شاہی قلعہ لاہور از محمد حسن

رضوان

محفلین
فہرست مضامین

پیش لفظ
تاریخی اہمیت
قلعہ لاہور
محل وقوع
عالمگیری دروازہ
شاہی باورچی خانہ واصطبل
قلعہ لاہور کی جنوبی دیوار
دیوانِ عام
دولت خانہ خاص وعام
کھڑک سنگھ کا محل
مسجدی یا مستی دروازہ
احاطہ جہانگیری
خوابگاہ جہانگیری و عجائب گھر
سہ دریاں
زنانہ شاہی حمام
محل رانی جنداں
مکاتب خانہ
موتی مسجد
احاطہ شاہجہانی
خوابگاہ شاہجہانی
دیوان خاص
عرض گاہ
لال برج
کالا برج
خلوت خانہ
پائیں باغ
شاہی غسل خانہ
شاہی زنانہ مسجد
سمادھ یا گردوارہ
آٹھ درہ
احاطہ شاہ برج
شیش محل
نولکھا
ہاتھی پیر سیڑھیاں
شاہ برج دروازہ
قلعہ کی مصور دیوار
تہہ خانے
رنجیت سنگھ کی تعمیر کردہ دیوار
پختہ سڑک اور کیورٹر کی رہائش گاہ
روشنائی دروازہ
حضوری باغ و بارہ دری
اہم معلومات
 

رضوان

محفلین
تاریخی اہمیت:-
لاہور جس کا شمار پاکستان کے قدیم شہروں میں ہوتا ہے جغرافیائی لحاظ سے 19،00،22 طول بلد اور 31،00،50 عرض بلد پر واقع ہے تہذیبی، تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اس کی طویل تاریخ ماضی کے سحر میں گُم ہے اور اس کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں صرف اور صرف روایات اور قیاس ملتے ہیں مگر عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ راجہ رام چندر جی ( 1200ق م ۔ 800ق م ) کے دو بیٹے تھے ایک کا نام “ قصوہ “ تھا جس نے قصور کی بنیاد رکھی اور دوسرے کا نام “ لوہ “ تھا جس نے لاہور بسایا۔ شروع مین اس شہر کا نام “ لہور “ تھا جو آہستہ آہستہ لاہور بن گیا۔ اس تاریخی روایت سے اس کا قدیم ہونا ازخود واضح ہو جاتا ہے۔
لاہور کا ذکر ہمیں کسی بھی قدیم غیر اسلامی کتاب میں نہیں ملتا۔ صرف عہدِاسلامی کی کتاب “ حدود العالم “ میں ملتا ہے جو تقریباً 994ء کی تصنیف ہے اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ قدیم میں لاہور ملتان کے ماتحت تھا اور ملتان کا حاکم “ قریشی“ کہلاتا تھا۔ الغرض تاریخ میں لاہور کی موجودگی کا واضح ثبوت سبکتگین اور اس کے بیٹے محمود غزنوی کے حملوں کے دوران ملتا ہے جب اس نے شمالی ہند فتح کیا۔ جس کی نشاندھی محکمہ آثارِ قدیمہ نے بھی 1959ء میں قلعہ لاہور میں جدید خطوط پر کھدائی کرنے کے بعد کی۔ کھدائی سے ملنے والے آثار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے اس قلعے کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی لیکن عہدِ غزنوی 976ء سے لیکر ابراہیم لودھی 1526ء تک آنے والی حکومتوں میں لاہور کو ایک نمایاں مقام حاصل رہا۔ اس سلسلے میں سلطان محمود غزنوی نے 1021ء کو لاہور فتح کرنے کے بعد ایک نیا قلعہ تعمیر کروایا۔ بریصغیر کے پہلے مسلم سلطان قطب الدین ایبک کی تاجپوشی قلعہ لاہور میں ہی ہوئی اور اسی شہر میں وہ چوگان کھیلتا ہوا جان بحق ہوا۔ اس طرح جب تغلق سلطنت زوال کے دھانے پر پہنچی تو شیخا کھوکھر لاہور پر قابض ہوگیا مگر 1421ء میں سید مبارک شاہ نے شیخا کھوکھر کے بیٹے جسرت کھوکھر کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کرلیا۔ اگرچہ اولین مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر کے ہاتھوں لاہور شہر کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا مگر بعد کے مغل شہنشاہوں نے لاہور کی کافی پزیرائی کی۔
شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دینے کے بعد ہیبت خان نیازی کو حاکم لاہور مقرر کیا جس نے قلعہ لاہور میں رہائش اختیار کی لیکن زیادہ دیر قیام نہ کرسکا اور دوبارہ ہمایوں عنانِ حکومت پر قابض ہوگیا۔ ہمایوں کی اچانک موت پر اس کے بیٹے جلال الدین اکبر کی تاجپوشی کلانور میں ہوئی تو اس وقت اکبر کی عمر 12 سال تھی وہ 1557ء، 1571ء اور 1586ء کو لاہور آئے اور باقاعدہ طور پر پختہ اینٹوں کے ساتھ قلعہ تعمیر کرنے کی ہدایت کی اور لاہور کو دارالسلطنت بنایا۔ اکبر کی وفات کے بعد اسکا بیٹا نورالدین جہانگیر عنانِ حکومت سنبھالنے کے بعد 1606ء میں لاہور آیا اور ایک سال تک قلعہ میں قیام کیا۔ یہاں قیام کے دوران بہت سی عمارات تعمیر کروانے کا حکم صادر فرمایا۔ جہانگیر کے بعد اس کے بیٹے شاہجہاں نے اپنی حکومت کے پہلے ہی سال میں شاہی قلعہ لاہور میں خوبصورت عمارات تعمیر کروانے کا حکم جاری کیا۔ صوبہ دار وزیر خان کے زیرِ انتظام تمام نئی عمارات کی تعمیر مکمل ہوئی اور 1638ء میں شاہجہاں قلعہ میں کچھ عرصے کے لیے قیام پذیر ہوئے۔ شاہجہاں کے بعد اس کا بیٹا اورنگزیب عالمگیر عنان حکومت کا مالک بنا اور 1658ء کو لاہور تشریف لایا اور قلعہ کا جائزہ لیا اور ضروری احکا مات جاری کیے۔ بادشاہی مسجد اور عالمگیری دروازہ انہی احکا مات کی عکاسی کرتے ہیں۔
اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد ان کے جان نشینوں میں باہمی چپقلش اور محاذ آرائی شروع ہوگئی جس کی وجہ سے مختلف فتنوں نے سر اٹھایا اور مغل خاندان کا کوئی بھی حکمران دوبارہ لاہور نہ آسکا تو مختلف علاقوں میں مختلف حکمراں بن گئے۔ پنجاب پر سکھ قابض ہوگئے سکھوں میں ‌راجہ رنجیت سنگھ 1799ء میں لاہور پر قابض ہوا اور ایک بہت بڑا جشن “جشن قلعہ لاہور “ کے نام سے منعقد کروایا اور اسی جگہ پر رہائش پذیر ہوا۔
1839ء میں رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا کھڑک سنگھ ایک سال حکومت کرنے کے بعد مر گیا۔ اس کے جانشین بھی سیاسی چپقلش اور انتشار کا شکار ہوگئے اور آپس میں لڑائی جھگڑے شروع کر دیئے جس کی وجہ سے قلعہ کی کئی عمارتوں کو کافی نقصان پہنچا۔ سب سے آخر میں دلیپ سنگھ نے حکومت سنبھالنے کی کوشش کی مگر دوسری طرف رانی جنداں (رنجیت سنگھ کی بیوی ) اور کچھ سکھوں نے مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس کے نتیجہ میں انگریز فوج قلعہ پر قابض ہوگئی اور 1849ء کو راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر کے سکھ حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا گیا اور مکمل طور پر لاہور انگریزوں کے کنٹرول میں چلا گیا۔
1849ء سے 1927ء تک شاہی قلعہ انگریز کا مسکن رہا۔ انہوں نے اپنی مرضی کے مطابق اس میں کافی تبدیلیاں کیں اور مختلف عمارتوں کو گرا کر فوجیوں کی آسانیوں کے لیے گرجا گھر، شراب خانے، دفاتر اور کئی اسلحہ خانے بنائے۔ جس سے تاریخی ورثہ کو کافی نقصان پہنچا۔ بالاخر 1927ء میں محکمہ آثارِقدیمہ نے اس قلعہ کو اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کو اصل حالت کے مطابق بنانے کی کوشش شروع کردی۔
 

رضوان

محفلین
قلعہ لاہور۔
قدیم تاریخی آثار اور پُرشکوہ عمارتوں کی اپنی ایک سحر انگیز داستان ہے جو اس زمانے کے ماہرین تعمیر نے اپنے فن اور صلاحیتوں سے زندہ رکھی ہے۔ قدیم عمارتوں سے اس زمانے کی تہزیب کے جاہ و جلال حکمرانی کے انداز شہنشاہیت کے دبدبے اور طاقت وجبروت کا اندازہ ہوتا ہے۔
اگر دنیا کے نقشے پر دیکھا جائے تو اسلامی دورِ حکومت اپنی تہزیبی و تمدنی، سماجی، معاشی، معاشرتی ثقافتی اور تعمیری اصلاحات کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک خاص مقام رکھتا ہے مسلمانوں کی نافذکردہ اصلاحات آج کے ترقی یافتہ دور میں ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں ان کی تعمیرات آج کے معمار کے لیے ایک اعلیٰ نمونہ ہیں اور نئی تعمیرات کے لیے اچھی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی عمارات میں محلات، مقابر، مساجد، باغات، قلعے، مینار اور پُل وغیرہ شامل ہیں جو خوبصورت فنِ تعمیر کے نمونے ہیں اور اپنی مضبوطی، پائیداری کی وجہ سے مسلمانوں کے تابناک ماضی کی گواہی دیتے ہیں۔
اسلامی تہذیب جہاں جہاں پھیلی مسلمانوں نے نادرو پائیدار عمارات تعمیر کروائیں جن میں بعض کا بجا طور پر دنیا کی بہترین عمارتوں میں شمار ہوتا ہے جیسے بادشاہی مسجد، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر لاہور اور تاج محل آگرہ وغیرہ اسلامی دنیا میں مغلوں کا دور تاریخی حیثیت سے سنہری دور تھا۔ انہوں نے بے شمار عمارات بنا کر فنِ تعمیر کو بریصغیر پاک و ہند میں عروج بخشا۔ ان عمارتوں میں شاہی قلعہ لاہور اپنی مثال آپ ہے جو اس وقت بین الاقوامی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔
 

رضوان

محفلین
محل وقوع
قلعہ جس کے لغوی معانی استحکام اور حفاظت کے ہوتے ہیں، فوجی مقاصد یا شاہی رہائش گاہ کے لیے دنیا بھر میں بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کئی قلعے مختلف ادوار میں تعمیر ہوئے۔ مثلاً روہتاس، رانی کوٹ، قلعہ اٹک، قلعہ دراوڑ اور شاہی قلعہ لاہور وغیرہ۔ اس قلعہ کے لیے جو جگہ منتخب کی گئی وہ ایک اونچا مصنوعی ٹیلہ تھا جس کی سطح لاہور شہر سے کافی بلند، دریائے راوی کے جنوبی کنارے پر واقع کافی محفوظ تھی جو اس وقت لاہور کے شمال مغرب میں واقع ہے۔
شاہی قلعہ لاہور جو مغلوں کے فنِ تعمیر کا ایک بے نظیر شاہکار ہے جو انہوں نے اپنے رہائشی مقاصد کے لیے تعمیر کروایا مگر ساتھ ساتھ فوجی مقاصد کو بھی مدِنظر رکھا گیا۔ اس کی باقاعدہ بنیاد 1566ء میں مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے رکھی۔ اس کی لمبائی 466 میٹر اور چوڑائی 370 میٹر ہے۔ اس کی شکل تقریباً مستطیل ہے۔ دیواریں سرخ پختہ اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کی چنائی مٹی گارے سے کی گئی ہے ان دیواروں پر بندوقچیوں کے لیے سوراخ ہیں جن کے آثار مشرقی دیوار میں اب تک موجود ہیں۔ جن سے وہ محاصرہ کرنے والی فوج پر گرم پانی اور گولیاں برساسکتے تھے۔ یہ قلعہ اپنی وسعت، فنِ تعمیر اور شہرت کے لحاظ سے پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہے۔ اس قلعہ کے اندر مختلف ادوار میں مختلف عمارات تعمیر ہوئیں جن کو چھ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
1-- عہدِ اکبری کی عمارات
2-- نورالدین جہانگیر کی عمارات
3-- شاہجہاں کی تعمیر کردہ عمارات
4-- اورنگزیب عالمگیر کی عمارات
5-- سکھ دور کی عمارات
6-- قلعہ بَعہد انگریز
شاہی قلعہ کے اندر تعمیر کردہ مختلف عمارات کی چیدہ چیدہ تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔
 

رضوان

محفلین
1 --عالمگیری دروازہ:
شاہی قلعہ کی مغربی دیوار سے منسلک یہ دروازہ اورنگزیب عالمگیر نے 74-1673ء میں تعمیر کروایا۔ اسی جگہ پر اکبری دور میں بھی ایک دروازہ موجود تھا اورنگ زیب عالمگیر نے اس کو از سِرنو تعمیر کروایا جس کی وجہ سے یہ عالمگیری دروازہ کہلوایا۔ اس کی تعمیر پرانے فوجی اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ خوبصورتی اور رعب کے لحاظ سے اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس کے بڑے بڑے مثمن برج کنول کی پتیوں سے آراستہ ہیں جبکہ گنبد نما برجیاں اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ اس دروازے کے اندر نیچے اور اوپر، محراب دار دو منزلہ کمرے بنے ہوئے ہیں اور سامنے ٹکٹ گھر ہے۔ اسی دروازے سے آج کل عوام کی آمدورفت ہوتی ہے۔ اس دروازے کے اندر داخل ہونے کے بعد دائیں جانب ایک راستہ ملتا ہے جس کے نیچے اوپر محافظوں کے کمرے بنے ہوئے ہیں جبکہ بالکل سامنے ایک چھوٹے سے کمرے میں بانی لاہور “ لوہ “ کا مندر ہے۔ اس مندر کے شمال میں بلندی پر ایک مثمن دروازہ ہے۔ جس پر جانے کے لیے بڑی بڑی سیڑھیاں تھیں جو کہ عہدِ برطانوی میں ختم کردی گئیں۔ دروازے کے آثار ابھی تک باقی ہیں۔
 

رضوان

محفلین
2 -- شاہی باورچی خانہ و اصطبل:
شاہی قلعے کے جنوب مغرب کی طرف ایک وسیع علاقہ ہے جہاں پر عہدِ مغلیہ میں شاہی باورچی خانہ و اصطبل تھا۔ یہ جگہ لوہ کے مندر کی پچھلی جانب اور مثمن دروازہ کی جنوبی طرف واقع ہے۔ یہ بورچی خانہ ایک بہت بڑے ہال اور چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل تھا جس کے کئی دروازے تھے۔ اس میں کئی ایک انواع کے کھانے تیار ہوتے جو کہ شاہی دسترخوان کی زینت بنتے تھے جبکہ شاہی اصطبل میں اچھی نسل کے گھوڑے رکھے جاتے تھے۔
برطانوی عہد میں اس شاہی باورچی خانہ اور اصطبل کی حیثیت کو ختم کرکے یہاں پر پولیس کی بارکیں بنادی گئیں اور کچھ اضافی عمارات بنا کر اس کو جیل میں تبدیل کردیا گیا اور کچھ عرصہ تک یہ جیل زیر استعمال رہی۔
آثارِقدیمہ کی انتھک کوششوں کے بعد اس جیل اور پولیس کی بارکوں کو ختم کردیا گیا اور باورچی خانہ کو اصلی صورت میں لانے کی کوشش کی۔ اس کے آدھے حصے پر محکمہ آثارِ قدیمہ نے ایک نیا خوبصورت کیمپس بنایا جس کا نام “ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی ٹریننگ اینڈ ریسرچ سنٹر “ ہے۔ یہاں پر قومی اور بین الاقوامی سطح پر آثارِقدیمہ کے مختلف شعبہ جات میں لوگوں کو سکالرز کے ذریعے تربیت دی جاتی ہے۔ (تصویر نمبر1 )

 

رضوان

محفلین
his9aik9.jpg

his3bkt1.jpg

hist2com9.jpg

his4dlv7.jpg
 

رضوان

محفلین
3 --- قلعہ کی جنوبی دیوار:
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف آرکیالوجی اینڈ ریسرچ کی عمارت کے مشرق میں ایک سر سبز و شاداب سبزہ زار ہے جس کو روش کے ذریعے چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس سبزہ زار کے جنوب میں قلعہ کی جنوبی دیوار ہے۔ جسے عہدِ برطانوی میں توڑ دیا گیا تھا اور یہاں پر سیڑھیاں اور چبوترے بنادیے گئے تھے تاکہ قلعہ دوبارہ دفاعی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہوسکے۔ اس دیوار کے بجانب شمال دھیان سنگھ کی بارہ دری تھی جو اب منہدم ہوچکی ہے اس بارہ دری اور دیوار کے اوپر مختلف قسم کے فوارے لگے ہوئے تھے ( جنمیں سے ابھی کچھ باقی ہیں)۔اس وقت یہاں پر بچوں کے کھیلنے کے لیے جھولے وغیرہ بنائے گئے ہیں۔

4 --- دیوان عام:
عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کی جنوبی دیوار سے متصل دیوان عام جو آصف خان کی زیرِ نگرانی شاہجہاں کے حکم پر 32-1631ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔ جو کہ مستی ( مسجدی ) دروازہ کے مغرب میں واقع ہے۔ یہ سنگِ سرخ کے چالیس ستونوں پر مشتمل خوبصورت عمارت ہے جس کی لمبائی 62 میٹر، چوڑائی 20 میٹر اور اونچائی 11 میٹر ہے۔ یہ دیوان 1.5 میٹر اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے۔ جس کی تین اطراف میں سنگِ سرخ کی جھالر / کٹہرا بنا ہوا ہے اور ہر طرف سے راستہ چبوترے پر جاتا ہے۔ جس سے امراء، وزراء اور دیگر ملازمین دیوان میں داخل ہوتے تھے۔ (تصویر نمبر 2 ) سکھ دور حکومت 1841ء میں اس دیوان کے حسن کو کافی نقصان پہنچا جس کی وجہ سکھوں کی باہمی چپقلش اور لڑائی تھی چنانچہ اسی وجہ سے سکھ سردار شیر سنگھ نے قلعہ پر بادشاہی مسجد کے میناروں سے گولہ باری کی جس سے اس کا کافی حصہ گر گیا جس کی بعد میں انگریزوں نے مرمت کر کے اس دیوان کو ہسپتال کی حیثیت دے دی اور کافی عرصہ یہ عمارت بطور ہسپتال استعمال ہوتی رہی۔ آخر 1927ء کو محکمہ آثارِ قدیمہ نے اسے اپنی تحویل میں لیکر اصلی صورت بخشی۔
 

رضوان

محفلین
5 --- دولت خانہ خاص و عام ( اکبری محل ):
دیوان عام میں سے ایک زینہ جھروکہ درشن میں جاتا ہے۔ اس جھروکے کے پیچھے اکبری عہد کے دولت خانہ خاص و عام کی عمارت ہے یہ ایک دو منزلہ عمارت چار گوشہ عمارت، دولت خانہ خاص و عام، اکبری محل کے نام سے مشہور ہے۔ جو اکبر کے حکم پر 1587ء کو تعمیر ہونا شروع ہوئی اور 18- 1617ء میں عہد جہانگیری میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اس پر سات لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ وسیع علاقے پر مشتمل یہ محل 116 کمروں پر مشتمل تھا جس کا کافی حصہ بالکل ختم ہوچکا ہے صرف بنیادوں کے آثار باقی ہیں۔ اس وقت جو حصہ بچا ہوا ہے اس میں دولت خانہ خاص، جھروکہ اور کچھ رہائشی کمرے ہیں۔ دولت خانہ چار کمروں پر مشتمل ہے۔ جن میں ‌ایک مستطیل، ایک ہشت پہلو اور دو شش پہلو ہیں جب کہ ان کی شمال اور مغربی جانب برآمدے ہیں جن میں دوہرے سنگ مر مر کے ستون ہیں جبکہ دیواروں اور چھتوں کو چونے کی رنگین گلکاری اور منبت کاری سے سجایا گیا ہے۔ ( تصویر نمبر 3 )
اس دولت خانہ کے جنوبی جانب جھروکہ ہے جو سنگ مرمر سے تعمیر کردہ ہے۔ اس میں بیٹھ کر بادشاہ لوگوں کو درشن دیا کرتا تھا۔ اس محل کا مشرقی حصہ ابھی تک محفوظ ہے۔


6 --- کھڑک سنگھ کا محل:
دولت خانہ خاص و عام کی مشرقی جانب اور احاطہ جہانگیری کے جنوب مشرقی جانب ایک دو منزلہ عمارت ہے اس عمارت کا زیریں حصہ عہدِ اکبری کا ہے۔ جبکہ اوپر والی عمارت راجہ رنجیت سنگھ نے اپنے بیٹے کھڑک سنگھ کے لیے بنوائی۔ اسی لیے یہ کھڑک سنگھ کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ کھڑک سنگھ کا یہ محل آتھ کمروں اور ایک بڑے ہال پر مشتمل تھا جس کی چھت لکڑی اور دیواروں پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے ایک اعلٰی نمونہ تھا۔ آج کل عمارت کے اس حصے میں ڈائریکٹر حلقہ شمالی آثارِ قدیمہ کا دفتر ہے۔
اس حویلی کی نچلی منزل دراصل عہدِ اکبری کے دولت خانہ خاص و عام کا ایک حصہ ہے۔ آج کل اس میں محکمہ آثارِقدیمہ کی ایک خوبصورت لائبریری ہے جو تقریباً پندرہ ہزار کتابوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بیٹھ کر مختلف اسکالرز استفادہ علم کرتے ہیں۔ یہ لائبریری ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کو الماریوں کے ذریعے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس کی پچھلی جانب کمروں کا ایک سلسلہ ہے جو محکمہ آثارِقدیمہ کے اسٹور کے طور ہر استعمال ہوتا ہے۔
 

رضوان

محفلین
7 --- مسجدی یا مستی دروازہ:
جہانگیر کی والدہ مریم زمانی نے 1614ء کو قلعہ کے مشرقی دروازے کے باہر ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کروائی جو اسی کے نام سے موسوم ہوئی۔ قلعے کا یہ دروازہ مسجد کے قریب ہونے کی وجہ سے “ مسجدی دروازہ “ کہلایا جو بعد میں بگڑ کر “ مستی “ دروازہ بن گیا۔ یہ دروازہ قلعہ کی مشرقی دیوار کے وسط میں واقع ہے جو ایک مضبوط اور پائیدار دروازہ ہے۔ جو اپنی خوبصورتی اور جاہ و جلال بکھیرے عہدِ اکبری کے عظیم فن ِ تعمیر کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ دروازہ 1566ء میں تعمیر ہوا جس کے دونوں جانب مثمن برج ہیں اور مدافعت کے لیے دندانے دار فصیل ہے جن میں مستطیل نما سوراخ ہیں۔ اس قسم کی سوراخ دار فصیل قلعے کے کسی اور حصے میں نہیں ملتی۔ اس دروازے کا اندرونی حصہ گنبد نما ہے جن کے دونوں جانب بڑے بڑے دو منزلہ کمرے ہیں۔ یہ کمرے محافظوں کے لیے مخصوص تھے۔ اس دروازے کے اندرونی جانب شمال اور بجانب جنوب عہدِاکبری کی عمارات منسلک تھیں جو اب ختم ہوچکی ہیں اور اب صرف ان کی بنیادیں ہی باقی ہیں۔ تصویر نمبر(4)
 

رضوان

محفلین
8 --- احاطہ جہانگیری:
اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر (1605-1627ء) نے عنانِ حکومت سنبھالا تو اس کے خلاف بے شمار شورشیں اٹھ کھڑی ہوئیں یہاں تک کہ اس کے بیٹے خسرو نے باپ کے خلاف بغاوت کردی اور قلعہ لاہور کا محاصرہ کرلیا مگر صوبے دار لاہور دلاور خان نے اس کی ایک نہ چلنے دی تو اس نے راہِ فرار اختیار کی۔ دریں اثنا خسرو اپنے سات سو ساتھیوں کے ساتھ دریائے چناب کے قریب پکڑا گیا۔ اسی دوران جہانگیر لاہور آیا اور تقریباً ایک سال تک یہیں شاہی قلعے میں قیام کیا اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شاہی قلعہ لاہور میں نہایت عمدہ عمارات تعمیر کروائیں اور ساتھ ساتھ ان عمارات کی تکمیل بھی کروائی جن کی بنیادیں اس کے باپ اکبر نے رکھی تھی۔
دیوانِ عام کی شمالی جانب ایک وسیع اور خوبصورت سبزہ زار ہے مغلیہ طرز کا یہ باغ برطانوی دورِ حکومت میں ختم کردیا گیا اور یہاں ٹینس کھیلنے کے لیے جگہ بنادی گئی جسے بعد میں دوبارہ اصل حالت میں تعمیر کیا گیا۔ اس کی لمبائی 123 میٹر اور چوڑائی 82 میٹر ہے۔ باغ کی روشیں چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی ہیں۔ یہ روشیں سبزہ زار کو مختلف حصوں میں تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ جسے چہار باغ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس سبزہ زار کے وسط میں مربع شکل کا حوض ہے جس میں 32 فوارے لگے ہوئے ہیں۔ حوض کے درمیان میں سنگ مرمر کا چبوترہ ( مہتابی ) ہے اور شرقاً غرباً راہداری ہے۔ تصویر نمبر (5)
اس سبزہ زار کے شمال میں خوابگاہ جہانگیری جبکہ مشرق اور مغرب کی جانب دو ایوان (سنگِ سُرخ ) ہیں۔ ان ایوانوں کے اکثر کمروں کی تقسیم اس طرح ہے کہ ایک ایک کمرے کے سامنے ایک ایک بر آمدہ ہے جو سنگ سرخ کے تراشے ہوئے ستونوں، موروں اور ہاتھیوں کے خوبصورت مجسّموں سے مزین ہیں۔ ان کمروں میں غلام اور خواجہ سرا کھڑے ہوتے تھے۔

 

رضوان

محفلین
9 --- خوابگاہ جہانگیری و عجائب گھر:-
اکبری محل کے شمالی جانب ایک بہت بڑی عمارت ہے جسے خوابگاہ جہانگیری کہتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں یہاں پر جہانگیر بادشاہ آرام فرمایا کرتے تھے یہ عمارت دو چھوٹے کمروں اور ایک درمیانی بڑے ہال پر مشتمل ہے جب کہ سامنے جنوب کی طرف برآمدہ ہے۔ یہ عمارت 46 میٹر لمبی اور 18 میٹر چوڑی ہے۔ اس عمارت کا اندرونی حصہ پچی کاری، غالب کاری، منبت کاری اور جیومیٹریکل نقش و نگار سے آراستہ کی گئی ہے۔ اس عمارت کا ایک ہی دروازہ ہے جو درمیانی ہال سے برآمدے میں کُھلتا ہے۔ تصویر (5)
آج کل اس عمارت کو ایک چھوٹے سے عجائب گھر میں تبدیل کر کے مغل آرٹ گیلری کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مغل بادشاہوں کے سکے، کتبے، قلمی مخطوطات، بادشاہوں اور کنیزوں کی تصاویر اور مختلف خطوط، مچلکے، خطِ طغرا، خطِ نسخ، خطِ کوفی وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ اس عجائب گھر کے مرکزی ہال میں تاج محل کا ماڈل رکھا ہوا ہے جو کہ مکمل طور پر ہاتھی دانت کا بنا ہوا ہے اور اپنی خوبصورتی، نفاست اور عمدگی کے لحاظ سے بے حد جاذب نظر ہے۔
 

رضوان

محفلین
10 ----- سہ دریاں:
خواب گاہ جہانگیری کے مشرقی اور مغربی جانب دو سہ دریاں تھیں جن میں اس وقت مشرقی سہ دری باقی ہے۔ یہ سہ دری ایک کماندار چھت والا ( برج ) چھوٹا سا کمرہ ہے۔ جو جہانگیری دور کی تعمیر ہے۔ اس کی مشرقی جانب عہدِ مغلیہ کی عمارات کو انگریزی دور میں چرچ کی حیثیت حاصل تھی جو بعد میں ختم ہوگئی اس عمارت سے ایک زینہ منزل زیریں کی طرف جاتا ہے جہاں آج کل لیبارٹری ہے۔ اس سہ دری کے سامنے ایک چھوٹا سا حوض ہے جس میں فوارہ لگا ہوا ہے۔ اس عمارت کے تین دروازے اور دو چھتری نما گنبدیاں ہیں۔ درمیان میں کمان دار چھت اور چاروں طرف چھجہ ہے۔ یہ فنِ مصوری کے مختلف نمونوں سے مزین تھی جن کے نقوش اب تقریباً مٹ چکے ہیں۔

11--- زنانہ شاہی حمام:
احاطہ جہانگیری کے جنوب مغربی کونہ پر کمروں کی ایک بڑی قطار ہے۔ جن کے آخر میں بجانب شمال ایک خوبصورت کمرہ ہے جو شاہی حمام کے نام سے موسوم ہے۔ جس کا تعلق عہدِ اکبری سے ہے۔ اس حمام میں خوبصورت مصوری کی گئی ہے جس میں اکثر خواتین اور پریوں کی تصویریں ہیں۔ اس کمرے کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا حوض ہے جس میں ایک فوارہ لگا ہوا تھا۔
 

رضوان

محفلین
12 --- محل رانی جنداں و عجائب گھر:
احاطہ جہانگیری کے جنوب مغربی طرف ایک بلند و بالا عمارت رانی جنداں کے محل کے نام سے مشہور ہے۔ رانی جنداں راجہ رنجیت سنگھ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیوی تھی۔ راجہ نے اس کے لیے مغل بادشاہ جہانگیر کی تعمیر کردہ عمارت کے اوپر ایک اور منزل تعمیر کروائی اور اس عمارت کو اپنی بیوی کا محل قرار دے دیا۔ کافی عرصہ تک یہ عمارت رانی جنداں کی رہائش گاہ (محل ) کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔
عجائب گھر ( آرمری گیلری ) اس عمارت کا نچلا حصہ جو کہ عہدِ جہانگیری کی تعمیر ہے۔ مختلف کمروں پر مشتمل ہے اس کا مشرقی حصہ عہدِ اکبری کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اس وقت یہ پوری عمارت محکمہ آثارِقدیمہ نے عجائب گھر میں تبدیل کر رکھی ہے جسے آرمری گیلری کا نام دیا گیا ہے۔ یہ گیلری چار کمروں پر مشتمل ہے جو کہ سکھ دور حکومت میں استعمال ہونے والے اسلحہ جات کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ اس گیلری کے ایک چھوٹے سے کمرے میں مختلف سکھ سرداروں کی تصاویر۔ رنجیت سنگھ کی بیوی کے سنگ مرمر کے ہاتھ وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ بڑے ہال میں پستول، تلواریں، توپیں، ڈھالیں، تیر کمان، لوہے کے گولے، فوجی سازوسامان اور بینڈ باجے وغیرہ کی نمائش کی گئی ہے۔ اس سے آگے ایک اور چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں سکھ دورِ حکومت میں لڑی گئی لڑائیوں کی تصاویر دیوار پر آویزاں کی گئی ہیں۔ ان لڑائیوں میں چلیانوالہ لڑائی 1849ء، موڈکے 1843ء میں رام نگر 1848ء، گجرات 1849ء جب کہ سب سے آخر میں راجہ رنجیت سنگھ کی حنوط شدہ گھوڑی کی ایک بہت بڑے شو کیس میں نمائش کی گئی ہے۔ اس گھوڑی کے ماتھے، سینے اور دُم کو اصلی سونے کے زیور سے سجایا گیا ہے۔ جبکہ اس کے اوپر راجہ رنجیت سنگھ ہاتھ میں سونے کی چھتری لیے بیٹھا دکھایا گیا ہے۔ یہ چھتری سرخ کپڑے اور سونے کے تاروں سے مزین ہے۔ یہ چیزیں سکھ دورِ حکومت کی خوشحالی اور عظمت کی یاد تازہ کرتی ہیں۔

سکھ گیلری:
اس عمارت کے اوپر والی منزل جو کہ رانی جنداں کی رہائش گاہ تھی۔ اور سکھ دور کی تعمیر ہے۔ اس خوبصورت ہال میں سکھ امراء شہزادوں اور سرداروں کی تصاویر کی نمائش کی گئی ہے جو “شہزادی بمبا کولیکشن“ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کو حکومتِ پاکستان نے پیر کریم بخش سے مبلغ 50 ہزار روپے میں حاصل کیا اور محکمہ آثارِ قدیمہ نے ان کو محفوظ کیا۔ ان خوبصورت تصاویر میں 18 آئل پینٹنگ، 14 واٹر کلر، 22 پر ہاتھی دانت کا کیا ہوا کام، 17 فوٹو گراف، دس دھاتی چیزیں اور 7 مختلف فن پارے شامل ہیں۔
ان تصاویر پر زیادہ تر کام یورپی فن کاروں نے کیا ہے۔ یہ تصاویر سکھ دورِحکومت کے فن کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔ ان تصاویر میں راجہ رنجیت سنگھ کا دربار خاص طور پر نمایاں ہے۔
 

رضوان

محفلین
13 --- مکاتب خانہ:
ایک نہایت ہی سادہ مربع نما شکل میں عمارت جس کے اندر چاروں اطراف میں کمرے بنے ہوئے ہیں۔ دولت خانہ یا مکاتب خانہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی تعمیر18-1617ء میں عہد جہانگیری میں ہوئی۔ عمارت ڈیوڑھی کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔اس عمارت کے کمرے محراب نما بنے ہوئے ہیں جبکہ دو دروازے ہیں ایک بجانب مشرق جبکہ دوسرا شمالی جانب واقع ہے۔ مشرقی دروازہ پر ایک کتبہ تحریر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ عمارت شہنشاہ جہانگیر کے بارہ سن جلوس میں معمور خان نے تعمیر کرائی تھی۔ اس عمارت کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ یہاں پر بادشاہ کے منشی وغیرہ بیٹھا کر تے تھے جو سرکاری محل میں آنے جانے والے لوگوں کے نام پتے وغیرہ رجسٹرڈ کیا کرتے تھے۔ ایک دوسرا خیال یہ تھا کہ یہ عمارت سول سیکریٹریٹ کے طور پر استعمال ہوا کرتی تھی۔ یہاں پر شاہی فرمان کے مسودات تیار ہوتے تھے اور مختلف اطراف سے آنے والے خطوط اور چھٹیاں بادشاہ کی خدمت میں پیش کی جاتی تھیں۔ مکاتب خانہ اور ملحقہ موتی مسجد کے شمال میں ایک خوبصورت چمن ہے جس کے وسط میں ایک بہت بڑا بڑ کا درخت ہے اس کے مغرب میں کمروں کی ایک قطار ہے جو آجکل کینٹین، گفٹ شاپس اور پبلک لیٹرین کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ شمالی جانب شاہی حمام ہے۔ چمن کے مشرق میں ایک اونچا چبوترہ ہے جس پر خوبصورت اینٹوں کے ساتھ جیومیٹریکل ڈیزائن بنے ہوئے ہیں اور وسط میں ایک فوارہ ہے۔ یہ دالان سنگ سرخ سے بنا ہوا ہے۔ اس کے مشرق میں حویلی رانی جنداں اور شمال میں شاہجہاں کی خوابگاہ ہے۔

14 --- موتی مسجد:
برصغیر پاک و ہند میں اس وقت چار موتی مسجدیں ہیں جو اپنی بناوٹ، ساخت اور فن تعمیر کے لحاظ سے کافی مشابہت رکھتی ہیں مگر ان کے سن تعمیر میں فرق ہے۔ ان چار مساجد میں ایک گرہ میں ہے جسے شاہجہاں نے 1654ء میں تعمیر کروایا، دوسری 1659ء میں لال قلعہ دہلی میں اورنگ زیب عالمگیر نے تعمیر کروائی، تیسری مہرالی (دہلی کے قریب) شاہ عالم بہادر شاہ 12-1707ء میں قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے ساتھ بنوائی، چوتھی اور سب سے قدیم موتی مسجد شاہی قلعہ لاہور میں واقع ہے۔
مکاتب خانہ کی مغربی دیوار سے متصل ایک خوبصورت ننھی سی مسجد ہے چونکہ یہ تمام کی تمام سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس لئے اس کو موتی مسجد کہتے ہیں۔ یہ مسجد عہد جہانگیری میں ایک مشہور انجینئر معمور خان کی زیر نگرانی جہانگیری محل کے بیرونی دروازے کے ساتھ 1618ء میں تعمیر ہوئی۔ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ فن تعمیر کی مناسبت سے شاہ جہاں کے دور کی عمارت ہے۔ اور 1645ء میں تعمیر ہوئی۔ تاریخی حقیقت یہی ہے کہ اسے عہد جہانگیری کے ایک معمار نے مکاتب خانہ کے ساتھ ہی تعمیر کیا تھا۔ یہ پوری مسجد سفید سنگ مر مر کی بنی ہوئی ہے اس کے صحن کی لمبائی تقریباًً 5۔18 میٹر اور چوڑائی 5۔10 میٹر ہے اور 3۔2 میٹر اونچے پلیٹ فارم پر بنائی گئی ہے۔ جس کی پانچ محرابوں کو قوسی شکل میں تقسیم کیا گیا ہے۔ درمیان میں مربع نما نفیس ستون ہیں۔ کمان دار چھت کے اوپر گول موتی نما تین گنبد ہیں۔ فرش پر کندہ کاری، نقش شدہ دیواریں، جیومیٹریکل ڈیزائن اور بیل بوٹے اس مسجد کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں۔ اس مسجد کے چاروں اطراف چار دیواری ہے جس کی شمال اور مشرقی دیوار میں حجرے ہیں جو امام مسجد اور طلباء کے رہنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ سکھ دور کی حکومت میں اس مسجد کا نام بدل کر “موتی مندر“ رکھ دیا گیا اور اس خوبصورت مسجد کو شاہی خزانہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ اس کے مرکزی دروازہ کو مضبوط آہنی تختوں سے بند کر کے بڑے بڑے قفلوں سے سر بمہر کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے اس خوبصورت مسجد کے مذہبی تقدس اور ظاہری حسن کو کافی نقصان پہنچا۔ انگریز کے دور حکومت نے بھی اس روش کو جاری رکھا اور انتہائی بے توجہی اور مجرمانہ غفلت سے اس مسجد کی عظمت کو ٹیس پہنچائی آخر وائسرائے لارڈ کرزن کے احکامات پر اس مسجد کا تقدس از سر نو بحال کر دیا گیا۔


15---- احا طہ شاہجہانی :
مغلیہ دور میں شاہ جہاں کا نام خوبصورت عمارات کی وجہ سے مشہور ہے اس کے دور کو فنِ تعمیر کا سنہری دور کہا جاتا ہے اس نے نہ صرف دہلی اور آگرہ میں خوبصورت عمارات تعمیر کرائیں بلکہ لاہور میں بھی اپنے فنِ تعمیر کے ذوق کی تسکین کے لئے کئی عمارات تعمیر کرائیں۔ ان میں شالیمار باغ، مقبرہ جہانگیر، شیش محل اور دیوان خاص شامل ہیں۔ عہد شاہجہان کی اکثر عمارات سنگِ مرمر کی ہیں جن میں نکھار اور خوبصورتی پیدا کرنے کے لئے تزئین و آرائش کے قیمتی پتھر استعمال کئے گئے ہیں جو کہ قلعہ کے حسن کو دوبالا کیے ہوئے ہیں۔ قلعہ لاہور میں موجود ان کی تعمیرات کو احاطہ شاہجہانی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ احاطہ قلعہ کے شمال مغربی جانب احاطہ جہانگیری کے ساتھ واقع ہے۔

16----- خواب گاہ شاہجہانی:
یہ عمارت احاطہ جہانگیری کے جنوب مغربی اور دیوان خاص کے بلمقابل پانچ وسیع کمروں پر مشتمل ہے۔ یہاں پر بادشاہ شب باش ہوتا تھا۔ یہ عمارت 1633ء میں تعمیر ہوئی۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے اس عمارت کے سامنے والا حصہ محراب دار دریچوں کے ساتھ کھلتا ہے جب کہ عقبی حصہ میں سنگِ مرمر کی جالیاں لگی ہوئی ہیں جن کو مخصوص انداز میں کاٹ کر مختلف اشکال بنائی گئی ہیں جبکہ اندرونی حصہ چمکدار پلستر سے مزین ہے۔ فرش اور دیواروں کا کچھ حصہ مثلث نما ٹکڑوں سے آراستہ ہے جبکہ کچھ حصہ چونے گارے سے پلستر کیا گیا ہے۔ کمروں کی کمان دار چھتوں کو بھی چونے گارے سے پلستر کیا گیا ہے۔ وسطی کمرے میں ایک چھوٹا سا تالاب ہے جس میں خوبصورت فوارہ نصب کیا گیا ہے۔ اس کمرہ کے سامنے ایک اور کمرہ تھا جو اب ختم ہوچکا ہے صرف فوارے کے آثار باقی ہیں۔ یہ پوری عمارت مصوری، آئینہ کاری، پلاسٹر کے نقش و نگار اور بیل بوٹوں سے آراستہ تھی جو آہستہ آہستہ ہوتے گئے۔ سکھ دورِحکومت میں راجہ رنجیت سنگھ اور اس کے اہلِ خانہ اس عمارت کی آئینہ کاری اور آرائش میں مصروف رہے۔ برطانوی دور میں بھی کچھ ترامیم اور اضافے ہوئے۔ اس عمارت کی دیواروں پر نئے نئے نقش و نگار اور بیل بوٹوں کا اضافہ کیا گیا۔ الغرض یہ عمارت سکھوں کی بدذوقی اور انگریزوں کی حریص فطرت کی وجہ سے تباہ ہوئی۔ محکمہ آثارِقدیمہ کو ملنے کے بعد اس عمارت کی تعمیرِنو کی گئی۔ مرمت کے دوران اس کی اصل مصوری طلاءکاری اور رنگین آرائش دریافت ہوئی۔
 

رضوان

محفلین
17 ------ دیوانِ خاص:
سنگِ مرمر کی بنی ہوئی یہ عمارت خواب گاہ شاہ جہانی کے بالمقابل قلعہ کی شمالی دیوار کے اوپر بنائی گئی ہے۔ اس عمارت کا رقبہ تقریباً 16.5 16.5X اور اونچائی 6 میٹر ہے۔ یہ عمارت 1645ء میں تعمیر ہوئی۔ جس طرح بادشاہ دیوانِ خاص میں خاص لوگوں کو دیدار کرواتا اور ان کی داد رسی کرتا اسی طرح اس عمارت میں خاص لوگوں مثلاً امراء، وزراء اور سرکاری اہل کاروں سے ملاقات کرتا۔ اسی وجہ سے اس کو دیوانِ خاص کہتے ہیں۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے اس عمارت کا کوئی ثانی نہیں۔ اس عمارت کو اتنی خوبصورتی اور نفاست سے بنایا گیا کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ یہ عمارت ایک بلند چبوترے پر سنگ مرمر کی سلوں سے تیار کی گئی ہے۔ اسکی محرابوں سے مزین چوڑی چھت کو خوبصورت ستونوں پر کھڑا کیا گیا ہے۔ جبکہ عمارت کے شمالی حصے میں دل آویز سنگِ مرمر کی جالی لگی ہوئی ہے جس کو مختلف جیومیٹریکل اشکال میں کاٹا گیا ہے اور جالی کے وسط میں بڑی نفاست اور خوبصورتی سے کھڑکی بنائی گئی ہے۔ باقی تین اطراف میں سنگِ مرمر کے ستون ہیں۔ اس عمارت کے فرش، محرابیں، چھجہ، ستون اور منڈیر کو مختلف رنگ کے خوب صورت قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کی پچی کاری کے ذریعے سجایا گیا ہے۔ اس عمارت کے عین وسط میں جاذب نظر پیالہ نما فوارہ ہے جس کے چھجہ نما کناروں کے اندر خوبصورت رنگین نقش کاری کی گئی ہے۔ جو اس وقت ان قیمتی پتھروں سے محروم ہے۔ اس عمارت کو بھی سکھ اور انگریز دورِ حکومت میں کافی نقصان پہنچا جس کی بعد میں صحیح بنیادوں پر مرمت کی گئی۔ (تصویر نمبر 7)
دیوانِ خاص اور خوابگاہ شاہجہانی کے درمیان ایک باغیچہ ہے۔ جس کے وسط میں سنگِ مرمر کا ایک فوارہ لگا ہوا ہے جو کبھی قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں سے مزین تھا۔ یہ پتھر آجکل اپنی جگہ سے غائب ہیں۔ باغیچہ کو چار روشوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ روشیں چھوٹی اینٹ کی بنی ہوئی ہیں جو چاروں اطراف میں رہنمائی کرتی ہیں۔ اس دیوان کے مشرق میں ایک اور عمارت ہے جسے انتظارگاہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

18 ----- عرض گاہ:دیوانِ خاص سے اگر نیچے دیکھا جائے تو دیوار کے ساتھ ایک چھوٹی سی عمارت نظر آتی ہے۔ جسے عرض گاہ کہاجاتا ہے۔ مستطیل شکل کی اس عمارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ عہدِ شاہجہانی میں تعمیر ہوئی اور یہاں پر امراء دربار صبح سویرے بادشاہ کے احکامات سنتے تھے۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو یہ عمارت شاہ جہانی عہد کی نہیں لگتی بلکہ سکھ دور کی تعمیر معلوم ہوتی ہے تعمیری لحاظ سے اس عمارت کا ایک محرابی دروازہ ہے۔ جو شمال کی طرف کھُلتا ہے۔ دیواروں پر محرابیں بنی ہوئی ہیں جبکہ چھت کماندار ہے۔ اس کے جنوب مغربی کونے میں سیڑھیاں ہیں جو قلعہ کے اوپر آنے کے لیے رہنمائی کرتی ہیں۔ آج کل اس عمارت میں ٹائل موزیک لیبارٹری ہے۔
19 ---- لال برج:دیوانِ خاص کے مغرب میں ایک ہشت پہلو بلند عمارت ہے۔ جسے لال برج کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ برج دراصل وہ عمارت ہوتی ہے جس پر پہرہ دار بیٹھ کر پہرہ دیتے ہیں۔ یہ برج ابتدا میں دو منازل پر مشتمل تھا۔ اس کی ابتداء 1617ء عہدِجہانگیری میں ہوئی۔ اس کی شمالی دیوار اندرونی اور بیرونی اطراف سے خوبصورت گل کاری اور نقش ونگار سے آراستہ ہے۔ جبکہ دیواریں محراب دار ہیں۔ عمارت کے اندر جانے کے لیے دو راستے ہیں۔ اوپر جانے کے لیے شمال مغربی کونے میں زینے ہیں۔ اس عمارت کے وسط میں ایک بڑا سا حوض تھا جس میں فوارے لگے ہوئے تھے۔ الغرض یہ برج اپنے دبدبے اور رعب کے لحاظ سے نہایت ہی عمدہ تھا۔ سکھ دور حکومت میں اس کے اوپر تیسری منزل بنائی گئی اور اس کو مزید رنگین مصوری اور نقش ونگار سے سجایا گیا۔ اسوقت یہ عمارت صرف دو ہی منازل پر مشتمل ہے جبکہ تیسری منزل گر چکی ہے۔ یہاں سے ایک زینہ عرض گاہ کو جاتا ہے۔
20 ---- کالا برج:
پائیں باغ کے شمال مغربی کونے پر ایک عظیم عمارت ہے جسے سکھ دورِ حکومت میں کالا بُرج کے نام سے یاد کیا گیا۔ یہ اپنے اندر وجاہت اور دبدبہ لیے کھڑا ہے۔ بُرج کے سنِ تعمیر پر کہیں بھی کوئی ذکر نہیں ملتا مگر عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عہدِ جہانگیری میں مکمل ہوا۔ یہ بُرج رہائشی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ قلعہ کے اندر رہنے والے لوگ اسی بُرج پر سے راوی کا نظارہ کرتے تھے۔ ( تصویر نمبر 8 )
21 ---- خلوت خانہ:
لال بُرج اور کالا بُرج کے درمیان اور پائیں باغ کے شمالی جانب ایک چھوٹی سی عمارت ہے جسے خلوت خانہ یا خلعت خانہ کے نام سے پکارا گیا۔ 1633ء میں تعمیر ہونے والی اس عمارت کے سامنے ایک چھوٹا مربع نما حوض ہے جس میں فوارہ لگا ہوا ہے۔ دراصل یہ خاصہ خانہ تھا جہاں پر اس وقت خوشبو جات رکھی جاتی تھیں اور مغل شہزادیاں یہاں پر اپنا بناؤ سنگھار کرتی تھیں۔

22---- پائیں باغ:
خلوت خانہ اور شاہی غسل خانہ کے درمیان میں ایک وسیع باغیچہ ہے۔ اس باغیچے کو مختلف روشوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور چھوٹے چھوٹے پلاٹ بنائے گئے ہیں۔ یہ باغیچہ چاروں اطراف سے برآمدوں میں گھرا ہوا تھا جس کے ستون مضبوط بنیادوں پر کھڑے تھے تاہم اب یہ برآمدے حوادثِ زمانہ کا شکار ہوچکے ہیں اور اب صرف نشانات باقی ہیں۔ اس کھلے دالان کے سامنے مربع نما چبوترے تھے جن پر فوارے نصب تھے اور کھلی جگہ پر خوشبودار پودے لگائے جاتے تھے۔ قلعہ میں یہی واحد جگہ تھی جہاں پر شاہی مستورات آزادانہ گھوم پھر کر تازہ اور خوشبودار ہوا سے لطف اندوز ہوتی تھیں۔
23 ---- شاہی غسل خانہ ( حمام ):
پائیں باغ کے جنوب اور جنوب مشرقی حصے میں ایک عمارت ہے جسے شاہی حمام کے نام سے پکارتے ہیں۔ یہ پوری عمارت ترکی نمونے پر شاہجہان کے حکم پر 1633ء میں تعمیر ہوئی۔ اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں دو مربعہ نما کمرے اور ایک مستطیل نما کمرہ ہے۔ ان کمروں کو گرم ، نیم گرم اور ڈریسنگ روم میں تبدیل کیا گیا ہے۔ پانی گرم کرنے کا انتظام مغرب کی طرف ہے۔ اس حمام کے مشرقی جانب ایک آٹھ پہلو حوض ہے جو سنگِ مرمر کا بنا ہے جس کے درمیان میں فوارہ ہے۔ فوارے میں پکی مٹی کے بنے پائپوں کے ذریعے پانی آتا تھا۔ یہ صرف شاہی اور خاص لوگوں کے لیے مخصوص تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
کسی کے پاس یہ کتاب ہو تو ذرا اطلاع دیں کہ اس کا کاپی رائٹ کیا ہے، اور یہ مکمل ہوئی ہا نہیں۔ رضوان تو غائب ہی ہیں
 
Top