شاطر جاسوس یا معصوم سیاح

150529092734_pakistani_spy_pigeon_640x360_bbc_nocredit.jpg

بھارتی پنجاب کی پولیس آج کل ایک اہم مشن پر ہے جس میں اسے پتا لگانا ہے کہ سرحد پار پاکستان سے آنے والا ایک کبوتر شاطر جاسوس ہے یا معصوم سیاح۔
کبوتر پٹھان کوٹ پولیس کی تحویل میں ہے، انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے، لیکن ایکسرے سمیت مکمل طبی معائنے کے باوجود ابھی کوئی ایسا ثبوت نہیں ملا ہے جس کی بنیاد پر اسے جاسوس قرار دیا جا سکے اور پٹھان کوٹ کے ایس ایس پی راکیش کوشل کے مطابق نہ ہی ابھی اسے بےگناہ تصور کیا جا سکتا ہے۔
راکیش کوشل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ کبوتر بلاشبہ پاکستان سے آیاہے۔ بدھ کو اسے ایک شخص نے پاکستان کی سرحد سے تین چار کلومیٹر دور واقع منوال گاؤں میں پکڑا تھا۔۔۔اس کے پروں پر تحصیل شکر گڑھ، ضلع نارووال لکھا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے اوپر اردو میں بھی کچھ تحریر ہے جو پڑھا نہیں جارہا، ایک نمبر بھی ہے ، لیکن یہ فون نمبر نہیں ہے۔۔۔ہم نے ایجنسیوں کو الرٹ کردیا ہے، ہم یہی مان کر چل رہے تھے کہ یہ کہیں جاسوس کبوتر نہ ہو۔‘
تاہم راکیش کوشل کےمطابق ابھی ایسے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں جن کی بنیاد پر اس کبوتر کو جاسوس کہا جا سکے۔
’ہم نے اس کا ایکسرے بھی کرایا ہے، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس کے اندر کوئی کیمرہ، چپ یا ٹرانسمیٹرنصب نہ ہو، لیکن ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا ہے۔۔۔مختلف ایجنسیاں اس پر کام کررہی ہیں، جب تک ہم اردو کی لائن نہیں پڑھ لیتے، تب تک ہم یقین سےکچھ نہیں کہہ سکتے۔‘
کبوتر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری مقامی پولیس چوکی کے انچارج سرریندر کمار کے سپرد کی گئی ہے ’تاکہ اس کی صحت بھی ٹھیک رہے اور جان کی حفاظت بھی ہو سکے۔‘
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ کبوتر صرف راہ بھٹک کر سرحد پار آگیا ہے اور اس پورے معاملے میں اس سے زیادہ کچھ بھی نہ ہو، راکیش کوشل نے کہا ’ایسا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ سرحد کے دونوں طرف بہت سے لوگ کبوتر بازی کرتے ہیں، لیکن میں 18 مہینے سے اس علاقے میں ہوں، میرے سامنے ایسا واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔۔۔۔اگر ایسا ہوتا تو کبوتر آتے جاتے رہتے۔۔۔یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے اس لیے ہم زیادہ احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔‘
150529092826_pakistani_spy_pigeon_640x360_bbc_nocredit.jpg

تاہم چندی گڑھ کے صحافی رویندر سنگھ کا کہنا ہے کہ سرحد پار کبوتروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے اور اس حد تک کہ بہت سے لوگ انہیں دانہ ڈال کر پکڑتے ہیں اور پھر بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ پاکستانی کبوتر ہندوستانی کبوتروں سے مہنگے بکتے ہیں۔
پولیس کا خیال ہے کہ یہ کبوتر ایک ’جاسوس طیارے‘ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
ان کے مطابق ’سرحد کے قریب بہت سی فوجی تنصیبات ہیں، یہ کبوتر ان کی آسانی سے تصویریں کھینچ سکتا ہے۔۔۔اگر ایسا ہے تو سکیورٹی کے نظریہ سے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔‘
بہرحال، تفتیش ابھی جاری ہے اور انٹیلی جنس ایجنسیاں جلدی ہی کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گی۔

ماخذ

عبدالقیوم چوہدری لئیق احمد اوشو
 
آخری تدوین:
بھارتی ایجنسیوں کی جو درگت سوشل میڈیا پر بن رہی ہے اس کے بعد لازم ہے کہ اس کبوتر کو جاسوس ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گرد یا خود کش بمبار کی تصدیقی سند بھی عطا کی جائے۔
 
بھارتی ایجنسیوں کی جو درگت سوشل میڈیا پر بن رہی ہے اس کے بعد لازم ہے کہ اس کبوتر کو جاسوس ہونے کے ساتھ ساتھ دہشت گرد یا خود کش بمبار کی تصدیقی سند بھی عطا کی جائے۔
ہماری حکومت کو چاہیے کے کبوتر کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائے اس بارے میں کیا خیال ہے آخر کو ہمارا کبوتر وہاں پر قید ہے۔
 

شزہ مغل

محفلین
ہماری حکومت کو چاہیے کے کبوتر کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ میں آواز اٹھائے اس بارے میں کیا خیال ہے آخر کو ہمارا کبوتر وہاں پر قید ہے۔
میں آپ کی بات سے قطعا" اتفاق نہیں کرتی۔ کیونکہ اگر پاکستان کی طرف سے اس بارے میں کوئی بھی حرکت ہوئی تو اس بےزبان پرندے پر کسی بھی قسم کا الزام ناصرف لگایا جا سکتا ہے بلکہ ثابت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اور ویسے بھی میرا نہیں خیال کہ پرندوں کے لیے کوئی ملکی سرحد مقرر کرنا جائز ہو گا۔ کیونکہ ہوا کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔
 
Top