سیماب اکبر آبادی سیمابؔ اکبر آبادی ::::: محفلِ عالَم میں پیدا برہَمِی ہونے لگی ::::: Seemab Akbarabadi

طارق شاہ

محفلین



غزل
محِفلِ عالَم میں پیدا برہَمی ہونے لگی
زندگی ، خود ہی حرِیفِ زندگی ہونے لگی

سعئیِ تجدِیدِ جنُونِ عاشقی ہونے لگی
یاد بھی ہونے لگی، فریاد بھی ہونے لگی

شرم سے آنکھیں جُھکا دِیں احتیاطِ ضبط نے !
جب ، نظر بھی ترجمانِ بیکسی ہونے لگی

دشتِ ایمن میں چراغِ طُور ٹھنڈا ہو گیا
جلوہ گاہِ دِل میں، جب سے روشنی ہونے لگی

جب سرابِ آرزُو کا تجزیہ مَیں کر چُکا!
نامُرادی سے مجھے تسکِین سی ہونے لگی

قسمتِ دہقاں میں عِشرت مندئِ حاصِل کہاں!
بجلِیاں لہرائیں جب کھیتی ہَری ہونے لگی

ڈال دے گی مصلحت، پردے شگفتِ حال پر
اُن پہ ظاہر کیوں مِری افسُردَگی ہونے لگی

کارواں کو آگیا پِھر ہوش، پِھر ٹُوٹا جمُود
عادتََا پِھر کوشِشِ منزِل رَسی ہونے لگی

خُلد زاروں سےجوانی کے، مُڑی راہِ حیات
ختم اب اِس رہگزر کی دِلکشی ہونے لگی

عالَمِ نَو جانے کِس مخلوق سے آباد ہو
آدمی میں، آدمیّت کی کمی ہونے لگی

مَیں سمجھتا تھا کہ محکم ہے بنائے آشیاں
یہ تو قبلِ تکمِلہ، برباد بھی ہونے لگی

قوّت و سرمایہ غالب آگئے جذبات پر
جنگ ہوتے ہوتے جنگِ زرگری ہونے لگی

خود ہی برہَم نظمِ دُنیائےخودی ہونے لگا
کارگر میری نَوائے بیخودی ہونے لگی

اے جمودِ وقت! اِتنی بھی تن آسانی نہ دے
اب تو دو بھر صُبح کی انگڑائی بھی ہونے لگی

شِدّتِ ذوقِ نظر سے حُسن دبتا ہی رَہا
جب کوئی موسٰی ؑ مِلا، جلوَہ گری ہونے لگی

بعد مُدّت آئے پِھر کاشی میں اے سیماؔب! ہم
یاد تازہ دِل میں آغا حشر کی ہونے لگی

علامہ سیماؔب اکبرآبادی

1951 - 1882


(علامہ کی بالا غزل قافیہ سازی کا نمونہ ہے، اُن سے قبل کے شعرا ء ( قدما) میں دیکھنا ہوگا کہ آیا ، یہ روایت یا داغ بیل کِس سے پڑی)




 
Top