کیا جائے گا؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
واقعی ! گذشتہ چھ آٹھ ماہ سے تو ہمارے ہاں کیبل ٹی وی تھا نہیں ۔۔۔ ۔! اب دوبارہ دیکھ رہا ہوں تو نیوز چینلز اور انتخابی مہمات دیکھ کر شدید کوفت ہو رہی ہے۔ خاص طور پر پی پی کے اشتہارات بہت ہی بیزار کن ہیں۔

میں عمران خان کو کافی حد تک پسند کرتا ہوں لیکن اس بات کا حامی ہوں کہ عمران خان کو اپنی شخصیت کو مزید معتبر بنانا چاہیے اور روایتی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سیاسی بیان بازیوں سے بالا تر ہو کر اپنی بات کرنی چاہیے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ کیچڑ کی لڑائی میں جیتنے والا ہارنے والے سے زیادہ گندا ہو جاتا ہے۔

ٹی وی پر انتخابی جلسے دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ ہماری قوم ہی میلے ٹھیلوں کو پسند کرنے والی ہے، جبھی ہر سیاست دان مداری بن کر "تماشائیوں" کی زیادہ سے زیادہ "توجہ" حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔ جو قوم احتجاجی جلسوں میں بھی رقص سے باز نہیں آتی اُس سے کوئی کیا اُمید رکھ سکتا ہے۔
صد فی صد متفق!
 
احمد مگر پی پی پی ایک اچھا کام کر رہی ہے کہ اس کی رسائی جس خفیہ معلومات تک ہے اسے منظر عام پر لا کر شریفوں کی "شرافت" عیاں کر رہی ہے۔ :)
ارے جناب جو خفیہ خبریں اور جہاں سے انہوں نے جاری کی ہیں وہاں تک تو سبھی کی رسائی ہے۔
ایک اشتہار میں دہشت گردی کی خبروں کے تین تراشے دئیے گئے ہیں اور تین خبروں کے تراشےحکومتِ پنجاب کی طرف سے مجرموں کے خلاف اقدامات کے اعادے اور عوام کے لیے دئیے گئے پیغام ہیں۔
آپ نہیں سمجھتے کہ نواز لیگ کے دو بار، چار بار کے حکومتی دور سے متعلق پی پی ان کے خلاف صرف ان تین تراشوں کے ساتھ اشتہار دے رہی ہے تو گویا خود نواز لیگ کی اچھی کارکردگی کی قسم کھا رہی ہے۔

اور طالبان کے افغانستان میں دور کے بارے میں نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے کہا گیا کہ انہوں نے بہت اعلیٰ طریقے سے حکومت کی ہاں سب کو مسئلہ صرف زبردستی کا مذہب تھوپنے کا تھا، جب وہ زبردستی داڑھیاں رکھواتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن افغانستان کی مجموعی حالت پچھلے اور اگلے تمام ادوار سے کہیں گنا بہتر تھی۔

تو ایسا کہہ کر نواز شریف نے کون سا جرم کر دیا۔
 
آپ کی شروع والی باتوں سے تو میں کسی حد تک متفق ہوں لیکن آپ ہی کے ملک میں صدارتی امیدوار یا گورنرز کسی نہ کسی مرحلے پر سنجیدگی سے منشور پر بات کرتے بھی ہیں اور تفصیل بھی بتاتے ہیں چاہے وہ کتنی ہی بور کر دینے والی کیوں نہ ہو۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
میں بھی کچھ عرصہ پہلے تک عمران خان کی بہت بڑی مداح تھی لیکن اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو عمران خان کی تقاریر اور بیانات کا زیادہ تر حصہ مخالفانہ بیانات و الزامات پر مشتمل ہوتا ہے۔ باقی کا کچھ حصہ ایسے ارادوں یا وعدوں پر مشتمل ہوتا ہے جن کا پورا ہونا میرے جیسی خوابوں کی دنیا میں رہنے والی کو بھی خواب ہی لگتا ہے کیونکہ زمینی حقائق ان وعدوں کی کریڈیبیلٹی کو کافی کم کر دیتے ہیں۔
عمران خان کافی لوگوں کو سامنے لائے ہیں لیکن آپ خود بتائیں ان میں سے کتنے آزمائے ہوئے ہیں اور کتنے نئے؟ جو نئے ہیں ان کی کامیابی کے امکانات اور جو پرانے ہیں ان کے واپس اسمبلی میں پہنچنے کے امکانات کا موازنہ کریں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ 'نئے چہرے ، نئی سوچ اور نیا نظام' کا وعدہ کیسے پورا کیا جائے گا؟

عمران خان کی تقاریر اچھی نہیں ہوتیں اس سے مجھے بھی اتفاق ہے اور اس میں بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران لکھی ہوئی تقریر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا حالانکہ اسے تقریر لکھ کر دی ہر دفعہ جاتی ہے۔ اس وجہ سے وہ اکثر پٹھانوں والی تذکیر و تانیث کی غلطیاں بھی کرتا ہے مگر چونکہ کچھ عوامی نعرے اور تنقید سے لوگوں کو ابھارنے میں کامیاب رہتا ہے اس لیے اسی طریقہ کو کامیابی سے اپنایا ہوا ہے۔

اب جہاں تک بات ہے تنقید کی تو اس پر بہت سی سائنسی تحقیق بھی ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کسی بھی امیدوار کی ریٹنگ مخالف پر منفی تنقید سے زیادی تیزی سے بڑھتی ہے ۔ افسوس ناک ہے پر حقیقت یہی ہے کہ لوگ مخالفین کی برائیاں سننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ چیز زیادہ اثر کرتی ہے، تقریبا پوری دنیا میں مخالف کے منفی پہلوؤں کو ابھارنے سے زیادہ لوگ آپ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔

اب بات کر لیتے ہیں کہ عمران اور باقی رہنما کیا بیانات دے رہے ہیں۔

اب ایک طرف فضل الرحمان عمران پر یہودی اور قادیانی لابی کے حمایت یافتہ بلکہ فتوی تک دے رہا ہے تو ایسے میں آپ اور باقی لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ نرمی سے اس کی تردید سے لوگ مطمئن ہوں گے ، ہرگز نہیں۔ ایسے میں مخالف پر بھی کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسے بھی احساس رہے کہ اگر وہ حملے جاری رکھتا ہے تو جوابی حملے بھی ہوں گے اور دوسرا آپ کے حامی یا متفقین بھی مخالف کی برائیاں سن کر قدرے مطمئن ہوتے ہیں۔
 
عمران خان کافی لوگوں کو سامنے لائے ہیں لیکن آپ خود بتائیں ان میں سے کتنے آزمائے ہوئے ہیں اور کتنے نئے؟ جو نئے ہیں ان کی کامیابی کے امکانات اور جو پرانے ہیں ان کے واپس اسمبلی میں پہنچنے کے امکانات کا موازنہ کریں تو میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ 'نئے چہرے ، نئی سوچ اور نیا نظام' کا وعدہ کیسے پورا کیا جائے گا؟

80 فیصد نئے لوگ ہیں اور اگر عمران کامیاب ہوتا ہے تو نئے لوگوں کی اکثریت کامیاب ہو کر سامنے آئے گی اور اگر صرف چند پرانے لوگوں کو لوگ کامیاب کرتے ہیں تو پھر یہ ثابت ہوگا کہ لوگ پرانے نظام اور پرانے چہروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔

سب سے زیادہ اس میں قصور ان لوگوں کا ہو گا جو پرانے اور روایتی نظام پر گھر بیٹھ کر تو بہت تنقید کرتے ہیں مگر عملا وہ خاموش رہ کر یا تبدیلی کی بات کرنے والی جماعت پر ہی تنقید کرکے روایتی جماعتوں ، سیاستدانوں اور نظام کو ہی چلتا رہنے دینا چاہتے ہیں۔

میرے لیے تو صرف ایک جواز ہی کافی ہے کہ میں پرانے نظام اور جماعتوں کو یہ پیغام دوں کہ میں ان سے بیزار ہوں اور میں ان کی اقتدار باری کو اب توڑنا چاہتا ہوں۔

عمران کے ایماندار ہونے پر تو شک نہیں ہے جبکہ حریف قائدین کے بے ایمان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے تو پھر تبدیلی کے لیے ایک بار ووٹ ڈالنے میں کیا چیز ضائع ہوگی جبکہ نہ ڈالنے سے پرانا عذاب ایک بار پھر سے مسلط ہوگا۔ اگر آپ کو پرانا نظام قبول ہے تو پھر اطمینان سے تنقید بھی کریں اور ووٹ بھی نہ ڈالیں اور جو آ رہے ہیں ان کو آنے دیں اور جیسے پہلے لوٹ رہے تھے پھر سے لوٹنے دیں۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
80 فیصد نئے لوگ ہیں اور اگر عمران کامیاب ہوتا ہے تو نئے لوگوں کی اکثریت کامیاب ہو کر سامنے آئے گی اور اگر صرف چند پرانے لوگوں کو لوگ کامیاب کرتے ہیں تو پھر یہ ثابت ہوگا کہ لوگ پرانے نظام اور پرانے چہروں پر ہی اعتماد کرتے ہیں۔

سب سے زیادہ اس میں قصور ان لوگوں کا ہو گا جو پرانے اور روایتی نظام پر گھر بیٹھ کر تو بہت تنقید کرتے ہیں مگر عملا وہ خاموش رہ کر یا تبدیلی کی بات کرنے والی جماعت پر ہی تنقید کرکے روایتی جماعتوں ، سیاستدانوں اور نظام کو ہی چلتا رہنے دینا چاہتے ہیں۔

میرے لیے تو صرف ایک جواز ہی کافی ہے کہ میں پرانے نظام اور جماعتوں کو یہ پیغام دوں کہ میں ان سے بیزار ہوں اور میں ان کی اقتدار باری کو اب توڑنا چاہتا ہوں۔

عمران کے ایماندار ہونے پر تو شک نہیں ہے جبکہ حریف قائدین کے بے ایمان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے تو پھر تبدیلی کے لیے ایک بار ووٹ ڈالنے میں کیا چیز ضائع ہوگی جبکہ نہ ڈالنے سے پرانا عذاب ایک بار پھر سے مسلط ہوگا۔ اگر آپ کو پرانا نظام قبول ہے تو پھر اطمینان سے تنقید بھی کریں اور ووٹ بھی نہ ڈالیں اور جو آ رہے ہیں ان کو آنے دیں اور جیسے پہلے لوٹ رہے تھے پھر سے لوٹنے دیں۔
معذرت کے ساتھ ، اگر عمران خان کی حمایت ہی پرانے نظام سے بیزاری اور نئے نظام کی خواہش کا ثبوت ہے تو شاید مجھ سمیت بہت سے لوگ (آپ کے معیار کے مطابق) پرانے عذاب کے حامی سمجھے جائیں گے۔ میں نے نہ تو ووٹ نہ ڈالنے کی بات کی ہے اور نہ ہی تنقید برائے تنقید۔ میں نے اگر ووٹ نہ ڈالنا ہوتا تو میرے نزدیک میں کسی پارٹی، سیاست، حکومت اور پالیسیوں پر تبصرہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتی۔

عمران خان کی ایمانداری میں چنداں شک نہیں لیکن ایمانداری کے ساتھ ساتھ تدبر اور ٹھنڈا مزاج بھی بہت اہم ہیں۔ ایک ایسے فرد کو ، جو جوشِ خطابت اور جوشِ مخالفت میں فہم اور منطق دونوں کو تقریباً مکمل فراموش کر دے، اپنا نمائندہ چننا کافی مشکل فیصلہ ہے۔
دوسری بات یہ کہ میرے خیال میں کوئی بھی نظام مکمل برا نہیں ہوتا اور نہ ہی آپ اس کو یکدم تبدیل کر سکتے ہیں۔ یہ کہنا کہ پچھلا نظام بالکل فلاپ اور اگلا انتہائی مؤثر ثابت ہو گا ، مجھے کسی حد تک غیر منطقی محسوس ہوتا ہے۔ میں پرانے چہروں اور جماعتوں سے اتنی ہی بیزار ہوں جتنے آپ یا کوئی بھی باشعور پاکستانی ، لیکن میں اس کی تبدیلی کے لئے اندھا دھند کسی دوسرے کی تقلید میں نہیں بھاگوں گی بلکہ پرکھنا میرا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ اور میری پرکھ یہ ہے کہ نیا چہرہ یا کوئی بھی پرانا چہرہ کتنی ٹھوس اور منطقی بات کرتا ہے نظام کی تبدیلی کے لئے اور اس کی ٹیم کیسی ہے۔ چاہے بیس فیصد ہی سہی، عمران خان کے پاس بھی پرانے چہرے ہی اصل مہرے ہیں۔ اور اگر ان کی پارٹی انہیں چہروں کی بنیاد پر اسمبلی تک پہنچتی ہے تو پلیز یہ عوام کی غلطی نہیں ہو گی کہ وہ پرانے چہروں پر اعتبار کرتے ہیں یا انہی کو سامنے لانا چاہتے ہیں۔ جب تبدیلی کا نعرہ لگانے والے ہی پرانے چہروں کو سامنے لائیں گے تو غلط کون ہو گا، عوام یا پارٹی کا سربراہ؟
میں سیاست کی اتنی سوجھ بوجھ نہیں رکھتی لیکن جو نئے چہرے پی ٹی آئی لائی ہے ان میں اکثریت شہروں سے ہے جبکہ ہمارا اصل ووٹ بنک دیہی علاقے ہیں اور ان دیہی علاقوں میں خان صاحب نے ٹکٹ انہی بارہا آزمائے ہوئے چہروں کو دیئے ہیں۔ تو میرے جیسے لوگ تو کنفیوژ ہوں گے ہی کہ وہ کس بات پر یقین کریں۔ عمران خان کے شروع کے بیانات پر جن میں انہوں نے کسی بھی ایسے فرد کو اپنی پارٹی میں نہ آنے کا عزم دہرایا تھا یا اپنے مشاہدے، تجربے اور زمینی حقائق پر؟
 
جوش خطابت میں لوگ مائیک بھی توڑ دیتے ہیں جن میں ماضی میں ایک مشہور لیدر ذوالفقار بھٹو تھے جن کی یہ ادا لوگوں کو آج تک بھاتی ہے اور آج شہباز شریف یہ نقل کرتے اکثر پائے جاتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا جوش ہے جو سارا مائیک اور ہاتھوں کو لہرانے اور مائیک اور ڈائس ہلانے پر ہے۔ بہت کم لوگ اعتراض کرتے ہیں اس پر کیوں؟ کیونکہ فضا اس وقت عمران کے طرز تقریر پر تنقید کرنے میں بنی ہوئی ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عمران خان کی تقاریر اچھی نہیں ہوتیں اس سے مجھے بھی اتفاق ہے اور اس میں بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران لکھی ہوئی تقریر کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا حالانکہ اسے تقریر لکھ کر دی ہر دفعہ جاتی ہے۔ اس وجہ سے وہ اکثر پٹھانوں والی تذکیر و تانیث کی غلطیاں بھی کرتا ہے مگر چونکہ کچھ عوامی نعرے اور تنقید سے لوگوں کو ابھارنے میں کامیاب رہتا ہے اس لیے اسی طریقہ کو کامیابی سے اپنایا ہوا ہے۔
محب علوی مجھے آپ سے اس دلیل کی امید نہیں تھی۔ کسی بھی ٹیم کو لیڈ کرنے کے لئے کپتان کی بنیادی خوبی دوسروں کے جذبات کو ابھارنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن اس میں ہوشمندی کو فراموش کر دینا اس کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ ہوتا ہے۔ عمران خان چاہے لکھی ہوئی تقریر نہ کریں لیکن جب وہ خود کو پڑھے لکھے یا نوجوان طبقے کا نمائندہ کہتے ہیں تو انہیں اس بات کو ضرور سامنے رکھنا چاہئیے کہ سننے والے ان کے بیان کو جوش یا نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل اور منطق کی بنیاد پر پرکھیں گے۔ میں ایک تعلیم یافتہ سیاست دان سے اس بات کی ہر گز توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح دوسروں پر بے جا اور کسی حد تک فضول تنقید کو اپنا بنیادی ہتھیار بنا لیں گے۔
جہاں تک تذکیر و تانیث کی غلطیوں کی بات ہے تو میرا خیال ہے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

اب جہاں تک بات ہے تنقید کی تو اس پر بہت سی سائنسی تحقیق بھی ہے جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ کسی بھی امیدوار کی ریٹنگ مخالف پر منفی تنقید سے زیادی تیزی سے بڑھتی ہے ۔ افسوس ناک ہے پر حقیقت یہی ہے کہ لوگ مخالفین کی برائیاں سننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ چیز زیادہ اثر کرتی ہے، تقریبا پوری دنیا میں مخالف کے منفی پہلوؤں کو ابھارنے سے زیادہ لوگ آپ کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
یقیناً ایسا ہی ہو گا تو اگر ایک 'تبدیلی' کا نعرہ لگانے والا فرد بھی روایتی ، منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرے گا تو میں اس سے کیا توقع رکھوں کہ وہ منفی کو مثبت میں بدلنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔

اب بات کر لیتے ہیں کہ عمران اور باقی رہنما کیا بیانات دے رہے ہیں۔

اب ایک طرف فضل الرحمان عمران پر یہودی اور قادیانی لابی کے حمایت یافتہ بلکہ فتوی تک دے رہا ہے تو ایسے میں آپ اور باقی لوگ کیا سمجھتے ہیں کہ نرمی سے اس کی تردید سے لوگ مطمئن ہوں گے ، ہرگز نہیں۔ ایسے میں مخالف پر بھی کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اسے بھی احساس رہے کہ اگر وہ حملے جاری رکھتا ہے تو جوابی حملے بھی ہوں گے اور دوسرا آپ کے حامی یا متفقین بھی مخالف کی برائیاں سن کر قدرے مطمئن ہوتے ہیں۔
فضل الرحمان صاحب کی کریڈیبیلیٹی کو جتنا پاکستانی عوام اہمیت دیتی ہے سوائے ان کے آبائی علاقوں کے ، وہ سب پر واضح ہے۔ اگر وہ فتوے دے رہے ہیں تو میرے اور آپ کے سمیت کتنے لوگوں نے ان فتوؤں پر یقین کر لیا؟
اور جوابی حملے کرنا یا اپنا دفاع کرنا تو کسی حد تک مان لیا ضروری ہے لیکن کیا اس میں کوئی حد بھی لاگو ہوتی ہے؟
میں تو انتخابات کی گہماگہمی سے پہلے سے یہ دیکھتی آئی ہوں کہ عمران خان بیان دیں یا خطاب کریں، تھوڑی ہی دیر میں وہ ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یا تو ہنسی نہیں رکتی یا سر پکڑ کر رونے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کسی کو مختلف سمجھا بھی تو غلط سمجھا۔ :(
 

فرحت کیانی

لائبریرین
جوش خطابت میں لوگ مائیک بھی توڑ دیتے ہیں جن میں ماضی میں ایک مشہور لیدر ذوالفقار بھٹو تھے جن کی یہ ادا لوگوں کو آج تک بھاتی ہے اور آج شہباز شریف یہ نقل کرتے اکثر پائے جاتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو اس بات پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کیا جوش ہے جو سارا مائیک اور ہاتھوں کو لہرانے اور مائیک اور ڈائس ہلانے پر ہے۔ بہت کم لوگ اعتراض کرتے ہیں اس پر کیوں؟ کیونکہ فضا اس وقت عمران کے طرز تقریر پر تنقید کرنے میں بنی ہوئی ہے۔
کیونکہ اس وقت جو لوگ عمران خان کے طرز تقریر پر پریشان ہوتے ہیں وہ بھٹو کے زمانے میںاس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ہوتے تو شاید تب ان پر بھی اتنی ہی تنقید کرتے۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کسی خاص وقت میں کسی ایک غلط بات کی قبولیت کو بعد میں بھی ایسے ہی طریقہ کار کی لوجک بنا لینا کچھ غلط نہیں ہے؟
 
محب علوی مجھے آپ سے اس دلیل کی امید نہیں تھی۔ کسی بھی ٹیم کو لیڈ کرنے کے لئے کپتان کی بنیادی خوبی دوسروں کے جذبات کو ابھارنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن اس میں ہوشمندی کو فراموش کر دینا اس کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ ہوتا ہے۔ عمران خان چاہے لکھی ہوئی تقریر نہ کریں لیکن جب وہ خود کو پڑھے لکھے یا نوجوان طبقے کا نمائندہ کہتے ہیں تو انہیں اس بات کو ضرور سامنے رکھنا چاہئیے کہ سننے والے ان کے بیان کو جوش یا نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل اور منطق کی بنیاد پر پرکھیں گے۔ میں ایک تعلیم یافتہ سیاست دان سے اس بات کی ہر گز توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح دوسروں پر بے جا اور کسی حد تک فضول تنقید کو اپنا بنیادی ہتھیار بنا لیں گے۔
جہاں تک تذکیر و تانیث کی غلطیوں کی بات ہے تو میرا خیال ہے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔


یقیناً ایسا ہی ہو گا تو اگر ایک 'تبدیلی' کا نعرہ لگانے والا فرد بھی روایتی ، منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرے گا تو میں اس سے کیا توقع رکھوں کہ وہ منفی کو مثبت میں بدلنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔


فضل الرحمان صاحب کی کریڈیبیلیٹی کو جتنا پاکستانی عوام اہمیت دیتی ہے سوائے ان کے آبائی علاقوں کے ، وہ سب پر واضح ہے۔ اگر وہ فتوے دے رہے ہیں تو میرے اور آپ کے سمیت کتنے لوگوں نے ان فتوؤں پر یقین کر لیا؟
اور جوابی حملے کرنا یا اپنا دفاع کرنا تو کسی حد تک مان لیا ضروری ہے لیکن کیا اس میں کوئی حد بھی لاگو ہوتی ہے؟
میں تو انتخابات کی گہماگہمی سے پہلے سے یہ دیکھتی آئی ہوں کہ عمران خان بیان دیں یا خطاب کریں، تھوڑی ہی دیر میں وہ ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یا تو ہنسی نہیں رکتی یا سر پکڑ کر رونے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کسی کو مختلف سمجھا بھی تو غلط سمجھا۔ :(
پہلی بار دیکھ رہا ہوں سیاسی مراسلوں میں۔ اچھا ہے آتی جاتی رہا کریں۔
 

زرقا مفتی

محفلین
کیونکہ اس وقت جو لوگ عمران خان کے طرز تقریر پر پریشان ہوتے ہیں وہ بھٹو کے زمانے میںاس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ہوتے تو شاید تب ان پر بھی اتنی ہی تنقید کرتے۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کسی خاص وقت میں کسی ایک غلط بات کی قبولیت کو بعد میں بھی ایسے ہی طریقہ کار کی لوجک بنا لینا کچھ غلط نہیں ہے؟
فرحت بھٹو تو نہیں رہے مگر شہباز شریف تو ہیں نا ان پر تنقید کیوں نہیں کرتے
زربابا چاليس چور وں نے قوم کوبے حال کر ديا،شہبازشريف
http://jang.com.pk/urdu/update_details.asp?nid=89179#

http://www.express.pk/story/121440/
http://www.dailypakistan.com.pk/bahawalpur/29-Dec-2012/32227
اقتدار میں آ کر زربابا سے پائی پائی کا حساب لیں گے: شہباز شریف
 

زبیر مرزا

محفلین
کیونکہ اس وقت جو لوگ عمران خان کے طرز تقریر پر پریشان ہوتے ہیں وہ بھٹو کے زمانے میںاس دنیا میں موجود نہیں تھے۔ ہوتے تو شاید تب ان پر بھی اتنی ہی تنقید کرتے۔ دوسری بات یہ کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ کسی خاص وقت میں کسی ایک غلط بات کی قبولیت کو بعد میں بھی ایسے ہی طریقہ کار کی لوجک بنا لینا کچھ غلط نہیں ہے؟

عمران خان کےطرزتقریریراوراندازپرافسوس ہوتا ہے یہ کسے پڑھے لکھے اورتبدیلی کا نعرہ لگانے والےکی زبان ہے
لیکن کیا کریں کہ ان کی اندھی حمایت کرنے والے ہی ان کولےڈوبیں گے جو ان کے بارے میں تحریک انصاف کے لیے نرم گوشہ
رکھنے والوں کو بھی شک کی نظرسے دیکھتے اوران سے صرف پرستش کی اُمید رکھتے ہیں
 

ساجد

محفلین
مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے اپنے مخالفین پر اشتہار بازی کے لئے اخبارات اور سوشل میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ یہ کوئی بہتر بات نہیں کہ الزامات کی بنیاد پر سیاست کی جائے اسی لئے اردو محفل تمام سیاسی جماعتوں کے حامیوں کو اپنی اپنی جماعت کا تعارف اور منشور و وعدے پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے لیکن الزام تراشی پر مبنی کاپی پیسٹ مواد کو پیش کرنے سے ہم معذرت خواہ ہیں۔
 
محب علوی مجھے آپ سے اس دلیل کی امید نہیں تھی۔ کسی بھی ٹیم کو لیڈ کرنے کے لئے کپتان کی بنیادی خوبی دوسروں کے جذبات کو ابھارنے کی صلاحیت تو ہوتی ہے لیکن اس میں ہوشمندی کو فراموش کر دینا اس کا سب سے بڑا منفی پوائنٹ ہوتا ہے۔ عمران خان چاہے لکھی ہوئی تقریر نہ کریں لیکن جب وہ خود کو پڑھے لکھے یا نوجوان طبقے کا نمائندہ کہتے ہیں تو انہیں اس بات کو ضرور سامنے رکھنا چاہئیے کہ سننے والے ان کے بیان کو جوش یا نعروں کی بنیاد پر نہیں بلکہ دلیل اور منطق کی بنیاد پر پرکھیں گے۔ میں ایک تعلیم یافتہ سیاست دان سے اس بات کی ہر گز توقع نہیں رکھتی تھی کہ وہ بھی عام لوگوں کی طرح دوسروں پر بے جا اور کسی حد تک فضول تنقید کو اپنا بنیادی ہتھیار بنا لیں گے۔

آپ شاید پھر جلسوں ، عوامی اجتماعات اور ٹیبل ٹاک ، ٹی وی شو اور اندرونی بیٹھک میں گفتگو کو سمجھ نہیں رہیں۔ کیا عمران جلسوں والی زبان اور جوش ٹی وی شو ، سیاسی مباحثوں اور براہ راست پوچھے جانے والے سوالوں میں بھی کرتا ہے ، یقینا نہیں کیونکہ وہاں آپ کے سامعین اور ہوتے ہیں اور وہ فورم بالکل مختلف ہوتا ہے وہاں بلند آہنگ ، نعرے اور خاص طرز اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دلائل اور منطق جلسوں میں بھی دی جاتی ہے مگر آپ جیسے لوگ بھی صرف تنقید ہی پر غور کرتے ہیں۔ عمران نے سیکڑوں بار یہ دہرایا ہے کہ ہمارا نصب العین ہے۔

ایاک نعبدو و ایاک نستعین

کتنی دفعہ اس کا ذکر کیا ہے مخالفین نے یا آپ نے خود بھی کتنی بار سوچا ہے کہ اتنی بار اس چیز کو عمران نے اتنی بار کیوں دہرایا ہے، کیا اسی آیت کو بار بار دہرا کر وہ اپنا نصب العین نہیں بتا رہا مگر اس پر لوگ اتنے متاثر نہیں ہوتے افسوس کے ساتھ نہ حامی نہ مخالفین۔

اس کے علاوہ سیکڑوں بار وہ یہ بھی کہہ دہراتا ہے کہ ہماری سیاست "منتخب" ہونے والے سیاستدانوں کے گرد نہیں بلکہ ہم تبدیلی اور نوجوانوں کے سر پر سیاست کر رہے ہیں اور ہر تقریر میں یہ بیان ہوتا ہے اور یہ بھی تحریک انصاف کا بنیادی نعرہ ہے۔

پٹواریوں اور تھانہ کلچر کو بدل کر اختیارات بنیادی سطح تک منتقل کر دیں گے، یہ سب سے اہم اور انقلابی پیغام ہے اور کامیاب نظام جتنے بھی ہیں ان میں اس چیز کا کلیدی کردار ہے۔ آپ نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی اور نہ باقی مخالفین بھی اس پر کبھی بحث کرتے نظر آئے ہیں۔

سچ بولنے اور اپنے حامیوں سے اس کا وعدہ لینے کو بار بار دہرایا ہے عمران نے، اس پر کسی نے غور نہیں کیا ۔ اب یہ ایک بہترین روایت ہے جس پر مثبت تنقید ہونی چاہیے تھی مگر اسے سرے سے نظر انداز کر دیا گیا۔

امریکہ کی غلامی سے قوم کو نکالوں گا ، اسے بار بار دہرایا ہے عمران نے اور ایک بنیادی نعرے کے طور پر دیا ہے مگر اس پر بھی نہ تنقید نہ بحث ہوتی ہے۔

تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کی بات صرف تحریک انصاف نے کی ہے اور کئی بار اسے دہرایا ہے ، کسی اور پارٹی نے تعلیم کو قابل توجہ ہی نہیں سمجھا ہے۔ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کو پانچ گنا تک بڑھانے کا بار بار ذکر ہوتا ہے جبکہ باقی پارٹیاں بلٹ ٹرین چلانے ، سڑکیں بنانے اور ترقیاتی کام کروانے کی باتیں ہی کر رہی ہیں۔



یقیناً ایسا ہی ہو گا تو اگر ایک 'تبدیلی' کا نعرہ لگانے والا فرد بھی روایتی ، منفی ہتھکنڈوں کو استعمال کرے گا تو میں اس سے کیا توقع رکھوں کہ وہ منفی کو مثبت میں بدلنے کا ارادہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔
روایتی ، منفی ہتھکنڈے تو تب ہوتے جب مخالفین کی طرح ان پر ذاتی تنقید شروع کر دی جائے ۔ اب مخالفین کی کمیاں اور برائیاں گنوانا تو ایک لازمی امر ہے اور اس کے بغیر کہیں بھی سیاست نہیں ہو سکتی ، ظاہر ہے آپ دوسرے کی کمیاں اجاگر کرکے ہی اپنی خوبیاں بیان کر سکتے ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ اس صدی میں سب سے بہتر طور پر باراک اوباما نے لگایا تھا اور اگر آپ اوباما کی تقاریر سنیں تو اس میں بش پر زبردست قسم کی تنقید ہوا کرتی تھیں اور ٹھیک تھی اور ایسی تنقید تھی کہ republican پارٹی کے امیدوار نے خود کو بش کے دور سے علیحدہ رکھا اور کہیں اس کا نام نہیں لیا، اتنا نام اچھالا گیا تھا بش کا اور اس کے دور کے مضمرات کو۔


فضل الرحمان صاحب کی کریڈیبیلیٹی کو جتنا پاکستانی عوام اہمیت دیتی ہے سوائے ان کے آبائی علاقوں کے ، وہ سب پر واضح ہے۔ اگر وہ فتوے دے رہے ہیں تو میرے اور آپ کے سمیت کتنے لوگوں نے ان فتوؤں پر یقین کر لیا؟
اور جوابی حملے کرنا یا اپنا دفاع کرنا تو کسی حد تک مان لیا ضروری ہے لیکن کیا اس میں کوئی حد بھی لاگو ہوتی ہے؟
میں تو انتخابات کی گہماگہمی سے پہلے سے یہ دیکھتی آئی ہوں کہ عمران خان بیان دیں یا خطاب کریں، تھوڑی ہی دیر میں وہ ایسی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ یا تو ہنسی نہیں رکتی یا سر پکڑ کر رونے کو دل چاہتا ہے کہ اگر کسی کو مختلف سمجھا بھی تو غلط سمجھا۔ :(

فضل الرحمان کے بارے میں دوسرے صوبوں میں فرق نہیں پڑتا مگر خیبر پختونخواہ میں کافی پڑتا ہے اور وہاں لوگ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اب بھی عمران نے جواب میں کیا کہا ہے وہ دیکھ لیں اور جو فضل الرحمان نے کہا ہے وہ دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں کہ کس نے کیسی تنقید کی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا نام تو آپ نے سنا ہوگا ، ان کے سیاسی قد کاٹھ اور تقاریر پر آپ کی کیا رائے ہے ؟

پارٹی کے اندر الیکشن کروانے کا انتہائی مشکل کام عمران نے کیا اور اگر ہم سمجھ سکیں تو یہ پاکستانی سیاست میں انتہائی روشن باب ہے اور اگر اس کام کو پذیرائی ملی تو سیاست کا نقشہ بدل جائے گا۔

تحریک انصاف واحد جماعت ہے جس نے ملک کے 9 بڑے مسائل پر انتہائی جامع پالیسیاں دی ہیں جو کہ ان کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں۔ کرپشن کا سدباب کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی دی ہے اور واحد پارٹی ہے جس نے اس پر کام کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معذوروں اور ماحول کے حوالے سے پالیسی دینے والی بھی پہلی پارٹی ہے۔

اب ان چیزوں کی ستائش یا حوالے پر لوگوں کی نظر نہیں پڑتی ، پڑتی ہے تو صرف خطاب اور تقریر پر۔ اگر کسی کو جانچنا صرف اس کی تقریر اور خطابات سے ہوتا ہے تو یقین جانیں کہ بہترین مقرر اور خطیب ہی دنیا نے بہترین لوگ کہلاتے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اچھی تقریر اور اچھے عمل میں بہت فاصلہ ہوتا ہے۔
 
Top