شریف برادران کے کارنامے پیپلز پارٹی کے اشتہارات کی زینت

فرحت کیانی

لائبریرین
فرحت کیانی تبدیلی ظاہر ہے پہلی جماعت سے ہوگی اس میں جادو کی چھڑی گھمانے والی کونسی بات ہے۔
حکومتیں نظامِ تعلیم میں تبدیلیاں کرتی آئیں ہیں اور کبھی کوئی مسلہ نہیں ہوا
جہانتک میں سمجھتی ہوں نظامِ تعلیم میں بہتری بہتر اساتذہ لا سکتے ہیں اس لئے ٹیچر ٹرینگ پر زور دیا گیا۔
تعلیمی ایمر جنسی پلان چھ نکات پر مشتمل ہے
1۔ یکساں تعلیمی نظام
ا۔ ذریعہ تعلیم
ب۔ نصاب
ج۔ امتحانی نظام
2۔ تعلیم کو بھی صوبے کی بجائے شہری حکومت کے زیر نگرانی کر دیا جائے
3۔ تعلیم کے بجٹ کو 2.1 فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کیا جائے گا
4۔تعلیمِ بالغاں
5۔ اساتذہ کی تربیت
6۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی

اب ان چھ نکات میں سے آپ نے سارا زور صرف نصاب پر دیا ہے۔ سرکاری سکولوں کا نصاب تو پہلے ہی اُردو میں ہے اسے اُردو میں کرنے میں سالوں نہیں لگیں گے
ویسے بھی نصاب کی تبدیلی کے لیے ٹیکسٹ بک بورڈز میں انقلابی تبدیلیاں کی جائیں گی ۔ اس سلسلے میں نجی شعبے میں موجود اداروں سے بھی مدد لی جائے گی۔
نصاب اور پڑھانے کے طریقوں میں ایسی تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے گی جس سے رٹا سسٹم ختم ہوسکے
ضلعی تعلیمی اتھارٹی بنائی جائے گی تاکہ ہر ضلع کے سکولوں کی کارکردگی بہتر بنائی جاسکے
ہر تحصیل میں دو بورڈنگ سکول بنائے جائیں گے لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے
ہر یونین کونسل میں لڑکیوں کے لئے ایک سکول بنایا جائے گا ۔ اس لئے آپ کا یہ کہنا کہ لڑکیوں کے تباہ شدہ سکول دوبارہ تعمیر کرنے کی بات نہیں کی گئی غلط ہے
اسٹیٹس کو اور اینٹی اسٹیٹس پر بحث کوئی نئی یا عجیب بات نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی تبدیلی کو ناممکن قرار دیتا ہے تو وہ اسٹیٹس کو کا حامی ہی کہلائے گا۔ اُسے تبدیلی کا خواہشمند نہیں کہا جائے گا

جہاں میں نے مفروضے کی بات کی وہ صرف اس حوالے سے تھی کہ آپ کے خیال میں تعلیمی پالیسی میں قابلِ عمل کچھ نہ تھا۔ اس میں آپ کی دلچسپی یا تجربے کا تذکرہ نہ تھا


میں نے بارہا عمران خان کی تعلیمی پالیسی کو دیکھ کر کوئی قابلِ عمل شے نکالنے کی کوشش کی ہے لیکن شاید اپنی کم علمی کی وجہ سے ناکام ہی رہی
:)
:donttellanyone2: نو کومنٹس

فرحت کیانی
ایک جانب آپ کا اعتراض ہے کہ تعلیمی اور معاشی پالیسی مایوس کُن ہے اور ناقابلِ عمل اور دوسری جانب آپ کا کہنا ہے کہ اس پالیسی میں اور موجودہ پالیسی میں کچھ فرق نہیں ان بنیادوں پر بہت سا کام ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے۔ اب میں حیران ہوں کہ نا قابلِ عمل پالیسیوں پر عملدرآمد ہو بھی رہا ہے جبکہ ایسا ممکن نہیں تھا
آپ نے ایک اور اعتراض کیا ہے کہ کچھ جماعتیں دوسرے ملکوں کی پالیسیاں نقل کرتی ہیں
جی تو اس میں کیا حرج ہے اگر کسی ملک نے کسی شعبے میں کامیابی سے ترقی کی ہے تو اس کے تجربے سے استفادہ کیا جانا چاہیئے۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ جیسے تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھنے سے پہلے یورپی تعلیمی نظام کا جائزہ لیا تھا اور اسے اپنے ماحول کے مطابق ڈھالا تھا۔ ہمیں بھی سنگا پور ملا ئشیا جیسے ممالک کے تعلیمی نظام سے استفادہ کرنا چاہیئے
لیکن ایک ہی ملک میں حریف سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی پالیسیاں نعرے سلوگن چرانے لگیں تو یہ کافی معیوب ہے ۔
جس طرف میرا اشارہ تھا جہانزیب نے اسے زیادہ وضاحت سے بیان کر دیا ہے۔

جی ٹی روڈ پر ٹریفک کا بہاؤ درست یا رواں رکھنا پولیس کی ذمہ داری تھی اُسے نبھانی چاہیئے تھی۔
چلئے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ جلسے میں حُسنِ سلوک کی تربیت دی جاتی ہے ۔

میں بھی آپ سے ایک واقعہ شیئر کرتی ہوں ۔ ۲۳ مارچ کو لاہور کے جلسے کے بعد جب ہم گھر کی جانب روانہ ہوئے تو کچھ لڑکے سڑک پر بھنگڑا ڈال رہے تھے ۔ میرے شوہر ہمیشہ باجماعت نامز ادا کرتے ہیں سو وہ تناؤ کا شکار ہو کر ان نوجونوں کو ڈانٹنے کے لئے گاڑی سے باہر نکلنے لگے مگر ہم نے روکا۔ ہمارے ساتھ ایک عہدیدار خاتون تھیں اُنہوں نے کھڑکی سے منہ نکال کر کہا پی ٹی آئی والے تو اس طرح عوام کے راستے نہیں روکتے اور ہمارا راستہ کھُل گیا
:)
:donttellanyone2: نو کومنٹس
زرقا مفتی میں حقیقتاً بحث برائے بحث کی قائل نہیں ہوں۔ میں جو کہنا چاہ رہی تھی اسے شاید آپ سمجھنا نہیں چاہ رہیں یا پھر وہی بات جس کو آپ نے پہلے ہی ہائی لائٹ کر لیا ہے اور سمجھ بھی چکی ہیں کہ میری کم علمی ہی ان پُر مغز پالیسیوں اور پارٹی کے عمومی رویوں کو سمجھنے میں آڑے آ رہی ہے۔ اس لئے میں ساجد بھائی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس بحث کو یہیں ختم کرتی ہوں۔

اللہ تعالیٰ ہی کسی نجات دہندہ کو بھیجتے ہیں ۔ قائد اعظم برِ صغیر کے مسلمانوں کے نجات دہندہ بنے تھے۔ اللہ نے چاہا تو عمران خان ہماری قوم کا نجات دہندہ ثابت ہوگا
دعا ہے کہ آپ کی خوش گمانی قائم رہے۔ نجات دہندہ اور ان کی 'ٹیم' واقعی میں آپ کی امیدوں پر پورے اتریں۔ اور اگر ایسا ہو تو ہم سب (غیر سیاسی و سیاسی) لوگ اتنے ہی خوش ہوں گے جتنی آپ جیسی پرخلوص پارٹی رکن کہ مقصد ملکی معاملات اور حالات کی بہتری ہے جس کے ذریعے بھی آئے وہی ہمارا ہیرو ہے۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک اور زبردست کام تحریک انصاف کی طرف سے مکمل خواندگی کا ہدف 2025 تک مکمل کرنے کے لیے ڈاکٹر عظیم ابراہیم کی رپورٹ ۔ کم از کم میں تو لا علم ہوں کہ کسی اور پارٹی نے ایسی کوئی تجویز یا لائحہ عمل ترتیب دیا ہو۔

ڈاکٹر عظیم ابراہیم کی اس رپورٹ پر بھی رائے چاہوں گا میں۔

:shock: یہ آپ مجھے تو نہیں کہہ رہے نا؟
ایسی پُرمغز اور دُوربیں پالیسیوں اور رپورٹوں کو سمجھنے اور رائے دینے کے لئے تو مجھے نئی ڈگری کے لئے انرول ہونا پڑے گا یا پھر آئی کیو بڑھانے کا کوئی نسخہ استعمال کرنا پڑے گا۔۔۔:whew:
 

زرقا مفتی

محفلین
پہلے تو زرقا آپ کو مبارک باد کہ بالآخر آپ نے دیگر جماعتوں کے حمایت کرنے والوں کو اسٹیٹس کو کا خطاب دیر سے سہی مگر عطاء کر دیا ۔ اب عمران خان صاحب کے لئے تو یہ جائز ٹھہرا کہ جس ملک امریکہ کی غلامی سے نجات دلانے نکلے ہیں اسی ملک کے صدارتی امیدوار باراک اوبامہ کے مقبول عام انتخابی نعرہ "تبدیلی" کو چرا لیں ۔ لیکن اگر ایک ہی ملک میں رہنے والی جماعتیں (جن سب کو ملکر ملک آگے لے جانا ہے) وہ اگر کسی دوسری جماعت کی بہتر پالیسی کو ملک کے لئے جاری رکھنا چاہیں تو غیر اخلاقی ہو جاتا ہے، یہ دوہرے معیار آخر کس لئے؟
لیکن یہاں سے ایک طویل بحث کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا ملک کی تمام جماعتیں مل کر ملک کو آگے لے جاتی ہیں یا سیاست میں مقابلے کا مطلب دشمنی اور ہٹ دھرمی ہوتا ہے؟ نواز شریف صاحب کی حمایت میں ایک بہت بڑا نقطہ میرا یہ بھی ہے کہ انہوں نے ماضی کی یہ دشمنی نما سیاست کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے اور مفاہمتی سیاست کو پروان چڑھا کر پاکستانی معاشرہ جہاں سیاست دشمنیوں کی بنیاد پر کی جاتی ہے میں تبدیلی کا آغاز کیا ہے، میرے خیال میں اسے جاری رہنا چاہیے ۔
اب جن ممالک سے آپ تعلیمی پالیسی درآمد کر رہی ہیں وہاں بھی اس رویہ کا جائزہ لیجئے گا کہ ایوان میں حزب اختلاف اور اقتدار مل کر ملکی مفاد میں کیسے کام کرتے ہیں ۔ امریکہ کی مثال اس لئے نہیں دوں گا کہ بہت سوں کو ویسے ہی شکایت رہتی ہے امریکہ سے ۔
آپ کے کہنے کے مطابق ایک جماعت کو ملکی مفاد میں صرف اس لئے کام نہیں کرنا چاہیے کہ مخالف جماعت نے یہ پالیسی بنا رکھی ہے اور چوری کا الزام لگ جائے گا، کیا کہنے ہیں اس سوچ کے ۔ عمران خان بھلے وزیر اعظم بن کر مسلم لیگ کے تعمیراتی منصوبے جاری رکھیں، ہم ان پر چوری کا الزام نہیں لگائیں گے ۔
@جہانزیب صاحب امریکہ کے اوبامہ اور عمران خان پاکستان کے انتخابات میں حریف نہیں یہ ایک سادہ سی بات ہے جو آپ اور@ فرحت کیانی با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔
تبدیلی کا نعرہ اوبامہ کا ایجاد کردہ نہیں ہے اس نعرے کی تاریخ تو انسانی تاریخ جتنی پرانی ہے
کیونکہ
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
میرا خیال ہے کہ انتخابی سیاست کا بھی ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جس سے آپ کو رجوع کرنے کی ضرورت ہے

آپ میرے کسی مراسلے سے یہ الزام ثابت کر کے دکھائیں کہ
ایک جماعت کو ملکی مفاد میں صرف اس لئے کام نہیں کرنا چاہیے کہ مخالف جماعت نے یہ پالیسی بنا رکھی ہے
ہمیں تو ن لیگ سے سب سے بڑی شکایت یہی کہ وہ ذاتی مفاد کی سیاست کرتی ہے
ن لیگ نے پی پی سے مفاہمت صرف پنجاب میں اپنی حکومت قائم رکھنے کے لئے کی۔ ورنہ مرکز کی وزارتوں میں بیٹھے رہتے اور مثبت کام اور تنقید دونوں کرتے ۔ مگر ان میں سے کچھ بھی نہ کیا
منصوبے ایسے بنائے جن کی فیس ویلیو ہو مگر معاشی ترقی میں کردار نہ ہو۔ توانائی کی فراہمی کی طرف کوئی توجہ نہ دی تاکہ الیکشن میں اسے پی پی پی کی ناکامی کہہ کر ووٹ حاصل کر سکیں
اگر واقعی عوامی مفاد کی سیاست کرتے تو پالیمنٹ میں ایک کمیٹی بناتے اور اس کا حل تجویز کرتے ۔ سرمایہ کاروں کو پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری پر راغب کرتے ۔
اگر مفاہمتی سیاست پر اتنا ہی یقین ہوتا تو بے نظیر دور کے منصوبوں پر قدغن نہ لگاتے
چلئے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ عمران خان حکومت میں آ رہا ہے، آپ یقین رکھیئے عمران خان قوم کے مفاد کے لئے کام کرتا ہے انتقامی سیاست میں یقین نہیں رکھتا ۔ جو منصوبے قومی مفاد میں ہونگے وہ جاری رہیں گے ۔
بات ترجیحات کی ہے ذاتیات کی نہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
:)
:donttellanyone2: نو کومنٹس





:)
:donttellanyone2: نو کومنٹس
زرقا مفتی میں حقیقتاً بحث برائے بحث کی قائل نہیں ہوں۔ میں جو کہنا چاہ رہی تھی اسے شاید آپ سمجھنا نہیں چاہ رہیں یا پھر وہی بات جس کو آپ نے پہلے ہی ہائی لائٹ کر لیا ہے اور سمجھ بھی چکی ہیں کہ میری کم علمی ہی ان پُر مغز پالیسیوں اور پارٹی کے عمومی رویوں کو سمجھنے میں آڑے آ رہی ہے۔ اس لئے میں ساجد بھائی کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اپنی طرف سے اس بحث کو یہیں ختم کرتی ہوں۔
فرحت کیانی آپ کے لئے شاید صرف یہ ایک بحث تھی ۔ مگر ہمارے لئے یہ اپنے مستقبل بچانے کی جنگ ہے
 
Top