ہادیہ

محفلین
زبردست تحریر تابش بھائی
2005 میں جب ابو کی وفات ہوئی تو میں 23 سال کا تھا ۔۔ اور یک دم ذمہ داری آن پڑی تو بوکھلا گیا
کہ یار ابو یہ سب کیسے Manage کرتے تھے ۔ اور آج گیارہواں سال ہے میں Manage کرنے میں کامیاب نا ہوسکا
ہاں یہ ہوا کہ اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ گھر والوں کو کوئی ضرورت پیش آگئی تو میں اسے بخوبی پورا کرسکوں
لیکن پھر بھی ابو کی طرح خیال نہیں رکھ پاتا ۔
اور میں بھی بہت سخت دل ہوگیا ہوں ابو کی وفات کے بعد وارث بھائی تو پھر بھی تنہائی میں رولیتے ہیں مجھ سے تو وہ بھی نہیں ہوتا
میں اپنے کزنز کو یا دوستوں کو جن کے والد حیات ہیں اکثر کہتا ہوں کہ بھائی آج اپنا باپ تمہیں ظالم یا بیوقوف لگتا ہے نا
بعد میں انہی کو یاد کرکے آنسو بہایا کرو گے جب سر پے پڑے گی
بے شک ایسا ہی ہے۔میرے ابو بھی بہت سخت ہیں۔جب ہم لوگ چھوٹے تھے اتنی سمجھ نہیں تھی تب سارا زمانہ ہمیں نرم،محبت کرنے والا(جو کہ بظاہر ایک دکھادے کے سوا کچھ نہیں ہوتا) لگتا تھا اور اپنے ابو کے بارے میں یہی رائے تھی کہ ان سے سخت کوئی نہیں۔امی پیار کرتی ہیں ابو جی نہیں کرتے۔مگر اب جب سمجھ آئی تب خود ہی احساس ہوا ہے اگر باپ نا ہو تو کوئی بھی ویسا سایہ دار شجر کی مانند بن ہی نہیں سکتا ہمارے لیے۔ میں تو یہی کہوں گی
"مفت میں صرف ماں باپ کا پیار ملتا ہے۔۔اس کے بعد دنیا کے ہر رشتے کے لیے کچھ نا کچھ چُکانا پڑتا ہے"
:(
 

باباجی

محفلین
بے شک ایسا ہی ہے۔میرے ابو بھی بہت سخت ہیں۔جب ہم لوگ چھوٹے تھے اتنی سمجھ نہیں تھی تب سارا زمانہ ہمیں نرم،محبت کرنے والا(جو کہ بظاہر ایک دکھادے کے سوا کچھ نہیں ہوتا) لگتا تھا اور اپنے ابو کے بارے میں یہی رائے تھی کہ ان سے سخت کوئی نہیں۔امی پیار کرتی ہیں ابو جی نہیں کرتے۔مگر اب جب سمجھ آئی تب خود ہی احساس ہوا ہے اگر باپ نا ہو تو کوئی بھی ویسا سایہ دار شجر کی مانند بن ہی نہیں سکتا ہمارے لیے۔ میں تو یہی کہوں گی
"مفت میں صرف ماں باپ کا پیار ملتا ہے۔۔اس کے بعد دنیا کے ہر رشتے کے لیے کچھ نا کچھ چُکانا پڑتا ہے"
:(
ایسا اکثر اس وقت پتا چلتا ہے جب بندہ خود باپ بنے یا باپ جلدی فوت ہوجائے تو ذمہ داریاں آن پڑیں
جیسا کہ تابش بھائی نے ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا ڈاکٹر کو وزٹ کینسل کیا تو ان کے والد صاحب نے ان کو اے ٹی ایم کارڈ پکڑادیا
یعنی والد ہر حال میں "والد" ہی ہوتا ہے ۔
 
زبردست تحریر تابش بھائی
2005 میں جب ابو کی وفات ہوئی تو میں 23 سال کا تھا ۔۔ اور یک دم ذمہ داری آن پڑی تو بوکھلا گیا
کہ یار ابو یہ سب کیسے Manage کرتے تھے ۔ اور آج گیارہواں سال ہے میں Manage کرنے میں کامیاب نا ہوسکا
ہاں یہ ہوا کہ اپنی ضرورتوں کو پس پشت ڈال دیا اور ہر وقت یہ خیال رہتا ہے کہ گھر والوں کو کوئی ضرورت پیش آگئی تو میں اسے بخوبی پورا کرسکوں
لیکن پھر بھی ابو کی طرح خیال نہیں رکھ پاتا ۔
اور میں بھی بہت سخت دل ہوگیا ہوں ابو کی وفات کے بعد وارث بھائی تو پھر بھی تنہائی میں رولیتے ہیں مجھ سے تو وہ بھی نہیں ہوتا
میں اپنے کزنز کو یا دوستوں کو جن کے والد حیات ہیں اکثر کہتا ہوں کہ بھائی آج اپنا باپ تمہیں ظالم یا بیوقوف لگتا ہے نا
بعد میں انہی کو یاد کرکے آنسو بہایا کرو گے جب سر پے پڑے گی
جزاک اللہ فراز بھائی.
اللہ تعالٰی آپ کے والدِ محترم کو غریقِ رحمت کرے. آمین
 
بلاشبہ ہم سب کی زندگیاں ایسے بہت سے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔بہت جگہوں،تحریروں،اور شاعری میں صرف "ماں" کے بارے میں لوگ لکھتے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے جتنی ماں اہم ہے باپ کی بھی وہی اہمیت ہے۔فرق صرف اتنا ہے ماں اپنے جذبات،محبت کا اولاد کے ساتھ برملا اظہار کرتی ہے ہر ہر موقع پر وہ اولاد کو ہمت دیتی ہے دعائیں کرتی ہے۔مگر باپ کی شخصیت ظاہری اظہار سے مبرا ہوتی ہے۔وہ بھی اپنی اولاد کے لیے ویسے ہی پریشان ہوتے ہیں،دعائیں کرتے ہیں جیسے ماں کرتی ہے مگر وہ اظہار کم کرتے ہیں۔ ماں باپ انمول رشتے ہیں ان دونوں کے بغیر دنیا کی ہر خوشی بے معنی ہے۔ہر رنگ بے رنگ ہوتا ہے۔ خیر یہ بہت جذباتی ٹاپک ہے اور اس پر بات کرنے کے لیے الفاظ بھی کم پڑجاتے ہیں۔جس قدر ہوسکے ان عظیم ہستیوں کے دعا کیا کریں کیونکہ ہم لوگ ان کی محبت کا حق تو ادا کرنہیں سکتے مگر دعا تو کر سکتے ہیں۔اللہ پاک ہمارے ماں باپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رکھے۔آمین ثم آمین۔
زبردست اشتراک کیا سر آپ نے۔شکریہ:)
آمین. جزاک اللہ ہادیہ بہن.
 
اللہ آپ کے ابو کو سلامت رکھے، تابش بھائی۔ اللہ آپ کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ ماں جی کو سکھی اور خوش رکھے۔ آمین۔
ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ ہر کوئی اپنے مردوں کو روتا ہے۔ میرا المیہ کم و بیش محمد وارث بھائی جیسا ہے۔ ابو جان کی وفات کے وقت میں انیس برس کا تھا۔
انیس برس کا ایک جذباتی اور گاؤدی لڑکا۔ جسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ کس درجے اور رتبے کا آدمی ہے۔ ابو جان کے کردار کا اندازہ فقط اسی بات سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کبھی اپنی اولاد کو اپنے خیالات و افکار پر تنقید سے نہیں روکا۔ وہ ایک دانائے راز اور حکیم انسان تھے۔ مجھے خدا جانے رازدار سمجھتے تھے یا اندھوں میں کانا راجا۔ روز رات کو باتیں ہوتیں۔ لمبی لمبی۔ باقی سب سو جاتے۔ ابو اور میں بحثتے رہتے۔ میں ادھر ادھر کی ہانکتا۔ ابو مسکراتے اور تصحیح کرتے۔ میں لڑتا۔ وہ ہنس کے کہتے، "ایہہ کنجر ساہ نئیں لین دیندا مینوں!"
وفات سے کوئی ایک ماہ قبل اپنے انیس سالہ بیٹے کو انگلی پکڑ کے سڑک عبور کرائی اور جوتا خرید کے دیا۔ اور خدا کی قسم میں نے آج تک خود جوتا نہیں خریدا۔ امی جائیں گی۔ بھائی جائے گا۔ بیگم لا دیں گی۔ میرا جی نہیں چاہتا شاید کہ میں بڑا ہو جاؤں۔ کیا کروں گا بڑا ہو کر؟
ابو نے میرے ہاتھوں میں جان دی۔ ان کی آنکھ اس دنیا میں جس آخری شخص پر اٹھی وہ میں تھا۔ میں اس کی تاب کہاں لا سکتا تھا؟ نیم دیوانگی کی حالت میں چند سال گزرے۔ پاگل پن کے اندھیاروں میں کبھی ہوش کی کرن چمکتی تو میں ان عورتوں کو دیکھتا جو لپک کر اپنے بچوں کو پکڑتیں اور مجھ سے بھاگتے ہوئے کہتیں، "ایہہ کملا اے پتر۔تو ارانہہ آ جا۔"
زمانے کی گرد زخموں پر عطائی کے دیے ہوئے مرہم کی طرح جم گئی تو نئے زخموں کا موسم آیا۔ اب لوگ ملتے ہیں۔ کہتے ہیں تمھارا باپ ولی تھا۔ فقیر ملتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کی پرواز بہت اونچی تھی۔ دانشور ملتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ سرتاپا دماغ تھا۔ غریب ملتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ مسیحا تھا۔ لیکن کوئی کمبخت ایسا نہیں ملتا جو بتائے وہ شخص کہاں گیا؟
مجھے آج بھی لگتا ہے ابو اسی دنیا میں کہیں ہیں۔ کراچی میں۔ لاہور میں۔ کہیں اور۔ مگر یہیں کہیں۔ ہمارے حال سے واقف ہیں۔ خواب میں اکثر دیکھتا ہوں کہ وہ آ گئے ہیں۔ دل کہتا ہے خواب پورا ہونا چاہیے۔ دماغ کہتا ہے وہ زمین کے نیچے ہیں۔ گیارہ برسوں میں نہیں آئے تو اب کہاں سے آئیں گے؟ لیکن دماغ کی کون سنتا ہے؟
اللہ ماں جی کو سلامت رکھے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی فرقت برداشت کی جس کی عظمتوں کا انھیں مجھ سے زیادہ اندازہ ہے۔ اور پھر مجھ جیسے بیٹے کو بھی سنبھالا۔ اللہ سب کے ماں باپ کو سکھ دے۔ دونوں جہانوں میں سرفراز کرے۔ آمین۔
 

یوسف سلطان

محفلین
اللہ تعالٰی ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے
آمین
جنوری 2000ء میں جب میری عمر 27 سال تھی میں نے اپنے والد صاحب کو اپنے سامنے وفات پاتے دیکھا تھا،
اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کے درجات کو بلند فرمائے اور اپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے آمین
2005 میں جب ابو کی وفات ہوئی تو میں 23 سال کا تھا ۔۔
اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کے درجات کو بلند فرمائے اور اپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے آمین
وفات سے کوئی ایک ماہ قبل
اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کے درجات کو بلند فرمائے اور اپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے آمین
بہت ہی خوبصورت تحریر ۔ تابش بھائی الفاظ نہیں ھیں کچھ لکھنے کو اس پر ۔
 
اللہ آپ کے ابو کو سلامت رکھے، تابش بھائی۔ اللہ آپ کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ ماں جی کو سکھی اور خوش رکھے۔ آمین۔
ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ ہر کوئی اپنے مردوں کو روتا ہے۔ میرا المیہ کم و بیش محمد وارث بھائی جیسا ہے۔ ابو جان کی وفات کے وقت میں انیس برس کا تھا۔
انیس برس کا ایک جذباتی اور گاؤدی لڑکا۔ جسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ کس درجے اور رتبے کا آدمی ہے۔ ابو جان کے کردار کا اندازہ فقط اسی بات سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کبھی اپنی اولاد کو اپنے خیالات و افکار پر تنقید سے نہیں روکا۔ وہ ایک دانائے راز اور حکیم انسان تھے۔ مجھے خدا جانے رازدار سمجھتے تھے یا اندھوں میں کانا راجا۔ روز رات کو باتیں ہوتیں۔ لمبی لمبی۔ باقی سب سو جاتے۔ ابو اور میں بحثتے رہتے۔ میں ادھر ادھر کی ہانکتا۔ ابو مسکراتے اور تصحیح کرتے۔ میں لڑتا۔ وہ ہنس کے کہتے، "ایہہ کنجر ساہ نئیں لین دیندا مینوں!"
وفات سے کوئی ایک ماہ قبل اپنے انیس سالہ بیٹے کو انگلی پکڑ کے سڑک عبور کرائی اور جوتا خرید کے دیا۔ اور خدا کی قسم میں نے آج تک خود جوتا نہیں خریدا۔ امی جائیں گی۔ بھائی جائے گا۔ بیگم لا دیں گی۔ میرا جی نہیں چاہتا شاید کہ میں بڑا ہو جاؤں۔ کیا کروں گا بڑا ہو کر؟
ابو نے میرے ہاتھوں میں جان دی۔ ان کی آنکھ اس دنیا میں جس آخری شخص پر اٹھی وہ میں تھا۔ میں اس کی تاب کہاں لا سکتا تھا؟ نیم دیوانگی کی حالت میں چند سال گزرے۔ پاگل پن کے اندھیاروں میں کبھی ہوش کی کرن چمکتی تو میں ان عورتوں کو دیکھتا جو لپک کر اپنے بچوں کو پکڑتیں اور مجھ سے بھاگتے ہوئے کہتیں، "ایہہ کملا اے پتر۔تو ارانہہ آ جا۔"
زمانے کی گرد زخموں پر عطائی کے دیے ہوئے مرہم کی طرح جم گئی تو نئے زخموں کا موسم آیا۔ اب لوگ ملتے ہیں۔ کہتے ہیں تمھارا باپ ولی تھا۔ فقیر ملتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کی پرواز بہت اونچی تھی۔ دانشور ملتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ سرتاپا دماغ تھا۔ غریب ملتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ مسیحا تھا۔ لیکن کوئی کمبخت ایسا نہیں ملتا جو بتائے وہ شخص کہاں گیا؟
مجھے آج بھی لگتا ہے ابو اسی دنیا میں کہیں ہیں۔ کراچی میں۔ لاہور میں۔ کہیں اور۔ مگر یہیں کہیں۔ ہمارے حال سے واقف ہیں۔ خواب میں اکثر دیکھتا ہوں کہ وہ آ گئے ہیں۔ دل کہتا ہے خواب پورا ہونا چاہیے۔ دماغ کہتا ہے وہ زمین کے نیچے ہیں۔ گیارہ برسوں میں نہیں آئے تو اب کہاں سے آئیں گے؟ لیکن دماغ کی کون سنتا ہے؟
اللہ ماں جی کو سلامت رکھے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی فرقت برداشت کی جس کی عظمتوں کا انھیں مجھ سے زیادہ اندازہ ہے۔ اور پھر مجھ جیسے بیٹے کو بھی سنبھالا۔ اللہ سب کے ماں باپ کو سکھ دے۔ دونوں جہانوں میں سرفراز کرے۔ آمین۔
آمین، جزاک اللہ راحیل بھائی
اللہ تعالٰی آپ کے والدِ محترم کی مغفرت فرمائے اور درجات بلند فرمائے. آمین
اوت والدہ محترمہ کو صحت و تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے. آمین.
 
آمین

اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کے درجات کو بلند فرمائے اور اپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے آمین

اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کے درجات کو بلند فرمائے اور اپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے آمین

اللہ تعالیٰ آپ کے والد ِ محترم کے درجات کو بلند فرمائے اور اپ کو صبر کی توفیق عطا فرمائے آمین
بہت ہی خوبصورت تحریر ۔ تابش بھائی الفاظ نہیں ھیں کچھ لکھنے کو اس پر ۔
جزاک اللہ یوسف بھائی
 

نور وجدان

لائبریرین
اللہ آپ کے ابو کو سلامت رکھے، تابش بھائی۔ اللہ آپ کو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ ماں جی کو سکھی اور خوش رکھے۔ آمین۔
ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ ہر کوئی اپنے مردوں کو روتا ہے۔ میرا المیہ کم و بیش محمد وارث بھائی جیسا ہے۔ ابو جان کی وفات کے وقت میں انیس برس کا تھا۔
انیس برس کا ایک جذباتی اور گاؤدی لڑکا۔ جسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کا باپ کس درجے اور رتبے کا آدمی ہے۔ ابو جان کے کردار کا اندازہ فقط اسی بات سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کبھی اپنی اولاد کو اپنے خیالات و افکار پر تنقید سے نہیں روکا۔ وہ ایک دانائے راز اور حکیم انسان تھے۔ مجھے خدا جانے رازدار سمجھتے تھے یا اندھوں میں کانا راجا۔ روز رات کو باتیں ہوتیں۔ لمبی لمبی۔ باقی سب سو جاتے۔ ابو اور میں بحثتے رہتے۔ میں ادھر ادھر کی ہانکتا۔ ابو مسکراتے اور تصحیح کرتے۔ میں لڑتا۔ وہ ہنس کے کہتے، "ایہہ کنجر ساہ نئیں لین دیندا مینوں!"
وفات سے کوئی ایک ماہ قبل اپنے انیس سالہ بیٹے کو انگلی پکڑ کے سڑک عبور کرائی اور جوتا خرید کے دیا۔ اور خدا کی قسم میں نے آج تک خود جوتا نہیں خریدا۔ امی جائیں گی۔ بھائی جائے گا۔ بیگم لا دیں گی۔ میرا جی نہیں چاہتا شاید کہ میں بڑا ہو جاؤں۔ کیا کروں گا بڑا ہو کر؟
ابو نے میرے ہاتھوں میں جان دی۔ ان کی آنکھ اس دنیا میں جس آخری شخص پر اٹھی وہ میں تھا۔ میں اس کی تاب کہاں لا سکتا تھا؟ نیم دیوانگی کی حالت میں چند سال گزرے۔ پاگل پن کے اندھیاروں میں کبھی ہوش کی کرن چمکتی تو میں ان عورتوں کو دیکھتا جو لپک کر اپنے بچوں کو پکڑتیں اور مجھ سے بھاگتے ہوئے کہتیں، "ایہہ کملا اے پتر۔تو ارانہہ آ جا۔"
زمانے کی گرد زخموں پر عطائی کے دیے ہوئے مرہم کی طرح جم گئی تو نئے زخموں کا موسم آیا۔ اب لوگ ملتے ہیں۔ کہتے ہیں تمھارا باپ ولی تھا۔ فقیر ملتے ہیں۔ کہتے ہیں اس کی پرواز بہت اونچی تھی۔ دانشور ملتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ سرتاپا دماغ تھا۔ غریب ملتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ مسیحا تھا۔ لیکن کوئی کمبخت ایسا نہیں ملتا جو بتائے وہ شخص کہاں گیا؟
مجھے آج بھی لگتا ہے ابو اسی دنیا میں کہیں ہیں۔ کراچی میں۔ لاہور میں۔ کہیں اور۔ مگر یہیں کہیں۔ ہمارے حال سے واقف ہیں۔ خواب میں اکثر دیکھتا ہوں کہ وہ آ گئے ہیں۔ دل کہتا ہے خواب پورا ہونا چاہیے۔ دماغ کہتا ہے وہ زمین کے نیچے ہیں۔ گیارہ برسوں میں نہیں آئے تو اب کہاں سے آئیں گے؟ لیکن دماغ کی کون سنتا ہے؟
اللہ ماں جی کو سلامت رکھے۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی فرقت برداشت کی جس کی عظمتوں کا انھیں مجھ سے زیادہ اندازہ ہے۔ اور پھر مجھ جیسے بیٹے کو بھی سنبھالا۔ اللہ سب کے ماں باپ کو سکھ دے۔ دونوں جہانوں میں سرفراز کرے۔ آمین۔

راحیل بھائی ! آپ کی شاعری پڑھ کے لگتا تھا کہ بندہ اپنے اندر ہی بہت کچھ ہے۔ آپ کی بات میں وہ اثر ہوتا ہے جو دل پھیر دیتا ہے۔ آپ کے لیے مقام فخر ہے کہ شاید آپ کے والد کا عکس آپ میں جھلک رہا ہے ۔۔نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے ۔
 
آخری تدوین:

لاریب مرزا

محفلین
تابش بھائی!! آپ کتنا پیارا موضوع زیرِ بحث لے آئے ہیں۔ ہمارا اپنے ابو جان کے ساتھ جو رشتہ ہے وہ ایسا ہے کہ ہم گھنٹوں بولتے رہیں لیکن الفاظ ختم نہ ہوں۔ ہم پانچ بھائیوں کی بہن ہیں لہٰذا ہمیں پیار اور لاڈ بھی زیادہ ملا۔ اگر کبھی ہماری آپس میں لڑائی ہو جائے اور معاملہ ابو جان تک پہنچ جائے اور قصور بھی ہمارا ہی ہو تو ابو جان بھائیوں کو ہی سمجھاتے ہیں کہ "کوئی بات نہیں بیٹا وہ آپ کی بہن ہیں۔ " :D(بھائی اپنی اس ناقدری پر امی جان کی عدالت میں مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ :unsure:اور ہم اٹھلاتے ہیں) :D
ہمیں ابو جان سے کبھی ڈانٹ نہیں پڑی، اگر ان کو ہماری کوئی بات اچھی نہ لگے تو ہمیں امی جان کے توسط سے پتا چلتی ہے۔ ڈانٹ کے اس اِن ڈائریکٹ تعلق میں اتنا رعب ہوتا ہے کہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ابو جان سے ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے۔ :rolleyes:
اب دو بھابیاں آئی ہیں تو وہ بھی اس رواج پہ بہت خوش ہوتی ہیں۔ اگر کبھی مل کے ہم کوئی شیطانی منصوبہ بنائیں تو ہم تو بھائیوں کو صاف کہہ دیتے ہیں کہ بھئی ہمیں تو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ آپ لوگ اپنی خیر منائیے گا۔ :p
البتہ ابو جان اصولوں کے سخت ہیں۔ غلط بات کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ :)
بتانے کو اور بھی بہت بہت کچھ ہے لیکن ہم اتنا ہی کہیں گے کہ ایک بیٹی ہونے کے ناطے سے ہمیں اپنے ابو جان سے عشق ہے۔ :love:
اللہ تعالیٰ سب کے والد محترم کو صحت تندرستی اور دراز عمر عطا فرمائیں۔ آمین
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اللہ تعالٰی ان کو صحت والی زندگی عطا فرمائے اور ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آمین
رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا

آمین ۔ تابش بھائی والدین کا سایہ سر پر ہونا بہت خوش نصیبی ہے ۔ ان کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیجئے ۔ اللہ آپ کو شاد وآباد رکھے ۔
 
تابش بھائی!! آپ کتنا پیارا موضوع زیرِ بحث لے آئے ہیں۔ ہمارا اپنے ابو جان کے ساتھ جو رشتہ ہے وہ ایسا ہے کہ ہم گھنٹوں بولتے رہیں لیکن الفاظ ختم نہ ہوں۔ ہم پانچ بھائیوں کی بہن ہیں لہٰذا ہمیں پیار اور لاڈ بھی زیادہ ملا۔ اگر کبھی ہماری آپس میں لڑائی ہو جائے اور معاملہ ابو جان تک پہنچ جائے اور قصور بھی ہمارا ہی ہو تو ابو جان بھائیوں کو ہی سمجھاتے ہیں کہ "کوئی بات نہیں بیٹا وہ آپ کی بہن ہیں۔ " :D(بھائی اپنی اس ناقدری پر امی جان کی عدالت میں مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ :unsure:اور ہم اٹھلاتے ہیں) :D
ہمیں ابو جان سے کبھی ڈانٹ نہیں پڑی، اگر ان کو ہماری کوئی بات اچھی نہ لگے تو ہمیں امی جان کے توسط سے پتا چلتی ہے۔ ڈانٹ کے اس اِن ڈائریکٹ تعلق میں اتنا رعب ہوتا ہے کہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ابو جان سے ڈانٹ ہی نہ پڑ جائے۔ :rolleyes:
اب دو بھابیاں آئی ہیں تو وہ بھی اس رواج پہ بہت خوش ہوتی ہیں۔ اگر کبھی مل کے ہم کوئی شیطانی منصوبہ بنائیں تو ہم تو بھائیوں کو صاف کہہ دیتے ہیں کہ بھئی ہمیں تو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ آپ لوگ اپنی خیر منائیے گا۔ :p
البتہ ابو جان اصولوں کے سخت ہیں۔ غلط بات کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ :)
بتانے کو اور بھی بہت بہت کچھ ہے لیکن ہم اتنا ہی کہیں گے کہ ایک بیٹی ہونے کے ناطے سے ہمیں اپنے ابو جان سے عشق ہے۔ :love:
اللہ تعالیٰ سب کے والد محترم کو صحت تندرستی اور دراز عمر عطا فرمائیں۔ آمین
آمین. بہت خوبصورت تاثرات. جزاک اللہ
 
آمین ۔ تابش بھائی والدین کا سایہ سر پر ہونا بہت خوش نصیبی ہے ۔ ان کی خدمت کو اپنا نصب العین بنالیجئے ۔ اللہ آپ کو شاد وآباد رکھے ۔
آمین. جزاک اللہ ظہیر بھائی.
اللہ تعالٰی ہمیں اپنی قوت اور استطاعت سے بڑھ کر ان کی خدمت کرنے توفیق عطا فرمائے. آمین
 
Top