شاعروں کے مسائل پر ایک غزل محمد خلیل الرحمٰن مرنے کے بعد ہم کو بھی رُسوا نہ کیجیو! کہیو غزل نہ کوئی ہماری زمین میں اپنی زمین ہم نے رجسٹر کرائی تھی احباب اُس کو لے گئے ایران و چین میں یاروں نے قافیے بھی اچھوتے ہی گھڑ لیے اور ہم پھنسے ہوئے ہیں اسی قاف و شین میں سُسرا! غزل ہماری ہمیں کو سُنا گیا پالا ہے ہم نے کیسا یہ مار آستین میں اِک نظم کا خیال سمایا ہے دِل میں آج کچھ قافیے بھی چاہئیں اِس کی زمین میں کوشش کے باوجود نہ دیوان بن سکا عمرِ دراز کٹ گئی اِس کی تزئین میں ------
غیرحاضری کے دن تک یاد ہیں بھائی کو۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم بھی نظرِکرم کی زد میں ہیں خوشی ہوئی جان کر۔ جزاک اللہ
جس وقت ہم آپ کی غزل پڑھ کر اس کی تعریف کے رہے تھے، عین اسی وقت آپ بھی ہماری غزل پڑھ رہے تھے۔ خوب صورت اتفاق۔
بہت اچھی لگی آپکی غزل۔۔۔۔۔۔۔ آپ سے ایک مدد کی موتمنی ہوں۔۔۔۔۔میں بھی ٹوٹی پھوٹی شاعری کرتی ہوں مجھے آپسے اصلاح درکار ہے اور یہ بھی جاننا چاہونگی کہ کیسے اپنی تحریر کو کسی رسالے میں شائع کراؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا آپکے پاس کسی مقبول رسالے کے مدیرِ کی Gmail I'd ہے؟؟؟؟